ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 26 مارچ، 2015

بنگلے یا بھوت بنگلے ۔ ممتازملک ۔ پیرس



بنگلے یا بھوت بنگلے
ممتازملک ۔ پیرس


دنیا میں ایسے بے شمار لوگ رہتے ہیں جو ساری عمر شدید جِدوجہد کے بعد بھی بمشکل دو وقت کی روٹی یا زندگی میں ایک مکان بنانے کی خواہش پورے کر سکے ۔ اور جب یہ مکان بنانے کی آرزو پوری بھی ہوتی ہے تو ان کا اپنا اس مکان سے دوسرے جہان جانے کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔ یوں وہ درو دیوار پھر سے اولادوں میں اینٹ اینٹ کر کے یا تو بک جاتے ہیں یا پھر بانٹ دیئے جاتے ہیں ۔  اور سفر وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں سے کبھی پہلے مکان بنانے والے نے شروع کیا تھا ۔ 
لیکن دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں کتنا بھی بڑا گھر کنال تو کیا ایکڑز میں بھی مل جائے تو بھی کم ہی لگتا ہے ۔ ہم نے اکثر ایسے گھر بلکہ مکان دیکھے ہیں جہاں کسی مکین کا سالہا سال تک کوئی گزر نہیں ہوتا ۔ ایسے گھروں میں یا تو تالے لگے ہوتے ہیں یا ان میں ملازمین کی فوج آباد ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مکان بنانے کی  یہ  وبا پہلے نمبر پر تو ہمارے نودولتیوں اور افسر شاہی اور وزراٰء میں پائی جاتی ہے اور دوسرے نمبر پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی ۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے بچپن میں انہیں رہنے کو گھر نصیب ہی نہیں ہوئے ۔ اور جن کا بچپن زیادہ تر دربدری میں گزرا ۔ چھوٹی عمر کی ان محرومیوں نے بڑے ہو کر صرف گھر اور بڑے سے بڑا گھر بنانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔  اولادیں ملک سے باہر تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان جاتے بھی بہت کم ہیں لیکن گھر ہیں کہ بنائے ہی جا رہے ہیں ۔  کبھی ان گھروں پر قبضہ مافیا کی موج ہوتی ہے ، تو کبھی ان گھروں پر رشتہ داروں کی اجارہ داری ہوتی ہے  ۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ ان گھروں کی دیکھ بھال کے نام پر ہر ماہ اچھی خاصی رقم بھی اینٹھ لی جاتی ہے ۔ فرمائشی کھاتے الگ سے کھلتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بات ان سے پوچھ تاچھ میں کر بھی لی جائے تو باقاعدہ  مفت میں رہنے والے کی جانب سے آپ کو یہ جتایا جائے گا کہ بھائی شکر کرو ایک تو ہم تمہارے گھر میں رہتے ہیں اوپر سے تم ہم سے سوال جواب بھی کرتے ہو ۔ اگر ان گھروں کو بیچنے کی کوشش کی جائے تو بھی یہ ہی رشتہ دار اس میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ بنتے ہیں ۔ یا ان گھروں کو اونے پونے ہتھیانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس کی یہ وجہ تو ہے کہ ہمارے ملک میں مالک مکان کو کوئی بھی قانونی تحفظ حاصل ہی نہیں ہے ۔  دوسری جانب ایسے بھی مکان دیکھے کہ ان میں دو یا تین افراد ہی رہتے ہیں  ۔ اتنے بڑے بڑے لانز بلکہ سچ پوچھیں تو ان لانز کے نام پر اتنی اتنی زمین ہوتی ہے کہ ان میں فصل کاشت کی جائے تو سینکڑوں لوگوں کا سال بھر کا غلّہ کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ اتنے بڑے گھر کا کیا فائدہ کہ اس میں انسان ڈر ڈر کر اور گھٹ گھٹ کر مر جائے ۔ اپنے ہی گھر کے باہر شام ہوتے ہی جاتے ہوئے انسان گھبرانے لگے تو اس گھر سے باہر والی زمین کی ملکیت کا کیا فائدہ ۔ جہاں کسی کو کسی گھر والے کا نہ آتے ہوئے چہرہ نظر آئے نہ ہی جاتے ہوئے پتہ چلے ۔ جہاں اپنے ہی گھر والوں سے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ہفتوں بعد اتفاق سے ہی ملاقات ہوتی ہو ۔ایسے  گھر کی دیکھ بھال کرنا بھی گویا سفید ہاتھی رکھنے کے برابر ہی ہو تا ہے ۔ جہاں پر گھر کو سنبھالنے کے لیئے گھر کے افراد سے زیادہ گھر کے ملازمین کی تعداد ہوتی ہے ۔ ایکڑز پر پھیلے  یہ گھر ، گھر کے مالک کو انہیں سنبھالنے کے لیئے ہر حرام ،حلال ،جائز ،ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان گھروں کو شام کے بعد دیکھنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کسی قبرستان سے گزر رہا ہو ۔ ویسے سچ ہی تو ہے اتنے بڑے گھروں اور قبرستان میں ایک ہی قدر تو مشترک ہوتی ہے،  وہاں کی ویرانی اور سناٹا۔ انسان چاہے امیر شہر ہو یا فقیر شہر دونوں کی آخری منزل بھی ایک سی ہوتی ہے اور آخری لباس بھی ایک سا ہی ہوتا ہے ۔ پھر اتنا بڑا گھر بنانا بھی کیا کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے کہ جس میں جن گھر والوں کا نام لیکر تعمیرات ہوتی ہیں انہیں  کو دیکھنے کے لیئے آنکھیں ترس جاتی ہوں ۔ دیواریں بھی ہمیں حسرت سے دیکھتی اور پوچھتی نظر آتی ہیں کہ
                  مکان پوچھتے ہیں کہ تیرے مکیں ہیں کہاں 
سچی بات تو یہ ہی ہے کہ گھر اینٹوں سے نہیں گھر والوں اور گھر والوں کی محبت سے بنتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے انہوں نے بڑے بڑے گھروں کی بیماری  کا جھنجھٹ پالا ہی نہیں ۔ یہاں بہت بڑے سٹارز بڑے گھر لیتے ہیں تو انہیں سنبھالنے اور شوق پورا ہونے کے بعد وہ بھی انہیں بیچ کر جان چھڑاتے ہیں ۔ چھوٹے مکانوں میں اور فلیٹس نے یہاں کی زندگی کو بہت ساری پریشانیوں سے نجات دی ہے ۔ کیونکہ گھر جتنا بڑا ہو گا اس کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے ۔ یہاں پر زیادہ بڑے لانز کا بھی کوئی رواج نہیں ہے ۔ یہاں گھروں کا کام خود کرنے کی وجہ سے بھی بڑے بڑے گھروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اور سچ پوچھیں تو پاکستان میں بھی گھروں کا کام خود کرنا پڑ جائے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ وہاں بھی گھروں کے سائز خود بخود چھوٹے ہو جائیں گے  ۔ اور ہاں ان نفسیاتی مریضوں کا تو ہم نے ابھی ذکر کیا ہی نہیں جنہیں ملک کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر شہر میں ایک گھر بنانے کا مرض ہوتا ہے ۔ اسے ہم ہوموفوبیا کہیں گے ۔ جو ساری عمر اسی جنون میں گزار دیتے ہیں لیکن انہیں گھر تو کیا اپنے ہی گھر والوں کیساتھ رہنا بھی کبھی نصیب نہیں ہوتا ۔ ان کے لیئے ہم سب مل کر اجتماعی دعا کرتے ہیں شاعر سے معذرت کیساتھ کہ 
میرے خدا انہیں اتنا تو معتبر کر دے 
یہ جس مکان میں رہتے ہیں اسکو گھرکردے 
                                               آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




پیر، 23 مارچ، 2015

عجیب حال ہے دل کا ۔ ممتازملک ۔ پیرس




                                  عجیب حال ہے دل کا   
ممتازملک ۔ پیرس





جانے کتنی بار واہگہ بارڈر کی پرچم اترائی کی تقریب دیکھ چکی ہوں لیکن ہر بار اس میں جا کر ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس ہوتا ہے ۔ یہ تقریب کبھی بھی مجھے پرانی نہیں لگی ہر بار آنکھ کیا سوچ کر نم ہوتی ہے خدا جانے ۔ بنا کسی عمر کی تخصیص کے ہر ایک کے لہو کو گرما جاتی ہے یہ تقریب ۔ آج بھی ٹیلیویژن پر یہ تقریب دیکھتے ہوئے یہ ہی حال تھا ۔  عجیب حالت ہوتی ہے دل کی جسے لفظوں میں بیان کرنے سے ہمیشہ ہی قاصر رہتی ہوں ۔ 
شاید ان جاں بلب عاشقوں کے تصور سے کہ جنہوں نے اپنی ساسنسیں رب کعبہ سی  ضد کر کےاس سرحد کو چومنے کے لیئے ملک الموت سے بھی ادھار مانگ لی تھیں ۔ آخری سجدہ اس سرزمین کی مٹی کو چوم کر کرنے کے لیئے ۔ یہ کِیا اور کیسی دیوانگی ہو گی کہ دو سو کا قافلہ لیکر چلنے والے بھی دم آخر فقط دو یہاں پہنچے اور ایک نے دوسرے کی آنکھوں کے سامنے اس مٹی کو چوما سجدہ کیا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔
 خدایا وہ ارواح عاشقان وطن وہ ارواح مقدّسہ جو اسی سرحد پر کھڑی رہ گئیں کہ کوئی ناپاک نظر اس کی جانب نہ اٹھا سکے ۔ انہی کی عرش کو ہلاتی دعائیں اور صدائیں ہی تو ہیں جو ہر آفت کو اس سے ٹکرا کے  پلٹنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔
 ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے لیکن اہم اپنے پڑوسیوں کو اپنے عمل سے یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ تمہارے ہر ستم نے ہمیں ایک قدم اور آگے کی جانب دھکیلا ہے یہ ہمیں پیچھے کبھی نہیں لڑھکا سکے ۔ تو جب تمہاری دشمنی ہمیں آگے ہی جانے پر مجبور کرتی ہے تو کیوں نہ ایک دوسرے کو اپنی مرضی اور وقار کیساتھ جینے کی اجازت دیکر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جسے خود ہم پڑوسیوں کے بیچ فساد کا بیج بونے والے بھی تسلیم کرتے ہیں اور بارہا کرتے ہیں کہ اگر اس خطے کے ان دو ممالک میں دوستی یا امن ہو گیا تو ان جیسی ذہین قوم پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی ۔ پھر وقتی فوائد کے لالچ میں ہم اپنے ابدی فوائد کو کس طرح پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ یہ کام سیاستدانون نے تو کیاخوب ہی کیا ہے جس کا دل چاہتا ہے اپنے ذاتی فائدے کے لیئے کوئی بھی قانون بنوا لیتا ہے یا مٹوا دیتا ہے ۔ ان دو ممالک کے عوام کی سادگی کیساتھ یہ جذباتی مذاق ہوتا رہیگا ۔ جب تک ان ممالک کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے اور سچ اور انصاف کی باتوں پر ساتھ دینے کے لیئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔
پچیس سال تک سری لنکا میں خانہ جنگی کروانے والے بھی ان کی ہمتوں اور ثابت قدمی کے سامنے ریت کا ڈھیر ہی ثابت ہوئے ۔ ہم بھی اپنی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے آج چودہ سال پورے کر رہے ہیں ۔ ہم میں بہت سی کمیاں اور خامیاں  بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ہیں لیکن ہماری ایک خوبی ان سب باتوں پر حاوی ہو جاتی ہے وہ یہ کہ ہم گرتے ہیں ، روتے ہیں ، چلاتے ہیں لیکن پھر جلد ہی کپڑے جھاڑ کر نئے عزم سے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ۔
نہیں یقین تو دیکھیئے ہمارے شہیدوں کے اہل خانہ کے چہروں کو ، دیکھئیے سانحہ پشاور کے گھر والوں کی صورتوں کو ۔ جواب خود بخود مل جائے گا ۔ بس ضرورت ہے تو اپنی راہوں کی صحیح سمت متعین کرنے کی ۔
       وگرنہ!
                              پلٹنا چھپٹنا چھپٹ کر پلٹنا 
                              لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 22 مارچ، 2015

گریباں چاک کر ڈالو ۔ کالم



گریباں چاک کر ڈالو
ممتازملک ۔ پیرس


عالمی اخبار میں آج کل مردوں پر خواتین کی صلاحیتوں کو دبانے کے حوالے سے جو بحث چل نکلی ہے  ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر بات کرنا واقعی بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ یہ بات تو ایک حد تک ہضم ہوتی ہے کہ کچھ خواتین اپنے اندر کی ٹیلنٹ کی کسی بھی کمی کو پورا کرنے کے لیئے نازو انداز اور عشوہ طرازیوں کا سہارا لیتی ہیں ۔ اور مرد انہیں دو نمبر ترقیاں دلوانے کے لیئے ان کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں کیونکہ بہر حال دونمبر کام دونمبر طریقے سے ہی ہو گا ۔ لیکن تکلیف اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی خاتون صلاحتیں بھی رکھتی ہو ، محنت کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہو ، آگے جانے کا حوصلہ اور خوبی بھی رکھتی ہو اور ایسے میں اسے بھی جان بوچھ کر واضح اور غیر واضح انداز میں یہ پیغام بھیجا جائے کہ جو ہماری مرضی سے نہیں چلتا ہم ہر جگہ اس کا راستہ بھی روکتے ہیں اور استحصال بھی کرتے ہیں ۔  ہم سب کے تجربے میں ایسی کوئی نہ کوئی متاثرہ خاتون کسی بھی شعبے کی ضرور ہو گی جو سیدھے راستے سے اپنی منزل تک پہنچنا اور کامیاب ہونا چاہتی ہے لیکن کہیں اسے باقاعدہ منصوبے کے تحت بدنام کر دیا گیا کہ اپنی عزت سمیٹنے کی فکر میں یہ سوچ کر کہ "جو باقی بچی ہے وہ بھی برباد نہ ہو جائے " سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی کونے میں چھپ جاتی ہے اور کہیں انہی لوگوں میں شامل ہو کر ان کے دونمبر گروہ کا حصہ بن جاتی ہے ۔ لیکن ایسی خواتین کے لیئے بھی یہ سوچنے اور مقابلہ کرنے کی گھڑی ہے کیونکہ اگر دودہ کی بالٹی میں غلاظت کی ایک بھی چھینٹ پڑ جائے تو پھر اس میں سے بچانے کا کچھ نہیں رہتا ۔ لہذا اگر وہ کچھ بچائے گی تو کیا بچائے گی ۔ اس لیئے  "جو ہونا تھا ہو گیا" جان کر انہیں اپنے پاؤں مضبوطی سے جما کر ایسے مافیا کا منہ توڑنے کی ضرورت ہے نہ کہ کونے میں چھپنا کوئی علاج ہے ۔ 
بات جب گھر سے باہر کے مردوں کی ہو تو کبھی ہم پیشہ افراد ، کبھی سینئیرز ، کبھی راستے میں کھڑے خودساختہ عاشق، توکبھی کوئی اور روپ عورت کو تاڑنے اور اس پر داؤ لگانے کے لیئے کسی گدہ کی طرح نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔ کہ کہاں اس خاتون کی کوئی کمزوری ان کے ہاتھ لگے اور کب وہ اس خاتون کا شکار کریں ۔ لیکن گھروں میں جھانکیں تو بدقسمتی سے وہاں بھی حالات پاکستانی عورت کے لیئے خاص طور پر اتنے سازگار دکھائی نہیں دیتے ہیں کہ ہم خاموش ہو جائیں ،  کہیں باپ بن کر ہمارے ہاں بیٹیوں کے تمام قانونی اور شرعی حقوق اپنے نام کروا لیئے جاتے ہیں تو کہیں بھائی بن کر بہن کو کاری کرنا اپنے لیئے حق سمجھا جاتا ہے ۔  کہیں شوہر بن کر نہ صرف اس کی کامیابی سے حسد کرنے لگتے ہیں بلکہ ہر ایک کے سامنے اسے ذلیل کر کےاور نیچا دکھا کر اپنے کمینے پن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے ۔  نہ کہیں کسی باپ اور بھائی کے ہاتھوں ہونے والے ظلم پر کوئی آنکھ اشکبار ہوتی ہے نہ کوئی ہاتھ امداد کو اس خاتون کی جانب اٹھتا ہے ۔ جہاں بات ہو گی اسی خاتون میں عیب ڈھونڈنے اور درپردہ مرد کی مردانگی کے کیڑے کو پالنے کی ہی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ کوئی گناہ یا غلطی اگر عورت سے انجانے میں بھی ہو جائے تو اس پر اسے سنگسار کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں اور کہیں مرد جان بوجھ کر بڑے سے بڑا گناہ کر لے تو اسے "مٹی پاؤ مٹی پاؤ" کہہ کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور جو خاتون ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش بھی کرے تو سب سے حیران کن معاملہ وہاں دیکھنے میں آتا کہ اس خاتون کی تباہی اور بدنامی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے والی آواز بھی کسی نہ کسی خاتون کی ہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ شاید اس مخالفت میں اٹھنے والی  آواز کو اٹھانے والی خاتون کو " لوگ کیا کہیں گے " کی دھمکی دیکر اپنی بقاء کے لیئے بزور اس جنگ میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو قانون کے نام پر ہمارا ملک نت نئے قوانین بنانے کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری جانب یہ عالم ہے کہ ہر گھڑی تیزاب سے جھلسی عورتوں اور بدفعلی کا شکار ہونے والے بچوں اور آنر کلنگ کے مظلوموں کی تعداد میں دن دونی اور رات چوگنی اضافہ ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ  محض قانون بنانے سے کہ " اس غلطی ہر ایک چانٹا اور اس غلطی پر دوسرا چھانٹا پڑنا ہے " کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار بتانے کے بعد دوسری بار سچ مچ وہ چانٹا اور چھانٹا پڑنا چاہیئے تاکہ اس کی گونج اور اس کی تکلیف اسے برسوں اپنے کرتوں کی یاد دلاتی رہے ۔  لیکن ہائے افسوس کہ خواتین کو زلف و رخسار کے قَِصّوں میں الجھانے والے مرد جب کسی اور کی عزت نہیں کرتے تو" وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ " کا راگ الاپ کر  اپنے مجروح بلکہ مردہ ضمیر کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کب تک ؟ موت کے وقت ہاتھ جوڑ جوڑ کر انہی خواتین سے معافیاں مانگنے سے کیا تلافی بھی ہو جاتی ہے ؟ کیا آپ اس دنیا میں قانون کو چکر دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک اور عدالت بھی ہے جہاں کوئی تعلق ، کوئی سفارش نہیں چلے گی ۔ وہاں چلے گی بلکہ دوڑے گی تو صرف مظلوم کی آہ اور اسی کی آواز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                                     .....................................

منگل، 3 مارچ، 2015

فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ ممتازملک ۔ پیرس


                                    
فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ
   (تحریر/ممتازملک ۔ پیرس)
                     
                         

یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے  دنیا میں عروج حاصل کیا ۔   لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی   من مانی  کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین  کے  ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں  "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا 

 ہے کہ اس دوران   14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔
نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور 
کا نفاذ ہوا
 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو  جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔  اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی۔ ۔ 
94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 
آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد  کو بھی قتل کردیا گیا۔  یوں صدیوں کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔  مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین  نے بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس 
میں شاہی ادارے  نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان  شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوں کا زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب  فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا  ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی  حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔ 
 انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین (جسے "کون دوغسے '' کا نام دیا گیا ) کے مطابق  خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔ اپیل کے باوجود بھی انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کے برابر بات تھی  ۔   انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں ووٹ کا حق صرف مالی حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔ 
خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی کی عادت کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔  
اسی سسلے میں (1882 ) میں "فرانسسی لیگ"
اور"فرانسسیسی یونین" کے "SUFFRAGETTETS KI" سُفغاژیٹ کی "
"OLYMPE dE GOUGES  " اولامپ دُو گوز"
"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)
اور کئی اور تنظیموں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔اور مذید  کئی مراحل حقوق کے حصول میں درپیش رہے ۔ 
لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے اس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie  جیولیٹ کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے  مشکل شعبے میں 
اپنے نام کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے دنیا کو فرانس کی خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔ 
فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ کی بیوہ گلبرٹ بروسولیٹ  کے بےمثال کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔  
 اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں  مزید 10 سال لگ گئے ۔ 
1944ء21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں  خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئی کہ خواتین نہ صرف ووٹ میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے 
برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئی ۔
 یوں اگلے سال  1945ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلی بار اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی میں کردار ادا کرنا شروع کیا ۔سچ یہ ہی ہے  کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔
فرانس زندہ باد ۔پاکستان پائندہ باد                        ........



اتوار، 1 مارچ، 2015

ڈنمارک سیمینار 2015 مارچ




السلام علیکم دوستو

انشاءاللہ ڈنمارک میں خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کے سوسالہ تقریبات کا آغاز 
اسی ماہ مارچ سے ہونے جا رہا ہے. اسی سلسلے کی کڑی کا یہ ایک بڑا سیمینار   
  اور متعلقہ پروگرامز ہوں گے. یہ پروگرام عالمی نوعیت کا ہے. اس میں مجھے
   ( ممتاز ملک ) اور پیرس میں ہماری معروف شاعرہ محترمہ سمن شاہ صاحبہ
 کو بهی خصوصی طور پر مندوبین میں شامل کیا گیا ہے  ہیں .امید ہے ان پروگرامز کی 
کامیابی کے لیئے ہمیں آپ کی بهرپور تائید اور دعائیں حاصل رہیں گی .

بہت شکریہ


ممتاز ملک
پیرس



بدھ، 25 فروری، 2015

ستم کی حد ہے ۔ اور وہ چلا گیا


ستم کی حد ہے 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)




مجھ کو مرنے بهی نہیں دیتے ستم کی حد ہے
زہر کا جام محبت سے پلانے والے

اب تیرے ہاتھ سے امید شفا ہم کو نہیں
 پونچھ نہ اشک شب و روز رلانے والے

 شوق میرا تها میرے بعد میں کیونکر گهر کو
 کاسنی رنگ کے پھولوں سے سجانے والے
                       
خط کے لکھنے کی بهی تکلیف گوارہ نہ ہوئی
وقت رخصت کو میرا ہاتھ دبانے والے

 فائدہ کیا ہے جو آباد نہیں ہو پائے
آرزوؤں کا جہاں دل میں بسانے والے

سچ کی تعبیر سے ممتاز نظر کیسے ملے 
جھوٹ کے سر پہ جیئےخواب دکھانے والے 
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 16 فروری، 2015

سفر نامہ / زندگی گزارنے کا نیا ڈھب


سفر نامہ ( حصہ اول)
زندگی گزارنے کا نیا ڈھب
ممتازملک ۔ پیرس



ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں کو سات پشتیں سنوارنے کی فکر میں ہی اپنی اکلوتی جان کو عذابوں میں گرفتار کر لیا ہے. اپنے اس پہلے اوراکلوتے  سیاحتی دورے نے ہمیں سکهایا کہ ہمارا دین ہمیں کم میں خوش رہنے اور کل کی فکر الله پرچھوڑنے کا جو درس دیتا ہے ۔ اس میں کس قدر بے حساب سکون اور اطمینان کا خزانہ چھپا دیا ہے . دنیا کے مال و متاع نہ جوڑنے  اور اولادوں کے غم نه پالنے کا جو سبق ہمارا دین دیتا ہے وہی اصل میں کامیابی کی کُنجی ہے۔ جب  فرانس کے اس علاقے کوغانسوں میں ہمیں چھٹیاں گزانے کا موقع ملا ۔  تو سوچا کہ اس  سفر کی روداد آپ سے بھی ضرور بانٹیں گے ۔
یہ سفرہمارے  علاقے کی میری جسے پاکستان میں شاید یونین کونسل کہتے ہیں کے تحت تھا جو کہ کم بجٹ میں اپنے علاقے کے لوگوں کے لیئے سیاحتی دوروں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ہماری رہنمائی کے لیئے ہمارے سینٹر کی نوجوان 22 سالہ فرنچ نومسلم جولی تھی ۔ جو ایک بہت اچھی گائیڈ ، میزبان اور مہربان دوست  ہیں ۔ عملے کی تین خواتین نے تقریبا 60 سے 70 خواتین و حضرات جو کہ اپنی اپنی فیملی کیساتھ تھے کو بڑی ہی مہارت سے اس سات دن  کے سفر میں ہر ایک چیز کا خیال رکھ کر اپنے ذمہ دار ہونے کا پورا احساس دلایا ۔ تمام فیملی کے بچوں کو الگ سے اوروالدین کو الگ سے رہائشی کمرہ ایک بڑی اور بہترین عمارت میں ( جو کہ ہماری میری کی ہی ملکیت ہے ) رہائش فراہم کی گئی ۔ کمروں میں صاف ستھرے پلنگ پر صاف ستھرے پلنگ پوش بچھے ہوئے تھے ۔ ہر کمرے میں ہر فرد کے لیئے الگ سے دیوارگیر الماری نصب تھی ۔  سب نے اپنے اپنے کمروں میں اپنا سامان ترتیب سے رکھا ۔ کیونکہ ساری رات سفر کے بعد ہم صبح پہنچے لہذا آج سب کو ناشتے کے بعد دوپہر تک سونا چاہیں تو سونے کی اجازت تھی ۔ ہر کمرے میں صاف ستھرے باتھ روم اور ٹائلٹس موجود تھے ۔ ٹھنڈے اور گرم پانی کا بہترین انتظام تھا ۔ سب نہا دھو کر کپڑے بدل کر تازہ دم ہو گئے ۔  ہر صبح 8 بجے سے 10 بجے تک کھانے کے بڑے ہال میں ترتیب سے لگے میز کرسیوں پر جام ۔ جیلی ۔ مکھن، ڈبل روٹی ،  کارن فلیکس ،  پھل ،چائے ، کافی ، دودہ  کیساتھ ناشتے کا بھر پور انتظام ہوتا ۔ ہم لوگ گیلری والے کمروں میں بڑی سے گیلری میں کھڑے ہو کر  پوری وادی کا نظارہ کر سکتے تھے۔ صبح کا ابھرتا ہوا سورج دیکھنے کا جتنا مزا یہاں آیا سچ پوچھیں تو کبھی پاکستان میں یہ نظارہ دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سحر میں بیدار نہیں ہوتے بلکہ یا تو آبادیوں کے بیچ گھروں میں یا اگر کسی پہاڑی مقام پر چلے بھی جائیں تو خواتین کے نصیب میں صبح یہ نظارہ دیکھنا  نہیں ہوتا ۔ کہ اس کے لیئے باہر نکلنا ہو گا جو کہ پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ۔ خیر اگست میں کیونکہ صبح 5 بجے ہی ہو جاتی ہے ۔اس لیئے فجر پڑھنے کیلئے اٹھ کر تسبیح کرتے ہوئے خنک سویر میں بڑی سی شال لپیٹے صبح کا سورج نکلتے دیکھنا بڑا ہی حسین لمحہ تھا ۔ سب لوگ اپنے کمروں میں ہیٹرز آن کیئے گرم بستر میں دبکے ہوئے تھے ۔ اور ہم بچوں کے ساتھ والے کمرے کے دروازے میں انہیں فورا اٹھنے اور نماز کی تیاری کا حکم دیکر بڑے سکون سے بڑی سی راہداری میں چہل قدمی کرتے ہوئے سورج میاں کا انتظار بھی کیا اور نظارہ بھی ۔ اور اسے اپنے موبائل فون کے کیمرے میں محفوظ بھی کر لیا ۔    
 یہ علاقہ پیرس سے تقریبا 7 گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ یہاں سے سوئیزر لینڈ کا بارڈر محض ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ یہاں پر دنیا کے ایسے  خطرناک ترین اور بہت ہی تنگ ترین پہاڑیی گزر گاہیں بھی ہیں ۔ جہاں ایک وقت میں ایک ہی گاڑی یا کوئی بس بامشکل ہی گزر سکتی ہے ۔اکثر کمزور دل خواتین و حضرات اس راستے سے یا تو سفر ہی نہیں کر سکتے یا پھر گاڑی سے اتر کر پیدل راستہ طے کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔

 ہر جگہ ان کی صفائی پسندی دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ شاید اس سرزمین پر ابھی آدم نے بھی قدم نہیں رکھا اور ہم ہی دنیا کے پہلے انسان ہیں جو یہاں پاؤں رکھ رہے ہیں ۔ کمال کی صفائی اور نفاست ہے ان لوگوں کے مزاج میں ، کمال کی شائستگی ہے ان کی گفتگو میں ،ان کا کمال کا احساس ذمہ داری ہے ۔ جس کی ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ کبھی بھی کسی سے راستہ پوچھ کر دیکھیں ، مجال ہے کہ کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈال کر ٹھٹھہ لگائے اس وقت تک آپ کو راستہ سمجھائیں گے جب تک آپ خود یہ نہ کہہ دیں کہ بہت بہت شکریہ مجھے سمجھ آ گیا ہے ۔ اور اپنے ہر کام کو بھول کر اتنی توجہ سے سمجھائیں گے کہ گویا دنیا میں اس سے ذیادہ ضروری کام تو کوئی ہے ہی نہیں ۔ ہر آدمی نے زندگی میں کوئی ایک فلیٹ یا گھر قسطوں پر لے لیا 12 پندرہ سالوں میں ادائیگی مکمل اور آپ اسی گھر میں رہتے رہتے ہی مالک مکان بھی بن گئے ۔ یہ تو ہے فرانس کی عمومی بات، لیکن کوغانسوں کی خاص بات یہ رہی کہ ہمیں پاکستان کے سوات۔ کاغان، ناران سب یہاں دیکھنے کو مل گیا۔ ٹھنڈے شفاف پانی کے چشمے ، یخ ندیاں ، آبشاریں ، بلند ترین پہاڑ ، خوبصورت صاف ستھرے غار، شاندار چئر لفٹس جس میں ایک ہی وقت میں چھ سے آٹھ لوگ باآسانی بیٹھ سکتے ہیں پورے ایک کمرے جتنا سائز تو ہوتا ہے ان کا۔ مجال ہے کہ مقررہ تعداد سے زیادہ کوئی اس میں سوار ہو سکے ۔ یہاں یورپ بھر سے بھی اور فرانس سے بھی بے شمار لوگ چھٹیوں میں کبھی سکیٹنگ کے لیئے ، کوہ پیمائی کے لیئے پیرا گلائڈر سائیکلسٹ ، گیسی غبارے میں سفر کرنے کے شوقین یہاں جوک در جوک آتے ہیں ۔ اور ہم جیسوں کو بھی محظوظ ہونے کا پورا موقع دیتے ہیں کیونکہ یہ ساری اکٹیوٹیز اپنی آنکھوں سے موقع پر دیکھنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے ۔  سردیوں میں یہاں لوگ یورب بھر سے سکیٹنگ کے لیئے آتے ہیں ۔ سچ کہیں تو اگر یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتے تو شاید کبھی یقین ہی نہ کرتے کہ ایسے دلفریب نظارے یہاں یورپ یا فرانس میں بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔ 
                                                              جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                               ممتازملک ۔ پیرس
                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 10 فروری، 2015

خدائی مہمان ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے





(10) خدائی مہمان 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس




کتنی عجیب سی بات ہے کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں کے نرم بستر ، اپنی ماں کی گرم آغوش اور اپنے گھر کا لذیذ اور تازہ کھانا چھوڑ کر پانی کی ایک چھاگل اور جیب میں گڑ کی ڈلی اور چنے رکھے ساری ساری رات خطرناک ترین محاذوں پر آنکھ چھپکے بنا گزار دیتے ہیں کہ ہماری قوم سکون کی نیند سو سکے ۔ اور پھر اسی قوم کے چند کم ظرف لوگ اٹھ کر بڑے ڈھیلی زبان سے انہیں یہ انعامی جملے سوغات کریں کہ کیا ہوا یہ فوجی ہی تو ہے اور فوج ہماری نوکر ہے ۔ اسے ہم تنخواہ دیتے ہیں ۔ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ فوج سے باہر کیوں ہیں؟ کیونکہ ان کا کام کوئی مشن نہیں ، محض نوکری ہے تو یا تو یہ نوکری کرنے والے بے وقوف لوگ ہیں یا پھر آپ  کو بھی  ان جیسی ایک آسان نوکری ضرور کرنی چاہیئے ۔ ایک چیونٹی بھی جہاں اپنے موسموں کے حساب سے اپنی رہائش اور خوراک کا محفوظ انتظام کرتی ہے تو وہاں کبھی ریت کے ٹیلوں پر، کبھی چٹیل میدانوں پر ، کبھی برف پوش چوٹیوں پر، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان کی دوبارہ اپنے گھر والوں سے جیتے جی ملاقات ہو سکے یا نہ ہو سکے ، جو ہر بار اپنے گھروالوں سے آخری ملاقات کر کے ہی ہنستے مسکراتے  اپنے محاذوں پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ کون ہیں یہ لوگ؟ 
یہ وہی تو نہیں جنہیں اقبال نے کہا کہ  
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی 
دو نِیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذت آشنائی 

یہ زمین پر لوگوں کی جانوں کی حفاظت سے عشق کرنے والے نایاب لوگ جو دکانوں پر نہیں بِکتے  ۔ جو دعاؤں سے مخصوص ماؤں کے ہاں جنم لیتے ہیں ۔ دنیا میں اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہیں اور غازی یا شہادت کا تاج سروں پر سجائے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ کہیں بوڑھی ماں رہ جاتی ہے ، کہیں معصوم بچے ان کی راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ، کہیں دلہنیں ہاتھوں پہ رچی مہندی میں انہیں کھوجتی رہ جاتی ہیں ، کہیں بہنیں اپنی ڈولی کو کندھا دینے کی آس میں دروازے پرنظر گاڑے منتظر رہ جاتی ہیں ، تو کہیں باپ اپنی کمر کی ہڈی ٹوٹنے کی درد لیئے لاٹھی کی تلاش میں گرا رہ جاتا ہے ، لیکن یہ شہزادے اپنی الگ ہی شان لیئے بے پروائی کا سہرا سر پر سجائے مسکراتے ہوئے جاں سے گزر جاتے ہیں ۔اور اگر ہم جیسے کم ظرف لوگ انہیں یہ سنا کر اپنا سینہ پھلا لیتے ہیں کہ یہ ہمارا نوکر ہے ۔ تو لعنت ہے ایسی سوچ پر ۔ کام کا عوضانہ ضرور ہوتا ہے ، لیکن جان کا کوئی عوضانہ نہیں ہوتا ہے ۔ جو انسان اپنی جان ہتھیلی پر لیئے اسے ہماری حفاظت پر لٹا چکا ہے اس کے نام اور خاندان کے سامنے تو ہمیں نظر اٹھا تے ہوئے بھی کم از کم چار بار ضرور سوچنا چاہیئے کہ 
 کیا یہ اتنا آسان ہے ؟
 کیا یہ میں بھی کر سکتا ہوں ؟
کیا یہ بیوقوفی ہے ؟
کیا میں اپنے بیٹے کی لاش یوں اسی طرح اتنے آرام سے اٹھا سکتا ہوں ؟ 
فوجی کبھی بھی بنایا نہیں جا سکتا۔ انسان یا تو پیدائشی ذہنی طور پر ہی فوجی ہوتا ہے یا پھر ایک عام آدمی ہوتا ہے ، کیونکہ یہ جذبہ ماں کی کوکھ سے لیئے ہی انسان اس دنیا میں آتا ہے ۔  ایسے میں یہ ہماری سوچ کی کمزوری ہے کہ کسی کی جان کی قیمت کبھی بھی محض چند ہزار ماہوار تنخواہ ہو سکتی ہے ۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ کہ فوجی صرف نوکری نہ ملنے کی وجہ سے فوج میں جاتا ہے تو یہ  ہماری خام خیالی بلکہ پست خیالی کا ثبوت ہے ۔ اگر ایسا ہو تا تو ہمارے نبی پاک ﷺ سرحد پر گزاری ہوئی پہرےداری کی  ایک رات کو ہزاروں راتوں کی عبادت سے بہتر  کبھی بھی  قرار نہ دیتے ۔ ہم انہیں اور کچھ نہیں دے سکتے تو نہ سہی ، لیکن کم از کم عزت تو دے ہی سکتے ہیں ۔ اور اپنی زبان کو بھی بات کرنے سے پہلے الفاظ تولنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ ہم کسی عام سے اپنے لیئے جینے والے انسان  کے لیئے بات نہیں کر رہے بلکہ ہم بات کر رہے ہیں خدائی مہمانوں کی ۔ جو ہمارے بیچ ہماری ہی حفاظت کے لیئے اللہ کے ہاں سے بھیجے جاتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ تنخواہوں پر جسم تو مل سکتے ہیں ۔ لیکن جذبے نہیں کیونکہ جذبوں کی کوئی قیمت  نہیں ہوتی۔
                       ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے 
اشاعت :2016ء 
●●●


