ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 14 جون، 2014

سوچیئے سوچیئے ؟


 سوچیئے سوچیئے ؟
ممتازملک۔ پیرس


پاکستانیوں کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ رہی ہے کہ اول تو یہ ووٹ کرتے وقت اپنی عقل کو استعمال کرنے کی تکلیف کرنے کی بجائے اپنی مالکوں ۔، سرداروں ، چودھدریوں جاگیرداروں کی عقل سلیم پر اعتبار کرنا پسند فرماتے ہیں اور جب جیتنے کے بعد یہ ہی لوگ  اپنے مطلب نکالنے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور حکومتیں انہیں بھگو بھگو کر مارنا شروع کرتی ہیں تو انہیں ہوش آتا ہے ۔ لیکن کہتے ہیں کہ
 اب پچھتاوے کیا ہووت 
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت 
 اب کی بار بھی جب کہا گیا کہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ، الیکش دو چار ماۃ ڈیلے بھی ہو گئے تو کوئی بات نہیں، ایمانداراورشفاف تو ہونگے ،تو کئی ناعاقبت اندیشوں نے کہیں اس بیان کا مذاق اڑایا، تو کئی لوگوں نے ذاتی مفادات کی آڑ میں علامہ صاحب کی شان میں گستاخیوں سے بھی پر ہیز نہیں کیا ۔ 
اب بھی کچھ ایسا ہی نظارہ پیش ہوتا نظر آ رہا ہے  لیکن یاد رکھیں ملک اس وقت جس اندرونی اور بیرینی انتشارمیں گھراہوا ہے۔ یہ ملک اس بات کا بلکل متحمّل نہیں ہو سکتا کہ اس کے ساتھ کوئی سیاسی مذاق کیا جا سکے ۔ پاکستان کے دشمن ہر محاذ پر پنجے تیز کیئے وار کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ ایک صحافی پر ہونے والے حملے اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی سے یہ معاملہ ایک خطرناک شکل اختیار  کرتا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف جو کہ پہلے ہی ایک صوبے میں اپنا انتظامی ڈھانچہ بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسے مذید صوبوں پر حکومت کرنے کا شوق چرارہا ہے ۔ جناب عالی پہلے اس ایک صوبے میں تواس قابل کام کر کے دکھائیں کہ باقی ساراملک بھی آپ کو اپنے ہاں کام کرنے کا خود موقع دے ۔ ایک سال میں آپ نے وہ کون سا کمال کر دیا ہے کہ اب آپ باقی ملک پر حکومت کے قابل ہو گئے ہیں ۔ پچھلی حکومت نے پانچ سال عیش کرتے کرتے گزارے اور آخری مہینے بلکہ آخری ایّام حکومت میں فیتے اور ربن کاٹتی نظر آئی اور عوام بھی گھوڑے گدھے بیچے سوتے رہے۔ ملک سے آٹا غائب ، چینی غائب روزگار غائب ، تحفظ غائب اورعوام صمُُّ بُکمُُ  کی عملی تفسیر بنی رہی ۔ جب کہ مُسلم لیگ نون کی حکومت آئ تو بہت سارے الزامات کے سائے میں اور ایک سال تک انہیں سارا پھیلا ہوا کچرا سمیٹنے میں لگ گیا ۔ اب جب کہ ملک بھر میں نئے ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان شروع ہو چکا ہے۔ تھرمل بجلی پراجیکٹ ، ڈیمز کی منظوری ، پاور پلانٹس کی ابتداء ، سڑکوں کی تعمیر اور بھی درجنوں منصوبے جنکا آغاز کیا جا چکا ہے ۔ ان سب کو مکمّل کرنے کے لیئے کم از کم بھی دو سال مزید دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت الیکشن کی ہانک لگانے والے کیا یہ بتانا پسندکرینگے کہ ان انتخابات میں خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں سے آئینگے ۔ ایک سال میں وہ کون سی گیدڑ سنگی ان کے ہاتھ آ گئی ہے جو ملک کے سارے مسائل کو تو راتوں رات حل کر دے گی لیکن جس صوبے کی حکومتیں ان لوگوں کو  ملی ہیں ۔ ان میں ایسا  کوئی کمال کیوں نہیں دکھایا گیا ۔
 سوچیئے سوچیئے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/