ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 30 اکتوبر، 2014

● (6) واقعہ کربلا ، روشی بھی رہنمائ بھی /کالم۔ سچ تو یہ ہے


                 

       واقعہ کربلا ، 
 (6) روشنی بھی رہنمائی بھی 
        تحریر:ممتازملک ۔ پیرس





واقعہ کربلا کو جس بھی زاویئے سے دیکھیں اس میں انسانی بقاء اور حرمت کا، انسانی حقوق کا ایک نیا ہی پہلو آپ کو راستہ دکھاتے ہوئے نظر آتا ہے۔ کہیں جانثاری کی روایت میں اپنا سر کٹانے کا جذبہ عشق ہے، تو کہیں کہہ مُکرنیوں اور بزدلی کے کارہائے نمایاں۔ کہیں ہمیں سب انجام جانتے بوجھتے ہوئے اپنے پیاروں کو انہیں کی رضامندی سے اپنے ساتھ مقتل گاہ میں عشق حقیقی کے سامنے سربسجود ہوتے امام حسین علیہ سلام کا سر مبارک کٹتے ہوئے دکھائی دیتا ہے تو کہیں  اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا اپنے کردار اور گفتار سے اپنے مشرکین آباءواجداد کی روایات کو منافقت کا چولا پہنے عملی صورت میں یذید لعین کی مکروہ شکل میں کھڑا دکھائی دیتا یے ۔ عورت کے روپ میں یہ واقعہ کہیں تو ہمیں زوجہء رسول حضرت اُم سلمی  رضی اللہ تعالی عنہ کو امانت داری نبھاتے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سونپی گئی خاک کربلا کے لہو ہونے کی تصدیق کرتے دکھاتا ہے تو کہیں بی بی زینب سلام اللہ علیہ بنکر مردانہ وار جرات اظہار اور جراءت کردار کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے نظر آتا ہے ۔          
آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں ہمیں اس بات کا سختی سے اپنے اندر محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں ایک مسلم تصور کا تحفظ اور مثال پیش کرتے ہیں یا ہم اس ہندو ریاست کا نظریہ دہرانے کی ایک انجانی کوشش کر جاتے ہیں۔ جسے آج  ایک مسلم سٹیٹ پاکستان میں سرسٹھ سال سے رہتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر سے نہیں نکال پائے ۔ گویا ہندو نظریات آج بھی ہماری سوچوں کا احاطہ کیئے ہوئے ہیں ۔ چاہے شادی بیاہ ہو ، بچوں کی کوئی خوشی ہو، لین دین ہو یا وعدہ وعید ہر معاملے میں ہمیں اپنے لیئے دین اسلام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ حضرت امام  حسین علیہ سلام ہوں یا شیر خدا علی علیہ سلام سبھی عورت کو گھر کے رشتوں سے شروع  کرتے ہوئے انسانی حقوق کی معراج تک لے جاتے ہیں اور یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ کائنات کی سب سے زیادہ پارسا اور مستند ہستیاں ہیں کہ ان کے کسی ایک قول کو بھی ہم نے اپنی زندگی کا محور بنا لیا تو ہم کہیں ناکام نہیں ہو سکتے چاہے وہ دنیا ہو یا آخرت۔       آج بھی کوئی خاتون کسی میدان میں جرات اظہار یا جرات کردار کا مظاہرہ کرتی ہے تو اسے عجیب و غریب طعنے سننا پڑتے ہیں کہ یہ تو مردوں کے کام ہیں یہ تو مردوں کی باتیں ہیں۔ سیاست میں عورتوں کا کیا کام، کاروباری معاملات میں عورتوں کا کیا کام، رشتوں کے معاملات میں عورتوں کو بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ،(چاہے وہ اپنی شادی ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو ،) ملکی فیصلوں میں عورتوں کو بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ حالانکہ ہمارا دین ہی وہ مکمل دین ہے جس نے عورت کو زندہ رہنے کے حق سے آگے بھی بہت بلکہ بے شمار حقوق عطا کیئے ہیں ۔ صرف اس ڈر سے کہ یہ عورت کہیں ہم مردوں سے آگے نہ نکل جائے، ہم سے ذیادہ عزت نہ حاصل کر لے اور ہم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو جائیں ایسی چھوٹی باتیں صرف کوئی کمینہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیاری بیٹی کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے نایاب ہیرے کے رشتے کے لیئے پوچھتے ملتے ہیں کہ فاطمہ بیٹی کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟       اور تو اور بی بی زینب  کے پیارے بابا شیر خدا انہیں تحفظ دیتے اور حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات منواتے نظر آتے ہیں کہ بی بی ذینب کو ان کی زندگی کے مقاصد سے کسی طور نہیں روکا جائیگا اور نہ ہی انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے اور ان کے کاموں میں شامل ہونے سے روکا جائیگا ۔ اسی شرط کو ماننے کے بعد ہی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت عبداللہ بن جعفر بن طیار رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں  دی ۔ آج اگر کوئی خاتون کسی مسئلے پر جرات اظہار دکھائے تو فورا اسے دس بہتان لگا کر کھڈے لائن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ سوچ کہیں کسی بھی زاویہ سے مسلم سوچ نہیں ہے بلکہ جو بھائی ایسا سوچتے ہیں وہ دین اسلام اور خاص طور پر اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار اور جرات اظہار کو ضرور پڑھیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے موڑ دیئے ۔ ماہ محرم کے ہی حوالے سے حضرت زینب سلام اللہ علیہ کے کردار کو کوئی کافر بھی رد نہیں کر سکتا ۔ امام حسین علیہ سلام نے اپنے کردار ، گفتار اور قربانی کا جو علم حق کی راہ میں بلند کیا ۔ اسی علم کو اٹھا کر بی بی ذینب سلام اللہ علیہ شام کے بازاروں سے بھی گزریں اور یزیدی دربار میں ظالم حکمران کے سامنے کلمئہ حق بلند کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں ۔ قید کی اذیتیں بھی سہتی ہیں  اور قید سے واپسی پر خاندان رسول کے شہداء کی تدفین کرتے بھی نظر آتی ہیں ۔ مدینہ تک اپنے غم و اندوہ کو کلیجے میں دبائے قافلے کی سالاری بھی کرتی ہیں ۔ 



 کہیں معصومین کو حوصلہ دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں تو کہیں بیماروں کو سنبھالتے ہوئے نظر آتی ہیں کہیں یذید مردُود کے منہ پر کھڑے ہو کر اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ جس میں یہ سچائی کوٹ کوٹ کر بھری نظر آتی ہے کہ بدر کے میدان میں  حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ  کا کلیجہ چبانے والی ہندہ جیسی عورت کا پوتا یزید جیسا خبیث نہیں ہو گا تو اور کیسا ہوگا ۔ یہ ماؤں اور دادیوں کے خون کی تاثیر ہی تو ہوتی ہے جو کسی کو امام اعظم بنا دیتی ہے تو کسی کو یزید مردُود ۔ کسی کو بی بی زینب جیسا مرتبہ عطا کر دیتی ہے تو کسی کو ہندہ جیسی کلیجے چبانے والی  عورت کے نام کی بدنامی ۔  جس میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغض و عناد صرف ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسکا اثر زہر سے بھی ذیادہ خوفناک ہوتا ہے اور نسلوں تک آپ کے دودہ  اور خون میں اسکا اثر گردش کرتا ہے ۔ زہر تو صرف ایک آدمی کی جان لیتا ہے ۔ جبکہ بغض وعناد کا یہ مرض ہر رشتے اور ہر احترام کو جلا کر خاک کر دیتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت اور مرد کو جانچنے سے پہلے اس کے کردار کو اور نظریات کو سنت حسینی اور سنت  ذینب رض کے پیمانے پر جانچیں ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں واقعہ کربلا سے رہنمائی حاصل کریں ۔ کہ یہ واقعہ اپنے اندر عجیب معجزاتی حیثیت اور طاقت رکھتا ہے اسے جب جہاں اور جس معاملے میں پڑھیں گے ، یاد کریں گے یا جانچیں گے تو ہر بار روشی کا اور رہنمائی کا ایک نیا در وا ہو گا ۔ 
                    ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
                   ●●●

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی / ممتازملک ۔ پیرس





کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
ممتازملک ۔ پیرس



ہر تنظیم اور جماعت اپنے کام,اوراس سے وابستہ اغراض و مقاصد سے ہی پہچانی جاتی ہے. پیرس میں بہت عرصے سے صحافت بهی سیاست کی طرح ایک کیچڑبنتی جا رہی تهی. جس میں روز کے فوٹو سیشن اور ریسٹورنٹ یاتراپیسہ بنانے کا ایک زریعہ بن چکا ہے . گویا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ  صحافت جو کبھی تحریری ہوا کرتی تھی ۔ وہ یہاں آتے آتے تصویری صحافت کا روپ دھار چکی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں نے وہ کام کرنا شروع کر دیا کہ جو ان کا کام کبھی تھا ہی نہیں ۔ کیونکہ جو بات بھی فطرت کے خلاف کی جائے گی اس میں صرف اور صرف گند ہی مچے گا ۔ جس کا ثبوت ہم دن رات اپنے ارد گرد اور میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ۔ جب تک میڈیا اور خاص طور پر پرنٹ میڈیا کا کام ستھرے اوراہل لوگوں میں رہا۔ بہت مستند بھی رہا اور باوقار بھی ۔ لیکن جیسے ہی یہ کام بازاری لوگوں کے ہاتھ لگا اس کا ہر ہر انداز بازاری ہوتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ حلقوں میں شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جہاں ملکی ,معاشرتی اور اخلاقی مسائل پرسنجیدگی سے بحث کی جاسکے اور ان کے حل تجویز کیئے جا سکیں ۔ اس کے لیئے ضروری تھا تصویری صحافت کا رخ پھر سے تحریری صحافت کی جانب موڑا جائے اوراسے اسی مقام پر پہنچایا جائے جس کا کہ صحافت تقاضا کرتی ہے ۔ .ایسے ماحول میں کہ جہاں مردوں کو بهی اپنی حقیقی رائے دینے کیلئے پچاس لوگوں سے لابنگ کرنی پڑتی ہے. وہاں خواتین کے لئے تو ایسا سوچنا بهی محال ہے کہ وہ آزادانہ اپنی بات کو قارئینِ تک پہنچا سکیں. جہاں خواتین اپنی عزت بھی بچائیں اور ایک نسل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیئے تحریری شکل میں اپنا کام قارئین تک بھی پہنچائیں اور اسے اپنے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی اولادوں کے لیئے فخریہ اثاثے کے طور پر چھوڑ سکیں ۔ کہ یہ ہی اصل صدقئہ جاریہ بھی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں آج سے قریباً دو سال قبل پیرس کی معروف رائٹر اور کالم نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے ایک بہت بڑا اور اہم قدم اٹھایا۔ خواتین کے لئیے ایک اکیڈمی کا پروگرام پیش کر کے.اس وقت تک یہ ایک خیال کی سی حیثیت رکهتی تهی۔ لیکن ارادے کی پختگی اور سوچ کی مضبوطی نے اس خاتون سے وہ کام کروا لیا جس کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ                                                                                   
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
بڑے بڑے ڈراونے جہازوں کو اپنی تمام تر دہشتوں کے باوجود جو منزل اور مقام نہ مل سکا وہ مقام اس تنظیم اور اکیڈمی نے اپنے ملک ,معاشرے اور اخلاقیات کی درستگی مین قابل فخر بہنوں کی معیّت میں بہت جلد حاصل کر لیا. لیکن یہ تو ابهی شروعات ہے.ابهی ہمیں بہت آگے جانا ہے.                                                  
 چھ سال سے آج زیادہ ہونے کو ہے جب مجهے ذاتی طور پر شاہ بانو میر صاحبہ کو جاننے کآ موقع ملا. یہ کوئ روایتی دوسہیلیوں کآ تعلق نہیں تها .یہ دو سوچوں، دو زہنوں اور دوشخصیات کا تعلق تها اس میں کهٹےمیٹهے پل بهی آئے.  لیکن یہ کهٹاس بهی کوئ ذاتی نوعیت کی کبھی نہیں رہی ۔ یہ دو سوچنے اور نقطہ نظر  رکھنے والوں کے اصولی نکات پر دلیلی کهٹاس ہوا کرتی تهی جب ہم اس پر بحث کرتے اور جس کی دلیل مضبوط ہوتی ہم اسے بلا چون وچرا قبول کر لیا کرتے تهے ۔ یہ اس لیئے بهی تها کہ ہمارے کام میں کوئ پیسے کا لالچ یا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں تھا. لہذا خود غرضی کا بهی کوئ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تها .کئی سمجهداروں نے ہمیں ایک دوسرے سے توڑنے کی ناکام کوششیں کیں لیکن جن بنیادوں کو لالچ کی ریت کے بجائے عزت،اعتماد ,اور یقین کے سیمنٹ سے بهرا جائے اور اس پر مقاصد کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو تب کہیں جا کر آپ کو ایک کامیابی کا محل نصیب ہوتا ہے.                                                     
یہ اسی خاتون کا عزم تها کہ جس نے مجهے اس کے کردار کی مضبوطی پر کبھی شک کرنے کی اجازت نہیں دی. جس نے بهری جوانی کو ہر ایک کے لیئے ماں جیسی سوچ اور رویے میں ڈھال کر گزار دیا ہو اس پر اب جب اپنے بچے اپنے قد برابر آن کھڑے ہوں،  اس کی جوانی کے کردار کو نظرانداز کرنا صریحاً ناانصافی ہو گی. اور کم از کم میں تو یہ ناانصافی کرنے کا نہیں سوچ سکتی. یہ مسئلہ  میرا یا شاہ بانو میر صاحبہ جیسی خواتین کا عموماََ ہی ریا ہے کہ ہم بہت سے بھائیوں کی اکلکوتی بہنوں کے لیئے مرد کوئی دنیا کی انوکھی مخلوق نہیں رہتے وہ ہمارے لیئےیا تو ابو جی اور ڈیڈی جان ہوتے ہیں یا پھر ہمارے پیارے پیارے بھائی جن سے ہم لڑتے بھی ہیں، بحث بھی کرتے ہیں ، باتیں مانتے بھی ہیں اور منواتے بھی ہیں ۔ اور کبھی کبھی ان سے ناراض ہو کر انہیں اپنی اور اپنے مقصد کی اہمیت کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہم سے بات کرتا ہے تو ہمارے لیئے وہ ہمارے بچوں جیسا ہی ہوتا ہے جسے کبھی ہم پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر سمجھانے اور کسی خرابی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے میں وہ پیارے بھائی جنہیں ایک عورت دانتوں میں دوپٹہ دبائے  یا پھر زلفیں بکھرائے بیوٹی پارلر کا اشتہار بنے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے وہ اس ، بااعتماد ،موضوعات ہر بےدھڑک اور دلائل سے بات کرتی ہوئی عورت ایک دم سے ذہنی طور پر قبول نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ان کی نظر میں دلیل دینا ، بحث کرنا ، کوئی مقصد اپنی زندگی میں رکھنا یہ صرف اور صرف ایک مرد کا حق ہے ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ذینب سلام اللہ علیہ کی زندگی اس ہندووانہ تصور  کی واضح نفی کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ہی سوچوں کی ہم اہنگی اور اور ایک دوسرے کا احترام ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ اور یہ ساتھ انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہیگا ۔ چاہے اس میں کتنے بھی اختلاف آئیں ۔ یہ تعلق دو سچی روحوں کے احترام کا تعلق ہے ۔                                                
  میں نے ہر ناراضگی کے بعد دوبارہ ملنےپر شاہ بانو میر صاحبہ کے لیا اپنے جذبات کو مزید نکھرا ہوا اور پہلے سے کہیں زیادہ محبت انگیز پایا ہے .اس اکیڈمی کے تحت ہر موقع اور حالات کے مطابق رپورٹس اور کالمز ہمارے قارئین تک پہنچتے رہے ہیں ۔ جس میں سیاسی. سماجی. معاشرتی اخلاقی اور دینی مسائل بهی شامل رہے ہیں. ہماری کوئی بهی تحریر کبھی بهی کسی ایک فرد کو نشانہ بنا کر تحریر نہیں کی گئی. جو ایسا سمجهتا ہے تو وہ ناسمجھ ہے.                             اس ٹیم کی ہر بہن ذہنی طور پر انتہائی مضبوط ، بااعتماد، اور باشعور ہے ۔ محترمہ وقارالنساء صاحبہ ، محترمہ نگہت سہیل صاحبہ ،محترمہ انیلہ احمد صاحبہ ، محترمہ ممتاز ملک صاحبہ اور خود بانی اکیڈمی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ اس اکیڈمی کے لیئے اللہ پاک کی جانب سے کسی تحفے سے کم نہیں ہیں ۔                  ہماری تحریر کا مقصد ہمیشہ ایک اجتماعی اصلاح رہی ہے.  اور اس اصلاح کے عمل میں اور اسکے نشانے پر خود ہماری اپنی زات بهی ہوتی ہے کیونکہ ہم خود کو فرشتہ نہیں سمجھتے ہم میں  بهی بےشمار خامیاں ہوں گی. فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان خامیوں کو ٹهیک کرنا چاہتے ہیں ۔کئی دوسرے ساتھیوں کی طرح اپنی خامیوں پر اکڑتے نہیں ۔ کیونکہ اکڑنا ، غرور کرنا ، تکبر کرنا ، بڑائی کرنا یہ سب باتیں صرف اور صرف اللہ جل جلالہ کو ہی زیب دیتی ہیں۔ ہم انسانوں کا اس سے کیا لینا دینا ۔ یہ باتیں اللہ پاک میں تو خوبیاں ہیں لیکن کسی انسان میں ان کا شائبہ بھی آ جائے تو اس کا بدترین عیب بن جاتی ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں ان عیوب سے اپنی امان میں رکھے ۔  آمین 
                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                  

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

● (7) زبان اور بیان / کالم۔ سچ تو یہ ہے





                                  
(7)  زبان اور بیان 
     تحریر: ممتازملک۔پیرس  





  جب انسان کے پاس سامنے والے کی عمر , مقام, مرتبے, موقع اور جنس کے حساب سے کہنے کو مناسب الفاظ نہ ہوں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر وہ بولتے ہوئے خود کو اچھے لگتے ہیں تو نہ بولنے پر سب کو بہہہہہہہہہت اچھے لگتے ہیں.  یہ ہمارا ذاتی خیال ہے اور آپ کو اس سے اختلاف کا پوووورا حق حاصل ہے. ویسے بھی کہتے ہیں کہ بیشک زبان میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن یہ بڑوں بڑوں کی ہڈیاں تڑوا دیتی ہے. کہنے کو زبان منہ میں یہ چهوٹا سا گوشت کا لوتهڑا ہے لیکن اپنی زرا سی لغزش پر حضرت انسان کوجنت اور جہنم کا چکر بهی لگوا سکتی ہے. عزت کے مرتبے بهی دلواتی ہے اور پھانسی کے پھندے میں بھی فٹ کرواتی ہے. کتنی ہی اچھی صورت ہو اور کتنا ہی مہنگا سوٹ کسی کے بدن پر سجا دیا جائےلیکن اس کی انسانی حیثیت اور قیمت اس کا منہ کھلتے ہی سامنے آ جائے گی ۔ اور کئی بار پھٹے پرانے ملبوس میں موجود کوئی بدصورت انسان جسے شاید کوئی دیکھ کر پاس بٹھانے پر بھی تیار نہ ہو، لیکن جب وہ بات کرنا شروع کرتا ہے تو انسان اس کے الفاظ و انداز کی ادائیگی کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس کا کرداردیکھتے ہی انسان کی نظریں اور سر عقیدت سے اس کے سامنے جُھکتا چلا جاتا ہے ۔ یہ ہی زبان اسے عظمت کی بلندیوں تک لیجاتی ہے، لیکن ہاں اس زبان کی تاثیر بھی بے شک اس کے کردار میں چُھپی ہوئی ہے ۔ بے کردار آدمی کی زبان بھی اس کی طرح بے اثر ہو جاتی ہے ۔ اس کی مثال اس صدی کے علماء کو ہی دیکھ لیں ۔ کتنا کلیجہ باہر نکال نکال کر چِلا چِلا کر لوگوں کو آیات اور احادیث سنا رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کیوں کہ انکا اپنا کردار صاف نہیں ہوتا تو بدلے میں انکی زبان اور الفاظ سے بھی تاثیر اللہ پاک کی جانب سے چھین لی جاتی ہے۔ ویسے تو دل کے بارے میں بھی یہی فرمایا جاتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ہے مگر کیا کریں کہ کمبخت دل بهی انسان کو پلٹیاں دینے سے باز نہیں آتا . نظر کو ساتھ ملاتا ہے اور دوسروں کے ہر جذبے ، ہر خواہش ، ہرنوالے پر نظر رکھتا ہے. اور خود لوگوں کے شِپ کے شِپ ڈکار چکا ہو، وہ دیکھنے کو تیار نہیں. اسی دل کے مرض نے ہی تو حرام اور گناہ میں مزے کی نوید سنائی. دماغ میں دل کے ہی مہمان بِٹھا لئے جاتے ہیں اور اس وجود کا بزرگ سا مالک ضمیر اپنی نحیف آواز میں انہیں خبردار کرتا رہتا ہے لیکن کیا فائدہ ضمیر بابا ! اگر خطرے اور امتحان کی گھڑی میں لمبی تان کر نہ سوتے تو حالات مختلف نہ ہوتے کیا؟         اب جب زبان، دل ،دماغ اور نظر آپ کے ہاتھ سے نکل ہی چکے ہیں تو آپ بس دعائے خیر ہی کریں کیونکہ دعائے مغفرت تو بڑی دھوم دھام سے ہو گی .
●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●●


اتوار، 19 اکتوبر، 2014

● (8) مادر وطن اور چادر وطن/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





(8) مادر وطن اور چادر وطن
تحریر: ممتاز ملک. پیرس


بہت ہی ذیادہ دیر ہوچکی ہے خواتین کو معذوروں جیسی ذندگی گزارتے ہوئے ۔ اللہ پاک نےعورت کو بھی دماغ عطا کیا ہے ۔ ویسے ہی سوچنے کا حق بھی عطا کیا ہے ۔ لیکن بد نصیبی سے ہمارے ہاں خواتین کو نہ تو اپنی زندگی پر کوئی اختیار حاصل ہے نہ ہی انہیں اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی اچھا فیصلہ یا کوئی عقل کا کام کر سکتی ہیں ۔ اور تو اور ہماری 70 فیصد عورتوں کو الیکشن کے زمانے میں اپنی مرضی سے کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کی تک کی اجازت نہیں ہے ۔ انہیں ہمیشہ گھروں سے حکم دیکر بھیجا جاتا ہے کہ بس فلاں بندے کے نشان پر ہی مہر لگانی ہے ۔ اکثر علاقوں میں تو ان خواتین کے گھر والے  کسی بھی وڈیرے ، چودھدری ، یا خان کو اس کی لاعلمی میں ہی اسکا ووٹ ایڈوانس میں ہی بیچ کر آ جاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان بے عقل مردوں کی وجہ سے عورت کا ووٹ بھی کسی اچھے امیدوار کی جگہ کسی نہ کسی ایسے امید وار کو چلا جاتا ہے جسے دیکھ کر بعد میں انسان اکثر سوچتا ہے کہ" اوہو اس سے اچھا تھا کہ میں اپنا ووٹ کسی کوڑے دان میں ڈال آتا"۔                 ان سب باتوں کی وجہ تمام مردوں اور خواتین کی جہالت ہی ہوتی ہے۔ عورتوں کراپنے ووٹ کا  احساس دلانے کا وقت آن پہنچا ہے .پاکستان کے (67)سرسٹه سال ہمیں یہ سبق دے کر گئے ہیں کہ اپنے گھروں اور خاندانوں کے مردوں کو ہم نے یہ سوچ کر اپنے سوچنے کا اختیار بھی تفویض کر دیا کہ یہ ہمارے نگہبان ہیں اور ہماری حفاظت کی ذمّہ داری ادا کریں گے . لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ ہماری کیا حفاظت کرتے الٹا انہوں نے کہیں ہمیں کاری کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا. تو کہیں جائیداد بچانے کے لئے ہمارے ساتھ قران سے نکاح جیسی مذموم حرکتوں کی تاریخ بنا دی .کبھی ہمیں جانوروں کے بدلے بیچا گیا تو کہیں ہمیں جوئے میں ہارا گیا. کہیں ہمیں تیزاب سے نہلایا گیا. تو کہیں ہمیں آگ لگا کر راکھ کیا گیا. کہیں ہماری ہی عزتیں لوٹ کر ہمیں ہی بدکار کاخطاب بهی دے دیا.             ہماری حفاظت کے ذّمہ داروں نے آج تک اپنے عمزادوں میں سے کسی کو سولی کیا چڑھانا تها ان کے خلاف آج تک کہیں کوئی آواز تک نہیں اٹھائی.کہیں مردوں نے ان مجرموں کو سزا دلوانے کی کوئی کوشش نہیں کی. یہاں تک کہ ایک جلوس تک نہ نکالا. ہمارے ہی گھروں کے مردوں نے ہمارے ووٹ بیچ بیچ کر ایک سے ایک بڑا کرپٹ اور بدکار اور بدمعاش آدمی ہمارا لیڈربنا کر مادر وطن کو دنیا بھرمیں رُسوا کیا. آج ہر عورت کو یہ بتانے کا وقت آگیا ہے کہ ووٹ صرف کاغذ کی ایک پرچی نہیں ہے بلکہ ہماری عزت, جان, تعلیم, اپنی اولادوں کے مستقبل کا وہ ٹهیکہ ہے جو بنا سوچے سمجھے کرنا ہی ہمیں برباد کر گیا ہے. اب اپنے ووٹ کا حق ہمیں خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا ملک کی ہماری 54% آبادی کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے .اب ہمیں ان لوگوں کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانا ہے جو سب سے پہلے عورت اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور عورت کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت کے لئیے عملی اقدامات کرے. ہماری عظمتوں کے لٹیروں کو سرعام(48) اڑتالیس گھنٹوں کے اندر پھانسی پر لٹکا کر دکھا ئے .ہمارے حقوق غصب کرنے والا چاہے ہمارا باپ اور بھائی ہی کیوں نہ ہو  انہیں ایک ہی مہینے میں کڑی سے کڑی سزا دلائے اور یہ سب کرنے کی شروعات اس ووٹ مانگنے والے کے اپنے گھر سے ہونی چاہئیے . اس امیدوار کا اپنے گهر میں اپنی ماں, بہن، بیوی اور بیٹی کے ساتھ حقوق ادا کرنے کا ریکارڈ کیسا ہے؟ اگر اس کے اپنے گهر میں کسی عورت رشتہ دار کا کوئی حق مارا جا رہا ہے تو اسے الیکشن میں کھڑا ہونے سے پہلے ہی نا اہل کر دینا چاہیئے. منتخب ہونے کے بعد بھی جو عورتوں اور بچوں کو حقوق پہلے سال میں نہ دلوا سکے اسے بهی اپنے گهر کی راہ دکھائیں گے. عورتوں کے مجرموں کو عورتوں کے سامنے ہی سزا ملنی چاہئیے. اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگی کے فیصلوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہی مادر وطن کو اس کی چادر لوٹائی جا سکتی ہے. اٹھ اے پاکستانی عورت کہ مادر وطن کو بہت دن ہو گئے ننگے سر ہوئے. اس کی چادر بیٹے توسرسٹه سال میں نہ لوٹا سکے لیکن اسکی بیٹیاں ضرور لوٹائیں گی کہ ماں کا دکھ بیٹی سے زياده کون جان سکتا ہے.  
   ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●●
                            


