ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 27 مارچ، 2014

یوم پاکستان 23 مارچ 2014 / کالم



  
* یوم پاکستان23مارچ 2014*
ممتازملک ۔پیرس

* یوم پاکستان23مارچ 2014* *انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا یومِ پاکستان* *کااعلامیہ تھا کہ ٌٌ انصاف آج سے اپنے گھر سے شروع کیا جائے ـ احتساب اپنی ذات سے شروع کیا جائے جب ہی نیا کامیاب پاکستان ممکن ہے*
اتوار کی ایک سرد دوپہر2 بجے سے دن 6 بجے تک یہ خوبصورت محفل منعقد کی گئی جسکا مقصد خواتین کو پاکستان کے نظریئے ، تاریخ ، اسکے وجود کی
اہمیت اور آذادی کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا ۔ اور پاکستان کے آج کے حالات کی آگاہی دینا تھا ۔ پروگرام کی نظامت پیرس کی معروف شاعرہ ، کالمسٹ ، سوشل ورکر ،اور میزبان محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کی ۔ جبکہ مہمانان گرامی میں معروف عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ ،عالمہ محترمہ نوشین اسجد صاحبہ ، حق باہو ٹرسٹ خواتین ونگ کی صدر ،معروف شاعرہ ، شریف اکیڈمی کی فرانس میں سیکٹری و نمائندہ خاص محترمہ روحی بانو صاحبہ ، میگزین در مکنون کی ایڈیٹر اور افسانہ نگار محترمہ وقار النساء صاحبہ ، اور شاہ بانو میر اکیڈمی اورانصاف وویمن ایسوسی ایشن کی بانی و صدر ، چیف اڈیٹر در مکنون ، معروف تجزیہ نگار ، سات کتابوں کی لکھاری ، ناولسٹ ،کالمسٹ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ تھیں ۔ پروگرام کی خاص بات اس میں شامل تمام کی تمام خواتین نہایت پڑھی لکھی اور اچھے ماحول سے تعلق رکھنے والی تھیں جنہوں نے پروگرام کا ایک ایک لمحہ ماحول سے کشید کیا اور اپنے اہل علم اور محب وطن ہو نے کا بھر پور ثبوت کبھی آنسوؤں کے نذرانے سے اور کبھی امید بھری مسکراہٹ کیساتھ دیا ۔ جس نے اس پروگرام کو بلاشبہ ہر ایک کے دل اور روح میں اتار دیا ۔ اور پروگرام کی میزبان ممتاز ملک صاحبہ کو اس بات کا بھرپور احساس دلایا کہ یہاں دھڑکتے اور محسوس کرتے ہوئے زندہ لوگ موجود ہیں نہ کہ کوئی دیواروں سے باتیں کرنے اور لنگر انجوائے کرنے والا ہجوم ۔
پروگرام کا آغاز محترمہ نوشین اسجد کی خوبصورت انداز میں کی گئ سورہ الحجرات کی آیات نمبر 11 اور 12کی تلاوت کلام پاک اور ترجمہ سے ہوا ۔ اور اس کی تفسیر بیان کی ۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ پاک نے کس قدر سختی سے غیبت ، حسد اور بہتان سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ اور اس بات سے سخت نارضگی کا اظہار فرمایا کہ کہ کوئی مسلمان کسے دوسرے کا نام برے انداز میں لے یا اس کی تضحیک کرنے کی کوشش کرے ۔ کیوں کہ یہ ہی چیز جب انسان کی عادت بن جاتی ہے تو اسے سب سے بدترین مرض یعنی حسد مین مبتلا کر دیتی ہے جو اس کی نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔ لہذا ہمیں ہر ہر لمحہ اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ ہم اللہ کے عطا کردہ قلب سلیم کو کہیں قلب اثیم یعنی ناپاک دل نہ بنا لیں ۔ اور ہمیں اپنا محاسبہ خود سے کرنا ہے کہ کہیں ہم نہ جانتے ہوئے دل کی اس روحانی بیماری حسد کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔ کیوں کہ آج پاکستان جس طرح تباہی کی دلدل مین دھنس رہا ہے وہاں یہ حسد ہی ہے جو ہمیں ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ نے بھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے پر زور دیااور پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اپنی غلطیوں کو غلطیاں نہ سمجھنے کو ہی قرار دیا جس نے ہماری پوری ملکی سوچ کو مفلوج کر دیا ہے ۔ قرآن کی روشنی میں ہمیں اپنے راستوں کی تاریکی مٹانی ہو گی جبھی ہم منزل کا نشاں پا سکتے ہیں۔ ورنہ تباہی ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہمیں پاکستان کے لیئے دی گئی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیئے ورنہ اس کے لیئے جانوں اور عزتوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی روحیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
محترمہ وقار النساء صاحبہ نےاپنے خطاب میں پاکستان کی قرار داد کو مسلمانوں کے لیئے ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے ذاتی اختلافات کو کسی بھی صورت اپنے ملکی مفاد سے ٹکرانےنہیں دینا چاہیئے بلکہ جہاں ملکی مفاد کی بات ہو وہاں ہمیں ایک جا ہو کر سوچنا چاہیئے ۔ انہوں نے 1857 سے 1940 اور 1947 تک کے تحریک پاکستان کا سفر مختصراََ بیان کیا ۔
محترمہ روحی بانو صاحبہ نے اپنے خظاب میں پاکستان کی تاریخ کو آج کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قائداعظم نے کروڑوں قربانیوں کے بعد یہ پاکستان اس لیئے نہیں حاصل کیا تھا کہ کہ یہاں پر لوگوں کی عزتیں پاؤں میں روندی جائیں ، حقداروں کے حقوق سلب کیئے جائیں ۔ انصاف سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بن جائے ۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے اس بات کا ہی یقین نہ ہو کہ ہم سلامتی سے اپنے گھروں کو واپس آئیں گے بھی کہ نہیں ۔ یہ ملک ہماری عزتوں کی حفاظت کے لیئے حاصل کیا گیا تھا ۔ تاکہ ہماری نسلیں اس میں اپنی مذہبی آذادی کیساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔ یہ ملک اس لیئے حاصل کیا گیا تھا کہ ہمیں انصاف کے لیئے سالوں دربدر نہ ہونا پڑے ۔ جہاں نہ صرف اظہار رائے کی آزادی ہو بلکہ ہمیں ہر ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے بھرپور مواقع بھی میسر ہوں لیکن آج ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کو پاکستان کا محافظ ہونا چاہیئے تھا وہی لوگ اس ملک کے مستقبل سے کھیلتے رہے ۔ اور اس ملک کو انہوں نے دنیا بھر میں ایک تماشا بنا دیا ۔ اور جو باقی رہی سہی کسر تھی اسکی تباہی میں وہ ہم عوام نے ہی پوری کر دی ۔ ہمیں اللہ پاک کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھ کے ہی فلاح مل سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں شاہ بانو میر صاحبہ اور ممتاز ملک صاحبہ کا بطور خاص شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہمیشہ ہی مجھے بہت پیار اور عزت سے نوازہ ہے ۔ میں ان کی کامیابیوں کے لیئے ہمیشہ ہی دعا گو رہوں گی ۔
محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ روحی بانو صاحبہ کی یہ بات کہ مجھے وہ مقام جو ملنا چاہیئے تھا وہ نہیں ملا تو میں یہ ہی کہوں گی کہ میں نے اکیلے جس سفر کا آغاز کیا تھا الحمد اللہ آج میں اس میں ایک پورے گلدستے کے ساتھ موجود ہوں ، بہت طوفان آئے آندھیاں چلیں کچھ دیر کے لیئے ہم لڑکھڑائے بھی لیکن کیوں کہ ہماری جڑیں غرض کی ریت میں نہیں بلکہ محبت اور اخلاص کی مٹی میں پیوست تھیں اسی لیئے اپنی جگہ سے نہیں ہلیں ۔ پاکستان بنانے والے یہ ادراک کر لیتے کہ یہاں یوں پاکستان کے نام پے دھبے لگائے جائیں گے تو شاید وہ اس تحریک کو ہی منسوخ کر دیتے ۔ آج یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی اپنی فیلڈ میں ایمانداری سے کام کریں اور اس ملک کو اسکا کھویا ہوا وقار واپس دلائیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نورالقران سے جڑنے کے بعد ہر روز خود اپنا احتساب کرنے کی قوت بھی اللہ نے عطا کر دی ہے جس سے رو زاپنے آپ کو گزرے کل سے بہتر بنانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ۔ اور انشا اللہ مرتے دم تک جاری رہے گی ۔
ممتاز ملک نے اپنے پروگرام کو مکمل طور پر پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل کا امتزاج بنا دیا جس میں کئی جذباتی لمحے آئے کئی بار سب کی آنکھیں نم ہوئیں اور کئی بار سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ۔ یہ ہی ایک پیغام رساں کی کامیابی ہوتی ہے اور الحمد اللہ یہ کامیابی یہاں پوری طرح نظر آئی ۔ ممتاز ملک نے اس بات پر ذور دیا کہ عورت کا کردار کسیی بھی ملک کی تحریک کا بنیادی جزو ہوتا ہے یہ عورت ہی تھی جس نے اپنےدوپٹے کو لاہور جیل کی عمارت پر لہرا کر اپنے بھائیوں اور جوانوں کو اس بات کو چیلنج پیش کیا کہ آگے بڑھو تمہاری مائیں بہنیں اپنے آنچل کا کفن بنانے کو تیار ہیں ۔ یہ عورت ہی تھی جس نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح بن کر اپنی ذاتی ذندگی اپنی ہر خوشی اپنے بھائی پر قربان کرتے ہوئے ڈینٹسٹ کی پریکٹس کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان کی تحریک میں اپنا تن من دھن تک پیش کر دیا ۔ لیکن اس قوم نے کیا کِِیا اسی عورت کو مادر ملت کا خطاب تو دیا لیکن زہر میں بجھا کر ان کی جان بھی لے لی اور اس پرخاموشی کی سیاہ چادر ڈال دی ۔ جس پر وقت نے لکھا کہ کیا یہ ایک احسان فراموش قوم ہے؟ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس ملک کے بنیادی مقصد یعنی انصاف کے حصول کو اپنی ذندگی کا مقصد بنانا ہو گا ، اوریہ ہی پاکستان کی بنیاد ہے ۔ ہمیں انصاف چاہیئے تو ہمیں سب سے پہلے خود منصف بننا ہو گا؛ ہمیں ماں باپ کے طور سے اپنے بچوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا ؛بھائی بہنوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا؛ اپنے گھر کے ملازموں سے انصاف کرنا ہو گا ؛پھر دیکھیئے گا کہ ہمیں انصاف کی تلاش میں کہیں بھٹکنا نہیں پڑیگا ۔ کیوں کہ فرائض کی ادائیگی ہی حقوق کے حصول کا سبب ہوتی ہے ۔ ہم سوچتے ہیں جس ملک کے لوگ اس طرح برائیوں میں گھرے ہوں تو یہ قائم کیسے ہے ؟تو مجھے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ اس ملک کی سرحدوں پر کروڑوں شہیدوں کی روحیں گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں جب
بھی کوئی عذاب ادھر کا رخ کرتا ہے تو یہ شہیداللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور فریاد کرنے لگتے ہیں اللہ تو عذاب دیتے ہوئے دیکھنا کہ یہاں یہاں تو میرے بابا کا لاشہ گرا تھا ، یہا ں بھی نہیں؛ نہیں مولا یہاں تو میری بہن نے اپنی عزت اپنے ملک کی بھینٹ چڑھا دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہان بھی نہیں یہاں تو میری بیوی نے اپنے پیدا ہونے سے پہلے کی اولاد بھی نیزوں پر چڑھا دی تھی ۔ خود کو ٹکڑے کروا ڈالا تھا ۔ ۔ ۔ ۔اتنا آہ و فغاں ہوتا ہو گا کہ اللہ پاک بھی اپنے فرشتے کو واپسی کا حکم دے دیتا ہو گا کہ شہید خدا کے پیارے ہوتے ہیں ۔اسی لیئے تو وہ فرماتا ہے کہ شہیدکو مردہ مت کہو یہ زندہ ہیں انہیں ہم رزق دیتے ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے ۔ انہیں کی محبت کے صدقے ہم بار بار معاف کر دیئے جاتے ہیں ، لیکن کب تک ؟ ایسا نہ ہو تو جس ملک کے لوگ اپنے قائد اپنےبابا کی قبر کو بدکاری کا اڈا بنا دیں ۔ جہاں 6،6 سال کی بچیاں ریپ ہو رہی ہوں جہاں قران کا درس دینے والے بچوں سے برے افعال کرتے ہوں ، جہاں عورتیں بے پردہ رہنے کو فیشن کہتی ہوں ، جہاں مخلص لوگوں کی ہنسی اڑائی جاتی ہو ۔ جہاں یارانوں دوستانوں میں سرکاری اداروں کے عہدے پیش کیئے جاتے ہوں جہاں قاتل چھوکرے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے گردن اکڑا کر مقتول کے سر پر پاؤں رکھ کر بھنگڑے ڈالتے ہوں اسے تو کب کا ختم ہو جانا چاہیئے تھا ۔ اگر یہ قائم ہے تو اسی لیئے کہ یہ شہیدوں کی تڑپ خدا سے ہماری بار بار معافی کرواتی ہے ۔
لیکن کب تک یونہی چلے گا ۔خود کو بدلنے کا وقت آن پہنچا ۔ ہم اب بھی یہ ہی دعا کریں گے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُُُترے
وہ فصل گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہموطن کیلیئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
اس تمام، پروگرام کا ٹریبیوٹ شہید اعتزاز احسن کو پیش کیا گیا اور ان کے والدین کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ جس نے اپنے لہوسے اپنی زمین پر لکھا کہ ابھی امید زندہ ہے ۔
یوں یہ پروگراوم سوچوں کے دروازے پر بھرپور دستک دیتا ہوا اختتام پذیر ہوا ۔اپنے انمٹ نقوش زہنوں پر چھوڑتے ہوۓ ۔شکریہ شاہ بانو میر صاحبہ اتنے خوبصورت لوگوں کیساتھ اتنے بھرپور انداز میں بات کرنے کا موقع دینے کے لیۓ۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/