کیا سے کیا نکلا
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)
جس کو چاہا وہ بےوفا نکلا
کیا سمجھتے تھے کیا سے کیا نکلا
اس نے جو مشورے دیئے تھے کبھی
ان سے مشکل ہی راستہ نکلا
جس کو سمجھا تھا راحت جاں وہ تو
ایک جھلسی ہوئی ہوا نکلا
زخم دینا تو اس کی فطرت ہے
جو سراپائے التجا نکلا
جب بھی چاہا کہ دل یقیں کر لے
خواب کا کوئ سلسلہ نکلا
یوں نہ ممتاز دو ہمیں الزام
دو دلوں کا یہ فاصلہ نکلا
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں