ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 12 جولائی، 2025

عورت کا جسم تو؟؟؟. کالم


    عورت کا جسم تو ؟؟؟
    تحریر:
     (ممتازملک. پیرس)

پچھلے دنوں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک اور نوجوان اداکارہ کی لاش کئی ماہ کے بعد یا شاید سال بھر کے بعد اس کے کرائے کے فلیٹ سے ملی ۔ 
حمیرا اصغر اعلی تعلیم یافتہ، اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی جو  اپنی محنت سے ایک ایک قدم اداکاری کے شعبے میں رکھ کر آگے بڑھ رہی تھی۔ 
اس نوجوان خوبصورت باصلاحیت لڑکی کی لاش اس کے باپ اور بھائی نے وصول کرنے انکار کیا اور اپنے ماتھے پر غیرت مندی کا سہرا  سجایا تو ہمارے معاشرے کے اور بہت سے نام نہاد غیرت مندوں کے ایسے ایسے بہتان تراش اور غلیظ خیالات پڑھنے کو ملے کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔
بہت ہی بے غیرتی بھری تحریریں نظر سے گزریں۔  جسے عورت کو چیلنج کرنے کے لیئے غیرت کا لیبل لگا کر چپکایا جا رہا ہے ۔ پہلے تو یہ تسلیم کرو کہ عورت بھی انسان ہے اور اسے بھی خدا نے پورا دل دماغ سوچ اور شخصیت عطا کی ہے۔ ہر لڑکی کو اس بات کا پورا حق خدا نےدیا ہے ہمارے  قانون نے دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تعلیم،  شعبہ، ذریعہ روزگار، اپنی زندگی کا ساتھی حاصل کرے ۔ کوئی باپ اور بھائی اس کے اس حق کو ہائی جیک نہیں کر سکتا۔ 
اس لڑکی کو لاوارث چھوڑنے والے یہی باپ اور بھائی،  کل کو اگر یہ لڑکی کامیاب ہو جاتی ۔ دولت مند مشہور شخصیت بن جاتی توکونوں کھدروں سے کاکروچ کی طرح نکل کر اس کے نام کو اپنا جھومر بنا لیتے۔ جیسے ریما ،خوشبو، صاحبہ ،میرا ، جیسی اداکاراؤں کے باپ پیدا ہو گئے ۔ 
یہ لڑکی اتنی ہی بڑی بدکار ہوتی تو اتنے سال کی جدوجہد میں چھوٹے چھوٹے رولز کر کے اپنی پینٹنگز بیچ کر گزارا نہ کر رہی ہوتی ۔ کرائے کے فلیٹ میں جانے کتنے دن کے فاقے سے یا صدمات سے، یا  دل کے دورے سے نہ مر گئی ہوتی ۔ 
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا گند ہی یہی ہے کہ یہاں عورت نے جہاں اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ خود لینا چاہا، وہاں اسے آوارہ ، بدچلن ، بےحیا،  بےشرم اور جانے کیا کیا ٹھپے لگا کر اس کے راستے میں کانٹے بچھاتا اور اسے سنگسار کرتا ہے۔ 
اپنی زبانوں کو لگام دینا سیکھیئے۔ اپنے گریبانوں میں جھانکیئے۔ ۔ 
اللہ اور قانوں کے دیئے ہوئے انسانی حقوق کا ٹھیکیدار صرف مرد ہی نہیں ہے۔ عورت بھی اتنی ہی حصہ دار ہے۔ 
کیوں ہمارے معاشرے کا ٹھرکی ، کھسروں تک کے پیچھے بھی پاگل مرد ہر عورت کے جسم پر اپنا حق جمانا چاہتا ہے؟ 
اس کا جسم ہے تو وہ ہی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرے یا سنبھالے یا بچائے۔ 
جہاں باپ اور بھائی بیٹی اور بہن پر گھروں میں بدمعاش بن جاتے ہیں۔  ان کی آکسیجن تک بند کر دیتے ہیں۔  وہاں وہ اپنا فیصلہ خود کرنے کا پورا حق رکھتی ہیں ۔ وہ غنڈے باپ بھائی نہ تو غیرت مند کہنے کا حق رکھتے ہیں نہ ہی ہیرو کہلا سکتے ہیں ۔ 
اس لڑکی کے کردار پر تبصرہ کرنے اور اپنے اندر کی گندگی نکالنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہوئے کہ اس شہر کے لوگ جو اسے کئی سال سے جانتے تھے، لیکن بے حس، بے خبر ، گونگے، بہرے ہو گئے ۔ جن میں اس کا کوئی دوست نہیں تھا ۔ کوئی ملنے والا نہیں تھا ۔ اور تو اور جن کے ساتھ یہ کام کرتی تھی، جن کے ساتھ اس کے کام کے معاہدے ہو چکے تھے۔  ان میں سے کسی نے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ  باصلاحیت لڑکی جو ہمارے پروجیکٹ کا حصہ ہے، وہ اگر فون اٹینڈ نہیں کر رہی، وہ اگر بات نہیں کر رہی، کہیں دکھائی نہیں دے رہی ، تو اس کے بارے میں اس کے گھر جا کر پتہ کیا جائے کہ وہ کہاں ہے؟ اگر دروازے پر برابر تالا دکھائی دے رہا ہے تو پھر مالک مکان کہاں تھا ؟جو کہتا ہے کہ مجھے اتنے مہینوں سے کرایہ نہیں ملا . سال بھر سے غالبا پچھلے سال 2024ء میں مئی کے مہینے میں اس کا آخری بل جمع ہوا۔  اور آخری بار وہ دیکھی گئی۔  اس وقت سے لے کر ابھی پھر مئی 2025ء میں گزر چکا ہے۔ لیکن اس کا گھر بند ہونا اسکا دکھائی نہ دینا نوٹس نہیں کیا گیا۔  افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کوئی شہر کوئی محلہ کوئی علاقہ کوئی بلڈنگ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہے۔  کہ آپ کا وہ پڑوسی کافی دنوں سے دکھائی نہیں دیا جو آپ کی زبان بولتا ہے۔  وہ آپ کے ملک کا حصہ ہے۔  وہ آپ کی معاشرت کا حصہ ہے۔  آپ کسی بیرون ملک نہیں رہتے۔  پھر آپ ایک دوسرے سے زبان کے فاصلے پر نہیں ہیں۔  ساتھ ساتھ آپ کے دروازے جڑے ہوئے ہیں۔  لیکن سوراخوں میں سے لوگوں کے گھر کتنے مرد اور کتنی عورتیں آئی اور گئی کی گنتی رکھنے والے ہمارے معاشرے خصوصا فلیٹس میں رہتے ہوئےاندازہ لگانے اور گنتی رکھنے والے ہمارے معاشرے میں کسی کو یہ کیسے پتہ نہیں چلا کہ ایک لڑکی کتنے دنوں سے اپنے گھر پر مردہ پڑی ہے۔ نیند کی حالت میں اس کی موت ہو گئی یا اسے دل کا دورہ پڑا یا اور کوئی مسئلہ ہوا جس میں اس نے شاید کسی کو آواز دی ہوگی۔ اگر نہیں بھی دی تو اس کے وجود سے موت کے بعد اٹھنے والے تعفن نے کسی کو خبردار نہیں کیا ؟ کیا اس کا فلیٹ اتنے بدبو زدہ علاقے میں ہے جہاں اس کے وجود سے اٹھنے والا تعفن بھی کسی کو محسوس نہیں ہوا؟  سوالات بہت سے ہیں اور یہ سب کچھ کسی اور کے ساتھ نہیں کل کو آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔  اگر یہ معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ عائشہ خان جیسی بزرگ ہنستی بولتی خاتون کے بارے میں بے حسی کا شکار ہو اور مہینے بھر بعد اس کی لاش اسکے فلیٹ سے برآمد ہوتی ہے۔ تو ہم سب  کو خود پر اس وقت کا انتظار شروع کر دینا چاہیئے۔ 
اکیلے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے ۔
بہت سے لوگ اپنے روزگار کے لیے کاروبار کے لیے تعلیم کے لیے دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں یا اکیلے رہتے ہیں کئی لوگوں کا دوسروں کے مزاج سے نہیں ملتا ان کی عادتیں ایک دوسرے سے نہیں ملتی اس لیے وہ دوسروں کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتے تو ایسے میں وہ اپنے لیے الگ رہائش یا کمرہ لے کر رہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے کیا اپ کسی کے کردار کا فیصلہ اس بات سے کریں گے کہ وہ اکیلا رہتا ہے یا رہتی ہے شاید کسی لڑکے کے لیے ایسا نہ ہو لیکن کسی کی خاتون کے لیے ایسا سوچتے ہوئے ہمارا پورا معاشرہ جج بن کے ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا کیونکہ اگر عورت اکیلی رہتی ہے تو بس پھر وہ بری عورت ہے وہ دو نمبر عورت ہے لیکن مرد چاہے اکیلا رہے چاہے کہیں بھی ہو وہ ہمیشہ نیک اور پرہیزگار رہے گا 
 لیکن اکیلی یا اکیلا رہنے والے کو بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلام دعا کا تعلق ضرور رکھنا چاہیے۔  اور پڑوسیوں کو بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمارے دائیں بائیں ارد گرد کون کون رہتا ہے۔  ایک دوسرے کے گھروں میں گھسے رہنا کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔  آپ کی واقفیت کے لیئے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا کر سلام کرنا اور گزر جانا بھی بہت بڑی بات ہے۔ 
جتنا ہم اپنے دین کے اصولوں سے دور ہوتے ہیں تو گویا انسانیت سے بھی پلہ جھاڑ کر کسی عجیب ہی زمانے میں پہنچ چکے ہیں۔  جہاں نہ کوئی رشتہ ہے، نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی لحاظ یہی ہے ہماری تباہی کی وجہ۔۔۔۔۔
تحریر ۔
(ممتازملک ۔پیرس)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/