جاری ہم پہ
ہے فسوں اس کا بڑی دیر سے طاری ہم پہ
حکم الطاف ہوا کرتا ہے جاری ہم پہ
ہر کسی کو اسی خوش فہمی میں رکھا اس نے
ختم یہ دنیا ہوئی اس کی تو ساری ہم پہ
ساری دنیا کی اذیت سے تقابل کرتے
اس کا ہر لفظ جہاں بھر سے تھا بھاری ہم پہ
مڑ کے دیکھا نہ پلٹ کر کبھی جاتے اس نے
دعوی کرتا تھا جو، ہر چیز ہے ہاری ہم پہ
ہوتی نفرت تو دفاع ہم بھی کچھ اپنا کرتے
اس کا چاہت میں ہر اک وار تھا کاری ہم پہ
بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھاری ہم پہ
کیسے ممتاز ہوا جاتا ہے سیکھو اس سے
سالہا سال چھڑی درد کی ماری ہم پہ
--------
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں