وقت کی تکڑی
قدم جب لڑکھڑاتے گفتگو میں جھول دیتی ہے
محبت راستہ بدنامیوں کا کھول دیتی ہے
دکھا کر خواب پھولوں کے حسیں گلزار کے منظر
بھیانک خارزاروں میں نگینے رول دیتی ہے
ہر اک کی زندگی میں وقت اک ایسا بھی آتا ہے
زباں خاموش ہو پھر بھی نظر سب
بول دیتی ہے
تکبر زیب دیتا ہے محض اک ذات باری کو
جو ہر انمول شے کو بھی کیئے
بےمول دیتی ہے
ہماری حیثیت کیا ہے گناہوں کے پٹارے ہیں
اری ممتاز یہ تکڑی پیمبر تول دیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں