ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 26 دسمبر، 2016

نصاب،درسگاہ اور استاد۔ کالم


        نصاب ،درسگاہ اور استاد
تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


سنتے آئے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے .
لیکن جس گود میں یہ آنے والے وقت کے بچے پلنے ہیں اس بچی کے پیدا ہونے سے لیکر صاحب اولاد ہونے تک خود وہ بچی کن کن امتحانات سے گزاری جاتی ہے اور کیسے پروان چڑھائی جاتی ہے اس پر کوئی لب کشائی کرنا ضروری  نہیں سمجھتا . کہنے والے نے پھر بھی کہا کہ
" تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں اچھی قوم دونگا "
لیکن  پھر بھی ہم ایشیائی   یا جنوبی ایشیا اور افریقہ کی عورت کو پیدائش کے بین اور بچپن کی گھرکیوں اور ٹھڈے جبکہ جوانی کا ایک جبری رشتہ بطور شوہر کے ہی ملا ...
اب اس جبری رشتے سے پیدا ہونے والی نسل کو کون کس خیال سے پروان چڑھائے گا یہ اندازہ  ہمارے معاشروں میں پھیلے ہوئے بے ترتیب، بے ڈھنگی، زندگی گزارتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ  کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ...
پھر اس پر یہ غضب بھی ڈھایا گیا کہ جو کام حکومت کے ذمے تھا کہ اچھی قوم بنانے کے لیئے ان بچوں کو اچھا سکول سسٹم ،اچھا متناسب یکساں تعلیمی نصاب ، خوشگوار اور کارآمد تعلیمی ماحول ،مہربان ، شفیق اور قابل اساتذہ، پر اعتماد ہنر مند مستقبل ،
فراہم کیا جائے.  لیکن حکومتوں کی بے پروائی اور پرائیویٹ سیکٹر کی تعلیم کو کمائی کی انڈسٹری بنانے کی سوچ نے ہماری پوری نسل کو ایک چابی کا ٹٹو بنا دیا. نہ انہیں چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز ہے ،نہ ان میں مطالعے کا شوق ہے،نہ انہیں کوئی باخبر رہنے اور معلومات عامہ سے کوئی لگاو ہے  .اور کچھ کو منہ مروڑ کر انگریزی بولنا ہی دنیا بھر کے علم کا نعم البدل لگتا ہے .

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ 80ء اور 85ء کے سن میں اگر 1100 میں سے بھی کوئی آٹھ سو نمبر لے لیتا تھا تو سمجھ لیں کہ سارے زمانے کا علم اور قابلیت اس کے پاس ہوتی تھی . اور آج جسے پوچھو وہ گیارہ سو میں سے پانچ یا دس نمبر کم لیکر ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ
اقبال کا مزار کہاں ہے؟
یا
قائد اعظم کا اصل نام اور جائے پیدائش کہاں ہے ؟
تو جانئے جیسے ان سے جانکنی کے لمحات کی تفصیل پوچھ لی گئی ہو ...
کبھی ان سے جاں کنی کے مطلب پوچھ کر دیکھیئے گا ...
 سو واضح رہے کہ والدین کو پرورش کا ذمہ دار قرار دینے والے بھی جانتے ہوں گے کہ 
بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف وہ والدین ہی اچھی کر سکتے ہیں جن کی اپنی پرورش محبت، سچائی اور اعتماد کی فضاء میں ہوئی ہو ...
ورنہ دوسری صورت میں انہیں  اپنے خوف، اپنے درد چھپا کر اور دبا کر اپنے بچوں کو  پروان چڑھانا ہوتا ہے .سو ان کے ہاں بھی اپنا نفسیاتی معائنہ اور رہنمائی لینا بے حد ضروری ہوتا ہے ...
اب یہ سب ہونے کے  بعد باری آتی ہے اساتذہ کی .
کیا وہ اتنے اہل ہیں؟ کیا وہ  پروفیشنل ٹیچنگ کے عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں ؟
سفارشی لوگ اور نوکری کہیں  نہیں ملی تو " چلو استاد بن جاؤ " کی سوچ رکھنے والے لوگ استاد کے نام پر دھبہ ہیں .
تیسری بات ہمارا نصاب جسے ازسر نو معنی اور مطالب کیساتھ ایک جیسا مرتب کرنا ہو گا . جو نیچے سے اوپر تک ہر بچے کے لیئے ایک سا ہو ،تبھی اس قوم میں یک رنگی اور ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے .
سو یہ نصاب کا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسا بدن میں خون کا کردار ..
تو جب خون ہی فاسد ہو جائے تو اس بدن کو کیا تقویت دیگا، بلکہ  اسے موت تک لیجائیگا .اصل بات یہ ہی  ہے کہ 
دینی تعلیم کے لیئے سب سے بڑا نصاب تو ہمارے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجے سجائے جلدان میں موجود ہے جناب ..
قرآن سے بڑا بھی کوئی نصاب ہو گا کیا؟ ...اور پھر احادیث کے لیئے صحیح مسلم و بخاری سے زیادہ کوئی مستند کتابیں نہیں ہیں ..
ہمارے ہاں اول تو مذہب کے ان ہی حصوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے پیش کرنے والے کو اپنا کوئی مفاد اس میں نظر آئے. اس سلسلے میں پیش کرنے والے کو اپنے مطلب کی کوئی بات نہ ملے تو گھڑ کر سنانے میں بھی کوئی شرم حیا انہیں بلکل درکار نہیں ہے . اس لیئے کوئی بھی حدیث پاک یا آیات مبارکہ سننے کا موقع ملے تو صرف یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دین، دین فطرت ہے . اور جو بات فطرت سے ٹکرائے گی . وہ ہمارے دین کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی . اسی لیئے
بہت سے واقعات مذہب کے نام پر گھڑے گئے ہیں . لوگوں کی عقیدت اور اندھے اعتقاد کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کے لئے انہیں ہر مذہب میں آلہ کار بنایا گیا ہے ..
لیکن یہ مشکل صرف اسلام کی نہیں ہے.
دنیا کے ہر مذہب کے ٹھیکیدار نے یہ کام کیئے ہیں اور دھڑلے سے کیئے ہیں ...

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نام پر ایک الگ ملا مافیا کام کر رہا ہے اور جدید تعلیم اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ لوگ دو سسٹم نہیں بلکہ چکی کے  دو پاٹوں میں پس رہے ہیں .
سرکاری سکولوں کو ہی دینی تعلیم کا پیریڈ رکھنا چاہیئے . اور ہنڈی  کرافٹ اور دستکاری کے پروفیشنل اساتذہ کیساتھ سکول کے آخری دو گھنٹے مخصوص کیجیئے .
اور سب سے اہم بات دین کا مذاق بند کر کے اپنے گھر کا سائیں بچہ اللہ کی راہ پر زبردستی لگا کر طالبان اور داعش پیدا کرنے کی بجائے . کم از کم میٹرک کے بعد دین کا شوق رکھنے والے بچے اور بچی کو اس راہ میں پڑھائی پر لگایئے . تبھی ہم اچھے مسلمان کی اصطلاح سے انصاف کرنے کا سوچ سکیں گے .
جس انسان کو دنیاوی علم سکھا دیا جائے ہنر سکھا دیا جائے . جس سے وہ عزت سے روزی کما سکے اور اپنی کنبے کو پروان چڑھائے تو اس کے ہر لقمے پر اس تعلیم کا انتظام کرنے اور کروانے والے کے لیئے بے شمار صدقہ جاریہ کا وعدہ ہے . بیشک اللہ پاک  ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین


■ محرم بنن لئی / پنجابی کلام ۔ او جھلیا


محرم بنن لئی

اک میرا محرم بنن لئی
کئی نامحرم تیار جے

پرجناں دے محرم اے ہوندے
نہیں اناں دے سچے یار وے

جتھے ایناں نوں ہوناں چاہیدا
اوتھے چولاں جاندے ماروے

اے کسے دے اپنے ہوندے نئیں
نہ کرن اے سچا پیار وے

چھڈن  لمیاں عشق اندر
اوتوں لمیاں لمیاں ماردے

ایہہ دو چھلاں نہ سہہ سکدے
نہ لان کسے نوں پار وے

سچ پچھو تے ہورکی دسیئے جی
نہ گھر دے نہ اے بار دے

ممتاز نہ کول جے قدر کوئی
کلے ہون تے واجاں ماردے
●●●

دوسری بیوی یا دوسری عورت۔ کالم





دوسری بیوی یا
 دوسری عورت
تحریر:
(ممتاز ملک. پیرس)





ہماری زندگی کا سچ یہ ہے کہ جہاں جذبات نہیں رہتے وہاں صرف روبوٹ رہا کرتے ہیں ..کسی نے کہا کہ جذبات بیکار شے ہیں ان کیساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی .
آپ کی بات مان لیں کہ جذبات  ایک بیکار شے کا نام ہے جس پر کوئی نظام نہیں چل سکتا تو اللہ نے یہ بیکار جزبہ پیدا ہی کیوں کیا ؟عورت کو مسئلہ کہنے والا نہ انسان ہے نہ مسلمان. دنیا کی پہلی فرمائشی تخلیق عورت ہے ....
دنیا میں اللہ کے بعد تخلیق کی ذمہ داری عورت کو انہیں جذبات کے بل پر دی گئی . عورت ہی دنیا میں آنے کے بعد شفقت  اور محبت کی پہلی علامت کسی بھی انسان کے لیئے  ہوتی ہے اور اس کی بنیاد ہیں اس کے جزبات. ایک خاتون نے ایک بحث کے دوران  مرد کی دوسری تیسری اور چوتھی شادی کی بڑے دھڑلے سے وکالت کی کہ یہ اللہ کا "حکم" ہے اس میں عورت کو ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے لیئے شادی بلکہ شادیوں کی ایسی مثال  اور " حکم" کی بات پر باقاعدہ برا بھی مان گئی اور ذاتیات ذاتیات  کا رونا رونے لگیں . تو ہم نے کہا کہ بی بی عورت کو ہلکان ہونے کی ضرورت اس لیئے ہے کہ سڑک پر بچوں کی لائن لیکر وہ کھڑی ہوتی ہے مرد نہیں . دربدر عورت ہوتی ہے مرد نہیں . برا نہ مانیں تو آپ کو بھی ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ نے اپنے میاں کی کتنی مزید شادیاں کروائی ہیں، دو دو یا تین تین ..آپ تو شاید کماتی بھی ہیں پھر دل تو کافی بڑا ہو گا آپ کا۔ ہم جیسی عام عورت مرد کو یہ حق دینے میں مجاز نہیں تو خلع لیکر اپنی زندگی اپنی مرضی سے کسی اور مرد کیساتھ شروع کرنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق رکھتی ہے اور اس میں ہمارا کوئی باپ بھائی یا شوہر بات کرنے کے یا اعتراض کا کوئی حق نہیں رکھتا...
موصوفہ کے مطابق مردوں کو اس کی "اجازت کا حکم" ہے۔۔۔"اجازت کا حکم "تو  آپ کی نئی اختراع ہے ..اسے اپنی فرمائش کہیں تو اچھا ہے۔ دین کا حلیہ کیوں بگاڑ رہی ہیں . اور آدھی آیت یا آدھی حدیث بیان کرنا بڑی گمراہی ہے . اس آیت اور اس سے متصل آیت کے اگلے حصے کو مکمل کیجیئے..(اور نکاح کرو ایک ایک  دو دو اور تین تین لیکن عدل کیساتھ ... اور سمجھو تو تمہارے لیئے ایک ہی کافی ہے کیونکہ تم عدل نہ کر سکو گے )
یہاں اجازت دی گئی ہے . اور آگے اس اجازت کی شرائط بھی بیان کی گئی ہیں ..اسے کیوں بیان کرنے کی زحمت نہیں فرمائی  جاتی؟ وگرنہ معاشی اور اخلاقی اعتبار سے تو ایک بیوی اور دو تین بچے بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہے ہمارا آج کا مرد . جبھی اللہ پاک نے ہی  یہ فرما کر بات پوری کر دی کہ "اور میں جانتا ہوں کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے۔ سو تمہارے لیئے ایک ہی بیوی بہتر ہے "۔ اب اگر اسلامی مثال ہی دینی ہے تو ...
*کیا صحابہ کرام کی بیگمات نے بہت مالدار زندگی گزاری ؟
*کیا وہ اپنی بیویوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے؟
*کیا ان کے پاس ہر بیوی کو دینے کا ذاتی مکان تھا ؟
*کیا ان کے بچے ان کے خرچ پر بیس بیس سال تک تعلیم حاصل کرتے تھے ؟
اور سب  سے خاص بات ...
*کیا صحابہ نے جیسے صبر شکر پر بیویاں رکھیں ، کیا آج کی کوئی دوسری یا تیسری بیوی بننے کی شوقین خاتون بھی رہ سکیں گی ؟
*کیا یہ خود اپنی ذمہ داری پر کسی سے بچے پیدا کر کے اسے پالیں گی .
* بنا خرچہ مانگے.. اس کی پہلی بیوی کی مشقت سے بنائی جائیداد میں اپنا اور اپنے بچے کا حصہ ڈالے  بنا خوشی سے زندگی گزار لیں گی ؟
کیونکہ آج اگر واقعی کوئی خاتون  محض شوہر کا رشتہ نام کو ہی  مانگ رہی ہے تو کل کو اسے چوبیس گھنٹے وہ اپنے  قدموں میں بھی چاہیئے
* پھر وہ اسے روز فرمائشیں پوری کر کے دے .
*اس کو گھر لیکر دے .
*گاڑی بھی الگ لیکر دے،
*اس کو زیورات کے تحفے دے .
*اسے ماہانہ منہ مانگا خرچ دے .
(بڑے مطالبات اور رولےشروع ہو جاتے ہیں )
*پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف عورت کا مرد کو دوسری شادی سے منع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ  مرد بھی معاشی لحاظ سے  آج کسی بیوی کو کجھور اور حجرے میں تو نہیں رکھے گا نہ عورت رہے گی ...
*دوسری بات کہ کتنے مرد ہیں جو کم صورت ، ان پڑھ ، مطلقہ،  اپنے سے بڑی یا ہم عمر ہی سے  شادی ہر تیار ہیں؟
"دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک دکھا دو
جس مرد کی آنکھوں میں کوئی ایسی حیا ہو
ہم  نے ایسی کئی تیس پینتیس سال کی خواتین دیکھی ہیں.جو کنوارے مرد کے علاوہ کسی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں . اب کوئی ان سے پوچھے کہ کتنے تیس سے چالیس سال کے مرد ان کو کنوارے ملیں گے ...
عموما اٹھائیس  تیس تک وہ بھی شادی کر چکے ہوتے ہیں .
اور دوسری شادی کے خواہشمند مردوں میں سب سے
* پہلا اور حقیقی حق بدکردار بیوی والوں کا...
*دوسرا حق
پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے والوں کا ہے .
*تیسرا حق بدزبان بیوی ہو جبکہ خود بااخلاق اور اچھے زبان و کردار کا ہو تو. ..
جو خواتین بڑے اونچے معیار کے آئیڈیل کی تلاش میں اپنی شادی کی عمر گنوا چکی ہیں انہیں دوسروں کے شوہروں پر حریص نظریں ڈالنے کی بجائے پہلے سے طلاق یافتہ ، رنڈوے یا بے اولاد دوسری شادی کے خواہشمند لوگوں کی جانب متوجہ ہونا  چاہیئے . اور اگر اولاد والے بھی ہیں تو اسے بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے .
دوسری شادی میں اگر خاتون یا صاحب پہلے سے کوئی اولاد رکھتے ہیں تو  نئے ساتھی کو اللہ کی رضا کے لیئے انہیں بخوشی اپنانا چاہیئے۔ کوئی کام تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیئے ہونا چاہیئے . اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو بھی نئی ماں یا باپ کے سوتیلے پن کا خوف اور ہوا ان بچوں کے ذہن میں نہیں پیدا کرنا چاہیئے، بلکہ ان کے دل کو نئے رشتے کے لیئے محبت اور احترام کیساتھ نرم کر کے اپنے نیکی کے موقع کو اپنے نام سے اللہ کے ہاں درج کروانا چاہیئے . اپنی عمر سے دو چار سال  بڑے انسان کو اپنا کر خاتون اپنے لیئے نفسیاتی طور پر تحفظ محسوس کرتی ہے . شادی کی عمر پار کرتی خواتین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے ناکہ بسے بسائے ہنستے مسکراتے گھروں پر ڈائن بن کر پنجے گاڑنے چاہئیں۔ انہیں باتوں کے سبب وہ دوسری عورت کے لیبل سے جان نہیں چھڑا پاتی کیونکہ اوپر بیان کی گئی وجوہات سے آنے والی عورت دوسری عورت نہیں کہلاتی . صرف بسے ہوئے گھر میں زبردستی داخل ہونے والی عورت تادم مرگ  دوسری عورت ہی رہتی ہے .

