ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 11 اپریل، 2014

سالگرہ کے پیغامات برائے 2014

  • Mumtaz Malik
    Muhammad Umar بھائی صاحب یہ ہی پردیس میں بیٹھے لوگ اپنی ساری ساری عمر کی کمائیاں پاکستان نام کے چولہے میؐں جھونکے بیٹھے ہیں ، فکر تو ہونی چاہیئے
  • This comment has been removed.
  • Israr Alam salam o walikum
  • Malik Atif Raza http://earnwithatifraza.weebly.com/

    earnwithatifraza.weebly.com
    Earn money at home free with Ojooo.com Ojooo is a king Of PTC websites Best PTC wesite. http://wad.ojooo.com/register.php?ref=asifali60
  • Atique Khan hmmmmm well said
  • Mumtaz Malik
    Muhammad Umar بھائی صاحب ہم اپنا خون نچوڑ نچوڑ کر ہی پاکستان کے دیئے میں تیل ڈالنے کے لیئے بھیجیتے ہیں ان نوٹوں کی صورت میں ۔ جن کے بنا روٹی بھی نہیں آتی ۔ دوسرت بات آپ نے یہاں کس کس کا محل دیکھ لیا ہے ۔ کیا یہ بات جو بنا ثبوت کے کہی جائے کسی بہتان کے زمرے میں نہیں آتی ؟ ان باتوں کو نظر میں رکھا کریں کیوں کہ کئی بار ہم بہت چھوٹا سمجھ کر بہت بڑا گناہ کر جاتے ہیں ۔
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    اپنے مرض کو نہ پہچاننے اور نہ ماننے والے ہمیشہ ہی تکلیف میں رہتے ہیں پیارے بھائی ۔ جب کسی برائی کو ہنم برائی سمجھیں گے تبھی اس کے خاتمے کے لیئے بھی کانم کریں گے نا ۔ کوڑے کو کارپٹ کے نیچے کرنے سے وقتی طور پر تو صفائی ہوتی ہے پر بھر وہ بو دینے لگتا ہے...See More
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو برائیاں دکھا کے اچھائی پہ مجبور کرنے والا صحافی نہیں بلکہ ایک خوشامدی طوطا چاہیئے جو وہی کہے جو آپ کو اچھا لگے کیا یہ قوم کو افیم دینے کے برابر نہیں ہے ۔ کہ جو کہیں ہے ہی نہیں وہ سناتے جائیں آپ ایسے کام کریں کہ ہم بھی سربلندی ...See More
  • Mumtaz Malik
    اس خوش خبری کے لیئے پیارے بھائی Muhammad Umar ایک پی ٹی وی ہی کافی تھا جو بتاتا تھا کہ شاہ کے دور میں سب اچھا ہے دودہ دہی کے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ عورتوں کو لوگ ماں بہن بہن جی کہہ کے آنکھیں نیچی کر کے چلتے ہیں ۔ ہر گھر میں گودام اناج سے لبالب بھرے ہیں ڈاکٹر فری ہر گھر کے باہر بیتھا ہے کہ کون چھینکے اور ہم اسے مفت دوا دیں ۔ کیا خیال ہے؟
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    آپ کی ساری باتوں کا نچوڑ ہی یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ نے نہ تو میرے آرٹیکلز پڑھے ہیں نہ ہی کہیں اور کے لہذا بحث بیکار ہے خوش رہیں آباد رہیں ۔ اور آئندہ مجھے خوشی ہو گی کہ آپ مجھےکمنٹ کرنے سے پہلے میرا کام ضرور ایک نظر دیکھیں ، دوسرے ملک کے صحافی وہ لکھتے ہیں جو ان کے ملک میؐ ہوتا ہے ہم وہ لکھتے ہیں جو ہمارے ملک میں ہوتا ہے ، اور آپ اگر اس بات سے انکار کرتے ہیں تو آپ کی رائے کا آپ کو پورا حق ہے والسلام
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik Aisi lanka ko dhe hi jana chahiey jo logon ki izeaton k jnaze pr khari ho.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    یہ ہے آپ کا پاکستانی حسد جو اب بولا ۔ آج پاکستان میں وہی رہ رہا بھائی جو آپ کی طرح تلملا رہا ہے اور کہیں جا نہیں سکتا ورنہ کب کا نکل چکا ہوتا ۔ آپ وہ لوگ ہیں جو بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے ۔ آپ کو کوئی کچ نہیں کر سکتا بھائی ۔ ہم ج...See More

جمعرات، 10 اپریل، 2014

رپورٹ / 5 اپریل 2014

پیر، 7 اپریل، 2014

رپورٹ / روحی بانو

پیر، 31 مارچ، 2014

● (3) جبری اسلام/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



          (3)جبری اسلام
ممتازملک ۔ پیرس

اسلام کے معنی ہیں سلامتی ۔ تو جس دین کی ملاقات کا آغاز ہی السلام علیکم  کہہ کر کرنے کا حکم ہے وہ د ین جو حالت جنگ میں بھی بچے ،بوڑھے ، عورت اور ہر اس شخص پر بھی کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے،  وار کرنے کی اجازت نہیں د یتا جو ہرے پیڑ پودوں تک کو جنگ کے دنوں میں بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا؟ جو نہتے آدمی پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، وہ یوں بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے کو تصور ہی نہیں رکھتا ۔اسی اسلام کے نام پر بنے ملک میں اسی اسلامی نظریئے کو بد نام کرنے کے لیئے دنیا بھر کے نفسیاتی مریضوں اور پیشہ ور قاتلوں یا دوسرے لفظوں میں  ایک جنگلی بھیڑیوں کے ریوڑ کو پاکستان کا رخ کروایا گیا ہے  ۔ ہم خود بھی جس اسلام کی پیروی کر رہے ہیں اس کے کتنے احکامات کو بجا لا رہے ہیں ؟ یہ جاننا سب سے ذیادہ ضروری ہے ۔ کیوں کہ میری نظر میں ہم خود اپنے دین سے ، قرآن سے ناواقفیت کی بنا پر جس طرح قران کی تشریح کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ فتنوں کا باعث بن رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج 23مارچ 2014ء کو ہم اس بات کی ابتداء کا سال بنا دیں کہ ہم خود کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے دین اسلام کا مکمل مطالعہ کریں اور اس کے بعد پھر سے اسے سمجھ کر دوبارہ کلمہ پڑھ کے  ، سمجھ کر اس دین کو اختیار کریں ۔ جس طرح آج کا یورب میں رہنے والا ہر طبقہ مسلمان ہو رہا ہے ۔ کبھی زندگی میں ایسے مسلمان سے ملنے کا اتفاق ہو تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسلمان ہوتا کیاہے؟  اور آج کہ نام نہاد مسلمان بغلیں جھانکنے لگتے ہیں  اور  مجھے بہت پہلے کیسنی ہوئی یہ بات  یاد آجاتی ہے کہ انگریزوں اور یورپیئنز پر ہنسنے سے پہلے ڈرو اس دن سے کہ جب یہ لوگ عورت اور شراب کی دو برائیوں سے نکل کر اسلام قبول کر لیں تو شاید آج کے مسلمانوں کو جنت کے آخری حصے میں بھی جگہ نہ ملے گی ۔ یہ لوگ ہماری طرح کسی عبداللہ یا محمد علی کے گھر میں پیدا ہو کر مسلمان نہیں کہلاتے بلکہ یہ ایک عرصہ بھٹکنے کے بعد جب سکون ڈھونڈے کے لیئے دنیا کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہوتے ہیں تو تب یہ اسلام کو پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اور اس کے بعد بخوشی و برضا و رغبت اپنا سر پروردگار عالم کے بارگاہ میں ایسا جھکاتے ہیں کہ ایک موروثی مسلمان ،جوپتہ نہیں کہاں سے ، کس زاویئے سے مسلمان ہے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے ۔  اور باتیں تو ایک طرف اب تو شریعت کے نفاذ کا نام لیکر دین اسلام کا ایک اور مذاق بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ترین مملک میں جو اصلاحی اور فلاحی لائحہ عمل (پروگرام) رائج ہے ، کون نہیں جانتا کہ یہ سب اسلامی سسٹم ہی ہے جو خلفائے راشدین کے عہد بے مثالی کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآن کی روشنی میں یہاں لاگو کیئے گئے ہیں اور اسی کی روشنی میں ان اقوام نے چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالی ہیں ، جب کہ ہم ابھی تک اس سوچ میں اپنے 67 سال گنوا چکے ہیں کہ کون سا نظام ہو گا اور کون سا نہیں ۔ یہ ہی ہیں کوئی کام نہ کرنے کے حکومتی کام چور ہتھکنڈے ۔ کسی نظام کو لاگو کرنے کے لیئے اسے حکومتی مذہب کہلانا کوئی بڑی بات نہیں ہےبلکہ بات ہے اسکے نفاذ کی ۔ کہ ہم کس طریقہ کار سے اپنا ملک چلانا چاہتے ہیں جہاں پر کسی مجرم کو کوئی سزا دینے کا رواج ہی نہ ہو وہاں پر صرف اور صرف جرائم کی فصلیں ہی کاشت ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ہاں ہو رہی ہیں ۔ اس کے لیئے شرعی نظام کے نفاذ پر لڑنے کی بجائے اسے یورپی ممالک کی مثال لیتے ہوئے اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے ۔ مجرموں کو اس کے محلے ہی میں پھانسیاں دی جائیں ، مجرم کے گھر کے سامنے ہی اس کو کوڑے لگائے جائیں ، مظلوم کےگھر کے سامنے ہی بدکار کو سنگسار کیا جائے ۔ چور کے ہاتھ اس کے گھر کے سامنے ہی کاٹے جائیں ۔ لیکن اس سے پہلے ہر آدمی اور عورت پر کام کرنا لازم کیا جائے ۔ کام چوری کی سزا بھی دیجائے ۔ کام کے مواقع پیدا کرنا حکومت پر لازم ہونا چاہیئے۔  بھوک کی وجہ سے کوئی شخص نہ مرنے دینا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ۔ بوڑھوں  کے لیئے55 سال کی حد کے بعد گزارہ الاؤنس کا اجراء بھی حکومتی ذمہ داری ہے  ، یہ تمام فرائض آپ سے عملی اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں نا کہ کاغذی اسلام کا ۔ یہ سب تو آپ نے کرنا نہیں ہے الٹا اب اسلامی نظام کے نام پر کیا لوگوں کو زبردستی مسجدوں میں گھسایا جائے گا یا لوگوں کو زبردستی کلمہ پڑھوایا جائے گا ۔ کیا مذاق ہے یہ ؟  یہ کام تو یہ دین لانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کیا ، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ نیت عمل کرنے کی ہو تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کوئی بھی دین اس کے ماننے والوں کے حالت ایمانی کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں مقبول ہوتا ہے ، نہ کہ زور زبردستی سے ۔اپنے ملک میں اصل اسلام کو قرآن اور سنت کے مطابق تعلیمی نصاب میں شامل کر کے لوگوں کی سوچ کو ایک حقیقی اسلامی رنگ دیجیئے اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ باقی دین کو انسان کا ذاتی معاملہ رہنے دیں جو اس کے اور خدا کے بیچ ہے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ ساتھ والے کا ۔                                             
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتےجومسلمان بھی ایک

●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

جمعرات، 27 مارچ، 2014

یوم پاکستان 23 مارچ 2014 / کالم



  
* یوم پاکستان23مارچ 2014*
ممتازملک ۔پیرس

* یوم پاکستان23مارچ 2014* *انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا یومِ پاکستان* *کااعلامیہ تھا کہ ٌٌ انصاف آج سے اپنے گھر سے شروع کیا جائے ـ احتساب اپنی ذات سے شروع کیا جائے جب ہی نیا کامیاب پاکستان ممکن ہے*
اتوار کی ایک سرد دوپہر2 بجے سے دن 6 بجے تک یہ خوبصورت محفل منعقد کی گئی جسکا مقصد خواتین کو پاکستان کے نظریئے ، تاریخ ، اسکے وجود کی
اہمیت اور آذادی کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا ۔ اور پاکستان کے آج کے حالات کی آگاہی دینا تھا ۔ پروگرام کی نظامت پیرس کی معروف شاعرہ ، کالمسٹ ، سوشل ورکر ،اور میزبان محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کی ۔ جبکہ مہمانان گرامی میں معروف عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ ،عالمہ محترمہ نوشین اسجد صاحبہ ، حق باہو ٹرسٹ خواتین ونگ کی صدر ،معروف شاعرہ ، شریف اکیڈمی کی فرانس میں سیکٹری و نمائندہ خاص محترمہ روحی بانو صاحبہ ، میگزین در مکنون کی ایڈیٹر اور افسانہ نگار محترمہ وقار النساء صاحبہ ، اور شاہ بانو میر اکیڈمی اورانصاف وویمن ایسوسی ایشن کی بانی و صدر ، چیف اڈیٹر در مکنون ، معروف تجزیہ نگار ، سات کتابوں کی لکھاری ، ناولسٹ ،کالمسٹ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ تھیں ۔ پروگرام کی خاص بات اس میں شامل تمام کی تمام خواتین نہایت پڑھی لکھی اور اچھے ماحول سے تعلق رکھنے والی تھیں جنہوں نے پروگرام کا ایک ایک لمحہ ماحول سے کشید کیا اور اپنے اہل علم اور محب وطن ہو نے کا بھر پور ثبوت کبھی آنسوؤں کے نذرانے سے اور کبھی امید بھری مسکراہٹ کیساتھ دیا ۔ جس نے اس پروگرام کو بلاشبہ ہر ایک کے دل اور روح میں اتار دیا ۔ اور پروگرام کی میزبان ممتاز ملک صاحبہ کو اس بات کا بھرپور احساس دلایا کہ یہاں دھڑکتے اور محسوس کرتے ہوئے زندہ لوگ موجود ہیں نہ کہ کوئی دیواروں سے باتیں کرنے اور لنگر انجوائے کرنے والا ہجوم ۔
پروگرام کا آغاز محترمہ نوشین اسجد کی خوبصورت انداز میں کی گئ سورہ الحجرات کی آیات نمبر 11 اور 12کی تلاوت کلام پاک اور ترجمہ سے ہوا ۔ اور اس کی تفسیر بیان کی ۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ پاک نے کس قدر سختی سے غیبت ، حسد اور بہتان سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ اور اس بات سے سخت نارضگی کا اظہار فرمایا کہ کہ کوئی مسلمان کسے دوسرے کا نام برے انداز میں لے یا اس کی تضحیک کرنے کی کوشش کرے ۔ کیوں کہ یہ ہی چیز جب انسان کی عادت بن جاتی ہے تو اسے سب سے بدترین مرض یعنی حسد مین مبتلا کر دیتی ہے جو اس کی نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔ لہذا ہمیں ہر ہر لمحہ اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ ہم اللہ کے عطا کردہ قلب سلیم کو کہیں قلب اثیم یعنی ناپاک دل نہ بنا لیں ۔ اور ہمیں اپنا محاسبہ خود سے کرنا ہے کہ کہیں ہم نہ جانتے ہوئے دل کی اس روحانی بیماری حسد کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔ کیوں کہ آج پاکستان جس طرح تباہی کی دلدل مین دھنس رہا ہے وہاں یہ حسد ہی ہے جو ہمیں ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ نے بھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے پر زور دیااور پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اپنی غلطیوں کو غلطیاں نہ سمجھنے کو ہی قرار دیا جس نے ہماری پوری ملکی سوچ کو مفلوج کر دیا ہے ۔ قرآن کی روشنی میں ہمیں اپنے راستوں کی تاریکی مٹانی ہو گی جبھی ہم منزل کا نشاں پا سکتے ہیں۔ ورنہ تباہی ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہمیں پاکستان کے لیئے دی گئی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیئے ورنہ اس کے لیئے جانوں اور عزتوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی روحیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
محترمہ وقار النساء صاحبہ نےاپنے خطاب میں پاکستان کی قرار داد کو مسلمانوں کے لیئے ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے ذاتی اختلافات کو کسی بھی صورت اپنے ملکی مفاد سے ٹکرانےنہیں دینا چاہیئے بلکہ جہاں ملکی مفاد کی بات ہو وہاں ہمیں ایک جا ہو کر سوچنا چاہیئے ۔ انہوں نے 1857 سے 1940 اور 1947 تک کے تحریک پاکستان کا سفر مختصراََ بیان کیا ۔
محترمہ روحی بانو صاحبہ نے اپنے خظاب میں پاکستان کی تاریخ کو آج کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قائداعظم نے کروڑوں قربانیوں کے بعد یہ پاکستان اس لیئے نہیں حاصل کیا تھا کہ کہ یہاں پر لوگوں کی عزتیں پاؤں میں روندی جائیں ، حقداروں کے حقوق سلب کیئے جائیں ۔ انصاف سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بن جائے ۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے اس بات کا ہی یقین نہ ہو کہ ہم سلامتی سے اپنے گھروں کو واپس آئیں گے بھی کہ نہیں ۔ یہ ملک ہماری عزتوں کی حفاظت کے لیئے حاصل کیا گیا تھا ۔ تاکہ ہماری نسلیں اس میں اپنی مذہبی آذادی کیساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔ یہ ملک اس لیئے حاصل کیا گیا تھا کہ ہمیں انصاف کے لیئے سالوں دربدر نہ ہونا پڑے ۔ جہاں نہ صرف اظہار رائے کی آزادی ہو بلکہ ہمیں ہر ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے بھرپور مواقع بھی میسر ہوں لیکن آج ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کو پاکستان کا محافظ ہونا چاہیئے تھا وہی لوگ اس ملک کے مستقبل سے کھیلتے رہے ۔ اور اس ملک کو انہوں نے دنیا بھر میں ایک تماشا بنا دیا ۔ اور جو باقی رہی سہی کسر تھی اسکی تباہی میں وہ ہم عوام نے ہی پوری کر دی ۔ ہمیں اللہ پاک کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھ کے ہی فلاح مل سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں شاہ بانو میر صاحبہ اور ممتاز ملک صاحبہ کا بطور خاص شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہمیشہ ہی مجھے بہت پیار اور عزت سے نوازہ ہے ۔ میں ان کی کامیابیوں کے لیئے ہمیشہ ہی دعا گو رہوں گی ۔
محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ روحی بانو صاحبہ کی یہ بات کہ مجھے وہ مقام جو ملنا چاہیئے تھا وہ نہیں ملا تو میں یہ ہی کہوں گی کہ میں نے اکیلے جس سفر کا آغاز کیا تھا الحمد اللہ آج میں اس میں ایک پورے گلدستے کے ساتھ موجود ہوں ، بہت طوفان آئے آندھیاں چلیں کچھ دیر کے لیئے ہم لڑکھڑائے بھی لیکن کیوں کہ ہماری جڑیں غرض کی ریت میں نہیں بلکہ محبت اور اخلاص کی مٹی میں پیوست تھیں اسی لیئے اپنی جگہ سے نہیں ہلیں ۔ پاکستان بنانے والے یہ ادراک کر لیتے کہ یہاں یوں پاکستان کے نام پے دھبے لگائے جائیں گے تو شاید وہ اس تحریک کو ہی منسوخ کر دیتے ۔ آج یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی اپنی فیلڈ میں ایمانداری سے کام کریں اور اس ملک کو اسکا کھویا ہوا وقار واپس دلائیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نورالقران سے جڑنے کے بعد ہر روز خود اپنا احتساب کرنے کی قوت بھی اللہ نے عطا کر دی ہے جس سے رو زاپنے آپ کو گزرے کل سے بہتر بنانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ۔ اور انشا اللہ مرتے دم تک جاری رہے گی ۔
ممتاز ملک نے اپنے پروگرام کو مکمل طور پر پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل کا امتزاج بنا دیا جس میں کئی جذباتی لمحے آئے کئی بار سب کی آنکھیں نم ہوئیں اور کئی بار سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ۔ یہ ہی ایک پیغام رساں کی کامیابی ہوتی ہے اور الحمد اللہ یہ کامیابی یہاں پوری طرح نظر آئی ۔ ممتاز ملک نے اس بات پر ذور دیا کہ عورت کا کردار کسیی بھی ملک کی تحریک کا بنیادی جزو ہوتا ہے یہ عورت ہی تھی جس نے اپنےدوپٹے کو لاہور جیل کی عمارت پر لہرا کر اپنے بھائیوں اور جوانوں کو اس بات کو چیلنج پیش کیا کہ آگے بڑھو تمہاری مائیں بہنیں اپنے آنچل کا کفن بنانے کو تیار ہیں ۔ یہ عورت ہی تھی جس نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح بن کر اپنی ذاتی ذندگی اپنی ہر خوشی اپنے بھائی پر قربان کرتے ہوئے ڈینٹسٹ کی پریکٹس کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان کی تحریک میں اپنا تن من دھن تک پیش کر دیا ۔ لیکن اس قوم نے کیا کِِیا اسی عورت کو مادر ملت کا خطاب تو دیا لیکن زہر میں بجھا کر ان کی جان بھی لے لی اور اس پرخاموشی کی سیاہ چادر ڈال دی ۔ جس پر وقت نے لکھا کہ کیا یہ ایک احسان فراموش قوم ہے؟ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس ملک کے بنیادی مقصد یعنی انصاف کے حصول کو اپنی ذندگی کا مقصد بنانا ہو گا ، اوریہ ہی پاکستان کی بنیاد ہے ۔ ہمیں انصاف چاہیئے تو ہمیں سب سے پہلے خود منصف بننا ہو گا؛ ہمیں ماں باپ کے طور سے اپنے بچوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا ؛بھائی بہنوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا؛ اپنے گھر کے ملازموں سے انصاف کرنا ہو گا ؛پھر دیکھیئے گا کہ ہمیں انصاف کی تلاش میں کہیں بھٹکنا نہیں پڑیگا ۔ کیوں کہ فرائض کی ادائیگی ہی حقوق کے حصول کا سبب ہوتی ہے ۔ ہم سوچتے ہیں جس ملک کے لوگ اس طرح برائیوں میں گھرے ہوں تو یہ قائم کیسے ہے ؟تو مجھے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ اس ملک کی سرحدوں پر کروڑوں شہیدوں کی روحیں گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں جب
بھی کوئی عذاب ادھر کا رخ کرتا ہے تو یہ شہیداللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور فریاد کرنے لگتے ہیں اللہ تو عذاب دیتے ہوئے دیکھنا کہ یہاں یہاں تو میرے بابا کا لاشہ گرا تھا ، یہا ں بھی نہیں؛ نہیں مولا یہاں تو میری بہن نے اپنی عزت اپنے ملک کی بھینٹ چڑھا دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہان بھی نہیں یہاں تو میری بیوی نے اپنے پیدا ہونے سے پہلے کی اولاد بھی نیزوں پر چڑھا دی تھی ۔ خود کو ٹکڑے کروا ڈالا تھا ۔ ۔ ۔ ۔اتنا آہ و فغاں ہوتا ہو گا کہ اللہ پاک بھی اپنے فرشتے کو واپسی کا حکم دے دیتا ہو گا کہ شہید خدا کے پیارے ہوتے ہیں ۔اسی لیئے تو وہ فرماتا ہے کہ شہیدکو مردہ مت کہو یہ زندہ ہیں انہیں ہم رزق دیتے ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے ۔ انہیں کی محبت کے صدقے ہم بار بار معاف کر دیئے جاتے ہیں ، لیکن کب تک ؟ ایسا نہ ہو تو جس ملک کے لوگ اپنے قائد اپنےبابا کی قبر کو بدکاری کا اڈا بنا دیں ۔ جہاں 6،6 سال کی بچیاں ریپ ہو رہی ہوں جہاں قران کا درس دینے والے بچوں سے برے افعال کرتے ہوں ، جہاں عورتیں بے پردہ رہنے کو فیشن کہتی ہوں ، جہاں مخلص لوگوں کی ہنسی اڑائی جاتی ہو ۔ جہاں یارانوں دوستانوں میں سرکاری اداروں کے عہدے پیش کیئے جاتے ہوں جہاں قاتل چھوکرے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے گردن اکڑا کر مقتول کے سر پر پاؤں رکھ کر بھنگڑے ڈالتے ہوں اسے تو کب کا ختم ہو جانا چاہیئے تھا ۔ اگر یہ قائم ہے تو اسی لیئے کہ یہ شہیدوں کی تڑپ خدا سے ہماری بار بار معافی کرواتی ہے ۔
لیکن کب تک یونہی چلے گا ۔خود کو بدلنے کا وقت آن پہنچا ۔ ہم اب بھی یہ ہی دعا کریں گے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُُُترے
وہ فصل گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہموطن کیلیئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
اس تمام، پروگرام کا ٹریبیوٹ شہید اعتزاز احسن کو پیش کیا گیا اور ان کے والدین کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ جس نے اپنے لہوسے اپنی زمین پر لکھا کہ ابھی امید زندہ ہے ۔
یوں یہ پروگراوم سوچوں کے دروازے پر بھرپور دستک دیتا ہوا اختتام پذیر ہوا ۔اپنے انمٹ نقوش زہنوں پر چھوڑتے ہوۓ ۔شکریہ شاہ بانو میر صاحبہ اتنے خوبصورت لوگوں کیساتھ اتنے بھرپور انداز میں بات کرنے کا موقع دینے کے لیۓ۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/