ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 15 اپریل، 2014

شہید جمہوریت یا نوحہء بے حسی ۔



 
شہید جمہوریت
  یا
 نوحہء بے حسی
ممتاز ملک۔ پیرس


کینیڈی نے کہا کہ ''  ایک آدمی  مر سکتا ہے ایک ملک ابھر سکتا ہے ڈوب سکتا ہے لیکن نظریہ ہمیشہ ذندہ رہتا ہے '' بے شک یہ ایک حقیقت ہے لوگ تو دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن نام اسی کا ذندہ رہ جاتا ہے جو کوئی نظریہ ، کوئی کام ، کوئی کردار چھوڑ جاتا ہے ۔ یہ چھاپ صرف باتوں میں ہی نہیں بلکہ دلوں پہ چھوٹتی ہے ۔  جسے کوئی مٹانا چاہے بھی تو مٹا نہیں سکتا ۔ ایسا ہی ایک تاریخی کردار ذوالفقار علی بھٹو کا بھی رہا۔ بحیثیت انسان ہمیں ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم اس بات کو کیسے جھٹلائیں کہ  بھٹو نے اپنی سمجھداری سے پاکستان کے نوے ہزار قیدی آذاد کروائے ، ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں کرنا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی پہلی اینٹ بھٹو نے ہی رکھی ،  دنیا بھر میں بکھری ہوئی اسلامی ریاستوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا سہرا بھی اسی بھٹو کے سر ہے ،پاکستان جیسے  اس وقت کے سب سے بڑے  اسلامی ملک کے ساتھ بے آئین ہونے کی کالک کو بھی بھٹو نے ہی آئین دیکر مٹایا ، پاکستان کا میڈیا  جو آج کھلم کھلا ہندوستانی ایجنٹ کا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے اسی میڈیا پر یکجہتی پیدا کرنے اور صوبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سب سے ذیادہ کام بھٹو نے ہی کیا ۔ پاکستانی میڈیا جہاں آج ڈھونڈنے سے بھی پاکستانیت نظر نہیں آتی اور اپناریڈیو ٹی وی ، اخبار اٹھاتے کھولتے ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ یہ پاکستانی ہی ہے. وہاں بھٹو دور کے ٹی وی کو کھول کر ریڈیو سن کر دیکھیئے آپ کو بھی میری بات سے اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ واقعی ایک ملک کی یہ ہی  میڈیا پالیسی ہونی چاہیئے ۔ فوجی آمروں کے پنجے میں جکڑے پاکستانیوں  کو جمہوریت کی راہ بھٹو نے ہی دکھائی ۔ ہمیں پورا حق ہے کہ ہم کسی کے نقطئہ نظر سے اختلاف کریں لیکن ہمیں اس بات کا بلکل کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی کے ذندگی بھر کے کئے ہوئے کاموں پر اپنے منافرت کا پانی پھیر دیں ۔ ہماری قوم کا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ ہم نہ تو کسی کے اچھے کاموں کا اعتراف کرتے ہیں نہ ہی اسےجیتے جی وہ مقام دیتے ہیں جو اسکا حق  بنتا ہے۔ ہم مردہ پرست لوگ ہیں۔ اس کے جانے کے بعد اسکا جیوے جیوے تو گاتے ہیں۔ اس کے تصویریں اسکے نعرےبیچ کر جیبیں  تو بھرتے ہیں۔ لیکن اس کےوہ نطریات جس کے لیئے اس نے اپنی جان سولی پر لٹکا دی ، اس کی نہ تو قدر کریں گے نہ انہیں اپنی ذندگی میں اپنانے کی کوشش کریں گے ۔  اور یہ ہی ہماری ناکامی کی وجہ ہے ۔ کیا آج بھٹو کے دشمنوں سے بدلا لینے کا یہ بہترین طریقہ نہیں تھا کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ پورا کر کے پیپلز پارٹی  سب کے منہ بند کر دیتی ۔ لیکن افسوس بھٹو کے نعرے کو بھی اس کے مزار کی چادر بنا لیا گیا ۔ جسے ایک کے بعد ایک مجاور آتا ہے چومتا ہے آنکھوں سے لگاتا ہے اور چند روز بعد اس پر ایک اور چادر کا چڑھاوا چڑھا جاتا ہے ۔ یوں تو میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میرا یہ ماننا ہے کہ جو بھی شخص آپ کے ملک کے لئے قوم کے لیئے اچھا کام کرے اچھی کوشش کرے ، اسے ہر صورت سراہا جانا چاہیئے اور نمک حرامی کی روایات کو اب توڑ دینا چاہیئے ۔
   پچلھے دنوں 5 اپریل 2014 کوپیرس کے علاقہ لاکورنیوو میں  بھٹو مرحوم کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی نے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں پارٹی کارکنان نے قران خوانی کی اور فاتحہ خوانی ہوئی اس کے بعد  ایک پروگرام رکھا گیا جس میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان سے زیادہ دوسرے سیاسی اور غیر سیاسی مکتبہ فکر کے خواتین و حضرات کی بڑی تعداد کی اسمیںشرکت تھی جنہوں نے بھٹو کی پاکستان کےلیئے کی گئی خدمات کو بڑے بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ جو کہ انتہائی خوش آئیند اور حوصلہ افزاء بات ہے ۔ اور جس سے اس بات کو بھی بڑھاوا ملتا ہے کہ اب  سوچ بدل رہی ہے اپنی پارٹی کے سوا کسی اور کو قبول نہ کرنے کا بت اب ٹوٹ رہا ہے ۔  جو کہ بہت ہی خوش آئیند ہے ۔ پروگرام کے منتظم جناب کاممران گھمن صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور انکی آمد پر انکا شکریہ ادا کیا ۔ پارٹی کے جنرل سیکٹری جناب ملک منیراحمد صاحب نے بہترین انداز میں سٹیج سیکٹری کے فرائض اد کیئے ۔ اور خوبصورتی کیساتھ تمام پروگرام کو لیکر چلے ۔ تلاوت کلام پاک حافظ حبیب الرحمان  نے بہت خوش الحانی سے پیش کی ۔ ایک بچے ارسلان افتخار نے نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ سلم پیش کی اور پھرحافظ معظم صاحب نے نہایت پرسوز انداز میں نعتیہ کلام سنا کر سب کو مسحور کیا ۔ سینیئرنائب صدر جناب کامران گھمن صاحب صدرمحفل  تھے صدرجناب ذاھد اقبال خاں صاحب علالت کی وجہ سے نہ آ سکے لہذا انہوں نے  اورجنرل سیکٹری پنجاب پیپلز پارٹی   لطیف کھوسہ نے ٹیلی فون پر اپنے خیالات کا اظہار کیا    مقررین میں ذاھد ہاشمی پاکستان پیپلز پارٹی آذاد کشمیر کے صدر ، عارف مصطفائی تحریک انصاف کے سینیئیر کارکن،ہیومن رائٹس کے چئیر میں چودھدری  صفدر برنالی صاحب   نے خطاب کیا ۔ پروگرام کی انتظامیہ میں ایم اے صغیر اصغر صاحب میڈیا ایڈوائزر ، چیف آرگنائزر قاری فاروق احمد فاروقی صآحب، فنانس سیکٹری صوفی محمد سرفرازصاحب شامل تھے ۔ جبکہ مالی معاونت کامران گھمن صاحب نے کی ۔                                                      خواتین میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شعبئہ خواتین کی پہلی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ جو کہ کمیونٹی میں ایک نہایت محترم مقام رکھتی ہیں اور ایک پڑھی لکھ باشعور، نہایت خوش مزاج اورملنسار خاتون ہیں جو اپنےخاندان کی ذمّہ داریوں کیساتھ اپنی تمام مصروفیات کو نبھاتی ہیں اور اس بات کا ایک بیّن ثبوت ہیں کہ اگر آپ میں اہلیت ہے آپ میں کوئی صفت ہے تو آپ کو اس کے لئے کوئی غلط راستہ اپنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا کام ہی آپ کو لوگوں سے ایک نہ ایک دن منوائے گا ۔ روحی  بانو صاحبہ نے بڑے بھرپور انداز میں بھٹو صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا اور اپنی  اسی موقع پر آمد ہوئی ایک فی البدیہہ نظم بھی پیش کی جسے شرکائے محفل نے بہت سراہا ۔   دیگر خواتین  مقررین میں تحریک انصاف کی ترجمان محترمہ شاہدہ افضل صاحبہ ، ڈیلی تاریخ کی ریذیڈینٹ ایڈیٹرمحترمہ طاہرہ سحر صاحبہ  اورجوائنٹ ایڈیٹر دیجائزہ ڈاٹ کام ، کالمسٹ ،اورشاعرہ  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انصاف کا آغاز اپنے اپنے گھروں سے کرنے پر زور دیا ۔  معروف کالمسٹ ۔ رائٹر اور مدر آف پی ٹی آئی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کا پیغام روحی بانو صاحبہ نے پڑھ کر سنایا۔ جس میں انہوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ ہمیں بے قدری کی اس روش کو اب ترک کرنا ہو گا جس نے ہماری  بڑی بڑی قیمتی اور نایاب ہستیوں  کو ان کا جائز مقام نہ دیکر انہیں گمنام کرنے کی کوششوں میں خود کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسمیں اکثر لوگوں نے اپنی خواتین اور بچیوں  کیساتھ شرکت کی  ۔ اور اسے ایک فیملی پروگرام بنا دیا ۔ تمام پروگرام کا فوکس کسی رنگا رنگی اور شو بازی کے بجائے اصل موضوع ہی رہا ۔ یہ ہی فرق ایک نمائشی پروگرام اورایک بامقصد پروگرام میں ہوتا ہے ۔ جسے پوری طرح حاصل کیا گیا جس کے لیئے انتظامیہ بہرطور مبارکباد کی مستحق ہے ۔ کسی نے اپنے ذہنی قابلیت کے ذور پر بڑا بھرپور تبصرہ کیا کہ ارے یہ کیا یہ تو چولہے چوکے والی خواتین کو لاکر اسٹیج پر کھڑا کر دیا گیا ہے تو ان تمام  ایسی سوچ رکھنے والوں  سے بہت احترام اور محبت کیساتھ عرض ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے، کوئی ملک بنتا ہے ،کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کی بنیاد اور اسکی طاقت یہ ہی چولہا چوکا عزت اور کامیابی کیساتھ کرتی ہوئی عورت ہی ہوتی ہے ۔ وگرنہ جو عورت اپنا ہی  چولہا چوکا اور گھرنہ سنبھال سکے تو وہ دوسروں کے چولہے کی راکھ میں ہی پھونکیں مار مار کر اپنا سر منہ کالا کرتی رہتی ہے ، وہ بھلا کسی کے لیئے کیا اچھا کر سکے گی ۔ دنیا کی کوئی تحریک فیشن پریڈ کرنے والوں اور فوٹو سیشن کرنے والوں کے ہاتھوں کبھی کامیاب نہیں ہوئی اگر ہوئی ہے تو ہمیں بھی ضرور بتایئے گا کہ شاید ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو جائے ۔ روحی بانو صاحبہ کو اس پروگرام کی کامیابی کا خاص سہرا جاتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پڑھی لکھی سلجھی ہوئی خواتین خانہ کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر انہوں نے اپنے اوپر خواتین کے اعتماد کو ظاہر کیا ۔ بھٹو کے چاہنے والوں سے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ جس معاشرتی انصاف ، رواداری ، برابری کے لیئے بھٹو صاحب نے اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا اس کا تقاضہ ہے کہ اپنے اندر صبر ، تحمل اور برداشت پیدا کریں ۔ دوسروں کی جانب سے ہونے والی تنقید کو اپنی اصلاح کے لیئے استعمال کریں اور بھٹو کے نظریئے کے مطابق جاگیر دارانہ اور خاندانی سیاستوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ انسانوں کو پرستش کرنے کی بجائے ان کے دیئے ہوئے اچھے اصولوں پر اپنی زندگی کے راستے متعین کریں ۔ لوگ آتے جاتے ہیں  لیڈرز بھی مل جاتے ہیں لیکن ملک بار بار نہیں بنا کرتے ۔ گھر اور ملک بنانے میں صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن اسے توڑنے میں چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں ۔ ہمیں ہمارے لیڈرز کی یہ قربانیاں ضائع ہونے سے بچانی ہیں تو ہمیں پاکستان بچانا ہے ۔ 
 موج اٹھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 11 اپریل، 2014

سالگرہ کے پیغامات برائے 2014

  • Mumtaz Malik
    Muhammad Umar بھائی صاحب یہ ہی پردیس میں بیٹھے لوگ اپنی ساری ساری عمر کی کمائیاں پاکستان نام کے چولہے میؐں جھونکے بیٹھے ہیں ، فکر تو ہونی چاہیئے
  • This comment has been removed.
  • Israr Alam salam o walikum
  • Malik Atif Raza http://earnwithatifraza.weebly.com/

    earnwithatifraza.weebly.com
    Earn money at home free with Ojooo.com Ojooo is a king Of PTC websites Best PTC wesite. http://wad.ojooo.com/register.php?ref=asifali60
  • Atique Khan hmmmmm well said
  • Mumtaz Malik
    Muhammad Umar بھائی صاحب ہم اپنا خون نچوڑ نچوڑ کر ہی پاکستان کے دیئے میں تیل ڈالنے کے لیئے بھیجیتے ہیں ان نوٹوں کی صورت میں ۔ جن کے بنا روٹی بھی نہیں آتی ۔ دوسرت بات آپ نے یہاں کس کس کا محل دیکھ لیا ہے ۔ کیا یہ بات جو بنا ثبوت کے کہی جائے کسی بہتان کے زمرے میں نہیں آتی ؟ ان باتوں کو نظر میں رکھا کریں کیوں کہ کئی بار ہم بہت چھوٹا سمجھ کر بہت بڑا گناہ کر جاتے ہیں ۔
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    اپنے مرض کو نہ پہچاننے اور نہ ماننے والے ہمیشہ ہی تکلیف میں رہتے ہیں پیارے بھائی ۔ جب کسی برائی کو ہنم برائی سمجھیں گے تبھی اس کے خاتمے کے لیئے بھی کانم کریں گے نا ۔ کوڑے کو کارپٹ کے نیچے کرنے سے وقتی طور پر تو صفائی ہوتی ہے پر بھر وہ بو دینے لگتا ہے...See More
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو برائیاں دکھا کے اچھائی پہ مجبور کرنے والا صحافی نہیں بلکہ ایک خوشامدی طوطا چاہیئے جو وہی کہے جو آپ کو اچھا لگے کیا یہ قوم کو افیم دینے کے برابر نہیں ہے ۔ کہ جو کہیں ہے ہی نہیں وہ سناتے جائیں آپ ایسے کام کریں کہ ہم بھی سربلندی ...See More
  • Mumtaz Malik
    اس خوش خبری کے لیئے پیارے بھائی Muhammad Umar ایک پی ٹی وی ہی کافی تھا جو بتاتا تھا کہ شاہ کے دور میں سب اچھا ہے دودہ دہی کے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ عورتوں کو لوگ ماں بہن بہن جی کہہ کے آنکھیں نیچی کر کے چلتے ہیں ۔ ہر گھر میں گودام اناج سے لبالب بھرے ہیں ڈاکٹر فری ہر گھر کے باہر بیتھا ہے کہ کون چھینکے اور ہم اسے مفت دوا دیں ۔ کیا خیال ہے؟
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    آپ کی ساری باتوں کا نچوڑ ہی یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ نے نہ تو میرے آرٹیکلز پڑھے ہیں نہ ہی کہیں اور کے لہذا بحث بیکار ہے خوش رہیں آباد رہیں ۔ اور آئندہ مجھے خوشی ہو گی کہ آپ مجھےکمنٹ کرنے سے پہلے میرا کام ضرور ایک نظر دیکھیں ، دوسرے ملک کے صحافی وہ لکھتے ہیں جو ان کے ملک میؐ ہوتا ہے ہم وہ لکھتے ہیں جو ہمارے ملک میں ہوتا ہے ، اور آپ اگر اس بات سے انکار کرتے ہیں تو آپ کی رائے کا آپ کو پورا حق ہے والسلام
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik Aisi lanka ko dhe hi jana chahiey jo logon ki izeaton k jnaze pr khari ho.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    یہ ہے آپ کا پاکستانی حسد جو اب بولا ۔ آج پاکستان میں وہی رہ رہا بھائی جو آپ کی طرح تلملا رہا ہے اور کہیں جا نہیں سکتا ورنہ کب کا نکل چکا ہوتا ۔ آپ وہ لوگ ہیں جو بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے ۔ آپ کو کوئی کچ نہیں کر سکتا بھائی ۔ ہم ج...See More

جمعرات، 10 اپریل، 2014

رپورٹ / 5 اپریل 2014

پیر، 7 اپریل، 2014

رپورٹ / روحی بانو

پیر، 31 مارچ، 2014

● (3) جبری اسلام/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



          (3)جبری اسلام
ممتازملک ۔ پیرس

اسلام کے معنی ہیں سلامتی ۔ تو جس دین کی ملاقات کا آغاز ہی السلام علیکم  کہہ کر کرنے کا حکم ہے وہ د ین جو حالت جنگ میں بھی بچے ،بوڑھے ، عورت اور ہر اس شخص پر بھی کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے،  وار کرنے کی اجازت نہیں د یتا جو ہرے پیڑ پودوں تک کو جنگ کے دنوں میں بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا؟ جو نہتے آدمی پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، وہ یوں بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے کو تصور ہی نہیں رکھتا ۔اسی اسلام کے نام پر بنے ملک میں اسی اسلامی نظریئے کو بد نام کرنے کے لیئے دنیا بھر کے نفسیاتی مریضوں اور پیشہ ور قاتلوں یا دوسرے لفظوں میں  ایک جنگلی بھیڑیوں کے ریوڑ کو پاکستان کا رخ کروایا گیا ہے  ۔ ہم خود بھی جس اسلام کی پیروی کر رہے ہیں اس کے کتنے احکامات کو بجا لا رہے ہیں ؟ یہ جاننا سب سے ذیادہ ضروری ہے ۔ کیوں کہ میری نظر میں ہم خود اپنے دین سے ، قرآن سے ناواقفیت کی بنا پر جس طرح قران کی تشریح کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ فتنوں کا باعث بن رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج 23مارچ 2014ء کو ہم اس بات کی ابتداء کا سال بنا دیں کہ ہم خود کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے دین اسلام کا مکمل مطالعہ کریں اور اس کے بعد پھر سے اسے سمجھ کر دوبارہ کلمہ پڑھ کے  ، سمجھ کر اس دین کو اختیار کریں ۔ جس طرح آج کا یورب میں رہنے والا ہر طبقہ مسلمان ہو رہا ہے ۔ کبھی زندگی میں ایسے مسلمان سے ملنے کا اتفاق ہو تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسلمان ہوتا کیاہے؟  اور آج کہ نام نہاد مسلمان بغلیں جھانکنے لگتے ہیں  اور  مجھے بہت پہلے کیسنی ہوئی یہ بات  یاد آجاتی ہے کہ انگریزوں اور یورپیئنز پر ہنسنے سے پہلے ڈرو اس دن سے کہ جب یہ لوگ عورت اور شراب کی دو برائیوں سے نکل کر اسلام قبول کر لیں تو شاید آج کے مسلمانوں کو جنت کے آخری حصے میں بھی جگہ نہ ملے گی ۔ یہ لوگ ہماری طرح کسی عبداللہ یا محمد علی کے گھر میں پیدا ہو کر مسلمان نہیں کہلاتے بلکہ یہ ایک عرصہ بھٹکنے کے بعد جب سکون ڈھونڈے کے لیئے دنیا کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہوتے ہیں تو تب یہ اسلام کو پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اور اس کے بعد بخوشی و برضا و رغبت اپنا سر پروردگار عالم کے بارگاہ میں ایسا جھکاتے ہیں کہ ایک موروثی مسلمان ،جوپتہ نہیں کہاں سے ، کس زاویئے سے مسلمان ہے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے ۔  