ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 26 اگست، 2017

واہ واہ خان صاحب


واہ واہ خان صاحب
ممتازملک. پیرس
خان صاحب "کےپی " کے نیرو نہ بنیں
*جب وہاں بچے قتل ہو رہے تھے تو آپ عشق فرما رہے تھے
*جب وہاں دھماکے ہو رہے تھے تو آپ دھرنے میں ناچ گانا کر رہے تھے
*جب وہاں چوہے لوگوں کو نوچ  رہے تھے تو آپ مری کی سیریں  فرما رہے تھے
اور اب
* جب  وہاں لوگ  ڈینگی سے مر رہے تو آپ پنجاب میں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پریکٹس کر رہے ہیں . اس" کے پی کے" میں جہاں آپ نے کاغذوں میں ہسپتالوں سکولوں کالجوں کا جال بچھا دیا ہے وہاں آج اس سال 2017 میں بھی  بارہ ہراز بچے کالج نہیں جا سکیں گے کہ اتنے کالج ہی نہیں ہیں .
ڈینگی کے مریض بیچارے پنجاب سے گئے میڈیکل سٹاف کو بھی اپنا مرض نہیں بتا سکتے ،اپنی جان بچانے کی دوا نہیں لے سکتے  کہ "کی پی "کا نیرو انہیں زندہ رہنے کی اجازت نہیں دے رہا ....اور میڈیکل سٹاف  کی گاڑیاں پارک کروا دی گئی ہیں .
کوئی انسان اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف اپنی ناک بچانے کے لیئے اس نے پورے صوبے کو مچھروں کے ہاتھوں مرنے کے لیئے چھوڑ دیا اور منہ کے سامنے کھڑی گاڑیوں اور ڈاکٹروں  سے دوا لینا اس لیئے منظور نہیں کہ یہ اس کے مخالف نے بھیجی ہیں .
کیا یہاں اس کا باپ بھائی یا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوتا تو یہ ایک منٹ کو بھی سوچتا کہ یہ دوا کھلانے والا دوست ہے یا دشمن.
کبھی نہیں یہ اس کی جان بچانے کی کوشش کرتا .
بجائے بجایئے  بانسری بجائیے لوگ مرتے ہیں مرتے رہیں آپ کی بلا سے ...نہ ان میں کوئی
آپ کا باپ نہ آپ کا بھائی..
نہ ہی  بیٹا ،نہ بیٹی
نہ ماں نہ بہن ...
انجوائے خان صاحب 
تاریخ آپ کو ضرور یاد رکھے گی کہ ایک تھا عمران خان جسے پورا صوبہ حکومت کرنے کو ملا . اس نے لوگوں کے لیئے کینسر ہسپتال بنایا لیکن اس کی عوام چوہوں  اور مچھروں کے کاٹنے سے مرتی رہی .
کیوں ؟؟
کیونکہ اسے مچھروں اور چوہوں سے عوام کی جان بچانے کے عوض اربوں روپے ذکوات خیرات اور غیر ملکی فنڈنگ میں نہیں مل رہے تھے... افسوس...
ممتازملک. پیرس

منگل، 22 اگست، 2017

سچ کا استعمال


سچ کا استعمال 

سچ کو دوا کی طرح استعمال کرو
ہتھیار کی طرح نہیں...
کیونکہ دوا علاج کرتی ہے اور
ہتھیار تباہ کرتا ہے ....
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
ممتازملک. پیرس         



اپنی زبان

اپنی زبان ہی ترقی کہ ضامن...

اتوار، 20 اگست، 2017

ایک نیا طریقہ واردات

 

ایک نیا طریقہ واردات
ممتازملک. پیرس 

جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی یا چیز مارکیٹ میں آتی ہے تو  اس کے استعمال کے اچھے اور بڑے دونوں ہی پہلو سامنے آنے لگتے ہیں . 
گذشتہ دس سالوں میں عوامی رابطے میں جتنا بھرپور کردار فیس بک اور سوشل سائیڈز  نے ادا کیا ہے اس سے پہلے  رابطوں کی یہ تیزی محض ایک خواب تھی . کہاں خطوط کا لمبا انتظار اور اور پھر فون کالز کی بکنگ کے صبر آزما اور مہنگے ذرائع اور کہاں اب ساری دنیا ہماری انگلی کی پور  پر آ گئی ہے . 
چوبیس گھنٹوں اور سات دن آپ کی خدمت میں یہ آسان سروس حاضر ہے . اب تو پردیس بھی پردیس کم ہی لگتا یے .  فاصلے سمٹ گئے اور آنکھوں کا انتظار بھی اب مختصر ترین ہو گیا بلکہ ختم ہی ہو گیا.
. ایک دوسری سے بات کیجیئے  . پیغام بھیجیئے.فوٹو اور ویڈیوز بھیجیئے  .ہر طرح سے اپنوں کیساتھ رہیئے.
کسی شاعر نے کیا ہی خوب  کہا تھا کہ 
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
بس ذرا گردن جھکائی دیکھ لی 
سو آج موبائل اور نیٹ کے لیئے  بجا طور پر  ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعی
جیب میں ہے اب میرے تصویر یار
بس ذرا انگلی لگائی دیکھ لی 
سن لی 
سنا لی 
سجا لی 
ہٹا لی 
واہ واہ کیا بات ہے 
لیکن اتنی ساری سہولیات کے ساتھ ساتھ اس کے غلط استعمال کرنے والے ہڈ حرام  لفنگوں تلنگوں کو بھی گھر بیٹھے ہڈ حرامی کا ایک ذریعہ ہاتھ آ گیا . ان بلیک میکرز اور ڈاکوؤں کو کمپیوٹر کی زبان میں ہیکرز کہا جاتا ہے . اور اکثر ان کا فل ٹائم کاروبار ہی یہی ہے. لوگوں کے اکاونٹس میں جا کی ان کی ذاتی معلومات  چرانا،  ان کے ذاتی رابطے گفتگو،تصاویر اور ویڈیوز چرانا اور پھر ان لوگوں کو ڈاکووں کی طرح رقم یا کسی اور ناجائز تقاضے سے تنگ کرنا اور بلیک میلنگ کے ذریعے مفادات حاصل کرنا . ابھی چند روز قبل ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کیساتھ بھی ایسی ہی ایک واردات ہوئی اور ان کی ذاتی تصاویر ہیگ کر کے ان سے ایک لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا گیا . ورنہ آپ کی پرائیویٹ تصاویر کو پبلک کر دینگے . بیچارے بہت پریشان ہوئے ..ہم سے بات ہوئی تو ہم نے بتایا کہ
جی ہاں جناب بلکل ایسے واقعات سننے میں آ رہے ہیں کہ لوگوں کی ذاتی تصاویر  اور اکاونٹس ہیک کر کے ان سے تاوان مانگا جا رہا ہے .اور ڈریئے مت بلکہ ان کے خلاف سائبر کرائم اور ایف آئی اے دونوں جگہ جا کر کیس درج کروایئے . 
تو سبھی دوستوں سے گزارش یے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد  سے ڈرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے  اور غلطی سے بھی انہیں ایک پیسہ بھی مت دیجیئے گا ورنہ ساری عمر ایسے گروہوں کا شکار بنے رہینگے . 
جرات کیجیئے اور ایسے واقعات اور دھمکیوں کو پولیس اور سائبر کرائم میں رپورٹ کر کے انہیں ایسے جوتے لگوائیں کہ الٹا وہ آپ کو تاوان ادا کر کے آپ سے معافی مانگیں . یاد رکھیں آج کی آپ  کی بزدلی آپ کے پورے خاندان کو خطرے میں ڈال دیگی .اور سائبر کرائم کے ادارے پاکستان میں بھی اب اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں . امید ہے کہ ان انٹرنیٹ ڈاکووں اور بلیک میلرز کو اب یہ دھندا  اتنا بھی فائدہ نہیں دے سکتا جتنا کچھ لوگوں کی خاموشی اور بزدلی سے وہ پہلے اٹھا چکے ہیں . 
سو والدین آپ بھی اپنی نوجوان اولادوں پر بھی نظر رکھیئے اور ان کے پاس آنے والے مال کا بھی حساب رکھیں کہ وہ کہاں کہاں سے یہ دھن برسوا  رہا ہے.  کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے چار دن کی خاموشی انہیں برسوں  کے لیئے جیل یاترا کروا دے. پھر جو لوگوں کے سے منہ چھپاتے پھریں گے تو اس سے بہتر ہے کہ آج ہی ان کی آمدنی اور لائف سٹائل پر نظر رکھیں .   
                 *********' 8

جمعہ، 18 اگست، 2017

نجف علی شاہ گریٹ مین


تسلیمات
نجف علی شاه بخاری شخصیت اور فن میں میری 27 سالہ ریڈیو  Tv اور  دیگر ادبی خدمات کا احاطه کیا گیا ھے جسے پروفیسر Dr.قیصر نجفی صاحب  "میرے چاره گر  "  کے عنوان سے کتابی شکل دے رھے
ھیں مذکوره کتاب میں میری نثری اور شعری تخلیقات    اشکوں میں رعنائ / برف میں lipti آگ / منوتی / بستیاں آباد / صحرا میں اذان / اسم اعظم پڑھ لیا کرتا ھوں میں /   پر معروف شخصیات کے تبصرے بھی شامل ھیں
مجھے خوشی ھوگی اگر آپ ایک صفحه پر مشتمل میری  اس شاعری  پر کچھ لکھیں جو‌ آپ فیس بک پر پڑھ چکے ھیں تاکہ اسے کتاب کی زینت بنا سکوں اردو‌ میں لکھی یہ تحریر مجھے  اگلے هفتے تک what's aap  کر دیں
خیراندیش
نجف علی شاہ بخاری
( ایم‌ فل اردو سکالر )
ریزه نجف محله سادات بھکر  پنجاب 03336841024
Syednajafalishah@gmail.com

                ***********

یہ پیغام( بلکہ میرے لیئے ایک استاد شاعر کا حکم کہوں تو زیادہ خوشی ہو گی )
ملا سو ہم نے جرات کی اس رائے کی . جو کہ ذیل میں پیش ہے .
              ***********
میں آج تک نجف علی شاہ صاحب سے کبھی نہیں ملی ...میں نہیں جانتی وہ کس عمر کے ہیں کیا کرتے ہیں اور کس شہر کے رہنے والے ہیں . نجف صاحب سے میرا تعارف فیس بک پر ہوا .
جب انہوں نے مجھے اپنے کام پر تبصرے کے لیئے کہا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا . کہ اتنے استاد شاعر اور لکھاری پر میں کیا لکھ سکتی ہوں . یہ تو میری اوقات ہی نہیں . لیکن ان کے اصرار پر ان کا دل رکھنے کو   یہ جسارت کرنے کا ارادہ کر لیا ..
ان کی شاعری اور خیالات پڑھنے کا موقع بھی مجھے فیس بک پر ہی ملا .
تو معلوم ہوا زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ان کے الفاظ سے ٹپکتا ہے. انکی تحریریں پڑھ کر  ایک معتبر، ذہین، حساس اور ہمدرد سے انسان کی شبیہہ زہن میں اتر آتی ہے .
جو خواب تو دیکھتا ہے لیکن حقیقت کے حصار میں رہتے ہوئے.  وہ خود کو خوابوں میں گم نہیں  ہونے دیتے . بلکل اس تتلی کی طرح جو اڑتی تو ہے لیکن اس کے پاوں سے بندھی ڈور اسے اس ڈور کی لمبائی سے آگے جانے نہیں دیتی .
میں ذاتی طور پر نجف علی شاہ کے کلام کو بہت پسند کرتی ہوں . اور ان کے خیالات سے بہت کچھ سیکھتی بھی ہوں .
آپ کے لیئے بہت ساری دعاوں اور نیک  تمناؤں کیساتھ آپ کی ان کامیابیوں کے لیئے بھی پرامید ہوں جو صدقہ جاریہ بن کر دونوں جہانوں میں آپ کو سرخرو کرینگی . انشاءاللہ
اللہ پاک آپ کو لمبی عمر ایمان ،عزت اور صحت کیساتھ عطاء فرمائے. آمین
ممتازملک. پیرس

مائے نی مائے میرے گیتاں دے۔۔۔ انتخاب۔ نصرت فتح کا گایا کلام

انتخاب
ممتازملک
----؛
مائے نی مائے ' میرے گیتاں دے ' نیناں وچ ' برھوں دی ' رڑک پوے
ادھی ادھی راتی ' اٹھ رون موئے متراں نوں ' مائے سانوں ' نیند نہ پوے

بہہ بہہ ، شوگندھیاں وچ ' بنھاں پئے چاننی دے ' تاں وی ساڈی ' پیڑ نہ سہوے
کوسے کوسے ساھاں دی میں ' کراں جے ٹکورمائے ' سگوں سانوں کھان نوں پوے

آپے نی میں بالڑی ھاں ' ھالے آپ متاں جوگی ' مت کیہڑا ' ایس نوں دوے
آکھ سونی مائے ایہنوں ' رووے بلھ چتھ کے نی ' جگ کیتے سن نہ لوے

آکھ سونی کھائے ٹک ' ھجراں دا پکیا ' لیکھاں دے نے پٹھڑے توے
چٹ لئے تریل نوں وی ' غماں دے گلاب توں ای ' کالجے نوں حوصلہ رھوے

کھڑیاں سپیریاں توں ' منگاں کونج میل دی میں ' میل دی کوئی کنج دوے
کیھڑا ایہناں غماں دیاں ' روگیاں دے دراں اتے ' وانگ کھڑا جوگیاں رھوے

پیڑے نی پیڑے ' ایہ پیار ایسی تتلی ھے ' جیہڑی سدا سولی تے بہوے
پیار ایسا بوڑھ ھے نی ' جہدے کولوں آشنا وی ' لکھاں کوساں دور ھی رھوے

پیار اوہ محل ھے نی ' جیہدے وچ پنکھوواں دے ' باجھ کجھ ھور نہ رھوے
پیار ایسا آلھنا ھے ' جہدے وچ وصلاں دا ' رتڑا نہ پلنگ ڈھوے

آکھ مائے ادھی ادھی ' راتی موئے متراں دے ' اُچی اُچی ناں نہ لوے
متے ساڈے مویاں پچھوں ' جگ ایہ شریکڑا نی ' گیتاں نوں وی چندرا کہوے
کلام ،،،شیو کُمار بٹالوی

بدھ، 16 اگست، 2017

جاگیر سمجھ کر ۔ سراب دنیا



جاگیر سمجھ کر   
 (کلام/ممتاز ملک۔پیرس )                          

مذہب کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر
رسوا ہوئے ہیں تجھ کو کوئی پیر سمجھ کر



اک روز کوئی ہاتھ مٹا ڈالے نہ ہمکو
دیوار پہ لکھی ہوئی  تحریر سمجھ کر


چپکے سےکسی کونےمیں ہونےکےنہیں ہم
مقتل کو ہی انسان کی تقدیر سمجھ کر


مانا میرے حالات کے پلٹے کئی منظر
خوش ہو نہ انہیں پاوں کی زنجیر سمجھ کر


پی لیتے ہیں یہ سوچ کے ہر تلخ دوا بھی
میٹھی ہے کہیں اسکی تو تاثیر سمجھ کر


منزل کا پتہ اسکے ہی ہاتھوں سے ملا تھا 
چھوڑ آئے تھے جسکوکوئی راہگیر سمجھ کر


ممتاز چلے آئے ہیں محفل سے کبھی کے
ہم بھی دل آوارہ کی تحقیر سمجھ کر

                    ..........                      

بیگم کے خط کا تگڑا جواب


انتخاب / ممتاز ملک "


زنانہ اردو خط و کتابت​: شوہر کے نام خط (شفیق الرحمان)۔



سرتاج من سلامت!
کورنش بجا لا کر عرض کرتی ہوں کہ منی آرڈر ملا۔ یہ پڑھ کر کہ طبیعت اچھی نہیں ہے از حد تشویش ہے۔ لکھنے کی بات تو نہیں مگر مجھے بھی تقریباً دو ماہ سے ہر رات بے خوابی ہوتی ہے۔ آپ کے متعلق برے برے خواب نظر آتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ صبح کو صدقے کی قربانی دے دی جاتی ہے اس پر کافی خرچہ ہو رہا ہے۔
آپ نے پوچھا ہے کہ میں رات کو کیا کھاتی ہوں۔ بھلا اس کا تعلق خوابوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ وہی معمولی کھانا البتہ سوتے وقت ایک سیر گاڑھا دودھ، کچھ خشک میوہ جات اور آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ۔ حلوہ اگر زیادہ دیر رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا۔
سب سے پہلے آپ کے بتائے ہوئے ضروری کام کے متعلق لکھ دوں کہ کہیں باتوں میں یاد نہ رہے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہے کہ میں فوراً بیگم فرید سے مل کر مکان کی خرید کے سلسلے میں ان کا آخری جواب آپ کو لکھ دوں۔ کل ان سے ملی تھی۔ شام کو تیار ہوئی تو ڈرائیور غائب تھا۔ یہ غفور دن بدن سست ہوتا جا رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی کمزور ہونے لگی ہے۔ اس مرتبہ آتے وقت اس کے لئے ایک اچھی سے عینک لیتے آئیں۔ گھنٹوں بعد آیا تو بہانے تراشنے لگا کہ تین دن سے کار مرمت کے لئے گئی ہوئی ہے۔ چاروں ٹائر بیکار ہو چکے ہیں۔ ٹیوب پہلے سے چھلنی ہیں۔ یہ کار بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کے آنے پر نئی کار لیں گے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کار کو منگا لیں۔ خیر تانگہ منگایا۔ راستےمیں ایک جلوس ملا۔ بڑا غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا، ایک گھنٹے ٹریفک بند رہا۔ معلوم ہوا کہ خان بہادر رحیم خان کے صاحبزادے کی برات جا رہی ہے۔ برات نہایت شاندار تھی۔ تین آدمی اور دو گھوڑے زخمی ہوئے۔
راستے میں زینت بوا مل گئیں۔ یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ احمد چچا کے سسرال میں جو ٹھیکیدار ہیں نا ان کی سوتیلی ماں کی سگی بھانجی ہیں۔ آپ ہمیشہ زینت بوا اور رحمت بوا کو ملا دیتے ہیں۔
رحمت بوا میری ننھیال سے ہیں اور ماموں عابد کے ہم زلف کے تائے کی نواسی ہیں۔ رحمت بوا بھی ملی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی قدسیہ باجی کو ساتھ لا کر ہمارے ہاں چند مہینے رہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی ہیں جو تایا نعیم کےساتھ ہماری شادی پر آئی تھیں۔ تایا نعیم کی ساس ان کی دادی کی منہ بولی بہن تھیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے دوپٹے بدل چکی تھیں۔ یہ سب اس لئے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب یاد نہیں رہتے۔ کیا عرض کروں آج کل زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ رشتہ دار کی خبر نہیں۔ میں نے زیب بوا کو کو گھر آنے کے لئے کہا، تو وہ اسی شام آ گئیں۔ میں نے بڑی خاطر کی۔ خواہش ظاہر کرنے پر آپ کے ارسال شدہ روپوں میں سے دو سو انہیں ادھار دیے۔
ہاں تو میں بیگم فرید کے ہاں پہنچی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت بدل چکی ہیں۔ جوانی میں مسز فرید کہلاتی تھیں، اب تو بالکل ہی رہ گئی ہیں۔ ایک تو بے چاری پہلے ہی اکہرے بدن کی ہیں، اس پر اس طرح طرح کی فکر۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی ہیں۔ کہنے لگیں اگلے ہفتے برخوردار نعیم کا عقیقہ ہے اور اس سے اگلی جمعرات کو نورِ چشمی بتول سلمہا کی رخصتی  ہو گی، ضرور آنا۔
میں نے ہامی بھر لی اور مکان کے متعلق ان سے آخری جواب مانگا۔ پہلے کی طرح چٹاخ پٹاخ باتیں نہیں کرتیں۔ آواز میں بھی وہ کرارا پن نہیں رہا۔ انہیں تو یہ بتول لے کر بیٹھ گئی۔ عمر کا بھی تقاضا ہے۔ سوچ رہی ہوں جاؤں یا نہ جاؤں۔ دو ڈھائی سو خرچ ہو جائیں گے۔ نیا جوڑا سلوانا ہو گا۔ ویسے تو سردیوں کے لئے سارے کپڑے نئے بنوانے پڑیں گے۔ پچھلے سال کے کپڑے اتنے تنگ ہو چکے ہیں کہ بالکل نہیں آتے۔ آپ بار بار سیر اور ورزش کو کہتے ہیں بھلا اس عمر میں مستانوں کی طرح سیر کرتی ہوئی اچھی لگوں گی۔ ورزش سے مجھے نفرت ہے۔ خواہ مخواہ جسم کو تھکانا اور پھر پسینہ الگ۔ نہ آج تک کی ہے نہ خدا کرائے۔ کبھی کبھی کار میں زنانہ کلب چلی جاتی ہوں، وہاں ہم سب بیٹھ کر نٹنگ کرتی ہیں۔ واپس آتے آتے اس قدر تھکان ہو جاتی ہے کہ بس۔
آپ ہنسا کرتے ہیں کہ نٹنگ کرتے وقت عورتیں باتیں کیوں کرتی ہیں۔ اس لئے کہ کسی دھیان میں لگی رہیں۔
آپ نے جگہ جگہ شاعری کی ہے اور الٹی سیدھی باتیں لکھی ہیں۔ ذرا سوچ تو لیا ہوتا کہ بچوں والے گھر میں خط جا رہا ہے۔ اب ہمارے وہ دن نہیں رہے کہ عشق وشق کی باتیں ایک دوسرے کو لکھیں۔ شادی کو پورے سات برس گذر چکے ہیں، خدارا ایسی باتیں آئندہ مت لکھئے۔ توبہ توبہ اگر کوئی پڑھ لے تو کیا کہے۔
ان دنوں میں فرسٹ ایڈ سیکھنے نہیں جاتی۔ ٹریننگ کے بعد کلاس کا امتحان ہوا تھا، آپ سن کر خوش ہوں گے کہ میں پاس ہو گئی۔
پچھلے ہفتے ایک عجیب واقعہ ہوا۔ بنو کے لڑکے کو بخار چڑھا۔ یوں تپ رہا تھا کہ چنے رکھو اور بھون لو۔ میں نے تھرما میٹر لگایا تو نارمل سے بھی نیچے چلا گیا۔ پتہ نہیں کیا وجہ تھی۔ پھر گھڑی لے کر نبض گننے لگی۔ دفعتاً یوں محسوس ہوا جیسے لڑکے کا دل ٹھہر گیا ہو کیونکہ نبض رک گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ دراصل گھڑی بند ہو گئی تھی۔ یہ فرسٹ ایڈ بھی یونہی ہے۔ خوامخواہ وقت ضائع کیا۔
ڈاکٹر میری سٹوپس کی کتاب ارسال ہے۔ اگر دکاندار واپس لے لے تو لوٹا دیجئے۔ یہ باتیں بھلا ہم مشرق کے رہنے والوں کے لئے تھوڑی ہیں۔ اس کی جگہ بہشتی زیور کی ساری جلدیں بھجوا دیجئے۔ ایک کتاب گھر کا حکیم کی بڑی تعریف سنی ہے۔ یہ بھی بھیج دیجئے۔
باقی سب خیریت ہے اور کیا لکھوں۔ بس بچے ہر وقت آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اصغر پوچھتا ہے کہ ابا میری سائیکل کب بھیجیں گے۔ آپ نے آنے کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ اب تو ننھی کی بسم اللہ بھی قریب آ چکی ہے۔ میری مانیے تو واپس یہیں تبادلہ کرا لیجئے۔ بھاڑ میں جائے یہ ترقی اور ایسا مستقبل۔ تھوڑی سی اور ترقی دے کر محکمے والے کہیں آپ کو اور دور نہ بھیج دیں۔
آپ بہت یاد آتے ہیں۔ ننھے کی جرابیں پھٹ چکی ہیں۔ ننھی کے پاس ایک بھی نیا فراک نہیں رہا۔ برا ہو پردیس کا۔ صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ امی جان کی اونی چادر اور کمبلوں کا انتظار ہے۔ 

ہر وقت آپ کا  انتظار رہتا ہے۔ آنکھیں دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ صحن کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑرہا ہے۔ مالی کام نہیں کرتا۔ اس کی لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔

آتے وقت چند چیزیں ساتھ لائیں۔ بچوں کے جوتے اور گرم کوٹ، ننھے کی جرابیں اور کنٹوپ، ننھی کی فراک، دو چمڑے کے صندوق، زینب بوا کے لئے اچھا سا تحفہ، بلی کے گلے میں باندھنے کے لئے ربن اور کتے کا خوبصورت سا کالر، کچھ سوہن حلوہ اور ننھی کا سویٹر۔ ننھی کے کان میں پھنسی تھی چچا جان سول سرجن کو بلانے کو کہتے تھے، میں نے منع کر دیا کیونکہ کل تعویذ آ جائے گا۔
یہاں کی تازہ خبریں یہ ہیں کہ پھوپھی جان کی بھینس اللہ کو پیاری ہوئی۔ سب کو بڑا افسوس ہوا۔ اچھی بھلی تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہی دم توڑ دیا۔ میں پرسہ دینے گئی تھی۔ تایا عظیم کا لڑکا کہیں بھاگ گیا ہے۔ احمد چچا کا جس بینک میں حساب تھا وہ بینک فیل ہو گیا ہے اور ہاں پھوپھا جان کی ساس جو اکثر بہکی بہکی باتیںکیا کرتی تھیں اب وہ بالکل باؤلی ہو گئی ہیں۔ بقیہ خبریں اگلے خط میں لکھوں گی۔
سرتاج کو کنیز کا آداب۔ فقط
(ایک بات بھول گئی۔ منی آرڈر پر مکان نمبر ضرور لکھا کیجئے۔ اس طرح ڈاک جلدی مل جاتی ہے۔ )
                                    .........................

   

فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت......



فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت
ممتاز ملک 


جی ہاں
سیم یہ ہی سوال  مجھ سے بھی  اکثر جلتی ہوئی خواتین پوچھتی ہیں کہ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ کیوں نظر نہیں آتے . آپ فیس بک پر انکے ساتھ پھولوں اور غباروں والی پک کیوں نہیں لگاتی ہیں ......
تو میں نے کہا 
بہن میرے گھر میں جمہوریت ہے الحمداللہ 
نہ میں میاں کی چوکیداری کرتی ہوں نہ وہ میرا دم چھلہ ہے . وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام کرتی ہوں.  اور میرا کام ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم دونوں ایکدوسرے پر اعتبار بھی کرتے ہیں اور پیار بھی ..


مجھے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے  
کہ
گھر میں کوئی محبت کو ترسا ہو تو وہ اکثر گھر سے باہر بھرپور محبت کا دکھاوا کر کے لاشعوری طور پر لوگوں کو نہیں اپنے آپ کو محبت کا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے  کہ 
.سب اچھا ہے
سب اچھا ہے 
حالانکہ ضرورت گھر کے اندر اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کی ہے. 
...........................


منگل، 8 اگست، 2017

محبت کا امتحان


انسان کی محبت  کا امتحان یہ نہیں کہ وہ"کتنا"زیادہ مہیا کر سکتا ہے
بلکہ
اس میں ہے کہ وہ کتنے"کم"میں گزارا کر  سکتا ہے .....💜💛💚
ممتازملک. پیرس

جمعرات، 3 اگست، 2017

مائیں بور اور نسلیں تباہ

ایک بیرون ملک سے آئی خاتون کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا او ان کا پاکستان میں رہنے والی خواتین پر ایک محفل میں جو غصہ نکلا تو ہمیں بھی بہت قرار آیا اور سوچا 
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب  موبائل زندہ باد  پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یانپھر ہر وقت بازاروں میں.چکر لگانا شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں  خواتین کو شاید.   حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں  .
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب  گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی  کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ  کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت  ہوتی تھیں .
دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل  سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے وہاں .میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا .  نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
  جن کی چھت پر صحن میں کئی طرح کے اچار  کے مرتبان اور برنیاں    دھوپ لیا کرتے تھے .
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار دیکھی اور ہلائی  جاتی تھیں .
جن کے گھر میں مربے ، جام  بنا کرتے تھے .
گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا.کر نہیں دیتے کرنا ظلم کرتے ہیں بیچاریوں  پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ.سبھی اور بہت سے  کام اگر ہم گننے  بیٹھے جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینے  میں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے  بچایا کرتی تھیں .
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں .
یہ سب خواب نہیں ہے ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں  رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین ہی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام  کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا . یہا یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا سات بجے بچوں کو جگانا  کھلا پلا کر تیار کرنا  .بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ، گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا  کھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے  بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا . سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا . انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری  کچن  کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ  ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا  کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے،  کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا . سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا . شامی کباب . روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا  اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ پر یا نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے  دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتوں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا  ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل  پیدا کرنے  سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں  .
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو انکی کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو  گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگر اتنی ہڈ حرام اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور  پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
ممتازملک
                  ...................

مائیں بور نسلیں تباہ


مائیں بور نسلیں تباہ 
ممتازملک. پیرس 

پچھلے دنوں بیرون  ملک سے آئی ایک  خاتون کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا اور ان کا پاکستان میں رہنے والی خواتین پر ایک محفل میں جو غصہ نکلا تو ہمیں بھی بہت قرار آیا اور سوچا کہ
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں، ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب  موبائل زندہ باد  پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یا پھر ہر وقت بازاروں میں چکر لگانا، شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں خواتین کو شاید ...
حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں  . 
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب  گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی  کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ  کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت  ہوتی تھیں . 
اب تو دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل  سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے .
وہاں میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا .  نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
  جن کی چھت پر، صحن میں کئی طرح کے اچار  کے مرتبان اور برنیاں دھوپ لیا کرتے تھے . صابن کڑاہی میں گھوٹا جاتا تھا.
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار رکھی اور ہلائی  جاتی تھیں .
جنکےگھر میں مربے ،جام بنا کرتے تھے . 
اب تو گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا کر نہیں دیتے، یہ ظلم کرتے ہیں بیچاریوں  پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ سبھی اور بہت سے  کام اگر ہم گننے  بیٹھیں جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینےمیں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے  بچایا کرتی تھیں . 
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں . 
یہ سب خواب نہیں ہے .ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں  رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین بھی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام  کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے .یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے .
صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا ،یہاں  یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا ،سات بجے بچوں کو جگانا ،کھلا پلا کر تیار کرنا،بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ،  ناشتے کے برتن دھونا ، دھونے  والے کپڑے چھانٹنا،گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا  کھلا کر ان کے منہ ہاتھ دھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے  بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا ، لنچ خے برتن دھونا،سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا،
انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری  کچن  کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ  ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے،  کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا،سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا ،شامی کباب بنا.کر فریز کرنا،روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا  اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ،نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے  دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتیں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا  ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل  پیدا کرنے  سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں  . 
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو اس کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو  گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگراتنی ہڈ حرامی اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور  پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
                    ------------

بدھ، 2 اگست، 2017

پاکستان زندہ باد


سنو......
کہ ہم ہیں چٹان جیسے جو راستہ روکتے بھی ہیں اور راستہ دیتے بھی ہیں ...
تمہیں وہی ملے گا جس کا حقدار تم خود اپنے آپکو
      اپنےرویئےسے ثابت کرو گے باز آ جاو...... ہمیں توڑتے توڑتے تم خود ٹوٹ جاو گے انشاءاللہ 
پاکستان کو قائم رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک انشاءاللہ
پاکستان زندہ باد
ممتازملک 

منگل، 1 اگست، 2017

زینب الغزالی نامی فیس بک آئی ڈی کو جواب


زینب الغزالی  ڈئیر
آپ نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہرزہ  سرائی کی ہم نے اسے آپ کا اختلاف رائے سمجھ کر آپ کو دلائل دینے کی کوشش کی .
لیکن اس کے باوجود آپ نے تو پاکستان کے وجود پر ہی حملہ شروع کر دیا .
ہندوستان ستر سال سے ایسی ہی مکروہ سازشوں میں ملوث رہا ہے اور اس بات کا اعلانیہ اعتراف بھی کرتا رہا ہے . لیکن ہم نے اسے ان کا سیاسی مداری پن سمجھا .
آپ جیسی پڑھی لکھی خاتون اگر اپنے ملک کے مسائل پر بات کرتی تو سمجھ بھی آجاتا .
* جہاں گائے کے بدلے درجنوں مسلمان ذبح کر دیئے جاتے ہیں ...
*بھری بس میں دن دھاڑے عورت کو کتے کی طرح وہاں کے مرد موچ کھاتے ہیں ...
*عورت کا پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کی کوکھ میں نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سینکڑوں دیہاتوں میں تو عورت کا وجود ہی مٹا ڈالا گیا ہے ...
*جہاں کسی ہندو عورت یا مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات کے بنا کوئی مسلمان کسی بھی فیلڈ میں کامیابی کے ک کا بھی نہیں سوچ سکتے ہیں ..
*جہاں ہر روز صبح اٹھ  کر ہر مسلمان کو یہ  یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں ہندوستان کا وفادار ہوں ...
کبھی کسی پاکستانی کو دیکھا ہے کہ وہ بھارتیوں کے مسائل  کے لیئے ایسے شعلے اگل رہا ہو یا انگارے چبا رہا ہو ؟
پھر آپ بھارتیوں کے پیٹ کے مروڑ کیوں ختم نہیں ہوتے ..
کرکٹ چمپئن شپ میں تو ہم آپ کی زبان میں ہی بتا چکے ہیں کہ کون کس کا باپ ہے ...
اب تو آپ کو عقل آ جانی چاہیئے .
آپ کسے ان فرینڈ کریں گی اور کسے نہیں . یہ تو میں نہیں جانتی . لیکن میں پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی اور ہرزہ سرائی کے خلاف آپ کو ان فرینڈ کرتی ہوں .
اللہ پاک آپ کو عقل سلیم عطا فرمائے .
خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دیں  ...
ممتازملک. پیرس

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/