ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 28 دسمبر، 2014

ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔/ کالم

                                  


      ابهی نہیں تو کبهی نہیں             تحریر:
        (ممتازملک . پیرس)



ہم منافق اور بے غیرت لوگ سالوں سے اپنے معصوموں کے جنازے اٹها رہے ہیں .لیکن اُس قوم کو جنہیں ہم کبهی کافر کہتے ہیں تو کبهی جہنمی لیکن کیا انہوں نے دو پتهروں سے بنی عمارتیں گرانے والوں کے شک میں ہم نام نہاد مسلمانوں کے ملکوں کے ملک بموں سے پهاڑ نہیں ڈالے. اور ہم بے غیرت اپنی مائیں ،بہنیں ،بوڑهے ،جوان اور اب معصوم بچے ان خنزیر طالبانوں اور بدشکل درندوں جیسے حلیئے والے جانوروں جیسی شکلوں اور سؤر جیسی سوچوں والے دماغی مریضوں  کے ہاتھوں گنوا کر بھی ان کے لیئے مذاکرات مذاکرات کے ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ ان جانوروں کو اپنی جانوں اور عزتوں پر اختیار دیتے ہوئے ہم کیا  یہ بهول جاتے ہی  کہ بے غیرت کون ہے ہم یا وہ ،جنہوں نے اپنے چار لوگو ں کے بدلے ہمارے کروڑوں لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہے ،تو ہاں وہ غیرت مند ہیں کہ ان کی ہر جان ان کے لیئے سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہےاورہاں ہم بےغیرت ہیں کہ ہماری ہر کٹی ہوئی گردن اور دم توڑتی ہوئ جان خود ہمارے لیئے صرف اور صرف ایک نمبر شمار ہے بس.
یہ پندرہویں صدی کے تاجر عالم اور دوزخ کے آخری حصے میں غلاظت کهانے والے فاسق وفاجر عالم اور ملا کیا یہ ہمیں دین سکهائیں گے جو خود ہر دس منٹ کے بعد اپنی ہی کہی ہوئ باتوں کا پاس نہیں رکه سکتے. جو قاتلوں اور جانوروں سے یارانے کو اپنے لیئے فخر یہ پیشکش سمجھتے ہیں .اس پوری اسمبلی کے نام نہاد دو نمبر لیڈروں کے سامنے اس پوری قوم اور ان کے معصوم بچوں کے خون کا قصاص دیں اور انکے خاندان کے خاندان ان کی آنکهوان کے سامنے اسی طرح زبح کریں تو یہ ہی انصاف یو گا ۔ ان معصوم شہیدوں کے ساتھ. لال مسجدکے دلال کو اب تک پهانسی کیوں نہیں دی گئی.  ؟اس لال مسجد اور اسی طرح کے ساری مساجد جہیں اس جیسے دلال اورقاتل پناہ گاہ اور اڈابنا چکے ہیں انہیں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنّت کو نبهاتے ہوئے کیوں بلڈوز نہیں کر دیا گیا  .جبکہ مسجد ضرار بهی ایسے ہی خبیثوں کا گڑھ بننے جا رہی تهی.جسے ہمارے پیارے نبی ﷺنے گروا کر اس شر کے خلاف ایک عملی مثال پیش کر دی .ان کے شرپسند عالموں اور اماموں ملاءوں سمیت انہیں زمیں دوز کر دیا جائے. ہمیں کتنا مسلمان ہونا ہے یہ ہمیں اور ہمارے خدا کو طے کرنے دیا جائے. ہمیں اس کے لیئے کسی بهی لال مسجد کے برقع برانڈ خبیث کی ضرورت نہیں ہے. ہر آدمی اپنی قبر کا خود ذمےدار ہے کبهی کوئ کسی کے کردار کا ذمّہ دار جب خدا نے قرار نہیں دیا تو ان فرقہ پرور بے حیا ملاؤؤں یا عالموں  کی کیا اوقات جو ہمیں آکے ڈکٹیٹ کریں کہ کون کب نماز پڑهے گا ،اور کون کتنا مسلمان ہو گا. بند کریں پاکستان میں اسلام کا کاروبار. اس ملک کے صدراور وزیراعظم  کےعہدے پر بیٹهنے والوں پر لعنت ہے . ہم بهی تمہیں ایسے ہی قتل کرتے ہیں اس کے بعد غم نہ کرو ہم بهی ایک کمیٹی بنا دیں گے چا ر دن اسی کمیٹی کے نام پر ہمارے ہاں مذید حرام خور گروپ اور عیاشی کر لیں گے. ورلڈ ریکاڈ قتل  عام کا ریکارڈ بنانے والے حکمران کب تک عالموں اور مولویوں کے ذرخرید فتووں کے باڈی گارڈ بنے رہیں گے.  انہیں بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ صبح اپنے پیاروں کو ماتها چوم کر گهروں سے رخصت کرنے والوں کو جب شام کو اپنے پیاروں کے لاشے کے ٹکڑے سمیٹنے پڑتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہیں ان تمام عالمان ،طالبان جانوران کو اب اس درد سے گزارنا اللہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسا اللہ کا یہ حکم کہ کسی بهی ایک انسانی جان کی قیمت سارے کائنات کی سلامتی جیسی محترم ہے. 
ان سب خبیثوں کو چوراہوں میں لٹکایا جائے ان کی گردنیں کاٹ کر ان پر پبلک ٹائلٹ بنائے جائیں جہاں لوگ صبح شام ان کو خراج تحسین پیش کریں . و ہ لوگ جو ان جیسے بد کرداروں سے رتی بهر بهی ہمدردی رکھتے ہیں انہیں بھی ان کے ساته عبرت کا نشان بنایا جائے. سعودیہ کے چاند پر دو نمبر عیدیں منانے والوں کو آج سعودیہ کے قاتل اور غنڈے کیوں نظر نہیں آ رہے. کیوں کے دیکهنے والواں نے گردنیں ریت میں دبا رکهی ہیں . جو گردن ریت میں داب کر خود کو محفوظ سمجهتےہیں تو بہتر ہے کہ انہیں اسی ریت میں دفن کر دیا جائے. کہ ان کی زندگیاں اسلام کی خدمت کے نام پر اتنا انتشار پیدا کر چکی ہیں کہ اس کا خاتمہ ان انہیں ختم کیئے بنا کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاست کو واقعی دین سے جدا کر دیا جائے اور ہر انسان کو اس کی مرضی سے اپنے رب کو پوجنے اور اسکی عبادت کا حق دیا جائے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


urdunewsonline.com


                                  ::::::::::::::::::::::






اتوار، 21 دسمبر، 2014

سلام سلمان خان / ممتازملک -پیرس


سلام سلمان خان
ممتازملک / پیرس

ہم ان تمام ہندوستانی دوستوں کے انتہائ مشکور ہیں جنہوں نے پاکستان میں  ہونے والے خوفناک قتل عام میں ہم سے  اپنی دلی اور جذباتی ہمدردی کا اعلانیہ اظہار کیا بلکہ ہم نے کئی کو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بلک بلک کر روتے ہوئے بهی دیکها.کہ یہ درد کا رشتہ ہے. جس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں ہو سکتا. . اس سلسلے میں تمام فنکاروں کا بهی شکریہ. اور خاص طور پر ہم زکر کرنا چاہتے ہیں ایک مہنگے اور بڑے ہندوستانی ٹی وی شو بگ باس کا جس میں ایک ایک منٹ میں کسی بهی مصالحہ دار حرکت سے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں .خاص طور پر ویک اینڈ میں ان کے معروف فنکار سلمان خان جب یہ شو کرتے ہیں تو شرارتیں بهی زیادہ متوقع ہوتی ہیں  لیکن گزشتہ رات 20 دسمبر 2014 کو ہونے والا شو اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں تجارت سے زیادہ انسانیت نظر آئ.اورپروگرام کرنے والا اداکار سلمان خان نہیں بلکہ ایک ہمدرد دل رکھنے والا بہترین انسان باپ بهائ اور بیٹے جیسا کلیجہ رکهنے والا سلمان خان نظر آیا. یہ محض ایک منٹ کا روایتی اظہار ہمدردی نہیں تها بلکہ پورا ایک گھنٹہ یہ بات دهیان میں رکهی گئ کہ ان کی کسی بات سے کوئ شوخی یا شرارت نہ چھلکے.  پورے پروگرام میں انسانیت کو اہمیت دی گئ. ہم سبهی پاکستانی اس بات پرسبهی ہندوستانی فنکاروں اور خاص طور پر سلمان خان کے مشکور ہیں. جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ااچھے اداکار ہی نہیں بلکہ بہت اچهے انسان بھی ہیں.اس جرات اظہار پر ہم سلمان خان کو دل سے سلام پیش کرتے ہیں.
.                                          ......................       

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

سایہ خدائے زوالجلال. ممتازملک


                                


                         سایہ خدائے زوالجلال
                                                ممتازملک. پیرس





کیسے کیسےپیارے لوگ اس جہاں سے کس کس انداز میں رخصت ہو جاتے ہیں. اورہم انہیں سپرد خاک کر کے صبر کے سہارے باقی زندگی گزار لیتے ہیں. لیکن یہاں تووطن کی حفاظت کے وعدے کرتےمعصوم اده کھلے گلاب, وطن کےلئے سایہ خدائے زوالجلال کی آرزو کرتے حسین  چاند چہرے اس لیئے اپنے ہی خون میں بے دردی سے نہلا دیئے گئے کہ حکومت پاکستان غیر ملکی بهیک مانگنے کے لیئے غیر ملکی آقاوں کے تلوے چاٹ سکے. اور اس کے بدلے میں دنیا جہاں کا خنزیر اس کے نہتے عوام اور اب تو معصوم بچوں کو بهی جب چاہے قتل کر سکے. توہین رسالت اور توہین رسول کا ڈرامہ کرنے والوں کو ان مکروه قاتلوں کے منحوس تهوپڑوں پر یہ سنت توہین رسالت نہیں لگتی کیا؟ پاکستان میں کیوں ازبک اور افغان کتے لوگوں کو  کاٹتے پهر رہے ہیں؟ کیوں انہیں واقعی دن دہاڑے کتے ہی کی موت نہیں دی جاتی. کیوں انہیں پهانسیوں پر چڑهاکر ان کو ان کی خیالی جنت میں جانے کا راستہ آسان نہیں کیا جاتا. .جو ممالک ان کی حفاظت کے لئیے مرے جا رہے ہیں انہیں لولا لنگڑا کر کے انہیں ممالک کو کیو ں نہیں بهیج دیا جاتا اوران کی لے پالک این جی اوز جوان کی سلامتی کے غم میں گهلی جا رہیں ان پر کیوں بین نہیں لگایا جاتا.؟ ہمارے نااہل حکمرانوں کی صبر پا جاتے ہیں لیکن ہمارے بهانڈ حکمرانوں کویہ بات سمجھنے میں کتنی صدیاں لگیں گی , اور کتنے گهر اجاڑ کر سمجه آئے گی کہ ازبک اور افغان بڑے عہدوں یا نمایاں مقام پر کام کر ے والوں کے سوا ہر آدمی کو 24 گهنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا جائے اور ایسا نہ کرنے والوں پر عوام کو کهل کر ان کی تکہ بوٹی کرنے کی اجازت دے دی جائے. جو لوگ ان سے دین کے نام پر یا انسانیت کے نام پر کوئ لاڈیاں کرنے کے موڈ میں ہیں. انہیں بهی انہیں کے ساته انجام تک پہنچایا جائے. پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں درندوں کو اس لیئے پالا جا رہا ہے کہ وہ جہاں بهی اور جب بهی ان کی سودا بازی کرنا اور خون کی ہولی کهیلنا چاہے , بے دھڑک اپنا شوق پورا کر سکے. .اس ملک میں انسانوں کے خون کی قیمت کو پانی سے زیادہ سستا کرنے کا سہرا ہر لحاظ سے مذہبی منافرت پھیلانے والے علماء اور ملا کے سر ہے.جنہوں نے اپنے کھاتے بهرنے اور لوگوں کو اپنا بے دام غلام بنانے کے لیئے لوگو ں کو تقسیم در تقسیم کر دیا. اتنا کہ خود اپنی پرستش کااعلان ہی باقی رہ گیاہے .اس ملک کو بچانا ہے یا اس دین کو مزید لٹنے اور بدنام ہونے سےبچانا ہےتو ان تمام دین فروش علماء اور ملاءوں کے ساته وہی سلوک ہونا چاہیئے جو چنگیز خان نے ان کے ساتھ کیا. .آج ان دین فروش مفتیوں کے ہاتهوں کوئ مسلمان محفوظ نہیں. اور مسلمانوں کو جتنا خطرہ ان علماء اور ملاءوں سے ہے اور کسی سے نہیں.اسی لیئے آج ہمیں چنگیز خان بهی ہیرو لگنے لگا ہے. کیا اب اس زیادہ بهی کوئ برا وقت ہو گا کہ چوراہوں پر ہمیں ان مکروه صورت قاتلوں کو لٹکادیکهنے کے لیئے اور کتنا اور کس بات کا انتظار ہے. اب تو انہیں جھولی پهیلا کر بددعا بهی دینا ہے اور جوتا اٹها کر انہیں ان کی اوقات بهی یادکرا ناہےان حکمرانوں کو بهی خدا لمبی عمر اور ہوش و حواس دیکر ایسے ہی اپنی اولادوں کے غم دکها ئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ یوں جب ایک ایک پل اپنا کوئ پیارا جب ایسی درندگی سے گزر رہا ہوتا ہے تو اپنے رشتوں پر کیا گزرتی   ہے. جبهی ہماری قوم پاک سرزمین کو شاد باد بهی کر سکے گی اور سایہ خدائے زوالجلال کی امید بهی.
                                         ....................


                                                    

اتوار، 14 دسمبر، 2014

پنجابی نعت ۔ دساں کی حلیمہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


پنجابی  نعت 

  دساں کی حلیمہ تیری بکریاں جو چاردا
   خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہنڑیں یار دا


کدی وی سواد نال معاملے نبھاۓ نہ
 اج وی جے میرے گھر سن لو او آۓ نہ
 میں تے گناہگار ہاں ڈر گھر بار دا  
 خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........


 اک دن سامڑیں تیرے میں کھلوڑاں اے
 پلے میرے کج وی نہیں  اس دن ہوڑاں اے
  رحمتاں تے آسرا اے میرے ہر بھار دا  
  خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا 
 دساں کی حلیمہ تیری .........


 من چاہی گل کیتی من چاہی کم  وی  
 ویچ کے آخیر مینوں ملڑیں سی غم وی  
 اوناں دا خلوص ممتاز واجاں ماردا
    خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........
.......

جمعہ، 12 دسمبر، 2014

خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل / ممتازملک ۔ پیرس





خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل 
ممتازملک ۔ پیرس



 لیجیئے آخر کو حکومت کو خیال آ ہی گیا کہ خواتین کے لیئے علیحدہ سے میڈیکل کالج کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جن خواتین کو علم حاصل کرنا ہے یا جن لڑکیوں کو ان کے ماں باپ نے کسی معزز پیشے میں جانے کی اجازت دینی ہی ہے انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بن کر کسی مرد کا علاج کرتی ہے یا کسی خاتون کا ، ویسے بھی معالج تو معالج ہی ہوتا ہے اس کی جنس سے کسی کو کوئی مطلنب نہیں ہو سکتا ۔ پہلے ہی خواتین کے الگ سیٹوں نے میڈیکل کالج کے لیئے لڑکوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کر لی ۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں 90 فیصد خواتین  یا ان کے والدین یہ سوچ کر یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخلہ کرواتے ہیں کہ چلو جی کسی اچھے گھر کا لڑکا ہاتھ آ جائے گا ۔  اگر یہ بات سچ نہیں ہوتی تو کون سا ایسا احمق ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کے 8 یا 10 سال ایک پیشے کی تعلیم حاصل کرے ملک و قوم کا لاکھوں روپیہ خرچ کروائے اور اس کے بعد یہ کہہ کر ڈگری لپیٹ کر یا فریم کروا کر رکھ دے کہ نہیں جی ہمارے ہاں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی ہیں یا لڑکا نہیں مانتا یا سُسر کام نہیں کرنے دیتے یا ابو پسند نہیں کرتے تو ایسی تمام ہڈ حرام خواتین سے درخواست ہے کہ آئندہ اپنی بیٹیوں کے لیئے بھی یہ سروے کر لیا کریں کہ انہیں کن سے اجازت لیکر بچی کو کہیں داخلہ دلوانا ہے ۔کس کس کی اجازت لینا ہو گی اپنا کیرئیر شروع کرنے کے لیئے ۔ ورنہ کیا ضرورت ہے کسی لڑکے کا حق مار کر یوں میڈیکل کے پروفیشن کا مذاق اڑانے کا ۔ ہمارے خیال میں تو یہ لڑکے لڑکیوں کا کوٹہ سسٹم ہی غلط ہے ۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ لڑکیوں کی تمام ترجیحی سیٹس ختم کی جائیں ۔ بلکہ لڑکیوں کے 99 نمبرز پر لڑکوں کے 70 نمبرز کو ترجیح دی جائے کیونکہ ان لڑکوں نے کل کو فیلڈ میں آ کر ملک قوم کی خدمت کرنا ہے ۔ان لڑکیوں کی طرح گھر کے چولہے میں ڈگری نہیں جھونکنی ۔ ہر لڑکی جو میڈیکل یا انجینئیرنگ یا ایسی ہی کسی پروفیشن کو  چنتی ہے تو اس سے خصوصی فارم بھروایا جائے ۔ جس میں انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈگری لینے کے بعد لازمی فیلڈ میں پریکٹس کرینگی اور سوائے بچوں کی پیدائش یا بیماری کے کسی بھی صورت میں دو یا تین سال سے زیادہ اپنے پیشے سے چھٹی نہیں کر سکتیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرینگی تو انہیں کم از کم دس لڑکوں کو اس شعبے کی ڈگری دلوانے کے اخراجات بطور جرمانہ ادا کرنے ہوں گے ۔  اس قانون کے بعد یا تو لڑکیاں اس  شعبے میں آئیں گی نہیں اور جو آئیں گی وہ پوری ایمانداری سے اور اپنا ذہن بنا کر اس پیشے کا انتخاب کریں گی ، اور اپنے ملک کے لیئے پوری طرح سے ایک مفید شہری ثابت ہونگی ۔ اور جو لوگ سٹیٹس سمبل کے طور پر لیڈی ڈاکٹر یا وکیل کا انتخاب تو کر لیتے ہیں تاکہ معاشرے میں انکی ناک اونچی ہو جائے تو انہیں پھر یہ سوچ کر لڑکی کا انتخاب کرنا ہو گا کہ اس لڑکی کو اپنے پیشے میں کام بھی کرنا ہے ۔ ایک اور بات جو لڑکیاں ان پیشوں کا انتخاب کرتی ہیں ان میں خود بھی اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے رشتے کے وقت  لڑکوں کو یہ بات واضح کہہ سکیں کہ  مجھے شادی کے بعد اپنے پیشے کو جاری رکھنا ہے اگر وہ اس کے لیئے راضی ہے تو بات آگے بڑھائے ورنہ یقیناََ وہ کوئی اس دنیا کا آخری لڑکا ہر گز نہیں ہے ۔ خدا نے اُس شخص کو آپ کے لیئے منتخب کیا ہے۔ جو آپ کی تعلیم آپ کی سوچ اور آپ کی فیلڈ کی دل سے عزت کریگا ۔ اور جو ایسا نہ کر سکے اسے صرف ایک باندی چاہیئے ۔ اور اگر آپ کو خود باندی ہی بننے کا شوق ہے تو کوئی آپ کے لیئے کچھ نہیں کر سکتا ۔ حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ ہر سو میں سے کتنی لڑکیاں ڈگری لیتی ہیں، کتنی فیلڈ میں جاتی ہیں اور کتنی گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ کہ یہ صرف ایک فرد کی مرضی کا نہیں بلکہ قوم کے آٹھ سے دس سال اور لاکھوں روپے کی ایک فرد پر سرمایہ کاری کا معاملہ ہے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 دسمبر، 2014

تاج محل ،بحبت کا مقبرہ یا دولت کا غرور


تاج محل ،
محبت کا مقبرہ یادولت کا غرور
ممتازملک۔ پیرس



پچھلے دنوں اپنی بہت ہی پیاری دوست معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا کی بھارت یاترا کی دلچسپ کہانی ہڑھتے ہوئے ان کی تصاویر کئی یادگار مقامات پر دیکھتے ہوئے بہت سے جذبوں نے سر اٹھایا ، خاص طور پر تاج محل کو دیکھ کر اسکے تعمیر کروانے والے شہزادہ خرم المعروف شہنشاہ ہند شاہجہاں اور انکی بیگم ارجمند بانو المعروف ملکہ ہندوستان ممتاز محل کے عشق کی داستان کے بارے میں  ایک ایک پڑھا ہوا لفظ میرے ذہن کے گوشوں سے چیختا چنگھاڑتا ہوا مجھے جھنجھوڑتا ہوا میرے دماغ کی فصیلیں توڑتا ہوا محسوس ہوا ۔ یہ کیسی محبت تھی جس میں ایک شہزادہ اپنی سوتیلی ماں جو کہ ملکہ وقت نور جہاں جیسی پاورفل عورت ہو  سے لڑ کر اسی کے بھائی کی بیٹی سے محبت میں مبتلا ہوتا ہے اس سے ایک بڑے مقابلے کے بعد بیاہ رچاتا ہے ۔ پھر اسے حاصل کرنے کے بعد اسے ہر سال ایک بچے کی پیدائش کی ذندگی اور موت کی اذیت سے گزارتا ہے ۔ اس کے ساتھ کا شادی کے بعد کا عرصہ اس کی بیوی نے اس کی اولاد پیدا کرتے کرتے موت کو گلے لگا لیا ۔  کہاں گئی وہ محبت ۔ جب اسے اولاد کا تحفہ دینے کے سوا شاید اسے اپنی اس محبوب بیوی سے بیٹھ کرکھل کر بات کرنا بھی نصیب نہیں ہوا ہو گا جب کہ  وہ اس کی اکلوتی بیوی بھی نہیں تھی پھر بھی ممتاز محل مسلسل چودہ سال تک بچوں کی پیدائش کے اذیت ناک مرحلے سے دوچار رہی اور بلآخر چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران ہی اس دنیا سے چل بسی ۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اس معصوم عورت کو کبھی ایک نارمل انسان کی طرح صرف ایک وجود کی طرح جینے کا حق بھی نہ دیا اور اسکی موت کے بعد کوئی ایسا فلاحی کام جس میں کوئی اور ایسی تکلیف سے نہ گزرے ،کرنے کی بجائے آج کا اربوں روپیہ لگا کر ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروا دیا۔ دوسرے لفظوں میں بتا دیا کہ محبت کا آخیر یہ مقبرہ ہی ہوا کرتا ہے اور مجبت کرنے والوں کی شادی بھی ہو جائے تب بھی اسے چین ایک قبر میں ہی آتا ہے ۔ یہ محبت کی یادگار ہے یا رہتی دنیا تک ایک عورت کے وجود کی نفی ہے یا ایک بادشاہ کی جانب سے دنیا کے دل میں  اپنے اثاثوں کی دھاک بٹھانے کا ایک طریقہ ہے ۔ کیا ہےیہ ؟ ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ                                                             
                       اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
                       ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
محبت میں کسی کو پھانس چھبونا بھی خود پر تلوار چلنے جیسا لگتا ہے ۔ انسان ایک کی بات دوسرے سے کہے بنا سمجھ جاتا ہے ۔ایک کی غیر موجودگی میں اسکے میلوں دور ہوتے ہوئے بھی اسکے ساتھ کچھ اچھا یا برا ہو جانے کو محسوس کر لیتا ہے ، لیکن یہ کیسا بادشاہ محبت تھا جس نے اپنی بیوی کو کبھی زچگی کی تڑپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہ اس کی محبت تھی یا اس عورت سے کوئی تاریخی بدلہ ۔ کہ دیکھا کیسے ایک مرد تاحیات ایک عورت کو زندگی اور موت کے امتحان میں مبتلا کرتا ہے اور بعد میں ایک قاتل  محبت کہلانے کے بجائے باشاہ محبت بھی کہلاتا ہے ۔ اگر یہ محبت ہے تواللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ ہم اس محبت سے محفوظ ہی ہیں کہ جس کا انجام کسی مقبرے کی صورت میں دنیا کے کلیجے پر کھڑا نظر آئے ۔ اور جسے اس سنگی مقبرے میں جدائی کی تڑپ اور زچگی کے خوفناک عمر قید بخشی گئی ہو اسے مظلوم بھی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے بھی ایک قاتل بادشاہ کی خوش نصیب بیگم قرار دیا جائے ۔ اُففففففففف کیسی بھیانک حقیقت ہے ۔ میرا زہن اس سے آگے کچھ بھی سوچنے کی ہمت کرنے کو تیار نہیں ۔ ارجمند بانو عرف ممتاز محل ایک شہید تھی ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی بیچارگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اللہ پاک ان کی روح کو سکون عطا فرمائے ۔ آمین 

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

خدا اور مجازی خدا / کالم


                                

        خدا اور مجازی خدا
        تحریر: ممتاز ملک. پیرس


عورت دنیا کی وہ مخلوق ہے جس میں جذباتی پن باقی تمام مخلوقات سے کہیں ذیادہ پایا جاتا جاتا ہے .مردوں کی دنیا نے عورت کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے خوب خوب استعمال کیا. جب وه جوان ہوتا ہے تو کسی اور کی بیٹی کو محبت کےدهوکے میں اٹھارہ بیس سال تک پالنے اور پڑھانے لکھانے دنیا میں جینے کے قابل بنانے والے اپنوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ہر بات پر بغاوت کے لئیے اکساتا ہے. ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال اورلیلی مجنوں کو اس کی زندگی کاآئیڈیل بنا دینا چاہتا ہے. اور اگر وہ اس کےدکهائے رستے پر آنکهیں بند کر کے چلنے پر راضی نہ ہو جائے تو کبهی اسے بیوفائی کا طعنہ دیگا تو کبهی اسے خود غرض کہے گا. ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ہر رشتہ ہر تعلق توڑنے کو تیار ہو جاتی ہے اس کے ساته اپنا گهر بار چھوڑ کر نیا جہاں آباد کرنے کو گهر کی دہلیز بهی لانگ جاتی ہے. یہ وہ قدم ہوتا ہے جو کسی بهی عورت کے لیئے عزت اور وقار کیجانب لوٹنے والے سارے دروازے بند کر دیتا ہے.
پهر شروع ہوتا ہے کہانی کا دوسرا حصہ, اب اس لڑکے یا آدمی کی مرضی کہ کبهی تو اسے اپنے مصرف میں لاکر کسی سڑک پر کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے, چاہے تو کسی بازار میں بٹھا کر چار پیسے کهرے کر لے, یا پهر کوئی رتی بھر بهی کبهی لگاؤ رہا تها تو اس کے صدقے اس سے کسی مسجد یا کچہری میں نکاح کر لے گا. لڑکی چار دن کے عشق کے بخار کے بعد اپنے بیوی والے حقوق چاہتی ہے. تو موصوف کی جب اور جتنی مرضی کوئی حق دے یا ہش کہہ کر اسے ایک طرف دھکیل دے. ہر مرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیوی شادی سے پہلے ایک بڑے اور اعلی خاندان سے تعلق رکهتی ہو لیکن شادی کے بعد اسے بلکل لاوارث ہونا چاہیئے. تاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس لڑکی کی تواضع کر سکے. اس لیئے گهر سے بھاگی ہوئی لڑکی اسے ذیادہ مناسب لگتی ہے. کیونکہ جب بھی یہ لڑکی کوئی گلہ کرے تو پہلا جواب جو اس کی زبان کی نوک پر دھرا ہو گا وہ یہ ہی ہو گا کہ میں کون سا تیری ڈولی اٹھانے آیا تھا یا میں کونسا بارات لیکر تیرے دروازے پر کھڑا تھا کہ آنکهیں دکھاتی ہے. میری مرضی سے رہنا ہے تو رہ ورنہ رستہ لے, کیونکہ وہ اچهی طرح جانتا ہے کہ رستے تو سارے وہ اس کے عشق کےاندهیرے میں گنوا آئی ہے.
دوسری جانب جب خود بیٹی کا باپ بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہوا بهی اس سے پوچھ کر اس کی بیٹی کو چھوئے. اس کے لئے یہ ہی ہیر رانجھا, سسی پنوں آوارہ لوگ ہو جاتے ہیں. عزت سے گهر پر رشتہ لانےوالوں میں بھی ہزاروں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں. بیٹی کا صرف  اپنی مرضی کا اظہار بهی بدبختی قرار دیا جاتا ہے. سمجه میں نہیں آتا کہ جو حق اس نے کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر نہیں دیا اس کا تقاضا وہ کسی اور سے اپنی بیٹی کے لئے کس منہ سے کرتا ہے.
 اس لئے کہ اسے اپنا مجازی خدا ہونا تو یاد رہتا ہے لیکن کاش اسے کسی اور ذات کا خدا ہونا بهی یاد رہے .                     ............

منگل، 2 دسمبر، 2014

سرجی پونتواس میں عید ڈنر



سرجی پونتواس میں عید ڈنر

 سرجی پونتواس میں  19 اکتوبر 2013 کو ایک عید ملن کا اہتمام کیا گیا جس میں ایک پاکستانی فیمیلیز کے علاوہ بڑی تعداد میں  انڈین ، فرنچ ، عرب  اور افریقی خواتین و حضرات نے شرکت کی ۔ یہ پروگرام ایک جمنازیم ہال میں تھا جس میں سارا ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور منتظمین کو فالتو میز بھی لگانے پڑے ۔ پروگرام کے مہمان خصوصی میں پاکستانی سفیر جناب غالب اقبال صاحب اور  سرجی پونتواس کے میئر اپنی ٹیم کیساتھ شامل تھے ۔ جنہوں نے ایک ہی مقام پر پاکستانیوں کے اتنے بھرپور اجتماع کو بہت سراہا ۔ اور اپنے اندر ڈسپلن پیدا کرنے اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے پاکستانی کمیونٹی کو عید کی بھرپور مبارکباد بھی پیش کی ۔ پروگرام میں بچوں کے لیئے کافی اچھے انعمات  کی لاٹری بھی رکھی گئی  ۔ اور انعمات تقسیم بھی کیئے گئے ۔ بچوں کے لیئے کئی مقابلے بھی اناؤنس کیئے گئے ۔ پروگرام کے آخر میں ایک پرتکلف عشائیہ دیا گیا ۔ بلاشبہ کھانا بہت ہی لذیذ تھا اور بہت ہی وافر بھی ۔ جس میں مرغ پلاؤ ، چکن بروسٹ ، حلیم ، مٹن قورمہ ، نان اور رائیتہ اور میٹھے میں حلوہ تھا جبکہ بعد میں کلفیاں بھی ہر فرد کو تقسیم کی گئیں  ۔ انتظامیہ میں شامل خواتین و حضرات نے لوگوں کی اچھی میزبانی کی ۔  یہ پروگرام ایک یادگار پروگرام رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تہمتیں لگاتے ہو


تہمتیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)





 تہمتیں لگاتے ہو تہمتیں لگانے دو
 شرم کسطرح آئے ہو سکے تو آنے دو

 کتنے سال بھٹکے تھےجوشقیں بنانے کو
 عزتیں نہ دے پائیں وہ  شقیں  مٹانے  دو

 روشنی ضروری ہے یہ خبر تو ہےہمکو 
 جو کبھی نہ بجھ  پائیں وہ  دیئے جلانے دو 

بھول بیٹھے ہو اپنی جو روایتیں تم سب
گر سکھانے آئے ہیں ہمکو وہ سکھانے دو


             ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی ۔ سراب دنیا




بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی 



بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی 
تو بن کر میں مجاور
کسی درگاہ پر جھاڑو لگاتی
یا بن کے میں کوئی مجذوب ہستی
ہواؤں میں کہیں رستے بناتی
یہ دنیا پھر بھی میرے گرد
 اک مجمہ لگاتی
کبھی ہنستی 
کبھی ٹھوکر لگاتی
میں اپنی رال سے لکھتی فسانے
بدلتے یہ سبھی منظر 
اگر پُتلی میں آنکھوں کی گھماتی
تُو پیچھے بھاگ دنیا کے
یہ تجھ سے دور جائے
تو ٹھوکر دے اسے جس دن
تیرے پیچھے یہ آئے
اگر تُو پاس دنیا کے تو
رب سے دور ہو گا
اگر ہو پاس رب کے تو 
یہ قدموں میں سمائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/