ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 20 اکتوبر، 2013

آدمی آدمی سے ڈرتا ہے


آدمی آدمی سے ڈرتا ہے 


کتنی عجیب بات ہے  کہ ہم بچپن سے لیکر بڑھاپے تک یہ ہی سبق پڑھتے بھی ہیں اور اپنی نسلوں کو پڑھاتے بھی ہیں کہ سچ بولو ۔ دھوکا نہ دو اللہ سے ڈرو ۔ کسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دو  وغیرہ وغیرہ  لیکن کتنی عجیب بات ہے  کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ جھگڑے بھی اسی بنیاد پر دوسروں سے کرتے ہیں کہ کیوں بھئی آپ نے فلاں بات دوسروں کے سامنے سچی کیوں کہہ دی ۔ فلاں موقع پر آپ نے گواہی کیوں دیدی ۔ فلاں موقع پر  دوسرے کو چیٹ کیوں نہیں کیا بڑا شوق ہے تمہیں ایماندار بننے کا چل ہم تمہیں مزا چکھاتے ہیں ۔  کیا یہ ہماری ذندگیوں کا کھلا تضاد نہیں ہے ؟ ہم خدا کی رحمتوں سے دور ہونے کا رونا تو روتے نظر آتے ہیں لیکن اسکی وجوہات کا سد باب کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ ہر کوئی اپنی گردن کے سریئے کو بھی سلامت رکھنا چاہتا ہے اور خدا سے خود پے رحم کی امید بھی رکھتا ہے ۔ دوسروں پر تو کیچڑ اچھالتا ہے لیکن اپنے دامن کی سفیدی کو بھی قائم رکھنا چاہتا ہے ، جانتا بھی ہے عزت اور ذلّت دینے والی ذات رب کائنات کی ہے مگر اس اختیار کو اپنے ہاتھ میں بھی لینا چاہتا ہے ۔ جانتا ہے کہ روزی دینے والا ہمارا مقدر ہمارے عالم وجود میں آنے سے پہلے ہی لکھ چکا ہے لیکن پھر بھی دنیا بھر کے خزانوں کا حریص رہتا ہے ۔ یہ بھی جانتا ہے کہ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے مگر پھر بھی دونوں ہاتھوں کو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں ڈبوئے رکھنا چاہتا ہے ۔ جانتا ہے کہ میں خود اس زمین کا رزق ہو ں مگر اس زمین کو دوسروں کے لیئے تنگ کر دیتا ہے ۔ اسی زمیں پر اکڑ کر بھی چلتا ہے ۔ خود تو ذہر تھوکتا ہے ہر کسی پر لیکن اپنے لیئے امرت لہجوں کی امید بھی رکھتا ہے ۔  بیشک اللہ پاک فرماتا ہے کہ جو کوئی کسی کی ایسی جگہ پر عزت کو کم کرنے کی کوشش کرے جہاں اسے عزت دیجاتی ہے تو میں بھی اسے اس جگہ بے یارو مددگار چھوڑ دونگا جہاں اسے میری مدد کی ضرورت ہو گی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج دوسروں کے لیئے فساد برپا کرنے والا اپنے لیئے دعاؤں کی قبولیت نہ ہونے کا ذکر بھی کرتا ہے ۔ آج ہم خدا کے خوف سے کوئی کام نہیں کرتے بلکہ جو بھی کرتے ہیں لوگوں کے خوف سے کرتے ہیں ۔  ہمیں اس بات کی اتنی فکر نہیں ہوتی کہ خدا کی حدود کہاں ختم ہو رہی ہیں ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ہائے ہائے لوگوں کو پتہ چلے گا تو کیا ہو گا ۔ اگر ایک لمحے کو یہ ہی سوچ لیا جائے کہ اللہ پاک  کے سامنے یہ عمل پیش کیا جائے تو کیسا ہو گا تو یقینا بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ بدل جائے  ۔ لیکن کیا کریں اس نقار خانے میں سچ بولنے والے کی آواز اب محض ایک طوطی کی سی رہ گئی ہے ۔  سچ ہی فرمایا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے کہ جہاں آوازیں بلند ہوں ، علم کم ہو اور دلیلیں کمزور تو وہاں خاموشی بہتر ہے ۔ ہم اسی زمانے میں جی رہے ہیں جہاں آدمی خدا کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتا لیکن لوگوں کے خوف سے دنیا چھوڑ دیتا ہے ، کیونکہ آدمی خدا سے نہیں آدمی سے ڈرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/