جمعرات، 16 اکتوبر، 2014

مدعی سُست گواہ چُست/ کالم





مدعی سُست گواہ چُست
تحریر:
(ممتازملک۔ پیرس)


15اکتوبر 2014 کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میںفرزانہ باری انسانی حقوق کی علمبردار کو حامد میر سے بہت کچھ کہتے سنا کہ کیسے انہوں نے کھل کرملالہ بی بی کی حمایت میں  اسلامی اور قرآنی احکامات پر اعتراضات کئے . اس خاتون نے کہاں کہاں سے قرانی ادھورے حوالوں کو جوڑ کر ملالہ کو صحیح اور قران کو نعوذبااللہ غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جبکہ ان خاتون کے لئے ہمارا ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ اللہ آپ کو توفیق دے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور قرآن کآ ترجمہ پڑھ لیں تاکہ آپکو آپ کے ہی سوالوں کا جواب مل سکے.رٹا رٹایا عربی قران پڑھنے سے اگر آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ کو قران جیسی الہامی کتاب کی سمجھ آ گئی ہے تو آپ کو انگریزی پڑھنے کے لیئے اس کا مطلب سمجھنے کی بھی کیا ضرورت تھی اسی طرح انگریزی کا رٹا لگا کر ہی ڈگری کیوں نہیں مل جاتی کیوں اس کے لیئے انگریزی کے ٹینسز یاد کیئے جاتے ہیں۔ کیون اسکی ووکیبلری کا رٹا لگایا جاتا ہے ۔ کیوں کہ ہر زبان کو سمجھنے کے لیئے اس کے حروف تہجی کی صرف شکل پہچاننا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کی گرائمر اور لغت میں اس کے الفاظ و معنی کا بھی مکمل علم ہونا چاہیئے ۔ 
  جو قران غیر مسلموں کو بڑے بڑے بے دین اور بددماغ لوگوں کو انسان کی اور خدا کے فیصلوں کی حقیقت بیان کرتا ہے ۔ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لا کر کھڑا کرتا ہے ،وہ آپکوبهی سچائی کا رستہ دکھائے گا. ابهی جو آپ ملالہ کی وکالت میں تڑپ کر بیان بازی کر رہی ہیں تو آپ ہی عراق. میانمار.،غزہ کے ہزاروں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کئے رہیں؟ کیوں انسانی حقوق کے نام پر آپ کی این جی اوز کے منہ سی دئیے جاتے ہیں؟ظاہر ہے جو ہڈی ڈالتا ہے وہ اپنی مرضی کے خلاف نہ تو کسی کوبھونکنے دیتا ہے نہ کاٹنے دیتا ہے. اسلامی احکامات انسان کی اس دنیا ہی نہیں بلکہ اگلی زندگی میں بهی کامیابی کے گر بتاتے ہیں.                                                             
                              ذندگی کے پچیس ، تیس برس اس خاتون نے دنیا کا علم کمانے میں گزار دی ، اب ہمت کریں تو صرف تیس دن ہی دین اور قران کے علم پر صرف کر کے دیکھیں ۔ آپ کو معلوم ہو جائیگا کہ یہ دنیا اور وہ دنیا انسان کی ذندگی میں کیا مقام رکھتی ہے اور انسان سے کیا تقاضا کرتی ہے ۔  اللہ کے احکامات کو چیلنچ کرنے کے بجائے اگر آپ اس کے احکامات کے اغراض ومقاصد کو ہی سمجھنے میں کچھ روز صرف کر دیتیں تو آج  میڈیا کی شہہ پر آپ کو یوں بے دینی کی باتیں کرتے ہوئے اپنے دین میں کیڑے کبھی نظر نہیں آتے ۔ ہم آپ کے لیئے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک آپکو دین کی سمجھ اور قران کی محبت عطا کر دے ۔ اور یہ تبھی ہو گا جب دنیاوی شہرت اور پیسہ کمانے کا بھوت آپ کے سر سے اترے گا ۔  اور کسی کی بھی محبت میں اتنا مبتلا نہیں ہو جانا چاہیئے کہ اس کی جانب سے سوال کرنے والوں سے جھگڑنا اور اپنی جانب سے جواب گھڑنا شروع کر دیں۔ محبت اپنی جگہ رکھیں اور جواب دہی کے لیئے دوسرے کو ہی لب کشائی پر مجبور کریں ورنہ معاملہ مدعی سُست اور گواہ چُست کا ہوجاتا ہے جس میں جوتے گواہ ہی کو کھانے پڑتے ہیں ۔                          
             ۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                   


پیر، 13 اکتوبر، 2014

نوبل مذاق/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





نوبل مذاق
ممتازملک۔پیرس


انعام حاصل کرناہر انسان کی ہیزندگی کی ایک بڑی خواہش ہوتی ہے
 اس کے لیئے کوئی کوشش کرتا ہے اور کوئی سازش کرتا ہے ۔ اور جب کوئی کچھ نہیں کر سکتا تو خواب ےتو ضرور ہی دیکھتا ہے ۔
ہمیں بھی چند روز پہلے ایک ایسا ایوارڈ وہ بھی نوبل ایوارڈملا کہ پوری پاکستانی 
قوم دانتوں میں انگلیاںداب کر رہ گئی۔دنیا میںجب
 بھی کسی بھی ملک کے کسی فرد کو یہ ایوارڈ
ملتا ہے تو وہ سینہ پھلاکراس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اس کا اس ایوارڈ پر حق ثابت کرتے ہیں ۔ لیکن ہم پاکستانی یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ آخر جس کو یہ ایوارڈ ملا ہے تو کس بات پر ملا ہے ۔ ابھی کچھ ہی عرصہ
 قبل کی بات ہے جب ایک معصوم صورت بچی کو پاکستان کے ایک شورش ذدہ اور دہشت گردی کے شکار ہمارے پیارے صوبے کے پی کے میں پڑھنے لکھنے کے شوق میں اور دنیا کو پاکستان میں شہید ہونے والے بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف متوجہ کرنےپر پاکستان بھر کی محبت بھی ملی اور لاڈ دلار بھی ملا ۔ ہر آدمی نے اسے اپنی ہی بچی کی نظر سے دیکھا ۔ پھر کچھ ہی عرصہ میں جانے کیا کھچڑٰی پکتی نظر آئی
 ایک ڈرامائی حملہ پلین کیا گیا اور اس میں کئی بچوں کی جانوں کو داؤ پر لگا کر یہود و ہنود نے چیل کی طرح ایک خاص تماشے کے ساتھ ملالہ نامی لڑکی کو جہازوں میں اڑایا اور سازشی پنجوں کے ذریعے اسے پاکستانی ماڈل بنانے کی ناپاک کوشش کو آغاز ہو گیا ۔ اس کے ساتھ کی بچیاں کہاں گئیںآج کسی کو پتہ نہیں ۔ اس لڑکی کے ڈی این اے پر سوالات اٹھے تو جوابات کا کوئی پتہ نہیں ۔ اس کے والدین پر سوالات اٹھے تو کوئی جواب نہیں ۔   پھر ایک ایک دن میں اس کبھی ہم نے سلمان رشدی خنزیر اور، تسلیمہ نسرین بنگلہ بھگوڑی کے ساتھ تصویروں میں دیکھا کیا ایسی سیانے لڑکی جو 10 ، اور بارہ سال کی عمر میں دنیا بھر کو اپنی چٹھیوں اور میلز کے زریعے متوجہ کر سکتی ہے اتنی احمق اور جاہل ہو گئی کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کن اسلام دشمنوں اور مسلم کش لوگوں کیساتھ کھڑی ہے ۔
 آج اسے جنرل اسمبلی دعوت خطاب دے رہی ہے تو کل اسے امریکہ کا پریذینٹ گود میں بٹھانے کو بیتاب ہے ۔ کبھی ملکہ برطانیہ دیوانی ہو رہی ہیں تو یورپئین اس پر کتابیں چھاپ چھاپ کے باؤلے ہوئے جا رہے ہیں ۔ 
کیا ہے یہ سب سیہونی ڈرامہ ۔ آج کئی
سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے تو سوچا کہ کیا ہی کمال بلکہ کمالات کی مالکہ ہیں یہ لڑکی کہ کچھ نہیں کرتی مگر اوروں کے کندھوں پر بیٹھی کمال کرتی ہے ۔ ہم سب دوارب سے اوپرکی آبادی کے مسلمان تو ایسا کوئی علم اور ہنر رکھتے ہی نہیں تھے جو نوبل ایوارڈ تک رسائی حاصل کر سکتے ۔ لیکن کل کی چھوکری نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ارے بیوقوفو اس ایوارڈ کو لینے کے لیئے قابلیت کا ہونا نہیں بلکہ پشت پر یہودو ہنود کا وہ ہاتھ ہونا لازمی ہے ۔  آدمی کو میر جعفر ہونا چاہیئے پھر ایوارڈ کی کیا کمی ہے پنجابی میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
" سِر سلامت تے جُتیاں ہزار "
ملالہ بی بی کو تب تک یہ نوازشات ملتی رہیں گی جب تک اس کی غیرت بیدار نہیں ہو جاتی ۔ جس دن اسے کشمیر اور فلسطین کے معصوم شہید نظر آنے لگے ، جس دن اسے میانمار کی مسلم لاشوں کی گنتی نظر آگئی ،جس دن اسے غزہ کے بچوں کے پھٹے ہوئی میت نظر آگئے ، اس دن ملالہ بی بی جان لیں کہ ان کے یہ ہی یہودی ہنودی آقا انہیں بڑی صفائی سے قتل کر کے ایک اور ایوارڈ اس کی گردن میں پھولوں کے ہار کے ساتھ اس کے فریم پر ٹانگ دیں گے ۔ 
پاکستانی قوم وہ بہادر اور ڈھیٹ قوم ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے امتحان سے گزرتی ہے لڑکھڑاتی ہے گرتی ہے روتی ہے آنسو پونچھتی ہے اور پھر سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو جاتی ہے ۔ اس میں ہر آدمی کئی کئی کہانیاں رکھتا ہے ۔ آزمائش کے کئی کئی مرحلے گزارے بیٹھا ہے ۔ اسے تو کبھی زبانی پزیرائی دینے کی بھی کسی کو کوئی توفیق نہیں ہوئی ۔ کہاں ایک دس بارہ سال کی لڑکی کو بنا کوئی تیر مارے ہیروئین بنانے کا قِصّہ ۔ عافیہ صدیقی کا جرم ، ایک امریکی پر حملہ کرنے کے جواب میں غیرت مندوں کی طرح بندوق اٹھانا،                      
 گولیاں کھانے کے لیے تو ہماری پورے قوم کے ساٹھ ہزار سے زیادہ کے لوگوں نے خود کو قربان کر کے مثال قائم کر دی ،                                           
ایک استانی نے اپنے شاگردوں کو جلتی گاڑی سے نکالتے ہوئی خود کو شعلوں کی نذرکرلیا۔                                                                                      
خدمت کی مثال بنے تو ایدھی جی پر فلمیں  بن سکتی ہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن انہیں ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا ۔ دنیا کی سب سے بڑی فلائنگ ایمبولینس سروس بھی انہیںیہ ایوارڈ نہ دلا سکی ۔                            
14 سالہ بچے کا اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھی طلبہ اور اساتذہ کی جان بچانے والے کو بھی نہ مل سکا ۔                                                                        
سوچیئے تو سہی کہ یہ ایوارڈ اسے کیوں ملا؟اور اسے اپنے ہی ملک میں مشکوک کیوں بنا دیا گیا ۔ اور اگر یہ لڑکی پاکستانی ہے تو اسے پاکستانیوں کےہی اعتراضات پرکوئ تکلیف کیوں نہیں ہے؟
عراق ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، برما، کشمیر ، پاکستان اور جانے کہاں کہاں مسلمانوں کے ساتھ غیر اعلانیہ صلیبی جنگ لڑنےوالے 
یہود ہنود اب اس لڑکی کو کب کہاں اورکیسے قتل کریں گے یہ پکچر 
ابھی باقی ہے میرے دوست ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


   



                                                


جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں۔ کالم ۔



ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں
(ممتازملک۔ پیرس)




عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان کے رویے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ایک قدرتی امر ہے ۔ خاص طور پر بچوں کے معاملے میں یہ بات اور زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ کیوں کہ یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں کی مثال کمہار کے ایک ایسے برتن کے جیسی ہوتی ہے جو بظاہر تو چاک پر ہی ایک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے لیکن ابھی اس کے لچکتے وجود کو پختگی اور سمجھداری کی تپش کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ورنہ وہ دھڑام سے بنانے والے ہی کے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈھیری کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔                                                            
13 سال سے لیکر 19 سال تک کی عمر بچوں میں جسے ہم ٹین ایج بھی کہتے ہیں،ایک خاص دور ہوتا ہے اس میں ماں  کو بچوں کے لیئے اور باپ کو بیٹوں کے لیئے بہت ذیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ عمر کا یہ ہی وہ حصہ ہوتا ہے جس میں یا تو آپ اللہ کے کرم سے کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی ناسمجھی سے ناکام ہو جاتے ہیں ۔                                                                              
 آج ہم خاص طور پر اس عمر کی بچیوں کی مزاجی تبدیلی پر بات کرتے ہیں ۔ اکثر ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ بچیوں کے شوق لڑکوں سے جدا ہوتے ہیں جیسے انہیں ماؤں کی جیولری ، کپڑوں اور میک اپ کو خود پرٹرائی کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔ چاہے وہ ان میں کارٹون ہی کیوں نہ لگیں ۔ بس یہ انکے لیئے کشش کا باعث ہوتا ہے کہ ہماری ماں یہ سب لگاتی ہیں اور اچھی لگتی ہیں تو ہم بھی اچھے لگیں ۔ اچھا لگنے کی یا شاباش لینے کی خواہش بچیوں میں ضرور موجود رہتی ہیں اور اسکا کسی بھی انسان اور خاص طور پر بچوں میں ہونا کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہاں انہیں پیار سے یہ بات دوستانہ انداز میں ماؤں کو باتوں باتوں میں بتاتے رہنا چاہیئے کہ بیٹا آپ کی عمر میں کیا چیز آپ کے لیئے اچھی ہے یا آپ پر اچھی لگتی ہے ، یا کس کس چیز یا میک اپ سے آپ کی نازک جلد خراب ہو سکتی ہے ، آپ کے پیارے سے چہرے پر ہمیشہ کے لیئے کوئی بھی میک اپ میں شامل جزو داغ چھوڑ سکتا ہے ۔ اس لیئے آپ کو 20 سال کی عمر سے پہلے وہ چیز چہرے پر ٹرائی نہیں کرنا چاہیئے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔  اس عمر کے بچوں پر بیجا ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اس عمر میں ہونے والی ذہنی اور جسمانی تبدیلیاں دوران خون کو خاصا تیز کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ بچے بہت اتھرے ہیں یا ہائیپر ہیں ، جوشیلے ہیں وغیرہ اس لیئے ایسے بچے اکثر بہت بحث کرتے ہیں یا بہت ذیادہ سوال کرتے ہیں۔ انہیں " یہ نہ کرو "کیوں کہ میں نے کہاہے،کہہ کر مطمئین نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ انہیں ہر بات کہ وجہ چاہیئے ہوتی ہے ۔ کئی مائیں تو کیا باپ بھی جہالت کی حدوں کو پار کرتے ہوئے بیٹے ہی نہیں جوان بیٹیوں کو بھی دوسروں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذلیل کرنے یا انہیں مارنے پیٹنے سے بھی احتراز نہیں کرتے ۔ کئی گھروں میں تو بیٹیوں کو مارنا غالبٓٓا بڑی شان سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری مار کے ڈر سے ہی ہماری بیٹی کسی برائی میں نہیں پڑی توایسے تمام خوش خیال جاہل والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں جب لڑکی نے آپکو تارے دکھانے ہیںتو وہ پنجرہ توڑ کر بھی فرار ہو سکتی ہے یہ سوچے بنا کہ اس کے ساتھ آگے ہو گا کیا ؟ لیکن جس کی فطرت میں پاکیزگی ہے اسے بے دھڑک بھی چھوڑ دیں تو بھی وہ کسی گندگی میں شامل نہیں ہو گی کیوں کہ عورت کی فطرت میں حیا اللہ نے شامل کی ہے ۔ جبکہ جو لڑکیاں ان برائیوں میں مبتلا ہوتی ہیں اس میں ان کے والدین اور خاص طور پر ماں ہی قصوروار ہوتی ہے ۔ جو بچی کی عمر کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سمجھنے کے بجائے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا بڑی بہادری سمجھتی ہے ۔                                                        
 پچھلے دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو بڑے  ٹھٹھے کیساتھ چلی، جس میں ایک ٹین ایج لڑکی گھر سے کسی اور ڈریس میں نکلی اور باہر آکر اس نے  اپنے کپڑۓ بدل لیئے جبکہ نیچے اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی ۔ ماں نے اسے پیچھے کہیں دیکھ لیا اور گلی ہی میں خوب واویلہ کیا ور اس جوان بچی کو انتہائی ظالمانہ انداز میں مارا پیٹا اور بالوں سے گھسیٹتی ہوئی گھر لے گئی ۔ اس وقت ہمیں بہت افسوس ہوا جب ھاھاھا  لکھ کر اس وڈیو کو شئیر کیا گیا ۔ کیسی بے غیرتی کی بات ہے ان بھائیوں کے لیئے جو بہن کو ایسے شرمسار ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ یہ اس لڑکی کی ایک خواہش تھی کہ وہ پینٹ شرٹ میں سکول جائے تو ماں کو نہیں پسند تو اسے بچی کو پہلے ہی ذہنی طور ہر محبت سے یہ بات سمجھانی چاہیئے تھی کہ بیٹا ہمیں آپ کا یہ لباس پہننا اچھا نہیں لگتا ۔ تو شاید بچی بھی اپنی پسند پر غور کر لیتی یا اسے یہ کہا جاتا کہ اس پینٹ کے ساتھ شرٹ لانگ استعمال کرو تو آپ پر اچھی لگے گی تو بھی بات سمجھ میں آ جاتی ۔ اس عمر کی بچوں کو اپنے منہ پر میک اپ ملنا ہے اور کہنے پر بھی ٹرائی کرنا ہے تو کرنے دیں کیوں کہ ان کا دل جلد ہی اس سے بھر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ ٹین ایج سے نکلنے تک انکا سارا شوق ختم ہو چکا ہو گا جبکہ آپ نے ان پر بیجا سختی کی تو یہ کام تو انہوں نے کرنا ہی ہے سامنے نہیں تو چھپ کر کریں گی ۔ تو کیا فائدہ ۔ دوسری بات ہماری بہنوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کسی بھی بچی کی عمر دیکھے بنا اس پر اعتراض کرنے کا ۔ اپنی بیٹی چاہے ان کی حرکتوں سے باغی ہو کر کہیں بھی منہ کالا کروا لے، وہ اپنی آنکھ کا شہتیر انہیں دکھائی نہیں دیگا لیکن کسی کی بچی نے ٹین ایج میں منہ پر میک اپ نام کا کوئی لال پیلا رنگ لگایا ہو تو فورا اس بچی میں اخلاقی اور شرعی عیب ڈھونڈنے کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی ۔اور معذرت کیساتھ آجکل کی نام نہاد تہجد گزار اور وظیفہ پڑھے والی خواتین میں یہ عیب عروج پر ہے ۔ حالانکہ وہ اپنی عمر میں یہ سب کچھ کر چکی ہیں مگر پوچھنے پر خود کو پیدائشی حاجن بی بی ثابت کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔    گویا یہ کہنا ہی باقی ہوتا ہے کہ جی  ہم تو '' دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں''  کی کسر ہی رہ جاتی ہے ۔  آپ نے اکثر ایسی بزرگ خواتین 50 سال سے اوپر کی بھی دیکھی ہوں گی کہ جو پورا بیوٹی پارلر بن کر باہر نکلتی ہیں ۔ عجیب سے نیلے پیلے کپڑے ، بڑے بڑے بندے ، دونوں کلائیاں ہر طرح کی چوڑیوں سے بھرے ،  خوفناک میک اپ ۔ جی ہاں یہ وہی خواتین ہوتی ہیں جن کا ٹین ایج انتہائی تکلیف میں گزرا ہوتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی سے ننھی منھی خواہشیں  پوری کرنے کی اجازت بھی کبھی نہیں دی گئی ۔ اور وہ حسرتیں ان کے دل میں پلتی رہیں نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے بعد بھی کئی گھروں میں ان پر بیجا پابندیوں نے ان کے اس شوق کو اور ہوا دی اور بڑہاپے میں جب انہیں اختیارات ملے تو انہوں نے اپنے شوق پورے کرنے شروع کر دیئے ۔ ہو سکتا ہے دیکھنے والوں کے لیئے یہ ہنسنے کی بات لگتی ہو ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے ایسے شوق کی وجوہات کو سمجھنا چاہیئے ۔ اور ان سے ہمدردی رکھنی چاہیئے ۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں  کہ کل کو اپکی بیٹی کو بھی کوئی دیکھ کر اس کا مذاق نہ اڑائے تو خدارا اپنی ٹین ایج بچیوں کی دوست بنیں اس کوپیار سے اپنی تہذیب سکھائیں۔ انہیں  سوشل ایونٹس میں بھی اپنے سارتھ رکھیں تاکہ انہیں لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ، بات کرنا ، اور لوگوں کو سمجھنا آئے ۔ کیوں کہ آخر کو انہوں نے نئے لوگوں میں بھی بیاہ کر جانا ہے تو اگر آج وہ لوگوں کو سمجھ سکیں گی تو اپنے گھروں کو جلد اچھے سے سنبھالنے کے بھی قابل ہو جائیں گی کہ یہ خود اعتمادی آپ ہی کی دی ہوئی ہو گی ۔ ماں کی محبت اور سمجھداری عورت کی ہر عمر میں اس کی عادات سے جھلکتی ہے ۔ اگر مائیں بچیوں کی دوست ہوں توانہیں کبھی زندگی میں کسی دوست کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے بچے دوستوں میں رہنا ذیادہ پسند کرتے ہیں یا آپ کیساتھ کہیں جانے پر تیار نہیں ہیں  تو اپنے رویے پر غور کریں کہیں وہ آپ کی صحبت سے نالاں تو نہیں ہیں ۔ غور کریں اور اپنے رویے کا جائزہ لیں ۔ اگر آپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 





جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

خوبصورت اور بامقصد بیٹھک



خوبصورت اور بامقصد بیٹھک
ممتاز ملک ۔ پیرس


27 ستمبر 2014 بروز ہفتہ ہمارے لیئے ایک اہم دن تھا کیوں کہ ہماری اکیڈمی شاہ بانو میر اکیڈمی کے تحت ہماری اراکین لکھاری خواتین کی بیٹھک تھی ۔ تمام خواتین وقت مقررہ پر محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کے گھر پہنچیں ۔  جس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے ہوا ۔ بہت سے موضوعات آج کی اس بیٹھک کا حصہ تھے ۔ جس میں اکیڈمی کے تحت جاری ہونے والے شمارے "در مکنون " کی اگلی اشاعت کے مواد ، ترتیب ، اور ذمہ داریوں پر بات کی گئی اور کئی اہم باتوں کو تفصیلی بیان کیا گیا ۔ تمام خواتین نے ہر موضوع پر بڑہ چڑھ کر بات کی اور اپنے اپنے کام کی رفتار سے باقی بہنوں کو آگاہ کیا ۔ اس شمارے کی ایڈیٹر محترمہ وقار النساء خالد صاحبہ نے سب کے تعاون کے لیئے بہنوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اور کام کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ 
کالمسٹ محترمہ نگہت سہیل صآحبہ نے ہر بات پرکُھل کراپنی رائے کا اظہار کیا ۔ اور اکیڈمی کے کاموں کو اطمینان بخش قرار دیا ۔ 
کالمسٹ محترمہ انیلہ احمد صاحبہ نے بھی مختلف باتوں پراپنی رائے اور اہم نکات پیش کیئے ۔ جن پر سب نے ٓسیر حاصل بحث کی ۔
    محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے وقت کی پابندی پر سب کا شکریہ ادا کیا اور بہنوں کو انٹر نیٹ کے استعمال سے متعلق کچھ معلوموت بھی فراہم کیں ۔ اور اکیڈمی کے کاموں اور اگلے شمارے کے لیئے پچھلے شمارے کی کمی بیشی کو بھی زیر بحث لایا گیا اور اسے مذید بہتر بنانے کے لیئے مختلف آراء بھی پیش کیں  جنہیں بڑی فراخدلی سے سنا گیا اوران پراعتمادکا اظہار بھی کیا گیا ۔
 کہیں بھی ہماری بیٹھک ہو اور اسمیں پاکستان  کے حالات پر بات نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا ۔ لہذا حالات حاظرہ پر بھی ایک نظر ڈالی گئی ۔ دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتحال خاص موضوع رہا ۔ پاکستان میں ان دھرنوں کے نتیجے میں عوام میں پیدا ہونے والا حقوق و فرائض کا شعور جو اب کبھی ائیر لائن ، کبھی ٹریفک پولیس اور پولیس سے گرفتاری پر وارنٹس کی ڈیمانڈ ، تحریری طور پر معاملات کو چلانے کا شعور یقیناابھی  کئی لوگوں کو اعتراض برائے اعتراض میں دکھائی نہیں دے رہا ۔ لیکن جلد ہی انشااللہ اس کے فوائد اور مثبت تبدیلی کو ملکی سطح پر واضح طور پر دیکھا جا سکے گا ۔ پاکستان کے حالات پر دعا بھی کی گئی۔ 
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے بھی اپنے پچھلے مہینے کے کالمز اور تحریروں پر ایک  جائزہ پیش کیا ۔ جبکہ تمام سنجیدہ باتوں کے ساتھ چائے کا دور بھی چلا اور اس دوران ہنسی کے فوارے بھی چُھوٹے ۔ گویا سنجیدگی سے جو بوجھل پن پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے اسے روکنے کے لیئے کوئی نہ کوئی کھلکھلاتی بات گدگداتا واقعہ بھی یاد آتا رہا ۔ جس نے سبھی کو بہت ہی محظوظ کیا ۔ 
سب نے بھرپور تین گھنٹے ایک دوسرے کی سنگت میں بہترین مثبت ماحول میں گزارے ۔ بیٹھک کے آخر میں سب بہنوں نے ذہنوں میں ایک نیا عزم اور ولولہ لیئے ایک دوسرے کو الوداع کہا ۔ یاد رہے تمام بہنیں کئی کئی پبلک ٹرانسپورٹ بدل کر  اور ڈیڑہ سے دو دو گھنٹے کا سفر کر کے یہاں پہنچتی ہیں اور جاتے ہوئے بھی اتنا ہی سفر واپسی پر بھی کرتی ہیں ۔ صرف ایک ہی نیک مقصد کے تحت کہ ہم اپنی کمیونٹی اور اپنے ملک اور اپنی نئی نسل کلیئے کیا اچھا کر سکتے ہیں ۔ اس میں ہمیں کسی قسم کی کو ئی مالی اعانت کہیں سے بھی حاصل نہیں ہے ۔ اگر حاصل ہے تو پڑھنے والوں کی بے انتہاء عزت ، محبت اور اعتماد  جو ہمیں ہر بار ایک نیا عزم اور ایک نیا حوصلہ دیتی ہے ۔  خدا اس بھروسے اور عزت کو قائم رکھے اور جو بات خدا کو پسند نہیں اللہ پاک اس میں ہمارے راستوں کو مسدود کر دے ۔ اور جو کام اسے ہمارے پسند ہیں اس میں ہمارے لیئے کامیابی اور کامرانی کی راہیں کھول دے ۔
 آمین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔









شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/