ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 31 مارچ، 2014

● (3) جبری اسلام/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



          (3)جبری اسلام
ممتازملک ۔ پیرس

اسلام کے معنی ہیں سلامتی ۔ تو جس دین کی ملاقات کا آغاز ہی السلام علیکم  کہہ کر کرنے کا حکم ہے وہ د ین جو حالت جنگ میں بھی بچے ،بوڑھے ، عورت اور ہر اس شخص پر بھی کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے،  وار کرنے کی اجازت نہیں د یتا جو ہرے پیڑ پودوں تک کو جنگ کے دنوں میں بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا؟ جو نہتے آدمی پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، وہ یوں بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے کو تصور ہی نہیں رکھتا ۔اسی اسلام کے نام پر بنے ملک میں اسی اسلامی نظریئے کو بد نام کرنے کے لیئے دنیا بھر کے نفسیاتی مریضوں اور پیشہ ور قاتلوں یا دوسرے لفظوں میں  ایک جنگلی بھیڑیوں کے ریوڑ کو پاکستان کا رخ کروایا گیا ہے  ۔ ہم خود بھی جس اسلام کی پیروی کر رہے ہیں اس کے کتنے احکامات کو بجا لا رہے ہیں ؟ یہ جاننا سب سے ذیادہ ضروری ہے ۔ کیوں کہ میری نظر میں ہم خود اپنے دین سے ، قرآن سے ناواقفیت کی بنا پر جس طرح قران کی تشریح کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ فتنوں کا باعث بن رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج 23مارچ 2014ء کو ہم اس بات کی ابتداء کا سال بنا دیں کہ ہم خود کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے دین اسلام کا مکمل مطالعہ کریں اور اس کے بعد پھر سے اسے سمجھ کر دوبارہ کلمہ پڑھ کے  ، سمجھ کر اس دین کو اختیار کریں ۔ جس طرح آج کا یورب میں رہنے والا ہر طبقہ مسلمان ہو رہا ہے ۔ کبھی زندگی میں ایسے مسلمان سے ملنے کا اتفاق ہو تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسلمان ہوتا کیاہے؟  اور آج کہ نام نہاد مسلمان بغلیں جھانکنے لگتے ہیں  اور  مجھے بہت پہلے کیسنی ہوئی یہ بات  یاد آجاتی ہے کہ انگریزوں اور یورپیئنز پر ہنسنے سے پہلے ڈرو اس دن سے کہ جب یہ لوگ عورت اور شراب کی دو برائیوں سے نکل کر اسلام قبول کر لیں تو شاید آج کے مسلمانوں کو جنت کے آخری حصے میں بھی جگہ نہ ملے گی ۔ یہ لوگ ہماری طرح کسی عبداللہ یا محمد علی کے گھر میں پیدا ہو کر مسلمان نہیں کہلاتے بلکہ یہ ایک عرصہ بھٹکنے کے بعد جب سکون ڈھونڈے کے لیئے دنیا کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہوتے ہیں تو تب یہ اسلام کو پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اور اس کے بعد بخوشی و برضا و رغبت اپنا سر پروردگار عالم کے بارگاہ میں ایسا جھکاتے ہیں کہ ایک موروثی مسلمان ،جوپتہ نہیں کہاں سے ، کس زاویئے سے مسلمان ہے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے ۔  اور باتیں تو ایک طرف اب تو شریعت کے نفاذ کا نام لیکر دین اسلام کا ایک اور مذاق بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ترین مملک میں جو اصلاحی اور فلاحی لائحہ عمل (پروگرام) رائج ہے ، کون نہیں جانتا کہ یہ سب اسلامی سسٹم ہی ہے جو خلفائے راشدین کے عہد بے مثالی کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآن کی روشنی میں یہاں لاگو کیئے گئے ہیں اور اسی کی روشنی میں ان اقوام نے چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالی ہیں ، جب کہ ہم ابھی تک اس سوچ میں اپنے 67 سال گنوا چکے ہیں کہ کون سا نظام ہو گا اور کون سا نہیں ۔ یہ ہی ہیں کوئی کام نہ کرنے کے حکومتی کام چور ہتھکنڈے ۔ کسی نظام کو لاگو کرنے کے لیئے اسے حکومتی مذہب کہلانا کوئی بڑی بات نہیں ہےبلکہ بات ہے اسکے نفاذ کی ۔ کہ ہم کس طریقہ کار سے اپنا ملک چلانا چاہتے ہیں جہاں پر کسی مجرم کو کوئی سزا دینے کا رواج ہی نہ ہو وہاں پر صرف اور صرف جرائم کی فصلیں ہی کاشت ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ہاں ہو رہی ہیں ۔ اس کے لیئے شرعی نظام کے نفاذ پر لڑنے کی بجائے اسے یورپی ممالک کی مثال لیتے ہوئے اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے ۔ مجرموں کو اس کے محلے ہی میں پھانسیاں دی جائیں ، مجرم کے گھر کے سامنے ہی اس کو کوڑے لگائے جائیں ، مظلوم کےگھر کے سامنے ہی بدکار کو سنگسار کیا جائے ۔ چور کے ہاتھ اس کے گھر کے سامنے ہی کاٹے جائیں ۔ لیکن اس سے پہلے ہر آدمی اور عورت پر کام کرنا لازم کیا جائے ۔ کام چوری کی سزا بھی دیجائے ۔ کام کے مواقع پیدا کرنا حکومت پر لازم ہونا چاہیئے۔  بھوک کی وجہ سے کوئی شخص نہ مرنے دینا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ۔ بوڑھوں  کے لیئے55 سال کی حد کے بعد گزارہ الاؤنس کا اجراء بھی حکومتی ذمہ داری ہے  ، یہ تمام فرائض آپ سے عملی اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں نا کہ کاغذی اسلام کا ۔ یہ سب تو آپ نے کرنا نہیں ہے الٹا اب اسلامی نظام کے نام پر کیا لوگوں کو زبردستی مسجدوں میں گھسایا جائے گا یا لوگوں کو زبردستی کلمہ پڑھوایا جائے گا ۔ کیا مذاق ہے یہ ؟  یہ کام تو یہ دین لانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کیا ، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ نیت عمل کرنے کی ہو تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کوئی بھی دین اس کے ماننے والوں کے حالت ایمانی کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں مقبول ہوتا ہے ، نہ کہ زور زبردستی سے ۔اپنے ملک میں اصل اسلام کو قرآن اور سنت کے مطابق تعلیمی نصاب میں شامل کر کے لوگوں کی سوچ کو ایک حقیقی اسلامی رنگ دیجیئے اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ باقی دین کو انسان کا ذاتی معاملہ رہنے دیں جو اس کے اور خدا کے بیچ ہے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ ساتھ والے کا ۔                                             
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتےجومسلمان بھی ایک

●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/