ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 27 مئی، 2025

روداد میلہ یوم پاکستان۔ رپورٹ





ایک میلہ سو ٹھیکیدار

ایک خاتون تو گھر بیٹھے اپنے مردانہ واقفان کے ذریعے ہی نہ صرف میلے کی ہیروئن بننے میں ایڑھی  چوٹی کا زور لگا چکی ہیں .بلکہ دو تین خوشامدی خیالی قصیدے میلے سے پہلے ہی اسکی کامیابی پر اور ہمارے نئے سفیر محترم معین الحق صاحب کی شان میں لگا چکی ہیں . چور دروازے سے جا جا کر پھول کیک اور قصیدوں کی  پٹی ان کی آنکھوں پر باندھتی رہی . تاکہ ہم اپنے ان کاموں کے قصیدوں کا زور ان کے کانوں میں پھونکتی رہی جس کا ایک ورک بھی کتابی شکل میں  کسی نے کبھی نہیں  دیکھا  جس کی وجہہ شہرت  ہی لوگوں سے رقوم اور فائدے لیکر ان کے قصیدے لکھنا ہے . معصوم خواتین کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے دو نمبر عزت کمانا ہے .جبھی تو ان کی  عظیم تحریریں پچھتر فیصد قصیدوں پر ہی مبنی ہیں. دوسروں کو اس حد تک اپنی چکنی چپڑی باتوں سے برین واش کر کے مجبور کر دینا کہ وہ ان کے کہنے پر ہی . .دن کورات اور رات کو دن کہنے پر مجبور ہو جائے ....
بھئی اب اتنا مکھن ہو گا تو کون کافر نہیں پھسلے گا .
یہ وہی بدنام زمانہ  آڈیو  سکینڈل میں ملوث باجی ہیں جو ہر بار نئی اور معصوم خواتین کو پھانس کر ان کے ساتھ کسی تنظیم یا گروپ کا فیتہ کاٹتی  ہیں. اس ڈرامے خے لیئے بھی لازمی یہ ہے کہ صدر وہ خود ہونی چاہئیں اور ان نئی ناتجربہ کار معصوم خواتین سے اپنے لیئے قصیدے لکھوا کر ان کو ایسا روپ دکھاتی ہیں کہ وہ انہیں کک آوٹ کر کے چلتی بنتی ہیں یا یہ  دو ماہ میں  انہیں دودہ سے بال کی طرح نکال باہر کرتی ہیں کسی سوال کے پوچھنے یا حساب  کتاب کرنے کے جرم میں .
قصیدے کے بدلے ہماری ایمبیسی ان خاتون  کو سرکاری خزانے سے کس خدمت کے عوض دو ہزار یا پانچ ہزار یورو کی گرانٹ عنایت کرتی ہے . آج تک ہمیں  نہ اس کا جواب ملا نہ سمجھ  آسکی .
وہ کون سا کام ہے جو فرانس کی ایک لاکھ سے زیادہ کی پاکستانی کمیونٹی کو نظر نہیں آیا لیکن ہماری ایمبیسی کے کچھ خاص افراد کو نظر ا جاتا ہے . وہ سب جادو گر سلمان سرمہ دار آنکھوں والے سفارتخانہ اہلکار کون ہیں جو اس عورت سے کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں . جسے ان کے نامعلوم کاموں پر حصہ لیئے بنا ہی کبھی اسناد اور کبھی اعزازات سے گھر بیٹھے ہوئے  نوازا جاتاہے .  ہمیں آمدید ہے کہ پاکستانی سفارتخانہ ان تمام کالی بھیڑیں کو بے نقاب کریگا اور اور ہمارے سوالوم کا کھلے دل سے جواب دیگا . یا پھر ان چور راستوں کو اعلانیہ کنفرم کر دیگا کہ ہم سبھی پاکستانیوں  کو وہی سارے اعمال کرنے ہونگے جو یہ خاتون کرتی ہے  ہم سب وضاحت کے منتظر ہیں .
..
فائنل ریہرسل کے  لیئے جب سب حصہ لینے والو کو پاکستان ایمبیسی بلایا گیا . تو وہان ناچتے گاتے والے سبھی بچوں کو خوب تالیاں بجا کر داد دی گئی . محترم قمر بشیر صاحب شاید موبائل کے استعمال کے زیادہ ہی دلدادہ ہیں وہ مسلسل موبائل پر مصروف رہے .  ان  کو.مہمانوں کی آمد یا رخصتی  سے کوئی  دلچسپی نظر نہیں آئی . جبکہ بظاہر ہماری رائے ان خک بارے میں بہت اچھی ہے . 
بڑے شوق سے گانے والوں ناچنے والوں کی ویڈیوز بھی بناتے رہے . تلاوت کلام پاک کی تیاری کی کسی کو.مکوئ ضرورت محسوس نہیں ہوئی . اور میری نعت پروگرام کی محنتی آرگنائزر روحی بانو صاحبہ نے شامل کی تھی . اس کا عالم یہ تھا  . کہ جیسے ہی میں نے نعت پاک کے لیئے مائیک لیا  تمام موجود خواتین و حضرات یوں  منہ موڑ کر تتر بتر ہو گئے . جیسے اعوذ کے پڑھنے پر شیطان بھاگ جاتے ہیں ھھھھھھھ جی ہاں مذاق کے علاوہ سچ مچ یہ ہی دیکھا میں نے .
تلاوت کلام پاک ہوئی ہی نہیں . شاہدہ امجد صاحبہ کی پر زور درخواست پر انہیں حمد کے لیئے تمام لسٹ مکمل ہونے کے بعد خوب سفارشوں پر  شامل  کیا گیا.   جسے موصوفہ نے اپنے پوسٹر بنوانے میں ایمبیسی کی پرزور فرمائش لکھوا کر نہ صرف ایمبیسی پر جھوٹ باندھا بلکہ نعت اورحمد جیسی مقدس  اصناف کی بھی توہین کی . محض ذاتی نام و  مود کے لیئے آج کل فیشن بن چکا ہے کہ اکضر خواتین نہ تو نعت سیکھتی ہیں نہ اردو تلفظ کی پرواہ کرتی ہیں بس انے وائی جہاں دل کیا . موقع نظر آیا . کوئی واقف اور سفارش کرنے والا نکرا نظر آیا تو فورا پرچیاں لکھیں ،موبائل پر میسیج  ہوئے اشارے بازیاں ہوئیں اور منت ترلا خر کے مائیک حاصل کیا گیا . وہیں سے موبائل ہر تصویں اپ لوڈ ہوئیں اور رات کی رات میںنان پاکستان میں بیٹھے نیٹ ماسٹرز سے (جنہیں ہر مہینے منتقلی بھجوائی جاتی ہے ) کے ذریعے من چاہی فرمائشی خبر بنوا کر لگا دی جاتی ہے .واہ واہ.واہ کتنا آسان.ہے نا مشہور ہونا آج پیسے لگا کر ...ایک وہ بیوقوف لوگ جو تیس تیس سال سے حمد و نعت پڑھتے ہیں لیکن پھر بھی  پچاس بار ریہرسل کرتے ہیں انہیں تو پتہ ہی نہیں کہ بھائی مشہوری کیسے کروائی جاتی ہے .
جبکہ نعت رسول مقبول کی سعادت مجھے (ممتازملک ) کو حاصل ہوئی .  خدا کے لیئے رپورٹ تو ایمانداری سے سچی دیا کیجیئے
ایک ہفتے سے پروگرام کے بارے میں ایسی ہی من گھڑت اور جھوٹی خبریں یہ سوچ کر پڑھ رہی ہوں کہ شاید کسی کو خود ہی شرم آ جائے . اور خود ستائشی کا ڈرامہ ختم کر دے .
اللہ ہی معاف کرے ہمیں
سنگر آریش ارمان جنہوں نے پاکستان فیسٹیول فرانس میں فری میں پرفارمنس کی تاکہ پاکستان کا نام روشن ہو۔ لیکن اسے عزت کیا شاباش تک نہ دی گئی . نہ ایکبار باہر جا کر آنے پر بیٹھنے کی جگہ دی گئی .
امیش احمد ایک چمکتا ہوا نوجوان ستارہ جسے پندرہ لوگوں کے سامنے گوایا  گیا . اور کسی بھی باصلاحیت فنکار کی توہین ہے یہ.
پاکستانی سفارت خانہ پیرس کی سر پرستی میں بزنس مین کمیونٹی کے مالی تعاون سے یہ پروگرام آرگنائزر کیا گیا . جس کی مین آرگنائزر تھین محترمہ روحی بانو صاحبہ. جس کا نام کسی بھی اعلی ظرف شخصیت نے ابھی تک پھوٹے منہ بھی  نہیں لیا . یہ فیملیز صرف اور صرف روحی بانو  صاحبہ اور ہم سب خواتین کی دعوت پر
گھر سے باہر نکلی تھیں مرد ٹھیکیداروں  کے کہنے پر تو انکے گھر کا کوئی ایک  فرد  تک میلے میں نہ پہنچا . پھر بھی ہر ایک اپنے سر سہرا باندھ رہا ہے . ہم حصہ لینے والوں کے لیئے کوئی کرسی تک بیٹھنے نہ رکھی گئی . ایک بار اٹھ  کر ہال سے باہر گئے تو جگہ ختم
خواتین کے لیئے بیٹھنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا. یہ خرابی بیٹھنے کا انتظام کرنے والوں کی تھی. ہاف ٹو ہاف ہال کرسیاں  لگا کر بیچ میں ریڈ کارپٹ ڈال کر ہال کو ڈیوائڈ کیا جاتا.  تو واپس جانے والے لوگ بھی پروگرام انجوائے کرتے .  
مرد حضرات جو آرگنائزر ہونے کا.دعوی کرتے رہے ان کے ذریعے سب سے پہلے سٹال.بک کروانے والے گھنٹو خوار ہوئے . اور توزھی بانو صاحبہ کی مداخلت سے انہیں سٹال مل پائے جبکہ اس کی ایڈوانس ادائیگی بھی کی جا چکی تھی . پھر ہاں کے اندر پروگرام کروانا پڑا تو وہاں ہال کے  اپنی موڈ دو ڈھائی سو کرسیوں کے سوا کوئی فاضل خرسیاں موجود نہیں تھیں جن کا کئی صاحبان نے بندوبست کرنے کا دعوی کیا تھا . نتیجہ ہاوس فل ہال میں مردوں گھنٹوں کھڑے رہنے یا واپس جانے پر مجبور ہوئے . پھر اس سے بڑا بلنڈر اس وقت ہوا جس وقت  عزت ماآب سفیر پاکستان پارک میں   تشریف  لائے تو ان کے رفقاء نے میں آرگنائزر کے ساتھ کوئی کوآرڈیشن نہیں دکھائی . بلکہ ایک.سیاسی پارٹی کے ٹولے نے سمجھو اس پروگرام کو سیاسی پارٹی کا پروگرام ثابت خرنے کے لیئے انہیں.اپنے حصار موجود م کے لیا . اور محترم سفیر گویا ان کے ذاتی مہمان تھی میلے  میں.انکی پاکستانی  حیثیت کو.ایک طرف رکھ دیا گیا . بیگم صاحبہ بھی تشریف لائیں تو ان کیساتھ میں ایک مخصوص گروپ نے یہ ہی کام کیا . آرگنائزر نے انہیں جو احترام سے خوش آمدید کہنا تھا اس پر خوب پانی پھیر دیا گیا . اس میں ایمبیسی کے عملے کی اپنی کوتاہیاں بھی خوب دکھائی دیں . 
میلے میں کھانے پینے کے جو میز کرسیاں لگائی گئیں تھیں . ان کے لگوانے والے کی عقل میم یہ بات کہیں نہیں آئی کہ جو کچھ یہاں کھایا جائیگا اس کا کچرا پھینکنے کے لیئے بھی خاطر خواہ انتظام ڈسٹ بن کی صورت جگہ جگہ ہونا چاہیئے. لیکن ہزاروں.لوگوں کی آمد کے میلے میں کوئی ڈوٹ بن.موجود نہیں تھا . بلکہ پروگرام کے آخر میں.ایک صاحب خود ہی ہاتھ میں  کچرے کی تھیلیام.اٹھائے کچرا چنتے دکھائی دیئے 😦
سفیر پاکستان کے آنے کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا جانا چاہیئے تھا . جو ہال کے بھرنے سے مشروط ہوتا .
ممتازملک

اتوار، 25 مئی، 2025

یادیں ۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


یادیں بھی کیا شے ہوتی ہیں 
وقت بھی کیسا ظالم ہے جو
سب کو پیچھے چھوڑ کے یہ تو
چپکے چپکے چل دیتا ہے
(ممتازملک ۔پیرس)

جمعرات، 22 مئی، 2025

دنیا پر اپنا سکہ جمائیں؟ کالم


      دنیا پر اپنا سکہ جمائیں کیسے ؟
      تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر صدی  میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب قوموں کو اس بات کا موقع قدرت دیتی ہے کہ وہ اپنے راستے متعین کریں ۔ ایسا ہی ایک تاریخی وقت آج پاکستان ہندوستان کی جنگ کی صورت میں قدرت نے نہ صرف پاکستان کو عطا کیا کہ وہ اپنے راستوں کو متعین کرے ، دنیا پر اپنے آپ کو ثابت کرے بلکہ ہندوستان کی ان قوموں کو بھی یہ موقع دیا ہے  جو دہائیوں سے اپنی آزادی کے لیئے جدوجہد کر رہی ہیں، ذلیل ہو رہی ہیں ، مار کھا رہی ہیں، جن کے بچے امان میں نہیں، جن کی بیویاں بیٹیاں  برہنہ کر کے سڑکوں پر دوڑائی جا رہی ہیں، جن کے جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، جب دل کرتا ہے بنیا اور ہندو سماج ان کو  اپنی تلواروں کے سائے میں رکھ کر اپنے ہاتھ ان معصوم نہتے  لوگوں کے خون سے رنگتا ہے۔ کبھی ہولی کھیلتا ہے اور کبھی ان کے لہو سے دیوالی کے دیئے جلاتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ جب بھی اس خطے میں ہندو حکمران ہوئے، انہوں نے ہمیشہ اپنے نیچے باقی قوموں کو ذلیل اور خوار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔  آج کی اس جنگ نے ثابت کیا کہ دنیا میں علم اور ٹیکنالوجی یہی دو چیزیں آپ کا زور بھی دکھائیں گی اور آپ کو کامیاب بھی کریں گی۔  دنیا میں آپ کی سربلندی اس کے سوا اور کچھ نہیں۔  آج آپ کو چائنہ کے سنگت میں چائنہ کی تعلیمی فارمولے کو اپنانا ہوگا ۔ یہ بات یاد رکھیئے ہم رٹے رٹائے سسٹم کے اندر اپنی جس نوجوان نسل کو تخلیق کر رہے ہیں۔ وہ تباہی کا ایک گڑھ ہے اور کچھ نہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ چائنہ کے ساتھ مل کر اس پروگرام کے اوپر عمل کیا جائے جہاں پر ان کے معصوم بچے  چار اور پانچ سال کی عمر کے بچے سکولوں کے اندر کیا  پڑھائے اور سکھائے جا رہے ہیں۔وہ   اپنی زبانوں میں  نہ صرف پڑھائے جاتے ہیں بلکہ ان کو اپنے ہی ملک اور دنیا  کی ضرورت کی سکلز کے لیئے تیار کیا جاتا ہے۔ انہیں ہنر مند بنایا جاتا ہے اور زبردستی نہیں بنایا جاتا یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سا بچہ کس چیز کی دلچسپی لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔  بے شک دنیا میں آتے ہوئے ہم اپنی پسند ناپسند ، اپنے ہنر ، اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ ضرورت ہوتی ہے صرف اس ہنر کو  سمجھنے اور اسکی آبیاری (پالش) کرنے کی. اور اس کے مطابق اپنے لیئے اچھے استاد منتخب کرنے کی.  پاکستان کو اس وقت شدت سے ضرورت ہے کہ اپنے بچوں سے ابھی سے اسی وقت سے پچھلے سارے سسٹمز کو، پچھلی ساری کی ساری تعلیمی ڈگریوں کو اور پچھلے سارے نصابوں کو رد  کر انہیں ردی میں بیچ دیں۔ انہیں نالے میں بہائیے۔  جنہوں نے صرف یہاں کلرک پیدا کیئے،  جہاں بے روزگار پیدا کیئے ۔نالائق اور نکمے اور بوٹی مار پیدا کیئے ۔ آج کا بچہ کوئی کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتا ہے،  تو اسے شروع سے کھانے پکانے کی سکل کو جاننے کے بعد اس میں جانے دیا جائے۔  استاد یہ طے نہیں کرے گا کہ تم نے کیا سیکھنا ہے ۔ شاگرد کو خود یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ کیا سیکھنا چاہتا ہے ۔ لڑکا ہو یا لڑکی  جب چار پانچ سال کے بچے کھیل کھیل میں اپنی توجہ اپنے دلچسپی کو ثابت کرتے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔  کسی کو کھانے پکانے میں دلچسپی ہے۔  لڑکا ہے یا لڑکی اس سے باہر نکل کر یہ بات دیکھیئے کہ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے۔  کیا وہ بالوں سے کھیلتا ہے،  بالوں کی کٹنگ میں دلچسپی رکھتا ہے؟  کیا وہ گاڑی توڑنے اور جوڑنے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ موٹر سائیکلوں میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ انٹرنیٹ کے اوپر بٹن کے ذریعے کھیل میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ گیمز بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ ہر بچہ اپنی دلچسپی کو آپ کے اوپر واضح کر دے گا، کہ وہ کمپیوٹر کے پروگرامز میں دلچسپی رکھتا ہے؟  کیا وہ جہاز اڑانے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ وردی پہننے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ گنز اور ہتھیاروں  کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا ہے؟ اپنی قوم کے بچوں کو ہمیں ان کی پیدائشی صلاحیتیں جو وہ  لے کر پیدا ہوئے ہیں اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا،  اور یہی کسی قوم کی کامیابی کی بنیاد ہیں۔  یہ بات آپ کو اگر سیکھنا ہے تو چائنہ کے تعلیمی سسٹم سے سیکھیئے کہ آج وہ اپنے چھوٹے بچوں کو کیسے تربیت کر رہے ہیں کہ ہر بچہ 15، 16 سال کی عمر تک آتے آتے نہ صرف برسر روزگار ہو چکا ہوتا ہے۔ کمال کا باصلاحیت ہو چکا ہوتا ہے،  بلکہ اپنے ملک کے لیے بہترین اثاثہ بن چکا ہوتا ہے۔  تو ضرورت ہے اپنے قومی نصاب پر فورا توجہ دیجیے پرانے نصابوں کو جو گل سڑ چکا ہوا ہے ۔ جو آج آپ کو انگریزی کے صرف رٹے لگانے پہ مجبور کر رہا ہے۔ اس سے باہر نکلیں۔  زبان کو زبان سمجھ کر ضرور سیکھیئے ۔ مختلف زبانیں سیکھیئے ۔ سب سے پہلے اپنے پڑوس کی زبانیں سیکھئے تاکہ کل جب ان سے واسطہ پڑے تو آپ انہیں اپنی بات سمجھا سکیں اور ان کی یہ بات سمجھ سکیں اور اگر وہ آپ کے لیئے کہیں خطرہ بننا چاہیں تو آپ فوری وقت رہتے اس خطرے کو بھانپ سکیں اور اس کا تدارک کر سکیں۔
 لیکن یہ بچہ خود طے کرے گا کہ وہ کونسی زبان سیکھنا چاہتا ہے ۔ انگریزی ، ہندی ، فارسی ، چائنیز ، فرینچ ، اٹالین ، جرمن ، زبانوں کے میدان کھلے رکھیئے ۔ لیکن زبانوں کو سکھانے کے لیئے اچھا ماہر استاد ہر سکول میں موجود ہونا چاہیئے ۔ اس کے لیئے کمپیوٹر پر موجود زبانوں کے مختصر اور بہترین کورسزز اساتذہ کی نگرانی میں یوٹیوب پر بلا معاوضہ دستیاب ہیں۔ ان سے استفادہ کیجیئے۔ والدین کو اس سوچ سے باہر نکلنا ہو گا کہ آ جا کر بس ڈاکٹر اور انجینئر ہی بننا ہے، چاہے بچہ اس کے لیئے اپنا مزاج موزوں سمجھتا ہے یا نہیں ۔ دنیا میں اس کے علاوہ بھی  شعبہ جات کے میدان کھلے ہیں ۔ اپنے بچے کو وہ شعبہ بخوشی چننے دیجیئے جس میں قدرت اسے خود لانا چاہتی ہے۔ 
آپ کے بچے کو آج یہ طے کر کے بڑا ہونا ہے کہ 15 سے 20 سال کی عمر تک اس کو صاحب روزگار بھی ہونا ہے۔ اس کو اس دنیا کے لیئے کارآمد فرد بننا ہے۔ آج ہی سے شروع کیجئے اپنی قومی نصاب کو چائنہ کے قومی نصاب کی رہنمائی لیتے ہوئے بدل دیجئے۔  وقت بدل چکا ہے۔  خود کو بدل لیجئے۔  دنیا نے اس چند روزہ پاک بھارت جدید ترین جنگ میں پاکستان کی علمی اور مہارتیں میدان میں برتری سے اپنے رویے سے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ  یہ وہ علم والوں کو اور طاقت والوں کو سلام کرتی ہے ۔ آئیے ہم اپنا محاسبہ کریں۔ اور روایتی سوچوں اور معیار سے باہر نکل کر اس جدید علمی اور قابلیت کے میدان میں اپنا سکہ جمائیں ۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 18 مئی، 2025

پاکستانی فنکاروں کو ۔۔۔ کالم




پاکستانی فنکاروں کو کام دیا کہ خیرات؟
         تحریر: 
             (ممتازملک ۔پیرس)

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والا جنگی معرکہ پاکستان کی جانب سے چند ہی گھنٹوں میں لپیٹ کر ان کے منہ پر مار دیا گیا ۔ اس پر جہاں اور بہت سی باتوں کو موضوع گفتگو بنایا گیا ،وہاں ہندوستان کی بہت ساری کمینگیوں کے ساتھ ایک اور کمینی حرکت جو سامنے آئی وہ تھی پاکستانی یو ٹیوبرز کے اکاؤنٹس کو بلاک کرنا۔ ہر طرح کے اکاؤنٹس کو ہر جگہ سے جہاں سے بھی سچی خبریں بھارتی قوم کو مل سکتی تھیں،  سامنے والے کا نقطہ نظر معلوم ہو سکتا تھا، اسے بلاک کیا گیا۔ دوسری جانب پاکستانی فنکاروں کو گانے والوں کو بلاک کیا گیا اور بتایا گیا کہ ہم نے تمہیں پیسہ دیا، کاروبار دیا اور تم ہمارے دشمن ملک سے تعلق رکھتے ہو ، تم نے ہمارے خلاف بات کی ہے لہذا ہم تمہیں کام نہیں دیں گے۔ تو ان احمقوں کی جنت میں رہنے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ بھئی ہندو بنیا کب سے لوگوں کو بغیر مطلب کے اور بغیر مفاد کے کام دینے لگا؟ اگر ایسا ہوتا تو اپنے ہی ملک میں لوگوں کو نیپوٹزم کا شکار کر کے  خودکشیوں پہ مجبور نہ کرتے۔  بولی وڈ بدکاری کا عالمی اڈہ ہے۔  پورے بالی وڈ اڈا بنانے کرنے کے بجائے وہ عزت احترام کے ساتھ اپنے نوجوانوں کو بھی کام دیتا انہیں ایک دوسرے میں تفریق کرنے کے بجائے حق پر میرٹ پر کام دیتا تو بیچارے وہ لوگ اپنی زندگیاں تباہ نہ کر رہے ہوتے تھے۔ جبکہ پاکستانی فنکار تم نے وہ اٹھائے جو پہلے سے مشہور تھے۔ جن کی پہلے سے شہرت تھی، نام تھا ، مقام تھا لاکھوں فالورز تھ،ے تم نے ان لاکھوں فالورز کو اپنے فلمیں، اپنے ڈرامے اور اپنا میوزک بیچنے کے لیئے ان لوگوں کو کام دیا۔  ہندو بنیئے نے ہمارے فنکاروں پر کوئی احسان نہیں کیا ۔ جسے جتا کر وہ اپنے آپ کو مہان ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔  ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر موقع پر اپنے آپ کو کمینہ،  کمبخت اور بےوقوف ضرور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جو کوئی بھی بھارتی اور خاص طور پر ہندو بنیا کسی کو بلاوجہ فائدہ  دینے کے لیئے کرے،  یا اس کی مدد بغیر مطلب کے کرے ۔ گائے کا موت سرعام پینے والے ،گوبر کے برگر بنا کر کھانے والے، رول بنا کر انجوائے کرنے والے،  ناپاکی سے پاک نہ ہونے والے،  ٹوائلٹ اور بیڈ روم سے ناپاک نکلنے والے یہ لوگ موتنے کے بعد بغیر ہاتھ دھوئے جا کر کھانا کھانے والے، جو دال بھات ساگ پکا کر خود کو ویجیٹیرین کہتے ہیں اور اس کے بعد اسی میں گائے کا موت ملا کر اسے تبرک بنانے والے یہ غلیظ لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگوں کو رزق بانٹ رہے ہیں تو یہ فکر کریں کہ کتنے لاکھ اور کتنے کروڑ اب ان کی اس رقم میں سے منہا ہوں گے۔ جو ان سنگرز کی وجہ سے اور ان اداکاروں کی اداکاری کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی وجہ سے یہ ان لوگوں کی جیب سے صاف کرواتے رہے ہیں۔  نہ ان کے پاس کوئی کہانی کار ہے، نہ ان کے پاس کوئی نغمہ نگار ہے، نہ ان کے پاس کوئی میوزیشن ہے،  چوری کا مال بیچ بیچ کر ساری عمر انہوں نے اپنی انڈسٹری چلائی ہے۔  دوسروں کے فنکار اٹھا کر تیار ریڈی میڈ ان کی فالوور شپ کو انہوں نے استعمال کیا ہے اور اپنی جیبیں بھری ہیں۔ اج وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم تمہیں کام دیتے ہیں جو اب نہیں دینگے۔ ارے بھائی مت دیا کرو کام۔ تم میں غیرت ہے تو واقعی اب ان کو اپنے کام کے لیے مت بلانا کبھی۔  اور پاکستانی فنکاروں میں بھی اگر غیرت ہوگی تو وہ اپنے ملک میں اپنی فلموں سے نہیں  تو اپنی ڈراموں سے اتنا کما رہے ہیں ۔جتنا تمہاری سوچ ہے۔اس سے بڑھ کر ساری دنیا میں ہونے والے شوز کے ذریعے جیسے وہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کے حرص کرنے والے کو ذلیل ہو ہی جانا چاہیئے اور اگر وہ اپنی مرضی سے ہو رہے ہیں تو ہونے دیجیئے۔
 پاکستان زندہ باد
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/