ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 28 جولائی، 2025

پوسٹر ۔ پٹیل بھائی ۔ لابرجے۔




معروف شاعرہ اور لکھاری محترمہ ممتازملک صاحبہ کے اردو شعری مجموعہ کلام
 "اور وہ چلا گیا" 
کی تقریب رونمائی 
آنے والے سبھی مہمانان کو تہہ دل سے خوش آمدید

      ممتازملک ۔ پیرس ، فرانس

          اشاعت : 2024ء

اتوار، 27 جولائی، 2025

موسمیاتی تبدیلی سے تباہیاں ۔ کالم۔ ممتازملک

موسمیاتی تبدیلی سے تباہیاں
 تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)


دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں یہاں بہت سارے سیلاب ، طوفان، اضافی بارشیں اور شدید بارشیں، لینڈ سلائیڈنگ اس قسم کے بہت سارے معاملات لے کر ہر روز اتنے حادثات اور واقعات اور ناگہانی کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔  وہاں پاکستان میں ان چیزوں کی شدت میں ابھی پچھلے دنوں ہونے والے سیلاب کی صورت میں خطرے کی شدید گھنٹی بجائی۔  کئی سالوں سے ان باتوں کے اوپر بات ہو رہی ہے۔  ان معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے لیکن ہماری حکومتوں سے آخر ایسی کیا غلطی سب سے زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔  جس نے آج ہمیں یہ دن دکھایا، تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہاؤسنگ سکیموں کے نام پر کس طرح سے ندی نالوں کے کنارے بیچے گئے۔  کس طرح سے پانی کے راستے بیچے گئے۔ کس طرح سے پانی کے بہاؤ والے علاقے جیسے کہ نالہ لئی ہو ، جیسی مثالوں کو لے لیں ہمارے دریاؤں کی مثالوں کو لے لیں ، جن کے کناروں پر نہ صرف اتنی متصل آبادیاں بنا دی گئیں کہ تھوڑی سی بارش کے بعد بھی اس پانی کی گزرگاہ بند ہو جاتی ہے اور پھر باقی کسر لوگوں نے کوڑا کرکٹ پھینک کر اپنے ندی نالوں کو اس قدر غلیظ اور  تنگ کر لیا کہ وہاں سے پانی کے بہاؤ کی گنجائش بھی اتنی کم ہو گئی کہ تھوڑی سی معمول کی بارش کی صورت میں بھی وہ پانی نالوں سے باہر راستوں پہ بہنے لگتا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اس پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا ۔ کروڑوں روپے کے گھر بنا کر ہم جہاں پر بیٹھ گئے ہیں وہاں ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس بات پر سوچنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں کہ جب بارش ہوگی، یہاں سے پانی گزرے گا، تو پھر اس گھر کا کیا بنے گا؟ ہمارا یہ کروڑوں روپیہ بھی اس پانی کے ساتھ اسی طرح بہ جائے گا۔ لوگوں نے باقاعدہ زمین قبضہ کرنے کے لیے سب سے پہلی سکیم یہ بنائی ہوتی ہے کہ ہر علاقے میں کھلے میدان نالوں کے کنارے دریاؤں کے کنارے پر یا تو بطور گوالے آباد ہو جاتے ہیں یا پھر  جھگی واسی بن کر آباد ہو جاتے ہیں۔  اور پھر ان کے ذریعے وہ اس زمین کو قبضہ کرنے کے لیے اپنی طرف سے بہت سمجھداری دکھاتے ہیں لیکن جب ان کا لاکھوں کا ایک ایک جانور اس پانی میں انہی بارشوں میں بہہ کر جاتا ہے۔ سیلاب کی نظر ہوتا ہے۔ ان کے گھروں کے سامان بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے والے کو افسوس ہوتا ہے۔ لیکن کیا کریں کہ اس کے  سب سے زیادہ ذمہ دار وہ لوگ خود ہیں جو ایسی آبادیوں میں جا کر اباد ہوتے ہیں ۔جہاں پر گھر خریدا جاتا ہے اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتا کہ یہاں سے سیلاب کا پانی تو نہیں گزرتا۔ یہاں کوئی ندی نالہ ہے تو کیا یہ چیز اس کے راستے میں تو نہیں آ رہی اور تو اور بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیموں نے ڈی ایچ اے جیسی بڑی نامور سکیم نے جب پلاٹنگ کی اور سکیم بنائی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ پانی کے راستے کو بند کر رہے ہیں۔  یہ پانی کی گزرگاہ کو خرید رہے ہیں۔  لوگوں سے اربوں روپیہ جیب میں ڈالنے کے بعد کیا وہ ان کے لیئے اب کوئی متبادل سکیم بنائیں گے،  پیش کریں گے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں تو ایسی کوئی امید نہیں۔ حکومتوں سے غلطی یہ ہوئی کہ حکومتوں نے کبھی بھی دوسرے ممالک سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ 
 بالکل سعودی عرب ، یا دوبئی جیسے ملکوں کی طرف دیکھیں جہاں اس بات  پر  جب نہیں سوچا گیا  کہ ہم آبادیاں تو جدید بنا رہے ہیں لیکن جب اس علاقے میں کلائمٹ چینج ہوگا ۔ کل کو جتنی تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔  تو بارشیں۔ہونگی یا  اگر بارشیں  کبھی شدت اختیار کریں گی، جن علاقوں میں بارشیں شاید سال میں ایک دو بار ہوتی تھیں  وہاں جب بارشیں تواتر سے  ہوں گی؟  تو یہ پانی کن نالیوں میں سے گزرے گا ؟ کن نالوں تک پہنچے گا؟ سڑکوں کی کیا صورتحال ہوگی؟  ڈھلان کس طرف ہونی چاہیئے ؟ اٹھان کس طرف ہونی چاہیئے ؟ یہ سب کچھ بہت اہم تھا۔ جس کے لیئے کوئی نہ کوئی ماہر انجینیئر ہی اس وقت آپ کو فیصلہ کر کے دے سکتے تھے کہ یہاں پہ کہاں کہاں پر پانی کا رخ کہاں سے کہاں تک ہو سکتا ہے۔  اور آپ کو کس طرح سڑک بنانی چاہیئے لیکن یہ غلطیاں جو وہاں کی گئیں تو وہاں بھی طوفانی سیلاب اور تباہیاں دیکھنے کو ملیں۔ دنیا نے وہاں سڑکوں کو دریاؤں کی صورت اختیار کرتے گاڑیوں کو تیرتے اور ڈوبتے ہوئے دیکھا ۔ 
  لیکن وہاں پر ترقی کا معیار کچھ مختلف تھا پیسے کی فراوانی تھی  تو انہوں نے اس چیز پر جلد قابو پانا شروع کیا ۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیئے یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ بنی  بنائی سوسائٹیز کو کس طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔  لیکن پانی کی گزرگاہوں اور پانی کہاں سے آ رہا ہے اور کس طرف جا رہا ہے۔  اس رخ کو تبدیل کرنے کے بارے میں آپ کے پاس کوئی انتظام نہ تھا نہ ہے۔ 
  آپ نے اس شعبے میں  گولڈ میڈل حاصل کرنے والے اور ریکارڈ بنانے،  ڈگریاں حاصل کرنے والے سالہا سال کی محنت کے بعد انوائرمنٹ چینج اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اوپر اپنی زندگی کے سالہا سال تعلیم حاصل کرنے پر لگانے والے طلبہ کے علم کو کام میں لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ افسوس صد افسوس کہ ان تمام طالب علموں کو پاکستان میں استعمال کہاں کیا جاتا بلکہ ان کو تو اکثر نوکریاں ہی نہیں ملتی تھیں۔  ان کے لیئے یہ شعبے بنائے ہی نہیں گئے۔ ہر شعبے کی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے میں بھی ایسے ایسے لوگوں کو وزارتیں اور سفارتیں دی جاتی رہی ہیں جن لوگوں کا اس کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ گولڈ میڈل حاصل کرتے ہیں جو لوگ ریکارڈز بناتے ہیں۔  اپنے اپنے شعبوں کے اندر ان کو اسی تعلیم کے اندر ان کی فیلڈ کے اندر ، ان کی ڈومین کے اندر استعمال کیا جائے اور ان کے ذریعے ان کی نئی سوچ کو،  نئی تعلیم کو اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ متناسب انداز میں نپٹنے والے شعبوں میں  بہترین نوکریاں دی جاتیں۔ اور ان نوکریوں کے ذریعے ان کے علم کو استعمال کیا جاتا ۔ کہیں بھی ہاؤسنگ سکیم بنانے سے پہلے یہ شرط لگائی جاتی کہ وہ لوگ کسی اچھے موسمیاتی ماہر   کے ذریعے( اسی طرح جیسے نقشہ بنانے والے سے پیمائش کرانے والے سے سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جاتا ہے )اس علاقے میں ہونے والی، آنے والی آئندہ کی تبدیلیوں کو نوٹس کیا جاتا۔ اور اس کے اوپر باقاعدہ کام کیا جاتا۔  لیکن ہمارے ملکی حالات میں  یہ بھی تب درست ہو سکتا تھا جب ہمارے ملک میں وہ آنے والا ماہر بھی کرپشن کے ذریعے نہ آیا ہوتا۔  رشوت دے کر نہ آیا ہوتا۔  اس کی ڈگری جعلی نہ ہو،  اور وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کر کے، اپنے علم کے زور پر اور اپنی کامیابیاں سچی لے کر آیا ہو۔ اور پھر ان کامیابیوں کے لیئے واقعی اتنی صلاحیت رکھتا ہو، ہنر مندی کی بنیاد پر،  میرٹ کی بنیاد پہ آیا ہو اور پھر وہ رشوت خور نہ ہو،  وہ کرپٹ نہ ہو ، تبھی وہ بہترین انداز میں اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔  دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کو درست کرنے یا پھر ان کے نقصانات کو کم کرنے کے لیئے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں پاکستان میں اپنے اس کردار کو ادا کرنا ہے کہ ہم ان تبدیلیوں سے کس طرح سے نپٹ سکتے ہیں۔  کیونکہ یہ ہمیں کرنا ہی کرنا ہے۔  ہم چاہیں یا نہ چاہیں۔  اربوں کھربوں روپے کا ایک ایک منصوبہ لگانے کے بجائے سب سے پہلے اس ماہر کو وہاں لایا جائے جو یہ بتائے کہ یہاں پر ہوا کا رخ،  پانی کا رخ ، زلزلوں کی صورتحال اور پھر خدانخواستہ پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کے خطرات  کو کیسے سمجھا اور اس کی روک تھام کی جا سکے۔  ایسے واقعات کی شدت کو کم کیا جا سکے اور ایسے حادثات کی صورت میں نہ صرف انسانی جانوں کو بچایا جا سکے بلکہ بہت سارے اس سرمائے کو بچایا جا سکے جو لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے ان منصوبوں پر لگایا جاتا ہے۔ 
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 26 جولائی، 2025

اضطراب نہ ہو۔ اردو شاعری۔ مدت ہوئی عورت ہوئے ۔ اضافی کلام ۔ اشاعت 2025ء



زندگی میں جو اضطراب نہ ہو 
کون جیتا ہے گر جو خواب نہ ہو

میں بھٹک جاؤں یہ ہے ناممکن
 ذہن میرا اگر خراب نہ ہو 

کچھ تو حاصل ہے اختیار نفس 
ورنہ کچھ حاصل ثواب نہ ہو 

دل گناہوں سے باز آئے اگر
ایک مدت سے یہ عذاب نہ ہو

بیچ مجبوریاں نہ گر ہوتیں
تو میرا حسن  انتخاب نہ ہو

ہم کو گھیرا ہے ان سوالوں نے
جن سوالوں کا کچھ جواب نہ ہو

کچھ کتابیں ہوں اس قدر ممتاز 
جس میں گستاخیوں کا باب نہ ہو
                 ۔۔۔۔۔۔ 



سند مشاعرہ ۔ 23 جولائی2025ء بزم ارباب سخن پاکستان


سند مشاعرہ
 
بزم ارباب سخن پاکستان کا 32واں ان لائن عالمی اردو مشاعرہ گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی کے تعاون کے ساتھ پیش کیا گیا۔
 تاریخ : 23جولائی 2025ء
 دن :بدھ 
 وقت:
 پاکستان رات 8 بجے
 انڈیا رات .8.30 بجے
 یورپ: شام 5 بجے 
منتظمین:
۔ محمد نواز گلیانہ،اٹلی۔
۔ ملک رفیق کاظم بھسین، لاہور
 ۔ ممتاز ملک ، فرانس

نظامت کار:
.ممتازملک ۔پیرس ، فرانس 
 تیکنیکی معاون: .کامران عثمان کراچی

 صدارت:
 ۔ نسرین سید، کینیڈا 

مہمان خاص: 
. شجاع الزماں شاد کراچی 
۔فیاض وردک کویت

مجلسِ شعراء:
۔شہناز رضوی۔ کراچی 
۔ امین اوڈیرائی, سندھ 
۔ مظہر قریشی ۔ انڈیا
۔ اشرف یعقوبی ۔ انڈیا
۔  رشید حسرت کوئٹہ
۔ رحمان امجد مراد، سیالکوٹ
۔ سرور صمدانی، ملتان
 ۔ ڈاکٹر ممتاز منور، انڈیا 
۔ ساجد نصیر ساجد اٹلی 
۔ وفا آذر لاہور
 ۔ڈاکٹر امبر رانجھا اسلام اباد
۔ اختر امام انجم ۔انڈیا 
۔لیاقت علی عہد یو کے
۔ وقار علی بحرین
۔ رضوانہ رشاد، دہلی انڈیا 
        ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 24 جولائی، 2025

روحی بانو صاحبہ کیساتھ ظہرانہ۔ رپورٹ


رپورٹ ۔
 ممتازملک۔
پیرس فرانس


گزشتہ اتوار 20 جولائی 2025ء 
 فرانس کی مقبول اور معروف پروگرامز آرگنائزر ، صدر وومن لیگ پاکستان پیپلز پارٹی، صدر سلطان باہو ٹرسٹ، راہ ادب فرانس کی آرگنائزر ، فرانس میں ہونے والی ہر طرح کی ادبی ثقافتی تقریبات کی روح رواں، میلوں کی جان محترمہ روحی بانو صاحبہ پاکستان میں اپنے طویل قیام کے بعد پچھلے ہفتے پاکستان سے واپس فرانس پہنچیں۔ جس پر ان کی دوست احباب اور سبھی ملنے والوں نے بے حد خوشی کا اظہار کیا . اس خوشی میں ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا ۔ جہاں مقامی ریسٹورنٹ میں ایک شاندار ظہرانہ دیا گیا۔ سیلف پیمنٹ پر ایک بھرپور پروگرام پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ جہاں پر سب نے بڑی خوشی سے نہ صرف شرکت کی انہیں خوش آمدید کہا۔ پھولوں کے گلدستے اور تحائف پیش کیئے اور ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ روحی بانو صاحبہ کے بغیر واقعی پروگرام تو بہت سارے ہوتے رہے. لیکن ایک تشتگی کا احساس رہا ۔ وہ نہ صرف ایک بہترین دوست ہیں، بلکہ بہت مخلص ہستی ہیں۔ جو دوسروں کے کام آنے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ ہماری ملاقات بھی ان سے بڑی بھرپور رہی۔ 
روحی بانو صاحبہ نے سبھی دوستوں کا کھلی باہوں کے ساتھ استقبال کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ سب نے انہیں اس قدر محبت سے یاد کیا۔ ان سے واٹس ایپ پر رابطے میں رہیں اور ان سے ملاقات کے لیئے آ کر ان کی عزت میں مزید اضافہ کیا۔
پیپلز پارٹی یورپ کے صدر جناب ارشاد کمبوہ صاحب بھی کچھ دیر کے لیئے تقریب میں تشریف لائے۔ جہاں انہوں نے سبھی بہنوں کا شکریہ ادا کیا اور روحی بانو صاحبہ کے اعزاز میں ہونے والے اس ظہرانے کو دوستوں کا یادگار اجتماع قرار دیا۔
 انہیں خوش آمدید کہنے والی دوستوں میں جہاں اور بہت سے لوگ شامل تھے وہاں صاحب تحریر شاعرہ کالم نگار لکھاری ممتاز ملک صاحبہ ، معروف نعت خواں ستارہ ملک صاحبہ ، معروف صحافی ناصرہ خان صاحبہ، معروف فیشن ڈیزائنر نینا خان صاحبہ، پیپلز پارٹی کی خواتین کی قیادت جن میں محترمہ فرحت صاحبہ، فردوس اعوان ، نازیہ شبیر ، فرح اور بہت سی دوسری خواتین شامل تھیں نے روحی بانو صاحبہ کے لیے بہت ساری نیک خواہشات کا اظہار کیا اور انہیں اپنی کمیونٹی کی جانب سے ایک خوبصورت اثاثہ قرار دیا ۔ یوں ہنستے مسکراتے کھاتے پیتے اس خوبصورت ظہرانے کا اہتمام ہوا ۔
پیش ہیں اس خوبصورت تقریب کی کچھ یادگار 
تصویری جھلکیاں

بدھ، 23 جولائی، 2025

مدت ہوگئی ہے۔ اردو شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے ۔ اضافی کلام ۔ اشاعت 2025ء



تمہارے ساتھ سنگت ہو گئی ہے
یہی اک ہم سے عجلت ہو گئی ہے

بھلا سا نام تھا وہ دشمن جاں
بھلائے جس کو مدت ہو گئی ہے

ہمیں راس آ گیا ہے سرد لہجہ
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے

نہیں دل چاہتا ملنا کسی سے
عجب سی اب طبیعت ہو گئی ہے

ہر اک شے میں کمی کرنے لگے ہیں 
بہت کم ہر ضرورت ہو گئی ہے

سفر تیزی سے طے ہونے لگا ہے
کٹھن تھی جو مسافت ہو گئی ہے

چھپانا ہے بڑا مشکل عمل کا
دکھاوے کی اجازت ہو گئی ہے

فرشتوں کو بھی دھوکا دے رہی ہے
بڑی مکار خلقت ہو گئی ہے

سند ممتاز ہونے کی ملے گی 
اگر صاحب سلامت ہو گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 21 جولائی، 2025

سند مشاعرہ ۔ 18 جولائی 2025ء ۔ راہ ادب فرانس


        سند مشاعرہ
    (محرم سپیشل)

راہ ادب فرانس کا 25واں آن لائن عالمی اردو مشاعرہ گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی کے تعاون کے ساتھ پیش کیا گیا۔
 تاریخ : 18جولائی 2025ء
 دن : جمعہ 
 وقت:
 پاکستان رات 8 بجے
 انڈیا رات .8.30 بجے
 یورپ: شام 5 بجے 
منتظمین:
۔ محمد نواز گلیانہ،اٹلی۔
 ۔ ممتاز ملک ، فرانس

نظامت کار:
ممتازملک ۔پیرس ، فرانس 

تیکنیکی معاون:
۔کامران عثمان ۔کراچی 

 صدارت:
 نسرین سید، کینیڈا 

مہمان خاص: 
۔ شجاع الزماں خان شاد کراچی 
۔ شمشاد شاد ۔۔ انڈیا 

مجلسِ شعراء:
۔ اشرف یعقوبی ۔ انڈیا 
۔خمار دہلوی۔ انڈیا
۔ یحییٰ چوہان ۔ لاہور
۔ نصرت یاب نصرت ۔ راولپنڈی 
۔ملک رفیق کاظم بھسین لاہور 
۔ سرور صمدانی، ملتان
 ۔ ڈاکٹر ممتاز منور، انڈیا 
 ۔طاہر ابدال طاہر ۔ لاہور
۔ محمد شیراز انجم۔لاہور
۔رشید حسرت۔کوئٹہ
۔ فصیح سومرو ۔ رحیم یار خان 
۔ راحت رخسانہ کراچی 
۔ رضوانہ رشاد، دہلی انڈیا 
۔ثمرین ندیم ثمر۔ دوہا قطر
۔ سید شمعون نقوی ۔ لاہور نعت خواں 
                  ۔۔۔۔۔۔۔

پروگرام کا یوٹیوب لنک پیش ہے اسے کاپی پیسٹ کیجیئے۔۔

https://youtu.be/npI3L6w1xsQ?si=VHhtG2YJWW1CCmuB

ہفتہ، 19 جولائی، 2025

پھر بہار آ گئی ۔ اردو شاعری ۔ نظم ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


پھر بہار آ گئی

وقت کے پیڑ پر کچھ نئی کونپلیں
پھر سے اگنے لگیں
 پھر بہار آ گئی
وہ جو پتے گرے خاک میں مل گئے
لینے ان کی جگہ اور حصار آ گئی
مارچ ایسا رہا ماہ امید کہ
روشنی رنگ ممتاز
دامن میں لے کے قرار آ گئی
پھر بہار اگئی پھر بہار آ گئی
لیکے دامن میں اپنے قرار آ گئی
پھر بہار آ گئی پھر بہار آ گئی
وقت کے پیڑ پر کچھ نئی کونپلیں
پھر سے اگنے لگی کہ بہار آ گئ
نظم: (ممتازملک )
پیرس فرانس
۔۔۔۔۔۔


مصرعہ طرح ۔ نبی کی آل اطہر کا گھرانہ یاد آتا ہے ۔ اردو شاعری ۔ منقبت

         یاد آتا ہے 

وجود پاک سے مہکا زمانہ یاد آتا ہے
نبی کی آل اطہر  کا گھرانہ یاد آتا ہے
 
وہ کیا بدبخت تھے جو آپ کے سنگ اک زمانے میں
وہ ملنا دیکھنا اور بھول جانا یاد آتا ہے

بڑے دعوے محبت کے منافق شہر کے فاسق
عمل ان  کوفیوں کا  بزدلانہ یاد آتا ہے

کہا تھا آئیں گے کربل میں دنیا کو دکھائیں گے
عہد جان اپنی دیکر بھی نبھانا یاد آتا ہے

میرے محبوب وارے جائیں گے دین سلامت پر
میرے آقا کا اشکوں میں  بتانا یاد آتا ہے

علی اصغر کی ننھی سی گلو سے جب وہ ٹپکا تھا
زمیں کا بال کھولے ڈگمگانا یاد آتا ہے

یہ وہ غم ہے کہ صدیوں سے سنا بھی جا نہیں سکتا
حقیقت یاد آتی ہے  فسانہ یاد آتا ہے 

یہاں جب آج کی عورت کو قائد کہنا مشکل ہے
حسینی قافلہ  زینب علم لیکر روانہ یاد آتا ہے

کیا انکی ذات سے آگے کوئی ممتاز ہو پایا
مگر دشمن کا ہر باندھا نشانہ یاد آتا ہے 
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 17 جولائی، 2025

خوشی۔۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز

خوش ہونے کے لیئے بہت سا مال نہیں چاہیئے بس خوش ہونے کا ارادہ ہونا چاہیئے ۔ 
چھوٹی چھوٹی باتیں 
(ممتازملک پیرس )

سند مشاعرہ۔ 16جولائی 2025. بزم ارباب سخن پاکستان


سند مشاعرہ
 
بزم ارباب سخن پاکستان کا 31واں آن لائن عالمی اردو مشاعرہ گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی کے تعاون کے ساتھ پیش کیا گیا۔
 تاریخ : 16جولائی 2025ء
 دن :بدھ 
 وقت:
 پاکستان رات 8 بجے
 انڈیا رات .8.30 بجے
 یورپ: شام 5 بجے 
منتظمین:
۔ محمد نواز گلیانہ،اٹلی۔
۔ ملک رفیق کاظم بھسین، لاہور
 ۔ ممتاز ملک ، فرانس

نظامت کار:
ممتازملک ۔پیرس ، فرانس 

 صدارت:
 نسرین سید، کینیڈا 

مہمان خاص: 
خمار دہلوی۔ انڈیا

مجلسِ شعراء:
۔شہناز رضوی۔ کراچی 
۔ شجاع الزماں خان شاد کراچی 
۔ امین اوڈیرائی, سندھ 
۔ انظار البشر ۔ انڈیا
۔ مظہر قریشی ۔ انڈیا
۔ اشرف یعقوبی ۔ انڈیا
۔ شمشاد شاد۔ انڈیا
۔  یحییٰ چوہان ۔ لاہور
۔ رحمان امجد مراد، سیالکوٹ
۔ سرور صمدانی، ملتان
 ۔ ڈاکٹر ممتاز منور، انڈیا 
 ۔طاہر ابدال طاہر ۔ لاہور
۔ محمد شیراز انجم۔لاہور
۔ اختر امام انجم ۔انڈیا 
۔رشید حسرت۔کوئٹہ
۔انیس احمد ۔ لاہور
۔ رضوانہ رشاد، دہلی انڈیا 
        ۔۔۔۔۔۔۔
آپ سب کی شرکت کے لیئے ہم تہہ دل سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ 
♥️💙💜🤎💖🩶🩷💚🤍💐💐💐💐💐💐💐💐💐
شکرگزار
نظامت کار:
ممتازملک ، پیرس فرانس 
ٹیم : بزم ارباب سخن پاکستان 
ٹیم: گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 
               ۔۔۔۔۔۔۔
پیش ہے مشاعرے کا یوٹیوب لنک! 
اسے کاپی کر کے تلاش والی جگہ پر پولیسٹر کیجیئے ۔ 

https://youtu.be/OTKi0ETAvUU?si=pQAcFE2VQt4Su7uP


اتوار، 13 جولائی، 2025

ء2025/ 11جولائی ۔ سند مشاعرہ ۔ راہ ادب فرانس پنجابی مشاعرہ


سدا کوی دربار
محرم الحرام 1447ھ سپیشل

سند مشاعرہ 

پنجابی کوی دربار
     

 راہ ادب فرانس دا 46 واں آن لائن عالمی پنجابی مشاعرہ، گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی دی سانجھ نال پیش کیتا گیا۔

 تریخ: 11جولائی 2025ء
 دیہاڑ: جمعہ
 ویلا:
 پاکستان راتی 8 وجے 
انڈیا:راتی 8.30 وجے 
یورپ شامی 5 وجے

 انتظام کار:
 ۔محمد نواز گلیانہ اٹلی
۔ ممتاز ملک پیرس فرانس 

نظامت کار:
۔ ممتازملک پیرس

۔ تیکنیکی معاون:
کامران عثمان ۔ کراچی 

 صدارت :
۔ ملک رفیق کاظم بھسین ۔ لاہور

 اچچے پروہنے :
۔ رومی بیگ ۔ عمان

بیٹھک شاعراں:
۔ سرور صمدانی ۔ملتان
۔ ندیم افضل ندیم ۔ شیخوپورہ
۔ اندرجیت لوٹے۔ انڈیا
 ۔رحمان امجد مراد سیالکوٹ
۔ ساجد نصیر ساجد۔ اٹلی
۔ منظور شاہد۔ قصور
۔ اشفاق احمد سپین 
۔ رضوانہ رشاد ۔ انڈیا 
۔ شبانہ خان شہابی تار۔ کراچی
             ۔۔۔۔۔۔
اسی تہاڈی ایس خوبصورت شرکت لئی دل دیاں گہرائیاں نال تہاڈا شکریہ ادا کردے آں۔ 💐🙏
شکر گزار:
ٹیم: راہ ادب فرانس 
ٹیم: گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 
          ۔۔۔۔۔
اس مشاعرے دا فیس بک ریکارڈنگ لنک پیش خدمت اے۔ 

https://www.facebook.co
m/share/v/16RrdqudEB/
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ 23مئی2025ء راہ ادب فرانس ۔ اردو مشاعرہ

23 مئی 2025ء راہ ادب فرانس کا43واں آن لائن عالمی اردو مشاعرہ 
یو ٹیوب لنک پیش ہے


https://youtu.be/gpoIVylvUOM?si=wwYIRJf2Xe88S6WI

ہمارے مظالم کا شکار جانور ۔ ٹک ٹاک لنک

ہمارے مظالم کا کا شکار جانور 

https://vm.tiktok.com/ZNdPXvWUn/

نعت۔ دیار نبی کا۔ ٹک ٹاک لنک

  دیار نبی کا ارادہ کیا ہے 
نعت رسول مقبول 
(صلی اللہ علیہ وسلم) 

https://vm.tiktok.com/ZNdPXvWUn/

ہفتہ، 12 جولائی، 2025

عورت کا جسم تو؟؟؟. کالم


    عورت کا جسم تو ؟؟؟
    تحریر:
     (ممتازملک. پیرس)

پچھلے دنوں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک اور نوجوان اداکارہ کی لاش کئی ماہ کے بعد یا شاید سال بھر کے بعد اس کے کرائے کے فلیٹ سے ملی ۔ 
حمیرا اصغر اعلی تعلیم یافتہ، اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی جو  اپنی محنت سے ایک ایک قدم اداکاری کے شعبے میں رکھ کر آگے بڑھ رہی تھی۔ 
اس نوجوان خوبصورت باصلاحیت لڑکی کی لاش اس کے باپ اور بھائی نے وصول کرنے انکار کیا اور اپنے ماتھے پر غیرت مندی کا سہرا  سجایا تو ہمارے معاشرے کے اور بہت سے نام نہاد غیرت مندوں کے ایسے ایسے بہتان تراش اور غلیظ خیالات پڑھنے کو ملے کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔
بہت ہی بے غیرتی بھری تحریریں نظر سے گزریں۔  جسے عورت کو چیلنج کرنے کے لیئے غیرت کا لیبل لگا کر چپکایا جا رہا ہے ۔ پہلے تو یہ تسلیم کرو کہ عورت بھی انسان ہے اور اسے بھی خدا نے پورا دل دماغ سوچ اور شخصیت عطا کی ہے۔ ہر لڑکی کو اس بات کا پورا حق خدا نےدیا ہے ہمارے  قانون نے دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تعلیم،  شعبہ، ذریعہ روزگار، اپنی زندگی کا ساتھی حاصل کرے ۔ کوئی باپ اور بھائی اس کے اس حق کو ہائی جیک نہیں کر سکتا۔ 
اس لڑکی کو لاوارث چھوڑنے والے یہی باپ اور بھائی،  کل کو اگر یہ لڑکی کامیاب ہو جاتی ۔ دولت مند مشہور شخصیت بن جاتی توکونوں کھدروں سے کاکروچ کی طرح نکل کر اس کے نام کو اپنا جھومر بنا لیتے۔ جیسے ریما ،خوشبو، صاحبہ ،میرا ، جیسی اداکاراؤں کے باپ پیدا ہو گئے ۔ 
یہ لڑکی اتنی ہی بڑی بدکار ہوتی تو اتنے سال کی جدوجہد میں چھوٹے چھوٹے رولز کر کے اپنی پینٹنگز بیچ کر گزارا نہ کر رہی ہوتی ۔ کرائے کے فلیٹ میں جانے کتنے دن کے فاقے سے یا صدمات سے، یا  دل کے دورے سے نہ مر گئی ہوتی ۔ 
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا گند ہی یہی ہے کہ یہاں عورت نے جہاں اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ خود لینا چاہا، وہاں اسے آوارہ ، بدچلن ، بےحیا،  بےشرم اور جانے کیا کیا ٹھپے لگا کر اس کے راستے میں کانٹے بچھاتا اور اسے سنگسار کرتا ہے۔ 
اپنی زبانوں کو لگام دینا سیکھیئے۔ اپنے گریبانوں میں جھانکیئے۔ ۔ 
اللہ اور قانوں کے دیئے ہوئے انسانی حقوق کا ٹھیکیدار صرف مرد ہی نہیں ہے۔ عورت بھی اتنی ہی حصہ دار ہے۔ 
کیوں ہمارے معاشرے کا ٹھرکی ، کھسروں تک کے پیچھے بھی پاگل مرد ہر عورت کے جسم پر اپنا حق جمانا چاہتا ہے؟ 
اس کا جسم ہے تو وہ ہی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرے یا سنبھالے یا بچائے۔ 
جہاں باپ اور بھائی بیٹی اور بہن پر گھروں میں بدمعاش بن جاتے ہیں۔  ان کی آکسیجن تک بند کر دیتے ہیں۔  وہاں وہ اپنا فیصلہ خود کرنے کا پورا حق رکھتی ہیں ۔ وہ غنڈے باپ بھائی نہ تو غیرت مند کہنے کا حق رکھتے ہیں نہ ہی ہیرو کہلا سکتے ہیں ۔ 
اس لڑکی کے کردار پر تبصرہ کرنے اور اپنے اندر کی گندگی نکالنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہوئے کہ اس شہر کے لوگ جو اسے کئی سال سے جانتے تھے، لیکن بے حس، بے خبر ، گونگے، بہرے ہو گئے ۔ جن میں اس کا کوئی دوست نہیں تھا ۔ کوئی ملنے والا نہیں تھا ۔ اور تو اور جن کے ساتھ یہ کام کرتی تھی، جن کے ساتھ اس کے کام کے معاہدے ہو چکے تھے۔  ان میں سے کسی نے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ  باصلاحیت لڑکی جو ہمارے پروجیکٹ کا حصہ ہے، وہ اگر فون اٹینڈ نہیں کر رہی، وہ اگر بات نہیں کر رہی، کہیں دکھائی نہیں دے رہی ، تو اس کے بارے میں اس کے گھر جا کر پتہ کیا جائے کہ وہ کہاں ہے؟ اگر دروازے پر برابر تالا دکھائی دے رہا ہے تو پھر مالک مکان کہاں تھا ؟جو کہتا ہے کہ مجھے اتنے مہینوں سے کرایہ نہیں ملا . سال بھر سے غالبا پچھلے سال 2024ء میں مئی کے مہینے میں اس کا آخری بل جمع ہوا۔  اور آخری بار وہ دیکھی گئی۔  اس وقت سے لے کر ابھی پھر مئی 2025ء میں گزر چکا ہے۔ لیکن اس کا گھر بند ہونا اسکا دکھائی نہ دینا نوٹس نہیں کیا گیا۔  افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کوئی شہر کوئی محلہ کوئی علاقہ کوئی بلڈنگ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہے۔  کہ آپ کا وہ پڑوسی کافی دنوں سے دکھائی نہیں دیا جو آپ کی زبان بولتا ہے۔  وہ آپ کے ملک کا حصہ ہے۔  وہ آپ کی معاشرت کا حصہ ہے۔  آپ کسی بیرون ملک نہیں رہتے۔  پھر آپ ایک دوسرے سے زبان کے فاصلے پر نہیں ہیں۔  ساتھ ساتھ آپ کے دروازے جڑے ہوئے ہیں۔  لیکن سوراخوں میں سے لوگوں کے گھر کتنے مرد اور کتنی عورتیں آئی اور گئی کی گنتی رکھنے والے ہمارے معاشرے خصوصا فلیٹس میں رہتے ہوئےاندازہ لگانے اور گنتی رکھنے والے ہمارے معاشرے میں کسی کو یہ کیسے پتہ نہیں چلا کہ ایک لڑکی کتنے دنوں سے اپنے گھر پر مردہ پڑی ہے۔ نیند کی حالت میں اس کی موت ہو گئی یا اسے دل کا دورہ پڑا یا اور کوئی مسئلہ ہوا جس میں اس نے شاید کسی کو آواز دی ہوگی۔ اگر نہیں بھی دی تو اس کے وجود سے موت کے بعد اٹھنے والے تعفن نے کسی کو خبردار نہیں کیا ؟ کیا اس کا فلیٹ اتنے بدبو زدہ علاقے میں ہے جہاں اس کے وجود سے اٹھنے والا تعفن بھی کسی کو محسوس نہیں ہوا؟  سوالات بہت سے ہیں اور یہ سب کچھ کسی اور کے ساتھ نہیں کل کو آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔  اگر یہ معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ عائشہ خان جیسی بزرگ ہنستی بولتی خاتون کے بارے میں بے حسی کا شکار ہو اور مہینے بھر بعد اس کی لاش اسکے فلیٹ سے برآمد ہوتی ہے۔ تو ہم سب  کو خود پر اس وقت کا انتظار شروع کر دینا چاہیئے۔ 
اکیلے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے ۔
بہت سے لوگ اپنے روزگار کے لیے کاروبار کے لیے تعلیم کے لیے دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں یا اکیلے رہتے ہیں کئی لوگوں کا دوسروں کے مزاج سے نہیں ملتا ان کی عادتیں ایک دوسرے سے نہیں ملتی اس لیے وہ دوسروں کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتے تو ایسے میں وہ اپنے لیے الگ رہائش یا کمرہ لے کر رہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے کیا اپ کسی کے کردار کا فیصلہ اس بات سے کریں گے کہ وہ اکیلا رہتا ہے یا رہتی ہے شاید کسی لڑکے کے لیے ایسا نہ ہو لیکن کسی کی خاتون کے لیے ایسا سوچتے ہوئے ہمارا پورا معاشرہ جج بن کے ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا کیونکہ اگر عورت اکیلی رہتی ہے تو بس پھر وہ بری عورت ہے وہ دو نمبر عورت ہے لیکن مرد چاہے اکیلا رہے چاہے کہیں بھی ہو وہ ہمیشہ نیک اور پرہیزگار رہے گا 
 لیکن اکیلی یا اکیلا رہنے والے کو بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلام دعا کا تعلق ضرور رکھنا چاہیے۔  اور پڑوسیوں کو بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمارے دائیں بائیں ارد گرد کون کون رہتا ہے۔  ایک دوسرے کے گھروں میں گھسے رہنا کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔  آپ کی واقفیت کے لیئے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا کر سلام کرنا اور گزر جانا بھی بہت بڑی بات ہے۔ 
جتنا ہم اپنے دین کے اصولوں سے دور ہوتے ہیں تو گویا انسانیت سے بھی پلہ جھاڑ کر کسی عجیب ہی زمانے میں پہنچ چکے ہیں۔  جہاں نہ کوئی رشتہ ہے، نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی لحاظ یہی ہے ہماری تباہی کی وجہ۔۔۔۔۔
تحریر ۔
(ممتازملک ۔پیرس)


سند مشاعرہ9 جولائی2025ء۔ بزم ارباب سخن پاکستان


سند مشاعرہ
   (محرم سپیشل)


بزم ارباب سخن پاکستان کا 29واں ان لائن عالمی اردو مشاعرہ گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی کے تعاون کے ساتھ پیش کیا گیا۔
 تاریخ : 9جولائی 2025ء
 دن :بدھ 
 وقت:
 پاکستان رات 8 بجے
 انڈیا رات .8.30 بجے
 یورپ: شام 5 بجے 
منتظمین:
 محمد نواز گلیانہ،اٹلی۔
 ملک رفیق کاظم بھسین، لاہور
 ممتاز ملک ، فرانس

نظامت کار:
ممتازملک ۔پیرس ، فرانس 

 صدارت:
 نسرین سید، کینیڈا 

مہمان خاص: 
۔ شجاع الزماں خان شاد کراچی 
۔ امین اوڈیرائی, سندھ 
۔ مظہر قریشی ۔ انڈیا
۔ اشرف یعقوبی ۔ انڈیا

مجلس شعرا :
۔ شمشاد شاد۔ انڈیا
۔ خمار دہلوی۔ انڈیا
۔ رحمان امجد مراد، سیالکوٹ
 سرور صمدانی، ملتان
 ۔ ڈاکٹر ممتاز منور، انڈیا 
 ۔طاہر ابدال طاہر ۔ لاہور
۔ سید شمعون نقوی
۔ نعت خواں ۔ لاہور 
 ۔ایم آئی ظاہر۔ انڈیا
۔ رضوانہ رشاد، دہلی انڈیا 
               ۔۔۔۔۔۔۔
آپ سب کی شرکت کے لیئے ہم تہہ دل سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ 
♥️💙💜🤎💖🩶🩷💚🤍💐💐💐💐💐💐💐💐💐
شکرگزار
نظامت کار:
ممتازملک ، پیرس فرانس 
ٹیم : بزم ارباب سخن پاکستان 
ٹیم: گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 
               ۔۔۔۔۔۔۔

مشاعرے کا یوٹیوب لنک پیش ہے !
             
https://youtu.be/uUX_1BRoS20?si=0-ZqgUx5C-VzXpBC
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 9 جولائی، 2025

رابطہ ہو گا/ اردو شاعری ۔ بار دگر





کبھی دل کے دھڑکنے سے سنا تھا رابطہ ہو گا
میں سایہ ہوں تیرا مر کر ہی جو تجھ سے جدا ہو گا

اکھٹے اب رہیں ہم تم یا پھر قصدا بچھڑ جائیں 
جہاں جوڑے بنے تھے اب وہیں پر فیصلہ ہو 

بہت سے راز آنکھوں سے جھلک پڑتے ہیں بن چاہے
نگاہوں کے تصادم سے کوئی فتنہ بپا ہو گا 

ابھی تو عشق میں ہے تو میری تعریف کرتا ہے 
تیرا لہجہ میں دیکھوں گی تو مجھ سے جب خفا ہو گا

متانت اور شرافت جب تیری باتوں سے چھلکے گی
محبت میں جو دیتے ہو یہ حق اس دن ادا ہو گا 

زبانی کے جمع خرچے میں کب اخلاص کی لذت
تمہارا قد تمہاری سوچ سے  مل کر بڑا ہو گا

میں اپنے حوصلے پہ دشت سارے پار کر لونگی
مجھے ممتاز رہنے دو بھلے سے سے تن جلا ہو گا
           ●●●


اتوار، 6 جولائی، 2025

بے قابو جنسی خیالات۔ کالم۔ نفسیاتی مسائل


بے قابو جنسی خیالات
تحریر:
      (ممتازملک. پیرس)


عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں وہ سب کا سب ہمارے رویے میں جھلکنے لگتا ہے۔ اور تو اور اس کا اثر ہمارے چہرے میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ ہمارے ہاتھ پاؤں کی حرکت میں، جنبش میں، اس کے اثرات آنے لگتے ہیں ۔کیونکہ ظاہر ہے ہمارا دماغ ہمارے جسم کا حصہ ہے اور اس سے نکلنے والے ہر خیال کو ہمارا جسم فالو کرتا ہے۔  اس کی تابعداری کرتا ہے۔ اس لیئے ہمیں اپنے خیالات کو مثبت  اور پاکیزہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔  وہ لوگ جو بڑی عمروں تک پہنچنے کے بعد بھی، یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اگر وہ 80، 90 سال کے بھی ہو جاتے ہیں تو ان کے اندر ایک خاص قسم کی جنسی کمینگی پائی جاتی ہے۔  وہ عورت ہے تو مرد کے لیئے اور مرد ہے تو عورت کے لیئے ہر وقت ایک عجیب سی بے چینی اوربیقراری دکھاتا ہے۔  ایکسائٹمنٹ دکھاتا ہے اور اسے ہر وقت ان کی طلب رہتی ہے۔  کیوں؟ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو ان کے بچپن سے جاننے والوں کو جب سوال کریں گے کہ کیا یہ شروع سے ایسے ہیں ؟ تو آپ کو لگے گا کہ ہاں بچپن سے ہی جب یہ بچی تھی یا بچہ تھا تو اس کے رویے کے اندر ایک خاص طرح کی دوسری جنس کے لیئے کشش تھی اور یہ اس کے بارے میں بات کریگا /گی ، لطیفے سنائے گا تو وہ بھی جنسیت پہ مبنی ہوں گے۔  مذاق کرے گا تو وہ بھی جنسی رویوں پہ مبنی ہوں گے۔  یعنی اس کی کوئی بات بھی مخالف جنس کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا جسم، اس کا ذہن صرف اور صرف ہر وقت جنس کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے اور وہ بھی مخالف جنس کے بارے میں سوچ سوچ کر ویسے ہی سگنلز،  ویسی ہی لہریں وہ اپنے اعضاء کو دے رہا ہے۔  اپنے جسم کو دے رہا ہے اور وہ اس کے اوپر عمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اکثریت خیالات کے پراگندہ ہوتے ہیں۔ جس کے سبب وہ ہمیشہ کہیں نہ کہیں جنسی جرائم میں کسی نہ کسی صورت ملوث ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دماغ ، انکی سوچ ہی کے سبب  وہ ایسا کر رہا ہے۔ یہ بھی غور کیجئے۔ ایسے رویوں کے لوگ اکثر اس حد تک جنسی طور پر متحرک ہوتے ہیں، کہ سوتے جاگتے ان کو بس ایک ہی چیز کا غم کھاتا ہے کہ انہیں کسی طرح سے کوئی عورت، کوئی مرد میسر ہو جائے۔ یہ لوگ اپنے کردار کو پاکیزہ نہیں رکھ سکتے۔  یہ جنسی جرائم میں آسانی کے ساتھ مبتلا ہو جاتے ہیں۔  آپ ازما کر دیکھیئے وہ لوگ جو اپنے آپ کو اپنے مذہب کے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں تو ان کے خیالات پاکیزہ ہوتے ہیں۔  وہ ان کو روحانی طور پر طاقت دیتے ہیں۔ اور یہ طاقت ان کے مثبت خیالات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔  پس جب خیالات مثبت ہوتے ہیں تو ان کا عمل خود بخود اس کی تقلید کرتا چلا جاتا ہے۔  جبکہ ان کی سوچ پاکیزہ ہوتی ہے تو ان کے فیصلوں میں وہ پاکیزگی دکھائی دیتی ہے۔  لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا ، ان کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا محفوظ محسوس کرتے ہیں،  جبکہ دوسری جانب غور کیجئے وہ شخص وہ خاتون یا وہ مرد جو ہر وقت گفتگو میں ، مذاق میں،  جنسی رویوں میں جنسی لطیفوں آنکھوں کے ، انگلیوں کے اشاروں میں لذت ڈھونڈتا ہے، وہ کہیں نہ کہیں خود لذتی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔  وہ کہیں نہ کہیں کسی دوسرے کو اس مقصد کے لیئے استعمال بھی کر بیٹھتا ہے ۔ وہ جب سوچتا ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں اسی اثر کے تحت اسی چیز کو ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ بات اس کو تیزی سے گناہوں میں مبتلا کرتی ہے ۔ وہ ہر وقت اس گندگی میں رہتا ہے۔ نہ اس کی سوچ پاکیزہ رہتی ہے، نہ اس کا جسم پاکیزہ رہتا ہے، اور نہ ہی اس کے رویے سے وہ پاکیزگی جھلک سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ، چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، اور اپ کے ساتھ رشتے میں کسی بھی طور سے بندھے ہوں، وہ عمر میں بڑے رشتے میں ہوں، یا چھوٹے رشتے میں ، چاہے وہ آپ کے والدین ہوں ، ماں ہو، باپ ہو، دادا نانا ہو ،دادی نانی  ہو ، اگر وہ ایسے رویوں میں ہیں ایسی عادتوں کا شکار ہیں  تو یقین کیجئے آپ خود بھی ان کے ساتھ تنہا بیٹھنا گوارا مت کیجئے اور اپنے بچوں کو، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایسے لوگوں کی نگرانی میں کبھی چھوڑ کر مت جائیے، کیونکہ ان کے جنسی جرائم کبھی بھی ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ان  بچوں اور ٹیم ایجرز کو چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ آج کا ہونے والا معمولی سا رویہ کل کو ان کے لیئے کتنے بڑے ذہنی ٹروما کا سبب بن سکتا ہے اور وہ زندگی میں اس واقعے کو اپنے اوپر سے کبھی بھی ہٹا نہیں پائیں گے۔  اس لیئے ضروری ہے ایسے لوگوں کی صحبت میں تب جائیں اگر آپ خود اتنی پاور فل مذہبی سوچ رکھتے ہیں کہ کسی کو اس کی برائی سے کھینچ کر باہر نکال سکیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ تب ضرور کوشش کیجئے یا  اگر وہ لوگ خود ایسی باتوں سے نکلنا چاہیں تو اپنے آپ کو اپنے مذہب کے ساتھ جوڑ کر اس سے روحانی سکون حاصل کریں اور ایسے گندے خیالات سے باہر نکل سکیں۔ جس کا عام طور پر امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ خصوصا اگر سامنے والا 40 سال کی عمر سے زیادہ کا ہے ۔ کیونکہ 40 سال کی عمر سے پہلے پہلے تک اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لیے کوشش کرے گا یا اپنے خیالات کی پاکیزگی پر کام کر پائے گا۔  لیکن اس خاص عمر  کے بعد اسے عموما کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔  اگر وہ تبدیل ہونے کا ڈرامہ بھی کرے تب بھی کہیں نہ کہیں یہ محاورہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے ۔ اس لیئے ایسے جنسی بیماروں کو ہمیشہ ایک فاصلے پر رکھ کر ٹریٹ کیا جانا چاہیے۔ ان پر سو فیصد بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیئے ۔ 
 زندگی جنس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔  ہر وقت جنسی درندہ بنا رہنا آپ کو صرف روحانی اور جسمانی حتی کہ معاشرتی طور پر بھی بیحد کمزور کرتا ہے۔  آپ کی شخصیت کی پاکیزگی اور مضبوطی کے لیئے ضروری ہے کہ آپ نفسیاتی طور پر مضبوط ہوں اور وہ تب ہوگا جب آپ اپنے مذہبی رویوں کو بہترین رکھیں گے۔ اپنی روحانی بہتری کے لیئے اس پر کام کرینگے۔  انہیں فالو کریں گے اور پاکیزگی کے ان تمام اقدامات کو اپنی زندگی میں شامل کریں گے۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکان لبدی۔ پنجابی نعت ۔ اکھیاں نمانیاں



میں تے آقا دے محلے چہ مکان لبدی
نکا موٹا نیئوں سیوں عالیشان لبدی

اوتے بادشاہ اے خیر منگاں اوس تے جچے 
اونے دتا اے جو مینوں اوہو مان لبدی

دیو ایس نوں تے راضی ہو کے گھر جاوے
سوہنے نبی دے بلاں توں فرمان لبدی

جنہوں راتوں رات رب نے وکھائی ہر شے
خاک پیراں دی میں چک کے جہان لبدی

خالی ہاتھ تے کسے دے گھرجاندا نہیں کوئی
میں وی جان لئی اخیر دا سمان لبدی

سوہنا ویکھ لوے اک وار راضی ہو کے
ممتاز ہو کے واراں اوہو جان لبدی
               ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 5 جولائی، 2025

سند مشاعرہ ۔ 2 جولائی 2025ء ۔ بزم ارباب سخن پاکستان


               سند مشاعرہ
          (محرم سپیشل)

بزم ارباب سخ

ن پاکستان کا 29واں ان لائن عالمی اردو مشاعرہ گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی کے تعاون کے ساتھ پیش کیا گیا۔
 تاریخ : 2 جولائی 2025ء
 دن :بدھ 
 وقت:
 پاکستان رات 8 بجے
 انڈیا رات .8.30 بجے
 یورپ: شام 5 بجے 
منتظمین:
 محمد نواز گلیانہ،اٹلی۔
 ملک رفیق کاظم بھسین، لاہور ممتاز ملک ، فرانس

 تیکنیکی معاون:
 کامران عثمان ، کراچی

نظامت کار:
ممتازملک ۔پیرس ، فرانس 

 صدارت:
 نسرین سید، کینیڈا 

مہمان خاص: 
امین اوڈیرائی, سندھ 

مجلس شعرا :
۔ رحمان امجد مراد، سیالکوٹ
۔ شہناز رضوی، کراچی
 ۔شجاع الزماں خان شاد، کراچی
 سرور صمدانی، ملتان
 ۔ اشرف یعقوبی ۔ انڈیا
۔ انظار البشر ۔ انڈیا
 ۔ ڈاکٹر ممتاز منور، انڈیا 
۔ انیس احمد، لاہور 
۔ اختر امام انجم ، انڈیا 
 ۔طاہر ابدال طاہر ۔ لاہور
۔ ساجد نصیر ساجد ، اٹلی
۔ راحت رخسانہ بزمی۔ کراچی
 ۔ایم آئی ظاہر۔ انڈیا
۔ رضوانہ رشاد، دہلی انڈیا 
۔ نگار بانو۔ انڈیا
                 ۔۔۔۔۔۔۔
آپ سب کی شرکت کے لیئے ہم تہہ دل سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ 
♥️💙💜🤎💖🩶🩷💚🤍💐💐💐💐💐💐💐💐💐
شکرگزار
نظامت کار:
ممتازملک ، پیرس فرانس 
ٹیم : بزم ارباب سخن پاکستان 
ٹیم: گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 
               ۔۔۔۔۔۔۔
اس مشاعرے کا یوٹیوب لنک پیش ہے !

https://youtu.be/gpoIVylvUOM?si=wwYIRJf2Xe88S6WI
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

سند مشاعرہ ۔ 27 جون 2025 ء راہ ادب فرانس۔ پنجابی مشاعرے



۔۔سدا کوی دربار
محرم الحرام 1447ھ سپیشل
(حمد نعت منقبت مرثبہ نوحہ سلام)

سند مشاعرہ 

پنجابی کوی دربار
     

 راہ ادب فرانس دا 45 واں آن لائن عالمی پنجابی مشاعرہ، گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی دی سانجھ نال پیش کیتا گیا۔

 تریخ: 27جون 2025ء
 دیہاڑ: جمعہ
 ویلا:
 پاکستان راتی 8 وجے 
انڈیا:راتی 8.30 وجے 
یورپ شامی 5 وجے

 انتظام کار:
 ۔محمد نواز گلیانہ اٹلی
۔ ممتاز ملک پیرس فرانس 

نظامت کار:
۔ ممتاز ملک پیرس

 صدارت :
۔ ملک رفیق کاظم بھسین ۔لاہو

 اچچے پروہنے :
۔ امین اوڈیرائی۔ سندھ

بیٹھک شاعراں:
۔ سرور صمدانی ۔ملتان
۔ لیاقت علی عہد۔ یوکے
۔ رومی بیگ گجرات
 ۔رحمان امجد مراد سیالکوٹ
۔ ساجد نصیر ساجد۔ اٹلی
۔ طاہر ابدال طاہر ۔ لاہور
۔ منظور شاہد۔ قصور
۔ثمینہ منال ۔ یوکے
۔ اشفاق احمد سپین 
۔وقار علی۔ بحرین
۔ نگار بانو ۔ انڈیا
۔ رضوانہ رشاد ۔ انڈیا 
             ۔۔۔۔۔۔
اسی تہاڈی ایس خوبصورت شرکت لئی دل دیاں گہرائیاں نال تہاڈا شکریہ ادا کردے آں۔ 💐🙏
شکر گزار:
ٹیم: راہ ادب فرانس 
ٹیم: گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 
          ۔۔۔۔۔

           ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/