درد پرانے کتنے
(کلام/ممتازملک ۔پیرس )
(کلام/ممتازملک ۔پیرس )
صبح کے ساتھ نئی سوچ نئی فکر جگی
شام ہوتے ہی جگے درد پرانے کتنے
کل جسے ہم نے سکھایا تھا تکلم کرنا
آگئے اس کو ذرا دیکھ بہانے کتنے
ایک لمحہ کبھی صدیوں سا معلق رکھتا
بیت جاتے ہیں گھڑی بھر میں زمانے کتنے
ڈھونڈنے والے اسے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں سدا
یوں تو بدلے تھے یہاں اس نے ٹھکانے کتنے
کر نہ مجبور ہمیں آنکھ ملانے کے لیئے
جانے نظروں سے عیاں ہونگےفسانے کتنے
جانے نظروں سے عیاں ہونگےفسانے کتنے
درد ہے رنج ہے وحشت ہے جنوں ہے اپنا
دل میں ہم لوگ چھپائے ہیں خزانے کتنے
دل میں ہم لوگ چھپائے ہیں خزانے کتنے
وہ نہ آیا کہ دکھی جس سے ہوا جی اپنا
یوں تو آئے تھے ہمیں لوگ منانے کتنے
یوں تو آئے تھے ہمیں لوگ منانے کتنے
بن کے انجان زہر اس نے پیا او بےخبر
آئے ممتاز کے ہمدرد بتانے کتنے
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں