ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 31 جنوری، 2014

● (18) وہ اک جواں/کالم۔سچ تو یہ ہے


(18) وہ  اک جواں
ممتاز ملک ۔ پیرس



وہ  اک جواں جسے کہتے تھے اعتزاز احسن
حیات و موت کی کیسی ہے ساز باز احسن

 روز ہی ایک جیسی خبریں پڑھتے دل جیسے اوبھ سا گیا ہے کوئی دن نہیں جاتا جب جسموں کو لاشوں میں بدلتے دیکھے بنا سورج پاکستان میں ڈھلتا ہو  ، لیکن اس دن کچھ عجیب ہوا بہت حیران کر دینے والا ، رونگٹے کھڑے کر دینے والا کچھ ہماری نظروں کو شرم سے جھکا دینے والا ۔ لیکن ہم میں تو شرم نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں کبھی کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا    کہ 
  پہلے آتی تھی ہر اک بات پہ شرم 
 اب کسی بات پر نہیں آتی 

لیکن اس عالم بے شرمی  میں بھی ایک ابھرتی ہوئی جوانی لیئے معصوم سا جوان کہ جس کی مسیں بھی ابھی نہ بھیگی ہوں ہمیں ہمشہ کے لیئے اپنے ہونے کا احساس دلا گیا ۔  حسب معمول اپنی ماں کا ہاتھ بٹا کے اپنے سکول جانے والا یہ بچہ  ابھی سکول پہنچ ہی رہا تھا کہ اسے ایک دوسرا لڑکا کچھ مشکوک انداز میں سکول کی اسمبلی میں جاتا ہوا دکھائی دیا ۔ بم دھماکوں کا تو دور ہے ہی تو ہر آدمی کا پہلا شک یہ ہو تا ہے کہ کہیں یہ کوئی دہشت گرد تو نہیں ، تقریبا ایک ہزار کے قریب بچے جو اسمبلی کے لیئے سکول گراؤنڈ میں موجود تھے ان کی جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے اس نوجوان نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے دبوچ لیا اور اسمبلی کی جانب بڑھنے سے روک دیا اسی کشمکش میں خود کش جہنمی بمبار کے ساتہ بندھا ہوا بم ایک دھماکے سے پھٹا اور بمبار کو تو واصل جہنم کر گیا لیکن جنت کے ایک شہزادے کو بھی بہادری کی ایک لازوال تاریخ کا حصہ بنا گیا ۔ 
 سچ کہتے ہیں 
 اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے تُوں لبدی پھریں بازار کڑے 
اے دین اے میرے داتا دی نہ ایویں ٹکراں مار کڑے

یہ بھی ایک دھماکہ تھا ہر روز جیسا ہی دھماکہ لیکن یہ ایک نئی سوچ کا دھماکہ بھی تھا جس نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے جگانے کی کوشش بھی کی اور اس بے خبر قوم کو یہ احساس دلایا کہ ان تیرہ سالوں میں ہر روز جو بچے پیدا ہو رہے ہیں، جو بچے تھے جوان ہو رہے ہیں اس کی سوچوں کے دھارے اب اپنا قبلہ تبدیل کر رہے ہیں انہیں اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ ہمارے بڑے ہمیں اس خوفناک عذاب میں مبتلا تو کر سکتے تھے لیکن اس عذاب سے نکالنے میں دو سو فیصد تک ناکام ہو چکے ہیں اب ہمیں ان کھوکھلے بزرگوں اور کھوکھلے ستونوں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیئے خود ہی عملی قدم بڑھانا ہوں گے ۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایک ہزار کو بچانے کے لیئے کسی ایک کو ہر صورت اس موت سے لپٹنا ہوگا اور ان موت کے دوزخی سوداگروں  کو انہیں کے انداز میں شکست دینا ہو گی ۔ لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ حکام اس بات کا جواب دیں کہ یہ سب ہو گا تو آخر کب تک ؟ اور کتنے اعتزاز اس قربان گاہ شوق میں بھینٹ کیئے جائیں گے ؟ آخر کتنے ؟
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●






اتوار، 26 جنوری، 2014

کتاب اور پراٹھا۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے




کتاب اور پراٹھا
ممتازملک ۔ پیرس

ہمارے ہاں لوگ 3000 کا پیزا کھا لیں گے اور شکایت نہیں  کریں گے لیکن 300 روپے کی کتاب  کبھی نہیں خریدیں گے کہ نہیں بھئ یہ تو بہت مہنگی ہے ِ اول تو ہماری قوم کو کتاب پڑھنے کا دورہ کبھی پڑتا ہی نہیں اور اگر قسمت سے کہیں یہ دورہ پڑ بھی جاۓ  تو دوسروں سے مانگ تانگ کر کام چلانا پسند فرماٰئیں گے،کیوں کہ ہمارے ہاں کتاب پر خرچہ کرنا فضول خرچی سمجھا جاتا ہے اور فضول خیال کیا جاتا ہے ِ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز آج بھی کتاب سے محبت میں پوشیدہ ہے ۔ 
جس کا ایک سب سے بڑا ثبوت آپ کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ کوئ بھی غیر پاکستانی جب بھی سفر کرتا ہے اس کے دستی سامان میں چند نہیں تو ایک دو کتابیں ضرور موجود ہوتی ہیں  ۔ جسے وہ دوران سفر مطالعہ میں رکھتا ہے ۔ جبکہ پاکستانیوں کے دستی سامان میں مردوں کے لیئے کھانے پینے کے لوازمات اور سگریٹ کے برانڈذ  جبکہ خواتین کے سامان میں میک اپ ،جیولری  کی بھرمار ہو گی ۔ تمام سفر میں یا تو شور شرابہ ہو گا یا کھانا پینا ۔ اور اگر سفر ٹرین کا ہے تو پراٹھوں اور کبابوں کے بغیر تو ہو نہین سکتا ۔
  یہ دنیا کتاب کو اس لیئے پسند کرتی ہے کہ اس سے علم کی راہیں کھلتی ہیں عقل کے روشن دان سے تازہ ہوا آتی ہے ۔ گھر بیٹھے دنیا کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ جبکہ ہمیں کتاب اس لیئے پسند ہے کہ اس پر رکھ کر پراٹھا کھانا ہوتا ہے یا پھر پکوڑے لپیٹنے ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ کاغذ گھی کو خوب جذب کرتا ہے ۔ بندہ پوچھے بھئ سمندر میں سے ایک چمچہ نکال بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
قسمت سے خریدی ہوئ کتاب تو شاید کھل کبھی جاتی ہو ، پڑھ بھی لی جاتی ہو ،  جبکہ مانگے کی یا مفت کی کتابیں تو اکثر سالوں  بک شیلف میں دھول چاٹتی رہتی ہیں اور کسی کو انہیں کھولنا نصیب نہیں ہوتا ۔ اور تو اور شکر ہے کہ سال میں ایک بار رمضان کا مبارک مہینہ آ جاتا ہے تو دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک کو بھی کھولنے کا بہانہ بن جاتا ہے ۔ ورنہ سال بھر تو یہ توفیق بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
سچ ہے جو قومیں کتاب سے محبت نہیں کرتیں وہ علم کی قدر نہیں جانتیں ، اور جو قومیں علم کی قدر نہیں جانتیں وہ ہمیشہ دوسروں کی ٹھوکروں میں ہی رہتی ہیں ، دور کیوں جاٰئیں ۔ ہمارا اپنا ملک ہماری اپنی قوم اس بدنصیبی کی سب سے بڑی مثال ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


● تعارف کتاب ٌمیرے دل کا قلندر بولے ٌ


تعارف کتاب  
ٌمیرے دل کا قلندر بولے ٌ


ہر انسان کے اندر ایک ہی وقت میں دو قوتیں بر سر پیکار ہوتی ہیں ۔ایک وہ جو اسے بار بار برائی کی دلدل میں کھینچتی ہے ۔ اور ایک وہ جو اسے بار بار ان کھڈوں میں گرنے سے بچاتی ہے ۔ اور کیسی عجیب بات ہے کہ ہر انسان میں یہ دونوں طاقتیں بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ لیکن بھر بھی اچھائی  ہر بار کیوں ہار جاتی ہے ۔ میں نے بھی اندر کے شیطان جسے نفس کہتے ہیں   سے یہ لڑائی آپ سب کی طرح  ہمیشہ لڑی ہے ۔ لیکن اس کے سامنے اچھی قوت جسے لوگ تو ضمیر کہتے ہیں لیکن میں اسے قلندر کہتی ہوں  کو کبھی ہارنے نہیں دیا ،۔چاہے اسکے لیئے خود کو ہی کیوں نہ ہارنا پڑے ۔ کیوں کہ دل کا یہ قلندر کبھی رسوا نہیں ہونے دیتا ۔ کسی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ جو کام ہم کرنے جا رہے ہیں وہ اچھا ہے یا برا ۔ تو آپ نے جواب دیا کہ اگر تمہیں محسوس ہو کہ تمہارا کام کسی کے سامنے آنے پر تمہیں شرمندہ ہونا پڑے گا  تو  جان لو کہ وہ غلط ہے ۔  تو مجھے بھی لگا کہ  یہ ہی آ گہی  دینا ہمارے دل کے قلندر کی ذمہ داری ہے ۔ تو میں نے اپنے دل کے اسی قلندر سے دوستی کر لی ۔ آپ بھی اس کتاب کو پڑھ کر  جانیئے کہ میرے دل کا قلندر بولے تو کیا بولے ۔۔۔۔
صاحب کتاب:
ممتازملک ۔ پیرس
●●●


جمعرات، 26 دسمبر، 2013

● (17) سوری بابا /کالم۔ سچ تو یہ ہے




         (17) سوری بابا                تحریر:ممتازملک۔ پیرس




کیا بابا ئے قوم کا یوم پیدائش منانے کا مقصد کیک کاٹنا ، ہلہ گلہ کرنا اور چھٹی منانا ہی ہے ؟ کیا پاکستان انہیں باتوں کے لیئے ہزاروں عزتیں قربان کر کر حاصل کیا گیا تھا ؟ کیا روح قائد آج کے تماشے دیکھ کر نہال

 ہوئی جارہی ہے ؟ کیا آج ہم اس حال میں ہیں کہ اپنے آپ کو آزادی کے شہداء کے سامنے کٹہرے میں پیش کر سکیں ؟ تو پھر کیسا یوم پیدائش ؟ جس بابا کے گھر کو ہم نے آگ لگا دی اس سال اس کی سالگرہ منانے سے اچھا نہیں کہ ہم شرم سے گڑھ جائیں ۔ سوری بابا میں آپ کی سالگرہ نہیں منا رہی کیوں کہ میں خود کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی کہ آپ کے سامنے کیا آپ کی تصویر سے بھی نظر ملا سکوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اسی لیئے آج میں کوئی کیک نہیں کاٹ رہی، کوئی تقریب نہیں اٹینڈ کر رہی ۔ میں آج صرف اور صرف اپنا احتساب کر رہی ہوں ۔ کیا سوچ کر آزادی کے

 رستے میں شہیدوں نے اپنے لہو کے 

دیئے روشن کیئے تھے اور کیا سوچ کر ہم نے ان چراغوں پر بڑی ہی بے رحمی سے کیچڑ انڈیل دی ۔ اپنے کردار کی کیچڑ،₩ اپنے گفتار کی کیچڑ ، خودی کو بلند کرنے کا دعوی کرتے ہیں اور پہلے سے بڑا کشکول بنا لیتے ہیں ۔ یہ کاسئہ گدائی ہماری پہچان بن گیا ہے مگر ہم ہیں کہ اکڑ کر چلنے سے باز ہی نہیں آتے ۔  دنیا 

میں بھیک مانگنے جاتے ہیں تو شان 

وشوکت میں برابری بھیک دینے والے کی کرنے لگتے ہیں ۔  سچ اس لیئے نہیں بولتے کہ ہمارے وقتی مفادات کو کوئی زک نہ پہنچ جائے ۔ باتیں ایسی توڑ موڑ کر کرتے ہیں کہ جب جس کے سامنے جائیں اسی کے گن گانے میں آسانی ہو  آخر ڈپلو   

میسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ ہم 

دوسروں کی آگ اپنے گھر میں جلانے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں  کہ اپنے مسائل اور اپنے غموں اور تکلیفوں کے ازالے کے لیئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔ بڑی باتیں کرتے 

ہیں ہم پاکستانیت کی۔ لیکن عمل     
کرنے کا وقت آتا ہے  تو ''اندھا بانٹے   
ریوڑیاں اپنے اپنے کو ''کے مصداق یاد رہتا ہے ہی پاکستانیت ۔ میرٹ کا جنازہ تو ہم نے ہر ہر فیلڈ میں خوب دھوم دھام سے نکالا ہے ۔ تنخواہ تو ہم 30 دن کی مانگنا حق سمجھتے ہیں۔ لیکن دن کے 8 میں سے 6 گھنٹےاپنے گھروں میں 

بیڈ پر اینٹھتے یا نماز کے بہانے غائب ہو کر یا پھر کھانے چاٹنے میں نکال دیتے ہیں ۔ کوئی کسی کام سے آیا ہو یا بل جمع کرانے والا ، یا دفتری کام 

سے آیا ہوا سائل، دھکے کھا رہا 

ہے تو کھاتا رہے پہلے میری مٹھی گرم کرے ۔یہ تو میری مہربانی ہے 

کہ سائل کو میری صورت دیکھنا نصیب ہو گئی ۔ لال بتی پر رک جانا بھی میری توہین ہے ۔ کسی غریب کی مزدوری مارنا میرا کمال ہے ۔ مذہب کے نام پر دوسروں  کے عقائد پر حملہ کرنا میری مسلمانی ہے ۔ عورت کو پیٹنا ہماری مردانگی ہے ، 

معصوم بچوں کے جسموں کو نوچنا ہمارا مشغلہ ہے۔  قانون کی دھجیاں بکھیرنا ہمارا شوق ۔ 
ملاوٹ کرنا مجھے شرم نہیں دلاتا ۔ مہنگا بیچنا مجھے معیوب ہی نہیں لگتا ۔ بیواؤں اور یتیموں کا مال کھا کے بھی ہم چین سے سو جاتے ہیں ۔ دوسروں کی عزتیں بیچ کر بھی ہماری آنکھ نہیں جھکتی ۔ لمبی لمبی داڑھیاں چہرے پہ سجا کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہیاں دیتے ہوئے بھی ہمیں حیا نہیں آتی ۔ بہت کچھ ہے بابا  ۔ کیا کیا سناؤں ۔ میں جانتی ہوں جس صبح کی نوید  آپ نے دی تھی یہ وہ سحر بلکل نہیں ہے ۔ میں انتظار کروں گی اس صبح نو کا کہ جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا ، تعلیم ہر ایک کا حق ہو گی ، سب کی عزت سانجھی ہو گی ،  سب کے عقیدے اس کے اپنے ہوں گے ۔ بات کرتے ہوئے سب خدا کا خوف کریں گے نا کہ اپنے مفادات کا تحفظ ۔ جہاں میرٹ کا قتل عام بند کیا جائے گا اسی امید پر میں آپ کی سالگرہ کا کیک ضرور کاٹوں گی شاید اگلے سال ۔ ۔ ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●



                          

منگل، 26 نومبر، 2013

● (22) درد بھی ایک نعمت/ کالم ۔سچ تو یہ ہے



(22) درد بھی ایک نعمت
تحریر: ممتازملک۔ پیرس



آپ بھی کہتے ہوں گے کہ یہ کیا بات ہوئی ۔ کبھی کوئی درد بھی اچھا ہو سکتا ہے ، درد تو درد ہوتا ہے۔ دکھ دیتا ہے تکلیف دیتا ہے ۔ کئی لوگ تو باقاعدہ دعا بھی کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں کبھی کوئی درد نہ ہو ۔ اور اکثر لوگ تو درد نہ ہونے کو بڑی خوش نصیبی سمجھتے ہیں ۔ لیکن دیکھیں اسی بات کا ایک اور رخ ۔ جذام کے یعنی کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں خیال کیا جاتا  تھا اور ڈاکٹر بھی یہ بات کہتے تھے کہ اس مرض میں ایک خاص جرثومہ انسان کے اعضاء کو آہستہ آہستہ ختم کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بدن کے اعضاء  اور گوشت لوتھڑے کی طرح اکٹھا ہونے لگتا ہے یا دوسرے لفظوں میں گلنے لگتا ہے ۔  لیکن اب  ایک اور تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس مرض میں انسان کے اعضاء دھیرے دھیرے سُن ہونے لگتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ بلکل ہی بے حس ہو جاتے ہیں نہ انہیں ٹھنڈا گرم کا احساس ہوتا ہے نہ ہی کوئی درد ہوتا ہے ۔ جیسے کہ انسان کوئی  گرم چیز پکڑ لے تو ہماری یہ ہی حس ہمیں خبردار کرتی ہے کہ اسے چھوڑ دے یا کوئی کٹ لگ جائے تو درد کا احساس ہی ہوتا ہے جو اسے دوا لگانے یا علاج کروانے پر تیار کرتا ہے ۔  لیکن جذام کے مرض میں انسان اپنے ہی وجود سے اس طرح لاتعلق ہوتا ہے کہ رات میں سوتے وقت  کوئی چوہا اسے کتر کر اس کا گوشت کھا جائے یا اسکا کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو خود کو بچانا یا کراہنا تو دُور کی بات بلکہ وہ جاگے گا بھی نہیں ۔ خدا معاف کرے ۔ کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ جس درد سے ہم خلاصی چاہتے ہیں۔ یہی درد ہمیں کسی بھی بڑی تکلیف سے بچانے کے لیئے الارم کا کام کرتا ہے ۔  یہ درد ہی تو ہے جو ہمیں کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ اپنے آپ کو بچانے پر راغب کرتا ہے ۔ دوسرے کے آنسو بھی تو تبھی پونچھے جا سکتے ہیں جب آپ درد کی اس شدّت کو محسوس کر سکتے ہیں ۔ اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ  بھوک میں بھوکے کی بھوک کا احساس ہوتا ہے تو تکلیف گزارنے والا ہی کسی دوسرے کی تکلیف کو بہتر سمجھ سکتا ہے ۔ اور ویسے بھی خدا جنہیں یاد کرتا ہے اسے کسی بھی تکلیف یا آزمائش میں ڈالتا ہے ۔ اس درد کو ایک نعمت سمجھنا چاہیئے کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کرتا ہے ۔ خدا کی مخلوق کے دکھ درد کا احساس دلاتا ہے ۔ خدا کی طاقت کے آگے انسان کو اس کی کمتری کا احساس دلاتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے کہ کوئی ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ کوئی ہے جو جب چاہے کسی کو طاقت بخش دے اور جب چاہے انسان کی طاقت  کو مٹی میں ملا دے ۔ خدا خود بھی تو دُکھی دلوں میں رہتا ہے ۔ انعام کے طور پے  یہ ہی دکھ کی درد کی گھڑیا ں ہی تو دعا کی قبولیت کو اور یقینی بنا دیتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بابا فرید فرماتے ہیں کہ                "مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے،
 ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
پر کسے دا دل نہ توڑیں، رب دلاں وچ ریہندہ "
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●




جمعہ، 15 نومبر، 2013

● (2)سچ کی کوئی قیمت/ کالم۔ سچ تو یہ ہے


(2)سچ کی کوئی قیمت 
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس


کون کہتا ہے کہ سچ کو خریدا یا بیچا جا سکتا ہے ؟ یا سچے کو خریدا  جا سکتا ہے ؟ اور ویسے بھی جو بک گیا جو سچا تھا ہی کب ؟ کئی لوگوں کے لیئے یہ افسانوی بات ہو سکتی ہے لیکن یہ کوئی افسانہ نہیں ہے کہ اسی ماہ خاص محرم الحرام میں صدیوں پہلے یہ سبق اس کائنات کے سب سے قیمتی گھرانے نے ہمیں دے دیا ۔ کہ بات اگر سچ ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ  جیسے مخالف کی بھی مان لی اور اگر بات غلط تھی تو انہی باپ کے بیٹے یذید شیطان  کی بھی ماننے سے انکار کر دیا ۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ علی الاعلان انکار کیا ۔ ایک ایسا انکار جس نے سچائی کی تاریخ رقم کر دی ۔ یہ کوئی ضد نہیں تھی کہ ایک فاجر ، فاسق ۔ زانی  ، شرابی اور بے دین شخص جسے دنیا یذید کے نام سے جانتی ہے ، کو کسی بھی قیمت پر لوگوں کی عزتوں کی حفاظت کا ذمہ نہیں دیا جا سکتا ۔ لوگوں کے جان اور مال کا محافظ نہیں بنایا جا سکتا  ،  جو شخص خدا کا خوف ہی نہیں رکھتا وہ کیسے خدا کی مخلوق کے لیئے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ جس شخص کا اپنا کوئی کردار ہی نہیں ہے  وہ کبھی خدا کی مخلوق کے لیئے اچھا ثابت نہیں ہو سکتا ۔  ایسا  آدمی  حکمران تو کیا کسی کے گھر کا چوکیدار بننے کا بھی اہل  نہیں ہے ۔ یہ امام حسین علیہ السلام کا سچ ہی تھا جو اپنے پورے کنبے کو لیکر میدان کرب و بلا کی جانب کوچ کر گیا ۔ کیا آپ علیہ السلام نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے جا رہا ہے ؟ جانتے تھے اپنے بچپن سے جانتے تھے کہ ایک روز مقتل سجایا جانا ہے اور اس مقتل میں پیارے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے نواسے کو اپنے پورے کنبے کے ساتھ نیزے پر چڑھایا جائیگا ، جرم سچائی میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی نہیں بخشا گیا  تو ایک عام سے انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ سچ بھی بولے اور اسکی قیمت بھی لوگوں کو نہ چکائے ۔ کیوں کہ یہ ہی حقیقت ہے کہ سچ بولنے والے کو ہی ہمیشہ سچ کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے ۔ یہ قیمت کبھی تو سقراط زہر کا پیالہ پی کر چکاتا ہے ، کبھی منصور سولی چڑھ کر چکاتا ہے اور جب آخری حدوں کو چھو جائے تو حسین ابن حیدر کی طرح سر کٹا کر اور کنبے کا کنبہ قربان کر کے چکاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ جتنا بڑا مرتبہ ہو اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور جتنا بڑا مقام ہو اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہوتا ہے اور جتنا بڑا کردار ہو اتنی ہی بڑی قربانی بھی دینی پڑتی ہے ۔ ایک عام آدمی جب کردار کی مضبوطی کی قیمت چکاتا ہے تو اپنی جان وار دیتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام  جیسا خاص انسان قیمت چکاتا ہے تو اپنا پورا خاندان اس پر وار دیتا ہے خاندان بھی وہ کہ جسے دیا بجھا کر یہ اختیار بھی دیا گیا ہو کہ جو چاہے بخوشی قربانی کے اس سفر سے واپسی کی راہ لے اس پر کوئی ملامت نہیں ۔ لیکن خاندان ہو حسین علیہ السلام کا اور سچ کے میدان سے بھاگ جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ حسین علیہ السلام کے گھرانے کا ہر شخص  خود ایک حسین بن چکا تھا ۔  جنہیں  یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ
 جان دی دی ہوئی اسی کی تھی 
  سچ تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 
کیوں کہ جو کچھ اس قافلے نے کیا وہ سب حق سے بھی کہیں زیادہ کی ادائیگی تھی کسی بھی انسان کے کہنے کے لیئے قیامت تک جناب حسین علیہ السلام نے یہ کہنے کا موقع ہی نہیں چھوڑا کہ جنت کے جوانوں کا سردار بننے کے لیئے تو نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہونا ہی کافی ہے ۔ بلکہ یہ عظیم قربانی دیکر یہ ثابت کر دیا کہ نانا جان باکمال ہیں تو نواسہ بھی بے مثال ہے اور بے مثال لوگ ہی سب سے بلند درجات کے قابل ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کبھی نااہل لوگوں کی حمایت نہیں کیا کرتے ۔ سچائی کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے اور اس سچائی کی قیمت لیا نہیں کرتے بلکہ اس کی قیمت چکایا کرتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو ۔ کبھی دنیا یہ قیمت سچائی پر بہتان لگا کر لیتی ہے کبھی اس کے خاندان کو تڑپا کر لیتی ہے کبھی اس کی یا اسکے پیاروں کی جان لیکر لیتی ہے لیکن لیتی ضرور ہے ۔   کبھی اس کے مالی نقصانات کر کے لیتی ہے ،  ہم تو ویسے بھی اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہ ،
جہاں جگنو پکڑ کے ان کو آگے بیچ دیتے ہیں
یہاں سچ بولنے والوں کی سانسیں کھینچ لیتے ہیں
اگر ہم یذیدیوں کے جھوٹ میں انکا ساتھ دینے والے نہ ہوتے تو آج ان کی غلامی پر مجبور بھی نہ ہوتے ۔ انکو جھک جھک سلامیاں دینے پر بے بسی سے ہاتھ بھی نہ ملتے ، سچ بولنے کی اگر قیمت چکانی پڑتی ہے تو یاد رکھیں جھوٹ بولنے اور جھوٹ کا ساتھ دینے والوں کو بھی وقت کبھی نہیں بخشتا ، ہر ایک کو  خدا تعالی کے حکم سے وقت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی پڑتا ہے ۔  انہیں بھی اس جھوٹ کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے انہیں بھی قربانی کا دنبہ بننا پڑتا ہے مگر ان دونوں قربانیوں میں ایک بہت بڑا فرق ہمیشہ نمایاں رہتا ہے کہ
جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے
کیوں کہ وقت بڑا بے رحم منصف ہے اسی لیئے سچ تو قیمت چکا کر زندہ و جاوید ہو جاتا ہے جب کہ جھوٹ کو ہمیشہ کے لیئے سزائے موت ہو جاتی ہے۔
●●●
تحریر:ممتازملک 
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●



