۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مدت ہوئ عورت ہوۓ ۔ ممتاز قلم۔ 2۔میرے دل کا قلندر بولے۔ 3۔ سچ تو یہ ہے ۔ کالمز۔ REPORTS / رپورٹس۔ NEW BOOK/ نئ کتاب / 1۔ نئی کتاب / 2۔ اردو شاعری ۔ نظمیں ۔ پنجابی کلام۔ تبصرے ۔ افسانے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز سو لفظی کہانیاں ۔ انتخاب۔ نعتیں ۔ کالمز آنے والی کتاب ۔ 4۔اے شہہ محترم۔ نعتیہ مجموعہ 5۔سراب دنیا، شاعری 6۔اوجھلیا۔ پنجابی شاعری 7۔ لوح غیر محفوظ۔کالمز مجموعہ
جمعہ، 8 ستمبر، 2017
● اے قاید اعظم تیرے مشکور رہینگے ۔ سراب دنیا
۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات، 7 ستمبر، 2017
کیا کریں ان کا
کیا کریں ان کا ...
ممتازملک. پیرس
جیسے جیسے وقت کا انداز بدلا اس کی ضروریات بدلتی ہیں ویسے ویسے لوگوں کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز بھی بدلنے لگتا ہے .
آج ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اسے اگر ہوائی زمانہ کہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا . پہلے وقتوں میں ہوائی روزی ہوا کرتی تھی یا پھر ہوائی مخلوق کے قصے سنائی دیتے تھے . باقی سب کچھ نظر کے سامنے ہوا کرتا تھا . جیسے کون کس سے ملتا ہے ؟اس کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ اس کے گھر کس کس کا انا جانا ہے ؟ اسی تناظر میں اس کے چال چلن کا بھی تعین کر لیا جاتا تھا . کہنے والے اسے دوسرے کی زندگی میں پرائیویسی پر حملہ یا دخل اندازی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں بھی یہ ماننا پڑیگا کہ پرائیویسی کے نام پر نئے نئے گل نہیں کھلائے جا سکتے تھے . ہر شخص دوسروں کی نظر میں رہتا تھا . اوراس کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہہں رہ سکتا تھا . اور جوابدہی کے لیئے بھی ذمہ دار تھا .
لیکن آج کیا کریں کہ ہر انسان خود کو اخلاقی قدروں سے اخلاقیات سے بھی خود کو اس موئی پرائیویسی کے نام پر آزاد کر کے دوسرے کی پرائیویسی میں دخل اندازی کے نت نئے حربے آزمانے اپنا حق سمجھنے لگا ہے.
سادہ لفظوں میں کہئیے تو کسی کے گھر مہماں بنکر گئے ہوں تو اس کے دوسرے مہمانوں یا رشتہ داروں کے اتے پتے بڑے رازدارانہ انداز سے حاصل کر لیئے جاتے ہیں . پھر اس بلانے والے میزبان کی مل کر خوب بینڈ بجائی جاتی ہے . جس کے دسترخوان پر انہیں اکھٹے متعارف ہونے کا موقع ملا اسی کے کردار پر،اس کے خاندان پر اور تو اور اس کے دو چار سال کے بچوں پر بھی ایسی ایسی موشگافیاں کی جاتی ہیں . کہ جس کا علم ان کو ملانے والے کے کیا، اسکے فرشتوں کو بھی خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا . پھر اس ملانے والے کو بیچ میں سے صفر کر دیا جاتا ہے اور آپس میں محبت کے منافقانہ پینگیں بڑھائی جاتی ہیں .
