انٹرویو برائے رسالہ "ملی اتحاد " انڈیا
جوابات / ڈاکٹر بسمل عارفی (انڈیا )
انٹرویو/ممتازملک۔پیرس
برائے / بھارتی اردو ماہنامہ
ملی اتحاد 0/جون 2017ء
1۔ مدت ہوئ عورت ہوۓ ۔ ممتاز قلم۔ 2۔میرے دل کا قلندر بولے۔ 3۔ سچ تو یہ ہے ۔ کالمز۔ REPORTS / رپورٹس۔ NEW BOOK/ نئ کتاب / 1۔ نئی کتاب / 2۔ اردو شاعری ۔ نظمیں ۔ پنجابی کلام۔ تبصرے ۔ افسانے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز سو لفظی کہانیاں ۔ انتخاب۔ نعتیں ۔ کالمز آنے والی کتاب ۔ 4۔اے شہہ محترم۔ نعتیہ مجموعہ 5۔سراب دنیا، شاعری 6۔اوجھلیا۔ پنجابی شاعری 7۔ لوح غیر محفوظ۔کالمز مجموعہ
یہ تو ہر دور میں ہوتا ہے
ابا پتھر مار کر شکار کرتا تھا
تو بیٹا نیزے سے کرنے لگا
پوتا تیر کمان سے نشانہ لگانے لگا
اور پڑپوتا گولی سے پھڑکانے لگا ...
یہ سب زندگی میں آنے والے نئے انداز اور نیا طرز زندگی ہے . اس پر نہ تو حیرت ہونی چاہیئے نہ ہی گلہ ....
میں اور آپ وہ زندگی یا طرز زندگی اختیار کیئے ہوئے نہیں ہیں جو ہمارے والدین کی تھی ....
تو ہم اپنے بچوں سے اس بات کے لیئے شاکی کیوں ہیں کہ وہ ہم سے آگے نکل رہے ہیں ...
کہیں ہم اپنے بچوں سے جلنے تو نہیں لگے 😔
معاشرہ کیا ہوتا ہے ؟
ممتازملک. پیرس
میں اور آپ مل کر ہی یہ معاشرہ تشکیل دیتے ہیں ..
پھر وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کی ذاتیات میں
ذاتوں میں
فرقوں میں
مذاہب میں
دخل انداز ہونے کا سبق پڑھا رہے ہیں . اور ہم جاہلوں کے ٹولے بلکہ بھوکے بھیڑیے کی طرح ان کے کہنے پر دوسرے کو بھنبھوڑنے کو دوڑ پڑتے ہیں .
کیا واقعی ہم ایک قوم کے بجائے بھوکے بھیڑیوں کا غول بنتے جارہے ہیں ..
اگر ایسا ہے تو لعنت ہے ہماری پڑھائیوں پر
ممتازملک
سرگودھا میں ہونے والا مزاری قتل
ممتازملک. پیرس
، نام نہاد دربار عالیہ پر جہالت اور شرک کی اخیر....
دو نمبر بدکار گدی نشیں کا بیان کہ "اس نے یہ قتل کر کے انہیں جنت میں بھیجا ہے ."
..کیا سمجھاتا ہے ہمیں کہ
دنیا میں دین پھیلانا چھوڑو اور سب سے پہلے اپنے ملک اور دیہاتوں میں اور اپنے نام نہاد مسلمانوں دین پھیلاو . انہیں بتاو کہ اللہ ایک ہے او اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے آخری رسول تھے ہیں اور رہینگے . اور وہ اللہ کے سوا کسے کے آگے سجدہ نہیں کرتے تھے . اور ایسے اڈے بنا کر انہوں نے کوئی بیٹے بیٹیاں اور پجاری نہیں بنائے .
تو جو ایسا کرتا ہے وہ مسلمان نہیں مشرک ہے . یا وہ یہ شرک چھوڑ دے
یا وہ اپنے مذہب کے خانے سے اسلام ہٹا کر باقاعدہ مشرک لکھوائے. تاکہ ہمیں مسلمانوں کے نام سے تو دنیا میں رسوا نہ ہونا پڑے ..
واقعی بقول اس قاتل گدی باز کے یہ سبھی اس کے بیٹے بیٹیاں تھے ..آخر مشرکین ایک دوسرے کا خاندان ہی تو ہوتے ہیں .
بات ہے مقتولین کی تو
جو لوگ خود یہاں اپنی عزتیں نیلام کرنے آئے تھے ان سے آپ کیا ہمدردری کر سکتے ہی اور کیوں کریں ہمدردی؟؟؟
کیا وہ سب یہاں پر اغوا ہو کر آئے تھے ؟
یا جبرا رکھے گئے تھے ؟
جو غیرت مند مرد یہاں اس وقت موجود تھے وہ رات کے ڈیڑھ بجے عورتیں اور بچے لیکر کون سا چن چڑھانے آئے تھے. بھنگ اور چرس کے نشے میں
..
عدالت کو فورا یہ نام نہاد دربار
( جو شرک اور بدکاری کے اڈے ہیں ) ڈھانے کا حکم دینا چاہیئے اور رکاوٹ ڈالنے والوں کو گولی مار دینے کا حکم دیں .. اور اس درباری اس اڈے کو چلانے والے اور شرک کی ترویج کرنے والے کو اسی گاوں کے چوک میں پھانسی دی جائے اور کئے دن تک لٹکا رہے تاکہ آئندہ سب کے لیئے عبرت رہے .
ہمارے ہاں ان خرافات کا آغاز ہمارے ملا حضرات سے ہوتا یے جو بچوں کو قران پاک پڑھانے کے بہانے ان کے ذہنوں میں نت نئے فرقوں کا اور فتنوں کا بیج بوتے ہیں . چار دن جو ان کے پاس نماز پڑھنے چلا جائے وہ گھر آ کر خود کو جنتی اور دوسرے تمام گھر والوں اور ماں بہنوں کو سب سے پہلے جہنمی خیال کرنے کے خبط میں مبتلا ہوجائے گا . اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہمیں اللہ کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ دوسروں کے .
یہ کون لوگ ہیں جو ملاوں کے بھید میں چھپے ہیں ؟
جو حقوق العباد جیسے.ناقابل معافی فریضہ پر کبھی کوئی خطبہ یا درس اور تبلیغ نہیں کرتے .....
لیکن جن نوافل اور حلیوں کا قرآن پاک میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ان پر چیخ چیخ کر بے حال ہوئے جارہے ہیں ...
سوال یہ ہیں کہ
آخر ہر ملا رجسٹرڈ ہے کیا ؟
وہ کہاں سے کتنا تعلیم یافتہ اور کتنا متقی ہے کوئی جانتا ہے ؟
کیا وہ اسی علاقے کا رہنے والا ہے؟
کیا لوگ اس کے کردار کے گواہ ہیں ؟
ہمارے پڑھے لکھے بڑی بڑی یونیورسیٹیوں سے داغ التحصیل قابل افراد کو امامت اور مولوی کے فرائض کیوں تفویض نہیں کیئے جاتے ؟
کیا ہر علاقے میں کوئی ایسا لیٹر بکس یا نیٹ کیفے یا ای میل ایڈریس ہے جہاں بنام سرکار کوئی بھی کسی وقت بے نام شکایت ایسی کسی واردات سے پہلے ہی بھیج کر آگاہ کر سکے ؟
کیا قبرستانوں میں داخلے اور اخراج کا کوئی وقت مقرر ہے ؟
کیا قبرستانوں کے گرد باونڈریز موجود ہیں ؟
اگر قبرستان بھی نہیں سنبھالے جاتے تو آئیے یورپ امریکہ میں دیکھیئے اور سیکھیئے کہ قبرستان کیسے ارینج کیئے جاتے ہیں ؟
ہر حکومت پاکستان کے لیئے فکر کا مقام ہے کہ کوئی بھی" ماڑا تاڑا" آٹھ کر کسی کوبھی دفنا کر اس پر جھنڈا گاڑ کر اسے پوجا پاٹ اور بدکاری کا اڈا بنا سکتاہے بس اس کا نام" دربار عالیہ" ہونا چاہیئے .
کیا یہ ہمارے خلاف کوئی مذموم سازش ہے ؟
اگر ہاں.... تو اس کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا؟
اگر نہیں ...تو اس پر گرینڈ آپریشن فوری کیا جائے ....
..............
ٹین ایج بچے کا مزاجی اور تعلیمی ڈپریشن
تحریر:
(ممتازملک. پیرس)
بڑھتے ہوئے بچوں کا تیز دوران خون اور ہارمونل چینجز کو سمجھنا بے حد ضروری ہوتا ہے . اس عمر کے بچوں کا پل پل بدلتا مزاج ، چڑچڑاہٹ ، ہٹ دھرمی اور اکثر تو بدتمیزی ان کے لیئے ہی نہیں ان سے منسلک رشتوں خصوصا والدین کے لیئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا .
ایسے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان سے ہاتھا پائی کیساتھ مقابلہ کرنا بیوقوفی ہو گا.
بچوں اور خاص طور پر ٹین ایجرز کیساتھ دوستی اور بات چیت بے حد ضروری ہے. اس عمر میں اکثر بچے ماں باپ یا خصوصا ماں سے تکرار کرنے کی کوشش کرتے ہیں . (کیونکہ انکا زیادہ وقت ماں سے رابطے میں گزرتا ہے )
بولتے وقت انکا لہجہ نامناسب یا آواز ماں کی آواز سے اونچی ہو جاتی ہے . اس وقت ماں یا باپ کا اس بچے سے مقابلہ کرنا غیر ضروری ہے.
صبر کیجیئے،
ایکدم خاموش ہو جایئے،
اپنے تکلیف اور درد اپنی آنکھوں سے اس کی آنکھوں میں جھانک کر عیاں کیجیئے،
اور اسے خود سے احساس ہونے دیجیئے .
اس عمر میں اکثر بچے ماں یا باپ کی ناراضگی کو بھی نعمت سمجھتے ہیں کہ اچھا ہے ناراض ہیں.
نہ بات چیت ہو گی،
نہ ہی ٹوکا ٹاکی کرینگے .
آپکے لیئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت وہ بچہ توانائی اور طاقت کا ایک آتش فشاں ہے . اگر آپ نے اس کو سنبھالنے میں ذرا سی بھی غلطی کر دی تو یہ اپنے صحیح مقام کے بجائے کسی بھی غلط مقام پر جا پھٹے گا .اسے ایک ناسمجھ خود کش بمبار کہیں تو بلکل غلط نہ ہو گا .جو اپنے ساتھ بہت سے پیاروں کے لیئے عذاب بن سکتا ہے . اس توانائی کے بینک کو ٹھیک سمت میں استعمال کرنا بہت ضروری ہے . اس کی جسمانی توانائی کو کسی جم اور سپورٹس کلب میں استعمال کروایئے تاکہ وہ کسی سے جھگڑ کر اسے ضائع نہ کر بیٹھے .
آپ کو ناراضگی رکھنی ہے تو ایک دو دن تک رکھیئے لیکن اس سے بے خبر نہیں ہو جانا .
ضرورت کی بات کرتے رہیئے .
ہم میں سے جن لوگوں کے بچے لائق نکلے ہیں یا کچھ بن گئے ہیں انکی ماوں کے اکثر دعوے سننے میں آتے ہیں کہ
بہن ہم نے تو بڑی محنت کی ہے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئیر اور سائنسدان بنانے میں ..
ساری رات آنکھوں میں تیل ڈال کر بچوں کے سرہانے دودہ کے گلاس لیئے کھڑے رہے تب جا کر کہیں یہ اس قابل ہوئے ہیں ...
یہ سب فضول باتیں ہیں اگر اسی فارمولے پر بچے پڑھتے تو آج ہر بہترین پوسٹ پر بڑی ڈگریوں والے کسی مزدور کلرک ریڑھی والے کے بچے کبھی نہ ہوتے . جن کی اکثریت انگوٹھا چھاپ تھی . اور کھانے کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی .
لہذا یہ بات تو دماغ سے نکال ہی دیں کہ کہ ہمارے بچے ہماری وجہ سے یہ بنیں گے یا وہ .
اللہ پاک نے انہیں کسی نہ کسی صلاحیت سے ضرور نواز رکھا ہے .
پہلے اپنے بچے کو اعتماد میں لیں .اس سے اس کی پسند پر بات چیت کے ذریعے .
اسے کونسا میوزک پسند ہے؟
وہ کیسے کپڑے پہننا یا لڑکیاں کیسا میک اپ کرنا پسند کرتی ہیں آج کل. ..
اسے یہ مت کہیں کہ اسے یہ نہیں پہننا یا نہیں کرنا ..
بلکہ اسے کہیں کہ اگر آپ اس کے بجائے یہ پہن کر یا یہ کر کے دیکھو تو کیسا رہیگا؟
یا
یہ تم پر اور بھی اچھا لگے گا ...
کیونکہ بچہ اس عمر میں کوئی لیکچر سننے کے موڈ میں قطعی نہیں ہے اس لیئے "مت کرو " کی بجائے
"یہ کیسا رہیگا"
یا
"یہ زیادہ اچھا رہیگا " کے جملے کا زیادہ استعمال کیجیئے .
(کیونکہ یہ اسے خودمختاری اور آذادی کا احساس دلائے گا اور آپ کی بات کی جانب متوجہ کریگا . آخر کو تعریف کسے اچھی نہیں لگتی .)
ان کی اچھے کام پر تعریف کیجیئے .
دوسروں کے سامنے اس کے اچھے کام کو، عادت کو سراہیں.
پڑھائی سے بھاگتا ہے تو دیکھیں اور باتوں باتوں میں اسے یہ واضح کریں کہ
کیا بچہ اپنے مضامین سے مطمئن ہے ؟
اس پر کسی مضمون یا تعلیمی ماحول کا پریشر تو نہیں ہے ؟
کیا وہ اپنے تعلیمی ماحول کو بدلنا چاہتاہے تو اسے اس کی فراخدلی سے اجازت دیجیئے ..
ہو سکتا ہے بچہ ماں کو اس کی آرزو سمجھ کر کسی مضمون میں مصنوعی دلچسپی دکھا رہا ہے.
اسے اگر انجینئر نہیں بننا اور وہ مصور بننا چاہتا ہے تو خدارا چونکیئے مت ..
ماں باپ کی خواہش یا دباو پر
ایک برے ڈاکٹر یا انجینئر بننے سے کہیں اچھا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک اچھا مصور یا فنکار بن جائے ..
آخر کو ہر بچہ صرف ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے لیئے تو پیدا نہیں ہوا .
ہو سکتا ہے وہ اچھا جیلوری ڈیزائنر بننا چاہے ..
وہ اچھا ڈی جے بننا چاہے،
وہ اچھا آرکیٹکٹ بن سکتا ہو..
وہ اچھا گائیڈ ہن سکتا ہو..
وہ اچھا آرکیالوجسٹ بننا چاہتا ہو..
ہو سکتا ہے وہ اچھا استاد بن سکتا ہو ...
(جو کہ ہم سب والدین میں سے کوئی بھی دل سے کبھی نہیں چاہتا ہو گا۔ ذرا پوچھ کر تو دیکھیں کہ کیا آپ کا بچہ استاد بن جائے تو آپ خوش ہونگے؟ ..اکثریت فورا تڑپ کر کہے گی ہیںننننن نہ نہ نہ یہ بھی کوئی کام ہے بھلا.
ہمارے ہاں استاد وہ ہی بنتا ہے جسے کہیں اور کام نہ ملے ..جبھی تو ہماری نسل کا یہ حال ہے )
یہ اس کے اندر چھپی صلاحیت یا شوق ہے جبھی وہ اس جانب کو جھک رہا ہے ..
اسے اپنے مضامین بدلنے کا پورا اختیار دیجیئے اپنی خوشی کیساتھ .
اسے یقین دلایئےکہ
بچے کوئی تمہارے ساتھ ہو نہ ہو تمہاری ماں تمہارا باپ تمہارے ساتھ ہے .
تم جو بھی بننا چاہتے ہو پورے اعتماد کیساتھ میری رہنمائی میں بنو .
اسے احساس دلائیں کہ
ماں اور باپ سے اچھا کوئی دوست نہیں...
اگر یہ سارے فارمولے بھی ناکام ہو جائیں
اس کے آگے اس بچے کا نصیب ہے . جو کچھ نصیب میں ہے وہ اسے ضرور بننا ہے . ہاں آپ اسے اکیلا مت چھوڑیں .
میں جانتی ہوں کہ یہ ایک ماں کے لیئے کڑا وقت ہوتا ہے .
اگر بچہ اپنا امتحان دینے کے لیئے تیار نہیں ہے تو بھی اسے مجبور مت کریں ...
اسے بتائیں کہ نہ دو امتحان ۔ لیکن اس کے مشاغل سے یہ جاننے کی کوشش کیجیئے کہ وہ کن کاموں میں خوش ہوتا ہے . کیسی فلمیں دیکھتا ہے.
کیسی مصروفیت میں خوش ہوتا ہے . اسی میں اس کے مستقبل کا مضمون تلاش کیجیئے.
بچہ خود اکثر اس عمر میں سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا کر سکتا ہے..یہ عمر اس کا اپنی دریافت کا وقت ہوتا ہے اور اپنے بچے کو خود اپنی تلاش میں اس کی مدد کیجیئے .
یاد رکھیئے کہ
یہ کہیں زیادہ بہتر ہے بچہ اپنا ایک سال کھو دے،
بجائے اس کے کہ
وہ کامیاب ہونے کا اتنا دباو لے کہ آپ اپنا بچہ ہی کھو دیں. ..
-------------