ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 4 اپریل، 2024

جسم پردہ ۔کالم

بے راہ رو معاشرہ
تحریر:
     (ممتازملک.پیرس)


ہم عمومی طور پر جنسی بے راہ رو معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہاں پر عورت کو بچپن ہی سے اپنی حفاظت کے لیے خود کو ایک لبادے میں رکھنا ضروری ہے ۔ وہ نام نہاد آزادی پسند عورتیں جو موم بتیاں اور بینر لے کر خاص خاص مواقعوں پر بھاشن دینے کے لئے ،غیر ملکی پیسوں کے زور پر آوارگی کے  جھنڈے لے کر نکلتی ہیں ۔ ان کا نہ کسی دین سے تعلق ہے ، نہ معاشرت سے۔ وہ پیسے کے لیئے اپنی ہر قیمت لگوانے کو تیار رہتی ہیں۔ لیکن اس معاشرے کی عام عورت کو اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے تو اسے اپنے مذہبی اور معاشرتی دائرے میں واپس آنا ہوگا۔ ایک لبادہ، ایک جبہ، چاہے وہ برقعہ ہو، چاہے وہ چادر ہو، اسے اپنے اوپر اوڑھ کر باہر نکلنا ہوگا۔ تاکہ وہ ان بے راہ روی کا شکار جنسی ہیجان میں مبتلا ذہنی طور پر عیاش مردوں کے معاشرے میں خود کو کوئی اشتہار، کوئی سویٹ ڈش، بنا کر ان کے سامنے نہ پروسے۔ ان کے اندر کا شیطان آپ کی باتوں میں یہ کہنے سے کہ "پردہ تو دل کا ہوتا ہے " کیا خدا کو چیلنج نہیں کرتا۔ آپ کا دل کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن آپ کا جسم سب کی نظروں میں شکار بنتا ہے۔ روز روز کے حادثات، روز روز کے واقعات، جنسی حملوں کی آئے دن کی وحشت ناک خبروں کے باوجود، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پردہ بس دل کا ہی کر لینا ہے اور اللہ تعالی کے احکامات کا مذاق اڑا کر آپ محفوظ رہیں گے تو معذرت کے ساتھ ، نہ ہمارے ملک کے لوگ ابھی اس قابل ہیں اور نہ ہمارے ہاں کے مرد یورپ کے ان مردوں کی مسابقت کر سکتے ہیں۔ جو بے لباس عورت کو بھی جاتے دیکھ کر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمارے مردوں کو ان تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی صدیاں لگیں گی۔ لہذا اتنے عرصے تک عورت اپنے آپ کو نہ ان کے لیئے مارکیٹ کرے گی اور نہ ہی گاجر مولی بنا کر پیش کرے گی۔ اپنی حفاظت آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے حدود کے اندر رہ کے ہی کرنی ہوگی اور اللہ کے احکامات کے لیئے آپ کو اللہ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ حفاظت انکساری اور عاجزی کے ساتھ حکم کو مان لینے میں ہے۔
سو بھڑوں کے جس چھتے میں ہماری عورت رہتی ہے۔ اسے ان کے ڈنگ سے بچنے کا انتظام ان بھڑوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے غیر فطری اور غیر حقیقی مطالبات کرنے کے بجائے خود کو باحیا لباس میں اور ایک جبے یا عبایا کے حصار میں لانا ہو گا۔ 
اور کسی عبایا یا برقعے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے جسم کے خد و خال کو پوشیدہ رکھے اور اپ کو نمایاں نہ ہونے دے جبکہ آج کل جس قسم کے عبایا اور برقعوں کے نام پر جو کچھ خواتین پہن رہی ہیں وہ بھی برقعے اور عبایا کے نام پر ایک تہمت بنا دی گئی ہے ۔ اتنا کام اس قدر ذری اور اس قدر اس کے اوپر کڑھائی اور کشیدہ کاری کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے نہیں بھی دیکھنا تو وہ جاتے جاتے مڑ مڑ کر اسے ضرور دیکھے گا۔ جیسے کوئی عبایا نہ ہوا دلہن کا کوئی لباس ہو گیا۔ جو ہر کسی کو دیکھنا لازم ہے۔ اور وہ دیکھنا چاہے گا ۔ برائے مہربانی عبایا یا برقعہ کا مقصد اپنے آپ کو غیر نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ نمایاں نہیں کرنا ۔ تو ڈھیلا ڈھالا ایک سادہ سا موسم کے حساب سے ملبوس اپنے کپڑوں کے اوپر اوڑ لیا جائے اور چادر سے بہتر اس لیئے ہوگا یہ کہ آپ کا ہاتھ اپنا کچھ سامان بیگ وغیرہ اٹھانے کے لیے خالی رہے گا اور آپ کو اسے چادر کی طرح زیادہ سنبھالنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
آپ کا جسم اللہ کی جانب سے دی گئی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت آپ کا فرض ہے ۔ اور آپ اسکے لیئے پروردگار کو جوابدہ بھی ہیں۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/