ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 16 جنوری، 2017

2017 / Jan

Checkout Photo Calendar App I use https://play.google.com/store/apps/details?id=com.km.photocalendar2017&referrer=utm_source%3Dsocialshare%26utm_medium%3Dgenericshare

جمعہ، 13 جنوری، 2017

کنوارے بدھو/ کالم


کنوارے بدھو
(تحریر/ممتازملک. پیرس)
سارے کنوارو کان کھول کر سن لو دنیا میں صرف بیوی ہی کا وہ واحد رشتہ ہے جو اپنا سب کچھ اپنا حسن جوانی ،صحت  ،طاقت، سوچ، شخصیت سب کچھ آپ کی ذات پر وار دیتی ہے ..
آپ سے کچھ مانگتی بھی ہے یا بقول آپ جیسے کسی بدھو کے چھینتی بھی ہے تو آپ ہی کے لیئے،یا آپ کی ہی اولاد کے بھلے اور ان کی آسانی کے لیئے ہی ایسا کرتی  ہے.
یہاں تک کہ اکثر بقول آپ کے، سیروں  سونے کی مالک ہونے اور لاکھوں کروڑوں روپے کے لاکرز بھرے ہونے پر بھی اپنے نام پر دو کمرے کا گھر تک نہیں خریدتی. .. اور مسافروں کی طرح آپ کی اولاد کے در پر ہی مر جاتی ہے .....
دنیا میں  ماں باپ بھی ڈنڈی مار کر کسی نہ کسی اولاد کو زیادہ اور کم میں نواز جاتے ہیں ...
بہن بھائی بھی اس کے مال پر نظر رکھے اپنی اولاد کو اس کی اولاد کے مقابلے میں بھرنے کے لیئے اسے ٹھگتے رہتے ہیں اس کے حصے کے مال و متاع پر گدھ کی طرح نظر جمائے بیٹھے ہوتے ہیں ....ایسے میں صرف  آپ کی مخلص بیوی ہی آپ کیساتھ جھگی ہو یا محل ہر سانس میں ساتھی بن کر موجود ہوتی ہے.
بات یہ ہے کہ بیوی کا رشتہ کچھ دوسرے لوگوں کی ہٹ لسٹ پر رہتا ہے ہمیشہ خوامخواہ ہی ....
حالانکہ سچ یہ ہے کہ بیوی کتنی بھی بری بنا کر پیش کر دی جائے،
تب بھی
شوہر اداس ہے تو اس کی بیوی کبھی خوش نہیں ہو سکتی،
وہ پریشان ہے تو اس کی بیوی کبھی اس کی پریشانی سے بے فکر یا لاتعلق نہیں رہ سکتی..
کیونکہ یہ براہ راست اس کی اپنی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے.
وہ کنوارے جو کسی تلخ تجربے کی وجہ سے ہر طرح کامیاب ہونے کے باوجود شادی کرنے سے کتراتے ہیں ان سے ہی سوال ہے کہ
یوں تو بطور خواتین جیسے ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح دیکھا جاتا ہے،
کئی بار منگنیئوں کے بعد یا رخصتی سے پہلے نکاح کے بعد مردوں کی جانب سے ذلالتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے . اس کے بعد تو دنیا کی کسی لڑکی کو کسی لڑکے کی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہیئے ..
لیکن وہ شادی بھی کرتی ہیں .اور وفا بھی ...چند مثالوں کو ہم اپنی پوری زندگی پر لاگو نہیں کر سکتے
کنوارو
گرنا اٹھنا،
ٹھوکر کھانا،
سنبھلنا،
سب اسی زندگی کا حصہ ہیں . اب آپ یہ سب اکیلے کریں یا کسی کا ہاتھ تھام لیں ..یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے.
میں ایک ایسی عورت کو بھی جانتی ہوں کہ اس کا شوہر جب ملک سے باہر نوکری کے سلسلے میں جاتا تو اسے کبھی  پیٹ بھر کھانا کھاتے نہیں دیکھا ... دسترخوان پر اپنے بچوں کو روز سستی سبزی اور پتلی دال  کھلاتے ہوئے بھی
(کہ میاں کے پیسے بچیں گے تو وہ جلد آ کر اپنا کاروبار کریگا .کہیں نہیں جائے گا دوبارہ )
نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے رک جاتی اور کہتی...
پتہ نہیں تمہارے ابو بے نے کھانا کھایا ہو گا کہ نہیں ....دو آنسو چھلک ہی پڑتے....
اور میاں ہر بار چند ماہ میں اس بات پر لڑ کر نوکری چھوڑ کر آ جاتا کہ
یہ کیا مصیبت ہے ہر روز مرغی ...ہر روز مرغی ...
.ہم نہیں  کھاتے یہ کھانا .....
جبھی تو فرمایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے اچھا تحفہ کسی بھی مرد کے لیئے اس کی اچھی بیوی ہے .
جسے اچھی بیوی مل گئی اسے دنیا ہی میں جنت مل گئی ..
اور جسے نہیں ملی وہ جلدی جنت میں جا کر پا لے گا 
ممتازملک

جمعرات، 12 جنوری، 2017

بچے بڑے کریں غلام نہیں

بچے بڑے کریں غلام نہیں
ممتازملک. پیرس

اللہ پاک نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اورانسان نے  اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے  آگے غلام کی قطار میں کھڑا کر دیا ..جب تک یہ غلام اس کے کوکھ اور نسل سے نہ تھی اس کی یہ رعونت اور خود غرضی سمجھ میں آتی بھی تھی .. لیکن وہاں کیا کہیئے گا کہ جب اپنی ہی جنی ہوئی اولادوں کو بھی ہم نے اپنا غلام بنانا شروع کر دیا اور سمجھنا بھی شروع کر دیا .
*خبردار یہ نہیں کرنا
*چلو جلدی کرو تمہیں یہ ابھی کرنا ہے
*تمہاری یہ جرات کہ تم مجھ سے یہ سوال کرو
*میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں
*تم مجھ سے سوال کرو گے (کرو گی )کیا
*میں دیکھتا  (دیکھتی) ہوں کہ تم ایسا کیسے کرتے ہو
*دو روٹی کی اوقات نہیں تمہاری میرے بغیر
یہ اور اس جیسے بہت سے جملے ...
اگر ہم اپنی روزانہ کی گفتگوکا جائزہ لیں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی سے اپنے ہی گھر میں یہ جملے کہہ رہے ہوتے ہیں . کبھی اپنی اولاد سے، کبھی اپنے بہن بھائیوں سے، کبھی اپنے دوستوں سے ، کبھی اپنے ملازمین سے..
پہلے یہ احکامات ماں باپ کی جانب سے ہمیں  پیدا کرنے کے بدلے ہمیں سنائے جاتے ہیں ..
بڑے ہونے تک، بیاہ ہونے تک، ہر روز ان جملوں کے کوڑے سے ہماری کھال ادھیڑی جاتی ہے ..
جہاں آپ تھکے یا ذرا بیزار ہوئے وہیں سے آپ کی تمام تابعداری اور محنت و محبت پر نافرمانی اور ناہنجاری کا تیزاب  انڈیل دیا جائیگا. .
اور دوبارہ سے نیکیوں اورخدمتوں کی گنتی شروع کر دی جائیگی.
لیکن ہمیں یہ کبھی یاد نہیں رہا کہ
بچوں سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرنے والوں نے صرف غلام ہی پیدا کیئے .. ہمارے بزرگوں نے اپنی اولادوں کو صرف اپنا ہتھیار بنایا اس رویئے سے ..
اگر وہ پچھلی نسل کو پیار اور اعتماد دیتے تو آج کے والدین کی اکثریت اپنی اولادوں کو بے لگام آزادی کبھی نہ دیتی ...
وجہ ...
*جو احساس محرومی ان لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھے.
*جہاں ماں باپ نے کبھی اپنے بچوں کو گلے سے نہ لگایا
*کبھی ان کی کامیابی پر کسی کے سامنے کیا، ان کے سامنے بھی خوشی کی کا اظہار نہیں کیا
*کبھی ان کی پسند ناپسند کا خیال نہیں رکھا
*کبھی ان کی عزت نفس کا احترام نہیں کیا
*کبھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کی اجازت نہیں دی .
تو ان ترسے ہوئے بچوں کو جب اللہ نے والدین بنایا تو یہ موقع ملتے ہی اکثر اپنے بچوں کو وہ آزادی بھی دے بیٹھے جو ابھی ان کی عمر کے لیئے مناسب نہیں تھی. اور اسی سبب وہ آج کی بگڑی ہوئی نسل بن گئے ...
جبکہ جن ماں باپ نے سوچ سمجھ کر ان کی عمر کی ضروریات کے حساب سے ان سے تعلق کو دوستی میں بدل کر ان میں جھانک  کر استعمال کیا انہیں اس پر اچھے نتائج ہی ملے ہیں ..
آپ کے بچے ہمارے بچے اللہ نے ہمارے دوست بنائے ہیں نہ کہ دشمن ...
اپنے بچوں کو یہ بات بتانے اور ثابت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم  ان کی ہر دلچسپی اور تحریک میں شریک ہیں  ..ان کے مضامین چننے سے لیکر ان کے زندگی کے ساتھی تک چننے کی انہیں وہ ساری آزادی دی ہے اس کی حدود بتا کر .. کہ یہ آپ کا دائرہ ہے اس کے اندر جو جی چاہے اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کرو گے ، اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ کھڑا پاو گے.
صرف اسی طرح ہم اپنے بچپن میں اپنے  ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ  کر سکتے ہیں . جب ہماری اولاد میں وہ محرومیاں اور کمیاں پیدا ہونے سے روکی جا سکیں ..
  انشاءاللہ

منگل، 10 جنوری، 2017

شب ازل سے


تعز چھپا ہے تزل کی چادر میں جانے کب دے
شب ازل سے ..
شب ازل سے

ہمارا معاشرہ عورت کی بیچاری قبول کرتا ہے اس کی مضبوطی اور خوداعتمادی سے اسے اخلاقی ہیضہ ہو جاتا ہے .
بقول منٹو کے کہ
ہمارا معاشرہ عورت کو تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کوٹھا چلانے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ...
وجہ.....
اگر وہ عزت سے کمانے لگی تو اس کی بےچارگی پر اپنے ترس کی رال ٹپکانے  کے شوقین کہاں جائیں گے ...
اس کے ننگے بدن کو  اس کی غربت سمجھ کر مدد کے بجائے ہوس کے کیل  کون ٹھونکے  گا .....
گویا کہ معززین شہر کا "تعز" انہی فقیروں کے "مذل" ہونے پر قائم ہے ....
سچ کہا ہے شاعر نے کہ
نہ ملتا غم تو بربادی کےافسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے

سچی بات ہے ہمارا معاشرہ تماش بین معاشرہ ہے اب اس کے سامنے بندر ناچے یا کسی کی مفلسی. ..
بس تماشا ہونا چاہیئے ....
ممتازملک.پیرس

پیر، 9 جنوری، 2017

آنٹی نامہ


آنٹی کوئی رشتہ نہیں ہے لوگو
کتنے ہی عرصے کے غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم  لوگ کوئی بات نہ تو سوچ کر بولتے ہیں اور نہ ہی سمجھ کر سنتے ہیں . ہم ٹائم پاس  کرنے کے لیئے ہمیشہ جان چھڑاو کام کرنا ہی پسند کرتے ہیں .
ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں ہمیں جانے اپنے رشتوں کو اس کے رشتے سے پکارتے ہوئے کیا تکلیف ہوتی ہے . کہ ہر اپنا بیگانہ  انکل اور آنٹی کے ڈنڈے سے ہی ہانکا جاتا ہے . نہ کسی کی عمر جانتے ہیں نہ اس سے کوئی رشتے داری دیکھی جاتی ہے ...بس
جس کے دو بال سفید دیکھے
جس کا وزن ذیادہ دیکھا
جس کو ماں یا باپ کیساتھ دوست یا سہیلی دیکھا  تو سمجھ لیا بس یہ ہمارا آنٹی یا انکل ہی ہے .
کیا یہ کوئی قانون یا فارمولا ہے کہ آپ کی ماں کی دوست یا ابا کے دوست انہیں کی عمر کے ہی ہونگے ؟
کیا آپ کے والدین کے دوست آپ کے برابر یا آپ سے سے پانچ دس سال بڑے نہیں ہو سکتے ؟
پہلے پاکستان میں تھے تو اس لفظ کے فیشن میں سنا کہ انگریز اور یورپین سب کو  انکل اور آنٹی کہتے ہیں لیکن ہمیں تو آج انیس سال ہونے کو ہیں ہم نے اپنی کمیونٹی ہی میں یہ بیماری دیکھی ہے کسی بھی یورپین کو تو اس میں کہیں بھی مبتلا نہیں دیکھا .
ہم نے تو کسی کو یورپ میں آنٹی انکل کہتے نہیں سنا .
یہ وبا ہمارے پاکستانیوں میں ہی عروج پر ہے ..ہر انسان کا اپنا ایک  نام موجود ہے تو یہ زبردستی کے رشتے بنانے کا کیا مرض ہے؟ اصلی رشتے موجود ہیں انہیں اسی رشتے سے پکارا...یہ تو سمجھ میں آتا ہے پھر ہر جانے انجانے سے رشتے گانٹھنے کیوں چل پڑتی ہے ہماری کنفیوز قوم ؟؟
اتنے سال سے یورپ میں رہتی ہوں . آج تک کسی کو نہ کسی بھی یورپین، کسی بھی عمر کے مرد و زن سے نہ تو انکل آنٹی کہا نہ سنا ...
بڑی عزت سے سے نام لیتے ہی .اور جیسے ہی اپنی کمیونٹی میں داخل ہوتے ہیں ہر بوڑھی بن بیاہی ،اپنی عمر کی بچوں والی خاتون کو اور مرد کو انکل آنٹی کہہ کر یا تو اپنا احساس محرومی نکال رہی ہوتی ہے یا حسد اور جلن.
بھئی نام لینا اتنا ہی نامناسب لگتا ہے تو نام کیساتھ جی لگا دیں یا صاحب اور صاحبہ لگا دیں بہترین ہے ...
کل تک تو یہ انکل آنٹی برگر فیملیز کے چونچلے ہوا کرتے تھے لیکن اب تو
ہم نے گلی محلوں میں بھی یہ ہی حال دیکھا ہے. جبکہ اپنے رشتے سے کسی کو بلانے سے  اپنی ہی محبت اور اپنائیت جھلکتی ہے .
میں ایک سکول میں ایک کورس کے سلسلے میں کام کر رہی تھی ...وہاں پہلے روز تین سال کے معصوم سے بچے نے کہا
کیا ہم آپ کو مادام (جیسے آپ میڈم کہتے ہیں ) کہیں یا ممتاز ؟
تو میں نے کہا میرا نام ممتازملک ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ مجھے ممتاز ہی پکارا جائے ..
تو ان سب نے مجھے ممتاز اتنے پیار سے پکارنا شروع کیا کہ مجھے سچ میں ان سب بچوں اور بڑوں  سے محبت ہو گئی... 
ممتازملک

