ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 22 جون، 2016

سلام امجد صابری


ہاتھوں پہ جس کے سارے زمانے نے بیعت  کی
اپنے ہی اس کے ہاتھوں مسلماں نہ.ہو سکے

کیسا ہے گل فروش کہ گل تو بہت سے ہیں 

ان کے سنبھالنے کو جو گلداں نہ ہو سکے

رحمت کا صبح و شام جو بیغام لا رہا
اس کے لیئے ہی رحم کا سماں نہ ہو سکے


اس.شہر کی فضاؤں میں رقصاب رہے گی موت 
جو اپنے رہنماوں پہ  حیران نہ ہو سکے

ہر روز سانحات  مقدر ہیں ان کے جو
اپنے کیئے پہ سالوں  پشیماں نہ ہو سکے

قاتل کھڑے ہیں ایسے جنازے میں صف بصف 

ممتاز  ان سے بڑھ کے نگہباں نہ ہو سکے

پیر، 20 جون، 2016

Happy Father's day/ ابو جی کے نام ۔ سراب دنیا


ابو جی کے نام
تاریخ وفات . 23 دسمبر 1996
آپ نے دنیاکس وقت چھوڑی ابو جی
  مجھے نہیں معلوم ٹھیک وقت اور غلط وقت کیا ہوتا ہے .
لیکن آج آپکو  ہونا چاہیئے تھا ..
آپ کی قبر کو اللہ پاک جنت کا باغ بنا دے.

آمین
(ممتازملک. پیرس)
   

🌹اس گھڑی اپنے بھی حالات بدل جاتے تو اچھا ہوتا
کاش ابو کہ خیالات بدل جاتے تو اچھا ہوتا
🌹ہم بھی دنیا کی نگاہوں سے ملا پاتے نظر
بس فقط تھوڑے نظریات  بدل جاتے تو اچھا ہوتا
🌹میرا گھر چھوڑنا بس ایک بدائی  رہتی
آپ پر آتے نہ صدمات تو اچھا ہوتا
🌹پیار کرنے  کا اگر ڈھب  نہ نرالا ہوتا
گر نہ دنیا کے بنے ہوتے مقدمات تو اچھا ہوتا
🌹مجھ کو ممتاز نگاہی  بھی عطا کی ہوتی
مڑ کے میں دیکھتی جذبات تو اچھا ہوتا
                  .............


اتوار، 19 جون، 2016

میرا تعارف ۔ ممتازملک


السلام علیکم

🌹  میرا  اصل نام ۔ ممتازملک
🌹  تخلص ۔ ممتاز
🌹میں اکلوتی بہن ہوں - چار بھائی ہیں
🌹میرا نمبر - دوسرا
🌹پیدائش-. راولپنڈی
🌹تاریخ پیدائش -22 فروری
🌹سکولنگ.  گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2 مری روڈ راولپنڈی
🌹بی اے . پرائیویٹ
  مختلف کورسز۔
🌹شادی ہوئی . 1996ء 7جنوری
                   لاہور میں
🌹مستقل رہائش.  پیرس. فرانس  / 8 مارچ 1998ء سے
🌹بچے . تین .ایک بیٹا دو بیٹیاں
🌹مشاغل۔ لکھنا، مطالعہ کرنا، فلاور میکنگ ، ککنگ، ہوم ڈیکوریشن
🌹کورسز۔ سلائی، کڑھائی ، بیوٹیشن، ٹائپنگ ،
🌹ایک مذہبی ادارہ سی وابستگی ہر حیثیت میں کام کیا
16 سال تک.
بطور ٹیچر . کونسلر . سوشل ورکر. سٹیج سیکٹری .
جنرل سیکٹری .
🌹اس وقت کام کر رہی ہوں بطور
نعت خواں. شاعرہ. کالمنگار. ٹی وی ہوسٹ (پروگرام.انداز فکر )    (On desi tv) پر ...اس کے علاوہ بلاگر ہوں . آن لائن عالمی مشاعروں کی نظامت ۔ 
🌹شاعری . بچپن سے
🌹تخلیقات. 7 کتب
  3 شعری مجموعے۔  2 نثری مجموعہ ۔ 1 حمدیہ و نعتیہ مجموعہ کلام۔ 1 پنجابی مجموعہ کلام چھپ چکے ہیں
بنام:

1-  مدت ہوئی عورت ہوئے
     اردو شعری مجموعہ کلام (2011ء)
2-  میرے دل کا قلندر بولے
شعری مجموعہ کلام (2014ء)
3-  سچ تو یہ ہے
   کالمز کا مجموعہ  (2016ء)
4۔ اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)
نعتیہ مجموعہ کلام  (2019ء)
5۔ سراب دنیا 
شعری مجموعہ کلام (2020ء)
 6- لوح غیر محفوظ
  مجموعہ مضامین (2022ء)
7- او جھلیا 
 پنجابی شعری مجموعہ کلام (2023ء)

❤زیر طبع کتب ۔ 7
1۔ کوٹیشنز کا 1 مجموعہ کلام 
2۔ نظموں کا 1 مجموعہ
3۔اردو شاعری کے 3 مجموعہ کلام 
4۔ کالمز کے2 مجموعہ کلام
❤فرانس میں  پہلی پاکستانی نسائی ادبی تنظیم "راہ ادب" کی بانی اور صدر ہوں۔
💖اعزازات ۔ 
 میری کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 بی ایس کا مقالہ ملتان سے مبین صاحب بہاوالدین زکریا یونیورسٹی سے لکھ چکے ہیں۔ 
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6- نزوا تعریفی سند 
7۔ گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن تعریفی شیلڈ اور سند فروری 2023ء
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
❤موجودگی ۔
 ریختہ ۔ اردو پوائنٹ ۔ یوٹیوب ، گوگل، فیس بک، ٹک ٹاک،  ٹوئیٹر

🌹میرا ویب پر کام دیکھنا ہو تو میرا بلاگ سائیڈ حاضر  ہے
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
           --------
میری ویب سائیٹ
MumtazMalikParis.Com
          -------
ڈاک کا پتہ۔ پوسٹل ایڈریس
Mumtaz Malik
79avenue de Rosny
Villemomble 93250
Paris France
         --------
میرا برقی پتہ ۔ میلنگ ایڈریس
MumtazMalik222@gmail.com
           ---------
اور کچھ ......


جمعرات، 16 جون، 2016

عبادت

عبادت
ممتازملک.پیرس

گلی میں ایک واٹر پمپ کی ضرورت ہے.
محلہ پیاس سے مر رہا ہے .
پڑوس میں سیریل حاجی صاحب سے درخواست ہے کہ دو لاکھ کا عمرہ پھر کرلیا بھائی اگلے مہینے یہ ایک لاکھ تیس ہزار کا پمپس لگوا دو .
استغفار کہہ کر حاجی صاحب نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا ....
پڑوس میں سیریل حاجی صاحب سے درخواست ہے کہ دو لاکھ کا عمرہ پھر کرلیا بھائی اگلے مہینے یہ ایک لاکھ تیس ہزار کا پمپس لگوا دو .
استغفار کہہ کر حاجی صاحب نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا ....

وہ ملا قریب رگ گلو

وہ ملا قریب رگ گلو
ممتازملک. پیرس

واہ اے مولا
ہم تجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں . پہلے ہم تجھے اونچا اور خود کو نیچا رکھ کر گڑگڑایا کرتے تھے اور تو ہم پر کرم فرما دیتا تھا . بلکل ایسے ہی جیسے ماں کے قدموں میں بچہ اپنی ہر غلطی سے معاف کر دیا جاتا ہے . اور آج....
ہارے تاریک دل تیرے گھر سے بلند یوٹلوں میں بڑے بڑے چراغوں کے روشنی میں جب چاہے تجھے نیچے منہ کر کے جھانک لیتے ہی اور سوچتے ہیں کیا مقدر ہے ہمارا ...
ہم تو اپنے ہوٹل کے  کمرے سے خدا کے گھر میں جھانک لیتے ہیں . واہ واہ  واہ واہ . ... تو وہاں کیا ڈھونڈنے جاتے ہیں پھر
یہ چراغاں  ،یہ بلند و بالا عمارتیں ،اور  خریدوفروخت کی تیزی ...
یہ ہی رہ گیا نا جبکہ خدا تو میری شہہ رگ کے پاس میری ہر سانس کیا، سوچ سے، تصور سے بھی قریب موجود ہے..
جسے ڈھونڈتا تھا میں کو بکو
وہ ملا قریب رگ گلو
ہم اس قدر منافق ہیں کہ سامنے گلے ملتے ہیں اور پیٹھ میں یہ یاد کر کے خنجر گھسیڑ دیتے ہیں کہ اس نے دس سال پہلے مجھے یہ کہا تھا، وہ کہا تھا ..
لیکن ہر مہینے تیرے در کا یہ چراغاں بھی دیکھنے آتے ہیں ،تیرے گھر سے اونچی عمارت میں کھڑکی سے تیرے گھر پر جھانکتے  بھی ہیں .
جبکہ سوچیں تو پڑوس کے گھر میں جھانکنا بھی بے ادبی ہے ،جرم ہے ، لیکن خیر" اللہ معاف کرنے والا ہے" کہتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ ہی سزا دینے والا بھی ہے، پکڑ کرنے والا بھی ہے،الٹ دینے والا بھی ہے ،
ہر نئے ڈیزائن  کا جبہ ، عبایا اور نت نئے ڈیزائن کے حجاب،  نہ خریدنا بھولتے ہیں نہ پہننا  . اور ہاں سونے کا زیور اگر اللہ کے محلے سے نہ خریدہ تو کہاں برکت والا ہو گا . ..
ہر سال حج بھی ضرو کرنا ہے ان نظاروں میں کھونے کے لیئے،
حج بدل.. وہ کیا ہوتا ہے ؟
لو اب کسی فقرے کو بھیج کر ہمیں کیا فائدہ ..کیا پتہ ہمارے لیئے دعا کرے نہ کرے ..اور ویسے بھی اپنے پلے سے حج کرے،عمرہ کرے، ہم نے کوئی ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے ..
ویسے ہم ہر مسجد میں ہر مہینے کوئی نہ کوئی راشن بھی تو سٹاک میں بھجوا دیتے ہیں . اس لیئے ہمیں تو اللہ کے ہاں منافق کی فہرست سے کھلی خارجیت ملی ہوئی ہے .
اب اللہ کے نام پر اتنا مال خرچ کرتے ہیں تو کوئی تو رعایت ہماری بھی بنتی ہی ہے، اللہ سے تعلق داری کے فاضل نمبرز....
اب ہم در سے جائیں یا سر سے ہمیں سب اجازت ہے ....

ہمارے پاوں بھی اس اللہ کے گھر سے اوپر ہیں، دعائیں قبول نہنہونے کا گلہ کرتے ہیں ، یہ سوچے بنا
کہ ماں کے سر سے بھی پاوں اوپر ہو جائیں تو قبولیت کا در بند ہو جاتا ہے ...
جانے دیں میں توپاگل ہوں 😢😢😢😢
ممتازملک. پیرس

پیر، 6 جون، 2016

رمضان کا مہینہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


رمضاں کا مہینہ 
کلام.ممتازملک 

اللہ کا مہینہ  ہے یہ رحماں کا مہینہ❤
احساس کا ہے یہ جو ہے رمضاں کا مہینہ


❤افطاریوں کا ماہ یہ,  سحری کا مہینہ 
تراویح کا مہینہ ہے یہ امکاں کا مہینہ


❤بھوکے کی بھوک خود پہ بتانے کا مہینہ
پیاسے کی پیاس سے ہے یہ پہچاں  کا مہینہ


❤حقدار تک ہے  حق پہنچانے کا مہینہ 
لیجانے لبوں  تک کسی مسکاں کا مہینہ


❤فرائض کا مہینہ ہے نوافل کا مہینہ
رب نے جو اتارا اسی قراں کا مہینہ


❤نکلے ہیں آدمی میں ہم انسان ڈھونڈنے  
سچ میں کہوں  تو یہ ہی  ہے انساں کا مہینہ

❤انسان سے انساں کی ملاقات کا موسم
ممتاز انوکھا ہے یہ رمضاں کا مہینہ

ممتازملک. پیرس

ہفتہ، 4 جون، 2016

مردہ باد






نظریاتی کونسل مردہ باد
ممتازملک ۔ پیرس

تمام خواتین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ قرآن میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ ،ناک کے بدلے ناک اور جان کے بدلے حان کا قانون موجود ہے۔ جسے کوئی مائی کا لعل چیلنج نہیں کر سکتا . لہذا جس سے مار کھائیں اسے اتنی ہی کُٹ لگائیں ۔ یہ تمام خواتین کا اسلامی حق ہے . ڈنڈے کے بدلے ڈنڈے سے ماریں اور تیزاب کے بدلے تیزاب سے خاطر کریں . 
کیونکہ پاکستان میں ایسی یہودی لابی کی ایجنٹ کونسلز  آپ کو کوئی تحفظ نہیں دے گی . بلکہ الٹا اسلام کو پھیلتا دیکھ کر ان کے حواس اڑ چکے ہیں اور یہ جان بوجھ کر دینِ اسلام اور اس کے قوانین کو متنازعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں . لہذا تمام خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیئے کمر کس لیں . اور جو مرد شوہر بن کر بدمعاش بننا چاہے اسے زندگی سے نکال دینا ہی سلامتی ہے . کیونکہ انہیں بیوی نہیں کوئی ہیجڑا ہی گھر میں رکھنا چاہیئے ۔
                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام سوچیں / ممتازملک ۔ پیرس



غلام سوچیں 
ممتازملک ۔ پیرس



اکثر آپ نے ہم سب نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے عادت یا عادات  کو اگر کبھی نہیں بدلتے تو ہم انہیں ڈھیٹ بھی کہتے ہیں.  انا پسند،  خود پسند اور فرعونی مزاج کہتے بھی اور سمجھتے بھی ہیں .
اسے تکبر کہتے ہیں .
لیکن وہاں کیا کیا جائے کہ جہاں ہمیں حکم ہے کہ اپنی ناکامیوں سے سیکھو . دوسروں کو اپنے سے اچھا سمجھ کر اپنے کاموں کو اپنی عادات اور مزاج کو بہتر بناؤ.  جہاں جو بات کہو اس کی ذمہ داری قبول کرو . جہاں کسی کی دل آزادی ہو، وہاں فورا معذرت کر لو. اللہ کی پکڑ سے پہلے انسانوں سے اپنے رویئے کی تلافی کر لو . یہ آپ کو عظیم  بناتا ہے . کہیں آپ کو گھٹاتا نہیں ہے .
چند روز قبل کسی سے بات کرنے کا موقع ملا تو ان کی زبانی کچھ گلے سن کر بے حد حیرت ہوئی . جو کچھ یوں تھے ...
پہلے آپ نے فلاں کو اچھا کہا پھر برا بھی کہا .. 
فلاں کے پہلے آپ  مخالف تھیں بعد میں انہیں کیساتھ بیٹھ کر آپ نے تصاویر بھی بنوائیں اور انہیں  اچھا بھی کہا . ...
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آپ کیساتھ بیٹھا ہے وہ اچھا ہے اور جو آپ کیساتھ نہیں  بیٹھا تو وہ اچھا نہیں ہے ..وغیرہ وغیرہ 
میں یہ سن کر حیران بھی ہوئی اور مجھے بات کرنے والے کی عقل پر  بھی شبہ ہوا . سورج مشرق سے نکلتا ہے نہ یہ جھوٹ ہے، اور سورج مغرب میں ڈوب جاتا ہے یہ بھی جھوٹ نہیں ہو سکتا . اسی طرح انسان کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ جب وہ کسی کے ساتھ کسی کام میں شامل ہوتا ہے تو یا تو وہ اس کی عادات اور نظریات سے آگاہ ہوتا ہے یا متفق ہوتا ہے یا اچھا سمجھتا ہے . ..
لیکن جیسے ہی اسے اسکے  ساتھ کام کا تجربہ حاصل ہوتا ہے  تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یا اس کی عادات کو مناسب نہیں سمجھتے یا نظریات نہیں ملتے یا اس سے متفق نہیں ہے یا اسے اس کے اصولوں سے یا عادات پر اعتراض ہے ...
اس بنا پر اگر آپ کسی کیساتھ اپنا راستہ بدلتے ہیں تو ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے اس میں آپ کو یا ہمیں  کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اس کے فیصلے پر اعتراض کریں یا اس پر نقطہ چینی کریں . اعتراض اور نقطہ چینی کسی کی حق تلفی  یا کسی کے ساتھ ناانصافی پر ہونا چاہیئے . جو کہ ہمیں کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ...
کیونکہ ہم سب سے متفق ہونے کے ڈرامے میں  یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم منافق ہو چکے ہیں . 
ہر روز ہمیں اپنا احتساب کرنے کا حکم ہے. ہرروز ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے .  یہ ہی زندگی کا اصول ہے . میں نے کل جسے اچھا کہا تھا وہ اس وقت تک میرے نزدیک اچھا کام کر رہا تھا جب اس کے کاموں میں منافقت نظر آئی تو میں نے اپنا راستہ بدل لیا تو یہ میرا فرض تھا میں نے ٹھیک کیا . ورنہ ہم اپنے ضمیر کو کیا جواب دیں ؟
ہمیں یہ سوچنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہیں گے کیا یہ سوچنا زیادہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ سے کیا کہیں گے؟؟؟ 
تو جس کے نزدیک اللہ کا خوف غالب ہے وہ لوگوں کو خوش کرنے کا کبھی کوئی فیصلہ نہیں لے گا کیوں کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی کل خدا کو میرے کسی فیصلے کے لیئے کا جوابدہ نہیں ہو گا . اس لیئے اگر آج میں نے یا ہم نے اپنے کل کی جانے والی کسی غلطی کی تصیح کی ہے تو اس کے لیئے نہ تو ہم شرمندہ ہیں اور نہ ہی معذرت خواہ . اپنے اچھے فیصلوں پر اپنے راستے کے صحیح تعین پر ہمیں فخر ہونا چاہیئے اور اللہ کا شکر گزار بھی کہ اس نے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی.

کوئی بھی انسان نہ تو سو فیصد صحیح اور مکمل ہوتا ہے اور نہ ہے سو فیصد غلط اور نامکمل ہوتا ہے ۔ اس لیئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک بات پر کسی سے متفق ہیں اور پھر کسی وقت میں اسی سے کسی بات کی مخالفت بھی کر رہے ہیں ۔ بلکہ یہ بات اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے پاس بھی ایک دماغ موجود ہے اوت آپ بھی اپنے دماغ کا استعمال بھی کرتے ہیں اور پانے فیصلوں کا اختیار بھی رکھتے ہیں ، ویسے بھی ذہنی طور پر غلام انسان میں ایسی صلاحیت ہو ہی نہین سکتی وہ کسی کی اطاعت کریگا تو بنا سوچے سمجھے کرتا ہی کچلا جائے گا ۔ اور مخالفت کرنے پر آئے گا  تو کچھ سوچے سمجھے بنا ہی مخلفت کرتا چلا جائے گا ۔ جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس کا وجود ہی نہیں ، اس کی سوچ بھی غلامی کا طوق پہنے ہوئے ہے ۔
                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجربے ہار جاتے ہیں





تجربات ہار جاتے ہیں 
ممتازملک. پیرس





انسان ہرروز ایک نئی بات سیکھتا  ہے.  ہر آنے والا پل اس کی زندگی کو نئے تجربات سے روشناس کراتا ہے . ہماری پیدائش سے لیکر ہماری موت تک ہم بے شمآر خواہشات سے بھی دوچار ہوتے ہیں اور تجربات کی بھٹی سے پک پک کر بھی نکلتے ہیں یہ نظام قدرت ہے کہ دنیا ان تجربات سے فائدہ بھی اٹھاتی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو سیکھنے سے لیکر سکھانے تک کے مراحل سے گزرنا خود بھی بے حد سکون دیتا ہے اور بارآوری کے احساس سے ہمکنار کرتا ہے .
 پندرہ برس تک بچپن، تیس برس تک نوجوانی ،پنتالیس  برس تک جوانی  اور پچپن برس کی عمر کے بعد کا عرصہ بڑھاپا کہلاتا ہے . بچپن میں ہر چیز نئی لگتی ہے . نوجوانی میں ہمیں لگتا ہے ساری دنیا بیوقوف ہے اور خاص ہمی سیانے پیدا ہو گئے ہیں جو اللہ کا اس دنیا پر الگ سے احسان ہے . جوانی میں ہم اسی دنیا میں اپنے لیئے جگہ بناتے بناتے کئی بار کبھی اپنے دل سے لڑتے ہیں اور کئی بار اپنی عقل سے ہار جاتے ہیں کہ سامنے کئی اور سورما میدان میں ہمیں پچھاڑنے  اور لڑانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں .
ادھیڑ عمری میں ہمیں لوگوں کے لب و لہجے اور اندازوآداب زندگی کی سمجھ آنے لگتی ہے اور ہم اس سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہونے لگتے ہیں . دنیا بھر میں اس عمر کے لوگوں کو معتبر جانا جاتا ہے اور انہیں باوقار اور پراعتماد سمجھا جاتا ہے . کیونکہ ان کے پاس دنیا کو سکھانے کا مواد آ چکا ہوتا ہے اور اسے  وہ بہتر انداز میں دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں . یہاں تک کہ پیغمبر کے پیغبرانہ  اعلان کے لیئے بھی اللہ پاک نے چآلیس سال کی عمر تک پہنچنے کا حکم دیا. وجہ یہ ہی کہ تب تک تم دنیا کو اور دنیا تمہیں جان جائے سمجھ جائے .
دنیا کے بڑے بڑے رائٹرز ،شاعر، اداکار، مصور  وغیرہ وغیرہ وغیرہ سب کے سب بڑی بڑی عمر کے خواتین و حضرات ہیں اور ان کی بے حد عزت و احترام اور قیمت ہے . لیکن ہمارے ہاں یا ہمارے ملک میں ہمیشہ ہی گنگا الٹی بہتی ہے . ہمارے ہیں جوان اور ناتجربہ کار لوگوں کو فیلڈ میں لاکر ان کی پشت پناہی کرنے والے فورا اسے اس کرسی پر بٹھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں کہ جس کے کرسی سے زمین تک ابھی قدم بھی پورے نہیں پہنچ رہے ہوتے . اور ان کے سامنے ان لوگوں کو بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہیں کہ جنہوں نے اس دشت کی سیاحی  میں اپنا آپ کھو دیا ہوتا ہے .
خود کو ہتھیلی پر سرسوں جمانے والا جوان ، جسم تو طاقتور  لے آتا ہے لیکن اس میں بڑھاپے کا اعتماد ، علم اور تجربہ بھرنے کی کوشش بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے قدرتی کھاد سے تیار ہونے والی فصل جو تیار ہونے میں زیادہ وقت لیتی ہے لیکن لذت اور تاثیر میں بےحد فائدہ مند ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب کیمیکل اور مصنوعی کھادوں کے زور پر راتوں رات پیدا کی جانے والی فصل جو سائز میں شکل ضرورت میں بہت بڑی بھی ہو گی اور خوبصورت بھی ہوگی لیکن لذت اور طاقت میں صرف بھس کے برابر.
اس تمہید سے آپ کو یہ تو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ ہم بات کو کس رخ پر بیان کر رہے ہیں . آج کل ہماری عمر کے لوگ کہ جن کی اولادیں ٹین ایج میں یا جوانی میں داخل ہو چکی ہیں ان کی سوچی سمجھی یا ناسمجھی  منصوبہ بندی نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم بحیثیت قوم کے ہمیشہ ہی تنزلی کا شکار کیوں رہتے ہیں تو ایک ہی بات سمجھ پائے کہ جس عمر میں دنیا اپنے لوگوں سے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے لگتی ہیں اس عمر میں ہمارے ہاں رواج ہے کہ آپ اب گھر بیٹھیں ہم نیا خون میدان میں لا رہے ہیں . سو ہم خون ہی لاتے ہیں تجربات کو لانے یا استعمال کرنے کا نہ ہمیں شوق ہے اور نہ ہی شعور . لہذا دنیا کامیاب ہو رہی ہے اور ہم ناکام .... اس لیئے کہ پرانے تجربات پر نئے نخرے اور انداز بازی مار جاتے ہیں . تجربات ہار جاتے ہیں .......

                                     ..........................

بدھ، 1 جون، 2016

پیارے بھائیوں کے نام





آج کا دن ہمارے بہت ہی معزز اور پیارے بھائیوں کے نام


بھیگا بھیگا پیرس اور پیارے پیارے دو بھائی
یورپ بھر میں اپنی خدمات کا اعتراف کراتے ہوئے ، ڈنمارک سے میڈرڈ اور میڈرڈ سپین سے پہنچے آج صبح پیرس
ڈنمارک Copenhagen سے
Sadaf Mirza g
لاڈلے مہمان آن پہنچے
جواہر لعل یونیورسٹی کے مایہ ناز پروفیسرز
محققین اور اردو زبان کے فروغ میں پیش پیش
خواجہ اکرام بھائی اور ڈاکٹر رضوان رحمان بھائی
کیساتھ ایک یادگار دن گزرا . جو سنا دونوں دوستوں کو اس سے کہیں بڑھ کر منکسر المزاج اور بہترین انسان پایا . خوش رہیں. سلامت رہیں.
ممتازملک. پیرس

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/