ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 9 مارچ، 2014

غریب شہر ۔ کالم


غریب شہر
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)


غریب شہر تو فاقے سے مر گیا محسن
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

کیا بے بسی ہے کیا ضمیر فروشی ہے کہ ایک جانب ایک پارٹی تھر کی ریت پر جنگل میں منگل منا رہی ہے اور اسی تھر کے چند میل پر بے بس عوام اپنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے معصوم بچوں کو بھوک کے ہاتھوں اس دنیا سے جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ خدایا کیا قہر ہے۔ پاکستان کی انتظامیہ بے حیائی کی اور کون کون سی منازل سر کریں گی ۔ شرمیلا فاروقی صاحبہ آپ ماں نہیں ہیں لیکن ایک عورت تو ہیں ۔ ایک عورت اس قدر سخت دل کیسے ہو سکتی ہے ؟ آپ نے تو اپنی پارٹی کے عشق میں خدا کو بھی فراموش کر دیا۔ کہیں آپ بے خود ہو کر بلاول ہاوس کو اپن قبلہ قرار دیتی ہیں تو کہیں اسی پارٹی کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے کیسے کیسے کالے جھوٹ بولتی ہیں اور خوب دھڑلے سے بولتی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا آپ اور آپ جیسے تمام چرب زبان لیڈرز اپنی زبان کو اس ملک سے بے ایمانی ،چور بازاری اور کرپشن کے خاتمے کے لیئے استعمال کرتے ۔ مگر افسوس ہمارے بہن بھائی پارٹیز کے عشق میں خدا کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ خدا کے لیئے پارٹی کی زبان بولیں لیکن اس جگہ رک جاؤ جہاں آپ کے ضمیر کی آواز شروع ہوتی ہے ۔  آپ سب کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ جہاں دوسرے کی تکلیف یا حق شروع ہوتا ہے وہاں ہمارے حق کی  حد ختم ہو جاتی ہے ۔ آپ لوگوں کو اللہ تعالی نے عوام نامی بھیڑوں کا گلہ بان مقرر کیا ہے اس کے ایک ایک بال کی آپ سے باز پرس کی جانی ہے ۔ اور یہ کوئی آسان حساب نہیں ہے۔ خدا سے اس کی امان مانگیں اور اپنے راستے کو سیدھا راستہ بنائیں ۔ ایک بار ایک واقعہ پڑھا تھا کہ کراچی میں ہی پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے ایک نواب صاحب رہا کرتے تھے کیا ٹھاٹھ باٹ تھے ۔ نواب صاحب کا معمول تھا ہر روز صبح کی سیر کو نکلا کرتے تھے ان کے جانے کے بعد ایک نوجوان ملازمہ ان کی خواب گاہ کی صفائی کی غرض سے داخل ہوئی تو بستر کی نرماہٹ دیکھتے ہوئے اس کا بھی جی چاہا کہ اس پر بیٹھ کر اچھل کود کر کے دیکھا جائے۔ اسی موج میں اسے بستر کی نرماہٹ میں نید آ گئی۔ اس کی آنکھ تب کھلی جب نواب صاب کا ہنٹر اس کی پیٹھ پر پڑا ۔ وہ تڑپ کر اٹھی اور نواب صاحب سے معافی مانگی ۔ لیکن نواب صاحب خوب غیض و غضب میں تھے انہوں  نے اسکو خوب ہنٹر لگائے کہ تیری یہ جراءت کہ تو میرے بستر پر یوں سوئے ۔ پہلے تو وہ لڑکی کچھ دیر مار کھا کر روئی پھر ایک دم سے ہنسنے لگی اور ہر ہنٹر پر ہنستے ہنستےلوٹ پوٹ ہونے لگی ۔ نواب صاحب کا ہاتھ رک گیا، پوچھا کہ لڑکی پاگل ہو کیا ؟ مار کھا کر بھی ہنستی ہو ، کیا تمہیں درد نہی ہوتی؟تو اس لڑکی نے جواب دیا  نواب صاحب مجھے درد تو ہوئی لیکن جب میں نے یہ سوچا کہ اس بستر  پر چند لمحوں کی نیند اور آرام کی سزا جو آپ نے دی یہ ہے تو سوچیں جس نے اس بستر پر عمر گزاری اس کی سزا اس بڑے مالک اس خدائے ربّی کی ہاں کتنی شدید ہو گی ۔ بس یہ سننا تھا کہ نواب صاحب کی حالت غیر ہو گئی ۔ انہوں نے اپنے بال نوچے، گریبان چاک کیا ،ایک چیخ ماری اور اس گھر سے کہیں دور بھاگ کھڑے ہوئے ، بعد میں سنا گیا انہوں نے کہیں کسی ویرانے میں زندگی خدا کی یاد میں گزار دی ۔ کیوں کیا اس نواب صاحب نے ایسا ؟ اس لیئے کہ اسے زندگی کی حقیقت کی سمجھ آ گئ ۔ لیکن آپ کو کس زبان میں یہ بات سمجھائی جائے ۔  آج پارٹی بازوں سے پارٹی ورکرز  سے نہایت احترام سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا خدا کون ہے ؟آپ کا لیڈر؟ آپ کا رتبہ ، آپ کی جاگیر آپ کا جھوٹ ۔ خدا کے لیئے اب تو حق کے راستے پر لوٹ آئیں آپ سب بہت قیمتی لوگ ہیں۔ لیکن اپنا راستہ بھول بیٹے ہیں۔ آٰیئے صراط مستقیم آپ کی منتظر ہے ۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/