ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 1 اپریل، 2015

ڈنمارک فائل/ کانفرنس






حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ

حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی 
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی 
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی 
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے 

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آگئے ہیں

،،،،،،

مقالہ

فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ
ممتازملک ۔ پیرس
                     
                         

یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے  دنیا میں عروج حاصل کیا ۔   لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی   من مانی  کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین  کے  ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں  "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا 

 ہے کہ اس دوران   14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس 

میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔

 نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ 

نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس

 واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے 

ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا 

سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور 

کا نفاذ ہوا

 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ 

اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 

جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو  جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی 

عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو 

خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔  اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن 

محفوظ نہ تھی۔ ۔ 94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 

آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد  کو بھی قتل کردیا گیا۔  یوں صدیوں 

کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔  مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار 

آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔

دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے 

رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین  نے 

بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس 

میں شاہی ادارے  نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ 

انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان  شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوںکا 

زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب 

فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا  ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ 

لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا 
ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی  حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور 

بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔ 

 انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے 

باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین جسے کون دوغسے  '' کا نام دیا گیا ، 

 کے مطابق  خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔اپیل کے باوجود بھی 

انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کی 

بات تھی  ۔   انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائیل میں ووٹ کا حق صرف مالی 

حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔ 

خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کر 

نے میں جلد بازی کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔  

اسی سسلے میں (1882 ) میں فرانسسی لیگ

اور فرانسسیسی یونین کے "SUFFRAGETTETS KI " سُفغاژیٹ کی "

"OLYMPE dE GOUGES  " اولامپ دُو گوز"

"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)

اور کئی اور تنظیموں نے بڑا کردار ادا کیا ۔اور مذید  کئ مراحل حقوق کے حصول 

میں پیش پیش رہے ۔ 

لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے ااس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور 

تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie  جیولیٹ 

کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے  مشکل شعبے میں 

حاصل  کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے  دنیا کو فرانس کی 

خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔ 

فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ  کی بیوہ  گلبرٹ بروسولیٹ  کے بےمثال 

کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔  

 اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر 

پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں  مزید 10 سال لگ گئے ۔ 

1944 ء 21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے 

ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں  خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا 

اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئ کہ خواتین نہ صرف ووٹ 

میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے 

برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئ ۔

 یوں اگلے سال  1945 ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلے بار اپنے حق رائے دہی 

کو استعمال کیا  ۔  یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے 

احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی 

مین کردار ادا کرنا شروع کیا ، سچ یہ ہی ہے  کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف 

کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف 

خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔

                         فرانس زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
                                     .......................



شہر دغا
 city of betrayers

کلام / ممتاز ملک

POETES / MUMTAZ MALIK



وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے

They will make u crazy with their sweet talks

چھوڑ جائے گا کسی روز بہانہ کر کے

   one day they will leave u make an excusse

زہر بنیاد میں تھا شہد چٹایا برسوں

poison was in his basse years  of years irock them honey

پھر اسے منہ میں رکھا اس نے زُبانہ کر کے

then he keep in the mouth by name of tongue

جانے کتنے تهے مسافر جنہیں منزل نہ ملی

many were travlers who can't  find  the destination

میں بھی آیا یہ کہا جن کو روانہ کر کے

i am also coming say whom after sending


سادگی دیکھ تیری مجھکو بھی رونا آیا


i weaped to see your simpelsity

فطرتیں کون بدل پایا زمانہ کر کے

nature can't change after years too



بھول جا اسکو تیری یاد کے قابل وہ نہیں

forget him he can't able to memorise

کیا ملے گا یوں اسے یاد روزانہ کر کے
what will u get to memorise him daily

ہم فسانے کو بھی سچائ سمجھ کر روئے
we  weaped on fiction like a reality
بات سچی بھی وہ کرتا ہے فسانہ کر کے
he talk about reality like a fiction

         قہقہے پهیل  گئےاسکے ہوا میں اکثر  
his lafter spreed in the air often  
سسکیاں جس نے دبائ ہیں خزانہ کر کے    
                        who hide there sob like a treasures                 
                           
 ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مقابل ہوتے
they can't dear to compeat me
                       بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے                          
    he talk to another and make target me 


دوستی نام ہے ٹھوکر پہ نئی ٹھوکر کا 

friendship is the name of knock after new knock
جو بھی آیا وہ گیا مجھ کو سیانہ کر کے
whatever came ، he went ،to gave me a wisdom

تو منافق نہیں ممتاز یہ ہے شہر دغا
 u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers 
ہو جا بےفکر تو اس دل کو توانا کرکے
unconcern about  it ،make heart strong
......................





نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
 poetes/ Mumtaz malik



نوحہ غم ہے اس پہ کیا کہئیے
this is wailing grife what i say on this
ہر گھڑی آنکھ نم ہے کیا کہئیے 
the eye is moist in every moment what i say

چیرتی جا رہی ہے روحوں کو
it is ripping  the souls 
 درد جتنا ہو کم ہے کیا کہئیے
how many pain is bit now what i say

زہر لفظوں میں گُھل گیا اتنا
poison micksed in my words
 چاشنی اب عدم ہے کیا کہئیے 
how many suger is  nill now what i say



ہائے آوارگی کا کیا شکوہ 
 ah what is the complain about wandring 
 سب کا شکوہ ستم ہے کیا کہئیے
all complains r oppress what i say  

اتنے پهولوں پہ خاک ڈالی ہے 
how many flowers buried
میری گردن بهی خم ہے کیا کہئیے
my neck is falldown what i say

ہم نہ پہچان پائے لاشے کو
we can't recognize the body
دوستی سرقلم ہے کیا کہئیے
friendship is severed head what i say

گھر میں میرے ہو روشنی کیسے
how can light in my house
کب چراغوں میں  دم ہے کیا کہئیے
when the power in the lamps

ماتمی شور کر گیا بہرا
the noise of mourning make me deaf
 اور بصارت الم ہے کیا کہئیے
 and the vision is another pain  what i say
جس کی چادر چهنی اجالے میں
who  lost theire onner in the light
 زندگی شام غم ہے کیا کہئیے
life is sorrow evning for him what i say

جو بهی اٹھتا ہے امن کی جانب
whatever arise towards the peace
لڑکهڑاتا قدم ہے کیا کہئیے
it's floundring step what i say

 منزلوں تک پہنچ نہیں پاتا
can't reache on the destination
 سوچ میں ہی سُکم ہے کیا کہئیے
the fault in the thinking whats i say



اب تو ممتاز دل کی تختی پر
now Mumtaz on the bord of my heart
درد ہی تو رقم ہے کیا کہئیے
the write only pain what i say

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




مدّت ہوئ عورت ہوۓ 


مجھ سے سہیلی نے کہا
my friend say to me

ممتاز ایسا لکھتی جا
Mumtaz write something like this

جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
whatever anounce the voice of bangeles

چھنکارکی باتیں
talk of their sound

کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے
some mentions about fola  


اِظہار کی باتیں
talks of expretion

اُڑتے سنہری آنچلوں میں
 in the golden flying sckarf

موتیوں کی سی لڑی
like string of pearls


پہلی وہ شیطانی میری
my first naughty

پہلی وہ جو میری ہنسی
my first lafght

بالی عمر کی دِلکشی
attraction of young age


وہ بچپنے کی شوخیاں
pranks of chaildhood

خوابوں میں خواہش کے سراب
wisheland in the dreams

دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
 conspirecy of heat beat


گوٹا کِناری ٹانکتے
make embroidery and lasess


اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن
stuknuss of needle in the fingur


دانتوں میں اُنگلی داب کر
prees the fingur in the teeth

ہوتی شروع پھر سے لگن
  start again that dedication


پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 
when was sound first


یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
this heart ،do u remember

وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
wrold of colors and  perfumes

اب بھی کیا آباد ہے
still alive


میں نے کہا میری سکھی
i said my friend

دنیا کیا تو نے نہ تکی
u don't saw this wrold


مصروف اِتنی زندگی
the life was so busy

کہ چُوڑیاں پہنی نہیں
i don't wear bangels

جو چُنریاں رنگین تھیں
colorfull scarfs

وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں
  flying after took sunlight

میری عمر کی تتلیاں
butterflies like my age

اب اور جانِب مڑ گئیں
they move another sides

اب دوپٹوں پر کبھی نہ
now never on the scarf

گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
make me embroidery

سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
not stuk the needle in my fingur

د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں
i sew my heart

خوشبوؤں کے دیس سے
to the wrold of perfumes

میں دُور اِتنی آگئ
i  came to far

جینے کی خاطر
for servaival

 مرد سا
like a man

انداز میں اپنا گئ
i change my self


رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
fulfill the relations


فرض ادا کرتے ہوۓ
and done my duties

تُو نے جو چونکایا لگا
u startled me

مدّت ہوئ عورت ہوۓ
long time passed when i was a women

MUDDAT HOI AURAT HOEY

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سربستہ راز

سربستہ راز

سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں  
  چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں

    سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
   اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں

   اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا  
 میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں  

 جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں 
  میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں 

   مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے 
  صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں

   کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے  
  حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں   

ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے 
  جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں  

 کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر 
 ہر اک رنگ مِیں مَیں تو بس مہمان رہی ہوں 

  روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا  
  ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں 
  
 اب اک ہی افسوس مجھے مُمتاز رہے گا
 دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں 
....................
بنا تیرے بھی مکمل ہے


بنا تیرے بھی مکمل ہے یہ حیات میری
اسی سفر مین رواں ہے یہ کائینات میری

ادھوری چھوڑ گئے تم جو اک زمانے میں
اکیلے آج مکمل کروں گی بات میری

فلک کے چاند ستاروں نے حال دیکھا ہے
حیات کس نے کی دنیا میں بے ثبات میری

ہوا کے رخ کو بھی میں اپنے حق میں کر لوں گی
بڑے عذاب لگائے ہوئے ہیں گھات میری

جو مجھ سے واسطہ رکھے اسے پتہ ہو گا 
میں تم کو عیب بتاؤں یا پھر صفات میری

جنہوں نے نام سے ممتاز پہلی بار کہا 
 وہ سن چکے تھے کسی طور مناجات میری



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو میرے رُخ


یہ جورُخ پہ میرے ملال ہے
یہ تیری وفا پہ سوال ہے

مجھے غم نہ تم نےکبھی دیا
یہ محض تمہارا خیال ہے

میں تیرے لیئے ہی بکھر گئی 
تو نہ جان پایا کمال ہے

یہ جو ساز زیست ہے بج رہا 
نہ ہی سر ہے اب نہ ہی تال ہے

ممتاز اس کو یہ کہہ بھی دو
تیرا ساتھ ہے یا وبال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عورت

یاد رکھنا کہ اک عورت سے ہوئے ہو پیدا
یاد رکھنا کہ اک عورت ہی کی آغوش میں ہو 

اب تیرے ہاتھ سے محفوظ نہیں وہ عورت
کیا کیئے جاتے ہو بتلاؤ تو کچھ ہوش میں ہو

پہلے ہی گھر میں چراغوں کی بڑی قلت ہے
کیوں دیئے گھر کے بجھانے کیلیئے جوش میں ہو

ساری دھرتی کو نہ آآ کے یوں ناپاک کرو
جانے بربادی کی کس لہر میں کس دوش میں ہو

رحم آتا نہیں کھلتی ہوئی کلیوں پہ جنہیں 
باغ ویران ہوئے خوابئہ خرگوش میں ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 



کبھی ملی نہیں بے فکریاں


کبھی ملی نہیں بے فکریاں زمانے کی
تگ و دو ہم نےبڑی کی تھی انکو پانے کی

نہ بچنا جس کامقدر تھا کیسے بچ پاتا
بھلے سے کی تھیں بڑی کوششیں نبھانے کی

مجھے منانا کوئی اسقدر گراں تو نہ تھا 
ہے دیر اب بھی بھلے تیرے اک بہانے کی

ازل سے معاف کیئے جا رہے ہیں ہم انکو
پڑی ہے آج ضرورت یہ کیوں جتانے کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



قدرت کے تحا ئف ہیں



قدرت کے تحا ئف ہیں



قدرت کے تحا ئف ہیں تیری ذ ات میں شامل
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل

دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل

اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے 
یہ بات الگ ہے تیرے درجات میں شامل 

خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ
کچھ خاص ہیں یہ تیرے کمالات میں شامل

کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک
ہائے ماں میرا کہنا بھی وظیفات میں شامل

ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا 
ہے ذکر تیرا میری عبادات میں شامل 

مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی 
جیسے ہو یسیری سی خیالات  میں شامل

مُمتازاس کے ساتھ بجے چین کی بنسی
بعد اسکے زندگی بھی ہے ظلمات میں شامل

کلام/ممتازملک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھوک

اے کاش ایسا ہوتا  
 تصویر دیکھکر ہی 
کاغذ پہ بھوک مٹتی
کوئی بھوک سے نہ مرتا
کوئی دودھ کو نہ روتا
کوئی جاں سے نہ گزرتا
نہ کہیں پہ  جسم بکتا
نہ ہی رقص مرگ ہوتا
کوئی جرم بیگناہی 
کی سزا کبھی نہ بھرتا 
کوئی آنسوؤن سے اپنے 
یوں گلے کو تر نہ کرتا 
کوئی خون میں کسی کے 
ہاتھوں کو تر نہ کرتا
کوئی مجرموں کے گھرکا
پانی کبھی نہ بھرتا 
بم باندھ کر بدن سے
بچہ کبھی نہ مرتا 
راشن کی لائنوں میں 
کوئی ماؤں کو نہ ہرتا
اور رات کے قہر میں
 ماں نہ تلاش کرتا
بجلی جو اس پہ گرتی
ماں کے لیئے نہ ڈرتا
عزت کے دشمنوں سے 
سودے کبھی نہ کرتا
نہ کہیں قرار لٹتا 
نہ کہیں مزار ہوتا
نہ ہی میں بھی ہوتی عورت
نہ ہی تو بھی یار ہوتا
نہ میں بیچتی حیا کو
 نہ تو بے قرار ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



خاموشی دکھ کے دریچوں سے گزر کر اکثر 
میرے دل کے کسی ویرانے میں بس جاتی ہے 

کسی سہمے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح 
بے وجہ اپنے ہی دکھ پہ خودی ہنس جاتی ہے

منتظر آنکھ ہمیشہ سے کسی دید کو ہے
پر کبھی دید بھی آنکھوں کو ترس جاتی ہے 

جو کوئی پیار سے اس دل کو دلاسا دیدے
بس اسی لمحے بنا سوچے برس جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


محبت بانٹنے نکلے



محبت بانٹنے نکلے

محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو
 عورت سے لڑنے کی
 کبھی کوشش نہیں کرنا
اگر یہ ہار جاتی ہے 
تو حیرت اس پہ مت کرنا 
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
مگر جب جیت جاتی ہے 
تو تب حیران کرتی ہے 
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
بھلا کیوکر یہ سمجھو گے
کہ وہ جو ہارنے والا تھا 
وہ بھی اس کا اپنا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سُن محرم ميرے 


سُن محرم ميرے آج زار
تو ركھ لے ميری لاج زار

نہ رول مجهے مطلب كے لئے
تو بن جا صحيح سرتاج زار

سن باتيں جاہل لوگوں کی
نه مجهکو کر محتاج زرا

یه دنیا اڑیل ٹٹو ہے
نه سمجه انہیں الحاج بڑا

گر میری نظرمیں رہنا ہے
تک چهوڑکے جهوٹا سماج ذرا

کوئی آنکه نہ مجھ پر اٹھ پائے
کر غیرت کا اندراج زرا

ممتاز نه جس میں ره پائے
کس کام محل یه تاج زرا


.......








شہر دغا
 city of betrayers

کلام / ممتاز ملک

POETES / MUMTAZ MALIK



They will make u crazy with their sweet talks



   one day they will leave u make an excusse



poison was in his basse years  of years irock them honey



then he keep in the mouth by name of tongue



many were travlers who can't  find  the destination



i am also coming say whom after sending




i weaped to see your simpelsity



nature can't change after years too





forget him he can't able to memorise


what will u get to memorise him daily


we  weaped on fiction like a reality

he talk about reality like a fiction

          
his lafter spreed in the air often  
   who hide there sob like a treasures                 
                           

they can't dear to compeat me
                                                 
    he talk to another and make target me 




friendship is the name of knock after new knock

whatever came ، he went ،to gave me a wisdom


 u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers 

unconcern about  it ،make heart strong
......................





نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
 poetes/ Mumtaz malik




this is wailing grife what i say on this

the eye is moist in every moment what i say


it is ripping  the souls 

how many pain is bit now what i say


poison mixed in my words

how many suger is  nill now what i say




 ah what is the complain about wandring 

all complains r oppress what i say  


how many flowers buried

my neck is falldown what i say


we can't recognize the body

friendship is severed head what i say


how can light in my house

when the power in the lamps


the noise of mourning make me deaf

 and the vision is another pain  what i say

who  lost theire onner in the light

life is sorrow evning for him what i say


whatever arise towards the peace

it's floundring step what i say


can't reache on the destination

the fault in the thinking whats i say




now Mumtaz on the bord of my heart

the write only pain what i say

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




مدّت ہوئ عورت ہوۓ 



my friend said to me


Mumtaz write something like this


whatever anounce the voice of bangeles


talk of their sound


some mentions about fola  



talks of expretion


 in the golden flying sckarf


like string of pearls



my first naughty


my first lafght


attraction of young age



pranks of chaildhood


wisheland in the dreams


 conspirecy of heat beat



make embroidery and lasess



stuknuss of needle in the fingur


prees the fingur in the teeth


  start again that dedication



when was sound first



this heart ،do u remember


wrold of colors and  perfumes


still alive



i said my friend


u don't saw this wrold



the life was so busy


i don't wear bangels


colorfull scarfs


  flying after took sunlight


butterflies like my age


they move another sides


now never on the scarf


make me embroidery


not stuk the needle in my fingur


i sew my heart


to the wrold of perfumes


i  came to far


for servaival


like a man


i change my self



fulfill the relations



and done my duties


u startled me


long time passed when i was a women

MUDDAT HOI AURAT HOEY



...........................







مدّت ہوئ عورت ہوۓ 


مجھ سے سہیلی نے کہا

ممتاز ایسا لکھتی جا

جس میں ہوں کچھ چوڑیوں

چھنکارکی باتیں

کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے

اِظہار کی باتیں

اُڑتے سنہری آنچلوں میں

موتیوں کی سی لڑی

پہلی وہ شیطانی میری

پہلی وہ جو میری ہنسی

بالی عمر کی دِلکشی

وہ بچپنے کی شوخیاں

خوابوں میں خواہش کے سراب

دھڑکن کی وہ سرگوشیاں

گوٹا کِناری ٹانکتے

اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن

دانتوں میں اُنگلی داب کر

ہوتی شروع پھر سے لگن


پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 

یہ دل تجھے کچھ یاد ہے

وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا

اب بھی کیا آباد ہے


میں نے کہا میری سکھی

دنیا کیا تو نے نہ تکی

مصروف اِتنی زندگی

کہ چُوڑیاں پہنی نہیں

جو چُنریاں رنگین تھیں

وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں

میری عمر کی تتلیاں

اب اور جانِب مڑ گئیں

اب دوپٹوں پر کبھی نہ

گوٹا موتی ٹانکتی ہوں

سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب

د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں

خوشبوؤں کے دیس سے

میں دُور اِتنی آگئ

جینے کی خاطر
 مرد سا
انداز میں اپنا گئ

رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے

فرض ادا کرتے ہوۓ

تُو نے جو چونکایا لگا

مدّت ہوئ عورت ہوۓ
                                   MUMTAZ  MALIK

                                                  .........................



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 































































































































جمعرات، 26 مارچ، 2015

بنگلے یا بھوت بنگلے ۔ ممتازملک ۔ پیرس



بنگلے یا بھوت بنگلے
ممتازملک ۔ پیرس


دنیا میں ایسے بے شمار لوگ رہتے ہیں جو ساری عمر شدید جِدوجہد کے بعد بھی بمشکل دو وقت کی روٹی یا زندگی میں ایک مکان بنانے کی خواہش پورے کر سکے ۔ اور جب یہ مکان بنانے کی آرزو پوری بھی ہوتی ہے تو ان کا اپنا اس مکان سے دوسرے جہان جانے کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔ یوں وہ درو دیوار پھر سے اولادوں میں اینٹ اینٹ کر کے یا تو بک جاتے ہیں یا پھر بانٹ دیئے جاتے ہیں ۔  اور سفر وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں سے کبھی پہلے مکان بنانے والے نے شروع کیا تھا ۔ 
لیکن دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں کتنا بھی بڑا گھر کنال تو کیا ایکڑز میں بھی مل جائے تو بھی کم ہی لگتا ہے ۔ ہم نے اکثر ایسے گھر بلکہ مکان دیکھے ہیں جہاں کسی مکین کا سالہا سال تک کوئی گزر نہیں ہوتا ۔ ایسے گھروں میں یا تو تالے لگے ہوتے ہیں یا ان میں ملازمین کی فوج آباد ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مکان بنانے کی  یہ  وبا پہلے نمبر پر تو ہمارے نودولتیوں اور افسر شاہی اور وزراٰء میں پائی جاتی ہے اور دوسرے نمبر پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی ۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے بچپن میں انہیں رہنے کو گھر نصیب ہی نہیں ہوئے ۔ اور جن کا بچپن زیادہ تر دربدری میں گزرا ۔ چھوٹی عمر کی ان محرومیوں نے بڑے ہو کر صرف گھر اور بڑے سے بڑا گھر بنانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔  اولادیں ملک سے باہر تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان جاتے بھی بہت کم ہیں لیکن گھر ہیں کہ بنائے ہی جا رہے ہیں ۔  کبھی ان گھروں پر قبضہ مافیا کی موج ہوتی ہے ، تو کبھی ان گھروں پر رشتہ داروں کی اجارہ داری ہوتی ہے  ۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ ان گھروں کی دیکھ بھال کے نام پر ہر ماہ اچھی خاصی رقم بھی اینٹھ لی جاتی ہے ۔ فرمائشی کھاتے الگ سے کھلتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بات ان سے پوچھ تاچھ میں کر بھی لی جائے تو باقاعدہ  مفت میں رہنے والے کی جانب سے آپ کو یہ جتایا جائے گا کہ بھائی شکر کرو ایک تو ہم تمہارے گھر میں رہتے ہیں اوپر سے تم ہم سے سوال جواب بھی کرتے ہو ۔ اگر ان گھروں کو بیچنے کی کوشش کی جائے تو بھی یہ ہی رشتہ دار اس میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ بنتے ہیں ۔ یا ان گھروں کو اونے پونے ہتھیانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس کی یہ وجہ تو ہے کہ ہمارے ملک میں مالک مکان کو کوئی بھی قانونی تحفظ حاصل ہی نہیں ہے ۔  دوسری جانب ایسے بھی مکان دیکھے کہ ان میں دو یا تین افراد ہی رہتے ہیں  ۔ اتنے بڑے بڑے لانز بلکہ سچ پوچھیں تو ان لانز کے نام پر اتنی اتنی زمین ہوتی ہے کہ ان میں فصل کاشت کی جائے تو سینکڑوں لوگوں کا سال بھر کا غلّہ کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ اتنے بڑے گھر کا کیا فائدہ کہ اس میں انسان ڈر ڈر کر اور گھٹ گھٹ کر مر جائے ۔ اپنے ہی گھر کے باہر شام ہوتے ہی جاتے ہوئے انسان گھبرانے لگے تو اس گھر سے باہر والی زمین کی ملکیت کا کیا فائدہ ۔ جہاں کسی کو کسی گھر والے کا نہ آتے ہوئے چہرہ نظر آئے نہ ہی جاتے ہوئے پتہ چلے ۔ جہاں اپنے ہی گھر والوں سے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ہفتوں بعد اتفاق سے ہی ملاقات ہوتی ہو ۔ایسے  گھر کی دیکھ بھال کرنا بھی گویا سفید ہاتھی رکھنے کے برابر ہی ہو تا ہے ۔ جہاں پر گھر کو سنبھالنے کے لیئے گھر کے افراد سے زیادہ گھر کے ملازمین کی تعداد ہوتی ہے ۔ ایکڑز پر پھیلے  یہ گھر ، گھر کے مالک کو انہیں سنبھالنے کے لیئے ہر حرام ،حلال ،جائز ،ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان گھروں کو شام کے بعد دیکھنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کسی قبرستان سے گزر رہا ہو ۔ ویسے سچ ہی تو ہے اتنے بڑے گھروں اور قبرستان میں ایک ہی قدر تو مشترک ہوتی ہے،  وہاں کی ویرانی اور سناٹا۔ انسان چاہے امیر شہر ہو یا فقیر شہر دونوں کی آخری منزل بھی ایک سی ہوتی ہے اور آخری لباس بھی ایک سا ہی ہوتا ہے ۔ پھر اتنا بڑا گھر بنانا بھی کیا کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے کہ جس میں جن گھر والوں کا نام لیکر تعمیرات ہوتی ہیں انہیں  کو دیکھنے کے لیئے آنکھیں ترس جاتی ہوں ۔ دیواریں بھی ہمیں حسرت سے دیکھتی اور پوچھتی نظر آتی ہیں کہ
                  مکان پوچھتے ہیں کہ تیرے مکیں ہیں کہاں 
سچی بات تو یہ ہی ہے کہ گھر اینٹوں سے نہیں گھر والوں اور گھر والوں کی محبت سے بنتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے انہوں نے بڑے بڑے گھروں کی بیماری  کا جھنجھٹ پالا ہی نہیں ۔ یہاں بہت بڑے سٹارز بڑے گھر لیتے ہیں تو انہیں سنبھالنے اور شوق پورا ہونے کے بعد وہ بھی انہیں بیچ کر جان چھڑاتے ہیں ۔ چھوٹے مکانوں میں اور فلیٹس نے یہاں کی زندگی کو بہت ساری پریشانیوں سے نجات دی ہے ۔ کیونکہ گھر جتنا بڑا ہو گا اس کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے ۔ یہاں پر زیادہ بڑے لانز کا بھی کوئی رواج نہیں ہے ۔ یہاں گھروں کا کام خود کرنے کی وجہ سے بھی بڑے بڑے گھروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اور سچ پوچھیں تو پاکستان میں بھی گھروں کا کام خود کرنا پڑ جائے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ وہاں بھی گھروں کے سائز خود بخود چھوٹے ہو جائیں گے  ۔ اور ہاں ان نفسیاتی مریضوں کا تو ہم نے ابھی ذکر کیا ہی نہیں جنہیں ملک کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر شہر میں ایک گھر بنانے کا مرض ہوتا ہے ۔ اسے ہم ہوموفوبیا کہیں گے ۔ جو ساری عمر اسی جنون میں گزار دیتے ہیں لیکن انہیں گھر تو کیا اپنے ہی گھر والوں کیساتھ رہنا بھی کبھی نصیب نہیں ہوتا ۔ ان کے لیئے ہم سب مل کر اجتماعی دعا کرتے ہیں شاعر سے معذرت کیساتھ کہ 
میرے خدا انہیں اتنا تو معتبر کر دے 
یہ جس مکان میں رہتے ہیں اسکو گھرکردے 
                                               آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




پیر، 23 مارچ، 2015

عجیب حال ہے دل کا ۔ ممتازملک ۔ پیرس




                                  عجیب حال ہے دل کا   
ممتازملک ۔ پیرس





جانے کتنی بار واہگہ بارڈر کی پرچم اترائی کی تقریب دیکھ چکی ہوں لیکن ہر بار اس میں جا کر ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس ہوتا ہے ۔ یہ تقریب کبھی بھی مجھے پرانی نہیں لگی ہر بار آنکھ کیا سوچ کر نم ہوتی ہے خدا جانے ۔ بنا کسی عمر کی تخصیص کے ہر ایک کے لہو کو گرما جاتی ہے یہ تقریب ۔ آج بھی ٹیلیویژن پر یہ تقریب دیکھتے ہوئے یہ ہی حال تھا ۔  عجیب حالت ہوتی ہے دل کی جسے لفظوں میں بیان کرنے سے ہمیشہ ہی قاصر رہتی ہوں ۔ 
شاید ان جاں بلب عاشقوں کے تصور سے کہ جنہوں نے اپنی ساسنسیں رب کعبہ سی  ضد کر کےاس سرحد کو چومنے کے لیئے ملک الموت سے بھی ادھار مانگ لی تھیں ۔ آخری سجدہ اس سرزمین کی مٹی کو چوم کر کرنے کے لیئے ۔ یہ کِیا اور کیسی دیوانگی ہو گی کہ دو سو کا قافلہ لیکر چلنے والے بھی دم آخر فقط دو یہاں پہنچے اور ایک نے دوسرے کی آنکھوں کے سامنے اس مٹی کو چوما سجدہ کیا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔
 خدایا وہ ارواح عاشقان وطن وہ ارواح مقدّسہ جو اسی سرحد پر کھڑی رہ گئیں کہ کوئی ناپاک نظر اس کی جانب نہ اٹھا سکے ۔ انہی کی عرش کو ہلاتی دعائیں اور صدائیں ہی تو ہیں جو ہر آفت کو اس سے ٹکرا کے  پلٹنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔
 ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے لیکن اہم اپنے پڑوسیوں کو اپنے عمل سے یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ تمہارے ہر ستم نے ہمیں ایک قدم اور آگے کی جانب دھکیلا ہے یہ ہمیں پیچھے کبھی نہیں لڑھکا سکے ۔ تو جب تمہاری دشمنی ہمیں آگے ہی جانے پر مجبور کرتی ہے تو کیوں نہ ایک دوسرے کو اپنی مرضی اور وقار کیساتھ جینے کی اجازت دیکر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جسے خود ہم پڑوسیوں کے بیچ فساد کا بیج بونے والے بھی تسلیم کرتے ہیں اور بارہا کرتے ہیں کہ اگر اس خطے کے ان دو ممالک میں دوستی یا امن ہو گیا تو ان جیسی ذہین قوم پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی ۔ پھر وقتی فوائد کے لالچ میں ہم اپنے ابدی فوائد کو کس طرح پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ یہ کام سیاستدانون نے تو کیاخوب ہی کیا ہے جس کا دل چاہتا ہے اپنے ذاتی فائدے کے لیئے کوئی بھی قانون بنوا لیتا ہے یا مٹوا دیتا ہے ۔ ان دو ممالک کے عوام کی سادگی کیساتھ یہ جذباتی مذاق ہوتا رہیگا ۔ جب تک ان ممالک کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے اور سچ اور انصاف کی باتوں پر ساتھ دینے کے لیئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔
پچیس سال تک سری لنکا میں خانہ جنگی کروانے والے بھی ان کی ہمتوں اور ثابت قدمی کے سامنے ریت کا ڈھیر ہی ثابت ہوئے ۔ ہم بھی اپنی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے آج چودہ سال پورے کر رہے ہیں ۔ ہم میں بہت سی کمیاں اور خامیاں  بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ہیں لیکن ہماری ایک خوبی ان سب باتوں پر حاوی ہو جاتی ہے وہ یہ کہ ہم گرتے ہیں ، روتے ہیں ، چلاتے ہیں لیکن پھر جلد ہی کپڑے جھاڑ کر نئے عزم سے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ۔
نہیں یقین تو دیکھیئے ہمارے شہیدوں کے اہل خانہ کے چہروں کو ، دیکھئیے سانحہ پشاور کے گھر والوں کی صورتوں کو ۔ جواب خود بخود مل جائے گا ۔ بس ضرورت ہے تو اپنی راہوں کی صحیح سمت متعین کرنے کی ۔
       وگرنہ!
                              پلٹنا چھپٹنا چھپٹ کر پلٹنا 
                              لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 22 مارچ، 2015

گریباں چاک کر ڈالو ۔ کالم



گریباں چاک کر ڈالو
ممتازملک ۔ پیرس


عالمی اخبار میں آج کل مردوں پر خواتین کی صلاحیتوں کو دبانے کے حوالے سے جو بحث چل نکلی ہے  ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر بات کرنا واقعی بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ یہ بات تو ایک حد تک ہضم ہوتی ہے کہ کچھ خواتین اپنے اندر کی ٹیلنٹ کی کسی بھی کمی کو پورا کرنے کے لیئے نازو انداز اور عشوہ طرازیوں کا سہارا لیتی ہیں ۔ اور مرد انہیں دو نمبر ترقیاں دلوانے کے لیئے ان کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں کیونکہ بہر حال دونمبر کام دونمبر طریقے سے ہی ہو گا ۔ لیکن تکلیف اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی خاتون صلاحتیں بھی رکھتی ہو ، محنت کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہو ، آگے جانے کا حوصلہ اور خوبی بھی رکھتی ہو اور ایسے میں اسے بھی جان بوچھ کر واضح اور غیر واضح انداز میں یہ پیغام بھیجا جائے کہ جو ہماری مرضی سے نہیں چلتا ہم ہر جگہ اس کا راستہ بھی روکتے ہیں اور استحصال بھی کرتے ہیں ۔  ہم سب کے تجربے میں ایسی کوئی نہ کوئی متاثرہ خاتون کسی بھی شعبے کی ضرور ہو گی جو سیدھے راستے سے اپنی منزل تک پہنچنا اور کامیاب ہونا چاہتی ہے لیکن کہیں اسے باقاعدہ منصوبے کے تحت بدنام کر دیا گیا کہ اپنی عزت سمیٹنے کی فکر میں یہ سوچ کر کہ "جو باقی بچی ہے وہ بھی برباد نہ ہو جائے " سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی کونے میں چھپ جاتی ہے اور کہیں انہی لوگوں میں شامل ہو کر ان کے دونمبر گروہ کا حصہ بن جاتی ہے ۔ لیکن ایسی خواتین کے لیئے بھی یہ سوچنے اور مقابلہ کرنے کی گھڑی ہے کیونکہ اگر دودہ کی بالٹی میں غلاظت کی ایک بھی چھینٹ پڑ جائے تو پھر اس میں سے بچانے کا کچھ نہیں رہتا ۔ لہذا اگر وہ کچھ بچائے گی تو کیا بچائے گی ۔ اس لیئے  "جو ہونا تھا ہو گیا" جان کر انہیں اپنے پاؤں مضبوطی سے جما کر ایسے مافیا کا منہ توڑنے کی ضرورت ہے نہ کہ کونے میں چھپنا کوئی علاج ہے ۔ 
بات جب گھر سے باہر کے مردوں کی ہو تو کبھی ہم پیشہ افراد ، کبھی سینئیرز ، کبھی راستے میں کھڑے خودساختہ عاشق، توکبھی کوئی اور روپ عورت کو تاڑنے اور اس پر داؤ لگانے کے لیئے کسی گدہ کی طرح نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔ کہ کہاں اس خاتون کی کوئی کمزوری ان کے ہاتھ لگے اور کب وہ اس خاتون کا شکار کریں ۔ لیکن گھروں میں جھانکیں تو بدقسمتی سے وہاں بھی حالات پاکستانی عورت کے لیئے خاص طور پر اتنے سازگار دکھائی نہیں دیتے ہیں کہ ہم خاموش ہو جائیں ،  کہیں باپ بن کر ہمارے ہاں بیٹیوں کے تمام قانونی اور شرعی حقوق اپنے نام کروا لیئے جاتے ہیں تو کہیں بھائی بن کر بہن کو کاری کرنا اپنے لیئے حق سمجھا جاتا ہے ۔  کہیں شوہر بن کر نہ صرف اس کی کامیابی سے حسد کرنے لگتے ہیں بلکہ ہر ایک کے سامنے اسے ذلیل کر کےاور نیچا دکھا کر اپنے کمینے پن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے ۔  نہ کہیں کسی باپ اور بھائی کے ہاتھوں ہونے والے ظلم پر کوئی آنکھ اشکبار ہوتی ہے نہ کوئی ہاتھ امداد کو اس خاتون کی جانب اٹھتا ہے ۔ جہاں بات ہو گی اسی خاتون میں عیب ڈھونڈنے اور درپردہ مرد کی مردانگی کے کیڑے کو پالنے کی ہی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ کوئی گناہ یا غلطی اگر عورت سے انجانے میں بھی ہو جائے تو اس پر اسے سنگسار کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں اور کہیں مرد جان بوجھ کر بڑے سے بڑا گناہ کر لے تو اسے "مٹی پاؤ مٹی پاؤ" کہہ کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور جو خاتون ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش بھی کرے تو سب سے حیران کن معاملہ وہاں دیکھنے میں آتا کہ اس خاتون کی تباہی اور بدنامی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے والی آواز بھی کسی نہ کسی خاتون کی ہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ شاید اس مخالفت میں اٹھنے والی  آواز کو اٹھانے والی خاتون کو " لوگ کیا کہیں گے " کی دھمکی دیکر اپنی بقاء کے لیئے بزور اس جنگ میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو قانون کے نام پر ہمارا ملک نت نئے قوانین بنانے کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری جانب یہ عالم ہے کہ ہر گھڑی تیزاب سے جھلسی عورتوں اور بدفعلی کا شکار ہونے والے بچوں اور آنر کلنگ کے مظلوموں کی تعداد میں دن دونی اور رات چوگنی اضافہ ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ  محض قانون بنانے سے کہ " اس غلطی ہر ایک چانٹا اور اس غلطی پر دوسرا چھانٹا پڑنا ہے " کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار بتانے کے بعد دوسری بار سچ مچ وہ چانٹا اور چھانٹا پڑنا چاہیئے تاکہ اس کی گونج اور اس کی تکلیف اسے برسوں اپنے کرتوں کی یاد دلاتی رہے ۔  لیکن ہائے افسوس کہ خواتین کو زلف و رخسار کے قَِصّوں میں الجھانے والے مرد جب کسی اور کی عزت نہیں کرتے تو" وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ " کا راگ الاپ کر  اپنے مجروح بلکہ مردہ ضمیر کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کب تک ؟ موت کے وقت ہاتھ جوڑ جوڑ کر انہی خواتین سے معافیاں مانگنے سے کیا تلافی بھی ہو جاتی ہے ؟ کیا آپ اس دنیا میں قانون کو چکر دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک اور عدالت بھی ہے جہاں کوئی تعلق ، کوئی سفارش نہیں چلے گی ۔ وہاں چلے گی بلکہ دوڑے گی تو صرف مظلوم کی آہ اور اسی کی آواز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                                     .....................................

منگل، 3 مارچ، 2015

فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ ممتازملک ۔ پیرس


                                    
فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ
   (تحریر/ممتازملک ۔ پیرس)
                     
                         

یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے  دنیا میں عروج حاصل کیا ۔   لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی   من مانی  کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین  کے  ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں  "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا 

 ہے کہ اس دوران   14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔
نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور 
کا نفاذ ہوا
 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو  جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔  اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی۔ ۔ 
94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 
آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد  کو بھی قتل کردیا گیا۔  یوں صدیوں کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔  مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین  نے بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس 
میں شاہی ادارے  نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان  شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوں کا زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب  فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا  ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی  حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔ 
 انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین (جسے "کون دوغسے '' کا نام دیا گیا ) کے مطابق  خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔ اپیل کے باوجود بھی انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کے برابر بات تھی  ۔   انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں ووٹ کا حق صرف مالی حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔ 
خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی کی عادت کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔  
اسی سسلے میں (1882 ) میں "فرانسسی لیگ"
اور"فرانسسیسی یونین" کے "SUFFRAGETTETS KI" سُفغاژیٹ کی "
"OLYMPE dE GOUGES  " اولامپ دُو گوز"
"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)
اور کئی اور تنظیموں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔اور مذید  کئی مراحل حقوق کے حصول میں درپیش رہے ۔ 
لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے اس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie  جیولیٹ کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے  مشکل شعبے میں 
اپنے نام کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے دنیا کو فرانس کی خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔ 
فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ کی بیوہ گلبرٹ بروسولیٹ  کے بےمثال کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔  
 اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں  مزید 10 سال لگ گئے ۔ 
1944ء21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں  خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئی کہ خواتین نہ صرف ووٹ میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے 
برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئی ۔
 یوں اگلے سال  1945ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلی بار اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی میں کردار ادا کرنا شروع کیا ۔سچ یہ ہی ہے  کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔
فرانس زندہ باد ۔پاکستان پائندہ باد                        ........



اتوار، 1 مارچ، 2015

ڈنمارک سیمینار 2015 مارچ




السلام علیکم دوستو

انشاءاللہ ڈنمارک میں خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کے سوسالہ تقریبات کا آغاز 
اسی ماہ مارچ سے ہونے جا رہا ہے. اسی سلسلے کی کڑی کا یہ ایک بڑا سیمینار   
  اور متعلقہ پروگرامز ہوں گے. یہ پروگرام عالمی نوعیت کا ہے. اس میں مجھے
   ( ممتاز ملک ) اور پیرس میں ہماری معروف شاعرہ محترمہ سمن شاہ صاحبہ
 کو بهی خصوصی طور پر مندوبین میں شامل کیا گیا ہے  ہیں .امید ہے ان پروگرامز کی 
کامیابی کے لیئے ہمیں آپ کی بهرپور تائید اور دعائیں حاصل رہیں گی .

بہت شکریہ


ممتاز ملک
پیرس



بدھ، 25 فروری، 2015

ستم کی حد ہے ۔ اور وہ چلا گیا


ستم کی حد ہے 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)




مجھ کو مرنے بهی نہیں دیتے ستم کی حد ہے
زہر کا جام محبت سے پلانے والے

اب تیرے ہاتھ سے امید شفا ہم کو نہیں
 پونچھ نہ اشک شب و روز رلانے والے

 شوق میرا تها میرے بعد میں کیونکر گهر کو
 کاسنی رنگ کے پھولوں سے سجانے والے
                       
خط کے لکھنے کی بهی تکلیف گوارہ نہ ہوئی
وقت رخصت کو میرا ہاتھ دبانے والے

 فائدہ کیا ہے جو آباد نہیں ہو پائے
آرزوؤں کا جہاں دل میں بسانے والے

سچ کی تعبیر سے ممتاز نظر کیسے ملے 
جھوٹ کے سر پہ جیئےخواب دکھانے والے 
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 16 فروری، 2015

سفر نامہ / زندگی گزارنے کا نیا ڈھب


سفر نامہ ( حصہ اول)
زندگی گزارنے کا نیا ڈھب
ممتازملک ۔ پیرس



ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں کو سات پشتیں سنوارنے کی فکر میں ہی اپنی اکلوتی جان کو عذابوں میں گرفتار کر لیا ہے. اپنے اس پہلے اوراکلوتے  سیاحتی دورے نے ہمیں سکهایا کہ ہمارا دین ہمیں کم میں خوش رہنے اور کل کی فکر الله پرچھوڑنے کا جو درس دیتا ہے ۔ اس میں کس قدر بے حساب سکون اور اطمینان کا خزانہ چھپا دیا ہے . دنیا کے مال و متاع نہ جوڑنے  اور اولادوں کے غم نه پالنے کا جو سبق ہمارا دین دیتا ہے وہی اصل میں کامیابی کی کُنجی ہے۔ جب  فرانس کے اس علاقے کوغانسوں میں ہمیں چھٹیاں گزانے کا موقع ملا ۔  تو سوچا کہ اس  سفر کی روداد آپ سے بھی ضرور بانٹیں گے ۔
یہ سفرہمارے  علاقے کی میری جسے پاکستان میں شاید یونین کونسل کہتے ہیں کے تحت تھا جو کہ کم بجٹ میں اپنے علاقے کے لوگوں کے لیئے سیاحتی دوروں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ہماری رہنمائی کے لیئے ہمارے سینٹر کی نوجوان 22 سالہ فرنچ نومسلم جولی تھی ۔ جو ایک بہت اچھی گائیڈ ، میزبان اور مہربان دوست  ہیں ۔ عملے کی تین خواتین نے تقریبا 60 سے 70 خواتین و حضرات جو کہ اپنی اپنی فیملی کیساتھ تھے کو بڑی ہی مہارت سے اس سات دن  کے سفر میں ہر ایک چیز کا خیال رکھ کر اپنے ذمہ دار ہونے کا پورا احساس دلایا ۔ تمام فیملی کے بچوں کو الگ سے اوروالدین کو الگ سے رہائشی کمرہ ایک بڑی اور بہترین عمارت میں ( جو کہ ہماری میری کی ہی ملکیت ہے ) رہائش فراہم کی گئی ۔ کمروں میں صاف ستھرے پلنگ پر صاف ستھرے پلنگ پوش بچھے ہوئے تھے ۔ ہر کمرے میں ہر فرد کے لیئے الگ سے دیوارگیر الماری نصب تھی ۔  سب نے اپنے اپنے کمروں میں اپنا سامان ترتیب سے رکھا ۔ کیونکہ ساری رات سفر کے بعد ہم صبح پہنچے لہذا آج سب کو ناشتے کے بعد دوپہر تک سونا چاہیں تو سونے کی اجازت تھی ۔ ہر کمرے میں صاف ستھرے باتھ روم اور ٹائلٹس موجود تھے ۔ ٹھنڈے اور گرم پانی کا بہترین انتظام تھا ۔ سب نہا دھو کر کپڑے بدل کر تازہ دم ہو گئے ۔  ہر صبح 8 بجے سے 10 بجے تک کھانے کے بڑے ہال میں ترتیب سے لگے میز کرسیوں پر جام ۔ جیلی ۔ مکھن، ڈبل روٹی ،  کارن فلیکس ،  پھل ،چائے ، کافی ، دودہ  کیساتھ ناشتے کا بھر پور انتظام ہوتا ۔ ہم لوگ گیلری والے کمروں میں بڑی سے گیلری میں کھڑے ہو کر  پوری وادی کا نظارہ کر سکتے تھے۔ صبح کا ابھرتا ہوا سورج دیکھنے کا جتنا مزا یہاں آیا سچ پوچھیں تو کبھی پاکستان میں یہ نظارہ دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سحر میں بیدار نہیں ہوتے بلکہ یا تو آبادیوں کے بیچ گھروں میں یا اگر کسی پہاڑی مقام پر چلے بھی جائیں تو خواتین کے نصیب میں صبح یہ نظارہ دیکھنا  نہیں ہوتا ۔ کہ اس کے لیئے باہر نکلنا ہو گا جو کہ پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ۔ خیر اگست میں کیونکہ صبح 5 بجے ہی ہو جاتی ہے ۔اس لیئے فجر پڑھنے کیلئے اٹھ کر تسبیح کرتے ہوئے خنک سویر میں بڑی سی شال لپیٹے صبح کا سورج نکلتے دیکھنا بڑا ہی حسین لمحہ تھا ۔ سب لوگ اپنے کمروں میں ہیٹرز آن کیئے گرم بستر میں دبکے ہوئے تھے ۔ اور ہم بچوں کے ساتھ والے کمرے کے دروازے میں انہیں فورا اٹھنے اور نماز کی تیاری کا حکم دیکر بڑے سکون سے بڑی سی راہداری میں چہل قدمی کرتے ہوئے سورج میاں کا انتظار بھی کیا اور نظارہ بھی ۔ اور اسے اپنے موبائل فون کے کیمرے میں محفوظ بھی کر لیا ۔    
 یہ علاقہ پیرس سے تقریبا 7 گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ یہاں سے سوئیزر لینڈ کا بارڈر محض ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ یہاں پر دنیا کے ایسے  خطرناک ترین اور بہت ہی تنگ ترین پہاڑیی گزر گاہیں بھی ہیں ۔ جہاں ایک وقت میں ایک ہی گاڑی یا کوئی بس بامشکل ہی گزر سکتی ہے ۔اکثر کمزور دل خواتین و حضرات اس راستے سے یا تو سفر ہی نہیں کر سکتے یا پھر گاڑی سے اتر کر پیدل راستہ طے کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔

 ہر جگہ ان کی صفائی پسندی دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ شاید اس سرزمین پر ابھی آدم نے بھی قدم نہیں رکھا اور ہم ہی دنیا کے پہلے انسان ہیں جو یہاں پاؤں رکھ رہے ہیں ۔ کمال کی صفائی اور نفاست ہے ان لوگوں کے مزاج میں ، کمال کی شائستگی ہے ان کی گفتگو میں ،ان کا کمال کا احساس ذمہ داری ہے ۔ جس کی ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ کبھی بھی کسی سے راستہ پوچھ کر دیکھیں ، مجال ہے کہ کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈال کر ٹھٹھہ لگائے اس وقت تک آپ کو راستہ سمجھائیں گے جب تک آپ خود یہ نہ کہہ دیں کہ بہت بہت شکریہ مجھے سمجھ آ گیا ہے ۔ اور اپنے ہر کام کو بھول کر اتنی توجہ سے سمجھائیں گے کہ گویا دنیا میں اس سے ذیادہ ضروری کام تو کوئی ہے ہی نہیں ۔ ہر آدمی نے زندگی میں کوئی ایک فلیٹ یا گھر قسطوں پر لے لیا 12 پندرہ سالوں میں ادائیگی مکمل اور آپ اسی گھر میں رہتے رہتے ہی مالک مکان بھی بن گئے ۔ یہ تو ہے فرانس کی عمومی بات، لیکن کوغانسوں کی خاص بات یہ رہی کہ ہمیں پاکستان کے سوات۔ کاغان، ناران سب یہاں دیکھنے کو مل گیا۔ ٹھنڈے شفاف پانی کے چشمے ، یخ ندیاں ، آبشاریں ، بلند ترین پہاڑ ، خوبصورت صاف ستھرے غار، شاندار چئر لفٹس جس میں ایک ہی وقت میں چھ سے آٹھ لوگ باآسانی بیٹھ سکتے ہیں پورے ایک کمرے جتنا سائز تو ہوتا ہے ان کا۔ مجال ہے کہ مقررہ تعداد سے زیادہ کوئی اس میں سوار ہو سکے ۔ یہاں یورپ بھر سے بھی اور فرانس سے بھی بے شمار لوگ چھٹیوں میں کبھی سکیٹنگ کے لیئے ، کوہ پیمائی کے لیئے پیرا گلائڈر سائیکلسٹ ، گیسی غبارے میں سفر کرنے کے شوقین یہاں جوک در جوک آتے ہیں ۔ اور ہم جیسوں کو بھی محظوظ ہونے کا پورا موقع دیتے ہیں کیونکہ یہ ساری اکٹیوٹیز اپنی آنکھوں سے موقع پر دیکھنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے ۔  سردیوں میں یہاں لوگ یورب بھر سے سکیٹنگ کے لیئے آتے ہیں ۔ سچ کہیں تو اگر یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتے تو شاید کبھی یقین ہی نہ کرتے کہ ایسے دلفریب نظارے یہاں یورپ یا فرانس میں بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔ 
                                                              جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                               ممتازملک ۔ پیرس
                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 10 فروری، 2015

خدائی مہمان ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے





(10) خدائی مہمان 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس




کتنی عجیب سی بات ہے کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں کے نرم بستر ، اپنی ماں کی گرم آغوش اور اپنے گھر کا لذیذ اور تازہ کھانا چھوڑ کر پانی کی ایک چھاگل اور جیب میں گڑ کی ڈلی اور چنے رکھے ساری ساری رات خطرناک ترین محاذوں پر آنکھ چھپکے بنا گزار دیتے ہیں کہ ہماری قوم سکون کی نیند سو سکے ۔ اور پھر اسی قوم کے چند کم ظرف لوگ اٹھ کر بڑے ڈھیلی زبان سے انہیں یہ انعامی جملے سوغات کریں کہ کیا ہوا یہ فوجی ہی تو ہے اور فوج ہماری نوکر ہے ۔ اسے ہم تنخواہ دیتے ہیں ۔ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ فوج سے باہر کیوں ہیں؟ کیونکہ ان کا کام کوئی مشن نہیں ، محض نوکری ہے تو یا تو یہ نوکری کرنے والے بے وقوف لوگ ہیں یا پھر آپ  کو بھی  ان جیسی ایک آسان نوکری ضرور کرنی چاہیئے ۔ ایک چیونٹی بھی جہاں اپنے موسموں کے حساب سے اپنی رہائش اور خوراک کا محفوظ انتظام کرتی ہے تو وہاں کبھی ریت کے ٹیلوں پر، کبھی چٹیل میدانوں پر ، کبھی برف پوش چوٹیوں پر، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان کی دوبارہ اپنے گھر والوں سے جیتے جی ملاقات ہو سکے یا نہ ہو سکے ، جو ہر بار اپنے گھروالوں سے آخری ملاقات کر کے ہی ہنستے مسکراتے  اپنے محاذوں پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ کون ہیں یہ لوگ؟ 
یہ وہی تو نہیں جنہیں اقبال نے کہا کہ  
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی 
دو نِیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذت آشنائی 

یہ زمین پر لوگوں کی جانوں کی حفاظت سے عشق کرنے والے نایاب لوگ جو دکانوں پر نہیں بِکتے  ۔ جو دعاؤں سے مخصوص ماؤں کے ہاں جنم لیتے ہیں ۔ دنیا میں اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہیں اور غازی یا شہادت کا تاج سروں پر سجائے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ کہیں بوڑھی ماں رہ جاتی ہے ، کہیں معصوم بچے ان کی راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ، کہیں دلہنیں ہاتھوں پہ رچی مہندی میں انہیں کھوجتی رہ جاتی ہیں ، کہیں بہنیں اپنی ڈولی کو کندھا دینے کی آس میں دروازے پرنظر گاڑے منتظر رہ جاتی ہیں ، تو کہیں باپ اپنی کمر کی ہڈی ٹوٹنے کی درد لیئے لاٹھی کی تلاش میں گرا رہ جاتا ہے ، لیکن یہ شہزادے اپنی الگ ہی شان لیئے بے پروائی کا سہرا سر پر سجائے مسکراتے ہوئے جاں سے گزر جاتے ہیں ۔اور اگر ہم جیسے کم ظرف لوگ انہیں یہ سنا کر اپنا سینہ پھلا لیتے ہیں کہ یہ ہمارا نوکر ہے ۔ تو لعنت ہے ایسی سوچ پر ۔ کام کا عوضانہ ضرور ہوتا ہے ، لیکن جان کا کوئی عوضانہ نہیں ہوتا ہے ۔ جو انسان اپنی جان ہتھیلی پر لیئے اسے ہماری حفاظت پر لٹا چکا ہے اس کے نام اور خاندان کے سامنے تو ہمیں نظر اٹھا تے ہوئے بھی کم از کم چار بار ضرور سوچنا چاہیئے کہ 
 کیا یہ اتنا آسان ہے ؟
 کیا یہ میں بھی کر سکتا ہوں ؟
کیا یہ بیوقوفی ہے ؟
کیا میں اپنے بیٹے کی لاش یوں اسی طرح اتنے آرام سے اٹھا سکتا ہوں ؟ 
فوجی کبھی بھی بنایا نہیں جا سکتا۔ انسان یا تو پیدائشی ذہنی طور پر ہی فوجی ہوتا ہے یا پھر ایک عام آدمی ہوتا ہے ، کیونکہ یہ جذبہ ماں کی کوکھ سے لیئے ہی انسان اس دنیا میں آتا ہے ۔  ایسے میں یہ ہماری سوچ کی کمزوری ہے کہ کسی کی جان کی قیمت کبھی بھی محض چند ہزار ماہوار تنخواہ ہو سکتی ہے ۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ کہ فوجی صرف نوکری نہ ملنے کی وجہ سے فوج میں جاتا ہے تو یہ  ہماری خام خیالی بلکہ پست خیالی کا ثبوت ہے ۔ اگر ایسا ہو تا تو ہمارے نبی پاک ﷺ سرحد پر گزاری ہوئی پہرےداری کی  ایک رات کو ہزاروں راتوں کی عبادت سے بہتر  کبھی بھی  قرار نہ دیتے ۔ ہم انہیں اور کچھ نہیں دے سکتے تو نہ سہی ، لیکن کم از کم عزت تو دے ہی سکتے ہیں ۔ اور اپنی زبان کو بھی بات کرنے سے پہلے الفاظ تولنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ ہم کسی عام سے اپنے لیئے جینے والے انسان  کے لیئے بات نہیں کر رہے بلکہ ہم بات کر رہے ہیں خدائی مہمانوں کی ۔ جو ہمارے بیچ ہماری ہی حفاظت کے لیئے اللہ کے ہاں سے بھیجے جاتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ تنخواہوں پر جسم تو مل سکتے ہیں ۔ لیکن جذبے نہیں کیونکہ جذبوں کی کوئی قیمت  نہیں ہوتی۔
                       ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے 
اشاعت :2016ء 
●●●


نعت ۔ میرے آقا آ گئے ۔ اے شہہ محترم





آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
(کلام/ممتاز ملک۔پیرس)


آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

عبداللہ کی آنکھ کا تارا
آمنہ بی کا راج دلارا
فاطمہ بی کا بابا پیارا
چھا گئے جی چھا گئے 
کل جہاں پہ چھا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

بارہ ربیع الاول آیا 
ہر اک گھر میں خوشیاں لایا
ہر ماں کو بیٹا دلوایا
ماؤں کو بچا گئے 
غم سے بچا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

سارے جہاں میں رحمت بنکر
سارے یتیموں پہ شفقت بنکر
عورت کے لیئے عظمت بنکر
آسرے دلا گئے
بستیاں بسا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



بدھ، 4 فروری، 2015

عمر بھر کا روگ پولیو / ممتازملک ۔ پیرس

                                           


                         عمر بھر کا روگ پولیو     
                                      ممتازملک ۔ پیرس
                                           
والدین کی جہالت اور بے حسی کآ دنیا میں اولاد کے لئے سب سے بڑاعذاب یاتحفہ خوفناک بیماریوں کی صورت میں نازل ہوتا ہے. ہم بڑے حیران ہوئےجب اس بارپاکستان میں ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک پڑھی لکھی عورت کو دیکھا کہ جس  نے ہزار بار بهی گهرکی بیل بجانے پر یہ کہہ کر پولیو کے قطرے پلانےوالی ٹیم کی خواتین پر دروازہ نہیں کهولا کہ یہ قطرے ہمارے بچوں کو بانجه بنانے کے لیئے پلائے جاتے ہیں. اس په افسوس کہ اپنی پہلی بیٹی پر تین سال کی عمر تک نہ چل سکنے کی وجہ سے ہزاروں روپیہ خرچ کرنے والا شوہر بهی گهر میں بیوی کی ہاں میں ہاں ملا رہا تها  جو کہ خود بھی کوئی ان پڑھ دیہاتی نہیں ہے . یہ واقعہ کسی دیہات کا نہیں ہے بلکہ ایک بڑے شہر کے معروف علاقے کا ہے. دیہاتو ں میں رہنے والے تو نیم ملُاّؤں کے ہاتهوں کٹه پتلی بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن شہر وں میں رہنے والے ماں باپ کو کیا عقل بهی اب کوئ حکومت خرید کر دے گی.  اس بات کو میڈیا کے بهرپور ساته کی ضرورت ہے کہ اس بات کو اب بار بار اٹهایا جائے ،اشتہارات میں ,ٹاک شوز میں ,ڈرامواں میں ,کہ اپنی اولادوں کے دشمن بنکر انہیں ملک کے لیئے ایک ناسور اور اپنی ذ ندگی کے لیئے ایک امتحان نہ بنائیے.  اپنے بچوں کو تمام خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے پیدائش کے پہلے سال میں اور پانچ سال کی عمر تک تمام کورس مقررہ وقت پر لگوا کر انہیں زندگی میں تندرستی کا حسین تحفہ دیجئے ۔ کہ کسی بھی انسان کے لیئے دنیا میں صحت سے بڑا کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ کسی ماں باپ کی ذمہ داری اولاد کو پیدا کرناہی نہیں ہوتا بلکہ اس بچے کی اچھے ماحول میں پرورش ، اس کی خوراک صحت ، تعلیم اور تربیت کا انتظام کرنا بھی ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں ۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ابھی آپ اپنے بچے کو ان میں سے کچھ نہیں دے سکتے  تو اس بچے کے ساتھ آپ کی محبت کا اصل ثبوت یہ ہی ہے کہ آپ اسے اس دنیا میں لاکر  لولا لنگڑا ،بیمار ، جاہل ،بھوکا ،ننگا رکھنے کی بجائے اسے اس دنیا ہی میں نہ لائیں ۔ کیونکہ آپ نے یہ تو بہت سن لیا کہ بچے کی پیدائش کمانے والے دو ہاتھ ساتھ لاتی ہے لیکن آپ کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان دو ہاتھوں کو کمانے کے لائق ہونے تک کم از کم بیس بائیس سال تک پالنا بھی پڑتا ہے اور اسکے ہاتھوں کو کمانے والے ہاتھ بنانے سے پہلے اسکے ساتھ کھانے والا منہ اور بھوکا پیٹ  ہوتا ہے ۔  اس پر آپ اسے اپاہچ ہونے کے عذاب میں بھی مبتلا یہ کہہ کر کر دیں کہ جی اللہ کی مرضی ، تو ایسی کوئی بات حق نہیں ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ یہ انسان ہی ہے جو جانتے بوچھتے خود اپنے آپ کو مشکلوں اور تباہیوں میں ڈالتا ہے ۔ ویکسینیشن کے چند قطرے آپ کے گھر کے دروازے تک حکومت پلانے کو لے آئی ہے ۔ اب آپ اسے اپنے بچے تک نہ پہنچنے دیں تو آپ سے زیادہ بڑا دشمن اس بچے کا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا ۔ زندگی میں کبھی بھی اپنے بچے کے سامنے جب بھی آپ اس بات کا اعتراف کریں گے تو یاد رکھیں وہ آپ کو کبھی معاف نہیں کریگا ۔ اور اس کے معاف نہ کرنے پر خدا بھی آپکو کبھی معاف نہیں کریگا ۔ اپنے آپ کو اپنی اولاد کی نظر میں معتبر رکھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اپنے ہر میسر اور حلال ذرائع کو اپنی اولاد کی بہتر پرورش کے لیئے استعمال کریں ۔ اور انہیں زندگی میں جن جن برائیوں اور بیماریوں سے بچانے کے  جو بھی وسائل ممکن ہیں انہیں استعمال کرنے میں کوئی پس و پیش مت کیجیئے ۔ اچھے ماں باپ بنیئے ۔ اپنے فرائض ادا کیجیئے تاکہ آپ کی اولاد بھی آپ کے لیئے صدقئہ جاریہ بننے کی بھرپور کوشش بھی کرے اور خواہش بھی ۔
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/