بچے بڑے کریں غلام نہیں
ممتازملک. پیرس
اللہ پاک نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اورانسان نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے آگے غلام کی قطار میں کھڑا کر دیا ..جب تک یہ غلام اس کے کوکھ اور نسل سے نہ تھی اس کی یہ رعونت اور خود غرضی سمجھ میں آتی بھی تھی .. لیکن وہاں کیا کہیئے گا کہ جب اپنی ہی جنی ہوئی اولادوں کو بھی ہم نے اپنا غلام بنانا شروع کر دیا اور سمجھنا بھی شروع کر دیا .
*خبردار یہ نہیں کرنا
*چلو جلدی کرو تمہیں یہ ابھی کرنا ہے
*تمہاری یہ جرات کہ تم مجھ سے یہ سوال کرو
*میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں
*تم مجھ سے سوال کرو گے (کرو گی )کیا
*میں دیکھتا (دیکھتی) ہوں کہ تم ایسا کیسے کرتے ہو
*دو روٹی کی اوقات نہیں تمہاری میرے بغیر
یہ اور اس جیسے بہت سے جملے ...
اگر ہم اپنی روزانہ کی گفتگوکا جائزہ لیں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی سے اپنے ہی گھر میں یہ جملے کہہ رہے ہوتے ہیں . کبھی اپنی اولاد سے، کبھی اپنے بہن بھائیوں سے، کبھی اپنے دوستوں سے ، کبھی اپنے ملازمین سے..
پہلے یہ احکامات ماں باپ کی جانب سے ہمیں پیدا کرنے کے بدلے ہمیں سنائے جاتے ہیں ..
بڑے ہونے تک، بیاہ ہونے تک، ہر روز ان جملوں کے کوڑے سے ہماری کھال ادھیڑی جاتی ہے ..
جہاں آپ تھکے یا ذرا بیزار ہوئے وہیں سے آپ کی تمام تابعداری اور محنت و محبت پر نافرمانی اور ناہنجاری کا تیزاب انڈیل دیا جائیگا. .
اور دوبارہ سے نیکیوں اورخدمتوں کی گنتی شروع کر دی جائیگی.
لیکن ہمیں یہ کبھی یاد نہیں رہا کہ
بچوں سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرنے والوں نے صرف غلام ہی پیدا کیئے .. ہمارے بزرگوں نے اپنی اولادوں کو صرف اپنا ہتھیار بنایا اس رویئے سے ..
اگر وہ پچھلی نسل کو پیار اور اعتماد دیتے تو آج کے والدین کی اکثریت اپنی اولادوں کو بے لگام آزادی کبھی نہ دیتی ...
وجہ ...
*جو احساس محرومی ان لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھے.
*جہاں ماں باپ نے کبھی اپنے بچوں کو گلے سے نہ لگایا
*کبھی ان کی کامیابی پر کسی کے سامنے کیا، ان کے سامنے بھی خوشی کی کا اظہار نہیں کیا
*کبھی ان کی پسند ناپسند کا خیال نہیں رکھا
*کبھی ان کی عزت نفس کا احترام نہیں کیا
*کبھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کی اجازت نہیں دی .
تو ان ترسے ہوئے بچوں کو جب اللہ نے والدین بنایا تو یہ موقع ملتے ہی اکثر اپنے بچوں کو وہ آزادی بھی دے بیٹھے جو ابھی ان کی عمر کے لیئے مناسب نہیں تھی. اور اسی سبب وہ آج کی بگڑی ہوئی نسل بن گئے ...
جبکہ جن ماں باپ نے سوچ سمجھ کر ان کی عمر کی ضروریات کے حساب سے ان سے تعلق کو دوستی میں بدل کر ان میں جھانک کر استعمال کیا انہیں اس پر اچھے نتائج ہی ملے ہیں ..
آپ کے بچے ہمارے بچے اللہ نے ہمارے دوست بنائے ہیں نہ کہ دشمن ...
اپنے بچوں کو یہ بات بتانے اور ثابت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان کی ہر دلچسپی اور تحریک میں شریک ہیں ..ان کے مضامین چننے سے لیکر ان کے زندگی کے ساتھی تک چننے کی انہیں وہ ساری آزادی دی ہے اس کی حدود بتا کر .. کہ یہ آپ کا دائرہ ہے اس کے اندر جو جی چاہے اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کرو گے ، اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ کھڑا پاو گے.
صرف اسی طرح ہم اپنے بچپن میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں . جب ہماری اولاد میں وہ محرومیاں اور کمیاں پیدا ہونے سے روکی جا سکیں ..
انشاءاللہ