نہیں ہے صاحب
ساتھ نہ چھوڑنے کا ہم سے کریگی وعدہ
زندگی اتنی وفادار نہیں ہے صاحب
تنگ دل ہو تو مگر مانتے ہیں ہم یہ بھی
آپ جیسا کوئی زردار نہیں ہے صاحب
دے چکے اتنا لہو جتنے نہ کھائے دانے
اب میری نسل قرضدار نہیں ہے صاحب
زندگی کو جو یوں شطرنج بنا رکھا ہے
کھیل یہ اتنا مزیدار نہیں ہے صاحب
خوف سے ہاتھ سلامی کو اٹھا ہے ورنہ
آپ کا دل سے طلبگار نہیں ہے صاحب
گھر کا دروازہ بھی جو بند نہیں کر سکتا
سچ ہے مزدور کا گھر بار نہیں ہے صاحب
آنسوؤں کا ہی نمک ہانڈی میں ممتاز اتنا
اب حلالی کو بھی درکار نہیں ہے صاحب
●●●
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں