ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 6 جولائی، 2025

بے قابو جنسی خیالات۔ کالم۔ نفسیاتی مسائل


بے قابو جنسی خیالات
تحریر:
      (ممتازملک. پیرس)


عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں وہ سب کا سب ہمارے رویے میں جھلکنے لگتا ہے۔ اور تو اور اس کا اثر ہمارے چہرے میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ ہمارے ہاتھ پاؤں کی حرکت میں، جنبش میں، اس کے اثرات آنے لگتے ہیں ۔کیونکہ ظاہر ہے ہمارا دماغ ہمارے جسم کا حصہ ہے اور اس سے نکلنے والے ہر خیال کو ہمارا جسم فالو کرتا ہے۔  اس کی تابعداری کرتا ہے۔ اس لیئے ہمیں اپنے خیالات کو مثبت  اور پاکیزہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔  وہ لوگ جو بڑی عمروں تک پہنچنے کے بعد بھی، یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اگر وہ 80، 90 سال کے بھی ہو جاتے ہیں تو ان کے اندر ایک خاص قسم کی جنسی کمینگی پائی جاتی ہے۔  وہ عورت ہے تو مرد کے لیئے اور مرد ہے تو عورت کے لیئے ہر وقت ایک عجیب سی بے چینی اوربیقراری دکھاتا ہے۔  ایکسائٹمنٹ دکھاتا ہے اور اسے ہر وقت ان کی طلب رہتی ہے۔  کیوں؟ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو ان کے بچپن سے جاننے والوں کو جب سوال کریں گے کہ کیا یہ شروع سے ایسے ہیں ؟ تو آپ کو لگے گا کہ ہاں بچپن سے ہی جب یہ بچی تھی یا بچہ تھا تو اس کے رویے کے اندر ایک خاص طرح کی دوسری جنس کے لیئے کشش تھی اور یہ اس کے بارے میں بات کریگا /گی ، لطیفے سنائے گا تو وہ بھی جنسیت پہ مبنی ہوں گے۔  مذاق کرے گا تو وہ بھی جنسی رویوں پہ مبنی ہوں گے۔  یعنی اس کی کوئی بات بھی مخالف جنس کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا جسم، اس کا ذہن صرف اور صرف ہر وقت جنس کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے اور وہ بھی مخالف جنس کے بارے میں سوچ سوچ کر ویسے ہی سگنلز،  ویسی ہی لہریں وہ اپنے اعضاء کو دے رہا ہے۔  اپنے جسم کو دے رہا ہے اور وہ اس کے اوپر عمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اکثریت خیالات کے پراگندہ ہوتے ہیں۔ جس کے سبب وہ ہمیشہ کہیں نہ کہیں جنسی جرائم میں کسی نہ کسی صورت ملوث ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دماغ ، انکی سوچ ہی کے سبب  وہ ایسا کر رہا ہے۔ یہ بھی غور کیجئے۔ ایسے رویوں کے لوگ اکثر اس حد تک جنسی طور پر متحرک ہوتے ہیں، کہ سوتے جاگتے ان کو بس ایک ہی چیز کا غم کھاتا ہے کہ انہیں کسی طرح سے کوئی عورت، کوئی مرد میسر ہو جائے۔ یہ لوگ اپنے کردار کو پاکیزہ نہیں رکھ سکتے۔  یہ جنسی جرائم میں آسانی کے ساتھ مبتلا ہو جاتے ہیں۔  آپ ازما کر دیکھیئے وہ لوگ جو اپنے آپ کو اپنے مذہب کے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں تو ان کے خیالات پاکیزہ ہوتے ہیں۔  وہ ان کو روحانی طور پر طاقت دیتے ہیں۔ اور یہ طاقت ان کے مثبت خیالات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔  پس جب خیالات مثبت ہوتے ہیں تو ان کا عمل خود بخود اس کی تقلید کرتا چلا جاتا ہے۔  جبکہ ان کی سوچ پاکیزہ ہوتی ہے تو ان کے فیصلوں میں وہ پاکیزگی دکھائی دیتی ہے۔  لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا ، ان کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا محفوظ محسوس کرتے ہیں،  جبکہ دوسری جانب غور کیجئے وہ شخص وہ خاتون یا وہ مرد جو ہر وقت گفتگو میں ، مذاق میں،  جنسی رویوں میں جنسی لطیفوں آنکھوں کے ، انگلیوں کے اشاروں میں لذت ڈھونڈتا ہے، وہ کہیں نہ کہیں خود لذتی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔  وہ کہیں نہ کہیں کسی دوسرے کو اس مقصد کے لیئے استعمال بھی کر بیٹھتا ہے ۔ وہ جب سوچتا ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں اسی اثر کے تحت اسی چیز کو ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ بات اس کو تیزی سے گناہوں میں مبتلا کرتی ہے ۔ وہ ہر وقت اس گندگی میں رہتا ہے۔ نہ اس کی سوچ پاکیزہ رہتی ہے، نہ اس کا جسم پاکیزہ رہتا ہے، اور نہ ہی اس کے رویے سے وہ پاکیزگی جھلک سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ، چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، اور اپ کے ساتھ رشتے میں کسی بھی طور سے بندھے ہوں، وہ عمر میں بڑے رشتے میں ہوں، یا چھوٹے رشتے میں ، چاہے وہ آپ کے والدین ہوں ، ماں ہو، باپ ہو، دادا نانا ہو ،دادی نانی  ہو ، اگر وہ ایسے رویوں میں ہیں ایسی عادتوں کا شکار ہیں  تو یقین کیجئے آپ خود بھی ان کے ساتھ تنہا بیٹھنا گوارا مت کیجئے اور اپنے بچوں کو، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایسے لوگوں کی نگرانی میں کبھی چھوڑ کر مت جائیے، کیونکہ ان کے جنسی جرائم کبھی بھی ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ان  بچوں اور ٹیم ایجرز کو چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ آج کا ہونے والا معمولی سا رویہ کل کو ان کے لیئے کتنے بڑے ذہنی ٹروما کا سبب بن سکتا ہے اور وہ زندگی میں اس واقعے کو اپنے اوپر سے کبھی بھی ہٹا نہیں پائیں گے۔  اس لیئے ضروری ہے ایسے لوگوں کی صحبت میں تب جائیں اگر آپ خود اتنی پاور فل مذہبی سوچ رکھتے ہیں کہ کسی کو اس کی برائی سے کھینچ کر باہر نکال سکیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ تب ضرور کوشش کیجئے یا  اگر وہ لوگ خود ایسی باتوں سے نکلنا چاہیں تو اپنے آپ کو اپنے مذہب کے ساتھ جوڑ کر اس سے روحانی سکون حاصل کریں اور ایسے گندے خیالات سے باہر نکل سکیں۔ جس کا عام طور پر امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ خصوصا اگر سامنے والا 40 سال کی عمر سے زیادہ کا ہے ۔ کیونکہ 40 سال کی عمر سے پہلے پہلے تک اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لیے کوشش کرے گا یا اپنے خیالات کی پاکیزگی پر کام کر پائے گا۔  لیکن اس خاص عمر  کے بعد اسے عموما کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔  اگر وہ تبدیل ہونے کا ڈرامہ بھی کرے تب بھی کہیں نہ کہیں یہ محاورہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے ۔ اس لیئے ایسے جنسی بیماروں کو ہمیشہ ایک فاصلے پر رکھ کر ٹریٹ کیا جانا چاہیے۔ ان پر سو فیصد بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیئے ۔ 
 زندگی جنس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔  ہر وقت جنسی درندہ بنا رہنا آپ کو صرف روحانی اور جسمانی حتی کہ معاشرتی طور پر بھی بیحد کمزور کرتا ہے۔  آپ کی شخصیت کی پاکیزگی اور مضبوطی کے لیئے ضروری ہے کہ آپ نفسیاتی طور پر مضبوط ہوں اور وہ تب ہوگا جب آپ اپنے مذہبی رویوں کو بہترین رکھیں گے۔ اپنی روحانی بہتری کے لیئے اس پر کام کرینگے۔  انہیں فالو کریں گے اور پاکیزگی کے ان تمام اقدامات کو اپنی زندگی میں شامل کریں گے۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/