جمعہ، 16 دسمبر، 2016

● چھوٹا منہ بڑی بات/ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


چھوٹا منہ بڑی بات
تحریر: ممتازملک.پیرس 


کبھی کبھی بچوں کے منہ سے بھی اللہ پاک بڑی بڑی معرفت بیان کروا دیتا ہے . جیسا کہ ہمارے صاحبزادے سات برس کی عمر میں ایک دن اپنی ہی جون میں بیٹھے مخاطب ہوئے ...
ماما جی آپ کو پتہ ہے یہ دنیا کیسے بنی؟ ...
میں نے پوچھا کیسے بنی ؟
اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگی.
وہ بات جو شاید اس سے پہلے مجھے کوئی اتنی اچھی طرح نہیں سمجھا سکا وہ بات مجھے اس کی ایک بات سے سمجھا دی  ...
پہلے ایک لمحہ توقف فرمایا اور پھر بڑی متانت سے بولے ..
پہلے یہ دنیا صرف پانی کا ایک بلبلہ تھی، جب اللہ نے چاہا کہ اس پر دنیا بسائے .تو اس پر زمین کی (خاک کی)ایک تہہ بچھا دی. 🤔🤔🤔
●●●
                تحریر:ممتازملک۔پیرس
            مجموعہ: چھوٹی چھوٹی باتیں 
                         ●●●
 



ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

دعا ۔ ایسی مثال دے

             
ایسی مثال دے
کلام/ ممتازملک. پیرس)

ہر چیز تیرے عشق میں ایسی مثال دے
بجھتے دیئےمیں جیسےکوئی تیل ڈال دے

جب سوچتا ہے دل تیرے بے پایاں فضل کو
دھڑکن نکل کے وجد میں آکر دھمال دے

ہر ایک گام  پاؤں میں زنجیر ضبط کی
وہ ہی تو  مشکلات سے آ کر نکال دے

تجھ سے تیرے کلیم کا صدقہ ہی مانگ لوں
تجھ تک پہنچ سکے وہی لفظی کمال دے

نہ چھوڑ مجھ کو وقت کی دہلیز پہ تنہا
گرنےلگوں توبڑھ کے مجھے بھی سنبھال دے

میں ہوں سیاہ کار مگر تو ہے مغفرت
انصاف کی نہیں مجھے رحمت کی ڈھال دے

دامن ہے مختصر تیری رحمت دراز ہے
ممتاز کو کوئی بھی نہ ہلکا خیال دے

       ...........
                       
Add caption

اتوار، 4 دسمبر، 2016

کل اور آج کی دوری مٹائیں


اگر اپنے بچوں کو ہمیشہ اپنے نزدیک رکھنا چاہتے ہیں تو
انہیں اپنے عہد میں مت لے جائیں ،
بلکہ ان کے عہد میں جینا سیکھیئے ،
تاکہ آپ انہیں قدیم دور کی یادگار نہ لگیں بلکہ انکے دور کے ساتھی لگیں .جن سے وہ مشاورت کر سکتے ہیں اور جن کے تجربات کو آج  کے وقت میں جدید انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے.
ممتازملک. پیرس

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ہمارے بچے ہمارا امتحان/ کالم




کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو یہ امید بھی ساتھ لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے ناامید نہیں ہوا ہے . تو گویا ایک انسان کی پیدائش رب کی امید لیکر آتی ہے اور یہ امید یقینا خیر کے کام کی ہی ہو سکتی ہے،  بے خیری کی تو ہو  نہیں سکتی . کیونکہ یہ امید تخلیق کار   کی اپنی تخلیق سے ہے . 
ہم بار بار اللہ کے بعد اسے دنیا میں  لانے والے کے حقوق تو زورشور سے بتایا ہی کرتے ہیں. لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والا کوئی چھ فٹ کا کماتا  ہوا طاقتور جوان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا ایک تین کلو کا معصوم سا وجود ہے جو اپنی ہر ضرورت کے لیئے آپ کی مدد کا محتاج ہے . تو اس کی مدد کیسے کی جائے ؟

اس بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے خود کو ذہنی جسمانی اور مالی طور پر اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لیئے تیار کیا جائے  اور بچے کو اندھیرے کا تیر سمجھ کر نہ چلایا جائے بلکہ اس کو اس معاشرے کا، بلکہ دنیا کا ایک بہترین فرد بنانے کے لیئے ہر ممکنہ سہولت دی جائے . محبت اور اعتماد کی کھاد اس کی جڑوں میں ڈالی جائے . انصاف کی فضا اپنے گھر سے میسر کی جائے .
جہاں اس کا حق اس کے مانگے بنا ملے گا اور کوئی بہن بھائی یا ماما  چاچا اس کی زندگی کا دخیل نہیں ہو گا تو بچہ بھی کل کو آپ کو ہی نہیں  ساری دنیا کو اس کے حقوق بنا مانگے دینے کا اہل ہو گا .
ہمارے ہاں ہمیشہ بچوں کو یہ سکھانے پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کے یہ حقوق ہیں، باپ کے یہ حقوق ہیں ، بہن بھائیوںکے یہ حقوق ہیں، 
تمہارے انکی طرف یہ فرائض ہیں،وہ فرائض ہیں ..
یہ نہ کیا تو جہنم میں جاو گے....
وہ نہ کیا تو برباد ہو جاو گے..
اور باپ کے حقوق تو مائیں ویسے  بھی بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتیں ہیں . حالانکہ ماں اگر جنت ہے  تو اس جنت کا دروازہ تو ہوتا ہی دراصل اس کا باپ ہے . اور ہماری مائیں اپنے بچوں کو بغیر دروازے کی جانے کون سی جنت میں داخل کرنے کا منصوبہ بناتی رہتی ہیں . جس کے لیئے باپ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے . اور تو اور ایسے میں کبھی کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس بچے کے اس کے پیدا کرنے والے پر بھی کچھ حقوق ہیں . جو انہیں بھی جہنم میں لے جا سکتے ہیں .  آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہ کرتے ہیں. جبکہ عورتوں اور بچوں کے حقوق اور حفاظت کی بارہا تلقین فرمائی  گئی ہے . 
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن پاک کو تعلیمی اور تربیتی نقطہ نظر سے نہ کبھی دیکھا گیا ہے نہ ہی اس سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے . 
اسے صرف ڈرانے اور کم علموں کو دبا کر ان سے فوائد حاصل کرنے کے لیئے ہی استعمال کیا گیا ہے . ورنہ ہماری زندگی کا ایک ایک پل اس کی روشنی میں منور ہو سکتا ہے .
ہمارے ہاں عورت اور بچے جس قدر غیر محفوظ ہیں وہ ایک خوفناک صورتحال ہے . کسی بھی خاتون کو رات کیا دن میں کہیں اکیلا (لاکھ پردے میں ہی) کھڑا کر کے دیکھ لیں ....
کسی بچے کو کھڑا کر کے دیکھ لیں ...کیسے گوشت کی بو سونگھتے کتے کی طرح ان کے شکاری پہنچتے ہیں ...
بچے پیدا کرو، یہ تو  ہمیں معلوم ہے لیکن کتنے  پیداکرو ،کہ پال سکو،  یہ کہہ دے کوئی تو سمجھیئے، اپنا ہی سر منڈوانے والی بات ہے . تربیت تو بہت دور کی بات ہے . ہمارے ہاں بچہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہماری جاگیر ہوتا ہے ..سو اسے جاگیر کی طرح ہی برتا بانٹا اور کاٹا جاتا ہے .
اللہ پاک ہمیں بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا شعور عطا فرمائے.
یاد رکھیئے ماں باپ کا حق بعد میں شروع ہوتا ہے اس سے پہلے ہم پر بچے کا حق لاگو ہوتا ہے .
جس میں یہ شامل ہے کہ ہم اسے محبت اور حفاظت کیساتھ اچھا طرز ذندگی اور تعلیم و تربیت دے سکیں .
اور اسے یہ بتا سکیں کہ کب ،کہاں کس ، سے ،کس طرح بات کرنی ہے اور کس سے کیسے اور کتنا تعلق رکھنا ہے . اس کی خوشیوں کو اپنی خوشی کی طرح محسوس کیا جائے اور  اسکی  پریشانیوں کو محبت سے  اپنے تجربات کی روشنی میں مشاورت سے حل کیا جائے. 
  ورنہ روز قیامت ہمارے گریبان کو ہمارے بچوں  کے معصوم ہاتھوں سے کوئی  نہیں بچا سکتا .
        ممتازملک. پیرس

