ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 31 جنوری، 2014

● (18) وہ اک جواں/کالم۔سچ تو یہ ہے


(18) وہ  اک جواں
ممتاز ملک ۔ پیرس



وہ  اک جواں جسے کہتے تھے اعتزاز احسن
حیات و موت کی کیسی ہے ساز باز احسن

 روز ہی ایک جیسی خبریں پڑھتے دل جیسے اوبھ سا گیا ہے کوئی دن نہیں جاتا جب جسموں کو لاشوں میں بدلتے دیکھے بنا سورج پاکستان میں ڈھلتا ہو  ، لیکن اس دن کچھ عجیب ہوا بہت حیران کر دینے والا ، رونگٹے کھڑے کر دینے والا کچھ ہماری نظروں کو شرم سے جھکا دینے والا ۔ لیکن ہم میں تو شرم نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں کبھی کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا    کہ 
  پہلے آتی تھی ہر اک بات پہ شرم 
 اب کسی بات پر نہیں آتی 

لیکن اس عالم بے شرمی  میں بھی ایک ابھرتی ہوئی جوانی لیئے معصوم سا جوان کہ جس کی مسیں بھی ابھی نہ بھیگی ہوں ہمیں ہمشہ کے لیئے اپنے ہونے کا احساس دلا گیا ۔  حسب معمول اپنی ماں کا ہاتھ بٹا کے اپنے سکول جانے والا یہ بچہ  ابھی سکول پہنچ ہی رہا تھا کہ اسے ایک دوسرا لڑکا کچھ مشکوک انداز میں سکول کی اسمبلی میں جاتا ہوا دکھائی دیا ۔ بم دھماکوں کا تو دور ہے ہی تو ہر آدمی کا پہلا شک یہ ہو تا ہے کہ کہیں یہ کوئی دہشت گرد تو نہیں ، تقریبا ایک ہزار کے قریب بچے جو اسمبلی کے لیئے سکول گراؤنڈ میں موجود تھے ان کی جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے اس نوجوان نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے دبوچ لیا اور اسمبلی کی جانب بڑھنے سے روک دیا اسی کشمکش میں خود کش جہنمی بمبار کے ساتہ بندھا ہوا بم ایک دھماکے سے پھٹا اور بمبار کو تو واصل جہنم کر گیا لیکن جنت کے ایک شہزادے کو بھی بہادری کی ایک لازوال تاریخ کا حصہ بنا گیا ۔ 
 سچ کہتے ہیں 
 اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے تُوں لبدی پھریں بازار کڑے 
اے دین اے میرے داتا دی نہ ایویں ٹکراں مار کڑے

یہ بھی ایک دھماکہ تھا ہر روز جیسا ہی دھماکہ لیکن یہ ایک نئی سوچ کا دھماکہ بھی تھا جس نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے جگانے کی کوشش بھی کی اور اس بے خبر قوم کو یہ احساس دلایا کہ ان تیرہ سالوں میں ہر روز جو بچے پیدا ہو رہے ہیں، جو بچے تھے جوان ہو رہے ہیں اس کی سوچوں کے دھارے اب اپنا قبلہ تبدیل کر رہے ہیں انہیں اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ ہمارے بڑے ہمیں اس خوفناک عذاب میں مبتلا تو کر سکتے تھے لیکن اس عذاب سے نکالنے میں دو سو فیصد تک ناکام ہو چکے ہیں اب ہمیں ان کھوکھلے بزرگوں اور کھوکھلے ستونوں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیئے خود ہی عملی قدم بڑھانا ہوں گے ۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایک ہزار کو بچانے کے لیئے کسی ایک کو ہر صورت اس موت سے لپٹنا ہوگا اور ان موت کے دوزخی سوداگروں  کو انہیں کے انداز میں شکست دینا ہو گی ۔ لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ حکام اس بات کا جواب دیں کہ یہ سب ہو گا تو آخر کب تک ؟ اور کتنے اعتزاز اس قربان گاہ شوق میں بھینٹ کیئے جائیں گے ؟ آخر کتنے ؟
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/