اسی کی ایک اور مثال آج کا سوشل میڈیا فون اور خصوصا فیس بک لے لیجیئے . اس میں اکثر دوسرے کی محبت میں فرینڈ ریکوئسٹ نہیں بھیجتے بلکہ ان کا مقصد اس لسٹ میں موجود فرینڈ سرکل کو تاڑنا ، پھر ان سے عقیدت اور محبت رکھنے والوں کو ان بکس میں جا کر ہاتھوں پر ڈالنا ؟ ان سے خصوصی تعلقات استوار کرنا ؟ اس کی کردار کشی کر کے اسے دوسرے کی نظر سے گرانا، اور پھر اس کے جو کام نکلوانا ہے اس کے لیئے ہر قیمت پر کام نکلوانا، یہاں تک کہ اس بات پر اسے ہراساں کرنا کہ اچھاااا آج کل بڑا فلاں فلاں کی پوسٹ پر لائیک اور کومنٹس کیئے جا رہے ہیں ، ہوں ں ں ں ں. کیا چکر ہے 😜 یہ سب اس انداز میں کہا جائیگا اور فون پر اس کا ایسا برین واش کیا جائے گا کہ اچھا بھلا شریف اور بہادر انسان بھی پریشان ہو کر اچھے سے اچھے دوست سے بھی کنی ٹکرانے لگتا ہے کہ خدا جانے اور میری باتوں کو کیا کیا رنگ لگا کر پیش کر دیا جائیگا . سو اپنی بھی عزت تو نہیں بنتی وقتی فائدے ہی لینے ہوتے ہیں . لیکن دوسرے کے لیئے اگلے کے دل میں شیطانی کا بیج ضرور بو دیا جاتا ہے .
ایسے لوگ کبھی کسی کے مخلص دوست نہیں ہو سکتے . یہ ٹائم پاس لوگ ہوتے ہیں . ان کی کبھی مستقل دوستیاں نہیں دکھائی دیں گی . جو دوستیاں ہونگی بھی ان کے ساتھ ان کی آئے دن کی لڑائیوں کے بعد وقتی مفادات کے لیئے ایک میز پر اکٹھے ہو کر جھوٹے قہقہے اور مشروط ملاقاتیں ہی ہوں گی .
اب کیا کہیں ایسے لوگوں کو جو ہوائی انداز سے ہواوں میں گھر بناتے ہیں . دوست پالتے ہیں اور ہوش آتے ہی حقیقت کے فرش پر دھڑام سے گرتے ہیں.
بقول "باقی صدیقی" کے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
********
ہفتہ، 26 اگست، 2017
واہ واہ خان صاحب
واہ واہ خان صاحب
ممتازملک. پیرس
*جب وہاں بچے قتل ہو رہے تھے تو آپ عشق فرما رہے تھے
*جب وہاں دھماکے ہو رہے تھے تو آپ دھرنے میں ناچ گانا کر رہے تھے
*جب وہاں چوہے لوگوں کو نوچ رہے تھے تو آپ مری کی سیریں فرما رہے تھے
اور اب
* جب وہاں لوگ ڈینگی سے مر رہے تو آپ پنجاب میں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پریکٹس کر رہے ہیں . اس" کے پی کے" میں جہاں آپ نے کاغذوں میں ہسپتالوں سکولوں کالجوں کا جال بچھا دیا ہے وہاں آج اس سال 2017 میں بھی بارہ ہراز بچے کالج نہیں جا سکیں گے کہ اتنے کالج ہی نہیں ہیں .
ڈینگی کے مریض بیچارے پنجاب سے گئے میڈیکل سٹاف کو بھی اپنا مرض نہیں بتا سکتے ،اپنی جان بچانے کی دوا نہیں لے سکتے کہ "کی پی "کا نیرو انہیں زندہ رہنے کی اجازت نہیں دے رہا ....اور میڈیکل سٹاف کی گاڑیاں پارک کروا دی گئی ہیں .
کوئی انسان اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف اپنی ناک بچانے کے لیئے اس نے پورے صوبے کو مچھروں کے ہاتھوں مرنے کے لیئے چھوڑ دیا اور منہ کے سامنے کھڑی گاڑیوں اور ڈاکٹروں سے دوا لینا اس لیئے منظور نہیں کہ یہ اس کے مخالف نے بھیجی ہیں .
کیا یہاں اس کا باپ بھائی یا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوتا تو یہ ایک منٹ کو بھی سوچتا کہ یہ دوا کھلانے والا دوست ہے یا دشمن.