اتوار، 20 اکتوبر، 2013

آدمی آدمی سے ڈرتا ہے


آدمی آدمی سے ڈرتا ہے 


کتنی عجیب بات ہے  کہ ہم بچپن سے لیکر بڑھاپے تک یہ ہی سبق پڑھتے بھی ہیں اور اپنی نسلوں کو پڑھاتے بھی ہیں کہ سچ بولو ۔ دھوکا نہ دو اللہ سے ڈرو ۔ کسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دو  وغیرہ وغیرہ  لیکن کتنی عجیب بات ہے  کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ جھگڑے بھی اسی بنیاد پر دوسروں سے کرتے ہیں کہ کیوں بھئی آپ نے فلاں بات دوسروں کے سامنے سچی کیوں کہہ دی ۔ فلاں موقع پر آپ نے گواہی کیوں دیدی ۔ فلاں موقع پر  دوسرے کو چیٹ کیوں نہیں کیا بڑا شوق ہے تمہیں ایماندار بننے کا چل ہم تمہیں مزا چکھاتے ہیں ۔  کیا یہ ہماری ذندگیوں کا کھلا تضاد نہیں ہے ؟ ہم خدا کی رحمتوں سے دور ہونے کا رونا تو روتے نظر آتے ہیں لیکن اسکی وجوہات کا سد باب کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ ہر کوئی اپنی گردن کے سریئے کو بھی سلامت رکھنا چاہتا ہے اور خدا سے خود پے رحم کی امید بھی رکھتا ہے ۔ دوسروں پر تو کیچڑ اچھالتا ہے لیکن اپنے دامن کی سفیدی کو بھی قائم رکھنا چاہتا ہے ، جانتا بھی ہے عزت اور ذلّت دینے والی ذات رب کائنات کی ہے مگر اس اختیار کو اپنے ہاتھ میں بھی لینا چاہتا ہے ۔ جانتا ہے کہ روزی دینے والا ہمارا مقدر ہمارے عالم وجود میں آنے سے پہلے ہی لکھ چکا ہے لیکن پھر بھی دنیا بھر کے خزانوں کا حریص رہتا ہے ۔ یہ بھی جانتا ہے کہ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے مگر پھر بھی دونوں ہاتھوں کو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں ڈبوئے رکھنا چاہتا ہے ۔ جانتا ہے کہ میں خود اس زمین کا رزق ہو ں مگر اس زمین کو دوسروں کے لیئے تنگ کر دیتا ہے ۔ اسی زمیں پر اکڑ کر بھی چلتا ہے ۔ خود تو ذہر تھوکتا ہے ہر کسی پر لیکن اپنے لیئے امرت لہجوں کی امید بھی رکھتا ہے ۔  بیشک اللہ پاک فرماتا ہے کہ جو کوئی کسی کی ایسی جگہ پر عزت کو کم کرنے کی کوشش کرے جہاں اسے عزت دیجاتی ہے تو میں بھی اسے اس جگہ بے یارو مددگار چھوڑ دونگا جہاں اسے میری مدد کی ضرورت ہو گی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج دوسروں کے لیئے فساد برپا کرنے والا اپنے لیئے دعاؤں کی قبولیت نہ ہونے کا ذکر بھی کرتا ہے ۔ آج ہم خدا کے خوف سے کوئی کام نہیں کرتے بلکہ جو بھی کرتے ہیں لوگوں کے خوف سے کرتے ہیں ۔  ہمیں اس بات کی اتنی فکر نہیں ہوتی کہ خدا کی حدود کہاں ختم ہو رہی ہیں ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ہائے ہائے لوگوں کو پتہ چلے گا تو کیا ہو گا ۔ اگر ایک لمحے کو یہ ہی سوچ لیا جائے کہ اللہ پاک  کے سامنے یہ عمل پیش کیا جائے تو کیسا ہو گا تو یقینا بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ بدل جائے  ۔ لیکن کیا کریں اس نقار خانے میں سچ بولنے والے کی آواز اب محض ایک طوطی کی سی رہ گئی ہے ۔  سچ ہی فرمایا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے کہ جہاں آوازیں بلند ہوں ، علم کم ہو اور دلیلیں کمزور تو وہاں خاموشی بہتر ہے ۔ ہم اسی زمانے میں جی رہے ہیں جہاں آدمی خدا کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتا لیکن لوگوں کے خوف سے دنیا چھوڑ دیتا ہے ، کیونکہ آدمی خدا سے نہیں آدمی سے ڈرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 1 اکتوبر، 2013

مذمت سے مرمت تک



مذمت سے مرمت تک

ایک اور دھماکہ ایک اور مذمت ۔ آج تیرھواں سال پاکستانی قوم کو دھماکوں کی سلامی دیتے اختتام کی جانب رواں ہے ۔ پشاور میں ہونے والا بم دھماکاکہ معصوم انسانوں کی لاشیں اٹھاتی جیتے جی مر جانے والوں کے زندہ  لاشے ۔ تڑپ تڑپ کر زمین پر گرتی ماں بہنیں بیویاں بیٹیاں ، غش پہ غش کھاتی پاپا کی پیاری بچیاں ۔ کوئی بات بھی نہ تو نئی ہے نہ ہی پہلے سے کم درد ناک ، جبکہ دوسری جانب وہی  لاشوں کے بدلے چیک امدادی رقوم کا اعلان کرتی حکومت ۔ معصوم  لوگوں کو ٹالتے حکومتی نمائندے ،۔ کیا بدلہ ہے اس ملک میں الیکشن ہونے  پر ۔ الیکشن کروانے کے باوجود کون کس سے کم جوابدہ ہے اور کون کس سے زیادہ ذمہ دار ۔ مذمتی قرار دادوں کی اوٹ میں منہ چھپاتے حکومتی بدمعاش ۔ جن کی ذندگیوں میں عیاشیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں نے مذمتوں کی کالک اپنے منہ پر مل مل کر اسلام کی خوب خوب کھلی اڑائی ہے ۔   کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ہزاروں مذمتوں کی بجائے ایک ادھ بھرپور مرمت کرتے ان دہشت گردوں اور ان کے چیلوں کی  ۔ جن کا کہیں بھی کسی طور بھی نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی اسلام  کے بنیادی اراکین اور اصولوں سے بھی واقفیت ۔
جنہیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ اسلام عورتوں بچوں بوڑھوں اور  خالی ہاتھ لوگوں پے ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہی نہیں دیتا ۔ جنہیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ اسلام تو ہرے پیڑ پودے تک کو بلا وجہ کاٹنے کی اجازے نہیں دیتا  ۔ جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے تو اس شخص پر بھی ایک مسلمان ہاتھ نہیں اٹھا سکتا ۔ ایسے ایسے نیم ملا  اور نیم مسلم اور ذہنی مریض اور اشتہاری مجرمان  اپنے اپنے ملکوں میں گندگی کے میدان کھلے چھوڑ کر پاکستان میں لوگوں کو اسلام سکھانے اور جہاد کو بدنام کرنے میں  مصروف ہیں ۔ اور ہمماری حکومتیں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف ہیں ۔ ادھر انڈیا میں کوئی پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو وہ ڈھنڈھورا پیٹ پیٹ کر'' پاکستان نے مار ڈالا ''کا واویلا مچاتے ہیں جبکہ پاکستان انکے جاسوسوں، قاتلوں کو بھی وی آئی پیز کی طرح دولہا بنا کر انکے حواکے کر دیتا ہے اس پر پاکستانیوں کی خوش فہمیاں کہ ہندو بھائی ہمارے ساتھ بھائی بھائی کھیلیں گے ۔ ہمارے ہاں ہر جگہ دہشت گردوں سے انڈین برانڈ کا یا دوسرے ممالک کے برانڈ کا ہتھیار برامد ہوتا ہے لیکن وہ کون سی غیبی طاقت ہے جو پاکستانی زمّہ داران کے منہ پر ٹیپ چپکا دیتی ہےاور ہندوستان کا نام انکے گلے ہی میں پھنس جاتا ہے ۔  اور انکا اینکر اور ماہرین  علی الاعلان ٹی وی پر چلاتا ہے کہ بھائی باتیں نہ کرو ثبوت دکھاؤ ۔ اگر ہمارے بے لگام میڈیا نے انکے ہتھیاروں کی ڈاکو مینٹریز انکے منہ پر ماری ہوتی تو انکا لہجہ اتنا بلند کبھی نہ ہوتا ۔ لیکن کیوں نہ ہوتا۔ بنیئے کی فطرت ہے ٹکے دھیلے کی خیرات بھی کرےگا تو حساب رکھے گا اور ایک ہم کہ انکے ساتھ صدیوں رہنے کے بعد بھی ہمیں حساب کتاب رکھنا نہ آیا ۔  ہمارے ملک میں انکے ایجنٹنس کو مامے کا پتر سمجھ کر خاطر تواضح کرنے کی بجائے قصاب کی طرح پیٹی میں ڈال کر بھیجا جاتا ۔ تو انکے ہاتھ اتنے لمبے نہ ہوتے  اور زبانیں اتنی بے لگام نہ ہوتیں ۔ تو می لارڈززززز اپنی سوئی ہوئی غیرتوں کو جگایئے اور  جاسوسوں ، بدمعاشوں ،بدکاروں کو مذمت سے بڑھکر مرمت کے طرف لایئے ۔ ہرمعاملہ مذمت سے حل ہو جاتا تو لغت سے مرمت کا لفظ  ہی نہ مٹا دیا جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 10 ستمبر، 2013

اے وطن اے وطن/ اردو شاعری۔ قومی گیت۔ میرے دل کا قلندر بولے



  اے وطن اے وطن


   اے وطن اے وطن اے وطن اے وطن 
 سرحدوں پہ کھڑے سر پہ باندھے کفن 
  جو اٹھی تیری جانب  نظر آۓ گی
   عظمتوں کی قسم وہ ہی جھک جاۓ گی 
 کوئ طوفان تیری طرف رخ کرے
  ہم پلٹ دیں گے رخ اپنے سینے کو تن 

   اے وطن اے وطن اے وطن اے وطن 
 سرحدوں پہ کھڑے سر پہ باندھے کفن

  پہلے پائی بہت  خامشی کی سزا 
   علم کی قدر کھو کر نہ پائی بقا
  فرق عزت غلامی کا ہم جان کر
 اب نہ لٹنے کبھی دیں گے اپنا چمن  

   اے وطن اے وطن اے وطن اے وطن 
 سرحدوں پہ کھڑے سر پہ باندھے کفن 

    ایسے لیڈر کو اب ہم نہ بخشیں کبھی 
  بھیک مانگے تیرے نام  دنیا سبھی 
  ان کو بتلا دو کہ ہم بھکاری نہیں
   ہیں خزانوں سے پُر اپنے کوہ ودمن  

   اے وطن اے وطن اے وطن اے وطن 
 سرحدوں پہ کھڑے سر پہ باندھے کفن 
  
کلام/  مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام /
 میرے دل کا قلندر بولے
 ....................