جمعرات، 1 دسمبر، 2016

ادھوری اڑان

ادھوری اڑان
ممتازملک. پیرس

اس دنیا میں جہاں مرد طاقتور ہے ،خود مختار ہے ،عقلمند ہے ...
وہاں کتنی عجیب بات ہے کہ اسے کمزور ، بے عقل اور بیوقوف عورت سے ہی  کسی نہ کسی رشتے میں  معافی چاہیئے . اپنی اڑان کو اور اونچا  اڑانے کے لیئے ...کہ اڑان کو اس معافی کے بنا وہ مکمل ہی نہیں کر سکتا ...
☆کہیں باپ ہے تو اس کی بیٹی اس پر اپنی شادی اور زندگی گزارنے کا حق معاف کر دے.اس کے غرور کو بلند کرنے کے لیئے ....
☆کہیں بہن ہے تو اس پر اپنی جائیداد کا حق معاف کر دے ، بھائی کا شملہ اونچا کرنے کے لیئے ...
☆بیوی ہے تو اس کے ساتھ رہنے کے لیئے اپنا مہر معاف کر دے ....
اور اگر اس سے آزادی چاہتی ہے تو اس کے لیئے اس کا ہر محبت کے دعویداری لمحوں کا تحفہ اور تحفظ کے نام پر دیا گھر بار معاف کر دے ..
☆ماں ہے تو اپنے بچوں کے باپ پر بچوں کی زندگی کا ہر اچھا برا  فیصلہ معاف کر دے ...

اور اولاد کو اس کی ہر زیادتی اور گستاخی معاف کر دے ..
ہر بار ایک کمزور ایک طاقتور کو معاف کر دے تاکہ اس کی سلطنت قائم رہے ..یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ جس مٹی سے اناج اگا کر ہم زندہ ہیں اسی مٹی کے کلیجے پر جب چاہے چھلانگیں لگا لیں پھاوڑے چلا لیئے .....
ممتازملک. پیرس

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/