1۔ مدت ہوئ عورت ہوۓ ۔ ممتاز قلم۔ 2۔میرے دل کا قلندر بولے۔ 3۔ سچ تو یہ ہے ۔ کالمز۔ REPORTS / رپورٹس۔ NEW BOOK/ نئ کتاب / 1۔ نئی کتاب / 2۔ اردو شاعری ۔ نظمیں ۔ پنجابی کلام۔ تبصرے ۔ افسانے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز سو لفظی کہانیاں ۔ انتخاب۔ نعتیں ۔ کالمز آنے والی کتاب ۔ 4۔اے شہہ محترم۔ نعتیہ مجموعہ 5۔سراب دنیا، شاعری 6۔اوجھلیا۔ پنجابی شاعری 7۔ لوح غیر محفوظ۔کالمز مجموعہ
منگل، 2 فروری، 2016
اردو ادب کے انتظار حسین
پیر، 1 فروری، 2016
ہم کیسے لوگ ہیں ؟/ کالم . سچ تو یہ ہے
ہم کیسے لوگ ہیں ؟
اتوار، 31 جنوری، 2016
بابائی وباء ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
..................
● بہتان کیا ہوتا ہے ؟/ کالم
شکریہ شرمین عبید چنائے ۔
علی بابا چالیس چور
گھروں کو گھر رہنے دیں
● (23) عقائد کا کاروبار /کالم۔ سچ تو یہ ہے
(23) عقائد کا کاروبار
● (12) ٹھوکر /کالم۔ سچ تو یہ ہے
اتوار، 24 جنوری، 2016
سانحہ چارسدہ یونیورسٹی
بدھ، 16 دسمبر، 2015
ٹرننگ پوائنٹ
ایک سال گزر گیا اس کالے دن کو جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انتہائی بے رحمی سے موت کا کھیل کھیلا گیا . خود کو بہادر سمجھنے والوں نے معصوم بچوں کو جس طرح چن چن کر اپنا نشانہ بنایا اسے دیکھ کر کیا سن کر ہی دشمنوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں . آج سب کے لیئے اس سانحے کا ایک سال مکمل ہو گیا . لیکن پوچھے کوئ ان ماوں سے کہ آج ہی کے دن جب انہوں نے اپنے راج دلاروں کے سکول یونیفارم استری کیئے ہوں گے ان کے بال سنوارنے ہوں گے ان کا ماتھے چوما ہو گا . تو سچ میں اس قیامت کی آہٹ ان کے دلوں نے محسوس نہیں کر لی تھی . کہ آنے والا عذاب پہلے سے اپنی چاپ سنا دیتا ہے . جب کئی بچوں نے سکول نہ جانے کی ضد بھی کی ہو گی . لیکن انہیں راج دلار سے بہلا پھسلا کر کوئی وعدہ کر کے سکول جانے پر تیار کیا گیا ہو گا . سکول کے گیٹ سے گھر تک کے واپسی کے راستے میں کئی بار ماوں کا دل دھڑکا ہو گا . باپوں نے کئی بار نہ جانے کیوں پیچھے مڑ کر دیکھا ہو گا . شاید جدائی کی گھڑی کا ان سے الگ ہونے کا دکھ انہیں بتائے بنا ہی اس درد کے لیئے تیار کر رہا تھا . گھر پر اپنے بچوں کی فرمائش پر کھانا بناتے ہوئے کتنی بار ہاتھ سے برتن چھوٹے ہوں گے کتنی بار دل دروازے کی جانب بلاوجہ ہی لپکا ہو گا . کتنی بار بنا کچھ سمجھے رونے کو دل چاہا ہو گا . یہ معلوم ہوا کہ اس گھڑی میرے پیارے پر کیا گزر رہی تھی . کیسی بے رحمی سے اسے موت کی آغوش میں پہنچایا گیا ہو گا . تو ان کے حسین معصوم وجود خون کے لوتھڑوں میں تبدیل کر کے بڑے فخر سے اپنی داڑھیوں پر ہاتھ پھیرا گیا ہو گا . ایک دوسرے کو شاباش دی گئی ہو گی . دنیا میں ہر قوم پر ایسا وقت آتا ہے جو اس کے لیئے آگے بڑھنے اور بڑے قدم اٹھانے کے لیئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے . دس سال سے پاکستانیوں کے اٹھتے لاشے اس حساب کے بے باک ہونے کے منتظر تھے کہ کون سا لمحہ ان بدکار قاتلوں سے نقطہ آغاز بنے گا . اور وہ لمحہ ان معصوم بچوں نے اپنے لہو کی ندی پار کر کے اس قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر مہیا کر ہی دیا . ہو گیا نقطہ آغاز . پھندہ ہو گیا یہ ہی لہو ان ضمیر فروش قاتلوں کی گردنوں پر. اور آغاز ہو گیا انہیں کتے کی طرح مار مار کر بے نشان کرنے کا اور اپنی سرحدوں کو ان درندوں سے پاک کرنے کا . 1971 میں ہندوستان نے اسی روز پاکستان کے وجود کو دولخت کرنے کا کارنامہ سرانجام دیکرپاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کی راہ پر ڈال دیا تھا . تو 2014 میں ہندوستان نے ایک اور فاش غلطی کر دی . اس نے پشاور سکول کی دہشت گردی کی پشت پناہی کر کے پاکستان کو ایک اور بڑا قدم اٹھانے اور درندوں ، قاتلوں اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں نپٹنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیئے سوچنے پر مجبور کر دیا . اللہ کا کرم ہے کہ اس سانحے کے ایک سال بعد پاکستان 2014 سے کہیں زیادہ مضبوط بھی ہے اور محفوظ بھی . ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ اپنی کرتوتوں پر شرمندہ ہونا ہی پڑتا ہے اور ہونا ہی پڑے گاکہ اس قوم نے اپنی چوٹوں سے ہی مرہم بنانا سیکھا ہے . اور دنیا سن لے کہ ہر چوٹ کو ہم ٹرننگ پوائنٹ بنانا جانتے ہیں .
بدھ، 18 نومبر، 2015
زخم بھر جائیگا پر....
پیرس میں گذشتہ ہفتے ہو ے والے خونی واقعات نے صدمے اور حیرت دونوں ہی سے ساری دنیا کو دوچار کر دیا . حیرت یہ کہ اتنے بڑے مضبوط اور محفوظ ملک میں یہ سب کر نے کا کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ؟ اور صدمہ اس بات کا کہ دنیا میں اب تک جہاں بھی ہمیں جانے کا موقع ملا ہے اور اس ملک فرانس کی شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قدر محبت کرنے والی قانون پسند ،نفیس،،صفائی پسند اور دھیمے مزاج کی مددگاراور ہمدرد قوم آپ نے شاید ہی کہیں دیکھی ہو گی. فرانس میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو خصوصا بہت ہمدردیاں ملتی رہی ہیں . اور ان پر اعتماد بھی یورپ بھر میں سب سے زیادہ فرانس ہی میں کہا گیا ہے . یہ بات بہت ہی غور طلب ہے کہ جب بھی یورپ اور انگلینڈ میں مسلمانوں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے یا ان کے رویئے میں نرمی آنے لگتی ہے تو ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے بلکہ کر دیا جاتا ہے کہ جس سے یہ اعتماد پھر سے چکنا چور ہو جاتا ہے . آخر یہ سب کون کرتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں جب انگلینڈ کے سابقہ وزیر اعظم کواپنے ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیئے یہ کہنا پڑا کہ عراق پر کاروائی اور دوسرے مسلم ممالک پر فوجی بدمعاشی کے لیئے اور مسلم قتل عام کے لیئے جھوٹ بولاگیا تھا.تو وہ کون سی طاقت ہے کہ جسے یہ گوارہ نہ ہوا کہ اس بات کا اعتراف کر کے ان مظلوموں کے ذخموں پر مرہم رکھا جائے . مسلمانوں کے ممالک کو تباہ کرنے کے لیئے منظم صلیبی جنگ میں سب سے بڑا بدمعاش یقینا امریکہ ہی ہے اور امریکہ کو کون نچاتاہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہر گز نہیں ہے . مسلمانوں کے نام سے تیار کیئے گیئے اور مسلم ممالک میں یہ بیس پچیس پچیس سال پہلے سے پلانٹ کیئے گیئے امریکی اور یہودی جاسوسوں نے بڑی ہی لمبی اننگ کھیلتے ہوئے ہمیشہ اپنے اہداف پر حملے کیئے ہیں
.بلکہ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگاکہ دنیا بھر کے امن کو تناہ کرنے کا ذمےدار بہر صورت امریکہ ہی ہوتا ہے .... اگر امریکہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر صدیوں پہلےمجرموںکو ہیلا لا کر آباد کیا جاتا تھا . یعنی کل تک یہ مجرموں کے لیئے "سرزمین سزا" تھی اور رفتہ رفتہ انہی مجرموں کی آ ہوں اور سسکیوں سے اب یہ دنیا بھر کے لیئے" سرزمین بددعا" بن چکی ہے . امریکہ کی ترقی نما روشنی گویا جلتا ہوا سورج ہے . جو یہ نہ دیکھے اسے حرارت نہیں مل پاتی اور جو اسے غور سے دیکھ لے تو اندھا ہو جاتا ہے اور جو اسے چھو لے وہ جل کر بھسم ہو جاتا ہے . اسی کایہ کارنامہ ہے کہ دنیا بھر کا بد کردار،بدمعاش ،قاتل،بے دین اور نفسیاتی مریض ایک گروہ کی صورت اکٹھے کئے گئے اور ان سب کو برین واش کر کے دنیا بھر میں مسلمانوں کونشانہ بنانے انہیں قتل کرنے اور اکا دکا کاروائیاں یورپ انگلینڈ اور امریکہ میں کروا کر انہیں مسلمانوں کے سر تھوپنے کے منصوبے پر لگا دیا گیا. یوں مسلمانوں کے قتل عام کے لیئے ہر چار دن بعد ایک کہانی گھڑی جاتی ہے . جبکہ نہ تو طالبان کا تعلق کہیں سے بھی اسلام سے ہے نہ ہی انہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی داعش کے جانوروں کاکوئی تعلق کہیں بھی اسلام سے ہے کہ ان کا بھی نام مسلمان کی حد تک ہونے کے سوا اس دین کے ہزارویں حصے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے. ورنہ ان کے نناوے فیصد مقتول اور مظلوم اور مشق ستم مسلمانوں ہی پر کیوں ہوتے.
لیکن ہمیں امید ہے کہ اس خوفناک واقعہ سے فرانس کے عوام کو جس طرح اپنے پیاروں کےجنازے اٹھانے اور انہیں تڑپتے ہوئے دیکھنے کا خوفناک تجربہ ہوا ہے اس کی روشنی میں انہیں مسلم ممالک اور خصوصا پاکستان کے لوگوں کی تکلیفوں اور اذیتوں اور قربانیوں کو سمجھنے کا ایک بھرپور موقع ملا ہو گا . اللہ پاک فرانس کے لوگوں کے زخموں کو بھر دے . اور انہیں آئندہ ایسے حادثات سے اپنی امان میں رکھے . اور انہیں مسلمانوں کیساتھ ملکر دنیا سے دہشت اور بربریت کے خاتمے کی توفیق عطا فرمائے. کہ بے شک اللہ قرآن میں واضح فرماتا ہے کہ" اللہ زمین پر فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا. "
اور "جس نے کسی ایک جان کو نا حق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا"
ہر روز جنازے ڈھو ڈھو کر پورا پاکستان یہ بات جو دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ایک مسلمان نام رکھنے سے کوئی مسلمان اور ہندو نام رکھنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا . صرف اس مذہب کو بدنام کرنے کا ایک سستا اور گھٹیا طریقہ ہے . ورنہ ان کا شکار ساری دنیا میں مرنے والے ہزاروں مسلمان کبھی نہ ہوتے. فرانسیسی عوام پاکستان کا درد اب اس لیئے بھی بہتر سمجھ سکیں گے کہ اس درد کی ایک لہر نے ان کے سینے پر بھی ایسا گھاو لگایا ہے جو بھر تو جائیگا لیکن ہمیشہ کے لیئے داغ چھوڑ جائے گا.
..............
پیر، 16 نومبر، 2015
بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں
صرف دس پندرہ سال پیچھے کو جایئے .صبح چھ بجے اٹھنا . نماز پڑھنا سکول جانے کی تیاری کرنا ناشتہ کرنا آٹھ بجے ساڑھے آٹھ بجے سکول لگنا ایک.ڈیڑھ بجے سکول سے چھٹی گھر آکر منہ ہاتھ دھو کر ماں کے ہاتھ کا بنا گرما گرم کھانا کھا کر ٹیوشن یا قرآن پڑھنے کو چلے جانا . چار بجے آ کر ٹی وی پر پسندیدہ کارٹون دیکھنا پھر ماں کے ساتھ کہیں آنا جانا یا ہاتھ بٹانا، ہوم ورک کرنا ،کھانا کھا کر نماز پڑھنا اور دس بجے تک سو جانا .
ماؤں کا صبح چھ بجے آٹھ کر نماز کے بعد ناشتے کی تیاری، سات بجھے انہیں کھلا پلا کر سکول بھیجنا، پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنا،سالن چڑھا کر آٹا گوندھ لینا اور سارے برتن دھو کر، کچن کی صفائی کے بعد گھر بھر کی صفائی ستھرائی، دھلائی پوچھا کرتے ہوئے سالن بھی تیار ہوا . بچوں کے سکول سے آنے تک توے سے گرم گرم روٹی اتار کر ہاٹ پاٹ میں روٹی کے رومال میں لپیٹ کر رکھ دی گئی . بچوں کے آتے ہی انہیں کھانا کھلا کر مسجد یا ٹیوشن بھجوا کر ان کی چیزیں سمیٹیں ،برتن دھوئے اور لیجیئے جناب شام کے لیئے سالن موجود ہے تو بے فکری سے کہیں آنا جانا کیا، بازار کا چکر لگانا ہے تو وہ ہوا ،کبھی کسی کاسویٹر بنا جارہا ہے، کبھی برنیوں میں آچار ڈال کر انہیں دھوپ میں رکھا اور ہلایا جا رہا ہے . کہیں جام جیلی تیار ہو رہے ہیں ، کسی کے پاس بچے ٹیوشن پڑھنے کے لیئے آ رہے ہیں . سارے کام رات کے کھانے کے وقت تک چلتے رہتے ہیں.
وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ اب توکسی کے پاس بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں ہے شاید .
اس بات کا خیال اس وقت آیا جب ایک جگہ بات کرتے ہوئے پہلے اور آج کے لوگوں کی زندگی اور طرز زندگی پر بات ہونے لگی . کہ کل تک جب بیٹی یا بیٹے کی شادی کا موقع ہوتا تھا تو سفید بالوں اور جھریوں کی آمد بھرے کھچڑی چہرے کا تصور ذہن میں آتا ہے . باپ کمر جھکا ہوا بزرگ سا آدمی اور نانی یا دادی تو اس بھی چار ہاتھ آگے دانت ٹوٹے جھکی ہوئی کمر، لاٹھی ٹیکتی ہوئی عورت، نانا دادا تو آخری درجے کی تکالیف اور بیماریوں کا مجموعہ .
لیکن آج بیٹے یا بیٹی کے بیاہ پر ایک اور نوجوان جوڑا اس دلہا دلہن سے زیادہ دلکش دکھائی دے گا معلوم ہو گا کہ یہ ہے اس دلہا یا دلہن کے اماں ،ابا..... گود میں بچہ اٹھا کوئی جوان عورت نظر آئے پوچھا آپ کا بچہ ہے جواب نہیں یہ میرا پوتا یا نواسی نواسہ ہے . حالانکہ پہلے وقتوں میں بچوں کی شادیاں بھی بہت جلد کر دی جاتی تھیں . بیٹی چودہ پندرہ کی عمر میں اور بیٹا بیس بائیس میں بیاہ دیتے اس حساب سے سال بھر میں گود میں بچے ہوئے. ..اپنی بیٹی بیاہتے ہوئے وہ لڑکی جو ماں تھی تیس سال کی ہوتی اور لڑکابھی پینتیس تک کا تو انہیں زیادہ جوان نظر آنا چاہیئے تھا . جبکہ آج کی لڑکیاں جو بائیس سے چوبیس کی عمر میں بیاہی ان پچھلی ماوں سے زیادہ حسین اور جوان دکھائی دیتی ہیں
یہ کیسا عجیب راز ہے . کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے لوگ جو زندگی سو سال میں جیا کرتے تھے وہ ہم آج کے تیز رفتار زمانے میں پچاس سال ہی میں جی چکے ہوتے ہیں اس لیئے جسمانی عمر تو پچاس سال ہی ہوتی ہے جو دکھتی بھی ہے لیکن نہ دیکھنے والے پچاس مزید سال اسی تیزی میں ہم جی چکے ہوتے ہیں . اور ہمارا دن ہمارا سورج چوبیس گھنٹے کا پھیر شاید بارہ گھنٹے میں ہی مکمل کر چکا ہوتا ہے . اسی لیئے زندگی تو سو سال کی جی لیتے ہیں لیکن بدن پچاس برس ہی دیکھ پاتا ہے . جبھی تو بوڑھا ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا......
..................
شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/
- جنوری (1)
- دسمبر (5)
- نومبر (3)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (2)
- اگست (16)
- جولائی (42)
- جون (5)
- مئی (3)
- اپریل (8)
- مارچ (11)
- فروری (107)
- جنوری (5)
- دسمبر (5)
- نومبر (5)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (8)
- جولائی (2)
- جون (3)
- مئی (9)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (4)
- دسمبر (5)
- نومبر (3)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (3)
- اگست (3)
- جولائی (3)
- جون (5)
- مئی (10)
- اپریل (4)
- مارچ (3)
- فروری (6)
- جنوری (9)
- دسمبر (3)
- نومبر (2)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (2)
- اگست (3)
- جولائی (7)
- مئی (1)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (12)
- دسمبر (11)
- نومبر (11)
- اکتوبر (13)
- ستمبر (11)
- اگست (16)
- جولائی (8)
- جون (8)
- مئی (11)
- اپریل (8)
- مارچ (19)
- فروری (19)
- جنوری (23)
- دسمبر (4)
- نومبر (3)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (15)
- جون (4)
- مئی (15)
- اپریل (18)
- مارچ (88)
- فروری (15)
- جنوری (23)
- دسمبر (12)
- نومبر (8)
- اکتوبر (3)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (11)
- جون (1)
- مئی (3)
- اپریل (7)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (4)
- دسمبر (7)
- نومبر (12)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (14)
- جولائی (7)
- جون (11)
- مئی (22)
- اپریل (8)
- مارچ (33)
- فروری (10)
- جنوری (7)
- دسمبر (8)
- نومبر (11)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (11)
- اگست (8)
- جولائی (8)
- جون (10)
- مئی (5)
- اپریل (39)
- مارچ (2)
- فروری (11)
- جنوری (8)
- دسمبر (1)
- نومبر (3)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (5)
- جولائی (7)
- جون (6)
- مئی (5)
- اپریل (5)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (9)
- دسمبر (10)
- نومبر (7)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (2)
- جولائی (10)
- جون (10)
- مئی (6)
- اپریل (5)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (3)
- دسمبر (1)
- نومبر (2)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (3)
- اگست (64)
- جولائی (2)
- جون (1)
- مئی (5)
- اپریل (4)
- مارچ (4)
- فروری (3)
- جنوری (3)
- دسمبر (28)
- نومبر (11)
- اکتوبر (80)