پرانی ہو گئی ہے
جہاں کوئی نیا آباد کر لیں
یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے
میرے دل کا ہے یہ ناسور اب تو
میری آنکھوں کا پانی ہو گئی ہے
عجب پر سوز سی یہ داستاں ہے
اک المیہ کہانی ہو گئی ہے
امیدوں کا ہے یہ شہر خموشاں
محض عبرت نشانی ہو گئی ہے
نہیں دم خم وہ انداز زیبائش
بہت بوڑھی جوانی ہو گئی ہے
نہ دیکھا جائے عالم بے بسی کا
نتیجہ کہ سیانی ہو گئی ہے
کوئی ممتاز مجھکو بھی خبر دے
سہانی زندگانی ہو گئی ہے
●●●
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں