مصر کا بازار چاہیئے
یوسف کو پھر سے مصر کا بازار چاہیئے
بکنے کو ہے تیار خریدار چاہیئے
منہ میں زبانیں سنگ کے موافق ہیں دوستو
نرمی نہیں ہے نرمئ گفتار چاہیئے
انصاف کے بنا ہی سکوں کس اُمید پر
جنگل بنا دیا جہاں گلزار چاہیئے
چاہت کے واسطے تو زمانے بھی کم ہیں اور
نفرت کو ہر گھڑی نیا سنسار چاہیئے
خواہش ہے قدر اور قضاءاسکے ہاتھ ہو
حکمِ جہاں پناہ کو دربار چاہیئے
مشکل نہیں ہے عرش سے یہ فرش کا سفر
ممتاز آرزوؤں کا انبار چاہیئے
۔۔۔۔۔ سراب دنیا
۔۔۔۔۔ سراب دنیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں