ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

سایہ خدائے زوالجلال. ممتازملک


                                


                         سایہ خدائے زوالجلال
                                                ممتازملک. پیرس





کیسے کیسےپیارے لوگ اس جہاں سے کس کس انداز میں رخصت ہو جاتے ہیں. اورہم انہیں سپرد خاک کر کے صبر کے سہارے باقی زندگی گزار لیتے ہیں. لیکن یہاں تووطن کی حفاظت کے وعدے کرتےمعصوم اده کھلے گلاب, وطن کےلئے سایہ خدائے زوالجلال کی آرزو کرتے حسین  چاند چہرے اس لیئے اپنے ہی خون میں بے دردی سے نہلا دیئے گئے کہ حکومت پاکستان غیر ملکی بهیک مانگنے کے لیئے غیر ملکی آقاوں کے تلوے چاٹ سکے. اور اس کے بدلے میں دنیا جہاں کا خنزیر اس کے نہتے عوام اور اب تو معصوم بچوں کو بهی جب چاہے قتل کر سکے. توہین رسالت اور توہین رسول کا ڈرامہ کرنے والوں کو ان مکروه قاتلوں کے منحوس تهوپڑوں پر یہ سنت توہین رسالت نہیں لگتی کیا؟ پاکستان میں کیوں ازبک اور افغان کتے لوگوں کو  کاٹتے پهر رہے ہیں؟ کیوں انہیں واقعی دن دہاڑے کتے ہی کی موت نہیں دی جاتی. کیوں انہیں پهانسیوں پر چڑهاکر ان کو ان کی خیالی جنت میں جانے کا راستہ آسان نہیں کیا جاتا. .جو ممالک ان کی حفاظت کے لئیے مرے جا رہے ہیں انہیں لولا لنگڑا کر کے انہیں ممالک کو کیو ں نہیں بهیج دیا جاتا اوران کی لے پالک این جی اوز جوان کی سلامتی کے غم میں گهلی جا رہیں ان پر کیوں بین نہیں لگایا جاتا.؟ ہمارے نااہل حکمرانوں کی صبر پا جاتے ہیں لیکن ہمارے بهانڈ حکمرانوں کویہ بات سمجھنے میں کتنی صدیاں لگیں گی , اور کتنے گهر اجاڑ کر سمجه آئے گی کہ ازبک اور افغان بڑے عہدوں یا نمایاں مقام پر کام کر ے والوں کے سوا ہر آدمی کو 24 گهنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا جائے اور ایسا نہ کرنے والوں پر عوام کو کهل کر ان کی تکہ بوٹی کرنے کی اجازت دے دی جائے. جو لوگ ان سے دین کے نام پر یا انسانیت کے نام پر کوئ لاڈیاں کرنے کے موڈ میں ہیں. انہیں بهی انہیں کے ساته انجام تک پہنچایا جائے. پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں درندوں کو اس لیئے پالا جا رہا ہے کہ وہ جہاں بهی اور جب بهی ان کی سودا بازی کرنا اور خون کی ہولی کهیلنا چاہے , بے دھڑک اپنا شوق پورا کر سکے. .اس ملک میں انسانوں کے خون کی قیمت کو پانی سے زیادہ سستا کرنے کا سہرا ہر لحاظ سے مذہبی منافرت پھیلانے والے علماء اور ملا کے سر ہے.جنہوں نے اپنے کھاتے بهرنے اور لوگوں کو اپنا بے دام غلام بنانے کے لیئے لوگو ں کو تقسیم در تقسیم کر دیا. اتنا کہ خود اپنی پرستش کااعلان ہی باقی رہ گیاہے .اس ملک کو بچانا ہے یا اس دین کو مزید لٹنے اور بدنام ہونے سےبچانا ہےتو ان تمام دین فروش علماء اور ملاءوں کے ساته وہی سلوک ہونا چاہیئے جو چنگیز خان نے ان کے ساتھ کیا. .آج ان دین فروش مفتیوں کے ہاتهوں کوئ مسلمان محفوظ نہیں. اور مسلمانوں کو جتنا خطرہ ان علماء اور ملاءوں سے ہے اور کسی سے نہیں.اسی لیئے آج ہمیں چنگیز خان بهی ہیرو لگنے لگا ہے. کیا اب اس زیادہ بهی کوئ برا وقت ہو گا کہ چوراہوں پر ہمیں ان مکروه صورت قاتلوں کو لٹکادیکهنے کے لیئے اور کتنا اور کس بات کا انتظار ہے. اب تو انہیں جھولی پهیلا کر بددعا بهی دینا ہے اور جوتا اٹها کر انہیں ان کی اوقات بهی یادکرا ناہےان حکمرانوں کو بهی خدا لمبی عمر اور ہوش و حواس دیکر ایسے ہی اپنی اولادوں کے غم دکها ئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ یوں جب ایک ایک پل اپنا کوئ پیارا جب ایسی درندگی سے گزر رہا ہوتا ہے تو اپنے رشتوں پر کیا گزرتی   ہے. جبهی ہماری قوم پاک سرزمین کو شاد باد بهی کر سکے گی اور سایہ خدائے زوالجلال کی امید بهی.
                                         ....................


                                                    

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/