نعت ۔ میرے آقا آ گئے ۔ اے شہہ محترم





آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
(کلام/ممتاز ملک۔پیرس)


آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

عبداللہ کی آنکھ کا تارا
آمنہ بی کا راج دلارا
فاطمہ بی کا بابا پیارا
چھا گئے جی چھا گئے 
کل جہاں پہ چھا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

بارہ ربیع الاول آیا 
ہر اک گھر میں خوشیاں لایا
ہر ماں کو بیٹا دلوایا
ماؤں کو بچا گئے 
غم سے بچا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

سارے جہاں میں رحمت بنکر
سارے یتیموں پہ شفقت بنکر
عورت کے لیئے عظمت بنکر
آسرے دلا گئے
بستیاں بسا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



بدھ، 4 فروری، 2015

عمر بھر کا روگ پولیو / ممتازملک ۔ پیرس

                                           


                         عمر بھر کا روگ پولیو     
                                      ممتازملک ۔ پیرس
                                           
والدین کی جہالت اور بے حسی کآ دنیا میں اولاد کے لئے سب سے بڑاعذاب یاتحفہ خوفناک بیماریوں کی صورت میں نازل ہوتا ہے. ہم بڑے حیران ہوئےجب اس بارپاکستان میں ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک پڑھی لکھی عورت کو دیکھا کہ جس  نے ہزار بار بهی گهرکی بیل بجانے پر یہ کہہ کر پولیو کے قطرے پلانےوالی ٹیم کی خواتین پر دروازہ نہیں کهولا کہ یہ قطرے ہمارے بچوں کو بانجه بنانے کے لیئے پلائے جاتے ہیں. اس په افسوس کہ اپنی پہلی بیٹی پر تین سال کی عمر تک نہ چل سکنے کی وجہ سے ہزاروں روپیہ خرچ کرنے والا شوہر بهی گهر میں بیوی کی ہاں میں ہاں ملا رہا تها  جو کہ خود بھی کوئی ان پڑھ دیہاتی نہیں ہے . یہ واقعہ کسی دیہات کا نہیں ہے بلکہ ایک بڑے شہر کے معروف علاقے کا ہے. دیہاتو ں میں رہنے والے تو نیم ملُاّؤں کے ہاتهوں کٹه پتلی بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن شہر وں میں رہنے والے ماں باپ کو کیا عقل بهی اب کوئ حکومت خرید کر دے گی.  اس بات کو میڈیا کے بهرپور ساته کی ضرورت ہے کہ اس بات کو اب بار بار اٹهایا جائے ،اشتہارات میں ,ٹاک شوز میں ,ڈرامواں میں ,کہ اپنی اولادوں کے دشمن بنکر انہیں ملک کے لیئے ایک ناسور اور اپنی ذ ندگی کے لیئے ایک امتحان نہ بنائیے.  اپنے بچوں کو تمام خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے پیدائش کے پہلے سال میں اور پانچ سال کی عمر تک تمام کورس مقررہ وقت پر لگوا کر انہیں زندگی میں تندرستی کا حسین تحفہ دیجئے ۔ کہ کسی بھی انسان کے لیئے دنیا میں صحت سے بڑا کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ کسی ماں باپ کی ذمہ داری اولاد کو پیدا کرناہی نہیں ہوتا بلکہ اس بچے کی اچھے ماحول میں پرورش ، اس کی خوراک صحت ، تعلیم اور تربیت کا انتظام کرنا بھی ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں ۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ابھی آپ اپنے بچے کو ان میں سے کچھ نہیں دے سکتے  تو اس بچے کے ساتھ آپ کی محبت کا اصل ثبوت یہ ہی ہے کہ آپ اسے اس دنیا میں لاکر  لولا لنگڑا ،بیمار ، جاہل ،بھوکا ،ننگا رکھنے کی بجائے اسے اس دنیا ہی میں نہ لائیں ۔ کیونکہ آپ نے یہ تو بہت سن لیا کہ بچے کی پیدائش کمانے والے دو ہاتھ ساتھ لاتی ہے لیکن آپ کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان دو ہاتھوں کو کمانے کے لائق ہونے تک کم از کم بیس بائیس سال تک پالنا بھی پڑتا ہے اور اسکے ہاتھوں کو کمانے والے ہاتھ بنانے سے پہلے اسکے ساتھ کھانے والا منہ اور بھوکا پیٹ  ہوتا ہے ۔  اس پر آپ اسے اپاہچ ہونے کے عذاب میں بھی مبتلا یہ کہہ کر کر دیں کہ جی اللہ کی مرضی ، تو ایسی کوئی بات حق نہیں ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ یہ انسان ہی ہے جو جانتے بوچھتے خود اپنے آپ کو مشکلوں اور تباہیوں میں ڈالتا ہے ۔ ویکسینیشن کے چند قطرے آپ کے گھر کے دروازے تک حکومت پلانے کو لے آئی ہے ۔ اب آپ اسے اپنے بچے تک نہ پہنچنے دیں تو آپ سے زیادہ بڑا دشمن اس بچے کا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا ۔ زندگی میں کبھی بھی اپنے بچے کے سامنے جب بھی آپ اس بات کا اعتراف کریں گے تو یاد رکھیں وہ آپ کو کبھی معاف نہیں کریگا ۔ اور اس کے معاف نہ کرنے پر خدا بھی آپکو کبھی معاف نہیں کریگا ۔ اپنے آپ کو اپنی اولاد کی نظر میں معتبر رکھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اپنے ہر میسر اور حلال ذرائع کو اپنی اولاد کی بہتر پرورش کے لیئے استعمال کریں ۔ اور انہیں زندگی میں جن جن برائیوں اور بیماریوں سے بچانے کے  جو بھی وسائل ممکن ہیں انہیں استعمال کرنے میں کوئی پس و پیش مت کیجیئے ۔ اچھے ماں باپ بنیئے ۔ اپنے فرائض ادا کیجیئے تاکہ آپ کی اولاد بھی آپ کے لیئے صدقئہ جاریہ بننے کی بھرپور کوشش بھی کرے اور خواہش بھی ۔
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 31 جنوری، 2015

●(13) سن محرم میرے آج زرا/ کالم۔ سچ تو یہ ہے




(13) سن محرم میرے آج زرا            تحریر: ممتازملک۔ پیرس


                                         
اللہ پاک کی جانب سے قائم حدود ہی میں ہماری سلامتی اور بقاء ہے ۔ محرم اور نا محرم کے فرق کو مذاق نہیں بنانا چاہیئے۔ آج ماڈرن ازم کے نام پر ہم لوگوں نے اپنی عزتوں کو خود ہی داؤ پر لگا دیا ہے ۔ آج کی عورت کو اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ آزادی اور کامیابی کا جھوٹا خواب دکھانے والے، انکی آنکھوں کی وہ بینائی بھی چھین لیتے ہیں جو انہیں اندھیرے اجالے کا فرق بتاتی ہے ۔ تو شاید وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش بھی کریں لیکن جن کے دلوں پہ اللہ نے قفل لگا دیا ہو، انہیں دن کا سورج بھی کسی اندھیرے سے نہیں نکال سکتا ۔ بدقسمتی سے ہم لوگوں نے اپنے ہی گھروں کو گناہوں کی دعوت گاہ بنا دیا ہے ۔ عام سی بات ہے گھر میں دو بیٹے ہیں ایک کی بیوی لائی جاتی ہے ۔ دوسرے بیٹے کو یعنی دیور صاحب کو بھابی سے بات کرنے اور اس کے پردے کا خیال رکھنے کی صلاح دینے والا لڑکے کی ماں کو بہت برا لگے گا ارے بھائی ہے اس کا ۔ اب ان خاتون کو کون عقل دے کہ جو بھائی اللہ نے اس کے لیئے نہیں بنایا وہ ان کے کہنے پر اسکا بھائی کیسے ہو گیا ۔ یہ فیصلہ خدا کریگا کہ کون کسکا بھائی ہے اور کون کس کا باپ ، یا ہمارے ابّا جی اور امّاں جی نیا قانون بنائیں گے ۔ اس پر دیور صاحب جتنی تانک جھانک حسب توفیق ہو سکے بھاوج سے ضرور کرینگے ۔ رہی سہی کسر گھر میں آنے والے نندوئی، بہنوئی اور دوسرے مرد رشتہ دار پوری کر دینگے۔ لڑکی اگر تھوڑی احتیاط برتنے کی کوشش کرے اور پردہ رکھنا بھی چاہے تو جھٹ سے اس پر مغرور ہونے کا لیبل لگا دیا جائے گا کہ لو جی بڑا نخرہ ہے۔ ہمیں تو اپنے لائیک ہی نہیں سمجھتی۔ جان بوجھ کراسے مجبور کیا جائے گا کہ جاؤ اس کے ساتھ چلی جاؤ۔ اس کے ساتھ آ جاؤ ۔اگر گھر میں کوئی نہیں ہے تو بھی لڑکی کسی کے لیئے گھر کا دروازہ نہ کھولے تو بھی اسے اس کی احتیاط نہیں بلکہ پورا خاندان اپنی بے عزتی کا نام دے دیگا۔ اگر گھر میں بہو اپنے کمرے کو اندر سے بند کر کے بیٹھے کہ گھر میں مرد رشتہ دار ہیں کوئی بے دھڑک نہ چلا آئے تو یہ بھی اسے بہو کا عیب ہی گنا جائے گا جبکہ یہ بہت ضروری ہے کہ گھر میں بھرے پُرے سسرال میں لڑکی اپنے آپ کو محفوظ کرنا چاہے تو اپنے کمرے میں کسی کام سے یا آرام کی غرض سے جائے تو کمرہ اندر سے بند رکھے ۔ لیکن کہاں جناب ایسا کرنے پر لڑکے کے گھر والے واویلا نہیں مچا دیں گے ۔ انہیں کسی لڑکی کی عزت سے زیادہ اپنے جعلی رسوم عزیز ہیں جس میں گھر کی بہو ایک کل وقتی ملازم ہے۔ اسکی نہ تو کوئی حرمت ہے نہ ہی کوئی عزت ۔ جبکہ اگر وہ اپنے لیئے الگ گھر کا مطالبہ کرے تو بھی اسے اس کا ناجائز مطالبہ کہا جائیگا ۔ جبکہ اسلام میں سختی سے اس بات کی تاکید کی گئی ہے ۔ کہ لڑکی کو اس کا الگ پرائیویٹ کمرہ یا گھر لے کر دینا اسکے شوہر کی ذمہ داری ہے ۔ کیونکہ لڑکی کا اس پورے سسرال میں اپنے شوہر کے سوا کوئی محرم نہیں ہوتا ۔ اسے اس گھر کے تمام مردوں سے احتیاط اور پردے کے دائرے میں رابطہ رکھنا چاہیئے ۔ دیور، جیٹھ، سسر، نندوئی ، بہنوئی ، کزنز کسی کو بھی اس کی عمر کا یا رشتے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیئے ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اخلاقی جرائم ہم سب کے ہی گھروں میں پل رہے ہوتے ہیں اور ہم باہر والوں کو ظالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔  ہمارے ہاں تو ہندوؤں اور سکھوں کے بے شرمانا محاوروں کو بھی بڑی بے حیائی سے منہ پھاڑ کر استعمال کیا جاتا ہے جیسے  "سال میں ایک مہینہ جیٹھ کا بھی آتا ہے بھابی "، "سالی آدھی گھر والی" وغیرہ وغیرہ کوئی ان بے شرموں سے یہ پوچھے کہ کیا آپ کی اپنی بیٹی کے لیئے بھی آپ کے ذہن میں یہ ہی گندے محاورے آتے ہیں ؟ وہ بھی کسی کی بھابی اور سالی ہوتی ہے تو حساب برابر کیجیئے ۔ گھر سے نکلیں تو میاں نے کبھی تعریف کے دو بول جن خواتین کو نہ بولیں ہوں وہ بیچاری ترسی ہوئی خواتین باریک لبادوں میں نت نئے انداز میں زلفیں جھٹکتی، لیپا پوتی کیئے کسی کو بھائی اور کسی کو سر کہتی اپنے لیئے ہر نامحرم کو زبردستی اپنا محرم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہوتی ہیں ۔ انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جو للچائے بھنورے اور پروانے  انہیں ان کی موجودگی میں  باجی باجی ، میم میم کہہ رہے ہوتے ہیں ان کے منظر سے ہٹنے کے بعد ان کے بارے میں کس قدر غلیظ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہمیں تو اکثر ایسے مواقع پر کئی لوگوں کے منہ سے نکلی یہ بات سچ لگتی ہے کہ جی ایسی خواتین کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے ۔ کیا ایسی خواتین کو خود نہیں معلوم کہ کون انہیں کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ عورت تو کسی خفیہ آنکھ تک کو اپنے ارد گرد محسوس کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔ اس کی حس اس قدر تیز ہوتی ہے کہ کسی بھی مرد کی بات کرنے کا انداز اسے اس کے چھپے ہوئے مفہوم سے آشنا کر دیتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر ایسی خواتین ایسا کرتی ہیں تو انہیں اس کی وجوہات جاننا چاہیئے، اور اپنے شوہر کو احساس دلائیں کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرےے سے تعریفی جملوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور ایسا کرنا آپ کو نفسیاتی طور پر طاقت عطا کرتا ہے ۔ ایک شوہر اپنی بیوی کی جسمانی حفاظت ہی نہیں بلکہ اس کے جذباتی ضروریات کو بھی پورا کرنے کا ذمّہ دار ہوتا ہے ۔ یہ ہی بات آپ کی گھریلو اکائی کو مضبوط کرتی ہے اور آپ کی بیوی کو کہیں بھی بھٹکنے سے بچاتی ہے ۔ نہ صرف گھر سے باہر بلکہ سب سے پہلے اپنے گھر کے اندر بھی محرم اور نا محرم کی احتیاط کا اہتمام کریں ۔  اپنی ماؤں بہنوں کو اس بات کا احساس کرائیں کہ آپ کی بیوی صرف آپ کی بیوی ہے کسی اور کے لیئے مٹھائی کی پلیٹ نہیں ۔ اس معاملے میں آپ کی ماں آپ کو خدا کی دی ہوئی سزا سے نہیں بچا سکیں گی ۔ ساسوں کو بھی اس بات کی حیا کرنی چاہیئے کہ بہو کے سامنے دیور جیٹھ کو زیادہ بے تکلف ہونے پر مجبور نہ کریں ۔ ورنہ خدا کے ہاں اس لڑکی کی حفاظت کی پوچھ انہیں سے کی جائے گی ۔ یاد رکھیں اللہ کی حدود کو توڑنے والا اس جہاں میں وقتی مزے اور فائدے تو لے لے گا لیکن جہاں اسے ہمشہ کے لیئے جانا اور رہنا ہے اس جگہ یہ گناہگار کرنے والے رشتے اور لوگ اسے بچائیں گے کیا پہچانیں گے بھی نہیں ۔ 
●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء 
●●●
                    