شعر



شعر


دکھ کا اک سمندر ہے
درد کا یہ سیپی ہے
ڈھونڈ کے جو لاتے ہیں 
آنسوؤں کا موتی ہے 
جس کو شعر کہتے ہیں 


اتوار، 8 ستمبر، 2013

● انتساب/ میرے دل کا قلندر بولے




  انتساب


  میں اپنی پہلی کتاب ' مدت ہوئی عورت ہوئے ' کی پذیرائ کے لیئے قارئین  کی بے حد ممنون ہوں  .                                                                              
 آج میرا دوسرا شعری مجموعہ ' میرے دل کا قلندر بولے ' آپ کے ہاتھ میں ہے  .جس کے لیئے آپ سب کی جانب سے حوصلہ افزائی کی امید رکھتی ہوں .       
 میری اس کتاب کا انتساب ان تمام  لوگوں کے نام ہے جو صرف حقوق اللہ پر ہی زور نہیں دیتے بلکہ اللہ کی جانب سے  معاف نہ کیئے جانے والے حقوق العباد کو بھی بھر پور طریقے سے ادا کرتے ہیں.              جو کسی کا حق نہیں مارتے  . یتیموں کا مال نہیں کھاتے . ہمسائیوں کا خیال رکھتے ہیں  .جھوٹی گواہی نہیں دیتے . کم نہیں تولتے . اور جنکے ہاتھ ' آنکھ اور زبان سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچتا  .کیوں کہ یہ ہی وہ لوگ ہیں جن سے خدا نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور جن سے جنت سجائی جائے گی  .کاش  ہم بھی انہیں لوگوں میں سے ہو جائیں  . یہ ہی                                                                       
' میرے دل کا قلندر  بولے ' 
ممتاز ملک۔پیرس
●●●

اتوار، 18 اگست، 2013

● (3) میرے دل کا قلندر بولے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(3) میرے دل کا قلندر بولے

میرے دل کا قلندر بولے 
 تو سن لے ہولے ہولے
  کوئی  راھ دکھے مقصد کی 
 اس راھ پہ پھر تو ہو لے
  میرے دل کا ........

  نہ کر تُو نافرمانی اب 
 بن جآ تو اسکا جانی اب 
جانے  کس دم مُک جانی ہے
 دنیا سے تیری کہانی اب 
 کیوں بن مولے غم مولے
  میرے دل کا.....

 جو اپنے آپ کا عاشق ہے  
جو فاجر بھی ہے فاسق ہے
  بندوں پہ کرم کرنے والا 
 کیا جانے نہ وہ رازق ہے  
جو ساری  راہیں کھولے 
  میرے دل کا .....

یہ دنیا ہے اک کیچڑ 
 تُو چلنا اس میں بچ کر  
دامن نہ کہیں میلا ہو
  تر جاۓ گا اُس سے ڈر کر
  ہر ایک عمل جو تولے  
 میرے دل کا  .........
●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

جمعہ، 16 اگست، 2013

◇ ● (4) چار بیٹوں کی ماں/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



(4) چار بیٹوں کی ما ں 




  چار بیٹوں کی ماں تھی وہ  مقدروں والی     لوگوں کی نظر میں قسمت والی 
  اپنے منہ کا نوالہ بھی وہ                    انکے منہ میں رکھ دیتی تھی   
 اپنے سوٹ میں پیوند ٹانکے              انکے پینٹ تو اعلی ہو 
   چھید دوپٹے میں ہے تو کیا              شرٹ تو انکی اعلی ہو
    انکے باپ سے چھپ کر بھی وہ          مٹھائیاں پیسے اور کھلونے
اپنی بھوک کو دھوکہ دیکر              ان کی جیب میں بھر دیتی تھی
    یہ ہی سوچ بدل نہ پاتی              پاؤں میں ٹوٹی چپل کو وہ  
 کچھ دن اور چلے گی یہ تو              بچوں کو جاگر تو لے دو 
  اپنے گلے کا ہار بھی بیچا            ہاتھ کی چوڑی ناک کی لونگ
  اور ماتھے کا جھومر بیچا           شادی کی وہ ایک نشانی
   ہاتھ کی انگوٹھی بھی بیچی          تاکہ انکو گھر مل جاۓ 
  کرایہ داری میں پڑ نہ جائیں             دنیا کے دھکے نہ کھائیں   
 اپنے شوق نچھاور کر کے     اکدن  آئینہ جو دیکھا
   کالے بال سفید ہوۓ تھے           چہرے پر جھریوں کا جالا
   خود میں ہنستی بستی لڑکی         دور کہیں گم کر بیٹھی تھی
   یہاں تو کوئی اور ہی عورت        آئینے میں آن کھڑی تھی  
         ہڈیوں سے آوازیں آئیں                اب مجھ میں کچھ زور نہیں ہے  
 آنکھیں بھی شکوہ کر بیٹھیں      مجھ  میں بھی وہ نور نہیں ہے
   گھر میں بہوئیں  لے آئی تھی          بیٹے انکو سونپ چکی تھی 
 سوچا کہ کچھ دیر یہاں پر          بیٹے کے سنگ ہنس بولوں گی  
 انکے بچے   گود میں لیکر     
    پیار بھرے بوسے میں لونگی
     لیکن اک دن اسنے دیکھا         بند لفافے لیکر بیٹا
   دھیرے سے چلتے ہوۓ  اپنے      کمرے میں پہنچا تو اسکی
 بیوی نے در بھیڑ لیا          
کھانے کی خوشبو سے اس دن 
 ماں نے اپنا پیٹ بھرا اور
 اپنے ہی آنسو پی کر  
اسنے اپنی پیاس بجھائی  
 کیوں کہ اسکے دو لقمے تھے
 بھاری اس پر
  جسکو اسنے خون پلایا 
بس وہ رات ہی آخری ٹہری 
 روتی آنکھیں ساکت ہو گئیں 
   ماں کی میت چارپائی پر
 پڑی ہوئی ہے  
 بیٹے بہوؤں کے دامن میں 
    گھس کران  سے پوچھ رہے ہیں
   کفن کا خرچہ کون کریگا    
  گھر  بانٹا گہنے بانٹے اور 
ساری  زمینیں بانٹیں 
 یارو   ایسا کرو کہ مل کے
  چاروں  کفن پہ چندا کر لو  
 اللہ بھی خوش ہو جاۓ گا  
 تو کتنی خوش قسمت ہے ماں 
 تیری خاطر 
ہم کو گھر سے باہر جا کر  
  چندہ مانگنا نہیں پڑے گا   
کیوں کہ تُو بیٹوں کی ماں تھی    
 بیٹوں کی ماؤں کا کفن تو 
   اکثر چندے کا ہوتا ہے
●●●
کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
 ●●●

● (75) جو چاہا تھا/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(75) جو چاہا تھا



جو چاہا تھا تو نے تجھے وہ ملا ہے 
طلب مال و زر کی نہیں تھی نظر کی 

جو قدرت سے لڑ  کر جہاں کو بسائے 
اسے قدر کیا ہو کسی چشمِ تر کی

ہوں جنکی تمنا میں افلاک رقصاں 
انہیں کیا ضرورت زمینوں پہ گھر کی 

میرا ایسا کوئی وسیلہ نہیں ہے
مجھے دے خبر جو تمہارے نگر کی

فقیروں کے دن رات سب سے جدا ہیں 
 نہیں فکر کرتے ہیں وہ عمر بھر کی

 ہمارا توکل ہماری ہے دولت
کبھی غم نہ کرنا ہماری گزر کی

جو اپنی خودی کو خودی دفن کر دے
اسے فکر کیا گمشدہ رہگزر کی

جنہیں کوئی بیچے یا کوئی خریدے
انہیں  کیا بتاتے ہو قیمت سفر کی 

سنبھالا نہیں جاتا تم سے یہ گھر بھی
چلے بات کرنے کہاں کاشغر کی  

جو کانٹوں سے ممّتاز دھرتی سجا دیں 
وہ کیسے کریں گے تمنا شجر کی 
●●●
 کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

● (74) اپنے حق کے لیئے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(74) اپنے حق کیلیئے




اپنے حق کیلیئے آواز اُٹھائی ہوتی
کاش یہ شرم کے پردے تو اتارے ہوتے 

زیست بنتی نہ کبھی جستجوۓ لاحاصل
پھر یہ ممکن تھا کہ طوفاں میں کنارے ہوتے

رات کی گود سے گر مانگ کے لاۓ ہوتے 
چاند تارے بھی تیرے دوش پہ وارے ہوتے

روشنی کم نہیں گھر میں تیر ے ہونے دیتے
کاش آنچل میں میرے اتنے ستارے ہوتے

آنکھ کے پانی کو شبنم کا سا عنواں دیکر
چند پھولوں کے ہی چہرے تو نکھارے ہوتے

دوسروں کیلیئے جو درد کا درماں بنتے
خود بھلا درد میں ممّتاز بیچارے ہوتے
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (50) کاریگری/ شاعری ۔ میرے دل۔کا قلندر بولے




(50) کاریگری


ہر کاریگری تیری ہوتی ہے بیمثال
کچھ رنگ چراتی ہوں کچھ لیتی ہوں اشکال

فطرت کے سبھی رنگوں کو آنکھوں میں سمو کر
جتنی ہو ضرورت اسے لیتی ہوں وہاں ڈھال

کس درجہ ہے بھرپور یہ قدرت کی صناعی
محدود میری عقل عطا تیری باکمال

ہر چیز اپنے اپنے مدارج میں ہے پابند
انسان ہی حیلوں سے چلے روز نئی چال

مشکل میں تیرے سامنے گردن کو جھکائے
آسانیوں میں جھکنا تصور بھی ہے محال

خواہش کا سفر اتنا بھی آسان نہیں ہے
باطن کا گلا گھونٹ کے کونے میں کسی ڈال

سویا ہے ضمیر اس لیئے دھیرے سے چلا کر
ممتاز اگر جاگا تو کر بیٹھے گا سوال
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (73) عبادت گاہ/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


عبادت گاہ




یہ دل ہے عبادت گاہ صنم 
اس دل کو تُو بازار نہ کر

جو خلقت میں رُسوا کر دے
تُو مجھ سے ایسا پیار نہ کر

ہم تو ہیں خلوص کے شیدائی
یہ جذبوں کا بیوپار نہ کر

صدیوں میں بنائی ہے عزت
لمحوں میں اسے بیکار نہ کر

ہر ظلم وہ کرنا حق سمجھے 
اور مجھ سے کہے تکرار نہ کر 

سب دیکھوں اور خاموش رہوں 
مجھے ظلم میں حصّے دار نہ کر 

جو منزل سے بھٹکاتے ہوں 
رستے ایسے ہموار نہ کر

پہلے ہی کوئی ہم نیک نہیں 
تُو اور ہمیں گناہ گار نہ کر

یہاں ایک ہی پل کی خبر نہیں
نہ باندھ ارادے وار نہ کر

دل اپنی دُھن میں رہنے دے
برسوں پہلے تیار نہ کر

نہ اور تُو پردہ ڈال ان پر
تُو دشمن کو ہشیار نہ کر

کر بات نبھانے کے دم پر
کچّا پکّا اظہار نہ کر

پہلے ہی زیست آسان نہیں 
تُو اور اسکو دشوار نہ کر

کوئی نہ کسی کو جھیل سکے
ممّتاز کو رب لاچار نہ کر
●●●
کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (72) نورِازل/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(72) نورِازل



      نورِازل سے نورِابد تک تیرے ساتھ کا وعدہ ہے
کتنے بھی رنگوں میں ڈھل کرحسن تو اسکا سادہ ہے

تیرے ایک اشارے پرکوئی عکس کرے کوئی رقص کرے
             فطرت کی ہر اِک شے میں تابعداری کا مادہ ہے

   جنکی خوشی میں خوش ہو کر ہر چیز فنا ہوجاتی ہے
کیوں میں نے اس پیار کو زہن پہ بوجھ کی طرح لادا ہے

اسکی تو ہر ایک عطا ہی کہیں پہ مجھ کو کم لگتی ہے 
       میری تھوڑی سی بھی شکرگزاری بہت ذیادہ ہے 

  ہر ٹکِ ٹکِ پر میرے ذہن کو سوچ کا وہ اِک موقع دے
کون ہے جس نے سورج چاند کو اِک مرکز پہ باندھا ہے

   نہیں ضرورت ہتھیاروں کی نہیں تمنّا یلغاروں کی    
توڑ سکے نہ پھر بھی مجھ کو یہ مضبوط اِرادہ ہے    


اِک ممتاز کے دم بھرنے سے نہ تُو کم نہ ذیادہ ہے
بس تیری تسبیح کروں میں خود سے میرا وعدہ ہے
●●●
کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (70) گُل نہ مار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(70) گُل نہ مار


کانٹوں کا احتساب ہے پھولوں کا انتظار
یوں گل اُٹھا کے نہ تُو میرے زخمی دل پہ مار

گر آج ہیں نصیب سے راہیں جُدا جُدا
ممکن ہے کل یہ وقت نگاہوں کو کر دے چار 

کچھ تو لحاظ بات میں لہجے میں چھوڑیئے
اس سے ذیادہ جھیل نہ پائیگا دل بیمار

سوچوں کو انتخاب کا موقع تو دیجیئے
جس میں حقیقتوں کے مناظر ہیں بیشُمار

وابستہ تیری ذات سےغم پہلے کم نہ تھے
مجھ کوتیرے وجود سے ملتی ہےصرف ہار

انہونیوں نے راستے گھر کے بتا دیئے
ممتاز ہونیوں نے کبھی کا دِیا تھا مار

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●  

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/