ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 18 اپریل، 2024

ٹھیکہ۔ شعر


ہر بار صلح کرنے کا ٹھیکہ نہیں میرا
ہوں میں بھی سزا دینے پہ قادر اسے کہدو
(ممتازملک)

عشق۔ شعر




عشق جو چویا لعنت لکھ
اک دی گچی اک دی اکھ 
ممتازملک 😜

منگل، 9 اپریل، 2024

پنجابی کلام ۔ حمد۔ اکھیاں نمانیاں


حمد باری تعالیٰ
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)

جو گدڑیاں توں لعل نکالے میرا خدا
آیاں بلاواں سر تو جو ٹالے میرا خدا

خوشیاں چہ وی اداس جیا رہںڑاں رواج اے
ورنہ غماں دی جند چہ پالے میرا خدا

دامن تے دوستاں نے سبھاں دا کیتا اے تار
رنجش نہ کوئی میر تے نکالے میرا خدا
 
ہر اک قدم تے جو میں گراں میری غلطیاں
ہر اک قدم تے ودھ کے سنبھالے میرا خدا

جس تک پہنچ وی میرے خیالاں دی دور ہے
اونہوں سمندراں چوں گھنگھالے میرا خدا 

جس توں نہ ہو سکے میری دلجوئی اک وی پل
مینوں کرے نہ اوس دے حوالے میرا خدا

ہر وار جد گھرے آں مصیبت جہان وچ
ممتاز ودھ کے عزتاں بچا لے میرا خدا
.........
نوٹ:
(میرے اردو کلام سے میرا کیا گیا پنجابی ترجمہ )
(ممتازملک۔پیرس)


ہفتہ، 6 اپریل، 2024

ہر گلی میں مسجد کیوں ؟ کالم


        ہر گلی میں مسجد کیوں؟
         تحریر :
          (ممتازملک .پیرس)


ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر دوسری گلی میں ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ کہیں پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لیئے، کہیں بہن بھائی کوئی دنیا میں نہیں رہا تو اس کی زمین پہ قبضہ کرنے کے لیئے۔ مسجد کو ایک دکان کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ اسے چندے اکٹھے کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر لوگ نوٹ چھاپ رہے ہیں اور دوسری بات جو سب سے زیادہ خوفناک ہے وہ یہ کہ ایسی بند گلیوں میں مسجدیں بنانے کی وجہ سے اس گلی کے سارے لوگ، سارے بچے، ساری خواتین، غیر محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے خود دیکھا ہے ایک سے ایک بڑھ کر نشئی ،تماشائی، بردہ فروش اور دو نمبر قسم کے لوگ ایسی گلیوں کے چکر صرف اس لیئے لگاتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے نام پر مسجد کے نام پر اس طرف سے گزنے کا بہانہ موجود ہے ۔چاہے انہیں وضو کرنا  بھی نہ آتا ہو ۔  لیکن وہ ایسی گلیوں میں گزر کر وہاں کے کھیلتے بچوں کو، بچیوں کو، عورتوں کو آتے جاتے نظر میں رکھتے ہیں۔ ان کی ریکی کرتے ہیں اور پھر حسب ضرورت مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے ان گلیوں میں شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جن گلیوں میں مسجدیں ہوتی ہیں وہاں سب سے زیادہ گھروں میں چوریاں ہوتی ہیں، بچے اغوا ہوتے ہیں، عورتیں گھروں سے بھگائی جاتی ہیں یا اغوا کی جاتی ہیں۔ جب ہمارے دین کے اندر یہ بات موجود ہے کہ جتنے قدم اٹھا کر مسجد کی طرف جاؤ گے اتنا ہی ثواب ہوگا ، پھر کیا وجہ ہے کہ ہر گلی میں ایک مسجد بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چاہے وہ مسجد سارا سال ویران بیابان پڑی ہو، لیکن کسی نہ کسی بہانے لوگ مسجد کا چکر لگاتے ضرور ہیں۔ نماز کے وقت چاہے صفیں خالی ہوں لیکن اس کے علاوہ مسجد کا چکر لگانے کے لیئے بہانے بہانے سے کسی بھی وقت ایک طرح سے ان کو لائسنس مل چکا ہوتا ہے کہ مسجد کا نام لے کے جب چاہیں اس گلی میں داخل ہو جائیں۔
  پہلے وقتوں میں لوگ پوچھا کرتے تھے۔ جب گلی میں کوئی نیا بندہ نظر آتا تھا تو پوچھا جاتا تھا کہ کیوں بھئی کدھر جا رہے ہو ؟ آپ کس کے گھر کے مہمان ہو ؟ لیکن اب مسجد کے بہانے ایک بڑا اچھا ویلڈ بہانہ ان کے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے کہ پوچھو کہاں جا رہے ہو ؟ جی مسجد جا رہے ہیں ۔اچھا جی کہاں سے آ رہے ہیں؟  مسجد سے آ رہے ہیں۔ اب اس مسجد آنے اور جانے کے بہانے کے بیچ میں اگر ان سے آپ کبھی نماز سنانے کا کہہ دیں  تو یقین کیجئے ان میں اکثر لوگوں کو پوری نماز بھی نہیں آتی ہوگی۔ ان کا حلیہ دیکھیں، ان کا انداز دیکھیں لیکن وہ ایسی گلیوں میں مسجدوں کے بہانے جا کر نت نئے جرائم  سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔  اس لیئے کھلی جگہوں پہ مسجدیں بنائی جائیں۔  مین سڑک کے اوپر بنائیں۔ جہاں سے سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہوں آتے جاتے لوگ دکھائی دیں۔  کون ، کہاں، کس وقت، کب آیا اور کب گیا۔  لوگوں نے اللہ کے گھر کو، مسجدوں کو مذاق بنا لیا ہے۔ قیامت کیوں نہ آئے، قیامت کو آ ہی جانا چاہیئے۔ جو کچھ حرکتیں ہو رہی ہیں چھوٹے بچے جس طرح سے ریپ کیئے جا رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں گلیوں سے اٹھائی جا رہی ہیں۔ بچے سپارہ پڑنے جاتے ہیں۔ بچے قران پاک کی تعلیم کے نام پر  جاتے ہیں کہیں پہ مولویوں کا شکار بن رہے ہیں۔ کہیں پہ وہاں پہ اپنے سے بڑے پڑھنے والے طالب علموں کا شکار بن جاتے ہیں ۔ریپ ہو جاتے ہیں۔ اور جنسی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان تمام  مساجد کو بند کیا جائے۔ ان کو لائبریری میں تبدیل کر دیا جائے یا پھر کوئی  نرسری اور پرائمری سکول بنا دیا جائے۔ لیکن وہاں سے ان مسجدوں کو بند کیا جائے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بے حرمتی ہے مسجد کیوں بند کی جائے تو یاد رکھیئے مسجد کی ایک مثال ہمارے پاس مسجد ضرار کی صورت میں موجود ہے جہاں جب فتنہ اور فساد کی صورتحال پیدا ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مسجد کو گرانے کا حکم اللہ کے حکم سے دے دیا ۔ یعنی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آنے والے وقت میں اگر مسجدوں کو کسی غلط کام کے لیئے استعمال کیا جائے تو اسے گرانے یا بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو برائے مہربانی اسے اپنی مونچھ کا بال بنانے کے بجائے لوگوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔ گلیوں محلوں سے مسجدوں کو بند کیجیئے اور اسے بڑی سڑکوں پر اور مین مقامات پر لے کر آئیں اور جس علاقے میں جتنے نمازی ہوں وہاں پر ایک تعداد کو مختص کرنے کے بعد اگر وہاں دوسری مسجد کی ضرورت ہو تو تب مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ورنہ اسی پچھلی مسجد پر ہی اکتفا کیا جائے تمام صاحب اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ اس معاملے پہ غور فرمائیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر بات کو چھوٹی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پہ مذہب کا تڑکا لگا کر اسے لوگوں کو پروسنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یوں آج ہمارا پورا ملک جرائم کا اڈہ بن چکا ہے ۔ خدا کے لیئے ان باتوں پر غور کیجیئے۔
                    ------

جمعہ، 5 اپریل، 2024

& ہیپی سسرال۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی



آج وہ بے حد پریشان تھی تھی اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر کرے تو کیا کرے ۔
 آج اس کی شادی کو پورے پانچ سال ہو چکے تھے ۔ لیکن اسے ساس کا سکھ کبھی نصیب نہیں ہوا۔ 
ساس بھی کیا چیز تھی۔ وہ جب سے شادی ہو کر آئی۔ بڑے ارمان سے اپنے گھر میں قدم رکھا تھا کہ آتے ہی ساس کو لات مار کر نکالے گی۔ بات بات پر جھگڑا کرے گی۔ لیکن وہاں ایسا کیا  ہوا،
 اس کے تو نصیب ہی پھوٹ گئے ۔
ساس ہے کہ کیا بلا ہے ۔ پہلے دن سے ہی بلکہ شادی سے پہلے سے ہی اس کی کوئی بھی ایسی فرمائش  نہیں تھی جو پوری نہ کی ہو۔ شادی کے بعد گھر میں قدم رکھنے سے لے کر آج تک ہر بات میں صدقے واری جاتی تھی۔ اس نے کئی بار بدتمیزی بھی کی ، جھگڑا کرنے کا موقع بھی بننے دیا  لیکن اس عورت کی فطرت پر حیران ہوں کہ وہاں سے لڑنے کا کوئی موقع نہیں دے پا رہی تھی ۔
بھلا وہ بھی کوئی گھر ہوا ۔جہاں دو برتن ہوں اور کھٹکیں نہ ۔
یا ان کی آواز باہر نہ جائے ۔
لوگ تماشہ نہ دیکھیں اور چار عورتیں بیٹھ کر چغلیاں غیبتیں نہ کریں۔ ساس بہو  کے رشتے کا مزا ہی کیا ہوا۔ 
شادی کے پہلے ہی مہینے بھر میں اس نے جانے کیا کچھ کر کے دیکھ لیا۔
 شادی کے اگلے ہی روز ناشتے کی میز پر میں یہ کھاؤں گی اور یہ نہیں کھاؤں گی کہہ کر انہیں چڑھانے کی خوب کوشش کی لیکن ساتھ ساس صاحبہ نے کون سی چیز تھی، جو میز پر نہیں رکھی پراٹھے، پوریاں، چنے، چائے بھی اور لسی بھی اب بھلا یہاں تک کہ ڈبل روٹی بھی سینڈوچز کی صورت موجود تھی
 یا اللہ وہ نقص کس چیز میں نکالے ۔ پائے بھی نان کے ساتھ میز کی رونق بڑھا رہے تھے۔ کوئی چیز چھوڑ تو دینی تھی تاکہ وہ کہتی کہ وہ نہیں ہے تو مجھے وہ کھانی ہے۔ ابلے ہوئے اور فرائی بھی انڈے تک تو موجود تھے۔
 اس کا موڈ کچھ مکدر سا ہو گیا، لیکن کوئی بات نہیں امید پہ دنیا قائم ہے
 یہ سوچ کر اس نے دن کے کھانے اور رات کے کھانے پر نظر رکھی، لیکن نا جی ہر چیز بہترین لاجواب اس کے کہنے سے پہلے اس کے سامنے موجود تھی۔
 اس نے بھی مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔
 ساسو ماں تو جیسے کسی ٹھنڈی مٹی سے بنی ہوئی تھی۔ اس کی کسی اعتراض کے جواب میں مجال ہے جو ماتھے پر بل ڈالا ہو۔
 حالانکہ اس نے تو اچھا بھلا سنا تھا شادی کے بعد گھر میں قدم رکھتے ہی ساس اور نند کے تیوری کے بل یوں چڑھتے ہیں ۔ جیسے منڈیوں میں بھاؤ لیکن واللہ یہاں تو ساسو بیگم بچھتی چلی جا رہی ہیں۔
 اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔ 
شاید گھر میں میری کوئی نند نہیں ہے ۔
 اگر وہ ہوتی تو گھر میں کتنی رونق ہوتی۔
 ادھر سے گھوریاں پڑتیں۔ ادھر سے کان میں کھسر پھسر سنائی دیتی۔ ادھر سے اس میں کیڑے نکالے جاتے۔ یہاں سے میں ترکی بہ ترکی جواب دیتی
 واہ واہ واہ واہ سوچیئے کیا رونق ہوتی گھر میں۔ 
ساسوں ماں نے تو گھر میں اس رونق کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔
 بیٹی شادی میں مہمان بنکر آئی تھی  اور ساتھ میں اس کو رخصت کر دیا کہ جاؤ بیٹا رات کو ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ کل ولیمے میں ملاقات ہوگی اور اسے اپنے گھر رخصت کر دیا ۔ 
یہ کوئی بات ہوئی بھلا۔
 ذرا نہ سوچا کہ گھر میں رونق کون لگائے گا ۔
خیر میں نے بھی آہستہ آہستہ ان کی آزمائش کے امتحان لینے شروع کر دیئے۔
 اس روز تو انہوں نے اپنا پسندیدہ جوڑا استری کے لیئے رکھا تو زینیہ نے جا کر سٹینڈ پر کھڑے ہو کر زبردستی ان سے لے کر استری کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
 ساسو جی بھی ہنس کر ، 
ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری خوشی
کہہ کے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ اور میں نے آج اپنے گھر میں ایک جنگ عظیم کا ماحول بنانے کے لیئے اور اس مزے کو انجوائے کرنے کے لیئے، اس تھرل کو حاصل کرنے کے لیئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی سوچی۔
 میں جانتی تھی یہ سوٹ میری ساس کو بہت پسند ہے اور آج یہی ہمارے گھر میں رونق کی وجہ بنے گا۔
 یہی سوچ کر میں نے اس نازک سے ریشمی سوٹ کے لیے استری کو فل پہ گرم کیا اور اچھی طرح جب استری کے دھوئیں نکلنے لگے میں نے اس قمیض پر اس طریقے سے استری کو رکھا۔
 بلکہ چپکا دیا کہنا زیادہ مناسب رہیگا کہ واہ واہ واہ واہ لمحوں میں ہی تہوں کی تہوں سے کپڑا غائب ہو چکا تھا۔ پوری استری کا ڈیزائن چھپ چکا تھا اب مجھے پورا یقین تھا کہ 
      اج رولا پوے پوے 
میں نے معصوم سی شکل بنائی اور ساسو ماں کے پاس حاضری دی۔
 ممی جی، ممی جی وہ نا ، وہ نا مجھ سے غلطی ہو گئی۔
 اس نے قمیض انکے سامنے کی اور اس کے استری سے جلے سوراخ میں سے جھانکتے ہوئے بولی
 آپ کی قمیض۔۔۔۔
 ساسو ماں نے غور سے قمیض کو دیکھا اور اس کی شکل کو دیکھا۔ تھوڑا سا افسوس ان کے چہرے پہ لہرایا پھر انہوں نے اسے ایک طرف رکھ دیا۔
 کہا۔۔
 کوئی بات نہیں بیٹا تمہارا ہاتھ تو نہیں جلا
 تم تو ٹھیک ہو نا؟
 بھاڑ میں جائے قمیض۔ دیکھ دیکھ کر ویسے ہی دل بھر چکا تھا کوئی بات نہیں۔
 وہ ممی جی سٹینڈ بھی جل گیا ہے ۔وہاں بھی استری چھپ چکی ہے۔ 
اس نے مزید بم پھوڑا
 اچھا چلو دیکھ لیں گے۔ خیر ہے کوئی بات نہیں۔ تمہیں استری کرنا نہیں آتی۔ تو مت کرو۔ میں تو خود ہی کر رہی تھی تمہاری فرمائش پر تمہیں دے دیا لیکن کوئی بات نہیں۔
 ممی جی آپ غصہ تو نہیں؟
اس نے ڈرامائی پریشانی سے پوچھا
نہیں بیٹا غصے کی کیا بات ہے۔ مجھ سے بھی تو جل سکتی تھی۔ اور تمہاری نند یہاں ہوتی تو اس کے ہاتھوں سے بھی جل سکتی تھی۔ بس اس قمیض کی قسمت ہی یہیں تک تھی۔
 مجھے دل میں شدید افسوس ہوا اتنی خوبصورت قمیض کے جلانے پر ۔
لیکن اس سے زیادہ غصہ اس بات پر آیا کہ ساسو ماں کو ذرا خیال نہیں آیا کہ 
 اتنا نقصان کر دیا میں  انکا سوٹ جلا دیا ۔سٹینڈ جلا دیا ۔سٹینڈ پر پڑا کور تک جل چکا تھا اور یہ اتنی ٹھنڈی مٹی سے بنی ہے ۔
مجال ہے لڑنا تو چھوڑیں ڈانٹ ہی دیا ہو مجھے،
 تاکہ میرے دل کو تھوڑا چین آتا،  قرار آتا ۔
مجھے تو ان کی حس ساسیات پر شک ہونے لگا تھا ۔
یہ واقعی میری ساس ہیں بھی کہ نہیں ۔ ہو سکتا ہے پڑوسن ہو یہ۔
جسے میرا شوہر فیصل ساس بنا کر لے آیا ہو۔
 کھانے میں میں نے نمک زیادہ کر دیا تو خاموشی۔
 پہلے تو مجھے کھانا بنانے نہیں دیتی تھی اور جب میں نے برباد کر دیا تو بھی خاموشی ایک مسکراہٹ۔
 اس روز میں نے جان بوجھ کر باتھ روم کا نل خراب کر دیا پانی بہہ کر ساری طرف پھیلتا رہا تو خاموشی۔
 کوئی بات نہیں بیٹا مجھ سے بھی تو ہو جاتا نا ۔۔
 اور آج میں نے ان کی اتنی خوبصورت مہنگی پیاری شرٹ کو جلا دیا اور پھر خاموشی۔ پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ۔۔ 
 یار یہ کیسی خاتون ہے ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے۔
اس کے دونوں بچوں کی پیدائش کے دورانیہ میں انہوں نے اس کا انتا خیال رکھا ۔ جو منہ سے نکلا وہی پکا ۔ جہاں جانا چاہا ۔ کبھی نہیں روکا ۔ نہ جانا چاہا تو کوئی زبردستی نہیں کی۔ اس کے میکے سے کوئی بھی آ جاتا تو اس کی مثالی آؤ بھگت ہوتی۔ ہر عید تہوار پر وہ اپنے سمدھیانے میں زینیہ کے ہاتھوں ضرور کچھ نہ کچھ تحائف بھواتیں ۔ 
اس کے بچے کب گود سے نکل کر چلنے لائق ہو گئے ۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا
وہ کبھی اپنے بچوں کے لیئے راتوں کو نہیں جاگی۔ یہ کام بھی اس کی ساس نے مسکراتے ہوئے خوشی خوشی اپنے ذمے لے لیئے ۔ 
بچے اپنی دادی پھوپھو کی محبت میں اس قدر تمیز دار تربیت یافتہ کہ بچوں کی ننھیال بھی انکی مثال دیا کرتی۔ 
لیکن اس پانچ سال کے عرصے میں اس کے دل میں کپتی جھگڑالو بہو بننے کے سارے ارمان آنسو بہاتے رہے۔ 
آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اتنی روکھی پھیکی زندگی جینے میں کیا مزا ہے۔
 نہ زندگی میں کوئی اونچی آواز ہے نہ ہنگامہ ہے نہ شور نہ شرابہ ۔ نہ کوئی جھگڑا، نہ ہی رونق رہ گئی میری زندگی میں۔
 یا اللہ جنہیں چاہیئے ان کو ایسی ساس دیتا ۔
میں نے تجھ سے کب مانگی تھی ایسی ٹھنڈی امن کی فاختہ ساس۔ میں تو کسی چڑیل ساس سے مقابلے کی پوری تیاری اور ارمان کیساتھ اس گھر میں نازل ہوئی تھی ۔
 لیکن آج پانچ سال کے صبر کے بعد میں نے فائنل فیصلہ کر لیا تھا مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا اس نے جب فیصل کو یہ بات بتائی تو وہ ہکا بکا ہو گیا 
کیا مطلب تمہاری اس بات سے۔۔۔
 کیا تکلیف ہے تمہیں یہاں۔
 ہر چیز تمہیں کہنے سے پہلے میسر ہے میری ماں جھگڑا کرنے والی نہیں۔ فساد کرنے والی نہیں۔ مقابلہ کرنے والی نہیں۔
 یہی یہی یہی تو تکلیف ہے مجھے کہ کیوں نہیں، کیوں نہیں کیا میرے ساتھ یہ سب کچھ
 کیا میں گھر کی بہو نہیں۔
 کیا میں تمہاری بیوی نہیں۔
 کیا وہ واقعی تمہاری ماں نہیں۔
 کیا وہ میری ساس نہیں۔
 تو پھر کیا وجہ ہے کہ مجھے یہ ساری سہولتیں میسر نہیں۔
 او مائی گاڈ۔۔ کون سی سہولتیں۔ کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ اس قسم کی سہولتیں۔یہی جو ابھی آپ نے بتائی

ہر چیز وقت پر میسر ہے ۔کہنے سے پہلے ہر چیز موجود ہوتی ہے ۔کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کرتا۔ کوئی چک چک نہیں ۔کوئی چخ چخ نہیں ۔کوئی ہنگامہ نہیں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا ۔نہ کوئی ڈانٹا ڈپٹ ۔  لڑائی نہ جھگڑا۔
 لے دے کر ایک نند سے امید ہوتی ہے کہ وہ آئے گی۔ تھوڑا سا گھر میں مرچ مصالحے کا تڑکا لگے گا۔
 وہ بھی آتی ہے ۔سب کچھ ہیپی ہیپی ہوتا ہے اور وہ دو چار گھنٹے رک کر سب کچھ گولو گولو کر کے نکل جاتی ہے ۔
نہ کسی چیز میں وہ نقص نکالتی ہے ۔نہ جھگڑا کرتی ہے۔ کیونکہ آپ کی اماں ایسا نہیں چاہتیں۔
 انہیں تو پسند ہی نہیں کہ میں خوش ہوں ۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
 اماں ایسی ہیں؟
 کیسی ہیں اماں؟
یہی کہ اگر وہ خود نہیں لڑتیں جھگڑتیں۔ اعتراض کرتیں۔ تو بیٹی کو ہی کہتیں۔ انہیں ہی تھوڑی پٹی پڑھا کر میرے آکے چھوڑ دیا کریں کہ جاؤ جا کر اس کے ساتھ یہ اعتراض کرو ۔یہ نقص نکالو۔ گھر میں کوئی ہلہ گلہ ہو، رونق ہو، کوئی تھوڑا سا شور شرابہ ہو،
 اتنا ٹھنڈا گھر مجھے نہیں رہنا۔ اتنے ٹھنڈے گھر میں ۔
مجھے ہنگامہ چاہیئے۔ ہلچل چاہیئے شور چاہیئے ۔
زینو مجھے لگتا ہے تمہیں کسی ماہر نفسیات سے یعنی سائیکیٹرس کو ملنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ساری علامات نارمل نہیں ہیں۔ لوگ سکون چاہتے ہیں ۔ خاموشی چاہتے ہیں۔  امن چاہتے ہیں اور تم  انہی سے الرجی ہو۔
 یہ سب کچھ تھا تو تم شادی سے پہلے بتاتی تاکہ ہم سوچتے ہمارے گھر کا آئیڈیل ماحول، محبت کرنے والا ماحول تمہیں راس نہیں آ رہا۔ یہ زیادتی ہے۔
 تمہیں ایسا ماحول میں کہاں سے لا کر دوں۔
 اس کی ساس جو دروازے کے باہر اس کی آواز میں اپنا ذکر سن کر ٹھٹک چکی تھیں۔
 یہ سب سن کر مسکرائی اور الٹے پیروں واپس کچن میں جا چکی تھیں۔
 انہوں نے وہاں جا کر کچھ سوچا ان کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔
 انہوں نے اپنی تیوری پر بل چڑھائے اور آواز دی۔
 زینو زینو بیٹا کچن میں آؤ
  ان کی اواز سن کر اور تھوڑی سی نارمل سے ہٹ کر آواز سن کر زینیہ حیران تھی 
وہ کچن کی جانب چل دی ۔
جی ممی جی۔۔
کیا کر رہی تھیں 
کچھ نہیں ممی جی بس یونہی۔ فیصل سے بات کر رہی تھی۔
 ٹھیک ہے فیصل کام پر چلا گیا
 جی ممی جی۔
 تو اب تم بھی کام پر لگ جاؤ ۔۔
جی ممی جی
 کیا کام کرنا ہے۔
 یہ کچن کے برتن نکالو اور ان کو اپنی جگہ پہ ٹھیک سے دوبارہ سے صاف کر کے رکھو۔
 لیکن ممی جی یہ تو ٹھیک ہیں
 تو پھر سے ٹھیک کر دو
 لیکن ممی جی اس کی ضرورت نہیں ۔
جب میں نے کہا ضرورت ہے ۔تو ہے۔
 اس نے ذرا سخت لہجے میں کہا زینیہ کے دل میں خوشی سے باجے بجنے لگے
 ارے واہ آواز اونچی ہو رہی ہے۔ شور ہو رہا ہے اور ضد کی جا رہی ہے۔۔۔
 واہ واہ واہ واہ کیا مزیدار ماحول ہے ۔
یہی تو۔۔۔ یہی تو مجھے چاہیئے تھا 
 ساسو جی نے اپنی تیوری پہ بل چڑھائے اس کے ہاتھ میں صفائی کے لیئے کپڑا پکڑا کر وہاں سے یہ کہتے ہوئے روانہ ہو گئی کہ
 یہ سارا صاف ہونا چاہیئے۔ بہت ہو گیا آرام۔ گھر ہے کوئی ہوٹل نہیں ہے یہ۔ 
کہ  دوسرے کام کرتے رہیں گے ۔چلو شاباش
 ارے واہ اور میں کوئی آپ کی نوکرانی ہوں کہ میں یہ سارے کام کروں۔ اس نے بھڑک کر لڑتے ہوئے ہاتھ نچا کر کہا
 کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔
جو لوگ اپنے گھر میں کام کرتے ہیں۔ وہ نوکر ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں صبح سے شام تک اپنی جان کھپاتی ہوں۔ تو کیا میں نوکرانی ہوں یہاں کی ۔
ایک لمحے کے لیے زینیہ کچھ پریشان سی ہوئی لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس نوک جھونک سے لطف لینا شروع کر دیا ۔
پورا کام ختم کرو۔ ابھی تو سالن بھی چڑھانا ہے۔۔
 واہ واہ واہ واہ اور ہاں مشین میں کپڑے ڈال لینا ۔
ہفتہ بھر سے مشین میں کپڑے نہیں ڈلے۔۔
 ارے واہ واہ واہ واہ تکرار تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ زینیہ کا دل بھنگڑے ڈال رہا تھا۔
 اب لگا نا کہ میں کسی گھر میں ہوں۔ کیا بات ہے واہ واہ واہ ساسو ماں بھلا ہو آپ کا۔
 اس کے دل نے پکارا اور اسی بحث بازی میں وہ کپڑا اٹھائے کچن کی الماری کو درست کرنے لگی ۔ نوک جھونک جاری تھی۔
 اس نے سب سے پہلے موبائل اٹھایا اور فیصل جو پریشان گھر سے نکلا تھا یہ سوچ کر کہ زینیا گھر چھوڑ کر چلی گئی ہو گی۔
 اس کی کال دیکھ کر فورا فون اٹھایا۔
 ہاں زینیا کیا ہوا ۔
فیصل آپ آرام سے آفس جائیں اور آرام سے کام کیجیئے 
 کیوں سب ٹھیک ہے نا
 اجی ٹھیک ؟ ٹھیک سے بھی ٹھیک میرے دل کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے .جائیے اور بے فکر ہو جائیے .
مجھے اب اسی گھر میں رہنا اور ساسو ماں منظور ہیں۔ منظور ہیں۔ منظور ہیں۔ 
اس نے کہہ کر قہقہہ لگایا اور فون بند کر دیا
فیصل بیچارا خوشی اور حیرت کے میلے جلے اثرات اور کچھ پریشانی یکجا کیئے ہوئے فون کو دیکھتا رہ گیا ۔
اب یہ کیا تھا
 لیکن زینیہ نہیں جا رہی اس کے لیئے یہی کافی تھا۔
 زینیہ کے لیئے یہ گھر اس کے خوابوں کا عام سا گھر بن چکا تھا۔ 
ساسو ماں نے اپنی سمجھداری سے اسے روز ایک نیا ڈرامہ کرنے کا موقع خوشی خوشی فراہم کر دیا تھا۔
 اب سب ٹھیک ہے۔ 
میں بہت خوش ہوں ۔ میرے گھر میں ہر روز رونق لگتی ہے اور میں اسے انجوائے کرتی ہوں۔
 ہیپی سسرال 😜
                  ------
            







جمعرات، 4 اپریل، 2024

* دوا ہو جا ۔ اردو شاعری ۔ حمد۔ اور وہ چلا گیا

حمد باری تعالی
دوا ہو جا
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)

تو میرے درد کی دوا ہو جا
آسرا چاہوں آسرا ہو جا

 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا 
صرف میرا میرے خدا ہو جا

 میرے پلے رہے گا کیا مولا
 تو جو مجھ سے اگر خفا ہو جا

جو گنوایا ہے میں نے رستے میں
مجھکو مل جائے راستہ ہو جا

تجھ کو کرنے کو راضی جو مجھ سے 
خود بخود ہو گئی ادا ہو جا

 ناداں ممتاز کو سکھا دیجیئے 
کس طرح رب پہ تو فدا ہو جا
-----
نوٹ!
(ممتازملک کی اپنی پنجابی نعت کا اردو ترجمہ)

جسم پردہ ۔کالم

بے راہ رو معاشرہ
تحریر:
     (ممتازملک.پیرس)


ہم عمومی طور پر جنسی بے راہ رو معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہاں پر عورت کو بچپن ہی سے اپنی حفاظت کے لیے خود کو ایک لبادے میں رکھنا ضروری ہے ۔ وہ نام نہاد آزادی پسند عورتیں جو موم بتیاں اور بینر لے کر خاص خاص مواقعوں پر بھاشن دینے کے لئے ،غیر ملکی پیسوں کے زور پر آوارگی کے  جھنڈے لے کر نکلتی ہیں ۔ ان کا نہ کسی دین سے تعلق ہے ، نہ معاشرت سے۔ وہ پیسے کے لیئے اپنی ہر قیمت لگوانے کو تیار رہتی ہیں۔ لیکن اس معاشرے کی عام عورت کو اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے تو اسے اپنے مذہبی اور معاشرتی دائرے میں واپس آنا ہوگا۔ ایک لبادہ، ایک جبہ، چاہے وہ برقعہ ہو، چاہے وہ چادر ہو، اسے اپنے اوپر اوڑھ کر باہر نکلنا ہوگا۔ تاکہ وہ ان بے راہ روی کا شکار جنسی ہیجان میں مبتلا ذہنی طور پر عیاش مردوں کے معاشرے میں خود کو کوئی اشتہار، کوئی سویٹ ڈش، بنا کر ان کے سامنے نہ پروسے۔ ان کے اندر کا شیطان آپ کی باتوں میں یہ کہنے سے کہ "پردہ تو دل کا ہوتا ہے " کیا خدا کو چیلنج نہیں کرتا۔ آپ کا دل کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن آپ کا جسم سب کی نظروں میں شکار بنتا ہے۔ روز روز کے حادثات، روز روز کے واقعات، جنسی حملوں کی آئے دن کی وحشت ناک خبروں کے باوجود، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پردہ بس دل کا ہی کر لینا ہے اور اللہ تعالی کے احکامات کا مذاق اڑا کر آپ محفوظ رہیں گے تو معذرت کے ساتھ ، نہ ہمارے ملک کے لوگ ابھی اس قابل ہیں اور نہ ہمارے ہاں کے مرد یورپ کے ان مردوں کی مسابقت کر سکتے ہیں۔ جو بے لباس عورت کو بھی جاتے دیکھ کر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمارے مردوں کو ان تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی صدیاں لگیں گی۔ لہذا اتنے عرصے تک عورت اپنے آپ کو نہ ان کے لیئے مارکیٹ کرے گی اور نہ ہی گاجر مولی بنا کر پیش کرے گی۔ اپنی حفاظت آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے حدود کے اندر رہ کے ہی کرنی ہوگی اور اللہ کے احکامات کے لیئے آپ کو اللہ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ حفاظت انکساری اور عاجزی کے ساتھ حکم کو مان لینے میں ہے۔
سو بھڑوں کے جس چھتے میں ہماری عورت رہتی ہے۔ اسے ان کے ڈنگ سے بچنے کا انتظام ان بھڑوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے غیر فطری اور غیر حقیقی مطالبات کرنے کے بجائے خود کو باحیا لباس میں اور ایک جبے یا عبایا کے حصار میں لانا ہو گا۔ 
اور کسی عبایا یا برقعے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے جسم کے خد و خال کو پوشیدہ رکھے اور اپ کو نمایاں نہ ہونے دے جبکہ آج کل جس قسم کے عبایا اور برقعوں کے نام پر جو کچھ خواتین پہن رہی ہیں وہ بھی برقعے اور عبایا کے نام پر ایک تہمت بنا دی گئی ہے ۔ اتنا کام اس قدر ذری اور اس قدر اس کے اوپر کڑھائی اور کشیدہ کاری کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے نہیں بھی دیکھنا تو وہ جاتے جاتے مڑ مڑ کر اسے ضرور دیکھے گا۔ جیسے کوئی عبایا نہ ہوا دلہن کا کوئی لباس ہو گیا۔ جو ہر کسی کو دیکھنا لازم ہے۔ اور وہ دیکھنا چاہے گا ۔ برائے مہربانی عبایا یا برقعہ کا مقصد اپنے آپ کو غیر نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ نمایاں نہیں کرنا ۔ تو ڈھیلا ڈھالا ایک سادہ سا موسم کے حساب سے ملبوس اپنے کپڑوں کے اوپر اوڑ لیا جائے اور چادر سے بہتر اس لیئے ہوگا یہ کہ آپ کا ہاتھ اپنا کچھ سامان بیگ وغیرہ اٹھانے کے لیے خالی رہے گا اور آپ کو اسے چادر کی طرح زیادہ سنبھالنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
آپ کا جسم اللہ کی جانب سے دی گئی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت آپ کا فرض ہے ۔ اور آپ اسکے لیئے پروردگار کو جوابدہ بھی ہیں۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔

پیر، 1 اپریل، 2024

دعا سے پہلے ۔ کالم


ذرا ٹھہریئے 
دعا🤲 سے پہلے 
غور کیجیئے
تحریر ۔
(ممتازملک۔پیرس)

بطور ایک کم علم مسلمان کے میری درخواست ہے کہ کسی بھی مسلمان کی مغفرت کی دعا🤲 ضرور کریں لیکن اس کے درجات کی بلندی کی دعا کبھی مت کریں۔
 کیونکہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کون اللہ تعالی کے ساتھ کن معاملات میں کس درجے پر ہے۔
 اگر تو وہ اچھے درجے پر ہے ۔ پھر تو اسے انعام اور ثواب اور زیادہ ملے گا ۔
لیکن اگر خدانخواستہ وہ کسی گناہ میں کسی پکڑ میں ہے تو اس دعا کے بدلے کے اسکے اس درجے کے عذاب کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ 
اس لیے برائے مہربانی صرف مغفرت کی دعا کیا کیجئے۔ کیونکہ نہ ہم کسی کی نیتیں جانتے ہیں۔ نہ کسی کے مکمل اعمال۔ تو ہماری کسی دعا کی وجہ سے کوئی آدمی کسی پکڑ میں نہ آ جائے۔ اللہ پاک سے اس مرحوم یا مرحومہ پر رحم و کرم کی ہی پرزور دعا کی جانی چاہیئے ۔
درجات کی بلندی کی دعا صرف اور صرف پیغمبروں اور انبیاء کرام کے لیئے ہی ہوتی ہے کیونکہ صرف وہی اللہ کی جانب سے گناہوں سے پاک قرار دیئے گئے ہیں ۔ 
 بہت شکریہ۔
            ---

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

تبصرہ برائے بیباک ڈیروی ۔ تبصرہ

تبصرہ برائے
بیباک ڈیروی
ڈی جی خان

ملک محمد ظریف تخلص بے باک ڈیروی اس شاعر کا نام ہے، جنہوں نے پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کا نام اردو اور سرائیکی شاعری میں بلند کرنے کی ٹھانی ۔   مزاحیہ شاعری اور نثر کے ذریعے اپنے لکھنے کے شوق کو نکھارا ۔
 ان کی دو کتابیں اب تک منظر عام پر آ چکی ہیں اور پذیرائی پا چکی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کا زیادہ تر مواد مزاحیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ وہ مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں لے کر آگے چلتے ہیں اور گھریلو معاملات اور پریشانیوں کو ہلکے پھلکے پیرائے میں بیان کرنا خوب جانتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے میری بہت سی دعائیں 
ممتاز ملک
 پیرس فرانس
( شاعرہ  کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔ نظامت کار)

ہفتہ، 23 مارچ، 2024

اے عشق ولی کر دیندا اے۔ پنجابی۔ اکھیاں نمانیاں کلام ۔ صوفیانہ کلام


     اے عشق ولی کر دیندا اے 
            (کلام/ممتازملک۔پیرس)



اے عشق ولی کر دیندا اے 
اے عشق ولی کر دیندا اے

کی کرنا دعویداراں دا
کی کرنا اے بیماراں دا
جد من دا پیتل میلا ہوئے 
اے عشق قلعی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے 

جد راہ کسے تھاں کھوٹی ہوئے
جد دل دل بوٹی بوٹی ہوئے
جد بند ہون سارے رستے تے 
اے عشق گلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے 

قسمت دی ہر تحریر مٹے
 جو کی جائے تدبیر مٹے
 مٹدی مٹدی تحریراں نوں
 اے عشق جلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے

جد پیار ہر ایک نوں جان دا اے
رونا ہی اوس دی آن دا اے
  ہر خواہش نوں ہر راحت نوں
اے عشق بلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے

انج موت دے بستر تے سوئے
 کہ خوف وی اپنے تے روئے
 دنیا چہ نہ آیا کوئی ایسا
 اے عشق علی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے 
اے عشق ولی کر دیندا ہے
-----


جمعہ، 22 مارچ، 2024

پر کیف ہیں ہوائیں۔ اردو نعت۔ خمار مدینہ

پر کیف ہیں ہوائیں
 اردو نعت

ایسے حسین نظارے پرکیف ہیں ہوائیں
 لاکھوں کرم سمیٹیں آقا کے شہر جائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہاں ہوائیں

وہ ہی دکھائی دیں گے ہم جس جگہ کھڑے ہوں
 محسوس ہوں وہیں پر دل کو جہاں بٹھائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

آنکھوں کو چین ملتا ٹھنڈک پڑے کلیجے
آنسو نہیں ہیں رکتے جب حال دل سنائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

غم کے سمندروں سے ممتاز وہ نکالیں
ملتا سکون دل کو قدموں میں جب بٹھائیں 
پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں
-----

جمعرات، 21 مارچ، 2024

ویران حویلیوں میں بستے بھوت۔ کالم

  

   ویران حویلیوں میں بستے    بھوت
 تحریر :  (ممتازملک۔ پیرس)


ہمارے ملک کے  بہت سے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں سے آئے ہوئے لوگ یورپ اور امریکہ میں دن رات محنت اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو آج بھی یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں دو دو تین تین کمرے کے اکثر سرکاری فلیٹوں  میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو انہوں نے وہ لائف سٹائل نہیں دیا جو انہیں پسند ہے۔ لیکن جن علاقوں سے یہ آئے ہیں۔ وہاں پر بڑی بڑی شاندار حویلیاں اور نت نئے ڈیزائن کی کوٹھیاں بنا کر اپنے بچپن کے احساس کمتری اور احساس محرومی کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سفر میں انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال 50 سال گنوا دیئے۔ اپنی زندگی بھر کی ساری کمائیاں پیچھے بڑے بڑے گھر بنانے میں لگا دیں۔ وہ گھر جو ویران حویلیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کوئی نہیں رہتا۔ جہاں صرف ان کے بچپن کے ادھورے خواب اور ناآسودہ خواہشیں دفن ہیں، لیکن وہاں دوسروں کو دکھانے کے لیئے انہیں ہر بننے والے گھر سے بڑا گھر چاہیئے۔ ہر پڑوسی سے بڑی گاڑی چاہیئے، لیکن کس کے لیئے؟ ان گھروں میں آباد بھوتوں کے لیئے. انہیں کون بتائے کہ گھر دیواروں سے نہیں بنتے، گھر گھر کے لوگوں سے بنتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی کی بات ہے جہاں آپ کے گھر کے افراد اور لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے سہولتوں کا فقدان کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ انہیں ترس ترس کے جینے پہ مجبور کر رہے ہیں اور جہاں کوئی رہنے والا نہیں، وہاں بھوتوں کے لیئے بڑے بڑے بنگلے بنا کر دیئے۔ آپ میں  ایسے لوگ، جو اس قسم کے خلجان میں مبتلا ہیں، انہیں پہلی فرصت میں ضرور کسی اچھے ذہنی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کوئی نارمل بات نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی جہاں رہتا نہیں، وہاں پر اتنے بڑے بڑے بے مقصد گھروں پر اپنی ساری زندگی کی اپنی 18، 18 گھنٹے کی کمائیاں، یہاں تک کہ اپنی پینشنیں بھی لگا رہا ہو، جبکہ جہاں اس کے بچے آباد ہوں، جہاں اس کا اپنا مستقل ٹھکانہ ہو، جہاں اس نے سال کے 11 مہینے رہنا ہو، وہاں پر وہ مفلوک الحال لوگوں جیسی زندگی گزار رہا ہو اور اگر  مفلوک الحال سے ایک قدم اوپر اٹھ جائیں تو بمشکل ایک لوئر مڈل کلاس کی زندگی گزارتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ان لوگوں کو احساس دلایا جائے۔ ان کی وہ ذہنی کمیاں ، کوتاہیاں دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھنے کے لیئے تیار کیا جائے، راغب کیا جائے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں پر اپنی آمدنی، اپنے اخراجات اور اپنے لائف سٹائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے پر اپنی کمائی کو خرچ کرنا چاہیئے۔ اس کمائی کا کیا فائدہ جو آپ کے اپنے گھر والوں، اپنے بیوی بچوں کے کام نہ آ سکی، اور ساری زندگی کے لیئے آپ نے اپنی کمائی ویران حویلیوں کے نام پر ایک خاموش قبرستان میں جھونک دی۔ آج آپ کے مرنے کے بعد آپ کا کوئی بچہ یورپ امریکہ سے اٹھ کر ان ویران حویلیوں کو آباد کرنے نہیں جائے گا اور آپ کی ساری عمر کی کمائی 50 سال 60 سال 70 سال کی کمائی اس دلدل میں ڈوب گئی۔ آپ نے کہیں کسی سے دعا نہیں لی۔ ان ویران حویلیوں کے بجائے یا تو وہاں کوئی ہسپتال بناتے، بوڑھوں کے لیئے کوئی سینٹر بنا دیتے , کوئی یتیم خانہ بنا دیتے, کوئی سکول بنا دیتے, کوئی ڈسپنسری بنا دیتے, کوئی ہنر سکھانے کا ادارہ بناتے تو شاید کوئی صدقہ جاریہ اور دعا کی جگہ آپ کے مرنے کے بعد بھی رہتی ہے اور دنیا میں بھی آپ کو یاد رکھا جاتا، لیکن اتنے بڑے بڑے گھر اور حویلیاں بنانے کے بعد آپ کو اس دنیا سے جانے کے بعد کون یاد کرے گا۔ ہمارے معاشرے کے گھٹیا دستور کے مطابق آپ وہاں پکارے تو اسی نام سے جائیں گے کہ دیکھا بھئی موچیوں کے منڈے نے بھی کوٹھیاں بنا لی ہیں ۔ سنا تم نے نائیوں کا بیٹا بھی بنگلہ بنا رہا ہے ۔ دھوبیوں نے بھی حویلی خرید لی ہے ۔ ۔۔۔
جبکہ دراصل بھوت پریت جنات  کے بسیرے کے لیئے تو آپ نے ٹھکانے بنائے اسکے بجائے آپ زندہ انسانوں کے بسیرے یا مفاد کے لیئے ٹھکانے بناتے تو وہ انسان آپ کو یاد بھی رکھتے۔
 حقیقت میں یہاں آپ کی وفات کے بعد آپ کے بچے یا ان کے بچے آپ کے جنازوں کے ساتھ اس لیئے نہیں جاتے کہ آپ کے جنازے کو مٹی دینا ضروری ہے۔ بلکہ اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں جلدی سے جلدی اسی گرما گرمی میں ان ساری زمینوں، حویلیوں، دکانوں کا ریٹ لگا کر فوراً سے پہلے انہیں بیچ کر ان پریشانیوں سے بچا جا سکے جو وہاں ان زمینوں، جائیدادوں اور گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں قبضوں اور پھر قانونی کاروائیوں کی صورت میں نئے جھمیلے تیار کئے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ یہاں آ کر اتنی لمبی قانونی لڑائیوں میں پڑ کر مزید اپنی زندگیاں کمائیاں تباہ نہیں کر سکتے اور یہاں رہنے کے حالات ان کے لیئے ویسے ہی موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیئے وہ انہیں اونے پونے بیچ کر بھی نکلنا مناسب سمجھتے ہیں۔
 اپنے سوچنے کا نظریہ بدلیئے اور اپنے آپ کو قیامت تک کے لیئے دنیا میں آیا ہوا مت سمجھیں۔ اپنی زندگی کو اس غم میں غرق نہ کریں کہ فلاں جگہ میرے خواب ادھورے رہ گئے اور میں وہاں مکمل کرنے کے لیئے جاؤں گا اور اگلے 20 سال میں یہ کروں گا اور اگلے 40 سال میں یہ کروں گا۔ زندگی کی اگلی گھڑی کا کوئی اعتبار نہیں۔ زندگی وہی ہے جو آج آپ گزار رہے ہیں۔ آنے والے لمحے میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اور جو کل گزر چکا ہے۔ وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ نہ ہم اسے واپس لا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس میں جا کر اسے بدل سکتے ہیں۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح سانپ گزر جانے کے بعد اس لکیر کو پیٹنے کا کیا فائدہ۔ ماضی وہ سانپ ہے جو گزر چکا ہے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے نشان چھوڑ کر۔ اسے جانے دیجیئے۔ اگے بڑھئیے۔ زندگی آج میں جی کر آنے والے وقت کے لیئے کچھ ایسا کر کے جائیئے۔ جو آپ کو آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی اچھے ناموں کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ 
نائی، موچی، دھوبی کے بنگلے دیکھ کر انکی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے ان کے بنائے سکول، ہسپتال، کارخانے اور فلاحی ادارے دیکھ کر عقیدت سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو جائیں اور انہیں سلام پیش کریں کہ جو کام وہاں کے مقامی مخیر حضرات سارے وسائل ہونے کے باوجود نہ کر سکے ان چھوٹے گھروں کے مفلس لوگ پردیس کاٹ کر ، اپنی حق حلال کی کمائیوں سے وہاں کر گئے۔ تاریخ میں مشہوری تو تاج محل بنانے والے کو بھی ملی، لیکن عزت کنگ ایڈورڈ اور کملا دیوی جیسے ہسپتال بنانے لوگ والے لوگوں نے ہی پائی۔ تو اپنی زندگی کے مقاصد میں مشہور ہونے سے زیادہ عزت کمانے کو ترجیح دیجیئے اور عزت ان کاموں سے ملتی ہے، جس سے معاشروں میں لوگوں کو آسانیاں اور روزگار میسر ہو سکیں ۔
                   -------

        
          

پیر، 18 مارچ، 2024

* نبھانے والے. اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


ساتھ نبھانے والے 
کلام:ممتازملک۔پیرس

اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتاتے والے

مانگ کے جن کے شب و روز گزر جاتے ہیں
خود سے ہو سکتے نہیں نام  کمانے والے 

دل میں تیرے چھپی خواہش کے سراپے جیسی
اک حسینہ سے شباہت میں  ملانے والے

زندہ رہنے کی کچھ امید تو بندھ جاتی تھی
چاہے جھوٹے ہی سہی خواب
دکھانے والے

    خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
ساتھ کیا دینگے  نظر مجھ سے چرانے والے

ہم خفا ہو کے بہت دور نکل جاتے ہیں
دیر کر دیتے ہیں اکثر ہی منانے والے

اے تصور تیرے انداز انوکھے کب تھے 
زخم تو نے بھی دیئے ہم کو زمانے والے 

ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے
      -----

اتوار، 17 مارچ، 2024

رضی امروہوی کی یاد میں ۔

رضی امروہوی (علیگڑھ ۔انڈیا)
کی یاد میں
وفات : 16 مارچ 2024ء

اتنی خاموشی سے زمانے سے 
ہم نے جاتے کسی کو کب دیکھا

مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا 
رضی امروہوی کو جب دیکھا
 
بات سنجیدہ ہو یا شوخی کی 
شہسوار فن ادب دیکھا 

اپنا ممتاز یہ رہا اعزاز
ساتھ تھوڑا تھا پر غضب دیکھا

مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا 
رضی امروہوی کو جب دیکھا
                 ------

جمعہ، 15 مارچ، 2024

پر کیف نے ہواواں ۔ پنجابی نعت۔ اکھیاں نمانیاں


پر کیف نے ہواواں 
پنجابی نعت

ایسے حسیں نظارے پر کیف نے ہواواں
لکھاں کرم سمیٹاں آقا دے شہر جاواں 
پرکیف نے ہواواں ، پر کیف نے ہواواں 

اوہی دکھائی دیندے میں جس جگہ کھلوواں 
محسوس ہون اوتھے دل نوں جتھے بٹھاواں
 پر کیف نے ہواواں ، پرکیف نے ہواواں 

اکھاں نوں چین ملدا ٹھنڈ پیندی اے کلیجے
اتھرو میرے نہیں رکدے جد حال دل سناواواں
پرکیف نیں ہواواں ، پرکیف نے ہواواں 

غم دے سمندراں چوں ممتاز نوں او کڈدے
 ملدا سکون دل نوں قدماں چہہ تھاں جو پاواں 
پر کیف نے ہواواں، پرکیف نے ہواواں
------

 پر کیف ہیں نظارے
 اردو نعت


ایسے حسین نظارے پر کیف ہیں ہوائیں
 لاکھوں کرم سمیٹیں آقا کے شہر جائیں
 پر کیف ہیں ہوائیں پر کیف ہیں ہاں ہوائیں

وہی دکھائی دیں گے ہم جس جگہ کھڑے ہوں
 محسوس ہوں وہیں پر دل کو جہاں بٹھائیں
 پر کیف ہیں ہوائیں پر کیف ہیں ہوائیں

انکھوں کو چین ملتا ٹھنڈک پڑے کلیجے
آنسو نہیں ہیں رکتے جب حال دل سنائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

غم کے سمندروں سے ممتاز وہ نکالیں
ملتا سکون دل کو قدموں میں جب بٹھائیں 
پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں
-----

اتوار، 10 مارچ، 2024

عیاں ہو گئے۔ پنجابی کلام ۔ نعت۔ اکھیاں نمانیاں


عیاں ہو گئے

راز کتنے جہاں تے عیاں ہو گئے
عقل دے سارے پردے اتاں ہو گئے

رب نے گل کوئی چھوڑی ادھوری کدی
مصطفی دی زباں توں بیاں ہو گئے

اوس ویلے تیکر نہ سکوں پا سکے
کفر دے معاملے نہ نہاں ہو گئے

آپ دی دوستی دے علاوہ سبھی 
دوستاں کولوں دل بد گماں ہو گئے

آپ دی اک نگاہ کرم پے گئی
جو زمین تو اٹھے آسماں ہو گئے

جد قدم ودھ گئے رب دے محبوب ول
منزلاں دی طرف دے نشاں ہو گئے

سوہنے محبوب نوں کی مکاناں دی کی لوڑ
او تے جنت نیں  جنت مکاں ہو گئے

سوہنے محبوب اسوہ جو چھڈ کے گئے
بے ایماناں دے لئی امتحاں ہو گئے 

۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 مارچ، 2024

26سال۔ کالم



26 سال۔۔۔۔ 
دھواں نہیں اجالا
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)


26 سال کا ایک طویل عرصہ آج مجھے فرانس میں رہتے ہو گیا ہے۔ آج کے دن 7 مارچ 1998ء بروز ہفتہ پی آئی اے کی فلائٹ سے جب اپنے گھر سے چلی تھی تو میری ماں تھی ، بھائیوں سے بھرا ہوا گھر تھا ۔ خوشیاں تھیں۔   بہت سی امیدیں تھیں اور پھر ایک سال میں ہی ماں کے دنیا سے جانے کی خبر سنی۔ دیکھ نہیں سکی۔ پھر اپنے بھائیوں کے گھر بستے دیکھے۔ کسی میں جا سکے، کسی میں نہیں ۔ ڈولیاں اترتی نہیں دیکھ سکے۔ ان 26 سالوں  میں فرانس میں فرانک سے یورو تک سفر کیا ۔تنخواہ سے اپنی کمائی تک اور پھر اپنی کمائی سے تنخواہ تک۔ ایک یورو کی چیز کو تین یورو تک ہوتے دیکھا۔
اداروں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ بگڑتے ہوئے دیکھا۔ کئی جنگوں کے احوال سے اس ملک کو متاثر ہوتے دیکھا۔ عالمی جنگ کے خطرات کو محسوس کیا۔ کئی سال سے "زیلے جون" نامی تنظیم کا مہنگائی کے خلاف رونا دیکھا۔ کئی وزارتیں بدلتے ہوئے دیکھیں۔
 یہاں پر ایک نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔ والدین اور اس کی نئی نسل کے تضادات کو دیکھا۔
انکے خیالات کو  بدلتے دیکھا۔ میں نے لچکدار لوگوں کو بے حد کرخت ہوتے دیکھا اور بے لچک لوگوں کو نرم خو ہوتے دیکھا۔ ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے درمیان تقابلے جائزہ لے سکیں ۔ جب آپ عوامی طور پر زندگی گزارتے ہوئے اور اسے پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو وہاں کے حالات کے اثرات یہاں پر اپنی کمیونٹی پر دیکھیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہاں کی مہنگائیوں، وہاں کے ہنگاموں، وہاں والی دہشت گردیوں، وہاں کی سیاست کو لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہیں پاکستان کے غم میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگوں کو جہان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر کی یہ صلاح سنی کہ اپنے ملک سے رابطہ توڑو گے تو سکون میں رہو گے۔ جہاں رہتے ہو وہاں جیو۔
 لیکن
 دل ہے کہ مانتا نہیں۔۔۔
 اسے ہر وقت  ہی اس ملک کی خبریں چاہئیں۔ کیوں چاہیں؟ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس ملک میں ہم نے جوانی سے بڑہاپے تک کا سفر طے کیا۔ تو گود کے بچوں نے گود سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے اب ہمیں رستہ دکھا رہے ہیں ، سمجھا رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ اس میں انہیں برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ان کی ہم سے محبت جھلکتی ہے۔ جیسے ناہنجار اولادیں ہوتی ہیں یقین کیجئیے والدین بھی ناہنجار ہوتے دیکھے ہیں۔ جو اچھے لفظوں کو بھی برے پیرائے میں بیان کرتے ہیں ۔
 جو ہماری اولادوں کی ہمارے لیئے  فکر کو ان کی نافرمانی میں شمار کر دیتے ہیں۔ اسے ان کی گستاخیوں کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔  وہ ہمارا خیال رکھتے ہیں ۔ ہم کہاں گئے، کیا کھایا، کیا پیا ،سوئے کہ نہیں، کچھ چاہیئے کہ نہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں پوچھتے تھے اپنے بچوں سے؟ ایک عمر کے بعد پھر جگہ بدل جاتی ہے۔ اولاد والدین کی جگہ اور والدین اولاد کی جگہ پر آ جاتے ہیں. اگر کل آپ ان سے محبت کرتے تھے. تو آج ان کی محبت پر شک مت کیجیئے۔ آج کے زمانے ، آج کے وقت، آج کی ضرورت کے حساب سے ہمیں خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ ہم کل اپنے بچوں کو آسانیاں دیتے تھے تو آج بھی اپنے دل پر درد بنانے کے بجائے بچوں کے مسائل ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ جینے کی کوشش کریں ۔ ہر قدم پر، ہر خاندان میں، ہر رشتے میں ،کچھ نہ کچھ کھٹاس مٹھاس وقت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کہیں رشتے ٹوٹتے دیکھے۔ کہیں رشتے جڑتے دیکھے ۔کہیں بنتے دیکھے۔ کہیں بگڑتے دیکھے۔ خود اپنی زندگی میں بہت سا اتھل پتھل دیکھا۔ رشتوں کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ رشتوں کو آپ کا حق مارتے ہوئے دیکھا۔ خون کو سفید ہوتے ہوئے دیکھا ۔خون کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ خون تھوکتے ہوئے دیکھا۔ لفاظی میں نہیں حقیقت میں۔ بڑے بڑے زور آور ٹوٹتے ہوئے دیکھے، اور بڑے بڑے کمزوروں کو زور پکڑتے ہوئے دیکھا ۔ یہی دنیا ہے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ہر صبح کے بعد شام اور ہر شام کے بعد ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ الحمدللہ زندگی نے بہت کچھ دیا۔ بہت کچھ سکھایا ۔ بہت سے پردے نظروں سے ہٹائے اور کئیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کی۔ اللہ سے یہ توفیق مانگتے رہنا چاہیے کہ کوئی اچھا کام کریں تو اسے بھول جائیں اور کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی اس غلطی کو یاد رکھیں اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ۔ بہت بہت شکریہ فرانس۔ اس  زندگی میں، اس ملک میں ہمیں عزت ملی، تحفظ ملا، روزگار ملا، وقار ملا، عزت سے سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا، اچھے دوست ملے ، جینے کا ایک نیا انداز ملا ، دنیا کو دیکھنے کی نئی نظر ملی،  آگے بڑھنے کے مواقع ملے ، اچھے استاد ملے، اچھے شاگرد بھی ملے، خود بھی شاگرد کی زندگی جینے کا موقع ملا ، بہت کچھ وابستہ ہے ان سالوں کیساتھ۔ انسان کہیں بھی رہے وہاں یہ سب حالات زندگی میں پیش آتے ہیں۔ لیکن ایک پاکستانی لڑکی اس زبان سے بھی نابلد اجنبی  دیس میں جو کبھی اپنی گلی سے باہر نہ نکلی ہو ، محلے سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو، اس کے لیئے شہر سے باہر بیاہ کر جانا اور پھر ملک سے باہر سات سمندر پار کا یہ سفر بالکل ایسا ہی تھا جیسے اڑن قالین پر کوئی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر لے۔ آج بھی یاد ہے ایک سال بھر کی بچی کو گود میں لیئے پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر جب میں اتری تب مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آ چکی ہوں۔ کہ میری ماں اتنی شدت سے اس بچی سے لپٹ کر، مجھ سے لپٹ کر کیوں روئی تھی؟ کیونکہ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد سال بھر میں ماں بھی نہ رہی۔ اور آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ وہ ایک سال یا میں نہ آتی تو شاید ماں زندہ رہتی یا شاید وہ چلی جاتی تو میں پھر آتی اسے رخصت کر کے دل کو یقین تو ہوتا کہ واقعی وہ چلی گئی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا اللہ کے ہر کام میں کوئی بھی حکمت وہی جانتا ہے۔ یہاں ہم نے آ کر اولادیں پیدا بھی کی اور کسی اولاد کو اپنے ہاتھوں مٹی بھی دی ۔ اپنی گودوں میں بھی کھلایا ۔ ہر درد، ہر خوشی آپکی زندگی میں آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ جو ہم نے جیا ۔ شاید وہ اپنے ملک میں کوئی نہیں جیتا۔ وہ تھا تنہائی کا عذاب جو ہمیشہ وابستہ رہا۔ یہ درد اپنی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکا۔ جب آپ کے پاس کوئی ایسا بھی نہ ہو جس کے سینے سے لپٹ کر ، کندھے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں ۔ جس کے ساتھ آپ بیٹھ کر دل کی بات کر سکیں۔ ہنس سکیں۔ دل کھول کر رکھ سکیں۔ یہ کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ کمی ہر پردیسی کے حصے میں آتی ہے ۔ ساری خوشیوں پر یہ کمی حاوی ہو جاتی ہے۔ بس اسی درد کا نام پردیس ہے۔ ورنہ کیا نہیں ہے یہاں۔ سب کچھ تو ہے۔ الحمدللہ شکریہ فرانس۔ شکریہ زندگی اور شکریہ میرے ہمسفر اختر شیخ صاحب۔ جن کی سنگت میں جس کی ہمت افزائی، مجھ پر کیئے بھروسے،  حوصلے اور مجھے دی ہوئی میری انسانی آزادی نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا ۔ اپنے بیگانوں کس کس نے اسے  کیسے کیسے نہ ورغلایا کہ اسے چھوٹ مت دے ، یہ تیرے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بھاگ جائے گی ۔ یہ کر لے گی۔ وہ کر لے گی ۔ مگر شاباش ہے اختر شیخ صاحب کی استقامت کو  جن کی وجہ سے میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔ ورنہ میں بھی صرف چولہے اور چوکے میں اپنا آپ جھونک کر یہاں اس کمیونٹی کی ہزاروں ڈگریوں کی دعویدار عورتوں کی طرح صرف دھواں ہو چکی ہوتی۔ لیکن اس نے مجھے دھواں نہیں ہونے دیا۔ اس نے مجھے روشنی بننے کا موقع دیا۔ میں جہاں جاؤں اجالے کی طرح پھیل جاؤں۔ اس  عنایت کا کریڈٹ واقعی میرے شوہر کو جاتا ہے۔ ہر وہ عورت جو میدان میں کچھ کر رہی ہے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اچھے راستوں پر گامزن ہے۔ اس کی شاباش اس کی شوہر کو بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی کامیاب مرد کے لیئے اس کی بیوی کا ساتھ ہمت حوصلہ اسے شاباشی کا مستحق بناتا ہے۔  میں نے اپنے گھر کی ہر ذمہ داری کو بخوشی نبھایا ۔ میرا شوہر میرے گھر اور اپنے بچوں کی طرف سے جبھی بے فکر رہ سکا ۔ اس کے بچے صاف ستھرے، تمیزدار پڑھائی پر توجہ دینے والے ہوں ۔ وہ گھر آئے تو میرا گھر کسی ملازمہ کے بغیر صاف ستھرا ، دھلے دھلوائے کپڑے، گرم کھانا تیار انکے آگے پیش کیا۔  میں نے میرا گھر ہمیشہ میرے شوہر کی کمائی سے ہی چلایا۔  اس نے مجھے جتنی چادر دی۔ میں نے اسی میں خود کو پورا کر لیا ۔ وہ ہڈ حرام،  نکما ، ویلیاں کھانے والا نہیں تھا ، اور میں فیشن پرست ، مارک کی ماری، پھوہڑ ، فضول خرچ اور ناشکری نہیں تھی ۔ اس لیئے زندگی میں پیسے کی وجہ سے تماشے کم ہی ہوئے۔ کئی ملکوں کی سیر کی ۔ اللہ کا گھر دیکھا ۔ پاکستان میں مہینوں بھی رہنا چاہا تو الف سے لیکر ے تک کا خرچ میری جیب میں اس نے اپنی کی کمائی کا دیکر بھیجا ۔ مجھے میرے یا اپنے رشتےداروں کا دست نگر نہیں ہونے دیا۔ کہیں میری کسی ضرورت کے لیئے مجھے ترسنے نہیں دیا۔ اور میں نے بھی کبھی اپنے آپ کو ضرورت سے نکل کر خواہش کے گٹر میں گرنے نہیں دیا ۔ کیونکہ جو ایک بار خواہشات کے گٹر میں گر گیا اسے دوبارہ سے اس سے پاک کرنے کے لیئے سمندروں کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے ۔
زندگی کی تمام کامیابیاں مجھے اسی کے حوصلے ہمت کے طفیل زندگی نے عطا کیں ۔ زندگی آسان ہے اگر آپ اسے سادگی اور کسی مقابلے کے بغیر گزارنا سیکھ لیں ۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہے جب ہر وقت آپ کو خواہشوں کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے رہنا ہے ۔ کیونکہ بھاگتے ہوئے آپ راستے کی دلکشی کا لطف کبھی نہیں لے سکتے۔ اس کے لیئے تو آپ کو دھیما چلنا پڑتا ہے ۔ کہیں رکنا بھی پڑتا ہے ۔ 
                               الحمدللہ
                   ۔۔۔۔۔۔




پیر، 4 مارچ، 2024

خاموشی نعمت ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں۔ کوٹیشنز

بہت عرصے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ خاموشی واقعی ہزار نعمت ہے۔
خاموشی آپ کو رک کر سوچنا سکھاتی ہے۔ 
سمجھنا سکھاتی ہے۔ 
بہت سارے نقصانات سے بچنا سکھاتی ہے۔
اور سامنے والے کو جواب دینے سے پہلے خود اس جواب سے مطمئن ہونا سکھاتی ہے۔
 تو
 واقعی خاموشی ہزار نعمت ہے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
     (ممتاز ملک. پیرس)

اتے پتے بچپن کے۔ کالم


اتے پتے بچپن کے
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)

بچپن کے دوست بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ کئی بار والدین کو کسی مجبوری سے ،چاہتے نہ چاہتے اپنا گھر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنا شہر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے علاقوں سے دور ہونا پڑتا ہے۔ یا اپنے بچوں کے اسکولز بدلنے پڑتے ہیں ۔  وہ بڑے ہوتے ہیں انہیں شاید یہ بات اتنا دکھ نہ دیتی ہو۔ ان کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں شاید اتنی غیر متوقع نہ ہوں، لیکن یاد رکھیں آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بہن بھائی یا آپ کے بچے جو ابھی ان تبدیلیوں کے اثرات کو ایک دم سے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ قبول کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوتے ۔کبھی بھی ان کو اچانک حیرت میں ڈالتے ہوئے ان کا سکول بدلنے اور علاقہ بدلنے کا ایسا جھٹکا مت دیجئے کیونکہ اس کے اثرات ساری زندگی ان پر حاوی رہتے ہیں۔ بچپن کے دوست زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔بچپن کی یادیں ہمیشہ دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں۔ وہ اچھی ہوں یا بری ۔ اگر کہیں کوئی بری یاد بھی وابستہ ہو تب بھی اپنے سکول کے دوست ، خاص طور پر آپ کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ایک دم سے ان سے چھیننے کی کوشش مت کیجئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں کسی کا سکول بدل جانا یا شہر دور ہونے کے بعد اپنے دوستوں سے رابطہ رکھنے کے لیے ان کو اپنے نئے گھر کے پتہ دینا یا فون نمبر دینا یا کوئی اور رابطہ ان کو دینا والدین ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے اپنے بچوں کے کچھ احساسات ہیں، جذبات ہیں دوستیاں ہیں، جنہیں وہ یاد کریں گے۔ ساری زندگی مس کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے رابطے میں رہیں۔ کبھی کبھار ہی صحیح، کیونکہ زندگی کی مصروفیات میں ہی  انسان اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ ویسے بھی ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا یا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا  کبھی ممکن ہو ہی نہیں سکتا ۔ ایسے میں کبھی کبھار بھولے بھٹکے کوئی چٹھی ، کوئی پتر، کوئی فون کال، کوئی میسج آپ کو پھر سے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ماضی کی میٹھی میٹھی سی یادیں تازہ کر جاتا ہے۔  اس لیئے ان کا سکول یا شہر بدلتے ہوئے اپنے بچوں کو پہلے تیار کیجیےُ۔ انہیں بتائیئے کہ ہمیں شہر یا علاقہ چھوڑنا ہے یا تبدیل کرنا ہے، کہ آپ کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ یا آپ کاروبار کے لیئے جا رہے ہیں. یا آپ بہتر مواقع کی تلاش میں جا رہے ہیں ۔ یا آپ ان کی بہترین تعلیم کے لیئے جا رہے ہیں یا کسی پریشانی کی وجہ سے آپ کو وہ جگہ چھوڑنی ہے ، تو بچوں کو ذہنی طور پر اس صورتحال کے لیئے کچھ عرصہ پہلے تیار کیجئے اور انہیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ جو ان کی خاص دوستیاں ہیں۔ جو بہت قریبی دوست یا سہیلیاں ہیں ان دو چار لوگوں کو ضرور وہ اپنا پتہ یا رابطہ دے کر جائیں۔  ان کا رابطہ اپنے ساتھ اپنی ڈائریوں میں لکھ کر لے کر جائیں ۔ ایک دوسرے سے نمبر ایکسچینج کریں تاکہ جب کبھی وہ بچپن کے اس دور کو شدت سے مس کرنے لگیں  تو خود کو کچھ دیر کے لیے اس رابطے میں لا کر بہلا سکیں۔  نفسیاتی طور پر بھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔  کیونکہ وہ کسی گہرے ٹروما سے بچتے ہیں۔  یاد کرنے کی وہ جو ایک تکلیفدہ اذیت ہے وہ اس سے بچ جاتے ہیں اور یوں اگر انہیں ایک دوسرے سے کوئی توقع بھی ہوتی ہے تو وہ زیادہ مایوس نہیں ہوتے۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں خود اس بات کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے کہ سب کچھ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور یوں وہ کسی تکلیف کا شکار بھی نہیں ہوتے۔  سچ پوچھے تو سچی دوستیاں تو یہی بچپن کی دوستیاں ہوتی ہیں نہ کوئی غرض نہ کوئی مفاد۔ ایک دوسرے کی مسکراہٹیں ہی ایک دوسرے کے لیے انعام ہوا کرتا تھا۔
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھنے والے ان بچوں میں سے کون کل کو راجہ بنے گا ۔ کون رانی بنے گی۔ کون شہزادہ ہوگا، اور کون فقیر۔ کون حکمران ہوگا اور کون مزدور۔  اس لیے اس بے غرض دوستی کے دور کو یاد رہنے دیجیئے اور آپ انہیں کاٹنے والی تلوار مت بنئیے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ بچپن کے یہ دوست ایک دوسرے کے ساتھ صرف غلط توقعات میں ہی وابستہ رہیں۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتیں، معصوم سی یادیں ، پہلی بار کی ہوئی شرارتیں،  پہلی بار کے تجربات ان بچپن کی یادوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سو خدارا اپنے بچوں سے بچپن کا یہ معصوم سا خزانہ مت چھینا کیجئے ۔جسے وہ ساری عمر تلاشتے رہتے ہیں۔
                   --------



جمعرات، 29 فروری، 2024

حروف کا احترام . کالم

حروف کا احترام 
تحریر :
(ممتاز ملک۔ پیرس)
 

پچھلے دنوں ایک خاتون کے لباس پر ایک بڑا ہنگامہ اور فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس لباس پر عربی کے الفاظ تحریر تھے۔ اس خاتون نے اس کا ایک لمبا سا فراک ٹائپ کا لباس پہن رکھا تھا۔ دیکھنے میں وہ عربی کی ایات سے مشابہ تھا۔ ظاہر ہے کسی مسلمان ملک میں جب آپ ایسی حرکت کرو گے تو اس کا مطلب انہیں جان بوجھ کر مشتعل کرنا ہے اور جب کہ وہ خود بھی خاتون مسلمان ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا الفاظ کی حرمت ہم لوگوں کے ذہن سے بالکل نکل چکی ہے ہم لوگ دین سے تو بیزار ہیں، لیکن حرمت اور تقدس کے معاملات سے بھی بیزار ہو چکے ہیں کیا ۔ الفاظ صرف عربی کے ہی کیوں ہوں، چاہے وہ اردو کے ہوں، ہندی کے ہوں، چائنہ کے ہوں، فرینچ ہوں، کسی بھی زبان کے الفاظ کیوں نہ ہوں، ان کی حرمت اور عزت قائم رہنی چاہیے اور بار بار اس چیز کو دہرایا گیا کہ عربی زبان سمجھ کر عربی سمجھ کر ایسا کیا گیا، سوال یہ ہے کہ
صرف عربی ہی کیوں کوئی بھی زبان ہو اس کے الفاظ کی حرمت ہوتی ہے یہی لباس پہن کر آپ کہیں بیٹھتے ہیں، اٹھتے ہیں، ٹوائلٹ میں جاتے ہیں اور کئی صاف اور گندے کام آپ اس لباس کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں ان میں جب حروف آ جاتے ہیں۔ انہی حروف سے نام بنتے ہیں۔ کلمات بنتے ہیں۔ انہی حروف سے ساری علمی چیزیں تیار ہوتی ہیں ۔ 
اس میں کوتاہی ہم سب لوگوں کی بھی ہے اس لیے کہ جب انگریزی زبان کے الفاظ کو ان کے اخبارات کے نمونوں کو فیشن بنا کر لباس میں استعمال کیا گیا۔ انگریزی الفاظ کو ڈیزائن کہہ کر ان کو استعمال کیا گیا تو ہم لوگوں کو اس وقت بھی اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ آواز اٹھانی چاہئے تھی اگر ہم میں سے کسی نے اواز اٹھائی بھی تھی تو اتنی کمزور تھی کہ ذمہ داران تک پہنچی ہی نہیں۔ اس لیئے جب بات بڑھتے بڑھتے اپنی زبانوں کے الفاظ تک آ گئی تب ہمیں پتہ چلا ۔ یہ وہی حساب ہے کہ جب کسی کے گھر میں آگ لگی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جب وہ تبش اپنے گھر تک آتی ہے تو پھر ہمیں اپنی فکر پڑتی ہے کہ لو اب ہم جلنے والے ہیں اس میں۔ تو ہم شور بھی مچاتے ہیں آواز بھی اٹھاتے ہیں، تو اس میں مجرم ہم سب برابر کے ہیں کہ آج ہمیں اپنی مذہبی زبانوں کو بھی اس طرح سے دیکھنا پڑا۔
 "اقراء" سے ہماری جو ابتدا ہوتی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے تجھے وہ علم عطا کیا جو تو نہیں جانتا تھا ۔
تو یہاں پہ "پڑھ"  کا لفظ خالی عربی زبان سے منسوب تو نہیں کیا گیا۔  ۔
 اس لیے حروف کا احترام کرنا چاہیے جو ہمیں جینے کا، دنیا اور اخرت کا طریقہ و آداب سکھاتے ہیں پھر وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔
 رہی بات قبروں پر ، مزارات پر چادریں ڈالنے کی تو ان پر پاؤں نہیں رکھے جاتے یہ بھی یاد رکھیئے۔
 فرق دیکھیئے وہ ٹھیک ہے یا نہیں ٹھیک ہے لوگوں کی اپنی مرضی اور صوابدید  پہ چھوڑ دیجیئے۔
 لیکن ان کے اوپر کوئی پاؤں نہیں رکھتا۔ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ان پہ ایات لکھی یا کچھ یا اگر وہ تبرکن بھی کسی کے گلے یا سر پہ رکھی جائیں تو کوئی  ان پہ  پاؤں رکھتا ہے یا انہیں کوئی گندی اور نجس جگہ پہ رکھتا ہو یا ساتھ لے کر جاتا ہو ۔
ایسے نہیں ہوتا تو برائے مہربانی اس فرق کو ملحوظ رکھتے اور میں ہر طرح کے الفاظ چاہے وہ انگریزی ہو ، چائنیز ہو ہندی ہو اردو ہو کوئی بھی زبان ہو ہر طرح کے الفاظ کا احترام کرنا ضروری سمجھتی ہوں اور ان کو اپنے بدن پر لپیٹ کر سر پر رکھنا ایک اور چیز ہے۔ سر عزت والی جگہ ہے۔ اس پر کچھ لکھا ہے تو اپ کہیں جاتے ہوئے اس کو اتار کے رکھ دو گے، لیکن آپ اپنے بدن پر لپیٹ کر اس کو جب آپ کے بدن سے  اچھی بری بو بھی نکل رہی ہے۔ آپ کے بدن سے پسینہ بھی نکل رہا ہے۔ آپ کے بدن سے پاکی ناپاقی بھی وابستہ ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کہ اپنے بدن پر الفاظ کو لپیٹ کر انہیں بے توقیر نہ کیا جائے۔ 
کچھ کا اعتراض ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصویر والے جائے نماز بھی تو لوگ استعمال کرتے ہیں اور ان پر چوکڑی مار کر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایسی  جائے نماز استعمال کرتے ہیں وہ بے خبری میںکرتے رہے۔  ان کو بھی اب جیسے جیسے معلوم ہو رہا ہے وہ بھی اس کو استعمال نہیں کر رہے۔ احتیاط کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو اب نئی جائے نمازیں  آ رہی ہیں تقریبا  سادی ہی جائے نماز آ رہی ہیں اور ان پر جو بیٹھتے ہیں تو وہ سجدے والی سائیڈ پہ تصویر ہوگی جہاں پہ سجدہ کیا جاتا ہے آپ کبھی بھی نہیں دیکھیں گے کہ پیروں کی سائیڈ پہ تصویر یا اس کے اوپر الفاظ لکھے ہوں  اور وہ جو نقش ہوتا ہے وہ شاید وہ لوگ جو تبرکن بناتے رہے ہیں کہ جہاں وہ اس تصور کو اجاگر کرنے کے لیے کہ مسجد نبوی کی یا خانہ کعبہ کی تصویر اگر بنتی ہے تو ان کی سجدے والی جگہ پہ ہوتی ہے۔ میں نہیں مان سکتی کہ کوئی بھی مسلمان جو رتی بھر بھی علم رکھتا ہو یا احساس رکھتا ہو وہ جان بوجھ کر ایسی تصویر یا  ایسے حروف کے اوپر بیٹھے گا۔ سو احتیاط کیجیئے کہ ایک ہی نقطہ کافی ہے ہمیں محرم سے مجرم بنانے کے لیئے ۔
                 -----

■ ● حسن/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

حسن 
(گیت)

کی دساں تہانوں میں ، کنی سوہنی لگدی آں 
نکی نکی گل اتے ، منہ جدوں وٹدی آں

 کنا ہوئے زور آور ، میرے اگے ٹکدا نہیں 
 پل وچ زور اوناں ، ساریاں دا کڈدی آں 

 ناں میرا حسن اے تے، اکھ چہ غرور بڑا 
من ہوئے سٹیا وی ، کئی وار چکدی آں 

 اپنے غرور دے وچ ، کسے نوں نئیں تکدی میں 
وسے ہوئے گهر آپی ، کئی وار پٹدی آں 

 اپنے مزاج دی میں،  آپ اک ملکہ واں 
اپنی تے ہٹ تو میں،  کدی وی نہ ہٹنی آں 
●●●


■ کول تیرے بہندے ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا






جے کول تیرے بہندے

غم دور ساتھوں رہندے
فیر درد جدائیاں دے
ہنس ہنس کے اسی سہندے
           جے کول تیرے رہندے


پچھیا نہ کدی تُوں وی
دسیا نہ کدی میں وی
دل وچ نہ کدی رکھدے
گل دل دی تینوں کہندے
          جے کول تیرے رہندے 

اِتراؤ نہ صورت تے
مٹی جئی مورت تے
اناں اکھیاں نے تک لےنے
چن چڑھدے کئی لیندے
جے کول تیرے۔۔

 رسوا ہوئے پیمانے
 برباد اے میخانے
معصوم بھلے کیونکر
بے قدراں دے وس پیندے 
جے کول تیرے۔۔۔۔۔

شمع جو جلے بیٹھی
  پروانے ملے بیٹھی
ممتاز اونوں ساڑے 
جو کول کدی ویندے
جے کول کدی۔۔۔۔۔
●●●



■ کارے دن/ پنجابی کلام۔ او جھلیا



 کارے دن


کاریاں راتاں کارے دن
بُھلی پے گئے سارے دن

ہن او یاداں وچ رہندے نیں 
جیڑے ساتھ گزارے دن

اسی وفاواں کردے رہ گئے
طعنیاں دے تُو چارے دن

دل میرے توں پچھے کوئی
ہنجووان دے پچکارے دن

 ممتاز لنگائیاں  بے بس راتاں 
نہیں لنگدے بیچارے دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کارے دن تے کالیاں راتاں
بدبختاں لئی چنگیاں باتاں 

■ پیپسی ‏کولے/ ‏پنجابی ‏کلام۔ او جھلیا


چھڈو سارے پیپسی کولے
گیساں بھریاں جھوٹے رولے

لسی شربت پی کے دیکھو 
کیویں بند نساں نوں کھولے

گرمی گرمی سڑ گئے لوکی
کدی سکنجبیں پی کے بولے

چاواں پی پی ساڑ کلیجے
شکر کولا سٹ خاں اولے

تخ ملنگا ستو ورگا
ہے کوئی جیڑا گرمی رولے
 


■ حال سنایا/ پنجابی کلام/ او جھلیا

حال سنایا

کل جد گلاں گلاں دے وچ 
اونہے دل دا حال سنایا 

تد من اے گل مننی پے گئی
ککرے کنج انگور چڑہایا

سچی کہہ گئے کہون والے
 ہر گچھہ کیونکر زخمایا

ہر بندے نے مینوں لوگو
اک نوا ای سبق پڑھایا

سوچاں دے گھنگھرو بندھ جیون
تا تا تھیا ناچ نچایا 

روٹی بن کے اکھاں اتے
جیب نوں گروی جا رکھوایا

او نہیں اگے بولن دیندا 
جو ہڈی پربندھ کرایا 

آس دا دیپک بال کے رکھیں 
تاں کر جانیں کدھروں آیا 

کج انوکھا نال نہیں ہویا
کیوں ممتاز سیاپا پایا
●●●

■ مر جاڑاں اے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

مر جاڑاں اے

اک دن میں وی مر جاڑاں اے
واپس جان نوں کر جاڑاں اے

موڈھے اتے لے کے لوکاں
چھڈ کے میرے گھر آڑاں اے

رب سوہنے توں بخش دویں تے
اگے راہ سنور جاڑاں اے

جے تو رسیو نال میرے تے
میں تے ہر دم سڑ جاڑاں اے

اس دن کلا چھڈیں نہ تو
جد ہر شے  بکھر جاڑاں اے

اناں کرم ممتاز تے کر دئیں 
رحم تیرے تے تر جاڑاں اے
●●●

■ جی ہوندا اے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

جی ہوندا اے

جی نوں جی نال جی ہوندا اے
من لوو جی کی ہوندا اے

دھوکھے دے نال جے کر نہ دو
زہر وی کدھرے پی  ہوندا اے

ہتھ مسیحا دا ہووے تے 
پھٹ فیر ہر اک سی ہوندا اے

جیڑا شک توں اولے ہووے
اکثر مجرم ہی ہوندا اے

ہاسا بہتا جس دن ہس لو
اس دن رونڑاں وی ہوندا اے

سچا رشتہ پیسے دا بس 
باقی سب فرضی ہوندا اے

مثل محافظ دی ممتاز 
بوہے دی کنڈی ہوندا اے
             ●●●

روح دے کپڑے سیون والا
ستھرا جا درزی ہوندا اے

قرضی ہوندا اے
منشی ہوندا اے
(جو کج اکھاں ویکھن سچ اے)

■ ادھیڑ دتے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا


ادھیڑ دتے


زبان دے وچ زہر سی بھریا کلام سارے ادھیڑ دتے 
لحاظ کوئی نہ رہن دتا مقام سارے ادھیڑ دتے

فرعونیت دے خدائی دعوے دے اپنے پلے تے کچھ نہیں سی
جو چل ریا سی نہ او وی چھڈیا نظام سارے ادھیڑ دتے

 سبق سی جس وچ برابری دا کتاب خورے گواچ گئی اے
حفیظ موہن وکی تے سندھو شیام  سارے ادھیڑ دتے

بہتیرے موسم گزار دتے دلاں تے صدمے اٹھا کے پر ہن
غماں نوں کڈیا اے اپنے اندروں الام سارے ادھیڑ دتے 

ہزار واری سی جان حاضر جے دوستاں نے پکار ماری
مگر انہاں دوستاں نے ساڈے نیام سارے ادھیڑ دتے

کسے دے پلے وی کچھ نہیں پر عجیب ممتاز دوڑ سب دی
سزا جزا اک مذاق بن گئی انعام سارے ادھیڑ دتے 
●●●

■ اوچا نک/ پنجابی کلام/ او جھلیا


اوچا نک

ایڈا اوچا نک ہر تھاں، پھس جاندا اے
نکی نکی گل اتے، نس نس جاندا اے 

نک دی اچائی نوں ،گھٹاڑں  وچ فیدا اے 
گلاں ہون سدھیاں تے ، رچ رس جاندا اے

جھگڑے مکان لئی، لمبے چوڑے کم نہیں 
لنگدیاں بندہ بس، زرا ہس جاندا اے

اینی جئی گل ، راہ دل والے کھولدی
پہل کرے جیڑا اوہو، وچ  وس جاندا اے
 
ویلا جدوں آوے فیر، لگ پتہ جاوے جی
اپنا بیگانہ کون ،موقع دس جاندا اے

اینا نہ غرور کرو، اپنے مقام تے 
پیچ سارے ٹلیاں دے ، ٹیم کس جاندا اے

عزتاں وچ فیدہ، ممتاز  نقصان نہیں 
بڑا کچھ گنوا کے، پا چس جاندا اے
●●●

■ مینوں باہر نہ کر ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا


مینوں باہر نہ کر


جدوں دل کردا گتوں پھڑ کے 
توں گھر توں مینوں باہر نہ کر

ذرا جئی دیدے عزت مینوں 
بھلے فیر کدی تو پیار نہ کر

لیکے میراحسن  جوانی تے
کھو طاقت تے لاچار نہ کر

میتھوں لیکے جند میری ساری
ایویں رند والی تکرار نہ کر

تو  گھر دا دے مینوں ناواں 
 در در نہ رلا انکار نہ کر

میں ود کے پائے تیری جھولی
جذبے نوں پس دیوار نہ کر

 تیرے جئے ویکھے ممتاز کئی 
         میرے دل تے اوچھے وار نہ کر
                        ●●●




■ بھار بنا کے / پنجابی کلام۔ او جھلیا


  بھار بنا کے
کلام:
 (ممتازملک ۔پیرس)

ہاسے دی گل رکھ لیندے نے دل دے اتے بھار بنا کے 
 میری جے کر سننی نہیں سی کی فیدہ وچکار بٹھا کے

جس گل پئے گا اوہو جانے جس تن لگے اوہو سیکے
پھاہ نوں سوہنا ناں دتا اے پھلاں دا اک ہار بنا کے

سدھے سادے شرفا دی گل بن گئی کیکھڑ بدبختاں دا
اج کل لوکی جت جاندے نے جیب اپنی تلوار بنا کے

عمراں لگیاں عزتاں دے نال جد تک پردے کلے کول سی
شملے نیویں کرنے پے گئے شریکیاں نوں غمخوار بنا کے

جو کچھ لبھے شاکر ہو جا نہ لبھے تے صاہر ہووو 
کی ملنا اے نااہلاں نال امیداں بیکار لگا کے

چل ممتاز تماشا مکیا شاماں پہلے گھر نوں پہنچو
کھڈے تھاں تھاں راہی پے گئے  بے فیضے دلدار بنا کے
                  ●●●


■ انمول نی مائے/ پنجابی کلام۔ او جھلیا




 انمول نی مائے 
کلام: (ممتازملک ۔پیرس)


اے جذبے انمول نی مائے 
نہ ایناں نوں پَھول نی مائے

 مڑ کے اے نہیں آون والے
بول نہ ایسے بول نی مائے

لُکدے لُکدے لُکا بیٹھی آں 
درد بڑے انمول نی مائے

اونوں یاد میں کر کر روواں 

سا وچ وسے ڈھول نی مائے

اک نافرمانی دے بدلے 
ککراں  وچ نہ رول نی مائے 

رہ گئے ہارسنگھار وی میرے 
رہ گئے ٹھٹھے ٹھول نی مائے 

ممتاز سیاڑاں آپ نوں  کیویں 
شیشہ کرے مخول نی مائے 
●●●


■ مک جاندی/ پنجابی کلام۔ او جھلیا

مک جاندی


اگے ود کے سنبھالو  نئیں تے فیر
گل مکدے مکدے مک جاندی

جھڑی اتھرو والی وس پے تے 
فیر سکدے سکدے سک جاندی

چین کچھنی پیندی کج پہلاں
گڈی رکدے رکدے رک جاندی

کئی واری دھوکے اتے وی  
اکھ ٹکدے ٹکدے ٹک جاندی

 میوہ لدیا ہووے لچکیلی جئی 
ڈالی جھکدے جھکتے جھک جاندی

نہ ویلے سر ہوش آوے تے 
جند رلدے رلدے رل جاندی

ممتاز لکاوے دل جناں 
کہانی کھلدے کھلددے کھل جاندی
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/