جمعرات، 5 جنوری، 2017

جج سے جرم تک


جج سے جرم تک. ...

اسلام آباد 30/12/2016

سیشن کورٹ جج راجہ خرم علی خان ....کاش میرا بس چلتا تو میں تمہیں جج کی کرسی سے گھسیٹ کر تمہاری بدمعاش بیوی سمیت  تاحیات سڑک پر بھیک مانگ کر پیاز کیساتھ روٹی کھانے کی سزا دیتی . اور ہر آنے جانے والے کو تمہیں ایک لات مار کر جانے کی سزا لازمی قرار دیتی . 

تمہارے جرائم....

دس سال کی معصوم بچی کو گھر میں ملازم رکھنا 

اسے بھوکا پیاسا رکھنا 

اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کرنا 

اس کو حبس بیجا میں رکھنا 

اس کے ماں باپ سے انسان کے بچے کی خریدوفروخت کرنا 

ایک انسان کے بچے پر ایک جھاڑو کو قیمتی سمجھ کر اسے فوقیت دینا 

ملازمہ دس سالہ بچی کو چولہے پر جلانا

اور اس کے جسم کو داغنا

کیا آپ بھی اہل دل ہیں ؟

اس ملک کا ایک  بصورت منسٹر اپنے گھر سے 70 ارب روپے کا مہا ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور دو ارب کی ہڈی منصف  یا ججہ بدمعاش کے منہ میں  ڈال کر باعزت و باکردار کا سرٹیفیکیٹ جاری کروا لیتا ہے اور ایک مجبور عورت اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے روٹی کا ٹکڑا یا دودہ کے دو گھونٹ کے  لیئے چند ٹکے چراتے ہوئے اس ملک کے ججے بدمعاشوں کے منہ پر چانٹے بننے کے بجائے 

مجرم اعلی بنا کر میڈیا پر پیش کر دی جاتی ہے . اور اس ملک کی عوام تماشے دیکھنے اور بنانے اور بننے کے شوق میں  ڈھائی ماہ کی معصوم بچی کا لاشہ اٹھائے سردی اور بھوک سے مرنے والی 

اور اسکی ماں کو عبرت کا نشان ہونا ہی چاہیئے....😢😢😢😢

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

یہ دیس ہے اندھے "منصفوں " کا

یہ تو ہوئے میرے یا مجھ جیسوں کے ذاتی جذبات ...

لیکن ہمارے ملک میں ہر پیشے کے لوگوں نے اپنی تنظیموں کے نام پر اپنے اپنے مافیاز بنا رکھے ہیں . 

ان میں آج کئی سالوں سے سر فہرست ہے وکیل مافیا اور جج مافیا .

کیا کوئی شخص ایسا ہے کہ جس کا واسطہ کبھی بھی قانونی یا عدالتی معاملات سے پڑا ہے وہ ان لوگوں کی کرپشن سے آگاہ نہیں ہے ...اور کسی بھی چور بازاری کی صورت میں یہ پولیس گردی کا عملی نمونہ پیش نہیں کرتے .

اس خاص کیس سے پہلے بھی ججوں اور وکیلوں کی ایسی ہی گھناؤنی حرکتیں  منظر عام پر نہیں آئی ہیں اور وہ سب کیسز کس کے اشارے پر دبا لیئے گیئے؟؟؟

اس کیس میں بچی کو بیچنے والے ماں اور باپ کو گرفتار کر کے دس دس سال کے لیئے جیل کیوں نہیں بھیجا گیا  ..

ایک نشئی آدمی کو نامرد کر کے اسے بچے پیدا کرنے سے معذور کیوں نہیں کیا گیا .کہ جنہیں وہ پال نہیں سکتا تھا انہیں دنیا میں گھسیٹ کر لا کر ان کا سودا کر کے نشہ کرنے کی عیاشی کا حق اسی کس نے دیا؟

اور بچے پیدا کرنے والی اس ڈائن کو ماں کی فہرست خارج کر کے یہ بچی اب تک کسی اچھے چائلڈ سینٹر کے  حوالے کیوں نہیں کی گئی؟

اس عورت کو ماں کے درجے کا مذاق اڑانے پر بیس سال قید با مشقت دی جائے . تاکہ یہ باقی عورتوں کے لیئے بچے پیدا کرنے سے پہلے انہیں پالنے والے باپ کی کمائی اور کردار کی گارنٹی بن سکے . کہ آیا اس کا شوہر بننے والا مرد اس کے بچے کا باپ بننے کا بھی حقدار اور اہل ہے یا نہیں ....

عدالت عالیہ سے گزارش ہے کہ خود کو بھی اس مقدمے میں پیش کیجیئے اور اپنے "پیٹی بند بھراوں" کو بچانے کی ناپاک  کوششوں کا قلعہ قمع کیا جائے .

اور مجرم وکیلوں اور ججوں کو قرار واقع سزائیں دیکر عوام کا اعتماد عدالتوں اور قانون کی عملداری پر بحال کیا جائے...

ممتازملک پیرس

اتوار، 1 جنوری، 2017

دعا خیر . 01/01/2017


اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں  عطافرما . ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے . پچھلے سال ہم سے جو گناہ ہوئے ان کی معافی اور جو غلطیاں سرزد ہوئیں انکی تلافی کی توفیق عطا فرما.
یااللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو دنیا اور آخرت کے ہر امتحان میں کامیابی عطا فرما.
ہماری عمروں میں نیکی کے بے شمار مواقع ،عمل کی توفیق کیساتھ برکت عطافرما.
یا اللہ ہمیں صحت ایمان اور عزت والی زندگی عطا فرما.
بے اولادوں کو نیک اور صالح اولاد عطا فرما.
شادی کے قابل لوگوں کو ہم ذہن اور ہم مزاج رشتے عطافرما .
نکاح کے ذرائع کو آسان فرما .
ہمیں ہماری زبانوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والا بنا .
یااللہ ہمارے اعمال ،اقوال  اور افعال کی حفاظت فرما. 

یا اللہ ہمیں حلال طیب اور پاکیزہ رزق روزگار فراغت کیساتھ عطافرما. 

ہمارے دسترخوان کو ہر حلال نعمت کیساتھ ہر اپنے بیگانے کے لیئے وسیع فرما دے. 
ہمیں تو اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.
یا اللہ ہمارے تمام رکے ہوئے جائز کاموں کو باآسانی مکمل فرما دے .
ہمیں کم میں خوش رہنے والا، علم سے محبت کرنے والا ،دوسروں کو معاف کرنے والا، ہر ایک کے حقوق بنا مانگے دینے والا ، ضرورت مندوں کے کام آنے والا، نیک کاموں میں  ایکدوسرے پر سبقت لیجانے والا ، ہر کام صرف اور صرف تیری رضا کے لیئے کرنے والا بنا .
ہمیں گناہوں سے نفرت کرنے والا بنا .
ہمیں دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والوں میں شامل فرما.
یا اللہ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمتوں  کے سائے میں رکھ .
آخرت کی تیاری کا ہمیں  بہترین توشہ تیار کرنے کی توفیق  عطا فرما. 
یا اللہ ہمارے گناہوں  کو معاف فرما دے .
آمین
یا رب العالمین
متمنی دعا
ممتازملک. پیرس
01/01/2017 - بروز  اتوار

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/