ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 30 جون، 2019

سمجھ جائے






کاش ایسا بھی کوئی وقت آئے
میں کہوں اور تو سمجھ جائے
زندگی زلف میری بن جائے
انگلیوں  سے تیری سلجھ جائے
            (کلام/ممتازملک ۔پیرس)

بدھ، 26 جون، 2019

● تو کون میں کون ۔ کالم


              تو کون میں کون
               (تحریر:ممتازملک۔پیرس)


دیکھو مٹی میں نہیں کھیلنا ، اسے منہ نہیں لگانا ، یہ ہمارے سٹیٹس کا نہیں ہے ، وہ ہمارے سٹینڈرڈ کا نہیں ہے ، دوسرے کو  اگنور کرنا، سیکھو،
اپنے لیول کے لوگوں سے تعلقات بڑھایا کرو، یہ چھوٹے لوگ ہیں ، بڑے لوگوں میں پی آر او بناو،
جی ہاں یہ ہی ہے ہمارے آج کی آدھی تیتر اور آدھی بٹیر ماوں کی اپنے بچوں کو دی ہوئی تربیت ۔
اور آج ہمارے معاشرے میں انسانیت کی جو تذلیل ہے ، خود غرضی کا جو طوفان ہے ،
یہ سب کچھ ہماری ماوں کی ناکام تربیت کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تربیت اس کے پہلے پانچ سال میں ہی مکمل ہو جاتی ہے ۔
 آج جب مائیں اپنے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو دینی اور اخلاقی سبق اور تربیت نہیں دے سکتیں تو انہوں نے حیوان ہی بننا ہے انسان نہیں ۔ جو آج ہمارے معاشرے میں دندناتے نظر آ رہے ہیں ۔  آج ہمارا بچہ ان پانچ سالوں میں نادان ماوں اور حکومتی سسٹم کی بھینٹ چڑھ کر بابا بلیک شیپ اور ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کے رٹتے رٹتے  ہی میں وہ سنہرا ترین وقت گنوا بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں کسی ملک کے بچے پر یہ لسانی ظلم نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں  بچوں کو سہنا پڑتا ہے۔
پہلے مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے بچہ کسی نہ کسی کی نظر میں رہتا تھا تو اسے سکھانا سمجھانا بھی کئی لوگوں کی ذمہ داری میں آ جاتا تھا ۔ گو کہ وہاں بھی کسی کے لاڈلے بننے اور کسی کو نشانے پر رکھ لینے والی ناانصافیوں کے سبب مشترکہ خاندانی نظام کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ۔ کیونکہ وہاں بھی ناانصافیوں کے سبب اور شریف النفس انسان کو قربانی کا دنبہ بنا لینے کی عادتوں کے طفیل اسی کے بچے سب سے زیادہ محرومیوں کا شکار کر دیئے جاتے تھے ۔ اس لیئے اپنے خاندان یعنی اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری ہر انسان کو خود ہی اپنے سر لینے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ جس کے سبب آج جب علیحدہ خاندان (سیپرٹ فیملی) کا رواج ہے ۔ اور مہنگائی اور نت نئی ایجادات کے سبب بچے پالنا ہاتھی پالنے کے برابر ہو چکا ہے ، تو عافیت اسی میں ہے کہ یہ ہاتھی جتنے کم ہوں اتنا ہی بہتر ہے یعنی کہ  بچوں کی تعداد کم ہی رکھیں تو ہی عافیت ہو سکتی ہے ، اور ہر بچے میں کم از کم 3 سال کا وقفہ ہی ہمیں ان کی تربیت کا بہترین وقت فراہم کر سکتا ہے ۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے فساد اور طعنے تشنع سے بچیں ۔ گھر میں عورت کو گالم گلوچ اور مارپیٹ بچے کو یہ ہی کچھ کرنے پر اکساتی ہے ۔
اگر باپ ہی اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورت کی اور خصوصا اپنی بیوی اور اپنے بچے کی ماں کی ہی عزت اور حفاظت نہیں کریگا تو اس کی اولاد یہ عزت کا سبق کہاں سے جا کر سیکھے گی ؟
 ماں گھر میں اور باپ باہر کے لیئے بچے کو تیار کرتا یے  ۔ جیسے بیٹا کسی سے بدتمیزی نہیں کرنی ۔ بلا ضرورت  اونچی آواز میں بات کرنا بد تہذیبی ہے ، گالی نہیں دینی ۔ لڑنا بری بات ہے ۔ سلام میں پہل کرو ۔ کسی سے کچھ لیکر نہیں کھانا ۔ ٹوہ میں رہنا بری بات یے ، کسی کے بھی گھر یا کمرے میں دستک دیئے بنا اور اجازت لیئے بنا داخل ہونا بری بات ہے ، دروازے پر دستک دیکر دروازے کے اس رخ پر کھڑے ہو جس پر دروازہ کھلنے کی صورت میں فورا تمہاری نظر اس گھر کے اندر نہ جائے ، شریفانہ اور پسندیدہ عمل ہے ،
فضول باتوں سے کسی کا وقت برباد مت کرو، جو بات کرنی ہو پہلے اس کا مضمون اپنے ذہن میں بنا کر رکھو تاکہ کم وقت میں واضح بات سامنے والے سے کی جا سکے ۔
 بغیر اجازت کسی کی کوئی چیز نہ اٹھانا، نہ استعمال کرنا ۔ کسی کو راستہ دینا ، ہاتھ سے چھو کر مذاق مت کرنا ، کلاس میں ایکدوسرے کی اچھی بات اور کام میں  مدد کرنا، اپنے ساتھ نماز اور دیگر محافل میں لیکر جانا ، انہیں محفل کے آداب سکھانا ، کھانا کھانے کے آداب سکھانا ، کوئی لباس پہن کر اسے کیسے لیکر چلنا ہے ،  ۔۔۔ایسی بہت سے باتیں۔
جبکہ دوسری جانب ایسی ماوں اور ان کے ہاتھوں پروان چڑھے لوگوں کی بھی کمی نہیں یے جو مذہبی حلیئے اور عبادت پر تکبر اور اپنے اوپر  جنت کی واجبیت کے یقین پر ساری دنیا کو اپنے سامنے ہیچ سمجھتے ہیں اور  وہ اسے ساری دنیا پر اپنا احسان گردانتے ہیں ۔ اپنی نمازوں روزوں اور حج و عمرہ کو اپنے معاشرے پر مہر بانی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کس بات کا فائدہ صرف ہمارا ہے اور کس بات سے ہم اپنے معاشرے کو اپنے مفید ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ہم لوگوں کو  یہ بات پہلے نمبر پر رکھنی ہو گی کہ بھائی میری نماز ، روزہ ، مذہب خالصتا میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے اس سے سامنے والے کا کوئی حاصل وصول نہیں ہے ۔ مجھے حقوق العباد  (لوگوں کی حقوق) پر اپنے اعمال درست کرنے ہیں کیوں کہ اس پر میری دنیا کا بھی انحصار ہے اور آخرت کی بخشش کا بھی ۔ میں نے کتنی نمازیں پڑھیں، کتنے روزے رکھے، سے زیادہ اس بات پر بخشش کا انحصار ہو گا کہ ہم نے اپنے والدین ، بہن بھائیوں، شوہر ، بیوی، پڑوسیوں کے حقوق ادا کیئے ۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ کسی بیوہ کو اسے کے پیروں پر کھڑا کیا ، کسی کا جھگڑا ختم کرایا  ۔۔۔اور ایسے ہی کام اصل میں ہمارے اعمال ہیں ۔
جن کا نہ صرف پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے بلکہ اللہ پاک نے اس کی بابت ہم پر بھاری ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں ۔ بات کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ کاروباری معاملات ہوں تو صبر تحمل اور برداشت کا نام و نشان نہیں ہے ۔ محلے داری اور پاس پڑوس کا معاملہ ہو ہم لوگوں میں رواداری اور لحاظ نام کو بھی نہیں رہا ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ زمانہ وہ نہیں رہا ۔ زمانہ تو وہی ہے اپنے گریبان میں جھانکیئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ وہ نہیں رہے ۔ جیسے ہم سے پہلے لوگ ہوا کرتے تھے ۔ آج خود غرضی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ بھائی بھائی کو اور بہن بہن کو لوٹنے سے پہلے ایک لمحے کو بھی سوچنا پسند نہیں کرتے ۔ 
ہر ایک کی پہلی سوچ یہ ہی ہوتی ہے کہ موقع غنیمت جانو لوٹ لو ، اٹھا لو فائدہ اور جب کچھ نہ بچے تو آنکھیں ماتھے پر نہیں اب تو پیٹھ پر سجا لو کہ بھائی تو کون میں کون ۔۔
مادہ پرستی اور خود غرضی ہمارے اپنے من چاہے وہ عیوب ہیں جو ہم نے خوشی خوشی اپنے اعصاب پر سوار کیئے ہیں ۔ جب تک ہم انہیں اپنے کندھوں سے نہیں اتاریں گے ہماری منزل کا سفر نہ سہل ہو گا نہ مکمل۔ نہ دنیا میں نہ آخرت میں  ۔۔۔۔۔۔۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 25 جون، 2019

اچھی یا بری باتیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں




اکثر با تیں بری نہیں ہوتیں لیکن ان باتوں میں الفاظ کا چناو انہیں اچھے اور برے کی سند دلوا دیتے ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 19 جون، 2019

اپنے عیب۔ چھوٹی چھوٹی باتیں




دنیا میں اپنے عیب اور دوسرے کی خوبی کا اعتراف سب سے مشکل کام ہوتا ہے ۔ لیکن جو ایسا کر جاتا ہے وہی اچھا انسان ہوتا ہے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 31 مئی، 2019

ذوق نبی ۔ نعت ۔ سراب دنیا


نعت 
             ذوق نبی ص

حضور کے ذوق کے مطابق جو نعت ہوتی تو بات ہوتی
  غلام آقا ہی نام ہوتا  یہی ہماری جو ذات ہوتی تو بات ہوتی 

انہیں کے قدموں میں دن گزرتا کمال ہوتا 
جوانکےجیسےہی رات ہوتی تو بات ہوتی

ہمارا بھی ذکر سن کے سرکار مسکراتے 
وہی مقدس حیات ہوتی تو بات ہوتی 

 ہمارا ہر دن نبی کی سنت  بسر جو ہوتا 
ہماری ہر شب برات ہوتی تو بات ہوتی

اگر میسر ہو انکے احکام پر عمل تو
ہمارے تابع یقین کی کائنات ہوتی تو بات ہوتی 

حضور کے راستے پہ ممتاز ہمیں بھی بخشش نصیب ہوتی
ہمیں جو تقوی نصیب ہوتاحصول راہ  نجات ہوتی تو بات ہوتی 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 23 مئی، 2019

بھنبھوڑ دو عورت کو ۔ کالم




        بھبھوڑ دو عورت کو 
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)





کبھی دن کے اجالے میں مردانگی کا اشتہار فرشتے مار ڈالتا ہے تو کبھی رات کے اندھیرے میں اس پر کسی بھی کام سے ، چاہے مجبوری سے۔ہی گھر سے  نکلنے پر اس کی آبروریزی کے لیئے جواز ڈھونڈتا ہے ۔ ہمارے مردوں  میں  وہ کون سا  کیڑا ہے جو کسی بھی عورت کو کسی بھی عمر میں یا یوں کہہ لیں گود سے گور تک دیکھ کر کتے کی طرح بھنبھوڑنے پر اکساتا ہے ۔ پھر اس رذیل کام کے بعد وہ نیک ، پرہیز گار ، محنتی ،ذمہ دار ،بیٹا ، بھائی ، شوہر ،  باپ بن کر اپنے گھر بھی پہنچتا ہے ۔ سب کو اپنی پارسائی کو سراہنے پر مجبور بھی کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر نیکی کا بھاشن بھی دیتا ہے ۔ قران کی آیات و تراجم شئیر کرتا ہے تو کہیں احادیث کے نمونے لگا لگا کر دنیا کو اپنے نیکی کے اشتہار بھی بانٹتا ہے ۔ 
لیکن اس کے کردار کا اصل دیکھنا  ہو تو اسکے سامنے  کوئی عورت لا کر کھڑی کر دو ۔ تھوڑا اختیار دیدو ۔ بس پھر دیکھیئے اس کے اندر کا شیطان پارسائی کی بوری پھاڑ کر کیسے سامنے آتا ہے ۔ 
روز ایک نئے نام سے پرانی کہانی میرے اسلامی جمہوریہ میں دہرائی جاتی ہے ۔ کل کے دن میں ملک کے جڑواں شہروں میں دارلحکومت کے اندر  اپنے ہی گھر کے سامنے سے اٹھائی ہوئی دس سال کی فرشتے کی عزت کا ماتم کریں یا راولپنڈی میں بائیس سال کی نوجوان لڑکی کا پولیس گردوں کے ہاتھوں گینگ ریپ پر ان کا نوحہ پڑہیں ۔۔یا ہم ان ٹھرکیوں کے سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بے شرمانہ کومنٹس پر ان پر تھوکیں جو کم از کم مرد تو نہیں کہلا سکتے ۔ کہ جن کے ہوتے ہوئے اس ملک میں کوئی بچہ کوئی عورت نہ اپنی عزت محفوظ سمجھتا ہے نہ ہی اپنی جان ۔۔لیکن وہ یہاں کومنٹس میں اپنا غلیظ چہرے کی کالک عورت پر پوت کر خود کو صاف ستھرا ظاہر کر رہے ہیں ۔ 
جس کے ہاتھ جس عمر کی عورت لگے وہ اسے  اپنے پانچ منٹ کے مزے کے لیئے ہر دین، دھرم ، عزت ، حیا ، خدا کا خوف سے سے پلہ جھاڑ کر تباہ و برباد کر کے دم لیتا ہے ۔ کیا پاکستانی مردوں کی اکثریت دنیا بھر میں  جنسی امراض کی سب سے زیادہ شکار ہے ۔ یا ذہنی امراض کا، نفسیاتی مسائل کا حل ان جانوروں نے عورتوں کو بھنبھوڑنے میں تلاش رکھا ہے ۔  کیا ان کی ماوں نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ سب عورتیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی ان کی اپنی ماں ہے یا بہن ہے ۔ یا انہیں یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ ہر وہ چیز جس پر کسی انسان کی نظر پڑتی ہے اس کی ملکیت نہیں ہوتی،  نہ ہی وہ اس کے زیر تصرف آ جاتی ہے ۔ تمہارے استعمال میں تمہارے نام جاری ہونے والی کوئی چیز یا رشتہ ہی ہو گا اور بس ۔ باقیوں پر رال ٹپکانے سے پہلے اپنے مذہب اور معاشرتی تقاضوں کو اپنی آنکھوں پر باندھ کر رکھو ۔ 
لعنت ہے اس معاشرے پر کہ جس کے مرد اپنے ہاں عورتوں اور بچوں کی جان اور عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ جو اپنے اندر کا کیڑا نہیں مار سکتے ۔ یہ خود کو کس منہ سے مرد کہتے ہیں ۔ 
انکے لیئے عملی سزاوں کا اطلاق کروانے کے لیئے ہمیں کس ملک کی عدالت سے رابطہ کرنا پڑیگا ۔ یا پھر ہم براہ راست اپنی عزت اور جان کی حفاظت کے لیئے اقوام متحدہ سے کاروائی کرنے کی درخواست کریں ۔ 
ہمیں بتائیں ہمارے ہاں کے غیرتمند کہلانے والے مردوں نے اس معاملے میں اپنے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی  ہیں  ۔ کیا ان کی اپنی داڑھی میں تنکے کی بجائے  جھاڑ ہے پورا ،جو انہیں زبان کھولنے نہیں دیتا ۔ حکومت پاکستان کیا اس سلسلے میں کسی اور ملک کے دباو کا انتظار کر رہی ہے ؟ 
ہمارے معاشرے میں ہندوستانی فلموں کے زہریلے اثرات تیزی سے گھل رہے ہیں ۔ ہمیں ان کے رخ پر بہنے کے بجائے اپنے میڈیا کو مثبت انداز فکر کی جانب راغب کرنا ہو گا ۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ عورت اور بچہ جس معاشرے میں محفوظ نہیں وہاں صرف مردوں کو رنڈی خانے ہی ملیں گے ۔
اس مرد کے گھر کی عورت اس کے آگے  اور اس کے گھر کی عورت اس کے آگے ۔۔کیونکہ یہ خدا کا فیصلہ ہے ۔
چاہے وہ دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا ۔
 آباد گھروں کو بھول جائیں پھر
                       ۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2019

فرشتے کو۔بھی مار ڈالا ۔ کالم



        فرشتے کو بھی مار ڈالا
                     (تحریر:ممتازملک.پیرس )


اسلام جمہوریہ پاکستان کے قلب میں ،سب سے محفوظ شہر میں ، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ، شیطان کو قید کیئے جانے کے باجود ایک فرشتے کی موت ہو گئی۔۔۔۔ کیسے؟؟؟
جیسے اس ملک میں ہر بچی اور عورت اغوا کی جاتی ہے ، برباد کی جاتی ہے اور مار دی جاتی ہے ۔۔ 
اپنی جان و عزت کی حفاظت  کے لیئے عورتوں اور بچوں کو مل کر ایک منظم اور بھرپور تحریک چلانی ہو گی ۔ جہاں سے پارلیمنٹ تین دن میں  اس قانون کو بنائے اور عدلیہ اسے  فوری نافذ کرے۔ کہ ایسے کسی بھی واقعے میں تین دن کے اندر پولیس اصل مجرم کو پکڑے اور عدالت تین دن میں اسے سزائے موت دے اور 7ویں روز اس مجرم یا وکٹم کے گھر کے سامنے یا اس کے محلے میں اسے سرعام پھانسی دی جائے اور کم از کم سات روز تک یہ لاش وہاں عبرت کے لیئے لٹکی رہے ۔ اس کے بعد اسے کسی کھڈے میں بنا کفن دفن کے پھینک کر مٹی کو بلڈوز کر دیا جائے ۔ 
صرف چار سزائیں ایسی دیکر دیکھ لیں اس ملک کے مرد اپنے ناڑے کے ساتھ اپنا نفس باندھ لینگے لیکن کسی بچی کیا عورت کیا،  کسی ہیجڑے  پر بھی نظر بد  نہیں ڈالیں گے ۔ 
                ۔۔۔۔۔۔

اللہ کے کام اسی کے سپرد۔ کالم

          


        اللہ کے کام اسی کے سپرد
              (تحریر:ممتازملک.پیرس)



آج جسے دیکھو کسی نہ کسی پریشانی کو، غم کو کمبل کی طرح اوڑھے گھوم رہا ہے ۔ چہرے کی ایک ایک لکیر میں اس کی غم فکر ، پریشانی گندھی ہوئی ہے ۔ گزرتی عمر کیساتھ یہ نقوش مذید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ 
ہم سب جب اس دنیا میں آئے تھے تو اپنا مقدر ، اپنی تقدیر،  جس میں ہمارے حصے کی زندگی ،موت کی گھڑی ، ہمارے حصے کا رزق ، نکاح کا وقت اور ساتھ ، اپنے حصے کی ہر خوشی اور غم لکھوا کر لائے تھے ۔ ایک حسین معصوم اور نرم و نازک سے وجود کیساتھ ۔ 
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے چالاکیاں سیکھیں ، مکاریاں اپنائیں ، مفاد سمیٹے ، نفرتیں بڑھائیں ، محبتیں بھگائیں ، اس ساری دوڑ میں ہم اپنی معصومیت ، سچائی ، اللہ پر اپنے یقین کو کہیں دور گنوا آئے ، پھر آئینہ ہمیں دیکھ کر رو دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ ارے تم کون ہو ، وہ معصوم سا حسین وجود کہاں گیا میں تمہیں نہیں جانتا ۔۔۔ایسا کیوں نہ ہو ۔
بڑھاپا نہ تو کوئی طعنہ ہے ، نہ کوئی برائی ۔ بلکہ یہ تجربات و مشاہدات کے خزانے کا نام ہے ۔  ہاں اب یہ حسین ہو گا یا بدصورت ۔ اس کا انحصار ہم سب کے کردار و اعمال پر بھی یے اور ہمارے دل و دماغ میں پلتی سوچوں کی پاکیزگی اور غلاظت پر بھی ۔ اور اللہ پاک نے یہ کام ہمارے ہاتھ میں دے رکھا ہے کہ ہم جوانی میں ہی نہیں بلکہ عمر بھر کتنی مثبت ذندگی گزارتے ہیں ۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیئے کتنے مثبت انداز فکر عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ 
غم اور پریشانیاں  اس زندگی کا حصہ ہیں ان کا مقابلہ کیجیئے ، انہیں دور کرنے کی کوشش کیجیئے لیکن انہیں اپنے ماتھے پر لکھ کر کہ " میں پریشان ہوں" یا "میں دکھی ہوں" کا اشتہار بنا کر مت چپکائیں ۔ 
میرے ایک بہت پیارے قاری بیٹے  سعید الرحمن سے بات ہو رہی تھی ۔ اس نے پوچھا آپی جی آپ بوڑھی کیوں نہیں ہوئیں اور کیسے نہیں ہوئیں ؟ کئی لوگ تو چالیس کی عمر میں بھرہور بوڑھے لگنے لگتے ہیں ..
تو میں نے اسے بتایا کہ بیٹا 
انسان جب اللہ کے کام اپنے سر لے لیتا ہے تو بیس سال کی عمر  میں بھی بوڑھا ہو جاتا ہے ۔ 
اور جب وہ اللہ کے کام اسی کو سونپ کر صرف اپنے حصے کا کام کرنے میں راضی برضا ہو جائے تو سو سال کی عمر میں بھی  وہ اطمینان اس کے چہرے پر آ جاتا ہے ۔ آزمودہ ٹپ دے رہی ہوں ۔ 
میری شکل نے بھی بڑے روپ بدلے اسی تلاش  میں ۔۔
اور اب جب یہ بات سمجھ آ گئی ہے تو بس اپنی حصے کی کوششیں کرتی ہوں جو میرا فرض ہے نتیجے کی فکر اور ذمہ میرے سوہنے رب کا ہے ۔ 
اور یقین مانو بیٹا
 وہ آپ کی سوچ سے بھی بڑھ کر آپ کو عطا کرتا ہے ۔💝
وہ بڑی عقیدت سے بولا
 ہمیشہ جب بھی گفت و شنید ہوٸی ہے آپ سے کچھ نہ کچھ سیکھ کے گیا ہوں ۔۔۔اور آج تو آپ نہ دو لفظوں میں میرے سامنے فلسفہ حیات رکھ لیا ۔۔۔۔
میں ہمیشہ آپ کے کردار و گفتار سے متاثر رہا ہوں۔
میں نے کہا بیٹا
یہ آپ کی اچھی تربیت اور سعادت مندی ہے جو آپ کو سیکھنے کے لیئے، سننے اور سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ 
ورنہ یہاں قد نکالتے ہی سب سے پہلے جن کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتے ہیں انہیں کو جھٹکتے اور توہین کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جبھی سبھی کچھ ہو کر بھی نہ انہیں دل کا سکون ملتا ہے نہ ہی چہرے کی رونق ۔۔۔۔
              با ادب بانصیب
              بے ادب بے نصیب
                         ۔۔۔۔۔۔۔

P

اتوار، 19 مئی، 2019

ہم نہیں سدھریں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



            ہم نہیں سدھریں گے



کم و بیش پچاس سال پرانی  صبیحہ ، سنتوش کی پاکستانی فلم کا مکالمہ 
     ہماری اوقات بیان کرتا ہے
"نماز میرا فرض ہےاور
   چوری میرا پیشہ"
یعنی ہم آج بھی نہیں سدھرے🤔🤔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں )
       (تحریر:ممتازملک.پیرس)

ہفتہ، 18 مئی، 2019

فرانس میں رمضان۔۔ کالم


   فرانس میں رمضان بمقابلہ پاکستان
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)




پاکستان میں کچھ سال پہلے رمضان المبارک گزارنے کا موقع ملا ۔ وہاں کے لوگوں کے معمولات میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت کے پاس بازار کی دوڑیں،  درزیوں کے چکر ، ہوٹلوں ،دکانوں سے سحریاں افطاریاں خریدنے کی لائنوں میں ہی گھنٹوں گزارنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ چاند رات زندگی میں ایک بار ہی غلطی سے گئی تھی تو کانوں کو ہاتھ لگا کر رات کے 3 بجے گھر پہنچ پائے ، وہ زندگی کی پہلی اور آخری چاند رات تھی  ۔
اس قدر بھیڑ کہ مجھے محسوس ہوا ہوا میں سے آکسیجن ختم ہو چکی ہے ۔ راہ میں ایک ایک قدم اٹھانا دشوار تھا ۔ عورتوں کے بازاروں میں دنیا بھر کا لوفر لفنگا ، بھونڈی باز، جیب کترے اور جیب کتریاں ، اٹھائی گھیرے لوگوں کے ساتھ چپکے جا رہے تھے ۔ میں ایک جگہ رک گئی لیکن واپس جانے کا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا ۔ لوگوں کا ایک سونامی تھا ۔ ایک خریدار تھا تو سو اچکے اور جیب کترے،  اور ٹھرکی ۔ اس روز آنکھوں دیکھے منظر نامے کے بعد ایک بات کا تو مجھے پکا یقین ہو گیا کہ  میرے نزدیک چاند رات بازاروں کے چکر لگانے والوں سے زیادہ بیوقوف،  اور بے شرم کوئی نہیں ہو سکتا ۔
آخر سال کے تین سو پینتیس دنوں میں  ان لوگوں خصوصا عورتوں  کو خریداری کیوں یاد نہیں آتی ؟
اگر بات سستے کی ہے تو سال بھر کی یہ ایسی واحد رات ہے کہ اس میں سب کچھ مفت مل رہا ہے کیا ؟
تیس روز تک بھوکا پیاسا رہ کر اپنی طرف سے بیت پارسائی کمانے کے بعد یوں نامحرموں کے ساتھ چپک چپک کر دھکے کھانے کے بعد کسی خوشی اور جنت کی تلاش ہوتی ہے ۔ جبکہ ان لوگوں کی اکثریت فجر کی نماز کیا عید کی نماز سے بھی غافل ہو چکی ہوتی یے ۔ یہ ہی سوچ اور دیکھ کر 
دوبارہ گرمی کی چھٹیوں میں کتنے سال رمضان آنے کے باوجود ہم  نے پاکستان میں رمضان گزارنے سے توبہ کر لی ۔
پاکستان کے اکثر دو نمبر یا برائے نام مسلمانوں کی زبان میں ہم ایک غیر مسلم ملک یا کافر ملک میں رہتے ہیں ۔ جہاں ان کے تصورات کے مطابق ہر مرد و زن شراب کی بوتل ہاتھ میں لیئے نائٹ کلبوں میں پڑا ہوا ہے اور جس مرد کا جو دل چاہے وہ عورت اس کی جھولی میں پڑی ہوتی ہے ۔ یورپ کا طعنہ دینے والے یہ ہی لوگ ساری عمر اسی یورپ میں آنے کے لیئے ویزے کی لائنوں میں اور خواہشوں کے سراب میں گزار دیتے ہیں ۔ پھر بھی یورپ میں رہنے والے عزیزوں کو طعنہ دیتے ہیں مادر پر آذادی کا ۔ بنا اپنے ناک کے نیچے نظر دوڑائے ۔ 
باقی یورپ کی طرح فرانس میں بھی
 الحمداللہ ہر چیز کا نظام الاوقات یعنی ٹائم ٹیبل  ہے ۔ یہاں ہم چاند راتوں کے انتظار میں اپنی شرم حیا تار تار کروانے بازاروں کے دھکے نہیں کھاتے ۔ اگر کہیں چاند رات کا اہتمام کسی ہال میں کوئی تنظیم کر بھی دے تو یہ خالصتا خواتین کا پروگرام ہوتا ہے ۔ اس میں کسی مرد کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اول  تو دو تین ماہ پہلے ہی سینے خریدنے کا کام مکمل ہوتا ہے ۔ آرام سے قرآن پڑھا جاتا ہے ۔ روزے میں رابطے کم کر کے غیبت ، چغلی ، جھوٹ سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رات بھر اپنے اپنے  گھروں میں اور مساجد میں  عبادت ہوتی ہے ۔ خواتین گھر میں اپنے ہاتھ سے سحر و افطار تیار کرتی ہیں۔
جبکہ ملازمت کرنے والی خواتین بدستور اپنے کاموں پر بھی جاتی ہیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کا روزہ بھی رکھتی ہیں ۔ پھر بھی شوہروں کو سحر اور افطار میں ہوٹلوں پر 3 ،3 گھنٹے کھڑے ہونے کو نہیں بھیجتیں ۔ یہاں کے مرد اور خاص طور پر شادی شدہ مرد پاکستان کے مقابلے میں بیسیوں غموں سے آذاد ہیں ۔ وہ بھی ان خاص مواقع پر۔ جس کے لیئے انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ 
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان جو کام چھپ کر اپنے اور اللہ کے بیچ رکھ کر کرنے چاہیئیں وہ ہم نمائش گاہ میں لے آئے ہیں ۔
جیسے
عبادات کرنا ، نماز، روزہ، زکوات ، کسی کی مدد کرنا ۔۔۔۔
 اور جن کاموں کو اعلانیہ کرنا چاہیئے انہیں پردے میں چھپا دیا ہے ۔ ۔۔جیسے کسی کی تعریف کرنا ہمت بندھانا،  سچ بولنا ، گواہی دینا ، معافی مانگنا ، برے کو برا کہنا ، حق کا ساتھ دینا ۔۔۔۔۔
پاکستان میں اسلام کے نام پر جتنا بڑا تماشا کیا جاتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں ایسا ہوتا ہو ۔ پاکستان میں مسلمانوں کو پھر سے اپنے تجدید ایمان کی شدید ضرورت ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے آپ کو پاکستان گئے بھی بہت عرصہ ہو چکا ہے ۔ اس بار جائیں تو یہ سب باتیں سامنے رکھ کر ان کا جائزہ لیجیئے گا ۔ ۔۔
                       ۔۔۔۔۔


جمعہ، 17 مئی، 2019

ماہ رمضان یا ماہ بسیار خوری ۔ کالم



ماہ رمضان یا ماہ بسیار خوری 
                    (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائی جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا ۔ روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئی روز قبل ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئی رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائی اور سنائی دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد آمد ہے ۔.
ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائی، نوافل کی محافل کا اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔
لیکن ایک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟ تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی دعوت افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں دعوت افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے۔   اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے،  پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔
 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 
ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر میں بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیں اور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں ہیں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 

بدھ، 15 مئی، 2019

بابائی وباء ۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے




  1. بابائی وباء
    (تحریر:ممتازملک. پیرس) 




    ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا  اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ  ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے  کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ  تعلق نہیں ہوتا .  بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
    کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
    تو وہ اٹھلا کے بولی
    ویکھو جی ،  بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
    ایک تو ان کی ان کم 
    دوسرے ان کے دن کم

    سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ 

    بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...
    تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...
    یہ بابے پاکستان میں نوعمر  بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان  عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی . 
    سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات  الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز  شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.
     ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا.  یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
         
    MumtazMalikParis.BlogSpot.com
                          ........


Loading

منگل، 14 مئی، 2019

جلن یا منزل ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


جلن یا منزل

جلنے والے جلتے رہ جاتے ہیں اور کام کرنے والے منزلیں سر کر لیتے ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک ۔پیرس)

جمعہ، 10 مئی، 2019

✔ کینسر کا جن ہمارے ہاتھ میں۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ

                 

    کینسر کا جن ہمارے ہاتھ میں 
      تحریر/ ممتازملک.پیرس  

دنیا میں آئے روز نت نئی بیماریوں کا غلغلہ مچا رہتا ہے ۔ حالانکہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو پہلے زمانوں سے زیادہ نہاتے دھوتے ہیں ۔ خوشبوئیں لگاتے ہیں ۔ جلدی کپڑے بدلتے ہیں ، گھروں میں پہلے سے زیادہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں ۔ جدید ترین طریقے اور  ادویات سے صفائی کا انتظام کرتے ہیں ۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ آج جسقدر خوفناک بیماریاں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں ۔۔تو ذرا غور کیجیئے جو لوگ جتنے بڑے رتبے اور مقام پر ہوتے ہیں وہ ملئینرز ہوں، سٹارز ہوں ، انہیں کو یہ سب بڑی اور خطرناک بیماریاں زیادہ تر کیوں ہوتی ہیں ۔ خاص طور پر کینسر کی مختلف اقسام ۔۔۔
وجہ یہ ہے ہم جتنے ناموراور امیر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اتنا ہی ہم فطرتی  اطوار سے دور ہونے لگتے ہیں ۔ ہمارے کھانے  پکانے، پہننے ،صفائی کرنے کے انداز میں مصنوعی کیمیکلز کا استعمال زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ 
سب سے پہلے گھر میں داخل ہوئے ائیر فریشر سے گھر کی فضا مہکائی گئی بجائے پھولوں اور عطر کے۔ پھر ہاتھ منہ دھوئے یا نہائے دھوئے کیمیکل سے بنے مصنوعی کیمکل صابن ، شیمپو، باڈی کریم ، لوشنز اور بلا بلا بلا  سے خود کو مہکایا۔ اس کے بعد کھایا پکا بہترین  برتنوں میں جو اکثر نان اسٹک ، اور المونیم کے ہوتے ہیں ۔  روسٹ ہوا۔فوائل پیپر یا المونیم میں ۔ جن میں پکنے والا کھانا پہلے ہی اس کا زہر اپنے اندر جذب کر چکا ہے ۔ اس کے بعد ہمارے کھانا بنانے کے چمچ بھی اکثر نان اسٹک ۔  کھانے  کے برتن پلاسٹک یا کسی بھی قیمتی دھات سے بنے ہوئے۔ 
 کھانے کے بعد یہ برتن کسی بھی کیمیکل لیکوئڈ سے ہی دھلیں گے ۔ جس کا گاڑھا پن تو ہمیں پسند ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس برتنوں کی دھلائی کے لیکوئڈ نے سو فیصد کبھی بھی برتن پر سے نہیں اترنا ۔ اور وہ ایک ادھ تہہ آپ کے کھانے کے ساتھ پھر آپ ہی کے اندر جائے گی ۔ جو کینسر کا سب سے بڑا موجب ہے ۔ اس پر پانی بے تحاشا بہایا جائے گا لیکن صاف نہیں ہو سکتا ۔ اس کا بہتر طریقہ دیسی اچھے برتن دھونے کے صابن جو پہلے استعمال ہوتے تھے۔ لوکل بنا کرتے ہیں استعمال کیئے جائیں ۔ اگر لیکوئڈ استعمال کرنا بھی پڑے تو اس کے ایک حصے کو خالی بوتل میں ڈال کر اس میں تین حصے پانی کے ڈال کے اچھی طرح ہلا کر استعمال کریں اور برتن دھوتے وقت ہاتھ کو برتن پر تیزی سے پھینٹنے کے انداز میں ملئیے ۔ تاکہ سو فیصد کیمیکل اتر جائے۔ ایسا ہی اپنی شیمپو ، اور نہانے کے لیکوئڈ کیساتھ کیجیئے ۔انہیں خالص استعمال کرنا خود اپنے ہاتھوں موت خریدنے جیسا ہے ۔ اس سے آپ کا پانی بھی کم استعمال ہو گا ۔وقت بھی بچے گا ۔ یہ مٹیریل ذیادہ چلے گا ۔ پیسہ بھی بچے گا اور جان  بھی بچے گی بیماریوں سے ۔ 
گھروں کے اندر خوشبو کے لیئے دیسی اچھے عطر کا استعمال کیجیئے ۔ کیونکہ مصنوعی ائیر فریشنر آپ کی سانس کیساتھ آپ کے اندر خطرناک امراض جیسے کینسر بھی پہنچا رہا یے ۔ ظاہر ہے آپ ہوا میں موجود فریشنر کو سانس میں لیجانے سے تو روک نہیں سکتے ۔ یا پھر گھر میں گملے ہی میں پھولوں کے جیسے گلاب ، موتیا ، چنبیلی (یا جو بھی خوشبو آپ کو پسند ہو )کے پودے لگانے کا رواج پھر سے ڈالیئے جو آپ کے گھر کو قدرتی طور پر مہکائے رکھے گا ۔ 
اسی طرح آتے ہیں میک اپ کی جانب جو ہر خاتون اور صاحب نے ضرور ہی استعمال کرنا یے پرفیوم لازمی اور بہت ذیادہ اس کلاس کے لوگوں میں چھڑکے جاتے ہیں جو کہ نرا زہر ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایک تو یہ چیزیں جیسے پرفیوم، باڈی لوشنز ، ہینڈ کریمز، چہرے پر لگایا جانے والا میک اپ جیسے فلوئڈ یا بیس، فیس پاوڈر،جو آپ کے منہ کے اندر بھی کسی نہ کسی صورت کچھ نہ کچھ جا رہا ہوتا ہے ۔ یہ سب زہریلے مواد آپ کو مصنوعی خوبصورتی تو دے رہے ہیں لیکن اصلی کینسر جیسی  بیماری کیساتھ ۔ ان چیزوں کا استعمال کم سے کم کریں ، ہاتھوں پر لگے کریم اور لوشنز کو صابن سے اچھی طرح دھوئے بنا کبھی کھانے کی کوئی چیز اس سے اٹھا کر اپنے یا کسی کے منہ میں مت رکھیں ۔ آپ کے ہاتھ سے یہ زہر اس منہ تک بھی پہنچ رہا ہے ۔ اسی طرح ایکدوسرے کو پیار کرتے ہوئے خیال رکھیئے کہ اس کے یا آپ کے چہرے کا میک اپ ہونٹوں ہا زبان  سے لگ کر آپ کے منہ میں کسی صورت تو نہیں پہنچ رہا ۔ یہ بھی زہر ہے ۔ 
رات کو میک اپ صاف کرنے کے بعد تازہ پانی سے منہ دھو کر سوئیے۔ کیونکہ آپ کے چہرے کا یہ میک اپ صاف کرنے والا مواد بھی مصنوعی زہر سے لبریز ہے ۔ 
ان باتوں کا خیال رکھیئے اگر آپ کو اپنی اور اپنے سے جڑے لوگوں کی جان اور صحت بھی عزیز ہے تو ۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 7 مئی، 2019

ماہ رمضان رب ۔ شاعری


            ماہ رمضان رب 
                 (کلام:ممتازملک.پیرس)

سال بھر کی کثافت کو دھو لوں زرا 
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

صبر کا شکر کا کیا ہے یہ سلسلہ 
دوسروں کے مسائل سمجھ لے ذرا
 کیسے ٹوٹے ہوئے دل سے تو دل ملا 
یہ سبھی جان کر جی ملے گا مزا
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

اشک شوئی تیرا منصب عین ہے
دردمندی میں ہی تو چھپا چین ہے
دور تک کی خبر تو  بہت ہے مجھے
اپنے نزدیک کی لوں خبر سر جھکا 
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

میرا ہر سال حج تو ضروری نہیں 
میرا ہر سال عمرہ شعوری نہیں 
بھوک سے درد سے جو کوئی مر گیا 
رب کے بندوں کو تیری طلب ہے سوا
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

 اس برس مجھ سے اللہ  لے کام وہ
فرش پر ہی نہیں عرش پر  نام ہو
اپنے آقا کے چہرے پہ دیکھوں خوشی اور حاصل ہو ممتاز رب کی رضا
     ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا

      ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 6 مئی، 2019

نعت ۔ عطا کیجیئے ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



عطا کیجیئے
کلام/ ممتازملک۔پیرس

ہم سے بھی ملا کیجیئے 
دیدار عطا کیجیئے

 دل مبتلا ہے جس میں 
اس غم سے رہا کیجیئے 

ہم بھی ہیں غلاموں میں 
دنیا کو بتا دیجیئے 

 کیا آپ سے پردہ ہے 
خوشیوں کی دعا دیجیئے 

امید ہے جو مجھ کو 
اس سے بھی سوا کیجیئے

یوں میری خطاوں پر
 خودکو نہ خفا کیجیئے


دل روز سلامی دے  
اوقات بڑھا دیجیئے

ملتا ہے سبھی کچھ تو 
بس  آس دلا دیجیئے 

ممتاز آقا جی سے 
ہے شرط وفا کیجیئے
۔۔۔۔۔۔







اتوار، 5 مئی، 2019

آئی لو یو ۔ کالم

آئی لو یو تحریر: (ممتازملک.پیرس) آج جہاں دیکھیں لڑکے لڑکیوں کے دماغ پر عشق وشق کے ڈیرے ہیں ۔ والدین کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ پاتی کہ اپنی بیٹی کو ہم اعتماد کے ساتھ گھر سے باہر جا کر پڑھنے لکھنے یا کام کرنے کی کھلی اجازت دیں تو یہ لڑکی ہمارا سر بلند کریگی یا پھر ہمارے لیئے بدنامی کا باعث بنے گی ۔ اس سوچ کی وجہ وہ لڑکیاں ہیں جو جہاں دو الفاظ لکھنے کے قابل ہوتی ہیں، وہیں ان کی بدکرداری بنام لو سٹوری شروع ہو جاتی ہے ۔ اس وقت اس ایک آئی لو یو نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ رکھی ہوتی ہے کہ نہ اسے سامنے والے کا خاندان اور اس کی شہرت دکھائی دیتی ہے ، نہ اس کا کردار دکھائی دیتا ہے ، نہ اس کا لب و لہجہ اور تعلیم و تربیت نظر آتی ہے ۔ گویا یہ وہ جملہ ہے جو تیزاب کی طرح کسی بھی لڑکی کی عزت کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے ۔ اس ساری کاروائی کو دیکھنے والے کمزور دل والدین اکثر ان لڑکیوں کے حق تلفی بھی کر بیٹھتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں اور عملی زندگی میں بڑا نام و مقام بنانے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔ لیکن انہیں گھر میں بند ہونا پڑ جاتا ہے ۔ ان کا مستقبل تباہ برباد ہو جاتا ہے ۔ جبکہ لو یو ماری لڑکیوں کو تو بس نظر آتا ہے تو ہر طرف ہرا ہی ہرا ۔ فلمی خواب اور فلمی سین سر پر سوار کرنے والی یہ لڑکیاں نہ کبھی اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں ، نہ یہ کسی شعبے میں ماہر ہو پاتی ہیں ، اور پھر مرے پہ سو درے ان کا دماغ بس عاشقانہ جملوں کے لیئے ہی گھن چکر بنا رہتا ہے ۔ یہ بھی ایک طرح سے ذہنی مرض ہی تو ہے جسے وہ عشق سمجھ کر فلمی ہیروئن بننا چاہتی ہیں ۔ ہم نہ تو محبت کرنے کے خلاف ہیں اور نہ ہی پسند کی شادیوں کے خلاف ۔ لیکن کسی بھی لڑکی کو سب سے پہلے اپنی تعلیم و تربیت پر دھیان دینا چاہیئے ۔ اور اس بات کا یقین رکھنا چاہیئے کہ انکے والدین ان کے لیئے ایک اچھا فیصلہ کر کے ان کا ہاتھ کسی اچھے انسان ہی کے ہاتھ میں دینگے ۔ جس میں ان کی رضا مندی کو بھی اہمیت دی جائے گی ۔ ہاں اگر آپ کے والدین کسی بھی وجہ سے آپ کے چوبیس پچیس سال کی عمر کے بعد بھی ، اچھے رشتے آنے کے باوجود آپکی شادی کی راہ میں بلاوجہ روڑے اٹکا رہے ہیں تو پھر آپ اپنی کسی اچھی اور ہمدرد عزیز کو اعتماد میں لیکر اپنے فیصلے سے والدین کو آگاہ کریں ۔ اور وہ آپ کو عزت سے رخصت کرنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر کسی عزیز کے گھر سے ہی شرعی نکاح کے بعد شادی سے رخصت ہو جائیں ۔ لیکن یہ یاد رکھیں جو لڑکیاں فقروں پر عاشق ہو کر گھر والوں کی رضا کے بغیر شادی شادی کھیلتی ہیں انہیں بہت سی آزمائشوں کے لیئے تیار رہنا چاہیئے ۔ انہیں اس کے ہاتھوں فاقے کاٹنے ، گھریلو تشدد کا شکار ہونے اور بے پرواہی کے دکھوں کے لیئے تیار رہنا چاہیئے ۔ اسی لیئے مرد کی شکل سے پہلے اس کا کردار اور اس کی جیب دیکھی جاتی ہے ۔ اور گھر والے سو باتیں دیکھنے کے بعد ہی بیٹی کا رشتہ دینے پر آمادہ ہوتے ہیں ۔ ادھر آج کی لڑکی کو کسی نے مذاق میں بھی آئی لو یو پھینکا ادھر وہ اس کے بستر تک پہنچنے کو تیار ہو گئی ۔اور اگلا شکاری بھی ایسی چادریں روز بدلنے کا ماہر ہوتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔

ہفتہ، 4 مئی، 2019

بیوقوفانہ سوال ۔ کالم

           


               بیوقوفانہ سوال       
                    (تحریر:ممتازملک.پیرس)


 ابھی کچھ روز پہلے ہی کی بات ہے ہمارے ایک نوآموز صحافی نے ایک پروگرام کے اختتام پر ایک نامور سینئیر شاعر سے سوال کیا کہ سر کیا وجہ ہے کہ آج کل کے شعراء کے کلام میں وہ بات نہیں ہے جو آپ کے دور کے شعراء کے کلام میں تھی؟ ہم نے بڑی شدت سے یہ چاہا کہ کھڑے ہو کر اس صحافی نما کو یہ جواب دیتے بھائی حلفا بتاو آخری وہ کون سی کتاب ہے جو تم نے خریدی تھی یا کتنا عرصہ قبل آخری بار تم نے کوئی کتاب پڑھنے کی نیت سے کھولی تھی؟ لیکن بس آداب محفل آڑے آ گیا اور ہم خاموشی سے اس سوال جواب کو سنتے رہے ۔ ہمارے ہاں غیر ضروری طور پر فعال ہونے کی کوشش ہی اکثر ہمارے فیل ہونے کی وجہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ہمیں کسی نے پوچھا آپ کہاں لکھتی ہیں؟ میں نے تو آپ کو کبھی نہیں پڑھا نہ آپ کا نام سنا ہے ۔ ہم نے کہا یہ بتاو آج کل کے معروف کوئی سے تین لکھاریوں کا نام بتاو؟ جواب پتہ نہیں۔ اچھا آجکل کے کوئی سے تین شاعروں کا ہی نام بتا دو ؟ جواب پتہ نہیں میں شاعری میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اچھا کوئی سے تین کالمنگاروں کے ہی نام بتا دیجیئے ؟ جواب ملا ، زہن میں نہیں آ رہے ہم نے کہا بھائی فوٹو باز کبھی کوئی پڑھنے والی سائیٹ کھولے گا، کوئی کتاب خریدے گا ، کوئی پروگرام دیکھے سنے گا تب ہی تو تمہیں معلوم ہو گا کہ کون کیا لکھ رہا ہے ، کیسا لکھ رہا ہے ، کتنا لکھ رہا ہے ۔ ۔۔یوں بونگیاں مار کر نہ تو کوئی بڑا صحافی بن جاتا ہے اور نہ ہے عالم کہلا سکتا ہے ۔ اس سے بڑا کسی کا صحافت کیساتھ  مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے ہی علاقے میں رہنے اور لکھنے والوں کا ہی علم نہ ہو ، اپنے ہاں سوشل ورکرز کا علم نہ ہو ، اپنے علاقے کے لوگوں کی آبادی، اور طرز معاشرت کا علم نہ ہو ۔ اور آپ چلیں یہ تبصرہ کرنے کہ آج کل وہ کام نہیں ہو رہا جو آپ کے زمانے میں ہوتا تھا ۔آگے سے اگر کوئی حاضر دماغ لکھاری ٹکرا جائے تو وہ بھی یہ جواب دیگا کہ برخوردار جب ہم جوان تھے تو ہمارے بڑوں سے بھی تم جیسے نقل مار کر پاس ہونے والے صحافی یہ ہی سوال کیا کرتے تھے کہ سر کیا بات ہے آج کل لکھنے والے ویسا نہیں لکھتے جیسا کہ آپ کے دور میں لکھا کرتے تھے ۔ ھھھھھھ۔ سو سوال جواب کرنے اور صحافی کہلانے کے لیئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر ہوں ، اچھے قاری ہوں جو ہر قسم کے مطالعے کا بھرپور شوق اور عادت رکھتے ہوں ۔ جنہیں موجودہ دور کے مسائل اور آسانیوں کا مکمل شعور اور ادراک ہو ۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم کیمرے سے تصویر ہی اچھی لے لیا کریں ۔ یقین مانیئے پاکستانی صحافیوں کی اکثریت کے کیمرے کی وہ کوالٹی ہوتی ہے کہ اچھے بھلے حسین انسان کو بھی بھوت بنا کر پیش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے ۔ اور ان کی تصاویر کسی بھی خوبصورت سے خوبصورت انسان کو بھی باآسانی کسی کے بھی دل سے اتار سکتی ہیں ۔ ان ایمرجنسی صحافیوں کو ایک ہی شعبے میں کام سکھایا جائے تو یہ کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں ۔ اور جو لکھنے پڑھنے سے کورے ہیں انہیں اچھے کیمرے کی پہچان اور فوٹو بنانے کے طریقے اور اچھی تصویر کے اینگل سمجھنے ہی کی کچھ تربیت لے لینی چاہیئے ۔ تاکہ یہ جو خوبصورت لوگوں کو "کوجا" بنا کر پیش کرنے کا مقابلہ ہو رہا ہوتا ہے اسے تو کچھ لگام دی جا سکے ۔
                        ۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 2 مئی، 2019

عظمت نصیب گل ۔۔۔کے بعد پر تبصرہ


۔۔۔۔کے بعد


عظمت نصیب گل کی کتاب 
۔۔۔۔۔ کے بعد

عظمت نصیب گل صاحب ایک بہت ہی بامروت اور شریف النفس انسان ہیں ۔ وہ ایک پختہ لہجے کے شاعر بھی ہیں اور کہانی نویس بھی ۔ اب تک ان کی چار کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ہم ان کی 5ویں  کتاب ۔۔۔ کے بعد کی رونمائی کے لیئے یہاں موجود ہیں ۔ یہ انکی پہلی اردو شاعری کی کتاب ہے ۔ بنیادی طور پر عظمت نصیب گل پنجابی زبان کے شاعر ہیں اور اپنی ماں بولی میں اظہار خیال کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ 
لیکن ان کی اس کتاب کو پڑھ کر کہیں بھی آپ کو اس بات کا شائبہ تک  نہیں ہو گا کہ وہ اردو اظہار خیال میں کہیں بھی کسی سے کم ہیں ۔ 
ان کی اس کتاب مییں شاعری نہیں حقیقتوں کے پنے ہیں جو الٹتے ہیں تو وہ آپ کے دل کے دروازوں کو بھی کھولتے چلے جاتے ہیں ۔  اس کتاب میں سچائی ، سادگی ، اور پر کاری سے مزین  شاعری میں آپ ان کے تجربات اور مشاہدات کو باآسانی پڑھ سکتے ہیں ۔ جیسے کی 

اجرت واجب نہ تھی کام زیادہ تھا 
جیون کے سودے میں دام زیادہ تھا

میں نے جنت کو چھوڑا تھا اس کارن 
وحشت اس میں کم آرام ذیادہ تھا 

پیچ نہیں تھے اتنے ان کی باتوں میں 
ان کی سوچوں میں ابہام ذیادہ تھا 

کسی نے پوچھا تو فرمایا دلبر نے 
شاعر خاص نہیں تھا نام زیادہ تھا 

میں نے نصیب کو بڑے قریب سے دیکھا ہے 
برا نہیں تھا بس بدنام زیادہ تھا 

یہ اور اس جیسا بہت سا خوبصورت کلام پڑھے جانے کا منتظر ہے ۔  آپ کا ذوق مطالعہ ہی اس کی داد ہو گا ۔ 
میری جانب سے عظمت نصیب گل صاحب کے لیئے بہت سی دعائیں اور نیک خواہشات 
                       ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 28 اپریل، 2019

راہ ادب پہلی سالگرہ۔ رپورٹ




  راہ ادب کی پہلی سالگرہ کی تقریب
   (رپورٹ ممتازملک.پیرس)







ہفتہ 27 اپریل 2019ء کو ایک مقامی ریسٹورنٹ میں فرانس کی پہلی پاکستانی نسائی ادبی تنظیم راہ ادب  کی پہلی سالگرہ کی خوشی میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ جس  میں مقامی تنظیمات میں  اہل سخن سے ایاز محمود ایاز ، نبیلہ آرزو اور عاکف غنی ، پنجابی سنگت سے عاشق رندھاوی ، اور عظمت نصیب گل نے شرکت فرمائی۔  اس کے علاوہ شاز ملک صاحبہ نے خصوصی شرکت فرمائی۔ جبکہ ٹیم راہ ادب سے ممتازملک اور شمیم خان صاحبہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔
راہ ادب کی بانی اور صدر محترمہ ممتازملک نے تمام احباب ، شعراء کرام اور ادبی تنظیمات کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان پر اور ان کے ارادوں پر اعتماد کیا ۔ ہر پل ان کا ساتھ دیا اور آج پیرس میں پہلی بار بنا کسی اختلاف، بنا کسی رد و  بدل  اور ناچاقی کے کسی تنظیم خصوصا خواتین کے کسی گروپ نے اپنا ایک سال مکمل کامیابی کیساتھ مکمل کیا ۔ جبکہ ہماری آرگنائزر محترمہ روحی بانو صاحبہ اپنے نجی دورے پر آجکل پاکستان میں ہیں ۔ جنہیں ان کی غیر موجودگی میں  مبارکباد پیش کی گئی۔ 
 پروگرام کے پہلے حصے میں فرانس میں اردو کی بقاء اور  ترویج پر سبھی شرکاء نے اپنے مفید مشوروں سے نوازہ ۔ اور اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ ہماری ماوں کو اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا ۔  اپنے بچوں سے اردو زبان میں بات کرنا ہی اپنی زبان اور کلچر سے محبت کا پہلا ثبوت ہے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں سبھی شعراء کرام نے اپنے اپنے کلام سے مہمانوں کو محظوظ کیا ۔ جبکہ تیسرے حصے میں مہمانان گرامی کے لیئے پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔
یوں ہنستے مسکراتے اس خوبصورت محفل کا اختتام ہوا ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 26 اپریل، 2019

یس مائی لارڈ ۔ کالم


        
                 یس مائی لارڈ
                  (تحریر/ممتازملک.پیرس)


ابھی دو تین روز پہلے کی بات ہے ۔ مجھے پاکستان میں اپنے بینک سے سٹیٹمنٹ چاہیئے تھی ۔ میرے بھائی کے ذریعے معلوم ہوا کہ میں وہاں کے مینیجر یا نمائندے کو ایک ای میل کر دوں تاکہ ان کے پاس ثبوت رہے کہ میری اجازت سے میرے بھائی کو میری بینک سٹیٹمنٹ دی گئی ہے ۔ میں نے انہیں میل کر دی ۔ اگلے روز میرے بھائی نے بتایا کہ بینک کے نمائندے نے فرمایا ہے کہ ملک صاحب باجی نے میل اردو میں کر دی ہے،  وہ نہ ہم سے پڑھی جاتی ہے نہ ہی سسٹم اسے قبول کر رہا ہے سو باجی سے کہیئے کہ اسی درخواست کو یا انگلش میں میل کر دیں یا پھر رومن اردو میں ایک میل کریں ۔ 🤔
میں حیران پریشان رہ گئی کہ یا اللہ میں نے جس ملک میں میل بھیجی ہے وہ پاکستان ہی ہے ؟
کیا واقعی اس کی قومی زبان اردو ہی ہے ؟
اگر یہ جواب مجھے اردو میل کے بدلے میں امریکہ، فرانس ، چین اور جاپان سے آتا تو نہ مجھے حیرت ہوتی نہ ہی افسوس ۔۔
مگر دکھ ہوا تو اسی بات پر کہ میرے ملک میں ، میرے لیئے بنائے گئے سسٹم میں ، میری ہی زبان کے لیئے کوئی جگہ نہیں ہے ، کوئی قبولیت نہیں ہے ۔ 
کیا اس گونگی قوم کے لیئے(جو کرائے کی زبان کے حصول کے لیئے پاگل ہوئی جاتی ہے)ترقی کے دروازے کھلیں گے؟
یہ چاند پر کمندیں ڈالے گی؟
یہ دنیا کو اپنا مدعا ان کی زبان میں ترجمہ کر کے سنائے گی ؟
میں نے  میل تو انگلش میں کر دی، لیکن نیچے انہیں ان کی اس اعلی کارکردگی پر  ایک شاباش بھی بھیج دی کہ
(مجھے یہ جان کر شدید افسوس ہوا کہ آپ اردو میں لکھی ہوئی میری میل نہیں سمجھ سکتے۔)
(شاباش پاکستان)
حکومت پاکستان کی وہ کون سے گھنٹی بھائی جائے جو اسے اس ملک کی حمیت کا احساس دلائے  ؟  جس کا جو جی چاہتا ہے وہ وہی زبان سیکھے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اسی کو ہماری تعلیمی ، دفتری اور قانونی زبان بھی ہونا چاہیئے۔ یہ شکایت ہم کس ملک میں جا کر جمع کرائیں کہ دنیا میں ایک ملک ہے پاکستان، جس کی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ مل کر اپنی ہی قوم کو پھتو بنانے کے لیئے ایک غیر ملکی زبان کو آلہ بنائے ہوئے ہیں ۔ جو ہمیں ہماری ہی زبان بولنے نہیں دیتی ، لکھنے نہیں دیتے ، پڑھنے نہیں دیتی ، ہمارا ہی ملک کہ جس میں میں دس فیصد سے بھی کم تعداد اپنی من مانیاں کرنے کے لیئے نوے فیصد قوم کو گونگا بہرہ اور احمق بنا کر انہیں ڈگڈگی کا بندر بنائے ہوئے ہیں ۔ خدا کے لیئے کوئی آو اور ہمارے گونگے پن کا علاج کرو ۔
ہمارے سب سے بڑے انسانی حق کو ہمیں دلاو۔ درخواست انگلش میں ، شاباش انگلش میں ، سبق انگلش میں ، امتحان انگلش میں ، بولنا اردو اور مقامی زبان میں اور سوچنا اپنی زبان میں لیکن لکھنے کا حکم انگریزی میں ۔ اور سامنے والا انگریزی میں بات نہ کرے یا نہ کرنا چاہے تو اسے گردن اکڑا کر یوں دیکھنا جیسے کوئی بڑا ہی لارڈ صاحب اپنے کسی جوتے صاف کرنے والے کو دیکھتا ہے ۔ جبکہ وہ  خود کو لارڈ سمجھنے والا اصل میں خود ٹیڑھا منہ کر کے  آقائی زبان بول کر اس کے کتے نہلانے والے ٹاوٹوں اور غلاموں کی روایات کی یاد تازہ کر رہا یے اور یہ اعلان کر رہا ہے کہ
           یس مائی لارڈ 
                 یس مائی لارڈ 
                        یس مائی لارڈ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 25 اپریل، 2019

● آپ کی بات/ رقیہ غزل کو انٹرویو












آپکی بات ڈاٹ کام
خصوصی سلسلہ
*"پرسنیلٹی آف دا ویک"*
انچارج: رقیہ غزل
کہنے کو یہ ایک سلسلہ ہے لیکن دراصل یہ ایک کاوش ہے ! ملک کے لکھاریوں اور علم و ادب کے موتی بکھیرنے والے نامور شخصیات کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کرنے کی ! اور اس کی بنیاد چند سوالات ہیں ۔آپ کے جوابات آپ کے فن اور خدمت فن کا حوالہ بنیں گے اور نئے لکھنے والے احباب کیلئے مشعل راہ اور ترغیب کا باعث ہونگے ۔
سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر،  لکھاری ، مصور سب  پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں  نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر  قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب  2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر  ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث  و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور  یقینی قدم تھا ۔
سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو  سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔
لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔
سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت  عہدہ بطور جنرل سیکٹری  مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز  تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری  پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے  انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے  کہا کہ میں  اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو  میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے  میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی ۔۔اور اسکے  6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 
سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے ۔آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم  ۔۔۔
جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک  کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔
سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ  موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجینے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 
سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی   کیونکہ سرپرستی کرنے  والی یہاں  کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے  واحد شاعرہ(اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں  اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ  فرانس کی واحد کالمنگار  خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیئے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ  میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور  یہ مخالفت آج تک جاری ہے
سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں  دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ 
اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں  روشنی کا مینارہ  دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور  یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی  زندگی  کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ  گنی جاونگی ۔ 
سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟
میرے پہلے شعری مجموعے   کی ٹائیٹل نظم "مدت ہوئی عورت ہوئے" بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے سوا اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں
اسی طرح
*
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے
                           *
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی  کر
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا
۔۔۔۔
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو  
 ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم+روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوٸی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں  ؟
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو  نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔  لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں  اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ   الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔
وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔  
سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی  ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔۔
سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا راٸے  ہے  ؟
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔
بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس  میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی
 ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 
سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟
مین سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی
تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ
بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 
سوال : اگر آپ کا کالم  یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔۔۔
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
(شعری مجموعہ۔2011ء)
2۔میرے دل کا قلندر بولے
( شعری مجموعہ 2014ء)
3۔سچ تو یہ ہے
مجموعہ مضامین۔2016ء)
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔
سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم  کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جاٸیں گے   ؟
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر  فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہیگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔
سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جاٸے پیداٸش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں  مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں  تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں  اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور  فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اور
عملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں  تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں  جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں  ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے  لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت  تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی  کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 
سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔
قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔
 اچھا اچھا بولیئے کریلے کے عرق کو جوس بولیئے،
لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن  کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ 
کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ  اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیئے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئیر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہ پے ۔ 
سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟

سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی  بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں  چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔
ممتازملک ۔ پیرس



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکی بات ڈاٹ کام
خصوصی سلسلہ
*"پرسنیلٹی آف دا ویک"*
انچارج: رقیہ غزل
https://www.apkibat.com

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/