اقرباءپروری کی آگ
ممتازملک[ پیرس ]
پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی قائدِاعظم کو جس
بات کا سب سے زیادہ افسوس ہواوہ یہ ہی تھی کہ "میری جیب میں بدنصیبی سے کھوٹے سکے
بھی آگۓ ہیں "ھاۓ رے افسوس کہ موت نے باباۓقوم کو اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ ان
کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر نکال سکتے الٹا ان کھوٹے سکوں نے تاریخی سازش کو انجام تک
پہنچاتے ہوۓباباۓ قوم کو ہی اپنے راستے سے ہٹا دیا ۔
جی
ہاں یہ ہی بات ابتد ء تھی ۔اس بات کی کہ آئندہ پاکستان میں کیا ہونے جارہا ہے کہتے
ہیں نا کہ جوتا پھٹنے لگے تو فورا ٹانکہ لگوا لینا چاہیۓ ورنہ پھٹتا ہی چلا جاتا
ہےیہ ہی کچھ ہوا پاکستان کے بیورو کریٹس کے معاملے میں بھی ۔اگر پاکستان کے آزادی
کے بعد کے ابتدائ سالوں میں ہونے والی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتا اور فوری سزاؤں
کے اصِول پر عمل کیا جاتا اور انصاف سب کے لیۓ کو یقینی بنالیا جاتا تو یقینا آج ہم
سب ایک بہتر پاکستان میں جی رہے ہوتے۔الیکشن کے بجاۓ سلیکشن کی ہوا نے طرف داریوں
کی چنگاری کو اقرباء پروری کے آتش فشاں میں بدل دیا ۔ہم لوگوں کو نہ تو ماؤں بہنوں
کی لٹتی ہوئ عزتیں یاد رہیں نہ ہی جوان جیالوں اور جوانوں کے کٹتے ہوۓ بدن نظر آۓ
بس یاد رہ تو اتنا کہ میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کیا سمیٹوں اور لوگوں کی
آنکھ میں دھول جھونکوں اورلندن ۔پیرس اور سوئزرلینڈ کی گلیوں میں سینہ پھلا کر اور
یہ بھلا کر گھوموں کہ موت برحق ہے اور مجھے زبدگی کے ایک ایک پل کا اور ایک ایک پائ
کا اللہ کو حساب دینا ہے اور بقول حضرت عمرِفاروق ؓ "فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی
پیاسا مر گیا تو عمر کو اللہ کو اس بات کا جواب دینا ہو گا
لیکن
آج کیا ہوا کوئ عمرفاروق نہیں نہ سہی مگر خدا تو اج بھی وہی ہے نا جس کے خوف اور جس
کی محبت میں راتوں کو گلیوں میں وقت کے سلطان بھی بوریا نشینوں کی طرح گشت کیا کرتے
تھے مزور کی طرح پشت پر لوگوں کا سامان لادا کرتے تھے۔کیوں ہوا اور کیا ہوا کیا آج
ہمیں یہ بھی سننا پڑے گا کہ جانے دو بھئ اب نعوز بااللہ خدا سے ڈرنے کا رواج نہیں
رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ یہ تو ہم اب عام طور پر ہی کہنے اور سننے لگے ہیں نا
کہ چھوڑو بھائ جب مریں گے تو دیکھی جاۓ گی۔خدا ہمیں معاف کرے اور یہ یاد رکھنے کی
توفیق عطا فرماۓ کہ بھائ جب مریں گے تو پھر دیکھنے کا نہیں بھگھتنے کا مرحلہ ہو گا
۔اور وہ ایسا رہشتناک وقت ہو گا کہ جسے یاد کرتے ہوۓ سرکار دوجہاں کی آنکھ سے امت
کے غم کے آنسو کبھی خشک نہ ہوۓ تھے ۔
آج
جس طرح بے توقیر لوگوں کو توقیر بانٹی جا رہی ہے ۔
گویا
لُٹو تے پُھٹو کے اُصول کو اپناتے ہوۓاور کچھ نہ جاننے والوں نے بھی منافقت اور
چاپلوسی کو اپنا ہنر بنا کر اپنے ہی لونڈوں لپاڑوں کو آگے کرتے ہوۓکہیں پاکستاں اور
کہیں پاکستانیوں کی مٹی پلید کرنے میں بھرپور کلیدی رول ادا کیا ۔میں نے بہت پہلے
ایک کہاوت پڑھی تھی کہ جھوٹ بولو تو اتنا بولو اور اتنی بار بولو کہ وہ سچ لگنے
لگے۔بلکل ایسا ہی معاملہ بدنصیبی سے پاکستانیوں اور پاکستان کو درپیش ہے ۔یہاں اگر
کسی سے یہ پوچھ لیا جاۓ کہ آپ ایوارڈ ایوارڈ جو کھیل رہے ہیں تو یہ کس کمال کے بدلے
تو یقینا سامنے والا جواب دیگا ایویں ای ۔
پاکستان کے نام پر ہم نے کوئ کام تو کیا کہ نہیں
۔۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر مچھ کے آنسو کوئ کم تو نہیں بہاۓ نادو چار خواتین کو
شوقین مزاج مردوں کی بھیڑ میں بٹھا کر رات کے دو بجے تے قوم کے غم کو ہلکا کیا جاتا
ہے۔مزے کی بات خواتین بھی وہی جو خالصتا خواتین کے پروگرام میں مذہبی پروگرام میں
رات کو آٹھ بجنے پر آسمان سر پر اٹھا کے احتجاج کرتی رہی ہیں کہ یہ کوئ خواتین کے
گھر جانے کا وقت ہے ۔ ہو سکتا ہے ان کے کہنے کا مطلب ہو کہ خواتین کے گھر جانے کا
وقت تو رات کے دو بجے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تو لوگوں نے صدقہ خیرات بھی کہیں
دیتے ہوۓ شرط لگانی شروع کر دی ہے کہ اس کے بدلے میں میرے بیٹے کو کون سی سیٹ دو گے
اور میری بیٹی کو کب سیکٹری بناؤ گے ۔گویا اب کون انتظار کرے کہ مرنے کے بعد یا
زندگی ہی میں خدا کے دیۓ ہوۓ اجر کا انتظار کیا جاۓ۔ ہم تو اپنی مرضی کا اجر لیں گے
باس ۔کیوں یہ ہی بات ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.................................
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں