ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 31 مارچ، 2014

● (3) جبری اسلام/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



          (3)جبری اسلام
ممتازملک ۔ پیرس

اسلام کے معنی ہیں سلامتی ۔ تو جس دین کی ملاقات کا آغاز ہی السلام علیکم  کہہ کر کرنے کا حکم ہے وہ د ین جو حالت جنگ میں بھی بچے ،بوڑھے ، عورت اور ہر اس شخص پر بھی کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے،  وار کرنے کی اجازت نہیں د یتا جو ہرے پیڑ پودوں تک کو جنگ کے دنوں میں بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا؟ جو نہتے آدمی پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، وہ یوں بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے کو تصور ہی نہیں رکھتا ۔اسی اسلام کے نام پر بنے ملک میں اسی اسلامی نظریئے کو بد نام کرنے کے لیئے دنیا بھر کے نفسیاتی مریضوں اور پیشہ ور قاتلوں یا دوسرے لفظوں میں  ایک جنگلی بھیڑیوں کے ریوڑ کو پاکستان کا رخ کروایا گیا ہے  ۔ ہم خود بھی جس اسلام کی پیروی کر رہے ہیں اس کے کتنے احکامات کو بجا لا رہے ہیں ؟ یہ جاننا سب سے ذیادہ ضروری ہے ۔ کیوں کہ میری نظر میں ہم خود اپنے دین سے ، قرآن سے ناواقفیت کی بنا پر جس طرح قران کی تشریح کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ فتنوں کا باعث بن رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج 23مارچ 2014ء کو ہم اس بات کی ابتداء کا سال بنا دیں کہ ہم خود کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے دین اسلام کا مکمل مطالعہ کریں اور اس کے بعد پھر سے اسے سمجھ کر دوبارہ کلمہ پڑھ کے  ، سمجھ کر اس دین کو اختیار کریں ۔ جس طرح آج کا یورب میں رہنے والا ہر طبقہ مسلمان ہو رہا ہے ۔ کبھی زندگی میں ایسے مسلمان سے ملنے کا اتفاق ہو تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسلمان ہوتا کیاہے؟  اور آج کہ نام نہاد مسلمان بغلیں جھانکنے لگتے ہیں  اور  مجھے بہت پہلے کیسنی ہوئی یہ بات  یاد آجاتی ہے کہ انگریزوں اور یورپیئنز پر ہنسنے سے پہلے ڈرو اس دن سے کہ جب یہ لوگ عورت اور شراب کی دو برائیوں سے نکل کر اسلام قبول کر لیں تو شاید آج کے مسلمانوں کو جنت کے آخری حصے میں بھی جگہ نہ ملے گی ۔ یہ لوگ ہماری طرح کسی عبداللہ یا محمد علی کے گھر میں پیدا ہو کر مسلمان نہیں کہلاتے بلکہ یہ ایک عرصہ بھٹکنے کے بعد جب سکون ڈھونڈے کے لیئے دنیا کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہوتے ہیں تو تب یہ اسلام کو پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اور اس کے بعد بخوشی و برضا و رغبت اپنا سر پروردگار عالم کے بارگاہ میں ایسا جھکاتے ہیں کہ ایک موروثی مسلمان ،جوپتہ نہیں کہاں سے ، کس زاویئے سے مسلمان ہے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے ۔  اور باتیں تو ایک طرف اب تو شریعت کے نفاذ کا نام لیکر دین اسلام کا ایک اور مذاق بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ترین مملک میں جو اصلاحی اور فلاحی لائحہ عمل (پروگرام) رائج ہے ، کون نہیں جانتا کہ یہ سب اسلامی سسٹم ہی ہے جو خلفائے راشدین کے عہد بے مثالی کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآن کی روشنی میں یہاں لاگو کیئے گئے ہیں اور اسی کی روشنی میں ان اقوام نے چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالی ہیں ، جب کہ ہم ابھی تک اس سوچ میں اپنے 67 سال گنوا چکے ہیں کہ کون سا نظام ہو گا اور کون سا نہیں ۔ یہ ہی ہیں کوئی کام نہ کرنے کے حکومتی کام چور ہتھکنڈے ۔ کسی نظام کو لاگو کرنے کے لیئے اسے حکومتی مذہب کہلانا کوئی بڑی بات نہیں ہےبلکہ بات ہے اسکے نفاذ کی ۔ کہ ہم کس طریقہ کار سے اپنا ملک چلانا چاہتے ہیں جہاں پر کسی مجرم کو کوئی سزا دینے کا رواج ہی نہ ہو وہاں پر صرف اور صرف جرائم کی فصلیں ہی کاشت ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ہاں ہو رہی ہیں ۔ اس کے لیئے شرعی نظام کے نفاذ پر لڑنے کی بجائے اسے یورپی ممالک کی مثال لیتے ہوئے اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے ۔ مجرموں کو اس کے محلے ہی میں پھانسیاں دی جائیں ، مجرم کے گھر کے سامنے ہی اس کو کوڑے لگائے جائیں ، مظلوم کےگھر کے سامنے ہی بدکار کو سنگسار کیا جائے ۔ چور کے ہاتھ اس کے گھر کے سامنے ہی کاٹے جائیں ۔ لیکن اس سے پہلے ہر آدمی اور عورت پر کام کرنا لازم کیا جائے ۔ کام چوری کی سزا بھی دیجائے ۔ کام کے مواقع پیدا کرنا حکومت پر لازم ہونا چاہیئے۔  بھوک کی وجہ سے کوئی شخص نہ مرنے دینا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ۔ بوڑھوں  کے لیئے55 سال کی حد کے بعد گزارہ الاؤنس کا اجراء بھی حکومتی ذمہ داری ہے  ، یہ تمام فرائض آپ سے عملی اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں نا کہ کاغذی اسلام کا ۔ یہ سب تو آپ نے کرنا نہیں ہے الٹا اب اسلامی نظام کے نام پر کیا لوگوں کو زبردستی مسجدوں میں گھسایا جائے گا یا لوگوں کو زبردستی کلمہ پڑھوایا جائے گا ۔ کیا مذاق ہے یہ ؟  یہ کام تو یہ دین لانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کیا ، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ نیت عمل کرنے کی ہو تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کوئی بھی دین اس کے ماننے والوں کے حالت ایمانی کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں مقبول ہوتا ہے ، نہ کہ زور زبردستی سے ۔اپنے ملک میں اصل اسلام کو قرآن اور سنت کے مطابق تعلیمی نصاب میں شامل کر کے لوگوں کی سوچ کو ایک حقیقی اسلامی رنگ دیجیئے اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ باقی دین کو انسان کا ذاتی معاملہ رہنے دیں جو اس کے اور خدا کے بیچ ہے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ ساتھ والے کا ۔                                             
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتےجومسلمان بھی ایک

●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

جمعرات، 27 مارچ، 2014

یوم پاکستان 23 مارچ 2014 / کالم



  
* یوم پاکستان23مارچ 2014*
ممتازملک ۔پیرس

* یوم پاکستان23مارچ 2014* *انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا یومِ پاکستان* *کااعلامیہ تھا کہ ٌٌ انصاف آج سے اپنے گھر سے شروع کیا جائے ـ احتساب اپنی ذات سے شروع کیا جائے جب ہی نیا کامیاب پاکستان ممکن ہے*
اتوار کی ایک سرد دوپہر2 بجے سے دن 6 بجے تک یہ خوبصورت محفل منعقد کی گئی جسکا مقصد خواتین کو پاکستان کے نظریئے ، تاریخ ، اسکے وجود کی
اہمیت اور آذادی کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا ۔ اور پاکستان کے آج کے حالات کی آگاہی دینا تھا ۔ پروگرام کی نظامت پیرس کی معروف شاعرہ ، کالمسٹ ، سوشل ورکر ،اور میزبان محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کی ۔ جبکہ مہمانان گرامی میں معروف عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ ،عالمہ محترمہ نوشین اسجد صاحبہ ، حق باہو ٹرسٹ خواتین ونگ کی صدر ،معروف شاعرہ ، شریف اکیڈمی کی فرانس میں سیکٹری و نمائندہ خاص محترمہ روحی بانو صاحبہ ، میگزین در مکنون کی ایڈیٹر اور افسانہ نگار محترمہ وقار النساء صاحبہ ، اور شاہ بانو میر اکیڈمی اورانصاف وویمن ایسوسی ایشن کی بانی و صدر ، چیف اڈیٹر در مکنون ، معروف تجزیہ نگار ، سات کتابوں کی لکھاری ، ناولسٹ ،کالمسٹ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ تھیں ۔ پروگرام کی خاص بات اس میں شامل تمام کی تمام خواتین نہایت پڑھی لکھی اور اچھے ماحول سے تعلق رکھنے والی تھیں جنہوں نے پروگرام کا ایک ایک لمحہ ماحول سے کشید کیا اور اپنے اہل علم اور محب وطن ہو نے کا بھر پور ثبوت کبھی آنسوؤں کے نذرانے سے اور کبھی امید بھری مسکراہٹ کیساتھ دیا ۔ جس نے اس پروگرام کو بلاشبہ ہر ایک کے دل اور روح میں اتار دیا ۔ اور پروگرام کی میزبان ممتاز ملک صاحبہ کو اس بات کا بھرپور احساس دلایا کہ یہاں دھڑکتے اور محسوس کرتے ہوئے زندہ لوگ موجود ہیں نہ کہ کوئی دیواروں سے باتیں کرنے اور لنگر انجوائے کرنے والا ہجوم ۔
پروگرام کا آغاز محترمہ نوشین اسجد کی خوبصورت انداز میں کی گئ سورہ الحجرات کی آیات نمبر 11 اور 12کی تلاوت کلام پاک اور ترجمہ سے ہوا ۔ اور اس کی تفسیر بیان کی ۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ پاک نے کس قدر سختی سے غیبت ، حسد اور بہتان سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ اور اس بات سے سخت نارضگی کا اظہار فرمایا کہ کہ کوئی مسلمان کسے دوسرے کا نام برے انداز میں لے یا اس کی تضحیک کرنے کی کوشش کرے ۔ کیوں کہ یہ ہی چیز جب انسان کی عادت بن جاتی ہے تو اسے سب سے بدترین مرض یعنی حسد مین مبتلا کر دیتی ہے جو اس کی نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔ لہذا ہمیں ہر ہر لمحہ اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ ہم اللہ کے عطا کردہ قلب سلیم کو کہیں قلب اثیم یعنی ناپاک دل نہ بنا لیں ۔ اور ہمیں اپنا محاسبہ خود سے کرنا ہے کہ کہیں ہم نہ جانتے ہوئے دل کی اس روحانی بیماری حسد کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔ کیوں کہ آج پاکستان جس طرح تباہی کی دلدل مین دھنس رہا ہے وہاں یہ حسد ہی ہے جو ہمیں ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ نے بھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے پر زور دیااور پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اپنی غلطیوں کو غلطیاں نہ سمجھنے کو ہی قرار دیا جس نے ہماری پوری ملکی سوچ کو مفلوج کر دیا ہے ۔ قرآن کی روشنی میں ہمیں اپنے راستوں کی تاریکی مٹانی ہو گی جبھی ہم منزل کا نشاں پا سکتے ہیں۔ ورنہ تباہی ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہمیں پاکستان کے لیئے دی گئی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیئے ورنہ اس کے لیئے جانوں اور عزتوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی روحیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
محترمہ وقار النساء صاحبہ نےاپنے خطاب میں پاکستان کی قرار داد کو مسلمانوں کے لیئے ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے ذاتی اختلافات کو کسی بھی صورت اپنے ملکی مفاد سے ٹکرانےنہیں دینا چاہیئے بلکہ جہاں ملکی مفاد کی بات ہو وہاں ہمیں ایک جا ہو کر سوچنا چاہیئے ۔ انہوں نے 1857 سے 1940 اور 1947 تک کے تحریک پاکستان کا سفر مختصراََ بیان کیا ۔
محترمہ روحی بانو صاحبہ نے اپنے خظاب میں پاکستان کی تاریخ کو آج کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قائداعظم نے کروڑوں قربانیوں کے بعد یہ پاکستان اس لیئے نہیں حاصل کیا تھا کہ کہ یہاں پر لوگوں کی عزتیں پاؤں میں روندی جائیں ، حقداروں کے حقوق سلب کیئے جائیں ۔ انصاف سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بن جائے ۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے اس بات کا ہی یقین نہ ہو کہ ہم سلامتی سے اپنے گھروں کو واپس آئیں گے بھی کہ نہیں ۔ یہ ملک ہماری عزتوں کی حفاظت کے لیئے حاصل کیا گیا تھا ۔ تاکہ ہماری نسلیں اس میں اپنی مذہبی آذادی کیساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔ یہ ملک اس لیئے حاصل کیا گیا تھا کہ ہمیں انصاف کے لیئے سالوں دربدر نہ ہونا پڑے ۔ جہاں نہ صرف اظہار رائے کی آزادی ہو بلکہ ہمیں ہر ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے بھرپور مواقع بھی میسر ہوں لیکن آج ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کو پاکستان کا محافظ ہونا چاہیئے تھا وہی لوگ اس ملک کے مستقبل سے کھیلتے رہے ۔ اور اس ملک کو انہوں نے دنیا بھر میں ایک تماشا بنا دیا ۔ اور جو باقی رہی سہی کسر تھی اسکی تباہی میں وہ ہم عوام نے ہی پوری کر دی ۔ ہمیں اللہ پاک کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھ کے ہی فلاح مل سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں شاہ بانو میر صاحبہ اور ممتاز ملک صاحبہ کا بطور خاص شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہمیشہ ہی مجھے بہت پیار اور عزت سے نوازہ ہے ۔ میں ان کی کامیابیوں کے لیئے ہمیشہ ہی دعا گو رہوں گی ۔
محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ روحی بانو صاحبہ کی یہ بات کہ مجھے وہ مقام جو ملنا چاہیئے تھا وہ نہیں ملا تو میں یہ ہی کہوں گی کہ میں نے اکیلے جس سفر کا آغاز کیا تھا الحمد اللہ آج میں اس میں ایک پورے گلدستے کے ساتھ موجود ہوں ، بہت طوفان آئے آندھیاں چلیں کچھ دیر کے لیئے ہم لڑکھڑائے بھی لیکن کیوں کہ ہماری جڑیں غرض کی ریت میں نہیں بلکہ محبت اور اخلاص کی مٹی میں پیوست تھیں اسی لیئے اپنی جگہ سے نہیں ہلیں ۔ پاکستان بنانے والے یہ ادراک کر لیتے کہ یہاں یوں پاکستان کے نام پے دھبے لگائے جائیں گے تو شاید وہ اس تحریک کو ہی منسوخ کر دیتے ۔ آج یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی اپنی فیلڈ میں ایمانداری سے کام کریں اور اس ملک کو اسکا کھویا ہوا وقار واپس دلائیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نورالقران سے جڑنے کے بعد ہر روز خود اپنا احتساب کرنے کی قوت بھی اللہ نے عطا کر دی ہے جس سے رو زاپنے آپ کو گزرے کل سے بہتر بنانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ۔ اور انشا اللہ مرتے دم تک جاری رہے گی ۔
ممتاز ملک نے اپنے پروگرام کو مکمل طور پر پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل کا امتزاج بنا دیا جس میں کئی جذباتی لمحے آئے کئی بار سب کی آنکھیں نم ہوئیں اور کئی بار سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ۔ یہ ہی ایک پیغام رساں کی کامیابی ہوتی ہے اور الحمد اللہ یہ کامیابی یہاں پوری طرح نظر آئی ۔ ممتاز ملک نے اس بات پر ذور دیا کہ عورت کا کردار کسیی بھی ملک کی تحریک کا بنیادی جزو ہوتا ہے یہ عورت ہی تھی جس نے اپنےدوپٹے کو لاہور جیل کی عمارت پر لہرا کر اپنے بھائیوں اور جوانوں کو اس بات کو چیلنج پیش کیا کہ آگے بڑھو تمہاری مائیں بہنیں اپنے آنچل کا کفن بنانے کو تیار ہیں ۔ یہ عورت ہی تھی جس نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح بن کر اپنی ذاتی ذندگی اپنی ہر خوشی اپنے بھائی پر قربان کرتے ہوئے ڈینٹسٹ کی پریکٹس کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان کی تحریک میں اپنا تن من دھن تک پیش کر دیا ۔ لیکن اس قوم نے کیا کِِیا اسی عورت کو مادر ملت کا خطاب تو دیا لیکن زہر میں بجھا کر ان کی جان بھی لے لی اور اس پرخاموشی کی سیاہ چادر ڈال دی ۔ جس پر وقت نے لکھا کہ کیا یہ ایک احسان فراموش قوم ہے؟ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس ملک کے بنیادی مقصد یعنی انصاف کے حصول کو اپنی ذندگی کا مقصد بنانا ہو گا ، اوریہ ہی پاکستان کی بنیاد ہے ۔ ہمیں انصاف چاہیئے تو ہمیں سب سے پہلے خود منصف بننا ہو گا؛ ہمیں ماں باپ کے طور سے اپنے بچوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا ؛بھائی بہنوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا؛ اپنے گھر کے ملازموں سے انصاف کرنا ہو گا ؛پھر دیکھیئے گا کہ ہمیں انصاف کی تلاش میں کہیں بھٹکنا نہیں پڑیگا ۔ کیوں کہ فرائض کی ادائیگی ہی حقوق کے حصول کا سبب ہوتی ہے ۔ ہم سوچتے ہیں جس ملک کے لوگ اس طرح برائیوں میں گھرے ہوں تو یہ قائم کیسے ہے ؟تو مجھے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ اس ملک کی سرحدوں پر کروڑوں شہیدوں کی روحیں گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں جب
بھی کوئی عذاب ادھر کا رخ کرتا ہے تو یہ شہیداللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور فریاد کرنے لگتے ہیں اللہ تو عذاب دیتے ہوئے دیکھنا کہ یہاں یہاں تو میرے بابا کا لاشہ گرا تھا ، یہا ں بھی نہیں؛ نہیں مولا یہاں تو میری بہن نے اپنی عزت اپنے ملک کی بھینٹ چڑھا دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہان بھی نہیں یہاں تو میری بیوی نے اپنے پیدا ہونے سے پہلے کی اولاد بھی نیزوں پر چڑھا دی تھی ۔ خود کو ٹکڑے کروا ڈالا تھا ۔ ۔ ۔ ۔اتنا آہ و فغاں ہوتا ہو گا کہ اللہ پاک بھی اپنے فرشتے کو واپسی کا حکم دے دیتا ہو گا کہ شہید خدا کے پیارے ہوتے ہیں ۔اسی لیئے تو وہ فرماتا ہے کہ شہیدکو مردہ مت کہو یہ زندہ ہیں انہیں ہم رزق دیتے ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے ۔ انہیں کی محبت کے صدقے ہم بار بار معاف کر دیئے جاتے ہیں ، لیکن کب تک ؟ ایسا نہ ہو تو جس ملک کے لوگ اپنے قائد اپنےبابا کی قبر کو بدکاری کا اڈا بنا دیں ۔ جہاں 6،6 سال کی بچیاں ریپ ہو رہی ہوں جہاں قران کا درس دینے والے بچوں سے برے افعال کرتے ہوں ، جہاں عورتیں بے پردہ رہنے کو فیشن کہتی ہوں ، جہاں مخلص لوگوں کی ہنسی اڑائی جاتی ہو ۔ جہاں یارانوں دوستانوں میں سرکاری اداروں کے عہدے پیش کیئے جاتے ہوں جہاں قاتل چھوکرے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے گردن اکڑا کر مقتول کے سر پر پاؤں رکھ کر بھنگڑے ڈالتے ہوں اسے تو کب کا ختم ہو جانا چاہیئے تھا ۔ اگر یہ قائم ہے تو اسی لیئے کہ یہ شہیدوں کی تڑپ خدا سے ہماری بار بار معافی کرواتی ہے ۔
لیکن کب تک یونہی چلے گا ۔خود کو بدلنے کا وقت آن پہنچا ۔ ہم اب بھی یہ ہی دعا کریں گے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُُُترے
وہ فصل گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہموطن کیلیئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
اس تمام، پروگرام کا ٹریبیوٹ شہید اعتزاز احسن کو پیش کیا گیا اور ان کے والدین کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ جس نے اپنے لہوسے اپنی زمین پر لکھا کہ ابھی امید زندہ ہے ۔
یوں یہ پروگراوم سوچوں کے دروازے پر بھرپور دستک دیتا ہوا اختتام پذیر ہوا ۔اپنے انمٹ نقوش زہنوں پر چھوڑتے ہوۓ ۔شکریہ شاہ بانو میر صاحبہ اتنے خوبصورت لوگوں کیساتھ اتنے بھرپور انداز میں بات کرنے کا موقع دینے کے لیۓ۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 25 مارچ، 2014

یوم پاکستان23مارچ 2014 شاہ بانو میر

http://thejazba.com/%DB%8C%D9%88%D9%85%D9%90-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%B4%D8%A7%DB%81-%D8%A8%D8%A7%D9%86%D9%88-%D9%85%DB%8C%D8%B1/



       یوم پاکستان23مارچ 2014
شاہ بانو میر            

انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا یومِ پاکستان
اعلامیہ انصاف آج سے اپنے گھر سے شروع کیا جائے ـ احتساب اپنی ذات سے شروع کیا جائے جب ہی نیا کامیاب پاکستان ممکن ہے
23 مارچ بروز اتوار انصاف وویمن ایسوسی ایشن کی جانب سے خواتین کیلیۓ خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا ـ 
جس کا مقصد قرار دادِ پاکستان کو ازسر نو دہرا کر موجودہ نازک حالات میں خواتین کے شعور کو بحال کرنا تھا ـ
انصاف وویمن ایسوسی ایشن کی ٹیم کے بھرپور کوششوں سے گزشتہ تمام پروگرامز کی طرح الحمد لِلہ یہ پروگرام بھی خواتین کو عرصہ دراز تک یاد رہے گا ـ انصاف وویمن ایسوسی ایشن واحد ایسوسی ایشن ہے جس کے پروگرامز میں دین اور دنیا دونوں کا بہترین امتزاج ملتا ہے ـ
اس پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ ہمیشہ کی طرح خواتین نے پوری دلجمعی اور توجہ سے پروگرام کو سنا ـ اور اس کے ہر لمحے سے محظوظ ہوئیں ـ
پروگرام کی نظامت پیرس کی قابلِ فخر خاتون محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کی ـ ممتاز ملک کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ـ پیرس کی ان گنی چُنی خواتین میں ان کا شمار ہوتا ہے جو ادب ہو صحافت سماجی ہو یا سیاسی ہر شعبے میں اپنی الگ مضبوط سوچ کے ساتھ تحریر کی صورت اپنا فرض ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں ـ بہترین شاعرہ ہیں ـ نامور میزبان ہیں ـ 2 بہترین اصلاحی شاعری پے مبنی کتابوں کی شاعرہ ہیں ـ 3 کتابوں کی عنقریب اشاعت کروانے والی ہیں ـ انقلابی سوچ کی حامل خاتون ہیں ـ جو بڑی جرآت اور بہادری سے حالات کے سامنے ڈٹ کر اپنا مؤقف پیش کرتی ہیں ـ سچائی کوخونِ جگر دے کر جب کوئی تحریر منظرِ عام پے آتی ہے تو متعلقہ شعبے پے برق بن کر گرتی ہے ـ بطورِ خاتون ان کی مداح ہوں کہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرح اتنی تلخ سچائیاں لکھنے سے قاصر ہوں ـ اللہ کی خاص عنایت ہے ان پے کہ قلم جب اٹھتا ہے تو قیامت بپا کر دیتا ہے ـ
ممتاز ملک کی تحریر جیسے قاری کو اختتام تک اپنے سحر میں جکڑے رکھتا ہے ـ ویسے ہی ان کے بھرپور اندازِ نظامت میں وہی ماحول کی غلامی اس پروگرام میں بھی دکھائی ـ اڑہائی گھنٹے سے طویل دورانیے کے اس پروگرام میں ان کی ذہانت معلومات درد فکر مستقبل کیلیۓ نیک تمناؤں کا بیان اس کے ساتھ شدتِ جزبات سے کہیں کہیں ان کی آواز کو آنسوؤں میں ڈبو گیاـ
ہر خاتون نے ان کی آواز کی سچائی درد اور پیغام کو سن کر دل سے قبول کیا ـ بہترین میزبان کا حق ادا کرتے ہوئے آج کی اس تقریب کو مزید یادگار بنا دیا ـ ممتاز ملک پیرس کمیونٹی کا وہ تابناک مستقبل ہے کہ اگر اس کی تحریر کی ترشی کونظرانداز کر کے اس کے نرم نازک ذہن اور ملائم سوچ تک کسی کی رسائی ہو تو وہ ایک نئی ممتاز ملک کو پا لے گا ـ
لیکن
ہماری کمیونٹی کی ازلی بد نصیبی یہ ہے کہ ہم نے صرف سنی سنائی باتوں پے کان دھرے ـ کسی کے حال ماضی کی مثبت کوششوں کو کام کو سراہنا شائد ہمارے کمزور ذہن کی استطاعت سے باہر ہے ـ ممتاز بھی اسی ذہنی تعصب اور رویے کا شکار ہےـ
اب کچھ ذکر 23 مارچ کے حوالے ہوئے پروگرام کا ـ
پروگرام کے آغاز میں ممتاز ملک نے بانی ایسوسی ایشن محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ اور ان کی پوری ٹیم کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ـ
پروگرام کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک حسبِ روایت ممتاز ملک صاحبہ نے پروگرام کو یوں گرفت میں رکھا کہ اس کا تسلسل دلچسپی کا معیار گزرتے ہوئے ہر لمحے کے ساتھ اور زیادہ ہوتا رہا ـ
پروگرام کا باقاعدہ آغاز محترمہ نوشین محمد صاحبہ نے خوش الحانی سے تلاوتِ کلام ِ پاک سے کیا سورہ الحجرات کی آیت 11 اور 12 بہت رِقت اور فہم کے ساتھ خواتین کے سامنے پیش کیا گیا ـ تلاوتِ کے بعد ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر نوشین صاحبہ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے تیار کی تھی اس کو پیش کیا ـ سورہ الحجرات کی آیات کا خلاصہ جس میں خواتین کو بتایا گیا کہ قرآن پاک کی اس انتہائی اہم سورہ مبارکہ میں کس طرح اللہ رب العزت نے فرمایا
کہ
غیبت حسد بہتان تراشی اللہ کی بہترین عطا ہمارے “” دل “” کو برباد کر کے ہمارے نامہ اعمال کو ہماری نیکیوں سے خالی کر دیتا ہے ـ “” دل “” جس کو قلب سلیم کی تشکیل کیلیۓ بنایا گیا ـ تا کہ انسان اللہ کی تخلیقات پے غوروفکر کرے اور اپنی کوتاہیوں خامیوں کو دور کر کے اس دل کو مطہر کرے اس کی اس کاوش سے دل صاف ہوگا اور قلب سلیم میں ڈھل جائے ـ
اگر ایسا نہ کیا تو یہی”" دل “”
تمام اخلاقی کمزوریوں کی آماجگاہ بنا کر ہم اس کو گناہوں میں لتھڑا ہوا دل بنا دیتے ہیں ـ جسے قلبِ اثیم کہتے ہیں ـ
خواتین نے انتہائی انہماک سے مکمل سنجیدگی سے تفسیر کو سنا ـ ٌ
انصاف ایسوسی ایشن کی چھوٹی سی بلبل پیاری بیٹی نے حمدِ باری تعالٰی ادب و احترام سے پیش کیاـ ایسوسی ایشن کا ہر ممبر اس کا قیمتی اثاثہ ہے ـ یہ چہکتی ہوئی معصوم بلبل بچپن سے پاکستان کے پروگرام میں بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی ہے ـ
محترمہ ریحانہ کوثر صاحبہ انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا قیمتی سرمایہ عالمہ ہیں اور علمی لحاظ سے تصدیق شدہ مواد پے بیان فرماتی ہیں ـ خواتین میں مذہبی حوالے سے الگ منفرد مقام رکھتی ہیں ـ آج کے اس پروگرام میں انہوں نے حدیث مبارکہ پیش کیں ـ خواتین کو دین کے ساتھ دنیا کو کیسے چلانا ہے یہ صرف آپ کو تب شعور ملے گا جب آپ قرآن و احادیث کا مطالعہ کریں گی ـ اپنی نسل کو سنوارنے کیلیۓ اپنی آخرت کو بہتر بنا کر شرمندگی سے بچنے کیلیۓ آج یہ ہمیں کرنا ہوگا کہ خود کو اپنی اولادوں کو قرآن سے جوڑیں ـ لفاظی یا زبانی کلامی یہ کہہ دینا وہی نتیجہ دے گا جو آج ہمیں پاکستان کی صورت مل رہا ہے ـ عمل کے بغیر دین کی پکار دینا لاحاصل ہے ـ وہ کہیں جو کر سکتے ہیں ـ اپنے اعمال کو عمل کی صورت ڈھالیں جیسے ہمارے اسلاف کا شعار تھا ـ
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے انصاف وویمن ایسوسی ایشن کی بانی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کو اور ان کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی ایسوسی ایشن کو کمیونٹی کیلیۓ مثبت پیش رفت قرار دیا ـ ممتاز ملک نے شاہ بانو میر صاحبہ کی ادبی خدمات کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی سال ہا سال سے کی گئی تحریری کاوشوں نے اب حقیقت کا روپ دھارا ہے ـ آج کئی خواتین اس سچ کے کٹھن سفر میں آپ کے ساتھ ہیں ـ ان کا کہنا تھا کہ ایک پھول آج کئی باہُنر خواتین کے ساتھ مہکتا ہوا دلکش رنگوں کے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ بن چکا ـ جو انشاءاللہ اپنی خوشبو کو ہر سو پھیلا کر” پاکستان بہار”کا پیام ثابت ہوگا ـ
پروگرام کو آگے بڑہاتے ہوئے
ممتاز ملک صاحبہ نے قائد اعظم کے سفر کا آغاز کیا اور ان کی سیاسی جدوجہد کو بیان کیا ـ راہ میں حائل مشکلات سے نبردآزما ہوتے ہوتے ہوئے قائد 1940 سے 1947 تک کے قلیل عرصے میں پاکستان حاصل نہ کر پاتے اگر ان کی ذاتی زندگی کی اداسی کو ان کی بہن سنبھالا نہ دیتیں ـ محترمہ فاطمہ جناح کے ذکر کے بغیر قرار داد سے قیام پاکستان کا تذکرہ ادھورا ہے ـ انہوں نے بتایا کہ کیسے فاطمہ جناح نے ڈینٹسٹ ہوکر اپنی پریکٹس ختم کی اور پاکستان کے حصول کیلیۓ اپنے بھائی کی گرتی ہوئی صحت پے اپنی ساری توجہ مرکوز کر دی ـ
نمناک آواز میں ممتاز ملک نے جب دی جانے والی لاکھوں قربانیوں کا ذکر کیا تو ہال میں موجود خواتین کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں ـ ماؤں کا بیٹیوں کی عزتوں کو محفوظ کرنے کیلیۓ ان کو مار دینا ـ کیسے درندہ صفت سکھوں نے اس وقت حاملہ خواتین کے پیٹ نیزوں برچھیوں اور کرپانوں سے چاک کئے اور بچوں کو مار دیا ـ آڑہائی لاکھ خواتین آج بھی سکینہ سے بلونت کور بنی ہوئی بھارت میں سسک رہی ہیں ـ جوانوں کے لاشوں سے جب بھرا خطہ ارض تو خون کی سرخی نے لفظ “”پاکستان “” لکھا ـ
آج اس ملک کے ساتھ ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں؟
خود
ہم کیا کر رہے ہیں؟
آج کا بکھرتا تباہ ہوتا پاکستان اس وقت کے قائد کی سوچ میں نہیں تھا ـ ورنہ شائد وہ جدجہد ملتوی کر دیتے ـ
خواتین کو اب سوچنا ہوگا ـ عملی زندگی میں اس ملک کو بچانے کیلیۓ ماں بن کر نہیں مجاہدہ بن کر کوشش کرنی ہوگی ـ اس ملک کو مضبوط کرنا ہے اور قائم رکھنا ہے ـ آج اگر یہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے تو یقینی طور پے اس میں آج کی ماں کی کوتاہی ہے جس نے اپنی اولاد کو درست سمت نہیں دی ـ خواتین کو زمانہ قدیم کی باہمت خاتون کی طرح اپنے بچوں کی تربیت کیلیۓ خود کو منظم کرنا ہوگا تا کہ وہ ایسی نسل تیار کر سکے جو دفاع وطن کے ساتھ ساتھ استحکام وطن بھی کر سکے ـ
روحی بانو
معروف سماجی نام خواتین کے لئے قابل احترام شخصیت سدا بہار مزاج بے ضرر سوچ کی مالک ـ مثبت رویے کی الگ پہچان ـ اچھا بولیں اچھا سنیں اچھا کہیں ـ کی عملی تفسیر ـ
تقریر کے آغاز میں ہال میں تیرتی تالیوں کی آواز نے بتا دیا کہ وہ اپنی سوچ کے ساتھ مقبول ہیں ـ
محترمہ روحی بانو نے انصاف وویمن ایسوسی ایشن کی بانی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کو ایسوسی ایشن کے بامقصد قیام اور اسکی کمیونٹی کیلیۓ کی گئی خدمات پے مبارکباد پیش کی ـ
اپنی تقریر میں انہوں نے کہا “” کہ عرصہ دراز سے جاری شاہ بانو میر صاحبہ کی ادبی سماجی سیاسی خدمات کو محسوس کرتے ہوئے دیکھتے ہوئے دل میں اعتراف کرنے کے باوجود یہ بد نصیبی ہے کہ آج تک ان کو جو مقام ان کا حق تھا وہ ہم نے نہیں دیا ـ
محترمہ روحی بانو صاحبہ نے بہت پرجوش لہجے میں خواتین پے زور دیا کہ وہ گھروں تک خود کو محدود نہ کریں بلکہ اچھی خواتین کے ساتھ پاکستان کیلیۓ جدوجہد کریں ـ
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا المیہ ہے کہ ہمارے درمیان منفی سوچ کا تاثرپیدا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اتحاد نا پید ہے ـ اور ہم سب کمزور ہو کر ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں ـ جس سے نہ صرف پاکستان کمزور ہوا بلکہ ہم خود بھی طاقت بکھیر کر تہی دست ہو گئے ـ
ان کا کہنا تھا
کہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ خواتین اس قرار داد پاکستان کے موقعے پے اتحاد کی یگانگت کی نئی قرار داد پیش کریں ـ آج قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کی اشد ضرورت ہے ـ روحی بانو صاحبہ نے مزید کہا کہ خاتون اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں خصوصی طور سے پاکستانی خاتون باوقار انداز میں باہر نکل کر نہ صرف کام کر سکتی ہے بلکہ بہترین رول ماڈل بن کر نئی نسل کیلیۓ رہنما کا کردار ادا کر سکتی ہےـ
ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوں درد بانٹیں ـ خوشیاں دینا سیکھیں ـ سوچ کا بہترین توازن قائم رکھیں ـ عبادت اپنا خاصہ بنا لیں ـ رات سونے سے قبل اپنے پورے دن کا محاسبہ کریں کہ آج کہاں کہاں آپ سے غلطیاں ہوئیں ـ اگلے روز ان سے اجتناب برتیں ـ اپنی شخصیت پے خاص توجہ دیں اور اس کو ہرروز بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ پاکستان بہتر سے بہتر ہو ـ روحی بانو نے تمام خواتین سے اپیل کی کہ وہ ان خواتین کے ساتھ مل کر بھرپور انداز میں کام کریں جو محدود وسائل میں خواتین کے درمیان رہ کر وطنِ عزیز کی فلاح و بہبود کیلیۓ کام کرنا چاہتی ہیں ـ
بھرپور تالیوں کی گونج میں ان کی تقریر اختتام پزیر ہوئی ـ
محترمہ وقار النساء صاحبہ
انصاف وویمن ایسوسی ایشن کی پہچان در مکنون کی ایڈیٹر ادبی کاوشوں پے مبنی منفرد نام ـ وقار انساء صاحبہ نے اپنی تقریر میں تحریک پاکستان سے قبل قائد اعظم کی زندگی تعلیمی کارکردگی پھر سوچ کا تبدیل ہونا اور مسلمانوں کیلیۓ الگ خطہ ارض حاصل کرنے کی اصل وجہ خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال کی جانب سے پیش کئے گئے دو قومی نظریے کو قرار دیا ـ
قائد نے علامہ کے اس خواب کی تکمیل میں دن رات کیسے صرف کئے اور کیسے پاکستان کا حصول ممکن ہوا اس پے روشنی ڈالی ـ وقار انساء صاحبہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ محبتوں کا تعاون کا مخلصانہ رابطہ ہمیشہ جاری رہے گا تاکہ مضبوط پاکستان کی
تعمیر نو کا اہتمام ہو ـ
پیاری بیٹی کو دعوت دی گئی کہ وہ آکر ملی نغمہ پیش کریں
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے
خوبصورت معصوم آواز میں موجود پاکستان کی محبت کا طلسم سب کو جیسے جکڑے ہوئے تھا ـ سب نے لے سے لے ملا کر ملی نٰغمہ میں ساتھ دیا ـ ماحول صرف “” پاکستان”" بن گیاـ
محترمہ نگہت صاحبہ کا تعارف ممتاز صاحبہ نے کروایا ـ محترمہ نگہت صاحبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون خواتین سے ہمکلام ہوئیں تو فرمایا کہ آج کے مایوس دور میں
“” اعتزاز حسن “” جیسے نوجوان ہمیں اپنے خون سے قربانی کا دیا روشن کر کے ایک بار پھر زندہ کر دیتے ہیں ـ شائد یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ـ
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارہ شجاعت ملنے پے ان کا کہنا تھا کہ ایسے قومی ہیرو کو ہمیں اپنے ارادوں میں پروگرامز میں اجاگر کرنا ہوگا ـ مایوسی ناامیدی کے اس دور میں بلاشبہ اعتزاز حسن فتح کا باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا کامیاب نام ہے ـ
نگہت صاحبہ نے کہا کہ وہ خواتین کے ساتھ مل کر انشاءاللہ اپنے تحریر سفر کا بہت جلد آغاز کریں گی ـ انہیں امید ہے کہ ان کے ساتھ موجود خواتین ان کی رہنمائی کریں گی ـ خواتین نے تالیوں کی بھرپور گونج میں ان کو خوش آمدید کہا ـ
روحی بانو نے اپنی میٹھی پیاری آواز میں ملی نغمہ سنایا ـ اس موقعہ پے ہال میں موجود خواتین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ـ پاکستان کی محبت ہر چہرے سے جھلک رہی تھی ـ آواز میں موجود جوش اور ماحول کی کیفیت بتا رہی تھی کہ اب وہ وقت دور نہیں جب نیا پاکستان باشعور عورت کے ساتھ منظرِ عام پے آئے گا ـ
پروگرام کے آخر میں بانی ایسوسی ایشن محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کا خطاب تھا ـ
انہوں نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا محترمہ ممتاز ملک صاحبہ جنکی کمپئیرنگ نے بلاشبہ آج کے دن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ یادگار بنا دیا ـ شاہ بانو میر صاحبہ نے “” محترمہ ممتاز ملک صاحبہ “” کو پیار سے”" خطرناک ذہین خاتون”" کہا ـ جس روانی جس فہم و فراست سے وہ بول رہی تھیں ـ وہ اپنی مثال آپ ہے ـ
محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے ممتاز ملک کی علمی ادبی سماجی سیاسی کاوشوں پے روشنی ڈالتے ہوئے ان کو ملک و قوم کا گرانقدر سرمایہ قرار دیا ـ
ان کی نئی کتاب “” میرے دل کا قلندر بولے”" کی کچھ نظمیں خواتین کے سامنے پیش کیں ـ تاکہ خواتین اندازہ کر سکیں کہ ان کے درمیان کیسی کیسی انمول ہستیاں موجود ہیں ـ جو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے محدود حلقہ رکھتی ہیں ـ مگر ان کا کام انشاءاللہ ایک دن ان کے نام کے ساتھ ایسے تسلیم کیا جائے گا جیسے سورج کے آنے کے ساتھ ہی نور کا تصور ذہن میں آتا ہے ـ شاہ بانو میر صاحبہ ممتاز ملک کا ایسوسی ایشن کی جانب سے شکریہ ادا کیا ـ
محترمہ روحی بانو صاحبہ کیلیۓ شاہ بانو میر صاحبہ نے کہا
کہ روحی نے میرے لئے کہا کہ مجھے وہ مقام نہی ملا جو میراحق ہے ـ لیکن
آج
انصاف وویمن ایسوسی ایشن کی ٹیم جیسی مضبوط خواتین کا مکمل ساتھ انتظامی معاملات ہوں یا ذاتی ہر طرح یہ ٹیم مکمل سپورٹ کرتی ہے ـ خوشی ہو یا غم اس ٹیم نے خاندان کی صورت اختیار کر لی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پہچان وہاں ہو گئی جہاں تسلیم کی صلاحیت ہےـ
اپنی ٹیم کے علاوہ ممتاز روحی نوشین محمد ریحانہ وقار انساء باقی تمام ٹیم جیسی اور معزز مہمانوں جیسی خواتین کا ساتھ کھڑے ہونا اس بات کی دلیل ہے
کہ
میری سوچ کامیاب ہو گئی ـ با مقصد کام بہترین سوچ کی حامل خواتین کے ساتھ کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ـ
روحی بانو کیلیۓ ان کا کہنا تھا
کہ
روحی صاحبہ کو وہ خاتون سمجھتی ہیں کہ جن کی اچھائی کو آخری حد تک آزمائش کی بھٹی میں تپایا گیا اسی لئے آج وہ کندن بن گئیں ـ کئی سال کام کے باوجود روحی کو نمایاں نہیں ہونے دیا گیاـ
صبر کی انتہا ہوتی ہے ـ
شائد وہ انتہاء ختم ہوئی تو روحی نے اپنے آپ پے یقین کیا اور تنہا میدان میں داخل ہوئیں با صلاحیت خاتون بہترین شخصیت سماجی پہچان کے ساتھ اب سیاسی میدان میں بھی الگ طاقتور نام کے طور پے جانی جاتی ہیں ـ
شاہ بانو میر نے مزید کہا
آج بھی اگر ہم اپنے سینئیرز کو سینیارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ مل کر چلیں تو نہ صرف کام کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان کیلئے خواتین اثاثہ ثابت ہوں گی ـ
شاہ بانو میر صاحبہ کا کہنا تھا
کہ آج پاکستان سے محبت رکھنے والے ہر ہمدرد دل کو قرآن سے اپنا ٹوٹا ہوا رابطہ بحال کرنا ہوگا ـ سمجھنا ہوگا رب کے اس پیغام کو جس کو فراموش کر کے آج ہم دنیا کی ٹھوکروں میں آگئے ـ نظام کی تبدیلی ذہن کی تبدیلی سے مشروط ہے ” ذہن کی تبدیلی قرآن پاک کی مرہونِ منت ہے ـ
اپنی نسلوں کو سنوارنے کیلیۓ اپنی ذات کو بامقصد بنانے اور دوسروں کے احترام کیلیۓ وہ قوانین پھر سے پڑھنے ہوں گے جو قرآن میں آج بھی جگمگا رہے لیکن ہم اپنے نفس کی تاریکیوں میں اسے نہیں سمجھتے ـ
کام کرنےو الی خواتین معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہیں ان کی حرمت احترام فرض ہے ـ ابہام الزام کے دور سے اب باہر آجائیں ـ کام پے توجہ دیں اچھائی کو پھیلانے کیلیۓ شکوک و شبہات کو پھیلا کر گندگی کو معاشرے میں نہ بڑہائیں ـ
اپنے ملک کی خستہ حالی پے رحم کھائیں اور تعمیری رویے اپنائیں ـ
اللہ کی ذات دلوں کے بھید جانتی ہے ـ اسی پے انحصار رکھیں ـ روحی بانو کی بات کو دہرایا کہ ایک انگلی کسی کی طرف اٹھانے والے باقی ماندہ تین انگلیوں کو اپنی جانب بھی دیکھیں ـ
شاہ بانو میر صاحبہ نے مزید کہا
آئیں سب مل کر ایک روشن تابناک پاکستان کے حصول کیلیۓ ایک ساتھ 1947 کی طرح کھڑے ہوں ـ اعتزاز حسن رول ماڈل ہے کہ وہ اس عمر میں پاکستان کو لہو دے کر بچا گیا ـ کیا ہم اکٹھے ہو کر اس ملک کو نہیں بچا سکتے ؟
خواتین کیلیۓ ان کا کہنا تھا اپنے درمیان میں موجود غلط فہمیاں پھیلانے والوں کو ناکام کریں ـ نسلوں کی بقا کیلیۓ منفی سوچ رویے ترک کر کے مثبت اندازِ فکر اپنائیں ـ تمام خواتین مل کر قرار داد پاکستان کو از سر نو مضبوط کریں ـ
پروگرام کے اختتام پے ممتاز ملک نے اعلامیےمیں کہا کہ “” اعتزاز حسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ـ وہ ہمارا قومی ہیرو ہے “”
اس دعا کے ساتھ پروگرام کا ختتام ہوا کہ
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پے اترے وہ فصلِ گل
جسے کبھی اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ اک بھی ہم وطن کیلئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلا وہ کھلا رہے برسوں
اسے کبھی بھی تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
آمین
پروگرام کے آخر میں ہال میں موجود خواتین نے قومی ترانہ پورے احترام سے سنا تالیاں بجا کر قرار دادِ پاکستان کی تجدید کی ـ یوں وطن سے ہزاروں کلو میٹر دور انصاف وویمن ایسوسی ایشن نے خواتین کیلیۓ پاکستان اور قرار داد کو بہت قریب سے محسوس کیا ـ
یوں
انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا ایک اور پروگرام انمٹ یادوں کے نقوش چھوڑتا ہوا اختتام پزیر ہوا ـ
پروگرام کے آخر میں مہمانوں کی تواضع چائے اور دیگر لوازمات سے کی گئی ـ
ہے جُرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
                                                     یہ جُرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا 

بدھ، 19 مارچ، 2014

● (19) بچوں میں تفریق/کالم۔سچ تو یہ ہے


(19) بچوں میں تفریق
تحریر: ممتازملک۔ پیرس




 ماں باپ کی مثال بچوں کے لیئے ایک سائبان کی سی ہوتی ہے۔ ایک پیڑ کی سی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کے لیئے خود تو تمام عمر مشقت کی دھوپ میں جلتے ہیں لیکن اپنی اولاد کے لیئے پھلدار اور سایہ دار درخت ہوتے ہیں ۔ ماں باپ کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے انہیں کھو دیا ہو یا پھر ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا جنہیں زیادہ موقع نہ ملا ہو ۔ ماں باپ اپنے بچوں کے لیئے اپنی زندگی کا ہر عیش و آرام تیاگ دیتے ہیں۔ اپنی خوشیوں کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں تا کہ ان کے اولاد کی خواہشات پوری ہو سکیں ۔ ان سب قربانیوں کے بعد بھی ایسی کیا وجوہات ہوتی ہیں کہ بہن بھائیوں میں اکثر وہ محبت اور رسپیکٹ (عزت) پیدا نہیں ہو پاتی جس کی ضرورت ہوتی ہے ، عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ماں اور باپ اپنے سب سے بڑے یا چھوٹے یا کسی اکلوتے بیٹے یا بیٹی کو اپنا خاص لاڈلا بنا لیتے ہیں ۔ ہر دوسرے بچے کا حق اور محبت بھی اسی ایک مخصوص بچے کے لیئے مخصوص کر دیا جاتا ہے ، کھانا ہے تو سب سے اچھا حصہ اور سب سے پہلے اسی کو ملے گا ، کپڑا سب کے لیئے تو معمولی یا کم قیمت لیکن کسی ایک بچے لکے لیئے خاص اور مہنگے ہوں گے ، کسی کو تو سکول کے کسی پروگرام میں جانے کی اجازت ہی سرے سے نہیں ہے اور کسی کو راتوں کو بھی گھر سے باہر رہنا معاف ہے ۔ اور تو اور جیب خرچ میں بھی اکثر ہمارے گھروں میں بچوں اور لڑکوں لڑکیوں کے بیچ خاص فرق روا رکھا جاتا ہے ۔ اور تو اور نالائق لڑکے کو دھکا شاہی سے اچھے سکول اور کالج بھیجنے کی کوشش کی جائے گی چاہے وہ نہ پڑھنا چاہے یا کتنا بھی نالائق ہو، کئی کئی بار فیل ہی کیوں نہ ہوتا ہو ،  جبکہ لڑکیوں کو لائق ہونے اور سکول کالج جانے کے شوق کے باوجود، پوزیشنز لینے کے باوجود دھمکا کر گھر بٹھا لیا جاتا ہے ،کہ اس کی پڑھائی سے ہمیں کیا فائدہ ۔  اگر وہ لاڈلی ہے تو بھائیوں کا ہر حق بھی چھین کے اس کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا ۔ جو بھی بیٹا یا بیٹی لاڈلی قرار دے دی جائے پھر اس پر سات خون معاف ہیں۔ وہ اپنی عمر کا لحاظ کیئے بنا ہر ایک پر حاکم بنا دیا جائے گا ۔ بڑے ہو جانے پر بھی اسے بہن بھائیوں کی کمائی کھانے کا حق دے دیا جاتا ہے۔ اگر بھائی کہیں باہر ہے تو اس کے سوٹ کیسز اس کی بیوی کے بجائے وہ لاڈلا یا لاڈلی کھولے گا ۔ تحفوں کی تقسیم بھی اسی کی مرضی سے ہو گی وہ کسی کو کیا دے کیا نہ دے یہ اس لاڈلی یا لاڈلے کی مرضی ہے ۔ کسی بھاوج کو بھی گھر میں رہنا ہے تو میاں یا ساس سسر کی مرضی سے نہیں بلکہ اس لاڈلے کی خوشنودی کے بعد ہی رہ سکتی ہے ورنہ گھر کا رستہ لے ۔ ماں باپ باہر رہنے والے بیٹے کا مال ایسی ہی لاڈلی یالاڈلے میں بانٹ کر اکثر اپنی قبر میں انگارے بھر لیتے ہیں ۔ کیوں کہ'' حدیث   نبی پاک ﷺ کا مفہوم ہے کہ جس نے ستر سال تک تہجد گزاری کی۔ عبادات کیں ، لیکن مرتے وقت اس نے صرف غلط وصیت کر دی تو گویا اس نے اپنی قبر میں انگارے بھر لیئے ۔ '' یہ جاننے کے باوجود ہمارے ہارے ہاں کے 70٪ والدین باہر بیٹھے ہوئے بیٹوں بیٹیوں کے مال اور جائیدادوں کو اپنے کسی لاڈلے یا لاڈلی کی جھولی میں ڈال جاتے ہیں اپنا انجام سوچے بنا اور کوئی پوچھے تو کہا جاتا ہے کہ بھئی تم تو باہر ہو تمہیں کیا کمی ہے یہ تو یہاں ہے اسے زیادہ ضرورت ہے ۔ جیسے باہر بیٹھی اولاد ان کی اولاد ہی نہیں ہے یا پھر باہر انہوں نے اس اولاد کو فیکٹریاں لگوا کر دی ہوئی ہیں جو نوٹ چھاپ رہی ہیں ۔ نہ تو خاموش رہنے والی اولاد کو کوئی عزت دی جاتی ہے نہ ہی کوئی اس کے حقوق کے لیئے آواز اٹھاتا ہے وہ چاہے کسی بھی تنگی کا شکار ہو لیکن ماں باپ کی شہہ پر دوسرے بہن بھائیوں کے مال پر پلنے والا یہ لاڈلا ان کا خون چوستا ہی رہے گا ورنہ ماں باپ کی ناجائز بددعائیں لے گا ۔ اور  خاص بات یہ کہ اسی حقوق کی پامالی میں وہ اس لاڈلی اولاد کوبھی اتنا تباہ کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکا ہے تو دو وقت کی روٹی بھی خود کمانے کے لائق نہیں رہتا اور ساری عمر خیراتی ٹوکری بن کر گزار دیتا ہے ۔ اور بیٹی ہے تو باقی سبھی بہن بھائیوں کی زندگی کو عذاب بنائے رکھے گی ۔ ۔یاد رکھیں ماں باپ کی حقوق کی تو ہم بہت بات کرتے ہیں لیکن ان ماں باپ کو بھی یہ بات بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ اس سے پہلے ماں باپ پر اس اولاد کے حقوق ہوتے ہیں جو ان کی مرضی سے اس دنیا میں آئی ہوتی ہے ۔ پہلے آپ اولاد کا حق ایمانداری سے ادا کریں پھر آپ دیکھیئے گا کہ اولاد کیسے آپ کے حقوق ادا کرتی ہے ۔ اور اولاد کے حقوق میں سب سے پہلا حق برابری کا ہوتا ہے بیٹا ہو یا بیٹی پہلی اولاد ہو یا آخری ماں باپ کو اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ان میں حق ادا کرنے کے معاملے میں کسی قسم کا بھی کوئی فرق روا رکھیں ان کو اچھی تعلیم کا ایک جیسا موقع دینا بھی ان کا فرض ہے کیوں کہ علم حاصل کرنا ہمارے ہی دین میں ہر مرد اور عورت پر لازم کیا گیا ہے ۔ انہٰں  اپنی حیثت کے مطابق ایک ہی جیسا پہنائیں، کھلائیں اورباپ کی جائیدا میں  انہیں قانونی اور شرعی مکمل حصہ دیں ۔کسی ماں باپ کو اس بات کا کہیں بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جس بچے کا بھی چاہیں اپنی مرضی سے حق مار کر کسی کی بھی جھولی میں ڈال دیں جبکہ حصے اختیار کے ساتھ دے دینے کے بعد جس کا جو جی چاہے اسے جیسے چاہے استعمال کرے ۔ بھائیوں یا بہنوں کی کمائی ہوئی جائیداد کو باپ کی نام لگانے کی غلطی مت کریں کیوں کہ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر بہت سے بہن بھائی لٹ چکے ہیں جو بات وہ والدین کی محبت میں کر رہے ہوتے ہیں انہیں یہ ہی نادان والدین لاڈلے یا لاڈلی کے نام کرکے  اصل اولاد کو کشکول تھما کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ، لہذا بچوں کے حقوق میں برابری رکھیئے اور اپنے حقوق کو بھی دین کے اور قانون کے دائرے میں استعمال کیجیئے تاکہ آپ کی دنیا بھی پرسکون  ہو اور آخرت بھی بخیر ۔ یادرکھیں جو ماں باپ اپنے دینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کے حقوق ادا کرتے ہیں انہیں کبھی بھی اپنی اولاد سے اپنے حقوق کی ادائیگی کا رونا نہیں رونا پڑتا بلکہ انہیں ان کے حقوق بنا کہے مل جاتے ہیں ۔ اولاد کا ماں باپ پر یہ حق ہے کہ انہیں ہر چیز میں برابری کا حق دیا جائے ، ایک جیسا کھلایا پلایا جائے ایک سی آذادی دی جائے، ایک سی تعلیم کا حق دیا جائے کیوں کہ ہمارا ہی دین ہے جو حکم دیتا ہے کہ ہر عورت اور مرد تعلیم حاصل کرے ۔ اپنے بچوں کو ایک سی محبت توجہ اور پیار دینا آپ پر خدا کی جانب سے فرض کیا گیا ہے ۔ اگر آپ اللہ کا حکم پورا نہیں کر رہے تو پھر اپنے حقوق کے لیئے رونا تو آپ نے اپنے مقدر میں خود ہی لکھ لیا ہے۔ آپ اپنے گھر کی باغ کے مالی ہیں اور اچھے مالی کو یہ ذیب نہیں دیتاکہ کسی پودے کو پانی دے اور کسی کو پیاسا چھوڑ دے جسے چاہے کھاد ڈالے اور جسے چاہے بنا کھاد کے برباد کر دے۔ ایسے مالی کا باغ کبھی آباد نہیں ہوتا بلکہ ایسا مالی کبھی اچھا مالی ہو ہی نہیں سکتا اور اسے کبھی اپنے باغ کا سکھ نصیب ہی نہیں ہوتا ۔ اچھے مالی بنئیے تاکہ آپ کو اس باغ کا جوبن دیکھنا نصیب ہو ۔ اچھے والدین بنیئے تاکہ آپ کو اپنی اولاد کی تابعداری نصیب ہو  ۔ 
                    ●●●
      تحریر: ممتازملک.پیرس
    مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
            اشاعت:2016ء
                  ●●●



اتوار، 9 مارچ، 2014

غریب شہر ۔ کالم


غریب شہر
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)


غریب شہر تو فاقے سے مر گیا محسن
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

کیا بے بسی ہے کیا ضمیر فروشی ہے کہ ایک جانب ایک پارٹی تھر کی ریت پر جنگل میں منگل منا رہی ہے اور اسی تھر کے چند میل پر بے بس عوام اپنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے معصوم بچوں کو بھوک کے ہاتھوں اس دنیا سے جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ خدایا کیا قہر ہے۔ پاکستان کی انتظامیہ بے حیائی کی اور کون کون سی منازل سر کریں گی ۔ شرمیلا فاروقی صاحبہ آپ ماں نہیں ہیں لیکن ایک عورت تو ہیں ۔ ایک عورت اس قدر سخت دل کیسے ہو سکتی ہے ؟ آپ نے تو اپنی پارٹی کے عشق میں خدا کو بھی فراموش کر دیا۔ کہیں آپ بے خود ہو کر بلاول ہاوس کو اپن قبلہ قرار دیتی ہیں تو کہیں اسی پارٹی کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے کیسے کیسے کالے جھوٹ بولتی ہیں اور خوب دھڑلے سے بولتی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا آپ اور آپ جیسے تمام چرب زبان لیڈرز اپنی زبان کو اس ملک سے بے ایمانی ،چور بازاری اور کرپشن کے خاتمے کے لیئے استعمال کرتے ۔ مگر افسوس ہمارے بہن بھائی پارٹیز کے عشق میں خدا کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ خدا کے لیئے پارٹی کی زبان بولیں لیکن اس جگہ رک جاؤ جہاں آپ کے ضمیر کی آواز شروع ہوتی ہے ۔  آپ سب کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ جہاں دوسرے کی تکلیف یا حق شروع ہوتا ہے وہاں ہمارے حق کی  حد ختم ہو جاتی ہے ۔ آپ لوگوں کو اللہ تعالی نے عوام نامی بھیڑوں کا گلہ بان مقرر کیا ہے اس کے ایک ایک بال کی آپ سے باز پرس کی جانی ہے ۔ اور یہ کوئی آسان حساب نہیں ہے۔ خدا سے اس کی امان مانگیں اور اپنے راستے کو سیدھا راستہ بنائیں ۔ ایک بار ایک واقعہ پڑھا تھا کہ کراچی میں ہی پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے ایک نواب صاحب رہا کرتے تھے کیا ٹھاٹھ باٹ تھے ۔ نواب صاحب کا معمول تھا ہر روز صبح کی سیر کو نکلا کرتے تھے ان کے جانے کے بعد ایک نوجوان ملازمہ ان کی خواب گاہ کی صفائی کی غرض سے داخل ہوئی تو بستر کی نرماہٹ دیکھتے ہوئے اس کا بھی جی چاہا کہ اس پر بیٹھ کر اچھل کود کر کے دیکھا جائے۔ اسی موج میں اسے بستر کی نرماہٹ میں نید آ گئی۔ اس کی آنکھ تب کھلی جب نواب صاب کا ہنٹر اس کی پیٹھ پر پڑا ۔ وہ تڑپ کر اٹھی اور نواب صاحب سے معافی مانگی ۔ لیکن نواب صاحب خوب غیض و غضب میں تھے انہوں  نے اسکو خوب ہنٹر لگائے کہ تیری یہ جراءت کہ تو میرے بستر پر یوں سوئے ۔ پہلے تو وہ لڑکی کچھ دیر مار کھا کر روئی پھر ایک دم سے ہنسنے لگی اور ہر ہنٹر پر ہنستے ہنستےلوٹ پوٹ ہونے لگی ۔ نواب صاحب کا ہاتھ رک گیا، پوچھا کہ لڑکی پاگل ہو کیا ؟ مار کھا کر بھی ہنستی ہو ، کیا تمہیں درد نہی ہوتی؟تو اس لڑکی نے جواب دیا  نواب صاحب مجھے درد تو ہوئی لیکن جب میں نے یہ سوچا کہ اس بستر  پر چند لمحوں کی نیند اور آرام کی سزا جو آپ نے دی یہ ہے تو سوچیں جس نے اس بستر پر عمر گزاری اس کی سزا اس بڑے مالک اس خدائے ربّی کی ہاں کتنی شدید ہو گی ۔ بس یہ سننا تھا کہ نواب صاحب کی حالت غیر ہو گئی ۔ انہوں نے اپنے بال نوچے، گریبان چاک کیا ،ایک چیخ ماری اور اس گھر سے کہیں دور بھاگ کھڑے ہوئے ، بعد میں سنا گیا انہوں نے کہیں کسی ویرانے میں زندگی خدا کی یاد میں گزار دی ۔ کیوں کیا اس نواب صاحب نے ایسا ؟ اس لیئے کہ اسے زندگی کی حقیقت کی سمجھ آ گئ ۔ لیکن آپ کو کس زبان میں یہ بات سمجھائی جائے ۔  آج پارٹی بازوں سے پارٹی ورکرز  سے نہایت احترام سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا خدا کون ہے ؟آپ کا لیڈر؟ آپ کا رتبہ ، آپ کی جاگیر آپ کا جھوٹ ۔ خدا کے لیئے اب تو حق کے راستے پر لوٹ آئیں آپ سب بہت قیمتی لوگ ہیں۔ لیکن اپنا راستہ بھول بیٹے ہیں۔ آٰیئے صراط مستقیم آپ کی منتظر ہے ۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 مارچ، 2014

فیصلہ آپ پر ہے۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے




فیصلہ آپ پر ہے
ممتازملک۔ پیرس


 انسان کی تخلیق کی کہانی پڑھیں یا دنیا کی تاریخ پہ نظر ڈالیں  ہر جگہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ہمم ہمیشہ ہی ایک میل ڈومینیٹنگ سوسائٹی کا حصہ رہیں ہیں ، یہ دنیا یورپ کی مادر پدر آزاد سوسائٹی ہو یا انڈو پاک اور ایشینز کی مختلف رنگوں میں بٹی ہوئی معاشرت ۔ زمین پر انسانی تخلیق نے لاکھوں کروڑوں سال کا سفر مکمل کر لیا لیکن ہم آج بھی اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ عورت ہے یہ مرد ہے ، جسم کی قید سے ہم اپنی سوچوں کو کبھی آذاد ہی نہیں کروا سکے ۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو عورت اور مرد کی گردان سے باہر کبھی نکلنے ہی نہیں دیا ۔  یورپ کو یہ بات سمجھ میں آئی تو اس نے دہائیوں پہلے اس کا علاج اپنے معاشرے کو سیکس فری کر کے نکالا ۔ تاکہ مرد و عورت  جو دن کےکئی گھنٹے اس سوچ وبچار میں گنوا دیتا ہے کہ میں نے یہ جسم کیسے حاصل کرنا ہے اس کے لیئے جسم اتنا ارذاں کر دو کہ وہ اسے حاصل کرنے کی فکر سے ہی آزاد ہو جائے ۔ اب یہ ایک اور بحث ہے کہ اس کے مالی فوائد و ترقی تو ہو گئی لیکن انہیں اس کی معاشرتی کیا کیا قیمت ادا کرنی پڑی ۔۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم  نے خواتین کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے ایک وہ جو گھر میں بیٹھی ہوئی خاتون خانہ سے تو یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ، خوب پڑھی لکھی ہو ، سر پہ دوپٹہ رکھنے والی ایک مکمل نوکرانہ مزاج رکھتی ہو جسے یہ بات بلکل یاد نہیں ہونی چاہیئے کہ اس کی کھوپڑی کے اندر بھی ایک دماغ یا اس کے سینے میں بھی ایک دل ہے جو اچھی بری باتوں پر کوئی عزت یا بے عزتی محسوس کرتا ہےجو اپنی بھی کوئی رائے رکھتا ہے یو اس کا اپنا بھی کوئی نقطء نظر ہو سکتا ہے ۔اس کی پسند کو کسی بھی صورت اپنے مرد کی سوچ سے مختلف ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔  وہ ہر خوبی رکھتی ہو لیکن ہمارے آگے چوں بھی نہ کرے ، ان کے گھر کی ہر ذمہ داری کو ہماری  مرضی سے ادا کرنے والی ہوں یہ ہے ہماری ایک گھر میں رکھی عورت کے لیئے ٹیپیکل سوچ  ۔ جبکہ دوسری جانب ہم نے وہ الٹرا موڈ خواتین رکھ دیں  جو کسی بھی عمر سے تعلق رکھتی ہوں کوئی بھی ہنر ان میں ہو یا نہ ہو ہاں یہ خوبی ان میں ضرور ہونی  دوپٹے اور حجاب کی قید سے آذاد ہوں ۔ نئے نئے بے حیائی کے حربےفیشن کے نام سے آزماتی ہوں ۔ ان کے بدن کا اتار چڑھاؤ ان پر نمایاں کرتی ہوئی بےحیا لباسی سے کرتی ہوں ۔ جنہیں دیکھ کر ہمارے سستی سوچ کے حامل مردوں کو اپنی آآنکھیں سینکنے کا موقع ملتا رہے ۔  ہم ان پر اپنی کمائی لٹانا بھی پسند کریں ان کے جلوؤں کے لیئے انہیں عہدے بھی یہ سوچ کر پیش کرتے رہیں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ نہیں ۔ ایسی خواتین کو گھر بار والا بھی نہیں ہونا چاہیئے ورنہ کہیں ہمیں اس کے عوض اپنے ہی دانتوں کی قربانی نہ دینی پڑ جائے ۔ لہذا انہیں محبوبہ کٹیگری میں ڈالا جاتا ہے ۔ یہ بھول کر کہ کل ہم اپنی اولادوں کے لیئے آنے والی تاریخ کے لیئے کیا کالک اپنے منہ پر پوت رہے ہیں ۔ وہی بات کہ کل کس نے دیکھا ہے ؟   اب اس سارے گھپلے میں یہ بات ان کے دماغ سے نکل جاتی ہے کہ باہر کی دنیا میں خواتین کا ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو پوری جانفشانی کیساتھ سرگرم عمل ہے ۔ اور پوری ایمانداری کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور خاص طور پر صحافت کے میدان میں مضبوطی کیساتھ موجود ہے جو نہ صرف اپنے گھروں کو عزت سے چلا رہی ہیں بلکہ کمیونٹی میں بھی باعزت مقام رکھتی ہیں ۔  جن کے کام سے نہ تو یہ بھائی صاحبان انکار کر سکتے ہیں نہ ہی انہیں نظر انداز ۔ انہیں باجی باجی بھی کہتے ہیں ۔ لیکن اس سے آگے آتے ہی ان کے تمام خوبیوں کو ٹھٹھے میں اڑا دیتے ہیں اور اپنی مردانگی کو شاید تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں  ۔ اور کیوں کہ یہ خواتین ناجائز رویوں کو برداشت نہیں کرتیں نہ ہی مردانہ ڈیمانڈذ کو اہمیت دیتی ہیں لہذا ان کی ساری کارکردگی کو بڑی بے شرمی کیساتھ بے وقعت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جس پر صرف ان عقل کے اندھوں سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے پاکستانیوں نے پاکستان میں تو عورت پسندی میں اپنا لوہا منوایا ہی ہے جس کا انجام ساری دنیا دیکھ رہی ہے لیکن کم از کم پاکستان سے باہر تو ایسی بے حیا مقابلہ بازی سے احتراز کریں ۔ آج جو لوگ کسی بھی ذمہ  داری پر ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ کل انہیں وقت کو اپنے ان تمام اختیارات کا جواب دینا ہو گا اور آپ کی اولادوں کو بھی آپ پر فخر کرنے یا افسوس کرنے کا موقع آپ کے آج کے یہ کام دیں گے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انہیں پاکستان میں رہنے والوں کی طرح وراثتی بے شرمی ، بددعائیں اور گالیاں دینا چاہتے ہیں یا عزت ووقار اور فخر کا احساس ۔ کیوں کہ وقت جیسا بھی ہو اس کی اچھی بات بھی یہ ہے اور بری بات بھی یہ ہی ہے کہ یہ گزر جاتا ہے ۔ اب اسے کیسے گزارنا ہے  چند لمحوں یا سالوں کی عیاشی میں یا ہمیشہ کی بعد از مرگ کی بھی عزت اور احترم کیساتھ ۔ آنکھیں کھولیئے اور اپنے ظرف کو وسیع کیجیئے ۔ کیوں کہ آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدلا کرتی ۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ  آپ خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتے ہیں ۔ تو اپنی خودی کو بھی بلند کیجیئے اور اپنی ذمہ داریوں سے بھی انصاف کیجیئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/