                              

جمعہ، 30 جنوری، 2015

کیلوری چارٹ کی بہترین سائیڈ







کیلوری چارٹ کی بہترین سائیڈ


............................

اتوار، 25 جنوری، 2015

ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور / ممتازملک ۔ پیرس



ہاتھی  کے دانت دکھانے کے اور
 ممتازملک ۔ پیرس


 ہم سب نے اکثر ایسی باتیں ضرور سنی ہوں گی کہ  ہم اس سٹور سے شاپنگ نہیں کرتے  ، ہم نے تو کبھی مارشے  ( اتوار بازار ٹائیپ اوپن مارکیٹس جو کہ دکانوں سے کم قیمت پر ہر طرح کا سامان بیچتے ہیں ) سے خریداری نہیں کی . بلکہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ مارشے کہاں کہاں لگتے ہیں ۔ ہم اس دکان سے نہیں ، ہم تو بس فلاں فلاں دکان سے ہی خریداری کرتے ہیں ، ہم تو صرف AVS ( رجسٹرڈ حلال گوشت کی ایک مُہر ہوتی ہے )  کا ہی گوشت کھاتے ہیں باقی کسی کا حلال ہم نہیں کھاتے ۔ بھئی سوری ہم تو لوکل میں بلکلللل سفر نہیں کرتے ۔  پاکستان سے پانچ ہزار کا لباس دلہن کے لیئے رور رو کر خریدنے والے اسے بڑے فخر سے جاننے اور ملنے والوں میں پچاس ہزار کا سنا کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں اور اس جیسی بےشمار فضول باتیں ہم یہاں یورپ میں بیٹھے ہوئے  ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصّے میں بیٹھے  لوگ اکثردوسروں پر جھوٹے رعب ڈالنے کے لیئے بولا کرتے ہیں اور اسے بڑے فخر سے بولتے بھی ہیں اور جھوٹ بھی نہیں سمجھتے ۔ یہ کیوں کرتے ہیں ہم ۔ بس ایک نفسیاتی کمتری ہے ہم سب میں جو ہم سے یہ سب کرواتی ہے ۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مہنگا لا کر بتانا تو کوئی خوبی ہے ہی نہیں ۔ خوبی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کم قیمت میں بہتر چیز کی خریداری کرے ۔ سگھڑ پن اور سمجھداری اس میں نہیں ہے کہ میں نے کتنے پیسے لُٹائے ہیں ۔ بلکہ اس میں ہے کہ میں نے کم سے کم رقم کو کہاں، کتنی سمجھداری سے استعمال کیا ہے ۔ لیکن یہ شاید اب پرانے زمانے کی بات سمجھی جاتی ہے ۔اب تو ایک دوسرے سے بڑھکر قیمتیں بتانا اپنی مالی برتری جتانا سمجھا جاتا ہے ۔  ان باتوں سے اور تو کسی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ، لیکن ایک دوسرے سے زیادہ بڑھنے کے چکر میں مذید جھوٹ بولنے اور ایک دوسرے سے بڑھکر خرچ کرنے کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ اس کا شکار زیادہ تر وہ سادہ لوح افراد ہوتے ہیں جو ان عادی جھوٹوں کی بات کو سچ سمجھ کر ان پر اعتبار کرتے ہیں یا ویسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان میں جنہیں کبھی ٹانگے میں سفر کرنا نصیب نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ملک سے باہر آ کر بڑے تکبّر سے فرماتے ہیں جی کچھ بھی ہو جائے ہم تو کبھی لوکل میں سفر نہیں کرتے ۔ یہ ان لوکلز کی بات ہے جن میں ان مُمالک کے صدُور اور وزراء بھی لائن میں لگ کر ٹکٹ خرید کر سفر کرتے ہیں ۔ شاید یہ ہی فرق ہے ہم میں اور ان ممالک کے لوگوں کی سوچ میں جس نے ہمیں آج تک بلندیوں کےسفر پر روانہ ہی نہیں ہونے دیا ۔ کہیں بھی لائن میں کھڑے ہونا ہمیں ہماری توہین لگتی ہے ۔ کہیں بھی کسی غلطی کو ماننا ہمیں ہماری بے عزتی لگتا ہے ، کہیں بھی کسی کی تعریف کرنا ہمیں ہمارے سینے پر سانپ لوٹانے کے برابر لگتا ہے ۔ کسی کو میرٹ پر اس کا حق دینا ہمیں اپنے ساتھ اسکا مقابلہ لگنے لگتا ہے ۔ سچ بولنا ہمیں اپنے آپ کو کم کرنے جیسا لگنے لگتا ہے ۔ انتہائی غریب گھروں سے آنے والا فرد  بھی اپنے آپ کو اپنے ملک میں رئیس ترین ثابت کرنے پر ہی مُصر رہیگا ۔ اسے یہ ہی خوف رہیگا کہ کہیں کسی کو میرے غریب ماضی کا علم ہو گیا تو اس کی عزت کو بٹّا لگ جائے گا ۔ حالانکہ دنیا میں ان لوگوں کو ہمیشہ ہی عزت ملی ہے جو اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی محنت اور سمجھداری سے اپنا مستقبل بناتے ہیں  ۔ جنہیں اپنے ماضی پر شرم نہیں آتی بلکہ جنہیں اپنے سیلف میڈ ہونے پر فخر ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان کا ہاتھ لینے والوں میں نہیں رہتا بلکہ ہمیشہ دینے والوں میں رہتا ہے ۔ اور کون نہیں جانتا کہ  خدا بھی دینے والا ہے اور دینے والوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ بس ضرورت ہے تو اس بات کو سمجھنے کی کہ اپنی زندگی کو ہاتھی کے دانت نہ بنائیں اور اسے آسان بنا کر دوسروں میں بھی آسانیاں بانٹنے کو کوشش کریں ۔  

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/