عرفان کی طرح
ہیجان کی طرح کبھی عرفان کی طرح
ہر اک کتاب زیست ہے گردان کی طرح
اتنے تو خوش نصیب نہ تھے خواب میں بھی ہم
ہمکو ملا ہے تو کسی وردان کیطرح
ہم زندگی کی بھیڑ میں گم اس قدر ہوئے
کھینچا ہے واپسی نے بھی فرمان کی طرح
اللہ کا قرب چاہنے کی چاہ ہو چلی
رستہ نہ روکیئے میرا شیطان کی طرح
جب سے خرید لایا وہ انگیٹھی اک نئی
اس میں یہ دل سلگتا ہے لوبان کی طرح
طعنے و تشنیع سارے کتابوں میں بند کر
اک ایک ورق ہم نے پڑھا گیان کی طرح
ایسے گرے ہیں عرش سے مٹی کی گود میں
بھٹکے ہوئے وجود کو فیضانِ کی طرح
ہر پل ہمارے مد مقابل ہے زندگی
ہم کو ملی ہے زیست بھی میدان کی طرح
گر کر سنبھلنے کا جو سبق بھولتا نہیں
دوڑے لہو میں ہمت مردان کی طرح
یہ سوچنے کی بھول نہ کرنا کہ قرض تھا
ممتاز نے یہ دی ہے وفا دان کی طرح
---------
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں