ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 2 فروری، 2016

اردو ادب کے انتظار حسین



اردو ادب کے   انتظار حسین 
ممتازملک ۔ پیرس


مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک



دنیائے ادب کے معروف لکھاری نے آج اس دنیا کو الوداع کہہ دیا . لیکن ہمیں اپنے علم و ادب کا بہت بڑا اثاثہ دیکر  رخصت ہوئے . انتظار حسین صاحب کو کچھ نہ کچھ پڑھ تو ضرور رکھاتھا . لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ ان سے آخری بار ملنے والوں میں مجھ ناچیز کا نام بھی شامل ہو گا . 
اوریئنٹل کالج برائے خواتین لاہور میں اپنےچند روز قبل ہونے والی 17جنوری 2016 کی اردو کانفرنس کے موقع پر جہاں اور بہت سی نایاب ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا وہیں جناب انےظار حسین صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا . موصوف نہ صرف بے حد اچھے لکھاری رہے ہیں بلکہ بے حد اچھے اور نفیس اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے نفیس انسان بھی تھے ..جس کا ثبوت انہوں نے آخری دم تک دیا . اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود وہ اس کانفرنس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ہر ایک کے ساتھ خوشدلی سے بات چیت کرتے ہنسی مذاق کرتے اور تصاویر بنوانے رہے . مجھے وہاں ان کے رخصت ہوتے وقت یہ آخری تصاویر بنانے کا موقع ملا .  انہیں اردو ادب ہمیشہ فخر سے یاد رکھے گا.

مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک






مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 1 فروری، 2016

ہم کیسے لوگ ہیں ؟/ کالم . سچ تو یہ ہے






ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس



See original image
ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلکچوئیل یا کسی بھی شعبے  سے ہو .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ جوان و  بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کر غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں .خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپاتلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل اور مغرور کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف یورپ  کی خاتون ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکیوں کا سالہا سال لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ، زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .آج کی ادبی دنیا بھی اہسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے الفاظ کاغذ پر بس واہ واہ کی سیاہی ہی بکھیرتے ہیں ان کی زندگی عمل کے یکسر خالی ہے ۔
ایسے لوگوں  کی شکلیں دیکھنے کے بعد ان کے کرتوتوں پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی . جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب  کے نام پر ٹھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہ خبیث اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی.جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 31 جنوری، 2016

بابائی وباء ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے


بابائی وباء
(تحریر:ممتازملک. پیرس) 




ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا  اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ  ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے  کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ  تعلق نہیں ہوتا .  بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
تو وہ اٹھلا کے بولی
ویکھو جی ،  بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
ایک تو ان کی ان کم 
دوسرے ان کے دن کم
سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ 
بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...
تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...
یہ بابے پاکستان میں نوعمر  بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان  عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی . 
سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات  الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز  شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.
 ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا.  یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
       
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
              ..................


● بہتان کیا ہوتا ہے ؟/ کالم



بہتان کیا ہوتا ہے ؟
ممتازملک ۔ پیرس


 عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اس میں نہیں ہے بہتان ہوتا ہے ۔ جی ہاں یہ بات درست ہے لیکن اس کی ایک اور وضاحت بھی بے حد ضروری ہے کہ صرف کسی کے بارے میں ایسی بات جس سے اس کی عزت کم ہوتی ہو کہہ دینا  صرف بہتان ہی نہیں ہے بلکہ اس کے کئی مضمرات بھی ہیں ۔ ایک تو یہ بات اس میں ہے نہیں یہ گناہ اور، اس سے بھی بڑا گناہ یہ کہ ہم اس کے کردار پر کیچڑ اچھال کر اسے لوگوں کی نظر میں اس گناہ کے ذریعے گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ۔  بلکہ کسی بھی ایسی شخصیت پر جسے آپ کبھی ایسا خاص ملے نہیں ہیں یا جسے آپ صرف زبانی ہی یاکسی کے ساتھ ہوئے تذکرے میں جانتے ہیں یا کسی کی تحریر کے حوالے سے ہی اس کو تھوڑا بہت جانتے ہیں لیکن ذاتی جان پہچان نہیں ہے خاص طور پر اگر وہ ایک خاتون ہے تو اور بھی ذیادہ احتیاط لاذم ہے تبصرے میں ، لیکن ہم لوگ اسی کی ذات پر کوئی بھی فیصلہ کن تبصرہ بڑے آرام سے فرما دیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ہم بہتان تراشی جیسا گناہ کبیرہ انجام دے چکے ہیں ۔ اب اسی بات کو ایک اور انداز میں دیکھیئے۔ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےایک موقع پرایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی بات پر گواہی کے سوال پر پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے رشتہ دار ہو؟ اس نے کہا نہیں ، کیا تم اس کے پڑوسی ہو ؟ کہا نہیں ، پھر پوچھا کیا اس کا اور تمہارا کبھی کوئی لین دین ہوا ہے؟ کہا گیا نہیں ، پھر پوچھا کیا اس نے کبھی تم سے کوئی وعدہ کیا ہے؟ کہا گیا نہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا، کہ تمہاری اس شخص کے بارے میں گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔ کیوں کہ جب تمہارا اس شخص سے ان معاملات  کوئی تعلق ہی نہیں رہا، تو تم کیسے کہہ سکتے ہو، کہ وہ کیسا آدمی ہے ؟ ،، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ایسے آدمی کی گواہی ہی اللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں  نہیں مانی جاتی تو گویا اس نے ایسے شخص کے بارے میں جو کہا وہ کمزور علمی پر یا اندازے پر مشتمل ہے۔ تو اس کی بات بھی بہتان تراشی ہی میں شمار کی جائے گی ، کیوں کہ اس میں عملی پہچان کا کوئی کردار ہے ہی نہیں ۔ اس بات پر غور کریں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی صورت اس گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ جہاں ہمہمیں کسی بھی ملنے والے کی چار لوگوں میں عزت نظر آتی ہے جھٹ سے ہمیں حسد کا کیڑا کاٹتا ہے اور ہم اس پر طرح طرح کے بہتان لگا کر اسے ان لوگوں میں ذلیل کرنے کی مہم پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔  سب سے خاص بات یہ کہ یہ سب کرنے والے کوئی بلکل انجان بھی نہیں ہوتے ۔ بلکہ اکثر آپ کی دوستی کا دم بھرنے والے ہی ہوتے ہیں ۔ مثلا پاکستان  کے بارے میں ہم بیرون ملک مقیم لوگ کوئی بات کریں تو فورا ہمیں کہا جایئگا کہ جی لیجیئے پیرس کے محلوں میں رہنے والے ہماری جھونپڑیوں کی فکر کرتے ہیں ۔( جبکہ  پاکستان پر  مصیبت آئی ہو تو بڑھ چڑھکر ہماری غیرتوں کو للکارا جا رہا ہوتا ہے ۔ حبُ الوطنی کا جوش دلایا جاتا ہے ۔)اب انہیں یہ کون بتائے کہ ہم اپنا لہو نچوڑ نچوڑ کر پاکستان کے دیئے میں روشنی رکھنے کے لیئے نوٹوں کی صورت تیل اپنا تیل نکال کر بھیجیتے ہیں۔ان نوٹوں کے بنا تو روٹی بھی نہیں آتی ، دوا بھی نہیں آتی ، اور تو اور اب تو انہی نوٹوں کے بنا کوئی سلام کا جواب بھی نہیں دیتا ۔ اور کتنے لوگوں نے پاکستانیوں کے محل دیکھے ہیں ۔ پاکستان کے دو کمروں میں بیٹھے بھی آپ کو نوکرانیوں کی موج حاصل ہے جبکہ یورپ یا امریکہ میں آپ جان مار مار کر گھر لے بھی لیں تو بھی نوکر  رکھنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔ کیا یہ باتیں بھی بنا کسی ثبوت کے بہتان کے زمرے میں نہیں آتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر بہتان لگانے والا اپنے کسی مذموم مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے۔ لیکن  کیا واپسی کا جو سفر اللہ کی جانب موت کی صورت مقرر ہے ۔ اس جگہ کی سزا کا بھی کوئی تصور اس نے کیا ہے کہ نہیں ؟ ہمیں چاہیئے کہ ان باتوں کو بھی اپنے دھیان میں رکھا کریں کیوں کہ کئی بار ہم بہت ہی چھوٹا سمجھ کربہت بڑا گناہ کرجاتےہیں۔۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جس شخص کو جتنا ان معاملات میں جانتے ہیں ان کے بارے میں صرف اور صرف اتنی ہی رائے دی جائے کیوں کہ شرک اور بہتان تراشی بشکل گناہ کبیرہ کی جو سزا دنیا اور آخرت میں مقرر ہے اس کا احساس ہی ہمیں ہو جائے تو ہم نہ سو سکیں، نہ کھا سکیں، نہ ہی خوف خدا سے سر کو سجدے سے اٹھا سکیں،  کیوں کہ یہ خوف ہی مار ڈالنے کے لیئے کافی ہے ۔  اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ شرمین عبید چنائے ۔





 شکریہ شرمین عُبیدچناۓ

(تحریر:ممّتازملک۫۫۫ ۔ پیرس)




بہت دنوں کی اداسی کے بعد آج پاکستانیوں کو ایک اور بیٹی نے خوشی کا بہت بڑا تحفہ دیا ہے ۔جی ہاں جس قوم کے بیٹوں نے اپنی قوم کی بیٹیوں کو دکھ دینے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ وہاں پر ایک کے بعد ایک بیٹی خدادادصلاحیتوں کو اظہار کا جامہ پہناتے ہوۓ اپنی قو م کا سر فخر سے اونچا کرنے میں مصروف ہے کل جو خوشی ارفع کریم رندھاوا نے اپنی مختصر سی زندگی میں اس قوم کو دی وہ ہمیشہ اپنی مثال اپ رہے گی؛ تو کہیں ملالہ یوسف نے اپنی قومی محبتوں کا ثبوت دیا؛ آج ہم خوشی سے بھیگی ہوئ آنکھوں کے ساتھ ایک اور بیٹی کو سلام کرتے ہیں ۔شکریہ شرمین عبیدچناۓ آپ نے ایک بار پھر آزمائشوں میں مبتلا قوم کو بتا دیا ہے کہ اتنے ترقی یافتہ دور میں بھی جب پاکستانی مرد محض بیٹا پیداا کرنے کے لیۓ ساری زندگی اپنی بیوی کو بچے پیدا کرنے کی مشین بنا کر رکھ دیتا ہے۔ چاہے اسی چکّر میں ااسے ایک کے بعد ایک بیوی کا جنازہ ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ جاۓ۔ وہ بیٹی کو اچھی تعلیم دینے کو تیار نہیں ہے ۔کہ اس بیٹی کی تعلیم سے اسے کیا فائدہ۔ایسے میں بھی نہ جانے قدرت پاکستانی مرد کو باربار یہ احساس دلانے میں مصروف ہےکہ جاگو میں نے جو بیٹیاں رحمت کہہ کر تمہاری جھولیوں میں ڈالی ہیں ۔ان کی قدر کرو ۔ان کی اچھی تعلیم وتربیت کرو۔ انہیں اعتماد کی دولت دو۔ تو دیکھو وہ کیسے تمہیں ارفع ؛ملالہ اور شرمیں عبید بن کر دکھاتی ہیں ۔ شرمین عبید جو کام ہمارے مخالفوں نے کروڑوں خرچ کر کے اور بیک ڈور پالیسیز کے ساتھ کیا وہ آپ نے محض اس کے پاسنگ میں ہی خرچ کر کے دکھا دیا اور ایسے معاشرے میں جہاں پر عورت کو ایسی باتوں میں بھی اپنی مرضی کی راۓ دینےکا حق نہیں دیا جاتا جو خدا نے بطور خاص اس کو عطاکیۓ ہیں ۔جہاں پر یا تو اسلام کے نام پر عورت کوتمبو نما برقع پہنا دیا جاتا ہے یا پھر اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیۓ بازار کی جنس بنا کے اس کی سودا بازی کی جاتی ہے ۔جہاں پر کوئ لڑکی کسی سے شادی سے انکار کر دے تو کہیں باپ اور بھائ کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہے تو کہیں جس شخص کو انکار کر دیا جاۓ تو وہ بدمعاش بن کر اس لڑکی کی زندگی کا ٹھیکہ دار بن جاتا ہے۔ تیزاب تو ٹافیوں کی طرح دکانوں پر مردوں کو مہیا کیا جاتا ہے کہ لو اور جاؤ جو حسن خدا نے عطا کیا ہے؛ اس پر تیزاب کی ایک بوتل الٹ کر اپنے آپ کو اپنی مردانگی کو سکون پہنچاؤ۔ کیوں کہ عورت کو پاکستانی معاشرے میں ہاں ہاں کرنے کا حکم ہے نہ نہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھائ عشق لڑاتا ہے۔ تو اپنی بہن کواپنی محبوبہ کو رقعے بھیجنے کے لیۓ دلال بنا کر استعمال کرتا ہے۔ خود تو دوسرے کی بہن بیٹی بھگا کر لیجاتا ہے۔ اور خود کو ہیرو سمجھتا ہے۔ جبکہ بدلے میں یہ تک سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس کی اپنی بہن ؛ بیٹی اور ماں اس بھگائ ہوۓ عورت کے گھر کے مردوں کے لیۓ چارہ بنا کر پیش کی جائیں گی ۔اپنا کوئ دوست اگر اس کی بہن کا رشتہ بھی بھجوا دےتو بھائ کی غیرت کو ابال آ جاتا ہے اور بھائ بہن کے ٹکڑے کرنے کو کھڑا ہو جاتا ہے۔ باپ کو کسی کے کتے پسند آجاتے ہیں تو انہیں خریدنے کے لیۓ ہاتھ میں رقم نہیں تو بدلے میں گود کی معصوم بچیاں پیش کر دیتا ہے۔کسی کی بیٹی پر نیت خراب ہوئ تو اسے حاصل کرنے کے لیۓ اس لڑکی کےسترسال کے باپ کو بھی اپنی چار سال کی معصوم بچی نکاح میں تحفے میں پیش کر دیتا ہے۔جہا ں آج تک حکمران اپنے ملک کی عورت اور معصوم بچوں کو کوئ بھی تحفظ فراہم کرتے نظر نہیں آتے۔ باتیں باتیں اور بس باتیں کر کے پانچ پانچ سال عوام کا ہی خون نچوڑنے کے بعد پھر ڈگڈگی ہاتھ میں لیۓ قوم کو اپنے ہی کسی بندر کا تماشا دکھا کر اگلے پانچ سال کے لیۓ الو کا پٹھّا بنانے کی مہم پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔آج تک پاکستان میں معصوم بچیوں کے کسی ریپسٹ کو کسی چوراہے پر ٹانگا گیا ہے کیا ؟کیا کسے تیزاب پھنکنے والے نام نہاد مرد کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے؟ کیا کسے بھائ کو بھی بہن کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل کرنے کی ضرورت تو نہیں پڑ گئ ؟کیا تیزاب کی خریداری اب عورتوں کو بھی کرنی پڑے گی ؟خدا کرے کہ وہ وقت کبھی نہ آے جب عورتوں کو اپنی حفاظت کے لیۓ خود اپنی جیب میں پستول لے کر نکلنا پڑے ؟ہمیں اب بھی امید ہے کہ ہماری بیٹیاں اپنے بابا جان سے؛ اپنے گود کھلاۓ بھائیوں سے بہت پیار کرتی ہیں ۔جو ہر روز ایک نیا من موہنا روپ لیۓ ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہیں کہ دیکھوبابا تمہاری بیٹی اب بھی تمہارانام بلند کرنے کے لیۓ کبھی ارفع کریم بن کر تمہارے سامنے آتی ہے تو کبھی ملالہ بن کر تمہارے سر پر دستار رکھتی ہے ۔اور آج دیکھو دنیا کے ٹھیکے دارو ابھی کوئ مجھے نہیں پوچھتا تو میں تن تنہا شرمیں عبید بن کر آسکر کی خوشی تم سب کی جھولی میں ڈال رہی ہوں۔ سوچواگر اس قوم کی بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ کر باپ، بھائ اور شوہر انہیں کسی راستے پر چلنے میں رہنمائ فراہم کریں گے تو اس روز پاکستانی قوم کی کیا شان ہو گی۔صرف ان بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ تو رکھ کر دیکھیۓ۔یہ بیٹیاں آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے نہیں دیں گی۔شکریہ سب پیاری بیٹیو اور آج بطورِ خاص شکریہ شرمیں عبید چناۓ کہ آپ نے ہمیں دنیا میں یہ دکھانے کا موقع دیا کہ ہمیں جب بھی موقع ملے گا اور فیصلہ ایمان داری سے ہو گا تو ہم اپنے ہر 
ہنر کو ثابت کرنے میں کوئ دیر نہیں لگائیں گے۔اِنشااللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی بابا چالیس چور




علی بابا چالیس چور
ممتازملک ۔ پیرس




دیکھ لیا جناب دیکھ لیا آج اس بات کا بھی دل نے نظارہ کر لیا کہ حسین کب ، کہاں اور کیسے اکیلے کیۓ گۓ ہوں گے ۫ ، غضب خدا کا کل تک قوم کے غم میں غیظ و غضب سے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوۓ ، ایک دوسرے کا سر پھاڑتے ہوۓ ،کرسیاں چلاتے ہوۓ ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرتے ہوۓ جنہیں ہم روز گھربیٹے ملاحظہ فرماتے رہے اور اپنے سگے رشتےداروں میں انہیں نام نہاد لیڈروں کے نام پر رشتے ناطے تک توڑکر بیٹھ گۓ ۔ انہیں پارٹیوں اور پارٹی لیڈروں کے عشق میں خود کو ہر لحاظ سے برباد اور بدنام اور تنہا کر لیا ان کے مگر مچھ کے آنسوؤں کو ہم نے اپنے لیۓ راہ نجات سمجھ لیا ۔ لیکن یہ کیا ہوا ایک آدمی کی جرأت نے دودن کے اندر ان کی حقیقتوں کو اس بے رحمی سے بے نقاب کر دیا کہ انہیں سے محبت کرنے والے بھی تڑپ کر رہ گۓ ۔ سب نے مل کر اپنے اپنے ڈاکو راج کے تحفظ کے لیۓ ایک علی بابا یااپنے بڑے ڈاکو کےپانچ سال کی تمام گندگیوں کو اپنے اپنے دامن میں چھپا کر یہ تک یاد رکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ یہ گند نظروں سے تو چھپا لیں گے مگر اس کی بو کو کیسے اور کہاں چھپائیں گے ۔ اسے چھپانے کے چکر میں اپنے ہاتھ ہی نہیں دامن بھی گندے کر لیۓ ۔ کیا یارانہ ہے.
 میرا ایک شعر مجھے بڑی شدت سے اس موقع پر یاد آریا ہے کہ ۔۔
 ایکا کبھی اچھوں میں بھی اتنا نہیں دیکھا 
 جتنا یہ برے اپنے اصولوں کو نبھائیں
آج تمام خود کو فرشتہ ثابت کرنے والوں نے اپنے وسیع تر قومی مفاد میں قوم کی پیٹھ میں مشترکہ خنجر گھونپ دیا ۔ چالیس چوروں کے ٹولے نے اپنے الفاظ کے ہیر پھیر سے اس بات کا اعلان کر دیا کہ پاکستان میں سب اچھاہے ۔ دودہ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ سب کی عزت محفوظ ہے ۔ لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے ہیں ۔ یہاں سب لوگ اپنی اپنی بیویوں کے سوا ہر عورت کو ماں ۔ بہن اور بیٹی سمجھتے ہیں ۔ ۔ کوئ کسی سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کرتا قتل کا تو کوئ خواب میں بھی نہیں سوچتا ، رزق کی اتنی ارزانی ۔ اور فراوانی ہے کہ ڈاکٹروں نے کلینک اپنے باڈرز پر پڑوسی مما لک کی خدمت کے لیۓ شفٹ کر لیۓ ہیں ۔پاکستان میں لوگ چھینک بعد میں مارتے ہیں اور طبیب پہلے ہی فری سروس لے کر موجود ہوتا ہے ۔سنار اپنے دکانیں کھلے چھوڑ کر مٹر گشتی کو نکل جاتے ہیں ۔ ارے صاحب کیا کیا بتائیں ۔ یہ تارکین وطن تو گدھے ہیں انہیں کیا پتہ ان کے سامنے تو ہم ویسے ہی مزاقا کوئ نہ کوئ رونا جھوٹ موٹ کا رونے لگتے ہیں کیوں کہ ہمارے دادی جی کہا کرتی تھیں کہ اپنی خوشی کی خبریں کسی کو نہیں دیتے ورنہ نظر لگ جاتی ہے ۔ بس اسی لیۓ اتنی زیادہ ہریالی میں کبھی کبھی شوقیہ گھاس کھانے لگتے ہیں بھوک سے نہیں بلکہ ویسے ہی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیۓ ۔ لہذا قوم کو بہت بہت مبارک ہو ہم سب چالیس چوروں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں آج اپنے ایکے کا اعلان کھل کے کر دیا ہے ۔ یہ جو چنددددددددددددددددد سرپھرے اکٹھے ہو کر اسلام آباد میں آگۓ ہیں انہوں نے کبھی اسلام آباد نہیں دیکھا تھاتوبس اسلام آباد کی سیر کے شوق میں یہاں تک آپہنچے .
یہ سب اتنے مالدار ہیں کہ ان کو بڑا شوق تھا کہ دیکھیں تو ، سنا ہے دنیا میں لوگ سڑکوں پر بھی سوتے ہیں تو بس اسی تھرل کو پورا کرنے چلے آۓ ہیں لیکن فکر نہ کریں ۔ سب سڑکوں پر ان کے آنے سے پہلے کارپٹ بچھا دیۓ گۓ ہیں اور ان کے نیچے ہیٹنگ سسٹم بھی لگا گیا گیا ہے ۔آپ لوگ آرام سے گھر جائیں اور چادر اوڑھ کر سو جائیں ۔ علی باباچالیس چوروں کے راج میں
سسسسسسسسسسسب اچھا ہے .

                                                                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھروں کو گھر رہنے دیں

گھروں کو گھر رہنے دیں
                         (تحریر/ممتازملک۔پیرس)

  جانے کیا بات ہے ہم ایشیئن لوگ اپنے گھروں کو بڑے ہی فوجی انداز میں منظم کرنے کے چکر میں نہ صرف اپنے گھروں کا سکون غارت کرنے کا باعث بن جاتے ہیں بلکہ اپنی دانست میں ہم جن گھر والوں کو حفاظت یا پروٹیکشن مہیا کر رہے ہوتے ہیں ان کی محبتوں کے بجاۓ انہیں کی نفرتوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ۔کسی اکیڈمی یا انسیٹیوٹ کے لیۓ تو یہ بات نہایت موزوں نظر آتی ہے کہ ہم ایک خاص وقت کا تعین کر دیں کہ کتنے بجے جاگنا ہے ؟کتنے بجے اٹھنا ہے؟کب برش ہو گا؟کتنے بجے ناشتے کی میز پر موجود ہونا لازمی ہے؟ کتنے بجے کے بعد ناشتہ نہیں ملے گا ؟ آج آپ کو سوٹ ہی پہننا ہے ۔ آج کون سے جوتے پہننےلازمی ہیں؟ کھانے میں فلاں فلاں دن بس فلاں مخصوص چیز ہی پکے گی ، اتنے بج کر اتنے منٹ پر یہ کرنا ہے، اتنے بج کر اتنے منٹ پر وہ کرنا ہے ، اور اتنے بجے تک آپ کو ہر قیمت پر آنکھوں کو حکم دینا ہے کہ نندیا آجا ری آجا ۔ ۔۔۔۔
اُف خدایا !یہ بھی کوئی گھر میں اپلائی کیئے جانے والے رولز ہیں ۔ہاں کچھ قواعد و ضوابط گھروں کے لیئے بھی ہوتے ہیں ۔ ہونے بھی چاہیئں ،مگر اس حد تک کہ انسان خاص طور پر بچے اپنے گھر سے یا ماں باپ سے نہ صرف بیزار ہو جائیں بلکہ خدانخواستہ باقاعدہ باغی بھی ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ گھروں کو دنیا کے دکھوں سے پاک ایک محبت بھرا جاۓ پناہ ہونا چاہیۓ ،نہ کہ جیل ۔ ٹائمنگز تو جیلوں میں ہوا کرتی ہیں ۔ ماں باپ اور  بہن بھائیوں والے گھر تو ایک دوسرے سے شرارتیں کرتے ،چھیڑچھاڑ کرتے ، قہقہے بکھیرتے، ایکدوسرے سے اپنی پریشانیاں اور غم بانٹتے ،ایک دوسرے کی خوشیوں میں دل سے خوش ہوتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں ۔ گھر چاہے امیر کا محل ہو یا غریب کی جھونپڑی ،گھر تو گھر ہوتا ہے ۔ محبت کی دال روٹی میں جوسکون ہوتا ہے وہ نفرت اور طعنوں کے بیچ دیئے گئے مرغ مسلم میں بھی کبھی نہیں ہوسکتا ۔ اولاد کے لیئے ماں باپ کی گود کی گرمی اور سینے کی لپٹ میں وہ سکون اور حفاظت کا وہ احساس ہوتا ہے جو دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ڈیفنس سسٹم بھی نہیں دے سکتا ۔ ہم کہیں بھی جائیں جب لوٹ کر اپنے گھر آتے ہیں ، چاہے وہ کیسا بھی کیوں نہ ہو، ہمیشہ شکر کا کلمہ ادا کرتے ہیں کہ یا اللہ شکر ہے کہ ہم اپنے گھر خیر سے پہنچے ۔ اس لیئے کہ گھروں کی قیمت اس کے اینٹ گارے یا اس میں رکھے فرنیچر کے قیمتی ہونے سے کبھی نہیں لگائی جاسکتی بلکہ اس کی اصل قیمت کا اندازہ تو اس گھر کے سکون اور محبت سے لگایا جاتا ہے ۔ کئی لوگ گھروں میں انگریزوں کی دیکھا دیکھی ٹائمنگ اور مینجمنٹ دکھانے کے لیئے اس حد تک سختی پر اتر آتے ہیں کہ وہ بچوں پر ذہنی یا جسمانی تشدد تک کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر والدین اپنی بات منوا بھی لیتے ہیں لیکن کیوں کہ اس بچے کو آپ نے اپنی زبان سے دلائل دیکر قائل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تو گویا اس بچے نے وقتی طور پر آپ کی مار سے بچنے کے لیئے وہ بات مان تو لی لیکن صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ آپ کا محتاج ہے یا جب تک وہ با اختیار نہیں ہو جاتا ، جیسے ہی اسے اپنے رہنے اور ذندگی گزارنے کے لیۓ آپ کا کوئی نعم البدل ملے گا وہ پُھر سے آپ کی شاخ سے اڑ جاۓ گا ۔ اور آپ کو مڑ کر دیکھنا بھی اسے تکلیف دہ لگے گا۔ کیوں کہ آپ کی ذات سے اس کی کوئی نہ کوئی زخمی یاد ہی جڑی ہوئی تھی جسے وہ تازہ نہیں کرنا چاہے گا ۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیئے ضروری ہے کہ بچوں کو مذہب اور اخلاق کے دائروں میں رہتے ہوۓ سانس لینے کی ، زندگی گزارنے کی ، اپنا کیریئر چننے کی آزادی دی جائے ۔ اپنے سکول کالج کے دنوں کی جائز تقریبات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاۓ ۔ کبھی ان کا دل اپنی روٹین سے ہٹ کر کچھ کرنے کو چاہ رہا ہے اور اس سے کسی کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے تو انہیں کرنے دیا جاۓ ۔ان کے پسندیدہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی آزادی دی جاۓ ۔ دیکھیۓ گا کہ آپ کے گھر میں کس قدر سکون اور خوشی شامل ہو جاۓ گی ۔ یاد رکھیئے ماں باپ اور بہن بھائی بھی ہمیشہ اکٹھے یا ایک ہی چھت کے نیچے تو نہیں رہتے لیکن یہ ساتھ گزارے ہوۓ دن اگر محبت بھرے ہوں ،خوشگوار ہوں تو زندگی کی کئی چوٹوں کو سہنے کا حوصلہ ضرور دے جاتے ہیں ۔
             ......            





● (23) عقائد کا کاروبار /کالم۔ سچ تو یہ ہے



(23) عقائد کا کاروبار 
تحریر:ممتازملک۔پیرس



آئے روز اخبارات جعلی عاملوں اور بابوں کی کارستانیوں اور شیطانیوں کی خبروں سے اٹے پڑے ہیں  ۔ یہ وہ گناہ ہیں جو لوگ اپنی رضاورغبت سے کیئے جا رہے ہیں ۔ جن کے اڈے  بنا کسی روک ٹوک کے گلی گلی کھلے ہیں ۔  مگر کسی مرکزی وزیر یا کسی بھی عالم دین یا مولانا نے ان خبروں کو نوٹس کرنا تو دور کی بات اسے کسی مذمتی بیان کے قابل بھی نہیں سمجھا ۔ ہماری قوم ہر روز لاکھوں روپے ان حرام کاموں اور ڈھکوسلوں پر خرچ کر رہی ہے  یا یہ کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ اجاڑ رہی ہے ۔ جبکہ اس سے بھی سوا یہ کہ کروڑوں کی عزتیں بھی اپنی مرضی سے نیلام اور پامال کروا رہی ہے ۔ کسقدر شرمناک بات ہے کہ کوئی بھی عورت اپنی ساس بہو نند یا بھابی کی طلاق یا موت کا پروانہ لینے کے لیئے کسی بھی نام نہاد عامل کے پاس جاتی ہے اور اس گندے کام کے عوض اپنے میاں کی خون پسینے کی کمائی تو لٹاتی ہی ہے اسکی گندی خواہشوں کو بھی پورا کرتی ہے ۔ صرف اور صرف اپنے مخالف کو برباد کرنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے  ۔ شاید ان میں خود سے ایسی کوئی خوبی نہیں ہوتی جو اسے ان رشتوں سے منوا سکے ۔ جبھی تو وہ اس حد تک گر جاتی ہیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ ان  جادو ٹونے اور تعویذ گنڈوں کے چکروں میں پڑنے والی خواتین اور حضرات کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ اور انہیں شرمندہ کرنے کی نظر سے دیکھا جائے ۔ تاکہ یہ لوگ اس قبیح فعل سےباز آ سکیں ۔ نہ کہ ان کو مظلوم بنا کر پیش کیا جائے ۔ کیوں کہ ان بابوں کے ڈیرے انہیں مردوزن نے آباد کر رکھے ہیں ۔ یہ ان ٹھکانوں پر اپنے پیروں پر چل کر جاتے ہیں کوئی اغوا ہو کر نہیں جاتے کہ ان کی مظلومیت کا رونا رویا جائے ۔  ایسے مردوں کو بھی شرم دلائی جانی چاہیئے جو اولاد نہ ہونے پر بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لیجانا تو برا خیال کرتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو کسی بدکردار اور  کریح   عامل کے پاس چھوڑ کر تنہائیاں مہیا  کرنا بہت نیک کام سمجھتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں ہماری اخلاقی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  جس بھی گلی محلے میں چلے جائیں کوئی نہ کوئی بابا اپنی خدمات لیئے موجود ہے جہاں باقاعدہ ٹوکن تقسیم کیئے جاتے ہیں ۔ گھنٹوں لائنوں میں لگ کر باری کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ فجر کی نمازپڑھنے کے لیئے  چاہے آنکھ نہ کھلے لیکن ایسے بابوں کے پاس جانے کے لیئے فجر کے وقت گھروں سے روانگی ضرور ہو جاتی ہے ۔ یہ سارے  ناجائز دھندے حکومتی کارندوں کی ناک کے نیچے جاری ہیں ۔ جسکا ایک ثبوت ان سب عاملین کے اخبارات میں آنے والے روز کے اشتہارات ہیں جہاں ہر روز سالوں کے کام منٹوں میں ، محبوب آپ کے قدموں میں ، دشمن کی تباہی ، لاٹری لگوائیں جیسے اعلانات سے بھرے پڑے ہیں ۔ کیا ہمارے ارباب اختیارات یہ سب اخبارات نہیں پڑھتے اگر پڑھتے ہیں تو ان پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا ۔ کیا ہر کام اسی وقت نوٹس میں لایا جائیگا جب لوگ جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئیں گے ۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ ان تمام کالے دھندوں میں ان لوگوں کو بھی خاموشی کی قیمت ادا کی جاتی ہے ۔ آخر کیا ہے جس کی پردہ داری ہے ۔  مذہب کا نام لیکر یہ لوگ مذہب ہی کو بدنام کر رہے ہیں  ۔ پیروں فقیروں کے چکر میں آنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے اصل پیر تو ان کے اپنے گھروں میں موجود ہیں جنہیں ان لوگوں نے کبھی عزت کرنا تو دور محبت سے بات کرنے کے قابل بھی نیہں سمجھا ۔ ہمارے اپنے ماں باپ سے بڑا دنیا میں کوئی پیر نہیں ہے۔ کبھی ان سے مسکرا کر بات تو کر کے دیکھیں ۔  کبھی ان کے ہاتھ پاؤں داب کر دیکھیں ۔ ان کے لیئے کوئی جوڑا بنا کر پہنائیں ۔ ان کی دوا دارو کا خیال رکھیں  ۔ یقین کریں ۔ دنیا میں ماں باپ کی خدمت کرنے والے کو کسی پیر فقیر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اس کے کام خدائے پاک کی مہربانی سے خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں ۔  ماں باپ کی عینک بنوانے کے لیئے یا دوا کے لیئے جن کی جیب سے ٹکا نہیں نکلتا وہ کس طرح ہزاروں روپے ان ناپاک بابوں کے آستانوں پر لٹا آتے ہیں ۔  شاید یہ بھی خدا کی جانب سے ہی کوئی سزا ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے والدین کو کونے میں ڈال دیتے ہیں انہیں ایسے ہی ناپاک رہنما مل جاتے ہیں جو ان کی زندگیوں کو بھی کچرے کا ڈبہ ہی بنا دیتے ہیں ۔ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کو ماں باپ کی خدمت کر کے موسی کے پڑوسی جیسا مرتبہ لینا ہے یا پھر  ماں پاب کا نافرمان بن کر ساری زندگی ان بدعمل لوگوں کے ہاتھوں برباد ہونا ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء 
●●●


● (12) ٹھوکر /کالم۔ سچ تو یہ ہے




   (12)   ٹھوکر               
    تحریر: ممتازملک ۔ پیرس               
                                                 


ٹھوکر زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے. اس سے مفر ممکن نہیں. دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس نے کبهی ٹھوکر نہیں کهائ. زندگی ٹهوکروں میں لا لا  کر ہی  ایسے ایسے سبق سکھاتی ہے کہ جو مہان سے مہان استاد یا جابر سے جابر حکمران بهی نہیں سکها سکتا. بنا عمر و جنس کی تخصیص کے یہ انسان کو داناؤں یا نادانوں کی فہرست میں کهڑا کر دیتی ہے. ہم کئ بار سوچتے ہیں کہ ہم نے اس شخص سے دوستی کیوں کی ؟ اس شخص سے تعلق کیوں رکها؟ یا اس شخص سے کوئی رشتہ کیوں جوڑا ، لیکن پهر ایک ٹهوکر لگتی ہے۔ ہماری آہ نکلتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار پهر ہمارے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے . اور ہم سوچتے ہیں کہ کاشکہ سب کے ماتهے پر لکها ہوتا کہ  وہ کیسا انسان ہے . لیکن نہیں ۔ ایسا ہوتا تو دنیا کاہے کی امتحان گاہ ہوتی. سب کچه کائناتتوں کے رب نے بهید میں رکها . اسی لیئے تو انسان اس کائنات یا شاید سبهی کائیناتوں  کی سب سے مشکل پہیلی کا نام ہے. کبهی یہ ٹهوکر لگاتا ہے اور کبهی یہ ٹهوکر کهاتا ہے. بس یہ سمجه لیں کہ زندگی کا لب لباب ہے ایک ٹهوکر 
ٹھوکر زندگی کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہیں تو قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ہی جیسی ٹھوکر کا مختلف لوگوں پر مختلف اثر کیوں اور کیسے ہوتا ہے ؟
 مثال کے طور پر ایک حقیقت پیش کرتے ہیں یہ واقعہ تو ایک ہی جیسا ہے لیکن اس کا مختلف لوگوں پر ہونے والا ردعمل نوٹ کیجیئے گا ۔ 
ایک بچہ گلی میں کھیل رہا تھا اس نے آکر اپنے باپ سے شکایت کی کہ ابو مجھے فلاں بچے نے مارا ہے ۔ باپ نے اسے پاس بٹھایا اور پوچھا کیوں مارا ہے پہلے پوری بات بتاؤ ۔ پوری بات سن کر اس کے باپ نے اسے نصیحت کی کہ بیٹا اگر وہ اچھا بچہ نہیں ہو تو آئندہ اس کے ساتھ مت کھیلنا اور اگر وہ اچھا بچہ ہے تو اس کی شکایت اس کی امی یا ابا سے کرنا ۔ بچہ مطمئن ہو گیا ۔ بات ختم
ایک دوسرے گھر میں یہ ہی شکایت بچے نے کی تو باپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے ہی بچے کو بے تحاشا پیٹ ڈالا ، خوب گالیاں بکیں اس کی ماں کو اس کا ذمّہ دار قرار دیدیا جس نے اسے یہ ہی سکھایا ہے کہ لوگوں سے پٹ کر آئے۔ اس نے خود کیوں نہیں مارا اس لڑکے کو ؟ گویا اس باپ نے اپنے بیٹے کو یہ سبق دیدیا کہ آئندہ خود بھی فساد کا حصہ بننا ہے اور اگلے کو خوب سبق سکھانا ہے ۔ یہ سوچے بنا کہ اسکا انجام کیا ہو گا ۔
اب ایک تیسرے گھر میں یہ ہی شکایت ایک بچہ اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ کہ اسے کسی بچے نے مارا ہے ۔ تو باپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے کمرے میں جا کر اپنا ریوالور نکالا اور تیزی سے اس دوسرے بچے کے گھر کے سامنے پہنچ کراس کے باپ کو انتہائی فحش القابات سے دروازے پر لات مار کر پکارا ۔ جیسے ہی وہ آدمی اپنے بیٹے سمیت باہر آیا اس نے بنا کچھ سوچے یہ کہتے ہوئے کہ"تیرے بیٹے کی یہ جرات کہ میرے بچے کو مارے" اس بچے پر فائر کر دیا ۔ اس بچے کو بچاتے ہوئے اس کے باپ پر بھی گولی چلا دی ، اس کے پیچھے گولی کی آواز سنکر بھاگتی ہوئی خاتون خانہ بھی نشانہ بن گئی اور تین لوگ قتل ہو گئے ۔ خود تو وہ شخص وقتی طور پر بھاگا لیکن پھر پکڑا گیا اور سزائے موت ہو گئی ۔ بیوی نے دوسری شادی کر لی ۔ سوتیلے باپ نے اسی بیٹے کو جس کی شکایت پر اتنا ہنگامہ برپا ہوا ، کو ایک یتیم خانے میں داخل کر دیا ۔ 
یہ تینوں واقعات ایک ہی جیسے تھے لیکن ان کا انجام ایک دوسرے سے بلکل الگ تھا ۔ کیوں کہ ان واقعات سے نبٹنے کا طریقہ سب کا جدا تھا ۔ لہذا نتیجہ بھی جدا نکلا ۔ یہ سارے واقعات جن کے ساتھ پیش آئے ان کی زندگی کی ایک ایک ٹھوکر تھے ۔ ایک نے اس ٹھوکر پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس سے اچھا سبق لیتے ہوئے بات کو مثبت پہلو سے جانچتے ہوئے اس کا اچھا نتیجہ نکالا اور مشکل سے بچ گئے ۔ دوسرے کیس میں باپ نے اپنے جنگلی پن سے معاملے کو سمیٹا اور بچے کے دل میں اسی جنگلی پن اور انتقام پسندی کا بیج بو دیا ۔ اور وہ بچہ مستقبل کا فسادی بن گیا ۔ جبکہ تیسرے گھر کے ہر فرد کو ہی نہیں دوسرے گھر کے  افراد کو بھی ایک چھوٹی سی  بات کی ہولناک قیمت چکانا پڑی اور دو ہنستے بستے گھر برباد ہو گئے ۔ ان تمام واقعات سے یہ ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک ہی جیسے ٹھوکر لگنے کے باوجود جو چیز آدمی کو ایک دوسرے سے مختلف نتائج دیتی ہے وہ ہے اس انسان کا ظرف ، اسکی معاملہ فہمی ، اس کا صبرو تحمل  اس کی قوت فیصلہ اور اسکی قوت برداشت ۔  انسان کو ہر معاملہ میں ان خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ لیکن ٹھوکر لگنے کے بعد پھر سے اٹھنے والا اور مذید آگے کی جانب ترقی کرنے والا انسان ہی اصل میں کامیاب انسان ہوتا ہے ۔ دنیا میں اسی کا نام رہتا ہے جو ٹھوکروں میں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ہر ٹھوکر کو اپنی زندگی میں اعلی مقاصد کے لیئے ایک نئی سیکھ اور سیڑھی سمجھتا ہے جو  اس ٹھوکر کو اس کی سوچ کے بند دروازوں کو کھونے والی چابی بنا لیتا ہے ۔ وہی کامیابی کی منزل پر پہچ پاتا ہے ۔ 
          ●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
       ●●●
                                      

اتوار، 24 جنوری، 2016

سانحہ چارسدہ یونیورسٹی




سانحہ چارسدہ یونیورسٹی 
ممتازملک ۔ پیرس







ایک اور دلخراش واقعہ نے پاکستان کے تحفظ اور اس کے پرامن حالات پر ایک اور چوٹ لگائی .  نہ تو یہ کوئی بات نئی ہے اور نہ ہی ہمارا دشمن نیا یا چھپا ہوا ہے . یہ وہی دشمن ہے جن کے لیئے قائد اعظم کے یوم پیدائش کو نظر انداز کر کے ہمارے وزیراعظم صاحب خود کو فرش راہ کیئے  بچھے  چلے جا رہے تھے . اور نت نئے انداز سے اس دہشت گرد پڑوسی وزیراعظم کی دلپشوری میں دیوانے ہوئے جا رہے تھے . اور  ویسے بھی پاکستانی قوم کا وقار  کسی کے قدموں میں ڈالنا ہمارے وزراء کا پرانا شیوہ رہا ہے . لیکن اب تو حد ہی ہو چکی ہے .پڑوس سے کوئی بھی ڈگڈگی بجاتے ہوئے آتا ہے بندر کا تماشا دکھاتا ہے . اور ایک نئے وار کے لیئے جاسوسی کر کے چلا جاتا ہے . یہ ہی ہوا اب کی بار بھی پشاور کے نزدیک چارسدہ یونیورسٹی میں پشاور آرمی سکول کے واقعے کو دہرایا گیا . گو کہ الحمد اللہ گارڈز ،پولیس اور فوج کی بروقت آمد سے ہم بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے بچ گئے . لیکن یہ سب اس سے کہیں زیادہ سنگین ہو سکتا تھا . ہر آدمی حیران ہے کہ کوئی لگاتار پاکستانی حدود میں موبائل  پر تخریبی گفتگو کر رہا ہے لیکن کسی سیٹلائیٹ سروس یا موبائل سروس والے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.  حالانکہ  اگر یہ لوگ چند مخصوص الفاظ بھی سسٹم میں شامل کر دیتے ہیں جو کہ ممنوعہ ہوں تو بھی سسٹم  آپ کو الرٹ کر دیتا ہے . یہ بات تو ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ فون اور موبائل میں  کئی قسم کے سیفٹی پوائنٹس ہوتے ہیں .  تو ہمارے ان فون کمپنیز میں کام کرنے والے کیسے ثم بکم گونگے بہرے بنے رہے . اس کا صاف مطلب ہے کہ فون سروس میں سے بھی اس واقعے میں کسی نہ کسی کی سنگت یا غفلت شامل رہی ہے . اس کی گرفت اب تک کیوں نہیں ہوئی ؟ 
کسی بھی عمارت میں ساٹھ کے قریب گارڈز کیا ایک ہی جانب بیٹھے پہرہ دے رہے تھے یا تاش کھیل رہے تھے یا گپ ہانک رہے تھے کہ انہیں پچھلی دیواروں سے اندر آنے والوں کی بروقت خبر نہ ہوئی؟
اور سب سے بڑا نقطہ یہ ہے کہ یہ سب پاگل کتے اخر کابل سے ڈائیریکٹ تو چارسدہ تک نہیں پہنچے جس مکان یا ہوٹل میں یہ ٹھہرے تھے ان کے مالکان کو زیادہ رقم کی ادائیگی بھی کی ہو گی . اور امید سے زیادہ ان کی مٹھی گرم کی گئی ہو گی . اور ان مالکان  کو یہ نہیں سوچنے کی زحمت گوارہ ہوئی کہ یہ اجنبی اس پر اتنا مہربان کیوں ہے ؟
ان سب لالچی ملک فروشوں کی سزا بھی اتنی عبرت ناک بنا دیں کہ آئندہ کوئی اپنا گھر یا کمرہ کرائے پر دیتے ہوئے اچھی طرح سے سوچے . ان سہولت کاروں کو انہیں کے محلوں میں سرعام پھانسی دی جائیں  اور ان کے گھروں کو بلڈوز کر دیا جائے . تاکہ دوسروں کے لیئے یہ عبرت بن سکیں . اور جس کسی این جی او یا وکیل کے پیٹ میں ان پاگل کتوں کے لیئے ہمدردی کا مروڑ اٹھے تو اسے بھی پھانسی پر لٹکا دینا چاہیئے. کیونکہ اس ملک کی بقاء سے بڑھ کر نہ تو کوئی رشتہ ہے ،نہ کوئی عہدہ ہے اور نہ ہی کوئی محکمہ. جب تک حکومت  پاکستان اور پاک آرمی دل کو پتھر کر کے بڑے اقدام نہیں اٹھائے گی ہمارے وذراء سے اس غیرت مندی کی توقع بھی عبث ہے. اگر راتوں رات اس ملک کی اسمبلیاں کھولی جا سکتی ہیں اور خزانے لوٹنے  نت نئے قوانین اور احکامات پر ٹھپے لگائے جا سکتے ہیں . ہر خزانے کے چور کو تحفظ  دیا جا سکتا ہے . تو اس ملک کی سلامتی کے فیصلوں پر مہر کیوں نہیں لگائی جا سکتی . قومی سلامتی کے تمام معاملات  ہمارے نااہل اور کاروباری حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے جن کا دماغ سوتے جاگتے قورمہ بریانی سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا .اور ان سے ملک کے دفاع کی امید رکھنا بھی گویا بلی کو دودہ کی نگرانی پر بٹھانے والی بات ہے . اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی سلامتی کونسل کو فعال کیا جائے اور اس کے آخری فیصلے کا اختیار پاک آرمی کی کسی بھی غیر متنازعہ شخصیت کو بنایا آئے . کیونکہ جاہل عوامی اکثریت  کو  پڑھے لکھے باشعور درد دل رکھنے  والی اقلیت پر کسی طور فوقیت نہیں دی جا سکتی . یہ ہی وقت کی آواز بھی ہے اور ضرورت بھی.
                     ...............

بدھ، 16 دسمبر، 2015

ٹرننگ پوائنٹ

ایک سال  گزر گیا اس کالے دن کو جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انتہائی بے رحمی سے موت کا کھیل کھیلا گیا . خود کو بہادر سمجھنے والوں نے معصوم بچوں کو جس طرح چن چن کر اپنا نشانہ بنایا اسے دیکھ کر کیا سن کر ہی دشمنوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں . آج سب کے لیئے اس سانحے کا ایک سال مکمل ہو گیا . لیکن پوچھے کوئ  ان ماوں سے کہ آج ہی کے دن جب انہوں نے اپنے راج دلاروں کے سکول یونیفارم استری کیئے ہوں گے ان  کے بال سنوارنے ہوں گے ان کا ماتھے چوما ہو گا  . تو سچ میں اس قیامت کی آہٹ ان کے دلوں نے محسوس  نہیں کر لی تھی . کہ آنے والا عذاب پہلے سے اپنی چاپ سنا دیتا ہے . جب کئی بچوں نے سکول نہ جانے کی ضد بھی کی ہو گی . لیکن انہیں راج دلار  سے بہلا پھسلا کر کوئی وعدہ کر کے سکول جانے پر تیار کیا گیا ہو گا . سکول کے گیٹ سے گھر تک کے واپسی کے راستے میں کئی بار ماوں کا دل دھڑکا  ہو گا . باپوں نے کئی بار نہ جانے کیوں پیچھے مڑ کر دیکھا ہو گا . شاید جدائی کی گھڑی کا ان سے الگ ہونے کا دکھ انہیں بتائے بنا ہی اس درد کے لیئے تیار کر رہا تھا . گھر پر اپنے بچوں کی فرمائش پر کھانا بناتے ہوئے کتنی بار ہاتھ سے برتن چھوٹے ہوں گے کتنی بار دل دروازے کی جانب بلاوجہ ہی لپکا  ہو گا . کتنی بار بنا کچھ سمجھے رونے کو دل چاہا ہو گا . یہ معلوم ہوا کہ اس گھڑی میرے پیارے پر کیا گزر رہی تھی . کیسی بے رحمی سے اسے موت کی آغوش میں پہنچایا گیا ہو گا . تو ان کے حسین معصوم وجود خون کے لوتھڑوں میں تبدیل کر کے بڑے فخر سے اپنی   داڑھیوں پر ہاتھ پھیرا گیا ہو گا .  ایک دوسرے کو شاباش دی گئی ہو گی .  دنیا میں ہر قوم پر ایسا وقت آتا ہے جو اس کے لیئے آگے بڑھنے اور بڑے قدم اٹھانے کے لیئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے . دس سال سے پاکستانیوں کے اٹھتے لاشے اس حساب کے بے باک ہونے کے  منتظر تھے کہ کون سا لمحہ ان بدکار قاتلوں سے نقطہ آغاز بنے گا . اور وہ لمحہ ان معصوم بچوں نے اپنے لہو کی ندی پار کر کے اس قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر مہیا کر ہی دیا . ہو گیا نقطہ آغاز . پھندہ  ہو گیا یہ ہی لہو ان ضمیر فروش قاتلوں  کی گردنوں پر. اور آغاز ہو گیا انہیں کتے کی طرح مار مار کر بے نشان کرنے کا اور اپنی سرحدوں کو ان درندوں  سے پاک کرنے کا . 1971 میں ہندوستان نے اسی روز پاکستان کے وجود  کو دولخت کرنے کا کارنامہ سرانجام  دیکرپاکستان کو ایٹمی  طاقت بننے کی راہ پر ڈال دیا تھا . تو 2014 میں ہندوستان نے ایک اور فاش غلطی کر دی . اس نے پشاور سکول کی دہشت گردی کی پشت پناہی کر کے پاکستان کو ایک اور بڑا قدم اٹھانے اور درندوں ، قاتلوں اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں نپٹنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیئے سوچنے پر مجبور کر دیا . اللہ کا کرم ہے  کہ اس سانحے کے ایک سال بعد پاکستان 2014 سے کہیں زیادہ مضبوط  بھی ہے اور محفوظ بھی .  ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ اپنی کرتوتوں پر  شرمندہ ہونا ہی پڑتا ہے اور ہونا ہی پڑے گاکہ اس قوم نے اپنی چوٹوں سے ہی مرہم بنانا سیکھا ہے . اور دنیا سن لے کہ ہر چوٹ کو ہم ٹرننگ پوائنٹ بنانا جانتے ہیں .

بدھ، 18 نومبر، 2015

زخم بھر جائیگا پر....

پیرس میں گذشتہ ہفتے ہو ے والے خونی واقعات نے صدمے اور حیرت دونوں ہی سے ساری دنیا کو دوچار کر دیا . حیرت یہ کہ اتنے بڑے مضبوط اور محفوظ ملک میں یہ سب کر نے کا کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ؟ اور صدمہ اس بات کا  کہ دنیا میں اب تک جہاں بھی ہمیں جانے کا موقع ملا ہے اور اس ملک فرانس کی شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قدر محبت کرنے والی قانون پسند ،نفیس،،صفائی پسند اور دھیمے مزاج کی مددگاراور ہمدرد قوم آپ نے شاید ہی کہیں دیکھی ہو گی. فرانس میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو خصوصا بہت ہمدردیاں ملتی رہی ہیں . اور ان پر اعتماد بھی یورپ بھر میں  سب سے زیادہ فرانس ہی میں کہا گیا ہے . یہ بات  بہت ہی غور طلب ہے کہ جب بھی یورپ اور انگلینڈ میں مسلمانوں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے یا ان کے رویئے میں نرمی آنے لگتی ہے تو ساتھ کوئی نہ کوئی  ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے بلکہ کر دیا جاتا ہے کہ جس سے یہ  اعتماد پھر سے چکنا چور ہو جاتا ہے . آخر یہ سب کون کرتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں  جب انگلینڈ کے سابقہ وزیر اعظم کواپنے   ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیئے یہ کہنا پڑا کہ  عراق پر کاروائی اور دوسرے مسلم ممالک پر فوجی بدمعاشی کے لیئے اور مسلم قتل عام کے لیئے جھوٹ بولاگیا تھا.تو وہ کون سی طاقت ہے  کہ جسے  یہ گوارہ نہ ہوا کہ اس بات کا اعتراف کر کے ان مظلوموں کے ذخموں پر مرہم رکھا جائے . مسلمانوں کے ممالک کو تباہ کرنے کے لیئے منظم صلیبی جنگ میں سب سے بڑا  بدمعاش یقینا امریکہ ہی ہے اور امریکہ کو کون نچاتاہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہر گز نہیں ہے . مسلمانوں کے نام سے تیار کیئے گیئے اور مسلم ممالک میں یہ بیس پچیس پچیس سال پہلے سے پلانٹ کیئے گیئے امریکی اور یہودی جاسوسوں نے بڑی ہی لمبی اننگ کھیلتے ہوئے ہمیشہ اپنے اہداف پر حملے کیئے ہیں
.بلکہ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگاکہ دنیا بھر  کے امن کو تناہ کرنے کا ذمےدار  بہر  صورت امریکہ ہی ہوتا ہے .... اگر امریکہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر صدیوں پہلےمجرموںکو ہیلا لا کر آباد کیا جاتا تھا . یعنی کل تک یہ مجرموں کے لیئے "سرزمین سزا" تھی اور رفتہ رفتہ انہی مجرموں کی آ ہوں اور سسکیوں سے اب یہ دنیا بھر  کے لیئے" سرزمین بددعا" بن چکی ہے . امریکہ کی ترقی نما روشنی گویا جلتا ہوا سورج ہے . جو یہ نہ دیکھے اسے حرارت نہیں مل پاتی اور جو اسے غور سے دیکھ لے تو اندھا ہو جاتا ہے اور جو اسے چھو لے وہ جل کر بھسم ہو جاتا ہے . اسی کایہ کارنامہ ہے کہ دنیا بھر کا بد کردار،بدمعاش ،قاتل،بے دین اور نفسیاتی مریض ایک گروہ کی صورت اکٹھے کئے گئے اور ان سب کو برین واش کر کے دنیا بھر  میں مسلمانوں  کونشانہ بنانے انہیں قتل کرنے اور اکا دکا کاروائیاں یورپ انگلینڈ  اور امریکہ میں کروا کر انہیں مسلمانوں کے سر تھوپنے کے منصوبے پر لگا دیا گیا.  یوں مسلمانوں کے قتل عام کے لیئے ہر چار دن بعد ایک کہانی  گھڑی جاتی ہے . جبکہ  نہ تو طالبان کا تعلق کہیں  سے بھی اسلام سے ہے نہ ہی انہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے  اور نہ ہی داعش کے جانوروں کاکوئی تعلق کہیں بھی اسلام سے ہے کہ ان کا بھی نام مسلمان کی حد تک ہونے کے سوا اس دین کے ہزارویں حصے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے. ورنہ ان کے نناوے فیصد مقتول اور مظلوم اور مشق  ستم مسلمانوں ہی پر کیوں ہوتے.
لیکن ہمیں امید ہے کہ اس خوفناک واقعہ سے فرانس کے عوام کو جس طرح اپنے پیاروں کےجنازے اٹھانے اور انہیں تڑپتے ہوئے دیکھنے کا خوفناک تجربہ ہوا ہے اس کی روشنی میں انہیں مسلم ممالک اور خصوصا پاکستان کے لوگوں کی تکلیفوں اور اذیتوں اور قربانیوں کو سمجھنے کا ایک بھرپور موقع ملا ہو گا . اللہ پاک فرانس کے لوگوں کے زخموں کو بھر دے . اور انہیں آئندہ ایسے حادثات سے اپنی امان میں رکھے . اور انہیں مسلمانوں کیساتھ ملکر دنیا سے دہشت اور بربریت کے خاتمے کی توفیق عطا فرمائے. کہ بے شک اللہ قرآن میں واضح فرماتا ہے کہ" اللہ زمین پر فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا. "
اور "جس نے کسی ایک جان کو نا حق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا"
ہر روز جنازے ڈھو ڈھو کر پورا پاکستان  یہ بات جو دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ایک مسلمان نام رکھنے سے کوئی مسلمان اور ہندو نام رکھنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا . صرف اس مذہب کو بدنام کرنے کا ایک سستا اور گھٹیا طریقہ ہے . ورنہ ان کا شکار ساری دنیا میں مرنے والے ہزاروں مسلمان کبھی نہ ہوتے. فرانسیسی عوام پاکستان کا درد اب اس لیئے بھی بہتر سمجھ سکیں گے کہ اس درد کی ایک لہر نے ان کے سینے پر بھی ایسا گھاو لگایا ہے جو بھر تو جائیگا لیکن ہمیشہ کے لیئے داغ چھوڑ جائے گا.
                    ..............

پیر، 16 نومبر، 2015

بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں

صرف دس  پندرہ سال پیچھے کو جایئے .صبح چھ بجے اٹھنا . نماز پڑھنا سکول جانے کی تیاری کرنا  ناشتہ کرنا آٹھ بجے ساڑھے آٹھ بجے سکول لگنا ایک.ڈیڑھ بجے سکول سے چھٹی گھر آکر منہ ہاتھ دھو کر ماں کے ہاتھ کا بنا گرما گرم کھانا کھا کر ٹیوشن یا قرآن پڑھنے کو چلے جانا . چار بجے آ کر ٹی وی پر پسندیدہ کارٹون دیکھنا پھر ماں کے ساتھ کہیں آنا جانا یا ہاتھ بٹانا، ہوم ورک کرنا ،کھانا کھا کر نماز پڑھنا اور دس بجے تک سو جانا .
ماؤں  کا صبح چھ بجے آٹھ کر نماز کے بعد ناشتے کی تیاری،  سات بجھے انہیں کھلا پلا کر سکول بھیجنا، پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنا،سالن چڑھا کر آٹا گوندھ لینا اور سارے برتن دھو کر، کچن کی صفائی کے بعد گھر بھر کی صفائی ستھرائی، دھلائی پوچھا کرتے ہوئے سالن بھی تیار ہوا . بچوں کے سکول سے آنے تک توے  سے گرم گرم روٹی اتار کر ہاٹ پاٹ میں روٹی کے رومال میں لپیٹ کر رکھ دی گئی . بچوں کے آتے ہی انہیں کھانا کھلا کر مسجد یا ٹیوشن بھجوا کر ان کی چیزیں سمیٹیں ،برتن دھوئے اور لیجیئے جناب شام کے لیئے سالن موجود ہے تو بے فکری سے کہیں آنا جانا کیا، بازار کا چکر لگانا ہے تو وہ ہوا ،کبھی کسی کاسویٹر بنا جارہا ہے، کبھی برنیوں  میں آچار ڈال کر انہیں دھوپ میں رکھا اور ہلایا جا رہا ہے . کہیں جام جیلی تیار ہو رہے ہیں ، کسی کے پاس بچے ٹیوشن پڑھنے کے لیئے آ رہے ہیں . سارے کام رات کے کھانے کے وقت تک چلتے رہتے ہیں.
وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ اب توکسی کے پاس بوڑھا ہونے کا بھی وقت نہیں ہے شاید  .
اس بات کا خیال اس وقت آیا جب ایک جگہ بات کرتے ہوئے پہلے اور آج کے لوگوں کی زندگی اور طرز زندگی پر بات ہونے لگی  . کہ کل تک جب بیٹی یا بیٹے کی شادی کا موقع ہوتا  تھا تو سفید بالوں اور جھریوں کی آمد بھرے کھچڑی  چہرے کا تصور ذہن میں آتا ہے . باپ کمر جھکا ہوا بزرگ سا آدمی  اور نانی یا دادی تو اس بھی چار ہاتھ آگے دانت  ٹوٹے جھکی ہوئی کمر، لاٹھی ٹیکتی ہوئی عورت، نانا دادا تو آخری درجے کی تکالیف اور بیماریوں کا مجموعہ .
لیکن آج بیٹے یا بیٹی کے بیاہ پر ایک اور نوجوان جوڑا اس دلہا دلہن سے زیادہ دلکش دکھائی دے گا معلوم ہو گا کہ یہ ہے اس دلہا یا دلہن کے اماں ،ابا..... گود میں بچہ اٹھا کوئی جوان عورت نظر آئے پوچھا آپ کا بچہ ہے جواب نہیں یہ میرا پوتا یا نواسی نواسہ ہے . حالانکہ پہلے وقتوں میں بچوں کی شادیاں بھی بہت جلد کر دی جاتی تھیں . بیٹی چودہ پندرہ کی عمر میں اور بیٹا بیس بائیس میں بیاہ دیتے اس حساب سے سال بھر میں گود میں بچے ہوئے. ..اپنی بیٹی بیاہتے ہوئے وہ لڑکی جو ماں تھی تیس سال کی ہوتی اور لڑکابھی پینتیس تک کا تو انہیں زیادہ جوان نظر آنا چاہیئے تھا . جبکہ آج کی لڑکیاں جو بائیس سے چوبیس کی عمر میں بیاہی ان پچھلی ماوں سے زیادہ حسین اور جوان دکھائی دیتی ہیں
یہ کیسا عجیب راز ہے . کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے لوگ جو زندگی سو سال میں جیا کرتے تھے وہ ہم آج کے تیز رفتار زمانے میں پچاس سال ہی میں جی چکے ہوتے ہیں اس لیئے جسمانی عمر تو پچاس سال ہی ہوتی ہے جو دکھتی بھی ہے لیکن نہ دیکھنے والے پچاس مزید سال اسی تیزی میں ہم جی چکے ہوتے ہیں . اور ہمارا دن ہمارا سورج چوبیس گھنٹے کا پھیر شاید بارہ گھنٹے میں ہی مکمل کر چکا ہوتا ہے . اسی لیئے زندگی  تو سو سال کی جی لیتے ہیں لیکن بدن پچاس برس ہی دیکھ پاتا ہے . جبھی تو بوڑھا ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا......
                ..................

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/