کبھی نہیں یہ اس کی جان بچانے کی کوشش کرتا .
آپ کا باپ نہ آپ کا بھائی..
نہ ہی بیٹا ،نہ بیٹی
نہ ماں نہ بہن ...
انجوائے خان صاحب
تاریخ آپ کو ضرور یاد رکھے گی کہ ایک تھا عمران خان جسے پورا صوبہ حکومت کرنے کو ملا . اس نے لوگوں کے لیئے کینسر ہسپتال بنایا لیکن اس کی عوام چوہوں اور مچھروں کے کاٹنے سے مرتی رہی .
کیوں ؟؟
کیونکہ اسے مچھروں اور چوہوں سے عوام کی جان بچانے کے عوض اربوں روپے ذکوات خیرات اور غیر ملکی فنڈنگ میں نہیں مل رہے تھے... افسوس...
ممتازملک. پیرس
منگل، 22 اگست، 2017
سچ کا استعمال
اپنی زبان
اتوار، 20 اگست، 2017
ایک نیا طریقہ واردات
جمعہ، 18 اگست، 2017
نجف علی شاہ گریٹ مین
تسلیمات
نجف علی شاه بخاری شخصیت اور فن میں میری 27 سالہ ریڈیو Tv اور دیگر ادبی خدمات کا احاطه کیا گیا ھے جسے پروفیسر Dr.قیصر نجفی صاحب "میرے چاره گر " کے عنوان سے کتابی شکل دے رھے
ھیں مذکوره کتاب میں میری نثری اور شعری تخلیقات اشکوں میں رعنائ / برف میں lipti آگ / منوتی / بستیاں آباد / صحرا میں اذان / اسم اعظم پڑھ لیا کرتا ھوں میں / پر معروف شخصیات کے تبصرے بھی شامل ھیں
مجھے خوشی ھوگی اگر آپ ایک صفحه پر مشتمل میری اس شاعری پر کچھ لکھیں جو آپ فیس بک پر پڑھ چکے ھیں تاکہ اسے کتاب کی زینت بنا سکوں اردو میں لکھی یہ تحریر مجھے اگلے هفتے تک what's aap کر دیں
خیراندیش
نجف علی شاہ بخاری
( ایم فل اردو سکالر )
ریزه نجف محله سادات بھکر پنجاب 03336841024
Syednajafalishah@gmail.com
***********
یہ پیغام( بلکہ میرے لیئے ایک استاد شاعر کا حکم کہوں تو زیادہ خوشی ہو گی )
ملا سو ہم نے جرات کی اس رائے کی . جو کہ ذیل میں پیش ہے .
***********
میں آج تک نجف علی شاہ صاحب سے کبھی نہیں ملی ...میں نہیں جانتی وہ کس عمر کے ہیں کیا کرتے ہیں اور کس شہر کے رہنے والے ہیں . نجف صاحب سے میرا تعارف فیس بک پر ہوا .
جب انہوں نے مجھے اپنے کام پر تبصرے کے لیئے کہا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا . کہ اتنے استاد شاعر اور لکھاری پر میں کیا لکھ سکتی ہوں . یہ تو میری اوقات ہی نہیں . لیکن ان کے اصرار پر ان کا دل رکھنے کو یہ جسارت کرنے کا ارادہ کر لیا ..
ان کی شاعری اور خیالات پڑھنے کا موقع بھی مجھے فیس بک پر ہی ملا .
تو معلوم ہوا زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ان کے الفاظ سے ٹپکتا ہے. انکی تحریریں پڑھ کر ایک معتبر، ذہین، حساس اور ہمدرد سے انسان کی شبیہہ زہن میں اتر آتی ہے .
جو خواب تو دیکھتا ہے لیکن حقیقت کے حصار میں رہتے ہوئے. وہ خود کو خوابوں میں گم نہیں ہونے دیتے . بلکل اس تتلی کی طرح جو اڑتی تو ہے لیکن اس کے پاوں سے بندھی ڈور اسے اس ڈور کی لمبائی سے آگے جانے نہیں دیتی .
میں ذاتی طور پر نجف علی شاہ کے کلام کو بہت پسند کرتی ہوں . اور ان کے خیالات سے بہت کچھ سیکھتی بھی ہوں .
آپ کے لیئے بہت ساری دعاوں اور نیک تمناؤں کیساتھ آپ کی ان کامیابیوں کے لیئے بھی پرامید ہوں جو صدقہ جاریہ بن کر دونوں جہانوں میں آپ کو سرخرو کرینگی . انشاءاللہ
اللہ پاک آپ کو لمبی عمر ایمان ،عزت اور صحت کیساتھ عطاء فرمائے. آمین
ممتازملک. پیرس
مائے نی مائے میرے گیتاں دے۔۔۔ انتخاب۔ نصرت فتح کا گایا کلام
ممتازملک
----؛
ادھی ادھی راتی ' اٹھ رون موئے متراں نوں ' مائے سانوں ' نیند نہ پوے
کوسے کوسے ساھاں دی میں ' کراں جے ٹکورمائے ' سگوں سانوں کھان نوں پوے
آکھ سونی مائے ایہنوں ' رووے بلھ چتھ کے نی ' جگ کیتے سن نہ لوے
چٹ لئے تریل نوں وی ' غماں دے گلاب توں ای ' کالجے نوں حوصلہ رھوے
کھڑیاں سپیریاں توں ' منگاں کونج میل دی میں ' میل دی کوئی کنج دوے
کیھڑا ایہناں غماں دیاں ' روگیاں دے دراں اتے ' وانگ کھڑا جوگیاں رھوے
پیار ایسا بوڑھ ھے نی ' جہدے کولوں آشنا وی ' لکھاں کوساں دور ھی رھوے
پیار ایسا آلھنا ھے ' جہدے وچ وصلاں دا ' رتڑا نہ پلنگ ڈھوے
متے ساڈے مویاں پچھوں ' جگ ایہ شریکڑا نی ' گیتاں نوں وی چندرا کہوے
بدھ، 16 اگست، 2017
جاگیر سمجھ کر ۔ سراب دنیا
بیگم کے خط کا تگڑا جواب
فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت......
منگل، 8 اگست، 2017
محبت کا امتحان
انسان کی محبت کا امتحان یہ نہیں کہ وہ"کتنا"زیادہ مہیا کر سکتا ہے
بلکہ
اس میں ہے کہ وہ کتنے"کم"میں گزارا کر سکتا ہے .....💜💛💚
ممتازملک. پیرس
جمعرات، 3 اگست، 2017
مائیں بور اور نسلیں تباہ
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب موبائل زندہ باد پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یانپھر ہر وقت بازاروں میں.چکر لگانا شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں خواتین کو شاید. حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں .
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت ہوتی تھیں .
دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے وہاں .میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا . نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
جن کی چھت پر صحن میں کئی طرح کے اچار کے مرتبان اور برنیاں دھوپ لیا کرتے تھے .
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار دیکھی اور ہلائی جاتی تھیں .
جن کے گھر میں مربے ، جام بنا کرتے تھے .
گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا.کر نہیں دیتے کرنا ظلم کرتے ہیں بیچاریوں پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ.سبھی اور بہت سے کام اگر ہم گننے بیٹھے جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینے میں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے بچایا کرتی تھیں .
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں .
یہ سب خواب نہیں ہے ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین ہی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا . یہا یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا سات بجے بچوں کو جگانا کھلا پلا کر تیار کرنا .بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ، گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا کھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا . سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا . انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری کچن کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے، کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا . سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا . شامی کباب . روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ پر یا نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتوں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل پیدا کرنے سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں .
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو انکی کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگر اتنی ہڈ حرام اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
ممتازملک
...................
مائیں بور نسلیں تباہ
مائیں بور نسلیں تباہ
ممتازملک. پیرس
پچھلے دنوں بیرون ملک سے آئی ایک خاتون کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا اور ان کا پاکستان میں رہنے والی خواتین پر ایک محفل میں جو غصہ نکلا تو ہمیں بھی بہت قرار آیا اور سوچا کہ
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں، ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب موبائل زندہ باد پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یا پھر ہر وقت بازاروں میں چکر لگانا، شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں خواتین کو شاید ...
حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں .
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت ہوتی تھیں .
اب تو دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے .
وہاں میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا . نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
جن کی چھت پر، صحن میں کئی طرح کے اچار کے مرتبان اور برنیاں دھوپ لیا کرتے تھے . صابن کڑاہی میں گھوٹا جاتا تھا.
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار رکھی اور ہلائی جاتی تھیں .
جنکےگھر میں مربے ،جام بنا کرتے تھے .
اب تو گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا کر نہیں دیتے، یہ ظلم کرتے ہیں بیچاریوں پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ سبھی اور بہت سے کام اگر ہم گننے بیٹھیں جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینےمیں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے بچایا کرتی تھیں .
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں .
یہ سب خواب نہیں ہے .ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین بھی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے .یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے .
صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا ،یہاں یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا ،سات بجے بچوں کو جگانا ،کھلا پلا کر تیار کرنا،بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ، ناشتے کے برتن دھونا ، دھونے والے کپڑے چھانٹنا،گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا کھلا کر ان کے منہ ہاتھ دھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا ، لنچ خے برتن دھونا،سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا،
انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری کچن کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے، کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا،سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا ،شامی کباب بنا.کر فریز کرنا،روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ،نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتیں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل پیدا کرنے سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں .
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو اس کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگراتنی ہڈ حرامی اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
------------
بدھ، 2 اگست، 2017
پاکستان زندہ باد
شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/
- ستمبر (1)
- اگست (12)
- جولائی (12)
- جون (5)
- مئی (3)
- اپریل (8)
- مارچ (11)
- فروری (105)
- جنوری (5)
- دسمبر (5)
- نومبر (5)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (8)
- جولائی (2)
- جون (3)
- مئی (9)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (4)
- دسمبر (5)
- نومبر (3)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (3)
- اگست (3)
- جولائی (3)
- جون (5)
- مئی (10)
- اپریل (4)
- مارچ (3)
- فروری (6)
- جنوری (9)
- دسمبر (3)
- نومبر (2)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (2)
- اگست (3)
- جولائی (7)
- مئی (1)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (12)
- دسمبر (11)
- نومبر (11)
- اکتوبر (13)
- ستمبر (11)
- اگست (16)
- جولائی (8)
- جون (8)
- مئی (11)
- اپریل (8)
- مارچ (19)
- فروری (19)
- جنوری (23)
- دسمبر (4)
- نومبر (3)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (15)
- جون (4)
- مئی (15)
- اپریل (18)
- مارچ (88)
- فروری (15)
- جنوری (23)
- دسمبر (12)
- نومبر (8)
- اکتوبر (3)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (11)
- جون (1)
- مئی (3)
- اپریل (7)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (4)
- دسمبر (7)
- نومبر (12)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (14)
- جولائی (7)
- جون (11)
- مئی (22)
- اپریل (8)
- مارچ (33)
- فروری (10)
- جنوری (7)
- دسمبر (8)
- نومبر (11)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (11)
- اگست (8)
- جولائی (8)
- جون (10)
- مئی (5)
- اپریل (39)
- مارچ (2)
- فروری (11)
- جنوری (8)
- دسمبر (1)
- نومبر (3)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (5)
- جولائی (7)
- جون (6)
- مئی (5)
- اپریل (5)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (9)
- دسمبر (10)
- نومبر (7)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (2)
- جولائی (10)
- جون (10)
- مئی (6)
- اپریل (5)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (3)
- دسمبر (1)
- نومبر (2)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (3)
- اگست (64)
- جولائی (2)
- جون (1)
- مئی (5)
- اپریل (4)
- مارچ (4)
- فروری (3)
- جنوری (3)
- دسمبر (28)
- نومبر (11)
- اکتوبر (80)