ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 22 فروری، 2024

زن سے نازن / کالم


                      
زن سے نہ زن
تحریر ۔ 
(ممتازملک۔ پیرس)

  اس شعر
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہیں نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

اقبال کے اس شعر کی تشریح تو بہت طویل ہو جائے گی لیکن سادہ الفاظ میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ
 وہ علم کہ جس کے حاصل کرنے سے عورت اپنے مقام کی پہچان کھو بیٹھے ، عقل والے اس جاننے کو تباہی یعنی موت کے برابر  تصور کرتے ہیں ۔۔۔
وہ تعلیم جو آپکے معاشرے  تہذیب اور مذہب سے ٹکراتی ہے تو اس کا نتیجہ میرا جسم میری مرضی ٹائپ کی  صورت میں برامد ہوتا ہے ۔ سادہ الفاظ میں  سمخھ لیں کہ 
مجھے تیرنا نہیں آتا لیکن میں اس لیئے دریا میں کود جاوں کہ دوسرے نے بھی تو چھلانگ لگائی ہے اگر اسے کچھ نہیں ہوا تو مجھے کیوں ہو گا ۔۔۔۔یہ جانے بغیر کہ پہلے کودنے والا تیرنا جانتا تھا ۔ 
ایک مثال اور۔۔
ہر انسان کی عمر اور جسمانی وزن کے حساب سے دوا تجویز کی جاتی ہے لیکن ہم اس دوا کے اس حساب کے بغیر استعمال کرینگے تو وہ بھی زہر بن جائے گی ہمارے لیئے ۔۔
ہر انسان کی سمجھ کا اپنا اپنا پیمانہ ہوتا ہے ۔ اس پیمانے سے ہٹ کر اس میں بھرنے کی کوشش کروگے تو اس کا توازن بگڑ جائیگا ۔۔جیسے ایک گلاس میں اس کے پیمانے سے زیادہ بھرو گے تو چھلک جائیگا ۔
جبھی تو ہر انسان جتنا مرضی ذہین فطین ہو ڈاکٹر نہیں بم سکتا ، انجینئیر نہیں بن سکتا ، عالم نہیں بن سکتا ، حافظ نہیں بن سکتا ۔۔۔

اقبال کے کلام کو کسی ایک زمانے سے جوڑنا زیادتی ہو گی ۔ خصوصا وہ کلام جو انگلستان سے واپسی پر ایک نئے اقبال نے کہے ۔  وہ سب قرانی اسباق کے زیرتحت کہے گئے ۔ اس کا ثبوت ان کے ملازم کی گواہی تھی کہ اقبال ہر کلام سے قبل قران پاک منگوا کر اس کا مطالعہ کیا کرتے تھے ۔ لفظ مطالعہ پر غور کیجیئے یہاں تلاوت مقصود نہیں ہے مطالعہ کرنا اور جاننے کی جستجو ہے کہ میرا رب مجھ سے کیا فرماتا ہے ۔ اور پھر اسی عالم میں اقبال نے عالمگیر کلام ارشاد فرمائے ۔ جبھی تو ان کے اشعار آج بھی ہمیں آج کے حالات پر کہے گئے محسوس ہوتے ہیں ۔
اقبال کو سیاستدان نہیں کہا جا سکتا  کیونکہ سیاستدان مکار ہوتے ہیں، موقع پرست ہوتے ہیں اور آج کی بات کریں اور اپنے ہاں کی بات کریں تو سیاستدان بے شرم بھی ہوتے ہیں اور ڈھیٹ بھی ، یہ اپنے خدا آپ ہی ہوتے ہیں ۔ انہیں موت پر بھی خدا یاد آجائے تو بھی توبہ تو کرینگے تلافی کبھی نہیں کرینگے ۔   اس لیئے اقبال کو  زمانہ شناس کہا جا سکتا ہے ۔ اپنی آخری عمر میں انہیں خدا دوست یا ولی کہا جا سکتا ہے ۔ جو خدا سے باتیں کرتا ہے اور خدا کی باتیں ہم جیسے نکموں تک پہنچاتا ہے ۔
                    ----------


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/