ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 7 فروری، 2013

کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا / کالم


کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا
(ممتازملک۔ پیرس)



ایک عجیب سا طوفان بدتمیزی بپا ہے کہ جس کا کوئ سر پیر نہیں ہے کوئ جان کر خود کو زیادہ ہی عزت دے رہا ہے تو کوئ جانتے بوجھتے ہوۓ کسی کی عزت کو کم کرنے کے لیۓ سارا زور لگانے میں مصروف ہے ۔ ابھی پچھلے کئ دنوں سے ہم نے نیا آرٹیکل لکھنے کے بجاۓ دوسروں کا لکھا پڑھنے میں وقت گزارا ۔ کئ باتیں بہت ہی کھٹکتی رہیں ۔ جس پر آج ہمہیں سوچنا ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بات کرتے ہوے معلوم ہونا چاہیے ایک مولوی ، مولانا ، اور سکالر کا فرق ۔ یہان بار بار لفظ مولانا کی گردان کی گئ جو کہ لکھنے والے کی معلومات کا گراف بتاتی ہے ۔ دوسری بات کہ علامہ صاحب نے ملٹری کو دخل اندازی کی دعوت دی۔ تو یہ بھی غلط اندازہ ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج اس ملک کی سلامتی کی زمہ دار ہوتی ہے اسی کے پیش نظر علامہ صاحب کا یہ مطالبہ پاکستان جیسے ملک کےحالات میں ایک بہت ہی ضروری نقطہ ہے جسے نظر انداز کرنا انتہائ بڑی حماقت ہو گا ۔ کیوں کہ پاکستان کے الیکشن کے زمانے کو قریب سے دیکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیسے ان پڑھ لوگوں کے ساتھ پولنگ بوتھ میں انہی پارٹیز کے جیالے متوالے زبردستی سٹیمپس لگواتے ہیں ۔ کیسے انہین دھمکایا جاتا ہے ۔
کیسے بھرے ہوۓ ڈبے لاکر پولنگ سٹیشنز پر بدل کر من چاہا امیدوار جسے چاہے اپنے گھر کے لوگ بھی ووٹ دینے کے روادار نہ ہوں بھاری کامیابی سے جتا دیا جاتا ہے۔ اس میں مرے پہ سو درے والا حساب ہو جاتا ہے کہ انہیں کرپٹ سسٹم کے ہی ٹھیکیدارو ں میں سے ہی لوگوں کو اٹھا کر انہی کی نگرانی میں الیکشن الیکشن کھیلا جاۓ ۔ جب کہ پاکستان کو اس نام نہاد جمہوریت نے جس طرح گوڈے گوڈے قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے وہاں ہم انہیں کے چیلوں کی زیر نگرانی مزید ایسے ہی الیکشنی خودکشی کی متحمل کسی طور بھی نہیں ہو سکتے ۔ اس کے لیۓ ضروری ہے کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں منعقد کرواۓ جاۓ اور ا سے ے تک تمام لوگوں کو برخواست کیا جاۓ ۔ تبھی صادق اور امین لوگوں کو لا کر ایک عبوری حکومت تشکیل دی جا سکےگی ۔ اب وہ حکومت اپنا کام 90 دن میں کرے یا 190 دن میں اس سے زیادہ اہم پاکستان کی سلامتی ہے ۔ کیا ہم 2، 4 مہینے کرسی پر جلدی بیٹھنے کی قیمت پاکستان کی سلامتی کی شکل میں دینا چاہتے ہیں یا پھر ایک باقاعدہ سسٹم کے تحت ہمیشہ کے لیۓ چوروں کے آنے کا راستہ بند کر کے آئندہ کے لیۓ ایک منظم طریقہ دے کر اس کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیں گے ۔ اس وقت پاکستان نام کے مریض کو وقتی بیہوشی کی نہیں ایک نیٹ اینڈ کلین آپریشن کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے اندر کے تمام ناسور کاٹ کر اسے حقیقی صحت کی جانب لایا جا سکتا ہے ۔ اور یہ علاج ملٹری کی نگرانی کے بغیر قطعی ناممکن ہے ۔ فوج بھی ہمارے ہی لوگوں پر مشتمل ہے اور اسکے تمام اراکان اسی معاشرے میں اپنے خاندانوں سمیت رہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ سب ہم سب سے کہیں زیادہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور بہادر و وفادار ہیں ۔زرا سوچیۓکہ آج ھی زرداری ٹولہ 5 سال کی عیاشی کے بعد جاتے جاتے ایسے قوانین کیوں بنوا رہا ہے کہ کئ محکموں میں آج 5 سال گزار کر بھرتیاں کھولی جارہی ہیں ایسے قوانین بنواۓ جا رہے ہیں جو اگر اپنی حکومت میں بنواۓ گۓ ہوتے تو کہیں انہیں اس پر عمل کر کے اپنے خزانے کم نہ کرنے پڑ جائیں ۔ ایک بھی میگاواٹ بجلی نہ پیدا کرنے اور اربوں روپیہ ملک سے باہر بھجوانے کے انعام کے طور پر ایک راجہ رینٹل کو وزیر اعظم کا منصب بادشاہ سلامت کی جانب سے تحفے میں عنایت کر دیا جاتا ہے ۔ اور جاتے جاتےاسی بجلی کے پیداواری منصوبوں کے فیتے کاٹے جارہیےہیں ۔ ان سے کوئ یہ نہیں پوچھتا کہ اچکو 5 سال میں آتے ہی یہ فیتے کاٹ لیتے تو ابھی تک ہم بجلی میں خود کفیل ہوتے لیکن پھر سوئس بینک کون بھرتا ۔ آج فیتہ کاٹ کاٹ کر کبھی لاشوں پر لوگوں سے بھیک مانگ کر ووٹ لیاجانا ہے اب انہیں فیتوں کی تصویریں کیش کرواۓ جانے کی تیاری ہے ۔کل کی آنے والی حکومت اگر یہ منصوبے روکے گی تو ہم شہید کہ ھا ھا ہم نے تو سب کچھ کیا آنے والوں نے آکر ملیامیٹ کر دیا لو جی ہم شہید سیاست ۔ اور اگر کسی حکومت نے اسے پورا کرنے کا نیک کام کر لیا تو ہم کہیں گے کہ دیکھا یہ ہمارا وائیدہ تھا جو ہم نے پورا کیا تھا ۔ جو ہم نے شروع کیا تھا ۔ لہذا اب بھی ہم ہی سیاسی فاتح ۔ خدایا کیا کھلا دھوکہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب پاکستانی قوم کو یہ بات سمجھ جانی چاہیۓ کہ فیتے کاٹنے والے ہیرو نہیں ہوتے بلکہ اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کر کے عوام کو اس کا فیض پہنچانے والے اصل ہیرو اور عوام دوست ہوتے ہیں ۔ لہذا اب رنگین وعدوں اور بلیک میلنگ والے نعروں کے دور کا آغاز ہو گیا ہے ۔ ہمیں یہ فیصلہ ابھی سے کرنا ہے کہ ووٹ ضرور دینا ہے اسے دینا ہے جو ہمارے علاقے میں نیک نامی اور ایمانداری میں شہرت رکھتا ہے ، جو ہم میں سے ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو ۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے ہی پارٹیز کو بھی نیک اور ایماندار کارکنوں کی قدر ہو گی اور اگلے الیکشن میں وہ انہیں ٹکٹ دینے پر بھی مجبور ہوں گے۔ اب پاکستانی کسی کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہ دیں ۔ اور جو لوگ اپنے مخصوص شہروں میں ہی سیاست کرتے رہیں ہیں انہیں وہیں تک رہنے دیا جاۓ کیوں کہ وہ اس سے زیادہ کے قابل ہی نہیں تھے ۔ ورنہ جہاں تک کے علاقے ان کی ذمہ داری میں آتے تھے انہیں میں اتنا بہترین کام دکھاتے کہ آج انہیں کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑنے کی نوبت ہر گز پیش نہ آتی ۔ آئۓ سب مل کراپنے اپنے حصے کی عملی کوشش بھی کریں اور دعا بھی تاکہ خدا پاکستان کی حفاظت فرماۓ۔ آمین
                  ۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/