ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 14 جون، 2014

میلہ بے شرمی




 میلہ بے شرمی
ممتازملک۔ پیرس

 لیجیئے  14 فروری کے آتے ہی دوسروں کی ماں بہنوں پر رال ٹپکانے والوں کو اوقات دکھانے کا ایک خاص موقع ہاتھ آ جاتا ہے ۔ بازاری قسم کی سوچ رکھنے والے اپنی بیوی کے سوا سارے جہاں کی خواتین میں عاشقی بانٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔ بد شکل سے بد شکل خاتون کے ساتھ بھی  لو یو کا واہیات ڈرامہ  ۔ جبکہ اپنے گھر میں بیٹھی حُور جیسی بیوی بھی جناب کے ناک کے نیچے سے نہیں نکلتی ۔ ہاں اگر ان سے انہیں کی بہنوں کے ویلنٹائین کا حال پوچھ لیا تو گویا ان کی دم پر کسی نے گرم چمٹا ہی نہیں رکھ دیا ۔ اٹھ کھڑے ہوں گے غیرت کی دہائی دینے، لوگوں کا سر پھاڑنے  ۔ اور اگر ان کی امّاں کے ویلنٹائن کہیں گنوا دیئے تو جناب آپ کی شہادت ان کی غیرت مندی کے ہاتھوں پکی ہے ۔ 
ہماری غیرت کے انہیں منافقانہ معیارات نے نہ صرف اپنے معاشرے میں بلکہ ساری دنیا میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ جو شخص کسی دوسرے کے گھر کی عورت کی عزت نہیں کرتا وہ کس منہ سے اپنی بہن کو بے حیائی سے روک سکتا ہے ۔خود تو کوئی لڑکا بہن کی سہیلی سے عشق لڑائے ، بلکہ اس کے ساتھ ڈیٹ مارنے کے لیئے بھی اپنی بہن کو ہی استعمال کرے جب اسی بہن کے لیئے اپنے ہی کسی دوست کا رشتہ آ جائے  تو کبھی دوست کو مار ڈالے اور کبھی بہن کو قتل کردے ۔ بلّے بلّے ہے اس نا مکمل غیرت مندی کے بھی ۔ سچ ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی بنائی ہوئی حدود کو توڑتا ہے تو خدائے پاک کا کچھ نہیں جاتا ہاں انسان اپنی ہی تباہی کے لیئے ضرور کمر بستہ ہو جاتا ہے ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ آدھا سچ پورےجھوٹ  سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آدھی غیرت مندی پوری بےغیرتی سے بھی زیادہ بربادی لاتی ہے تھوڑے تھوڑے ماڈرن ہونے کے چکر میں  نہ تو ہم تیتر رہے ہیں نہ ہی بٹیر بن سکے بلکہ کوئی عجیب سی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔  مرد اور عورت کے بیچ کا کوئی رشتہ شرع کی حدود میں رہتا ہے تو نہ صرف خدا کی رحمتوں کے سائے میں ہوتا ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے  ۔ پہلے ہم رشتوں میں جیتے تھے تو محفوط تھے ۔ مطمئن تھے جسے چاچا جی کہہ دیا وہ تاعمر ہمیں چاچا جی کی نظر سے ہی دیکھتا رہا ۔ جسے ایک  بار بھائی کہہ دیا وہ تاعمر سگے بھائیوں سے بھی زیادہ بھائی بن کے رہا ۔ لیکن آج ؟ آج ہم جسموں میں زندہ ہیں ۔ اسی لیئے بے سکون بھی ہیں اور بےعزت بھی ۔ آج ہر ایک دوسرے کو مرد بن کے دیکھتا ہے یا عورت بنا کر سوچتا ہے ۔ اسی سوچ نے ہمارے کردار کی پاکیزگی کو بھی مشکوک  کر کے رکھ دیا ہے ۔  اپنے اصل رشتوں کو جو احترام دیا جانا چاہیئے وہ تو ہم نے دینا ضروری سمجھا ہی نہیں ۔ لیکن جن سے ہمارا کوئی رشتہ ہے ہی نہیں ،ان کے لیئے ہمارے جذبات سنبھالے ہی نہیں جاتے اور چھلک چھلک پڑتے ہیں ۔ اگر ہمیں اتنا ہی شوق ہے کہ ہم ان اُدھار کے مواقعوں کو منائیں تو انہیں اپنے حقیقی رشتوں کے ساتھ منا کر خوش ہوں۔ اپنی بیگمات کو ہی ایسے موقعہ پر کوئی تحفہ دیکر اپنے اس رشتے میں محبت اور حسن پیدا کریں ،پائیداری لائیں اور اپنی کمائی کو اچھی جگہ صرف کریں ۔ ایسا کوئی بھی کام جو آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی حدود سے دود کر رہا ہے  ،کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجیئے کہ کہیں ایسا ہی کوئی لاوا آپ کے اپنے ہی گھر میں تو نہیں پک رہا ۔ دوسروں کو ہرے باغ دکھانے سے کہیں اچھا نہیں کہ ہم اپنے گھروں کو آباد رکھیں اور اپنے رشتوں کی عزت کریں کیوں کہ رہنا تو بلآخر ہم نے انہیں کے ساتھ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/