اور باتیں تو ایک طرف اب تو شریعت کے نفاذ کا نام لیکر دین اسلام کا ایک اور مذاق بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ترین مملک میں جو اصلاحی اور فلاحی لائحہ عمل (پروگرام) رائج ہے ، کون نہیں جانتا کہ یہ سب اسلامی سسٹم ہی ہے جو خلفائے راشدین کے عہد بے مثالی کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآن کی روشنی میں یہاں لاگو کیئے گئے ہیں اور اسی کی روشنی میں ان اقوام نے چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالی ہیں ، جب کہ ہم ابھی تک اس سوچ میں اپنے 67 سال گنوا چکے ہیں کہ کون سا نظام ہو گا اور کون سا نہیں ۔ یہ ہی ہیں کوئی کام نہ کرنے کے حکومتی کام چور ہتھکنڈے ۔ کسی نظام کو لاگو کرنے کے لیئے اسے حکومتی مذہب کہلانا کوئی بڑی بات نہیں ہےبلکہ بات ہے اسکے نفاذ کی ۔ کہ ہم کس طریقہ کار سے اپنا ملک چلانا چاہتے ہیں جہاں پر کسی مجرم کو کوئی سزا دینے کا رواج ہی نہ ہو وہاں پر صرف اور صرف جرائم کی فصلیں ہی کاشت ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ہاں ہو رہی ہیں ۔ اس کے لیئے شرعی نظام کے نفاذ پر لڑنے کی بجائے اسے یورپی ممالک کی مثال لیتے ہوئے اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے ۔ مجرموں کو اس کے محلے ہی میں پھانسیاں دی جائیں ، مجرم کے گھر کے سامنے ہی اس کو کوڑے لگائے جائیں ، مظلوم کےگھر کے سامنے ہی بدکار کو سنگسار کیا جائے ۔ چور کے ہاتھ اس کے گھر کے سامنے ہی کاٹے جائیں ۔ لیکن اس سے پہلے ہر آدمی اور عورت پر کام کرنا لازم کیا جائے ۔ کام چوری کی سزا بھی دیجائے ۔ کام کے مواقع پیدا کرنا حکومت پر لازم ہونا چاہیئے۔  بھوک کی وجہ سے کوئی شخص نہ مرنے دینا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ۔ بوڑھوں  کے لیئے55 سال کی حد کے بعد گزارہ الاؤنس کا اجراء بھی حکومتی ذمہ داری ہے  ، یہ تمام فرائض آپ سے عملی اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں نا کہ کاغذی اسلام کا ۔ یہ سب تو آپ نے کرنا نہیں ہے الٹا اب اسلامی نظام کے نام پر کیا لوگوں کو زبردستی مسجدوں میں گھسایا جائے گا یا لوگوں کو زبردستی کلمہ پڑھوایا جائے گا ۔ کیا مذاق ہے یہ ؟  یہ کام تو یہ دین لانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کیا ، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ نیت عمل کرنے کی ہو تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کوئی بھی دین اس کے ماننے والوں کے حالت ایمانی کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں مقبول ہوتا ہے ، نہ کہ زور زبردستی سے ۔اپنے ملک میں اصل اسلام کو قرآن اور سنت کے مطابق تعلیمی نصاب میں شامل کر کے لوگوں کی سوچ کو ایک حقیقی اسلامی رنگ دیجیئے اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ باقی دین کو انسان کا ذاتی معاملہ رہنے دیں جو اس کے اور خدا کے بیچ ہے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ ساتھ والے کا ۔                                             
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتےجومسلمان بھی ایک

●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/