ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 14 جون، 2014

کوئی جا کے ماں لے آئے ۔ کالم



کوئی جا کے ماں لے آئے 
(ممتازملک۔ پیرس)


 لالہ لالہ لوری دودہ کی کٹوری 
دودھ میں پتاشہ منّا کرے تماشا 

جانے کب وہ مُنّا بڑا ہو جاتا ہے اس کی رگوں میں خون کی تیزی ماں کی آنکھوں میں ایک عجیب فخریہ چمک پیدا کر دیتی ہے ۔ اسے ایک نئی توانائی عطا کر دیتی ہے ۔ پھر اس منّے کو دنیا سے محبت ہوجاتی ہے ۔ وہ دنیا دار ہو جاتا ہے اسے ماں کی روک ٹوک چُبھنے لگتی ہے ۔ اسے ماں کی نصحتیں بیزار کر دیتی ہیں وہ سوچنے لگتا کہ کیا مصیبت ہے اس بڑھیا سے جان کیوں نہیں چھوٹتی ہر وقت نصیحتوں کی پٹاری کھولے بیٹھی رہتی ہے ۔ کیوں میرے عیش کے راستے میں حائل ہوتی ہے ۔ اس وقت پر تو ایسے بدنصیب یہ بھی سوچنے لگتے ہیں کہ یہ مر کیوں نہیں جاتی۔ اب میں جوان ہو چکا ہوں ماں کو باپ کو اب اس دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے ۔ کئی لوگ میری بات سے اختلاف اس لیئے کرینگے کہ انہیں ایسا دیکھنے یا کرنے کا اتفاق نہیں ہوا ہو گا، یا پھر ان میں اتنا اخلاقی حوصلہ نہیں ہو گا کہ وہ ایسے دور سے گزرنے  کے بعد اسے قبول کر سکیں ۔ لیکن کیا کریں ہزار بار برا لگنے کے باوجود وہ کون سے لوگ ہیں جن کی ماں آنکھیں پونچھ پونچھ کر راستہ دیکھ دیکھ کر اندھی ہو جاتی ہیں ۔ وہ کن کی مائیں ہیں جو سارا سال دو جوڑوں میں گزار دیتی ہیں باوجود کہ اسکا بیٹا بہترین کمائی کر رہا ہے۔ اس کی بہو ہزاروں روپے  کے ایک ایک جوڑے میں نظر آتی ہے ۔ وہ کن کی مائیں ہیں جو سٹیشن کے پلوں پر دوپٹہ پھیلائے ویران  آنکھیں لیئے دو روٹی کے لیئے ایک ایک سکّہ مانگ رہی ہوتی ہیں وہ کس کی ماں ہوتی ہے  جو اپنے بچے کو سوکھے پہ سلا کر خود گیلے پر سوتی رہی لیکن جب اسے ضرورت پڑی تواس کے پاس سرد راتوں میں پہننے کو گرم کپڑے نہیں ہوتے ۔ وہ کس کی ماں ہوتی ہے جسکے پاس لکھ پتی بیٹا تو ہے مگر دوائی کے پیسے نہیں ہیں وہ کس کی ماں ہے جسکو گھر میں امیر بیٹا اپنی بیوی کے عشق میں  شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مہمانوں سے نوکرانی کہہ کے متارف کرواتا ہے ۔ وہ کون سی ماں ہے جسے بیٹے کو اپنی کوئی بنیادی  ضرورت کی بات بتانے کے لیئے بھی کتنے دنوں تک سوچنا پڑتا ہے اور اسکے موڈ کو دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ وہ کون سی ماں ہے جسکا بیٹا اس کے جعلی انگوٹھے لگوا کے  یا دھوکے سے بیان دلوا کر اس کے چھت بھی اپنے قبضے میں کر لیتا ہے، وہ کون سی ماں ہے جس کا بیٹا راتوں رات اسکا گھر بیچ کر پیسے جیب میں ڈال کر فرار ہوجاتا ہے اور ماں اگلے دن کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہوتی ہے ۔ وہ کیسی ماں ہوتی ہے جسکا بیٹا اسے اسی کی بےخبری میں کسی بیرون ملک رہنے والے کے ہاتھوں ایک  نوکرانی کے طور پہ بیچ کر پیسے کھرے کر لیتا ہے ، وہ کون سے ماں ہے جس کا بیٹا ہی اپنی ماں پر غلیظ ترین الزامات لگا کر اسے بہتان تراشی کی زمیں میں جیتے جی گاڑھ دیتا ہے ۔ اور وہ کون سی ماں ہوتی ہے جس کا بیٹا اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیئے کبھی اپنے باپ سے پٹواتا ہے اور کبھی خود اس کی چٹیا پکڑ کر اس کے منہ پر تمانچے مارتا ہے ۔ جو خود تو اےسی میں پڑا ہے اور ماں ایک ننگی چارپائی پر سٹور روم میں ٹوٹے فرنیچر کا حصّہ بنی ہاتھ سے پنکھا جھل رہی ہوتی ہے کیوں کہ بجلی کا بل بہت آتا ہے ۔ بیوی چولہے پر روٹی بنا کر کیوں کالی ہو۔ ماں کو کسے خوش کرنا اس عمر میں، کہ روٹی نہیں بنا سکتی ۔ یہ تو اس ماں کا فرض ہے کہ بہو دن بارہ بجے سو کر اٹھے تو سارا گھر ماں نام کی اس نوکرانی کو صاف کر چکا ہونا چاہیئے۔ کھانا پک چکا ہو اور بہو کی پلیٹ میں گرم گرم کھانا اس کی انگڑائی ٹوٹنے سے پہلے موجود ہونا چاہیئے ۔ آخر کو یہ کم احسان ہے کہ اسے گھر میں پناہ دے رکھی ہے۔ دونوں وقت کھانے کو ملتا ہے ۔ اللہ اکبر ۔ جس ماں نے اپنی کوکھ کی پوٹلی میں اسے نو ماہ رکھا ۔ موت سے لڑ کر اسے اس درد سے گزر کر پیدا کیا کہ جس سے بڑا کوئی درد نہیں ہو سکتا ۔اپنی بھوک کاٹ کراسےرزق دیا ۔ انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھایا ۔ بابابا سے باتیں کرنا سکھائیں ۔ راتوں کو اس کی پرسکون نیند کے لیئےجاگ جاگ کر اپنے پپوٹے سُجا لیئے ۔ اس کی تعلیم اور اس کے سر کی چھت کے لیئے اپنے گہنے بیچ دیئے ۔ کہ میرا بیٹا ہی میرا زیور گہنا سب کچھ ہے ۔ اپنے پیروں کی چپل سے پہلے بیٹے کے بوٹ خریدے ۔ اپنے جوڑے کے پیسے کاٹ کر اسے بہترین کپڑا پہنانے کی کوشش کی اور اس کا قد نکالنے کے لیئے اپنی ہڈیاں گھسا کر اپنا قد چھوٹا کر لیا ۔  اس لیئے کہ اب مجھے اس کی بیوی کی خدمت کرنی ہے ۔اس کے بچوں کی آیا گیری کرنی ہے ۔ اس کے بڑے گھر کی چوکیداری کرنی ہے ، وہ لڑکیاں بھی جو آج یہ سب پڑھ رہی ہوں غور کر لیں کہیں آنے والے وقت میں یہ سب ان کے ساتھ بھی تو ہونے نہیں جا رہا۔ جوانی کی دوڑ میں یہ سب کچھ ناممکن لگتا ہے ۔ لیکن 35 سال کی عمر کا پڑاؤ پار کرتے ہی یہ ذور جب ٹوٹنے لگتا ہے اور جوش پر ہوش غالب آنے لگتا ہے تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے ۔ کہیں یہ ہی مقام ہمارا دُلارا ہمارے لیئے بھی تو نہیں ڈھونڈنے کی تگ و دو میں ۔  خدا نہ کرے ۔ کہ آپ بھی ان ماؤں میں سے ہوں۔ تو یاد رکھیں آج سے ابھی سے اپنے بیٹوں کو اچھا انسان بننے کی تربیت دینا شروع کر دیں آج جو سبق ہم اسے دوسرے سے پیش آنے کے لیئے پڑھا رہے ہیں۔ وہی سبق باہر والوں کے ساتھ اگر  وہ مہینے میں ایک بار دہرائے گا تو اپنی ہی ماں کے ساتھ دن میں دس بار دہرائے گا ۔ لہذااسے آج ہی سے اپنی ماں ہی نہیں دوسروں کی ماؤں کی بھی بلکہ ہر عورت کی عزت کرنا سکھائیں کہ جس نے عورت کی عزت کرنا سیکھ لی ۔ یقین جانیں نہ وہ کبھی بھٹکے گا نہ کسی کا حق مارے گا نہ ہی کل کو آُپ کو کسی ایدھی ٹرسٹ یا اولڈ ایچ ہوم میں بیٹوں کی راہیں دیکھ کر صبح سے شام کرنا ہو گی ۔ نہ ہی کسی کو خدائی عذاب میں گھر کر یہ کہنا پڑیگا کہ کہ کوئی جا کے ماں لے آئے کہ میں اس کے پاؤن کے تلؤں سے اپنی آنکھیں رگڑ سکوں ۔ اس کے پھٹے دُوپٹے میں منہ دیکر رو سکوں ۔ یاد رکھیں جنت کا سودا دیکھ کر نہیں کیا جاتا۔ یہ سودے بن دیکھے کیئے جاتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ماں کیسی ہے میٹھا بولتی ہے یا کڑوا اہم نہیں ہے۔ اس کا ہونا اہم ہے کیوں کہ یہ ہوتی ہی سراپا دعا ہے ،  مرد اور عورت دونوں ہی اپنی بھی اور ایک دوسرے کی ماں کااحترام بھی  یہ سوچ کر کریں کہ یہ محبت خدا کی جانب سے فرض کی گئی تو اس کا اجر بھی وہی دیگا ۔ اسی میں خدا نے اپنا آپ چُھپا رکھا ہے ۔ اسکے لہجے کی سختی کی بجائے اسکے وجود کی رحمت پر نظر رکھیں ۔ اس کے سامنے اپنی آواز نیچی اور لہجہ نرم رکھیں ۔ اس کی ضرورتوں کو بغیر کہے پورا کرنے کو سعادت جانیں اسکی زیادتی پر خاموشی اختیار کریں ۔ اس کے غصے پر صبر کریں ۔ پہلے ماں بچے کو پالتی ہے لیکن اب آپ کو اپنی ماں کو اپنا لاڈلا ضدی بچہ سمجھ کر پالنا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اپنا بچہ کبھی برا نہیں لگتا نہ ہی اپنا بچہ کسی پر بوجھ ہوتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/