ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 11 جنوری، 2018

آو ہم زینب کو منائیں ۔ سراب دنیا

آو ہم زینب کو منائیں 

ڈرئیے اس دن سے جب
زینب خود سوال کرنے والوں میں کھڑی ہو گی
اور ہم مسئول  بنے سر جھکائے
کہیں اس روز بے ردا نہ کر دیئے جائیں اس دن کی دہشت  سے بچنے کے لیئے
آو خاموشی کو توڑدیں
مل کر اب آواز اٹھائیں
اب خاموش اگر رہ جائیں
کس منہ سے آقا کو  بلائیں
کیونکر آب کوثر پائیں
ہم بھی پیاسے نہ مر جائیں
زینب کے مجرم کو ڈھونڈیں
اور اسے سولی پہ چڑہائیں
زینب ہم سے روٹھ چکی ہے
آو ہم زینب کو منائیں
اپنی ہر زینب کو بچائیں
😭😭😭

غیرت اور چناو



کبھی مٹی کی سادہ سی صاف ستھری رکابی  میں چٹنی ڈال کر آپ کو احترام سے  پروس دی جائے ....😍
ساتھ میں سونے کی  تھالی میں بنا اسے  دھوئے بریانی ڈال کر آپ کے سامنے پٹخ کر رکھ دی جائے ...😬
تو آپ کیا کھانا پسند فرمائیں گے . 😤
مجھ جیسے لوگ تو چٹنی کی رکابی کو ہی تبرک سمجھیں گے  . ...❤
زندگی کے معاملات بھی انہیں دو مثالوں جیسے ہیں . معاملہ بس ہماری غیرت اور چناو کا ہوتا ہے 😤
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس 

جمعہ، 5 جنوری، 2018

ملک کی حفاظت سب کا حق سب کا ذمہ




ملک کی حفاظت سب کا حق سب کا ذمہ 
ممتازملک. پیرس 



سنا ہے کسی احمق نے اسمبلی میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ قادیانیوں  کی فوج میں داخلے پر پابندی لگائی جائے
یہ کیا تک ہے بھائی . ہم اس بات کی بلکل سپورٹ نہیں کرتے..
یقینا کسی احمق نے ہی  یہ تجویز پیش کی ہو گی.
قادیانی بھی دوسری اقلیتوں کی طرح پاک فوج میں شامل ہونے کا پورا حق رکھتے ہیں . کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں . یہ درست ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں  لیکن مذہب  کہ بنیاد پر کسی کو بھی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کیسے دیا جا سکتا ہے . ایک گھر میں رہنے والے چار لوگ چاہے کسی بھی مذہب ،رنگ ،نسل یا ذات کے ہوں جب انہیں اس گھر کا مالک قرار دیا جاتا ہے تو وہ اس گھر کی سلامتی اور حفاظت  کے لیئے  ایک جیسا ہی  کردار ادا کرتے ہیں . کیونکہ وہ گھر ہی ان کی پہچان اور جائے پناہ ہے . اب اگر کسی ایک کو اس گھر کا مالک بنا دیا جائے اور باقی کسی کو اس کی ملکیت کا یقین نہ ہو تو اس گھر میں آگ لگے تو اس ایک کے سوا کوئی اسے بجھانے کو آگے نہیں بڑھے گا . کوئی اس گھر کی اینٹیں بھی ان کے سامنے اٹھا کر لے جائے تو بھی وہ گونگے بہرے ہی رہیں گے . کیونکہ  وہ جانتے ہیں کہ ہمارا کونسا یہ اپنا گھر ہے کہ ہم خود کو اس کے لیئے خوار کریں . ہمارا تویہ عارضی ٹھکانہ ہے . نہ رہا تو کوئی اور ڈھونڈ لینگے اس لیئے ہوش کے ناخن لیجیئے .خدارا اس ملک سے محبت ہے تو اس میں رہنے والے ہر انسان کو اس کی ملکیت کا برابر کا حصہ دار سمجھئے . محض ان کے مذہب کی بنیاد پر ان پر پاکستان کی نوکریوں کے دروازے بند کرنا یا یہ کہنا کہاں کی عقل مندی ہے کہ انہیں پاکستان سے محبت کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا حق نہیں ہے .
کیوں مذہب کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ جاہل سیاستدان .....
ہمارا خیال ہے کہ  کسی بھی ملک  کے  ہر شہری کو  اس کی ذاتی خوبیوں خامیوں اور تعلیم و تربیت کے حساب سے ہر عہدے تک جانے کی اجازت ہونی چاہیئے . اس سے وہ اپنےآپ کو اس ملک  کا ذمہ دار اور حقدار شہری سمجھتے ہیں .
ویسے بھی سچ بتائیں کیا اللہ نے میرے اعمال کا حساب آپ سے لینا ہے یا
میری کوئی سزا آپ کو دینی ہے ؟
کیا آپ کے اعمال اور سزا و جزا  میرے حصے میں آئیں گے ؟
نہیں ناااااا
تو پھر سیاسی اور ترقیاتی کاموں میں مذہب کو گھسیڑ کر صرف ملا کو کیوں خوش کیا جائے ...
کیا قرآن پاک یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی ملا کو اسلام کا ٹھیکہ دیا تھا ....
اگر ہاں تو حوالہ کوڈ کریں ...
اگر نہیں تو خدا کے لیئے  ہم خود  کو ملا کا شکار بنا کر طالبان اور داعش کا لقمہ بننے سے بچائیں.
اگر ہمیں اس ملک سے پیار ہے تو اس کے ہر رنگ ، ہر نسل اور ہر مذہب کو مکمل آزادی اور محبت دینا ہو گی .

                ------------------

منگل، 2 جنوری، 2018

ہم سب گدھے ہیں ؟



پیرس میں پاکستان ایمبیسی نے ذاتی دوستانے کی بنیاد پر تھوک کے حساب سے ان گھر بیٹھے افراد کو بھی تعریفی  اسناد تقسیم کیں جن کا پہلے پاکستانی میلے سے دور دور تک کوئی واسطہ اور حصہ ہی نہیں تھا . یہ ہماری ایمبیسی کی فراخدلی اور دوست نوازی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے . گویا اسناد نہ ہوئیں . پکوڑے ڈالنے کی ردی ہو گئی ...
لو بھئی تم بھی لے لو
ارے ارے تم بھی لو
ارے ہاں ہاں آپ کا فون کرنا ہی کافی ہے  سند پلیٹ میں رکھ کر آپ کے گھر پہنچ جائے گی فکر نہ کریں
ارے ارے آپ کے گھر کاکا ہونے والا ہے اسی خوشی میں میلے کی یادگار سند بھجواتا ہوں  جناب 😜😜😜

ہم سب کام کرنے والے گدھے
ہم سب ریہرسلیں کرنے والے گدھے
ہم سب فنانس کرنے والے گدھے
اپنی مہربان ایمبیسی کو سلام پیش کرتے ہیں اور آئندہ
ہمیں امید کرنی چاہیئے اور ایمبیسی ابھی سے ہمیں بھی گارنٹی دے کہ ہم بھی گھر میں آرام کریں گے اور ہماری اسناد ایمبیسی تیار رکھے گی انشاءاللہ آخر ہم ہیں پاکستانی ہم تو بولیں گے 😁

بدھ، 27 دسمبر، 2017

واقف حال



بچہ بندوق سے نہیں ڈرتا
کیونکہ وہ موت کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے.
ممتازملک. پیرس

فحش گوئی اور دعوی حب رسول ص۔ کالم

     


   فحش گوئی اور دعوی حب رسول ص ع و
   (تحریر/ ممتازملک. پیرس)

پچھلے دنوں ہمارے سامنے نئے نئے کردار آئے اور اپنے نرالے کاموں سے لوگوں میں اپنی پہچان چھوڑ گئے . یہ صاحبان اس سے پہلے نہ کسی نے دیکھے نہ سنے . انہیں آپ موسمی بٹیرے بھی کہہ سکتے ہیں . ان کی حیثیت اس وقت اور زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب یہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر  ہمیں ایکدوسرے کے لہو سے غسل دینے  کا پروگرام لیکر کوئی کھیل رچانے کو میدان میں پہنچ جاتے ہیں . انسان کی زبان ہی اس کا پہلا تعارف اور اس کے خاندان کی پہچان ہوتی ہے . اس حساب سے ہمارے پاس کس کس خاندان اور کس کس کی تربیت کے نمونے اکٹھے ہو چکے ہیں . یہ ایک لمحہ فکریہ ہے . ایک مثال تو یہاں  دیکھ لیں کہ
 جو لوگ غلیظ اور فحش گو ہوتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا تک جائز نہیں  ہے .
کیونکہ غلاظت بکنے والا پہلے گندگی اپنے دل دماغ میں پکاتا ہے پھر اسے اپنے نگاہوں اور زبان سے الٹتا ہے.
اور ایسا آدمی جب نبی پاک ص  کے نام کی دہائی دیتا ہے تو صرف منافقت کرتا ہے اور منافق کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ پاک  کیا فرماتا  ہے یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں.  سو پلیز ایسے لوگوں کی وکالت  کسی بھی رتی بھر ایمان رکھنے والے  کو بھی زیب نہیں دیتی . افسوس کا مقام ہے کہ ہم اس زمانے میں سانس لے رہے ہیں جہاں گالی دینا یا فحش گوئی کرنا اتنا عام ہو چکا ہے کہ خود کو علماء کہنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے . کیا قرآن پاک میں ان باتوں سے سختی سے روکا نہیں گیا . حتی کہ ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے . لیکن ہمارے ملا صاحبان اور علمائے دین اس قسم کے احکامات کو یا آیات کو کبھی عام آدمی تک نہیں پہنچاتے . وہ ہمیشہ وہ آیات اور احادیث وہ آدھی ادھوری اس وقت ہی بیان کرتے ہیں  جو ان کے مخصوص مواقعوں پر ان کے مفادات کو پورا کر سکیں . یا ان کے لیئے کوئی محفوظ راستہ بناتی رہیں .  اگر دھیان دیں تو آج ہر عالم یہ ہی کچھ کر رہا ہے . ہمیں آج تک کبھی کسی مسجد کے سپیکر سے بدکاروں اور زانیوں کے بارے میں احکامات الہی کیوں سنائی نہیں دیتے؟
. ہمیں کیوں بیوی اور بچوں کے تحفظ کی آیات اور احادیث منبر سے سنائی نہیں دیتیں ؟
ہمیں کیوں ذکوات وقت پر ادا کرنے اور مسافروں کو کھانا کھلانے یا ان کی مدد کرنے کی احادیت و آیات سنائی نہیں جاتیں ؟
ہمیں کیوں یتیموں کا مال کھانے پر عذاب الہی کے احکامات نہیں سنائے جائے ؟
ہمیں کیوں ہمارے منبر سے یتیم و مسکین کی پرورش اور ان پر شفقت کے انعامات و خوش خبریاں  نہیں سنائی جاتیں ؟
ہمارے منبر اپنی آنکھوں کو نیچا رکھنے والی آیات و احادیث کیوں نہیں سناتے ؟
ہمارے علماء کیوں ہمارے سپیکرز پر اپنی جوانیوں کو گناہوں میں لتھڑنےسے بچانے والے پر انعامات کیوں نہیں گنوائے ؟
ہمارے منبر سے اپنی بزرگی کی حفاظت اور گناہ سے بچنے کی ترغیب کیوں نہیں دی جاتی ؟
یہ سب کام کس کے ہیں ؟  جنہیں کرنا چاہیئے  وہ دھرنوں اور چرنوں میں بیٹھ کر غلاظت اگل اور نگل رہے ہوتے ہیں . تو ہم جیسے  کم علموں کو یہ علم اٹھانا ہی پڑتا ہے .
بلکل اس چڑیا کی طرح  جو ابراہیم علیہ السلام کے لیئے بھڑکائی ہوئی آگ پر اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لا لا کر پھینکتی تھی . کسی نے ہنس کر پوچھا اری چڑیا تیری چونچ کی ان قطروں سے کیا آتش نمرود بجھ جائے گی ؟ تو اس نے جواب دیا میں جانتی ہوں کہ میری چونچ کے ان قطروں سے یہ آگ نہیں بجھے گی لیکن میں قیامت کے روز اس آگ کے بجھانے والوں میں ضرور شمار کی جاؤنگی نہ کہ تماشا دیکھنے والوں میں.....
                 ----------





ہفتہ، 16 دسمبر، 2017

بریکنگ نیوز




باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سسرال میں ماری جانے والی اور خوار کی جانے والی خواتین کی اکثریت
سچ بولنے کے مرض میں مبتلا تھی ..
جن میں کچھ کو کئی کئی سال بعد منافقت کے ٹیکے لگوانے پر بظاہر بچایا جا سکا 😉
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس  

ڈو مور


اندر کی  باتیں

یہ جو سسرائیلی ہوتے ہیں نا
یہ ہمیشہ بہو سے مطالبہ کرتے ہی کہ
ڈو مور 😠
ڈو مور 😠
اور بہو کا دل کرتا ہے کہ کاششش
میرا بس چلے تو ان سب کو دوں لات
اک ہور 😧
اک ہور 😧
😁😁😁😁
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس  

دل کا کیل

ایک خط ماں کے نام

                 دل کا کیل
             (تحریر/ممتازملک. پیرس)


ہر زمانے میں اکثر ہی مائیں اپنی بیٹیوں سے پریشان یوتی ہیں کہ بڑی بڑبولی ہے . بہت سست ہے .بڑی نکمی ہے . بڑی ہی کام چور یے . بڑی منہ پھٹ یے . بڑی بدتمیز ہے ....
کیا بنے گا اس لڑکی کا ؟ کون بیاہے  گا اسے ؟
اور پھر ایک دن اس کے نصیب کا جوڑ اسے بیاہ کر لے ہی جاتا یے . بابل کے گھر کو پردیس بنا کر وہ کسی اور کے گھر کو اپنا گھر بنا کر اسے  سجانے میں ماہر ہو جاتی ہے . پیسے بچانے سیکھ جاتی ہے . تمیز سے بات خرنا سیکھ جاتی ہے ، باتوں کو چھپانا اور زبان کو دانتوں میں دبانا بھی سیکھ جاتی ہے ، آنسو پینا بھی سیکھ جاتی ہے ، صبر کرنا بھی سیکھ جاتی ہے ، رنگ رنگ کے پکوان بنانے سیکھ جاتی ہے اور پھر ایک دن آتا ہے کہ . ہر ملبے والا اس کے  سگھڑاپے کی تعریف کرتا ہے
 اور وہ سب کو اکھلاپنے ہاتھ سے پکا کر کھلا  کر خوش ہوتی ہے. سی سی کر داد لیتی ہے  لیکن اپنی میکے کی نادانیوں اور نافرمانیوں کا کیل اس کے دل میں گڑھا رہ جاتا ہے . جب اس کے اندر سے آواز آتی ہے واہ ری سگھڑ خاتون خانہ ساری دنیا سے تعریفیں سمیٹنے والی  تیرے ہاتھ کی روٹی کا کوئی نوالہ تیری ماں کے منہ میں نہ گیا ...میرے ابو نے میرے ہاتھ کے کھانے کا ذائقہ کیوں نہ چکھا ...میں نے اپنی ماں کو اپنے ہاتھ سے پکا کر کیوں کچھ نہ دیا ...کوئی کپڑا اپنے ہاتھ سے سی کر اپنی ماں کو کیوں نہ پہنایا .... دو گرم آنسو آنکھوں سے پھسل کر اس کی گود میں جا گرتے ہیں  . واقعی بہت دیر یو گئی امی جی...
 میں نے آپ کو سینے سے لگا کر کیوں کبھی آپ کو اپنی محبت کا احساس نہ دلایا . سا ری دنیا کو آئی لو یو کہنے والے ہم اپنی ماں اور اپنے ہی باپ سے آئی لو یو کہنے سے کیوں ہچکچا جاتے ہیں . جنہوں نے ہمیں پاوں پاوں چلنا سکھایا . زبردستی دنیا کی ہر لذت کو ہمارے منہ میں رکھا . اپنی حیثیت سے اچھا ہمیں پہنایا اوڑھایا لیکن انہیں سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار ہم کبھی نہیں کر پاتے . سنو پڑھنے والو سننے والو
ماں اور باپ جیسے  مہربان رشتے انسان کو دنیا میں ایک ہی بار ملتے ہیں اور جو ان انمول نگنیوں کو کھو دیتا ہے وہ فقیر ہو جاتا ہے . چاہے دنیا کے خزانے کتنے بھی بھر جائیں لیکن اس کے دل کی تجوری ہمیشہ ہی خالی رہتی ہے .
امیر ہونا ہے تو ان کے جسم کے لمس کو بھی محسوس کرو
کبھی ان کے پاوں دبا کر
کبھی انکے ہاتھ چوم کر
کبھی انہیں جپھی دیکر
کبھی ان کا چشمہ بنوا کر
کبھی ان کی پسند کی جوتی دلا کر
کبھی ڈاکٹر سے ان کا چیک آپ کروا کر
کبھی ان کے لیئے سوٹ یا شال خرید کر
کبھی انہیں اپنے ہی بچوں کی لوٹ مار سے بچا کر
کہ خبردار ماں یا باپ کے نام پر آئی کوئی شے نہ تو آپ کی کوئی بہن ہاتھ لگائے نہ بھائی استعمال کرے
انہیں خود سے لپٹا کر اپنے بچپن کا قرض لوٹانے کی کوشش تو کیجیئے.
تاکہ بعد میں یہ سوچ کر دل نہ مسلنا پڑے کہ
ہائے نی مائے کبھی دیکھ تو سہی تیری نکمی بیٹی کتنی سگھڑ ہو گئی ہے . کاش میں تجھے اپنے ہاتھ سے بنے سموسے کھلاتی .
تجھے بازار کی بنی  پوریاں  پسند تھی نا ...آج تیری بیٹی اس سے بھی اچھی پوریاں بناتی ہے مگر تیرے منہ میں اس کا لقمہ تک نہیں رکھ پاتی .آج کھانے والے میرے پکوان کی تعریف کرتے ہیں تو میرے دل میں گڑا کیل مجھے اور درد دینے لگتا ہے کہ تیری نکمی کے سگھڑ ہونےکی خوشی مناوں یا اپنے دل کا کیل  دباوں ❤💔💘
                                             ---------------------



بدھ، 6 دسمبر، 2017

راستے جدا ٹہرے / کالم


راستے جدا ٹہرے 
ممتازملک. پیرس 

ماں اور باپ کی محبت فطری محبت ہوتی ہے وہ اس کو خون کے لوتھڑے ہونے سے لیکر بھرپور جوان ہونے تک پروان چڑہاتے ہیں اس کی ضروریات اور شوق پورے کرتے ہیں چڑیا کے بچے کی طرح اسے اڑنا سکھاتے ہیں۔
 لیکن جب وہ اڑنا سیکھ لیتا ہے تو کہاں کہاں کس کس شاخ پر بسیرا کرتا ہے، یا کس ماحول  میں جاتا ہے،  کس انداز سے فیصلے کرتا ہے، یہ  سب اکثر انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا .
بہن بھائی جن کیساتھ اس کی نسل کا تار فطرت نے جوڑ رکھا ہے . وہ بھی اس کے ساتھ لڑتے جھگڑنے ایک دوسرے سے مفاد حاصل کرتے زندگی کے گول چکر پر آ کر اپنی اپنی پسند کی راہ  منتخب کر کے اپنے اپنے خاندان میں گم ہو جاتے ہیں . وہ آپ کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ ان سے کبھی کبھار رابطے میں آتے ہیں .
نکاح ایک انتہائی خوبصورت رشتہ ،جس کے دو بول ایک عورت اور مرد کو ایسے تعلق میں باندھ دیتے ہی کہ گویا وہ ایک دوسرے کا لباس ہو گئے۔ دو انسانوں کے دل کے تار ایک دوسرے سے  خالق نے اس طرح جوڑ دیئے کہ ایک تار کو چھیڑنے پر دوسرا تار خود بخود اسی سر میں بجنے لگتا ہے . دونوں کی خوشی، غمی، نفع ، نقصان، عزت اور بے عزتی جتنی اس رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتی ہے شاید وہ کسی بھی دوسرے رشتے میں اس طرح وابستہ دکھائی نہیں دیتی.
لیکن کچھ لوگوں کی زندگی میں زندگی کا ساتھی کبھی ایسا مل جائے جو اس کی سوچ اور تصور یا اس کی امید سے  نوے ڈگری کے اینگل  پر کھڑا نظر آتا ہے . یا جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کی پشت سے  غائب ہی ملتا ہے . آپ کی خوشی اور غم سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی یا آپ کی آنکھ کا آنسو اس کے دل پر نہیں گرتا تو جان لیجیئے کہ دو غلط لوگ ایک مقام پر اکھٹے ہو چکے ہیں . ایسے میں شروع ہوتی ہے روز کی چخ چخ...  ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، شک کر کر کے اس کا خون جلانا، اس کی کامیابیوں سے حسد کرنا ، اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ،  گھریلو تشدد کا شکار ہونا (مرد و عورت دونوں ہی اس کا شکار ہو سکتے ہیں ) ایکدوسرے کی زندگی سے آرام اور سکون کو تباہ کر دینا، تحفظ کے احساس سے خالی زندگی، اپنے شریک زندگی  کیساتھ دوستی کا فقدان ... .
یہ سب کچھ انسان کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتا  ہے کہ کیا اسے اپنی مرضی اور خوشی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
لیکن ہمارا معاشرہ  ہمیں نام نہاد عزت کی دہائی دیکر، کبھی بچوں کا واسطہ دیکر ، کبھی  لوگ کیا کہیں گے کا بینڈ بجا کر تاحیات اس ذلت بھری زندگی میں جڑے رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے اور اس فیصلے کو بھی لینے سے روکتے رہتے ہیں جس کا حق ہمیں ہمارا قانون، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی دیتی ہے . 
ہمارا دین تو عورت کو پورا پورا حق دیتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کی اگر شکل بھی پسند نہیں ہے تو اسے چھوڑ سکتی ہے لیکن ہماری عورت کبھی اپنا یہ حق کسی چھوٹی موٹی بات پر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی . اور جب وہ ایسا سوچ لے تو سمجھ لیں وہ صبر کہ آخری منزل تک  آ پہنچی ہے .
شادی پسند نا پسند کا معاملہ ہو تو شادی سے پہلے علم بغاوت بلند بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں شادی کے بعد آپ کی زندگی دوذزخ بنا دی جائے تو بھی بڑوں کے طعنے پر عورت  یہ سوچ کر اولاد پیدا کر لیتی ہے کہ چلو یہ آدمی اپنے بچے کی محبت میں ہی ٹھیک ہو جائیگا. لیکن پوتڑوں کے بگڑے بھی کبھی ٹھیک ہوئےہیں کیا؟
اور ویسے بھی اولاد تو چند سال میں ویسے ہی بیاہ کر چھوڑ کرچلی جائے گی تب تک بھی اکثر ماں ہی اور کبھی کبھی اکیلا باپ ہی قربانی دیتا ہے . تو کیا یہ ظلم نہیں ہے .کچھ بھی کر لو بعد میں اولاد سے انعام تو یہ ہی ملتا ہے کہ آپ نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟
انہیں کون بتائے کہ کس نے اپنی جوانی ،اپنی طاقت، اپنے ہنر، اپنی زندگی ،تمہاری خاطر راکھ کر دی .
اور ذرا سی بھی انسانیت اس مرد میں ہے تو اسے عزت سے اپنی زندگی سے رخصت کر دے . ورنہ یہ حق وہ اپنے پاس تو رکھتی ہی ہے. ہمارےمعاشرے میں بچے پہلے عورت کے پاؤں کی بیڑی بن جاتے ہیں اور جوان ہو کر اسی عورت کے گلے کا پھندا. شادی کو عورت کے لیئے تحفظ اور سکون کے رشتے کے بجائے شاید اسے توڑنے اور اذیت دینے کا ایک ذریعہ بنا دیا جاتا ہے . جہاں نہ اس کی کوئی ذات باقی رہے، نہ اس کا کوئی ہنر بچے، نہ ہی اس کا کوئی شوق سلامت رہنے دیا جائے .اس کی اپنی شخصیت کو مرد اور بچوں کے جوتوں کے نیچے کچل دیا جائے . جبکہ اسے بھی اللہ نے ایک جیتے جاگتے دل دماغ اور کچھ صلاحیتوں کیساتھ اس دنیا میں پیدا کیا ہے .
افسوس اسے انسان سمجھنے اور اس کے جذبات کی قدر کرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں.  لیکن خدا کو جوابدہ سبھی کو ہونا پڑے گا، اسے انسان سمجھنے والوں کو بھی اور نہ سمجھنے والوں کو بھی ۔                                                              ---------    



ہفتہ، 2 دسمبر، 2017

یا محمد نور مجسم



یا محمدؐ نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
تصویرِ کمال محبت تنویرِ جمالِ خدائی
تیرا وصف بیاں ہو کس سے تیری کون کرے گا بڑائی
اس گردِ سفر میں گم ہے جبریلِ امیں کی رسائی
اے مظہرِ شانِ جمالی اے خواجہ وبندہ ءِ عالی
مجھے حشر میں کام آجائے میرا ذوقِ سخن آرائی
مااجملک تیری صورت مااحسنک تیری سیرت
مااکملک تیری عظمت تیری ذات میں گم ہے خدائی
یہ رنگِ بہارِ گلشن یہ گل اور گل کا جوبن
تیرے نورِقدم کا دھوون اس دھوون کی رعنائی
تیری ایک نظر کے طالب تیرے ایک سخن پر قرباں
یہ سب تیرے دیوانے یہ سب تیرے شیدائی
تو رئیسِ روز شفاعت تو امیرِ لطف و عنایت
ہے ادیبؔ کو تجھ سے نسبت یہ غلام ہے تو آقائی

جمعہ، 24 نومبر، 2017

انٹرویو بزم خواتین


     سوالات فیس بک گروپ بزم خواتین
    جوابات.. ممتاز ملک. پیرس


سب ممبرز بتائیں۔کہ اپنے لائف پارٹنر یا محبوب جو بھی ہو آپ کی زندگی میں۔
آپ دونوں ایک دوسرے کو کیسے ٹریٹ کرتے ہیں۔

۱-
اُس کی جیب خالی کرنا یا اُس کے لئے خود حاتم طائی کی قبر پر لات مارنا؟
۲-
اُس کی باتیں سُننا زیادہ مزا دیتا ہے۔یا آپ زیادہ بولتی ہیں۔
۳-
دونوں میں سے کئیرنگ کون ہے؟
۴-
غصہ کس کو زیادہ آتا ہے؟اور کون سے ایشوز پر؟اور لڑائی کے بعد منانے میں پہل کون کرتا ہے۔مطلب کہ منتیں کرنے کی لاٹری ہمیشہ کس کی نکلتی ہے۔
۵-
شاپنگ آپ کرتی ہیں اُس کے لئے یا وہ کرتا ہے آپ کے لئے۔
۶-
ڈائیلاگز آپ زیادہ بولتی ہیں یا وہ؟
۷-
آپ دونوں کو ایک دوسرے میں سب سے زیادہ کیا چیز یا عادت اچھی لگتی ہے؟اور سب سے زیادہ الرجک ایک دوسرے کی کس بات سے ہوتے ہیں۔
۸-
فرمائش زیادہ تر کس چیز کی کرتے ہیں ایک دوسرے سے؟
۹-
دونوں میں نرم مزاج کون اور غصیلا کون؟یعنی کہ گزارا کون کرتا ہے زیادہ۔
۱۰-
ہر بات اور ہر کام میں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ لیتے ہیں۔یا اپنی اپنی مرضی ہوتی ہے؟
۱۱-
مذھبی اور سنجیدہ مزاج کون ہے؟اور آذاد خیال ٹینشن فری اور مست مزاج کون؟
۱۲-
رومانٹک کون ہے زیادہ اور بورنگ کون؟



لو پھر جگر تھام کر سنو بہنو 😜


1-
پیسہ مجھے بس ضرورتا ہی درکار ہوتا ہے ورنہ اکثر گھر سے نکلوں تو جیب میں  ہاتھ ڈالکر معلوم ہوتا ہے کہ دو یورو ٹکٹ کے بھی نہیں ہیں.
اندازہ لگا لیں ویسے مانگوں تو مل جاتے ہیں شوہر سے الحمداللہ
"مانگنا" شرط یے 😜
2- میں زیادہ بولتی ہوں سو میرا کوئی راز نہیں ہے ....نقصان
جبکہ میاں صاحب گھنا ایم اے 😜
3-
میں زیادہ کیئیرنگ ہوں ہر ایک کا ہر موقع مجھے ہی ازبر ہوتا ہے
نک سان 😬
4-
مجھے غصہ اسی لیئے آجاتا ہے جب میرے کسی خاص موقع پر سب کومے میں چلے جاتے ہیں. وہی گھنا شوہر ہر بار  منانے تو آ جاتا ہے پر باز نہیں آتا دل جلانے سے 😨
5-
خود  ہی کرتے ہیں اپنی اپنی شاپنگ
6-
میں ہی بولتی اس امید پر
کہ شاید سچ ہو  جائے یا میری کسی بات کا اس چکنے گھڑے پر اثر ہو جائے.
7-
ہم دونوں ہی بذلہ سنج ہیں اور ہماری شادی بچائے رکھنے میں یہ ہی گرینڈ پاور ہے
بری عادت میری ہر کسی پر رحم کھانے کی عادت انہیں بری لگتی ہے  اور
انکی بات دھیان سے نہ سننے اور ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے کی عادت مجھے
بیحد بری  لگتی ہے.
8-
کوئی خاص نہیں
9-
میں زیادہ نرم بھی ہوں عام طور پر اور غصیلی بھی اصولی باتوں ہے.
مجھے جھوٹ دھوکہ اور نظرانداز کیئے جانا  قطعی پسند نہیں ہے
جبکہ ہمارے شیخ صاحب کو پتہ ہے میرے جیسی اور کوئی نہیں ملنی 😂
10-
اکثر آپس میں مشورہ کر لیتے ہیں جہاں ضروری ہو
11-.
ہم دونوں ہی ...لیکن
مذہبی میں کچھ زیادہ
12-
میں رومینٹک
وہ بورنگ 😄
ہن آرام اے 😂😁😁😁
ممتازملک. پیرس

مبارک جمعہ بلیک کیوں کریں ؟




آخر "بلیک " فرائیڈے ہی کیوں ؟
بلیک سیچرڈے یا بلیک سنڈے  کیوں نہیں ؟؟؟
جناب یہ انگریز یورپئین اور امریکن کہیں تھوکتے ہیں تو اس کی بھی کوئی لوجک اور مفاد ان کی  سکیم میں ہمیشہ پہلے سے موجود ہوتا ہے بنا کسی مقصد  کے یہ اپنے ابا کو سلام بھی نہیں کرتے. .
"وچلا " مقصد سمجھا کرو بابیو 😜😜😜
ممتازملک. پیرس
MumtazMalikPoetryBlog.BlogSpot.Com 

پیر، 20 نومبر، 2017

زنانہ بدہضمی


زنانہ بدہضمی
ممتازملک. پیرس


ہم خواتین میں سب سے بڑی ایک ہی خرابی ہے جس  کے سبب ہم گھر اور باہر کئی بار نقصان ہی اٹھاتی  ہیں لیکن باز نہیں  آتی ہیں
وہ یہ کہ ہم اپنے پیٹ میں کوئی بات رکھنے کو تیار نہیں ہیں . مرد لوگ ٹھیک ہمارے لطیفے بناتے ہیں .
سب سے پہلے تو اپنے شوہر کے سامنے اپنی بڑ بڑ بدہضمی روکی جائے .
ہر بات کام کی ہو ،
رشتہ داروں کی ہو ،
محلے داروں کی ہو،
اور تو اور صفائی والی ماسی کی بھی ہو، فورا اپنے میاں سے بیان کرنا شروع کر دیتی ہیں .
میاں پہلے مزے لیکر سنتے ہیں بعد میں جب جب جو جو موقع اسے بیوی پر غضب نکالنا یا طعنہ دینا ہو انہی باتوں کو جو بیگم بے پھول بنا کر  اس کی جھولی میں  ڈالے تھے . اسے گملے میں لگا  لگا کر اس کی طرف اچھالے جاتے ہیں ....
سو پلیز خواتین ہر بات جہاں بھی ہو اسے امانت سمجھ کر وہیں  ہم چھوڑ دینے کی عادت اپنائیں
یقین مانیئے زندگی میں سکون ہو جائے گا .
آزمائش شرط ہے
اور یاد رکھیئے
سارے میاں ایک سی فطرت کے مالک ہوتے ہیں سوہنیو
بس کوئی بول کے دکھاتا ہے کوئی رول کے 😄
ممتازملک. پیرس
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
MumtazMalikParis.BlogSpot.Com



ہفتہ، 18 نومبر، 2017

ام المنافکین کی جادو گریاں



   ام المنافکین کی جادو گریاں
     ممتازملک. پیرس

پیرس دنیا کے خوبصورت اور ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک ہے . ہر نئی ٹیکنالوجی, فن اور ہنر یہاں سب سے پہلے نمائش پذیر ہوتا ہے . دنیا یہاں اپنے شعبوں کی مہارت حاصل کرنے آتی ہے .
وہیں ہماری پاکستانی کمیونٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے . لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہماری کمیونٹی کے اکثر افراد شارٹ کٹ اور یاری دوستی کے سر پر ان لوگوں کے سر پر پاؤں رکھ کر اپنا قد بڑھانے  کی کوشش کرتے ہیں . جو اپنے کام میں دن رات  محنت کر رہے ہوتے ہیں.
اور جب محنت کرنے والے کی محنت کے برابر ہی کیا اس سے کہیں زیادہ کا پھل اس ناکارہ انسان کو طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا جائے تو محنت کرنے والوں کا غصہ اور تڑپ یقینی ہوتا ہے  . ان گندی مچھلیوں کا صفایا کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ اس وقت اور بھی ضروری ہے جب ایسے افراد کے نوازنے والے ہمارے اپنے ہی سفارتخانے میں پاکستان کے خزانے سے یہ سب کچھ کرنے میں ملوث ہوں .
کون ہیں وہ کالی بھیڑیں جو ان دو نمبر خواتین و حضرات کے لیئے سفارتخانے کے دروازے کھل جا سم سم  کہہ کر کہلواتے ہیں ؟
ان سبھی چور دروازے تلاشنے والی ایک خاص یا بدنام خاتون کا تذکرہ ہمارا آج کا موضوع ہے . یہ خاتون اپنی میٹھی میٹھی  چرب زبانی سے لوگوں کو اپنے پھندے میں لانے کے بعد ان کے ذریعے اپنی شہرت کی سیڑھیاں تیار کرتی ہے . لیکن "خواتین کو راستہ دینے اور آگے بڑھنے کے مواقع دینے" جیسے دلکش نعرے کے ساتھ خواتین کو اپنے دام میں لانے والی یہ خاتون پچھلے پچیس سال میں کسی بھی ٹیم کیساتھ دو چار ماہ سے زیادہ کبھی کام نہیں کر سکی . خود کو رائٹر کہتی ہے.  نیٹ ہر سارا دن بیٹھی فیک آئی ڈیز کے زریعے لوگوں کی جاسوسی کرتی  ہے . ہزاروں تحروں کی دعویدار خاتون کی کوئی تحریر ایک سو صفحات تک کی کتابی صورت میں بھی موجود نہیں ہے . آج تک یہ اپنے گھر سے (دباؤ زور زبردستی یا منت ترلے سے ہی سہی ) کسی پروگرام میں کرسی اور مائیک پر کنفرمیشن کے بغیر کہیں کسی پروگرام میں نہیں گئی . کیونکہ وہ جانتی ہے کہ گھر سے پکا کیئے بنا انہیں پبلک میں بیٹھنا پڑیگا جو ان کی شان اعلی کے خلاف ہے . اور اپنے ہنر کے بل پر یہ پیشکش انہیں کریگا کوئی نہیں 😜
اس خاتون کی تازہ واردات یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے میلہ 2017 میں پاکستانی کمیونٹی نے دن رات محنت کی . ان کی تعداد ساٹھ سے ستر کے قریب بنتی ہے . جنہیں تعریفی اسناد کے لیئے ایمبیسی میں دعوت دی گئی اور اسناد تقسیم کرنا تھیں
 لیکن وہاں اس جیسی خاتون اور جانے اس جیسے کتنے مردوزن کی اسناد  بھی تیار کی گئی جو دو سو کے قریب ہیں . جو نہ تو اس میلے کے آرگنائزر میں تھے نہ پرفارمرز  میں تھے. اور نہ ہی اس میلے کے فنانسرز میں تھے .یہاں تک کہ یہ خاتون اس روز میلہ دیکھنے والوں میں بھی شامل نہیں تھی . لیکن اس نے اپنے لیئے اور اپنی بیٹی کے لیئے گھر بیٹھے سفارتخانے کی کالی بھیڑیں کے ذریعے تعریفی اسناد بنوائیں.یہ تو اب ہمارے محترم سفیر پاکستان ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ اسناد تھیں یا ریوڑیاں  🙊🙉🙈
اور تو اور گھر بیٹھے اپنے مردانہ واقفان کے ذریعے ہی نہ صرف میلے کی ہیروئن بننے میں ایڑھی  چوٹی کا زور لگا چکی ہیں .بلکہ دو تین خوشامدی خیالی قصیدے میلے سے پہلے ہی اسکی کامیابی پر اور ہمارے نئے سفیر پاکستان محترم معین الحق صاحب کی شان میں لگا چکی ہیں . چور دروازے سے جا جا کر پھول کیک اور قصیدوں کی  پٹی ان کی آنکھوں پر باندھتی رہی . اور اپنے ان کاموں کے قصیدوں کا زور ان کے کانوں میں پھونکتی رہی جس کا ایک ورک بھی کتابی شکل میں  کسی نے کبھی نہیں  دیکھا  جس کی وجہ شہرت  ہی لوگوں سے رقوم اور فائدے لیکر ان کے قصیدے لکھنا ہے . معصوم خواتین کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے دو نمبر عزت کمانا ہے .جبھی تو ان کی  عظیم تحریریں پچھتر فیصد قصیدوں پر ہی مبنی ہیں. دوسروں کو اس حد تک اپنی چکنی چپڑی باتوں سے برین واش کر کے مجبور کر دینا کہ وہ ان کے کہنے پر ہی . .دن کورات اور رات کو دن کہنے پر مجبور ہو جائے ....
بھئی اب اتنا مکھن ہو گا تو کون کافر نہیں پھسلے گا .😆😆😆
یہ وہی بدنام زمانہ  آڈیو  سکینڈل میں ملوث خاتون  ہیں جن کی بدنامی کی کالک دھونے کے لیئے ہم نے اپنے ہاتھ بھی کالے کر لیئے تھے . لیکن ڈسنا بچھو کی فطرت ہیں سو ہم بھی دو بار روپ بدلنے کی امید پر ڈسے گئے . پیرس کا کوئی بھی لکھنے والا اس خاتون کیساتھ چار دن سے زیادہ کام نہ کر سکا . آخر کیوں نہ کر سکا. کیونکہ سامنے تعریف کا پٹارہ کھولنے والی یہ خاتون اسی انسان کی پشت پر اس کی جڑیں کاٹنے اور اسے بدنام کرنے کا کام خوب زورشور سے کرنے پر یقین رکھتی ہیں . جھوٹ بولنا اور منافقت کرنا اس کی فطرت میں گندھا ہوا ہے . انسان اپنے دشمن سے تو بچ سکتا ہے لیکن منافق کے وار سے صرف اللہ ہی کسی کو بچا سکتا ہے . 
  جو جب چاہے رات کے دو بجے سر سے دوپٹہ اتارے مردوں کی ٹولی میں تنہا کھڑی نظر آتی ہیں. تو کبھی حجاب اور جبہ پہنے دین کے نام پر سودے بازیاں کرتی دکھائی دیتی ہیں . 

 ہر بار نئی اور معصوم خواتین کو پھانس کر ان کے ساتھ کسی تنظیم یا گروپ کا فیتہ کاٹتی  ہیں. اس ڈرامے کےلیئے بھی لازمی یہ ہے کہ صدر وہ خود ہونی چاہئیں اور ان نئی ناتجربہ کار معصوم خواتین سے اپنے لیئے قصیدے لکھوا کر ان کو ایسا روپ دکھاتی ہیں کہ وہ انہیں کک آوٹ کر کے چلتی بنتی ہیں یا یہ دو ماہ میں  انہیں دودہ سے بال کی طرح نکال باہر کرتی ہیں کسی سوال کے پوچھنے یا حساب  کتاب کرنے کے جرم میں .
قصیدے کے بدلے ہماری ایمبیسی ان خاتون  کو سرکاری خزانے سے کس خدمت کے عوض دو ہزار یا پانچ ہزار یورو کی گرانٹ عنایت کرتی ہے . آج تک ہمیں  نہ اس کا جواب ملا،نہ سمجھ  آسکی .
وہ کون سا کام ہے جو فرانس کی ایک لاکھ سے زیادہ کی پاکستانی کمیونٹی کو نظر نہیں آیا لیکن ہماری ایمبیسی کے کچھ خاص افراد کو نظرآ جاتا ہے . وہ سب جادو گر سلمانی سرمہ دار آنکھوں والے سفارتخانہ اہلکار کون ہیں  اور اس خاتون سے کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں . جسے ان کے نامعلوم کاموں پر حصہ لیئے بنا ہی کبھی اسناد اور کبھی اعزازات سے گھر بیٹھے ہوئے  نوازا جاتا ہے .  ہمیں امید ہے کہ پاکستانی سفارتخانہ ان تمام کالی بھیڑیں کو بے نقاب کریگا اور اور ہمارے سوالوں کا کھلے دل سے جواب دیگا . یا پھر ان چور راستوں کو اعلانیہ کنفرم کر دیگا کہ ہم سبھی پاکستانیوں  کو وہ  ساری جادوگریاں سکھانے کا انتظام  کریگا تاکہ ہمیں بھی گھر بیٹھے  ہی یہ سبھی انعام واکرام و اسناد حاصل ہو سکیں .
  ہم سب وضاحت کے منتظر ہیں .





ہفتہ، 11 نومبر، 2017

خوشی منانا



میں بھی طلاق سلیبریشن کی سب سے بڑی حامی ہوں اگر انسان کسی عذاب میں مبتلا ہو اور اسے اس سے نجات ملے تو وہ خوشی مناتا ہے نا..
 اور ہم اسے مبارک بھی دیتے ہیں تو پھر ایک انسان (عورت یا مرد کوئی بھی ) شادی کے بندھن میں گھٹ گھٹ کر روز جی اور روز مر رہا ہو تو اسے اس بندھن سے نکلنے پر اللہ کا شکر بھی کرنا چاہیئے. اور جشن بھی منانا چاہیئے
 آہو 😁
کوئی میں جھوٹ بولیا ..
 کوئی میں کفر تولیا...
 کوئی نہ بھئی کوئی نہ بھئی کوئی نہ 🙈🙉🙊 ممتازملک. پیرس

ویکھ تے سہی.۔ میرا انتخاب ۔ بلھے شاہ



وے بندیا ویکھ تے سہی ،
اے پنکھ پکھیرو کی کردے نے

نہ او کردے رزق ذخیرہ ،
نہ او بھُکے مردے نے

کدی کسے نے پنکھ پکھیرو
بھُکے مردے ویکھے نے ؟

بندے ای کردے رزق ذخیرہ
بندے ای بھُکے مردے نے

بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ


وے بندیا ویکھ تے سہی ،
اے پنکھ پکھیرو کی کردے نے

نہ او کردے رزق ذخیرہ ،
نہ او بھُکے مردے نے

کدی کسے نے پنکھ پکھیرو
بھُکے مردے ویکھے نے ؟

بندے ای کردے رزق ذخیرہ
بندے ای بھُکے مردے نے

بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جمعرات، 9 نومبر، 2017

چھپے راز بتائے .....اقبال ۔ سراب دنیا



اقبال تیرا پھر سے تعارف. ....
(کلام/ممتازملک. پیرس) 



اقبال تیرا پھر سے تعارف میں کراؤں
تجھ کو میں نئی نسل سے اک بار ملاؤں 

 اقبال نے قرآن میں چھپے راز بتائے 
جو اس میں ہیں پیغام وہ پیغام سنائے
موجوں کو طلاطم  سے کیا آشنا اس نے 
اقبال نے سوئے ہوئے جذبات جگائے 


ظلمات کے ہر بحر میں گھوڑے بھی دوڑائے
پیروں میں جوانوں کو جو استاد بنائے 
انداز زمانے کے بدل ڈالے تھے جس نے
افلاک پہ گر اس نے کمندوں کے سکھائے 


اقبال کے شاہین کو بیدار ذرا کر
کرگس کے مقابل اسے تیار ذرا کر 
جا بیٹھا جواہر کی نگہبانی پہ جا کر
یہ کام ہے ناگوں کا خبردار اسے  کر

جو خود سے کرے پیار حکمران ہے لعنت
 کر پائے حفاظت نہ نگہبان ہے لعنت
مر جائے کوئی بھوک سے دروازے پہ جسکے
مفلس ہے بھلا اس سے وہ دھنوان ہے لعنت 

دمدار ہے گر کام سفارش سے مفرکر
چوروں کی طرح چھپ کے نہ اسناد لیا کر 
جس کام میں محنت نہیں داخل کہے اقبال  
ممتاز تو  شاباش سے بھی دور رہا کر


----------------------------


منگل، 7 نومبر، 2017

عزت کا بھاء




عزت کا بھاؤ
ممتازملک. پیرس 



ڈیرہ اسماعیل خان میں سولہ سالہ لڑکی کو برہنہ کر کے گلیوں میں گھمایا گیا . کسی ارباب اختیار کے ہاں پر جوں تک نہ رینگی. "پھر کیا ہوا " کے کلچر نے ہمیں بے غیرتی کی حد تک بے حس کر دیا ہے
میں حیران پریشان ہوں کہ یہ اور اس جیسے بےشمار جرائم  ملک کے کسی بھی  علاقے میں ہو رہے ہیں آج تک  کسی بھی مجرم کو آج تک کسی مرد  نے ہی کیا کسی ملا نے عالم نے بھی  نہ سولی چڑہایا نہ ہی اس کی موت کا مطالبہ کیا . درپردہ اس لڑکی یا عورت کا ننگا جسم ہر مرد کو کوئی نہ کوئی شیطانی مزا دے ہی رہا ہو گا نا.....
ہر ایک دیکھنے والے سننے والے مرد نے حسب توفیق اس عورت کی آبرو ریزی میں اپنا حصہ ڈالا
کسی نے اس لڑکی کیساتھ  ہاتھ سے زنا کیا
کسی نے آنکھ سے زنا کیا
اور جس کی پہنچ اس کی جسم تک نہ ہوئی اس نے اس کے ذکر سے ایک دوسرے کو آنکھ مار کر زبان اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اس زنا کا چٹخارہ لیکر اپنی شیطانی روح کو قرار پہنچایا ....
سبھی شیطان ہو چکے ہیں کیا ؟ کوئی غیرت مند مرد نہیں بچا ہمارے معاشرے میں جو ایسے سؤروں کو سولی چڑھا کر دہائیوں تک عورت کو اس کی مرضی کے بنا چھونے یا چھونے کی خواہش کرنے والوں کو  نشان عبرت بنا سکے ؟
کیا واقعی کوئی نہیں؟؟؟؟؟
یا
اسوقت تک کوئی نہیں ..جب تک آپ  ارباب اختیار کی کوئی اپنی بیٹی لوٹ نہ لی جائے ...
اگر اسطرح اور اس شرط پر اس معاشرے میں  یہ جرم رک سکتا ہے. عورت کا حسب توفیق و قدرت زنا رک سکتا ہے .تو خدا کرے ان بااختیار لوگوں کی بیٹیوں پر یہ دن جلد ہی آ جائے تاکہ اسے بھی کسی عام  عورت کی عزت کی قیمت کا احساس ہو سکے . اسے معلوم ہو سکے کہ اللہ نے بہت  سی چیزیں بلا رنگ و نسل و مذہب ہر انسان کو ایک سی عطا کی ہیں.
ہر انسان کی پیدائش ایک ہی طرح رکھی گئی
ہر انسان دنیا میں روتے ہوئے پیدا ہوتا ہے
ہر انسان کی رگوں میں خون کا رنگ ایک سا رکھا گیا
ہر انسان کے جسم دل اور دماغ کے کام ایک سے رکھے گئے
ہر انسان کے کفن کا رنگ ایک سا رکھا گیا
ہر انسان کی عزت  اور عزت نفس ایک ہی سی رکھی گئی ہے
ہر انسان کے آنسوؤں کا رنگ ایک  سا رکھا گیا ہے
ہر انسان  کے لیئے موت لازم اور ایک سی رکھی گئی ہے
ہر انسان کی پیٹ کی بھوک ایک سی رکھی گئی ہے
ہر انسان کے کھانے کو منہ کی ضرورت اور سمجھ  ایک سی رکھی گئی ہے
پھر کیا بات ہے ہم انہیں خانوں میں بانٹ کر کم اور زیادہ کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں . شاید غیرت کا فرق ہے یہ پیمانہ اللہ نے ہر انسان میں اس کی اوقات کے حساب سے رکھا ہے . اور جس معاشرے میں عورت کو ننگا کر کے اپنے علاقے میں گھمانے والا مونچھوں پر تاؤ دیکر زندہ رہ سکتا ہے اس علاقے کے ہر مرد کو پہلی فرصت میں اپنا نام ہیجڑوں کی فہرست میں درج کروا لینا چاہیئے .......

                                                         ----------------------
                     





کھلا خط



بہت ہی محترم
 اور
پیارے
                      Ahsen Qureshi بھائی
 السلام علیکم

سنا ہے آج کل آپ کچھ علیل ہیں . تو فکر ہوئی . سوچا آپ کے نام ایک کھلا خط بھیجوں. کسی کبوتر کے پاوں سے اس لیئے نہیں باندھا کہ کسی اور کے چوبارے پر نہ جا بیٹھے . "مسوم" سا پرندہ ہی تو ہے اس سے ہم خوامخواہ ہی ای میل والی امیدیں باندھ لیتے ہیں اور اکثر ہمارا خط " شیدے سنار "کی تھائیں کسی" میدے لوہار" کے ہاتھ جا لگتا ہے . اور اپ توجانتے ہی ہیں دونوں کا اپنی اپنی جگہ اس خط کے ساتھ ہونے والا سلوک کیا ہو گا...
جلدی سے ٹھیک ہو جائیں . ہمیں آپ سے ابھی بہتتتت سے بحث مباحثے کرنے ہیں .اور بہت کچھ سیکھینا ہے ..
آپ سب سناروں میں، میں ایک لوہار ہوں.کوئی بات بری لگے تو معاف کر دیا کیجیئے .
 میرا آپ سب سے محبت اور عزت کا بڑا پیارا سا رشتہ بن دیکھے ہی قائم ہو گیا ہے.
باقی "تسی سارے ڈریور تے میں خالی کنڈیکٹر"
 ہر وقت پائیدان  پر کھڑا رہنا میرا شوق بھی ہے اور مجبوری بھی .
سمجھا کریں نااااا
اللہ پاک آپ کو لمبی عمر،صحت،عزت اور ایمان کیساتھ عطا فرمائے .
آمین
 طالب دعا
 ممتازملک 

اتوار، 5 نومبر، 2017

کیوں؟ ؟؟


کیوں؟؟؟

ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکے کے اماں باوا کو لڑکی کی سات پشتوں کا شجرہ چاہیئے ہوتا ہے...
اور شادی کے اگلے ہی روز
اسے وہ لڑکی یتیم و یسیر چاہیئے .
گھر بسانا ہے تو 😈
(ممتازملک . پیرس)
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
MumtazMalikparis.blogspot.com


ایک ہی خواہش / کوٹیشن



ایک ہی خواہش


زندگی نہ تو اتنی لامحدود ہے
اور نہ ہی بیکار
کہ اسے کسی ایک ہی خواہش پر قربان کر دیا جائے .
سو جو لمحہ موجود ہے اس میں سامنے آنے والی خوشی اور مواقع کو یادگار بنایئے.
ممتازملک .پیرس
چھوٹی چھوٹی باتیں
MumtazMalikParis.BlogSp
ot.com



جمعہ، 3 نومبر، 2017

سینیئرز کا مقام





جو قومیں اپنے سینئیرز کو گھر بٹھانے کا سوچ لیتی ہیں وہ ہمیشہ دربدر اور ذلیل ہی ہوتی ہیں .
 یہ وہی ہیں جن سے نہ اپنی جوانیاں سنبھالی جاتی ہیں اور نہ علم...
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس
MumtazMalikParis.blogspot.com 

منگل، 31 اکتوبر، 2017

الفاظ کے ذخم




الفاظ کے زخم معذرت کے مرہم سے ہی مندمل ہوتے ہیں
اور
 تلافی کی پٹی سے شفا پاتے پیں .
ممتازملک. پیرس 

بدھ، 25 اکتوبر، 2017

شوہروں کی دو اقسام




☺😀😀
شوہر  دو طرح کے ہوتے ہیں
 پہلے وہ 😍😍😍
* جو اپنی بیوی سے محبت سے پیش آتے ہیں *اس کی عزت نفس کا خیال رکھیتے ہیں *خوشی سے اس کے حقوق ادا کرتے ہیں *اس کے ساتھ وابستہ رشتوں کو دل سے عزت دیتے ہیں 
 *اس کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہیں
 *اس کیساتھ وفادار ہوتے ہیں
 اور دوسری قسم کے وہ😳
 جو سب کے پاس ہوتے ہیں  😫😫😫😫
ممتازملک. پیرس 

منگل، 24 اکتوبر، 2017

میں کس کو مانوں. ..


کس کو مانوں ؟
ممتازملک. پیرس 


ویسے عجیب بات ہے نا کہ ملاوں کو ساری حدیثیں اور ساری آیات صرف عورت کو عیب دار ثابت کرنے والی ہی
 ملی ہیں 😱
اس کے باوجود کہ اسے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہیں چادر بچھا کر بیٹی کو رحمت کہا 
کہیں ماں بنا کر جنت اس کے قدموں میں بچھا دی 
کہیں بہن بنا کر بہترین دوست کہہ دیا
کہیں بیوی کے منہ میں  پیار سے رکھے ہوئے والے کو بھی مرد کے لیئے بہترین صدقہ قرار دے دیا  
سبحان ہے وہ ذات جو عورت کو وقار اور عزت عطا کر گئی ..
اب میں ان دو نمبر ملاوں اور  مفاد پرست عالموں کی 
 بات کا اعتبار کروں 
یا 
اپنے اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ اللہ کی
پیروی ؟

              ۔۔۔۔۔۔۔                               




اتوار، 22 اکتوبر، 2017

اچھی رہنمائی اچھا مستقبل / کالم



 اچھی رہنمائی اچھا مستقبل 
ممتازملک. پیرس 

اب  وہ وقت گزر گیا ہے جب بچہ گریجویشن یا ایم اے کرنے کے بعد بڑا آدمی بن جایا کرتا تھا . اب تو مقابلے کا زمانہ ہے جناب . جو شخص اپنے شعبے میں جتنی عملی مہارت رکھتا ہے وہی آگے نکل پاتا ہے . ہر جدید علم اور ٹیکنالوجی سے باخبر رہنا وقت کی اہم ضرورت اور کامیابی کے کنجی ہے. ایسے میں  بچوں کو ان کے مستقبل کے لیئے مضامین کے چناو میں رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی  ہے .  بدقسمتی سے ہمارے  اکثر تعلیمی اداروں میں ایسی کسی کونسلنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے 
 اور جن ممالک میں یہ انتظام موجود بھی ہے وہ سو فیصد مثبت رہنمائی پر مشتمل ہی نہیں ہے . کیوں کہ کونسلرز کی اکثریت بچے کو رہنمائی کرنے سے زیادہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنے کی فکر میں ہوتی ہے . یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس کے نتیجے میں اس بچے کا سارا مستقبل داؤ پر لگ جائیگا .  اس لیئے ضروری ہے کہ ادارے اچھے اور ذمہ دار کونسلرز کا  اپنے اداروں میں تعین کریں . اور انہیں بچے کے رجحان کو سمجھنے کے لیئے اسے کم از کم ایک سال تک چھوٹے چھوٹے مختلف مضامین اور ٹیکنیکس کے ٹیسٹ کے ذریعے  پرکھا جائے . انہیں مختلف سوالنامے حل کرنے کو دیئے جائیں . جسے حل نہ کرنے کی صورت میں  اس پر دباو نہ ڈالا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ اسے کس ٹائپ کے سوالنامے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے . گویا بچے کی جانب سے یہ بھی اس مضمون میں عدم دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے . سو اگلے مضمون کا سوال نامہ اسے سونپا جائے . یا بہت سے سوالنامے الگ الگ مضامین  پر تیار کیئے جائیں اور طالبعلم کے سامنے ایک ساتھ رکھے جائیں اور اسے مکمل اور خوش کن اختیار دیا جائے کہ  جو چاہو سوال نامہ پر کرنے کے لیئے اٹھا لو . اور اس کے منتخب کردہ سوالنامے پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیئے . کیونکہ یہ اس طالبعلم کی پوری زندگی کا دارومدار ہے .اس کے ساتھ نہ تو آنے والی زندگی میں کام تلاش کرتے ، نوکری کرتے یا کاروبار کرتے وقت آپ میں سے یا والدین میں سے بھی کوئی اس کے ساتھ نہیں ہو گا . اسے روزگار کمانے کی جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے اور مستقبل بنانے کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے . سو اس کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہونا چاہیئے 

بچوں کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  ڈگری کی جانب راغب کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے .
ورنہ خالی جولی چار چار ایم اے بھی اس کے روزگار کی ضمانت نہیں ہو سکتے .
ابس لیئے اب یہ بچے کی پسند  اور دلچسپی پر منحصر  ہے کہ وہ  کمپیوٹرز پروگرامز میں ہے یا
تعمیراتی کاموں میں ،فیشن سے متعلق شعبوں میں (جس میں  میک اپ ، سٹچنگ،  ڈیزائننگ اور اس سے متعلق بےشمار موضوعات شامل ہیں)
انٹیرئیر یا ایکسٹیرئیر ڈیکوریشن  کے مشامین. ..
پاکستان اور دنیا بھر میں بہت اچھے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس  موجود ہیں . جو آپ کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  تعلیم کیساتھ اپنے پیروں پر  خود مختار طور پر کھڑا کرتے ہیں .
لیکن یاد رکھیں طالب علم کو  جبرا کوئی مضمون اختیار مت کروایئے اس طرح اس کی کامیابی  کے  امکانات آدھے رہ  جاتے ہیں . اسے سارے مضامین سامنے رکھ کر ان میں سے  اس مضمون  کو چننے کی اجازت دیجیئے جس میں کام.کر کے وہ  دلی خوشی محسوس کرے اور اپنے مضمون اور کام کو انجوائے کرے.تبھی وہ اسمیں کمال دکھا پائے گا
. ممتازملک  . پیرس 






منگل، 17 اکتوبر، 2017

بچے بچپن اور تحمل / کالم



           بچے بچپن اور تحمل
      (تحریر:ممتازملک .پیرس)



گذشتہ دنوں گونگے بہرے بچوں کیساتھ بس میں کنڈیکٹرز کے ہاتھوں  مارپیٹ اور تشدد کرنے والے مجرمان میں سے  ایک نے خود کو حافظ قرآن کہا تو ایک نے خود کو چوتھے امام کی اولاد ...

اور ان کے پیچھے لوگ کبھی نماز ادا کرتے ہیں اور کبھی رمضان کی مبارک راتوں میں میں تراویح ادا کرتے ہیں .
* ایسے بے دین اور بے شرم لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے والے کیا فیض پاتے ہونگے؟
* اور ان کی دعاوں میں کیا تاثیر ہو گی ؟
* کیا ان کے اپنے بچے ان کے گندے ہاتھوں سے محفوظ ہونگے ؟
سکولوں کے اساتذہ کو دیکھیں تو وہ ایسے  کہ جنہیں کہیں نوکری نہ ملی وہ استاد بن گئے اور اپنے گھر کا روز کا ڈپریشن بچوں کہ کھال اتار کر نکالتے ہیں . 
کام سکھانے والے استادوں کو دیکھے تو وہ ان معصوم  بچوں کیساتھ بدفعلیوں اور  اوربدسلوکی کی انتہا کر دیتے ہیں .
بچوں کے ساتھ نرسنگ میں ہوں تو .نومولود بچوں کو ساری رات تڑپتا چھوڑ کر خود خوش گپیوں  میں ٹائم پاس کیا جاتا ہے. یا بچوں کی خریدو فروخت اور بچے بدلنے کا کاروبار کیا جاتا ہے .
کنڈر گارڈن یا نرسریز میں کام کرتے ہیں تو بچوں کو نومولود سے لیکے تین سال تک کے بچوں کو بری  طرح خوفزدہ کیا جاتا ہے یا انہیں رونے اور بھوکا ہونے پر مار مار کر آدھ موا  کر دیا جاتا ہے.  
چوکیدار میں ہوں تو معصوم بچوں بچیوں پر گندی نظر رکھی جاتی ہے اور ان کا شکار کرنے کے لیئے گھات لگائی جاتی ہے .
  ہم مسلمان ہیں ہمیں تو حکم ہے کہ حالت جنگ میں بھی بچوں اور عورتوں پر ہاتھ مت اٹھاو ..
جو بزرگوں سے محبت اور بچوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں . 
مسجد میں بھی بچوں کی شرارتوں کو  نظر انداز کر دو کہ مبادا کہیں تمہاری جھڑکیوں سے ڈر کر وہ مسجد میں آنا ہی نہ چھوڑ دیں . سو اس پر صبر کرو .

بچوں کیساتھ کہیں بھی کسی بھی شعبے میں کام کرنے کے لیئے بیحد صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے . اگر آپ میں یہ صبر و تحمل نہیں ہے تو بہتر ہے کہ خدا کے لیئے آپ بچوں کے ساتھ کوئی بھی ملازمت کرنے سے پرہیز  کریں .

یورپ میں جب بھی آپ بچوں سے وابستہ کسی شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کا کیریکٹر اور آپ کی شخصیت کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے . 
آپ سے آپ کی حقیقت اگلوانے کے لیئے گھما پھرا کر سوالات کیئے جاتے ہیں کہ 
* آپ بچوں کے ساتھ کیوں کام کرنا چاہتے ہیں؟
* آپ کو بچوں کیساتھ ہی کام کرنے کا خیال کیسے آیا ؟
* آپ بچوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
*کیا کبھی آپ کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے یا کام کرنے کا موقع ملا ہے ؟
* اگرملا ہے تو آپ نے اس سے کیا سیکھا؟
* بچہ ایسا کرے تو آپ کیا کرینگے ؟
* بچہ ویسا کرے تو کیا کرنا چاہیئے؟
* بچہ کسنموڈ میں کیا کرتا ہے ؟
بچہ پیدا ہونے  کے فورا بعد کس پوزہشن میں ہوتا ہے؟
*اسکی مٹھی کتنی دیر بعد کھلتی ہیں ؟
* اس کی آنکھیں کتنی دیر کے بعد پوری طرح کھلتی ہیں ؟
* وہ کتنے دنوں کے بعد کیا کرتا ہے ؟
وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ 
کیا ان سب سوالات کے جوابات ہمارے ہاں کے بچوں کی فیلڈز میں کام کرنے والے کسی بھی استاد یا دوسری ملازمتوں میں موجود کسی بھی فرد سے حاصل کر سکتے ہیں ؟
میرا خیال ہے اگر ان سوالات اور اس سے متعلق تربتی مواد پڑھنے اور عملی تربیت کے بنا آپ بچوں کے کسی بھی شعبے میں کام کر رہے ہیں تو آپ صرف حرام کی تنخواہ لے رہے ہیں .کیونکہ اصل میں آپ میں سے کسی کو بھی اس کے بغیر بچوں کے ساتھ کسی بھی شعبے میں کام نہیں کرنا چاہیئے .
ذراسوچیئے 
کہ آپ کے بچے کن ہاتھوں میں پل رہے ہیں ؟
خود آپ بھی بچوں کی نفسیات اور جسمانی تقاضوں کو کتنا جانتے ہیں ؟

اتوار، 15 اکتوبر، 2017

تین سال تین کتب


السلام علیکم دوستو

کل 14 اکتوبر 2017 بروز ہفتہ مجھے کتاب "شہر سخن" کی تین کاپیاں تین سال کے انتظار کے بعد بالآخر موصول ہو ہی گئیں .
اکمل شاکر اور عاکف  غنی کی جانب سے مرتب  36 شعراء کرام کا کلام اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے .
حالانکہ دس کاپی کا وعدہ تھا لیکن پہنچی تین کاپیاں ہیں ابھی تک . تین سال میں
فی سال ،فی کاپی شاید 😂😂😂
خیر اس کے لیئے عاکف غنی بھائی آپ کا بیحد شکریہ. کتاب بہت اچھی لگی . سبھی کا کلام بہت  زبردست ہے . شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیئے ایک خوبصورت اضافہ ہو گی یہ کتاب
ان شاء اللہ
پڑھنے والوں کے لیئے اس کتاب کی خاص بات یہ بھی رہیگی کہ اس میں 36 میں سے 35 شعراء کرام  کا بڑا دھانسو تعارف ہر ایک کے کلام سے پہلے کرایا گیا ہے . ماسوائے ممتازملک کے .
* ہو سکتا ہے کاغذ کی کمی ہو گئی ہو، سو اسے ہورا کرنے کے لئے ممتازملک کا تعارف غیر ضروری سمجھ کر نکال دیا گیا ہو ...
*  یا ہو سکتا ہو معصوم پرنٹرز  کسی اور کی بجائے صرف ممتازملک کا ہی تعارف لگانا بھول گئے ہوں ....
*  یا یہ بھی ہو سکتا ہے کسی خفیہ ہاتھ نے اسے چھاپنے سے روک دیا ہو ...
*   یا یہ بھی ہو سکتاہے کہ سب نے سوچا ہو کہ
         آپ اپنا تعارف ہوا بہار ہے 😜

بھئی یہ کتاب ضرو پڑھیئے گا. کیونکہ اس میں میرے سوا سبھی کا تعارف خوب معلوماتی ہے .😂
خیر... جو بھی سوچا ہو ،
لیکن یہ ضرور ثابت کیا  کتاب کے مرتبین  نے کہ یا تو ممتازملک اتنی اہم ہی نہیں ہے کہ اس کا تعارف کوئی جاننا چاہے ....
یا پھر
ممتازملک  اتنی ی ی ی اہم ہے کہ اس کا  تعارف لگانے سے  ڈر  لگتا  ہے...😱
بہرحال کتابیں بھجوانےکا بہت بہت شکریہ . اور اللہ پاک کا ہر پل میں کروڑ ہا بار شکریہ کہ اس نے انسان کی عزت اور بے عزتی اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہے . اور ہزاروں بار شکریہ Facebook  کا بھی . کہ اس نے اس مفت کی کتابیں اینٹھنے اور "کتب گداگری" کے دور میں بھی ہمیں ساری دنیا میں ہمارے قارئین سے جوڑ رکھا ہے . .....
ورنہ
  خاک مجھ میں کمال رکھا ہے
   پردہ اللہ  نے ڈال رکھا ہے
       ممتازملک . پیرس

جمعرات، 28 ستمبر، 2017

ٹماٹر ہی کیوں ؟




                ٹماٹر ہی کیوں ؟
           (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)   

ٹماٹر ٹماٹر ٹماٹر 
سن سن کر کان پک گئے ہیں ...بھئی دنیا کا کوئی کام کسی چیز کے کم ہونے سے کبھی رکا ہے . لیکن ہمارے ہاں زبان کے چٹورے کبھی کھانے میں پیاز کو روتے ہیں تو کبھی ٹماٹر کا قل پڑھتے دکھائی دیتے ہیں . جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ
سوائے نمک کے ہر شے کے بنا سالن بن سکتا ہے .
دنیا کے دو تین ممالک  کے سوا ساری دنیا ٹماٹر کے بنا یا پیاز کے بنا جو کچھ کھاتی ہے وہ کھانا نہیں ہے گویا 
نہیں تو 
انار دانہ اور امچور  بھی استعمال کیئے جا سکتے ہیں.  لیکن جنہیں ٹماٹر ہی چاہیئے ان کے لیئے دودہ سے دہی جمانا  بہت آسان اور لذیذ طریقہ ہے .
اور اگر کچھ نہ بھی ڈالیں تو بھی کوئی قیامت نہیں آ جاتی . ساری دنیا میں سالن پیاز ٹماٹر ڈال کر ہی تو نہیں پکائے جاتے نہ ہی انہیں ڈالنا کوئی اللہ کا حکم ہے . سو ان چیزوں کے بہانے واویلا کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ جو میسر ہے اسی میں کھانا بنایا جائے . جو چیز مہنگی ہو اس کے سستا ہونے تک اسے چھوڑ دیا آئے . 

220 روپے کلو ٹماٹر  تو میں نے خود آج کا ریٹ دیکھا ہے  ٹی وی پر 
اور اس میں دو لیڑ  دودہ  باآسانی آ سکتاہے . 
ویسے بھی ٹماٹر کے ایک کلو میں زیادہ سے سے زیادہ سات آٹھ دانے نکلیں گے جبکہ دہی کی کیوبز اس سے کہیں زیادہ ہو گی اور سالن کی لذت بھی بڑہائینگی .
اب کسی نے فرمایا بی بی دہی کی کیوبز فریزر میں جمنے کے لیئے بجکی چاہیئے..
تو  بھسئی لوگ  آپ فریزر کو بار بار مت کھولیں تاکہ اس کی کولنگ  زیادہ دیر چلے.  
اور دوسرا طریقہ کومن سینس بھی استعمال کیآ کریں . 
اگر فریزر یا بجلی نہیں ہے تو آپ آدھا لیٹر دودھ  کا دہی جمالیں . جتنا چاہیئے استعمال کریں ایک دن دو تین دن تک بنا جمائے چلا لیں . زیادہ سے زیادہ دہی کھٹا ہو جائے گا تو کیا ہوا  اور اگر دہی کھٹا ہو گیا اس کی تو اور بھی کم مقدار ڈلے گی اور کھانا لذیذ بنے گا . 
بہانے چھوڑیں 
بی پریکٹیکل 
ویسے بھی گھر میں دہی جمانے سے بھی کیوں جان جاتی ہے اکثر ہماری خواتین کی . حالانکہ بہتریں دہی رات کھانے کے بعد دودہ کو جاگ لگا دیں تو صبح ناشتے  تک  تیار ہوتا ہے .
رنگین دہی چاہیئے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ جس رنگ کا چاہے دہی جما لیں جناب 
دودھ ابال کر نیم گرم ہونے پر اس میں کوئی سا فوڈ کلر بھی ایڈ کر لیجیئے پھر مٹی کے  برتن  میں دہی کا تھوڑا سا پانی جسے  جاگ  کہتے ہیں ملا کر اسے ڈھک کے کسی گرم جگہ پر بارہ گھنٹے  کے لیئے رکھ دیجیئے.  رات کو رکھیں صبح تازہ دہی تیار .
چاہیں تو اس میں دودھ میں  چینی ڈال کر میٹھا دہی جمایئے. 
اپنا تو اصول ہے جناب جو چیز مہنگی ہو تب تک چھوڑ دو جب تک وہ گلی گلی  رلنے  نہ لگے 

بدھ، 13 ستمبر، 2017

نظر انداز


یاد رکھیں
  نظر انداز کیئے جانے اور بےوفائی         سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہے جو آپ       کسی کو دیتے ہیں 😢
       ممتازملک. پیرس

پیشکش


پیشکش

کچھ لوگ غلط ہوتے ہیں لیکن وہ خود کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے پاکباز بھی ان کے سامنے چھوٹے ہو جائیں 😥
اور بعض لوگ درست ہوتے ہوئے بھی خود کو اس طرح بودا  بنا کر  پیش کرتے ہیں کہ برے سے برے  انسان  کو بھی اس سے نفرت ہو جائے 😫
سو غور کیجیئے آپ جیسے ہیں خود کو ویسا ہی پیش کر رہے ہیں یا ......
ممتازملک. پیرس

جمعہ، 8 ستمبر، 2017

● اے قاید اعظم تیرے مشکور رہینگے ۔ سراب دنیا


اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
کلام/ ممتازملک ۔پیرس 





اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
دل تیری محبت سے یہ معمور رہینگے

ذلت سے غلامی سے ہمیں تو نے نکالا
اس قوم کی کشتی کو بھنور میں تھا سنبھالا 
ہم بھی انہیں جذبات سے بھرپور رہینگے
 اے قائد اعظم تیرے مشکور 
رہینگے 

ہم آج بھی تیرے دیئے اسباق کو لیکر
کرتے ہیں چراغاں رہ عشاق کو لیکر 
دل لے کے ہتھیلی پہ یہ منصور رہینگے 
اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 


وعدے جو کیئے ہم نے نبھائینگے ہمیشہ 
دنیا کو عمل کر کے دکھائینگے ہمیشہ 
دشمن تیرے تاعمر ہی رنجور رہینگے 
اے قائداعظم تیرے مشکور رہینگے 
۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 7 ستمبر، 2017

کیا کریں ان کا


کیا کریں ان کا ...
ممتازملک. پیرس

جیسے جیسے وقت کا انداز بدلا اس کی ضروریات بدلتی ہیں ویسے ویسے لوگوں کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز بھی بدلنے لگتا ہے .
آج ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اسے اگر ہوائی زمانہ کہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا . پہلے وقتوں میں ہوائی روزی ہوا کرتی تھی یا پھر ہوائی مخلوق کے قصے سنائی دیتے تھے . باقی سب کچھ نظر کے سامنے ہوا کرتا تھا . جیسے کون کس سے ملتا ہے ؟اس کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ اس کے گھر کس کس کا انا جانا ہے ؟ اسی تناظر میں اس کے چال چلن کا بھی تعین کر لیا جاتا تھا . کہنے والے اسے دوسرے کی زندگی میں پرائیویسی  پر حملہ یا دخل اندازی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں بھی یہ ماننا پڑیگا کہ پرائیویسی کے نام پر نئے نئے گل نہیں کھلائے جا سکتے تھے . ہر شخص دوسروں کی نظر میں رہتا تھا . اوراس کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہہں رہ سکتا تھا .  اور جوابدہی کے لیئے بھی ذمہ دار تھا .
لیکن آج کیا کریں کہ ہر انسان خود کو اخلاقی قدروں  سے اخلاقیات سے بھی خود کو اس موئی پرائیویسی کے نام پر آزاد کر کے دوسرے کی پرائیویسی میں دخل اندازی کے نت نئے حربے آزمانے اپنا حق سمجھنے لگا ہے.
سادہ لفظوں میں کہئیے تو  کسی کے گھر مہماں بنکر گئے ہوں تو اس کے دوسرے مہمانوں یا رشتہ داروں کے اتے پتے بڑے رازدارانہ انداز سے  حاصل کر لیئے جاتے ہیں . پھر اس بلانے والے میزبان کی  مل کر خوب بینڈ بجائی  جاتی  ہے . جس کے دسترخوان پر انہیں اکھٹے متعارف ہونے کا موقع ملا اسی کے کردار پر،اس کے خاندان پر اور تو اور اس کے  دو چار سال کے بچوں پر بھی ایسی ایسی موشگافیاں کی جاتی ہیں . کہ جس کا علم ان کو ملانے والے کے کیا، اسکے فرشتوں  کو بھی خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا . پھر اس ملانے والے کو بیچ میں سے صفر کر دیا جاتا ہے اور آپس میں محبت کے منافقانہ پینگیں بڑھائی جاتی ہیں .
اسی کی ایک اور مثال آج کا سوشل میڈیا فون اور خصوصا فیس بک لے لیجیئے . اس میں اکثر دوسرے کی محبت میں فرینڈ ریکوئسٹ نہیں بھیجتے بلکہ ان کا مقصد اس لسٹ میں موجود فرینڈ  سرکل کو تاڑنا ، پھر ان سے عقیدت اور محبت رکھنے والوں کو ان بکس میں جا کر ہاتھوں پر ڈالنا ؟ ان سے خصوصی تعلقات استوار کرنا ؟ اس کی کردار کشی کر کے اسے دوسرے کی نظر سے گرانا، اور پھر اس کے جو کام نکلوانا ہے اس کے لیئے ہر قیمت پر کام نکلوانا، یہاں تک کہ اس بات پر اسے ہراساں کرنا کہ اچھاااا آج کل بڑا فلاں فلاں کی پوسٹ پر لائیک اور کومنٹس کیئے جا رہے ہیں ، ہوں ں ں ں ں. کیا چکر ہے 😜 یہ سب اس انداز میں کہا جائیگا اور فون پر اس کا ایسا برین واش کیا جائے گا کہ اچھا بھلا شریف اور بہادر انسان بھی پریشان ہو کر اچھے سے اچھے دوست سے بھی کنی ٹکرانے لگتا ہے کہ خدا جانے اور میری باتوں کو کیا کیا رنگ لگا کر پیش کر دیا جائیگا . سو اپنی بھی عزت تو نہیں بنتی وقتی فائدے ہی لینے ہوتے ہیں . لیکن دوسرے کے لیئے اگلے کے دل میں شیطانی کا بیج ضرور بو دیا جاتا ہے .
ایسے لوگ کبھی کسی کے مخلص دوست نہیں ہو سکتے . یہ ٹائم پاس لوگ ہوتے ہیں . ان کی کبھی مستقل دوستیاں نہیں دکھائی دیں گی . جو دوستیاں  ہونگی بھی  ان کے ساتھ ان کی آئے دن کی لڑائیوں کے بعد وقتی مفادات کے لیئے ایک میز پر اکٹھے ہو کر جھوٹے قہقہے اور مشروط ملاقاتیں ہی  ہوں گی .
اب کیا کہیں ایسے لوگوں کو جو ہوائی انداز سے ہواوں میں گھر بناتے ہیں . دوست پالتے ہیں اور ہوش آتے ہی حقیقت کے فرش پر دھڑام  سے گرتے ہیں.
  بقول "باقی صدیقی" کے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
                    ********

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/