ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

رہائشی خواب رنگین بھی سنگین بھی

Photo: رہائشی خواب رنگین بھی سنگین بھی 

[ممتازملک ۔۔پیرس] 


آپ نے مکڑی اور مکھی کی کہانی تویقینا سنی ہوگی جس میں ایک مکڑا کس طرح ایک مکھی کو اپنے محل میں آنے کی 

دعوت دیتا ہے محل کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہےمکھی مکڑے کے فریب میں آجاتی ہے۔اور جیسے ہی مکھی اس 

کے فریب میں آجاتی ہے۔اس مکڑے کی خوراک بن جاتی ہے۫۔اور اس کا کیا انجام کیا ہوا یہ تو ہر کوئ جانتا ہے ۔ 


اس تمہید کا بھی یقینا کوئ مطلب ہو گا ۔آج سے پانچ چھ سال قبل یورپ اور پیرس میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ پیش آیا وہ 

واقعہ جس میں گوادر سٹی کے نام سے خون پسینے کی کمائ کرنے والے معصوم پاکستانیوں کو ان کی زندگی بھر کی کمائ سے محروم کر 

دیا گیا۔ یہ فراڈ گروہ بھی کہیں اور سے نہیں آیا تھا بلکہ پاکستانیوں میں سے ہی تھا جنہوں نے اپنے چہروں پر داڑھیاں بھی سجا رکھی 

تھیں ۔اور اپنے ساتھ مذہبی جماعت کے نام کا دم چھلہ بھی لگا رکھا تھا ۔انہوں نے گوادر کے علاقے کی وہ زمینیں جو کوئ چند ہزار میں 

خریدنے کو تیار نہیں تھا وہ یورپ اور فرانس کے سادہ لوح محنت کشوں کے ہاتھوں کروڑوں میں فروخت کیں ۔آج تک ان لوگوں کو نہ تو زمینوں کا 

پتہ ہے نہ ہی ان لٹنے والوں کا کوئ پرسان حال ہے۔اور ان لوگوں کی زمہ داری قبول کرنے کو کوئ شخص تیار نہیں ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو 

لوگو ں کو رنگین فلمیں اور سنہری خواب دکھا کر اپنے جال میں پھانستے ہیں ۔ 


ویل مچھلی کی مثال بھی آپ نے سنی ہو گی کہ وہ روزانہ 500 کلو خوراک پوری کرتی ہے۔وہ پہلے دن کھا کر مکمل آرام کرتی ہے 

اگلے دن پھر نئ حکمت عملی کے ساتھ خود اپنی ہی نسل کو اپنا شکار بناتی ہے۔ بلکل اسی طرح شرافاء کا یہ ٹولہ ایک بار پھر 

نۓ انداز ،نئ لگن ، حسین خواب ،پرکشش وعدوں ،پر فریب اداؤں کے ساتھ میدان عمل میں آچکے ہیں ۔آجکل پیرس میں جنت نظیر وادیوں کا 

نیا جال یورو سٹی کے نام پھیلایا جا رہا ہے ۔اور یہ وہی لوگ ہیں جو کہ گوادر سٹی کے فراڈ کے بھی کرتا دھرتا تھے۔ 


جی ٹی روڈ پر کھاریاں اور جہلم کے بیچ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں میں جو جگہ پیش کی جارہی ہے وہ دن کو جنگلی جانوروں 

اور رات کو ڈاکؤؤں کی پناہ گاہیں ہیں ۫چند ہزار میں فی کنال یہاں زمینیں فرخت ہوتی ہیں ۔وہی زمینیں لاکھوں میں فروخت 

کرنے کی کاروائ شروع کی جا چکی ہے ان زمینوں کی نہ تو کوئ رجسٹری ہے نہ ہی کو ئ قبضہ ۔گویا گوادر سٹی 

کے ڈرامے کا پارٹ 2 تیار ہے۔جسطرح گوادر کی سکیم میں ریتیلی اور پتھریلی زمینیں رنگیں فلمیں دکھا کر 

کوڑیوں میں خرید کر لاکھوں میں بیچی گئیں ۔ جن زمینوں کا آج نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔اسی طرح 

آپ جیسے معصوم لوگوں کو لوٹنے اور اپ کے خون پسینے کی کمائ کو چوسنے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ 


اب ہمارا یہ اخلاقی فرض ہے کہ اس ٹولے کو بے نقاب کیا جاۓ جو مذہبی ادارے کی آڑ میں یہ مکروہ دھندا کر رہا ہے۔ 

اور اس لوٹ مار کے سلسلے کو روکنے میں اپنا مذہبی اور معاشرتی کردارادا کیا جاۓ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ 

اک بار پھر سے لٹ جاۓ غریبوں کی کمائرہائشی خواب رنگین 

بھی سنگین بھی

 

[ممتازملک ۔۔پیرس]



آپ نے مکڑی اور مکھی کی 

کہانی تویقینا سنی ہوگی جس 

میں ایک مکڑا کس طرح ایک 

مکھی کو اپنے محل میں آنے 

کی
 

دعوت دیتا ہے محل کی 

تعریف میں زمین آسمان کے 

قلابے ملاتا ہےمکھی مکڑے 

کے فریب میں آجاتی ہے۔اور 

جیسے ہی مکھی اس

کے فریب میں آجاتی ہے۔اس 

مکڑے کی خوراک بن جاتی 

ہے۫۔اور اس کا کیا انجام کیا ہوا 

یہ تو ہر کوئ جانتا ہے ۔





اس تمہید کا بھی یقینا کوئ مطلب ہو گا ۔آج سے پانچ چھ سال قبل یورپ اور پیرس 

میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ 

پیش آیا وہ


واقعہ جس میں گوادر سٹی کے نام سے خون پسینے کی کمائ کرنے والے معصوم 

پاکستانیوں کو ان کی زندگی بھر کی کمائ سے محروم کر



دیا گیا۔ یہ فراڈ گروہ بھی کہیں اور سے نہیں آیا تھا بلکہ پاکستانیوں میں سے ہی تھا 

جنہوں نے اپنے چہروں پر داڑھیاں بھی سجا رکھی

تھیں ۔اور اپنے ساتھ مذہبی جماعت کے نام کا دم چھلہ بھی لگا رکھا تھا ۔انہوں نے 

گوادر کے علاقے کی وہ زمینیں جو کوئ چند ہزار میں



خریدنے کو تیار نہیں تھا وہ یورپ اور فرانس کے سادہ لوح محنت کشوں کے 

ہاتھوں کروڑوں میں فروخت کیں ۔آج تک ان لوگوں کو نہ تو زمینوں کا

 

پتہ ہے نہ ہی ان لٹنے والوں کا کوئ پرسان حال ہے۔اور ان لوگوں کی زمہ داری 


قبول کرنے کو کوئ شخص تیار نہیں ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو
 

لوگو ں کو رنگین فلمیں اور سنہری خواب دکھا کر اپنے جال میں پھانستے ہیں ۔


ویل مچھلی کی مثال بھی آپ نے سنی ہو گی کہ وہ روزانہ 500 کلو خوراک پوری 

کرتی ہے۔وہ پہلے دن کھا کر مکمل آرام کرتی ہے

اگلے دن پھر نئ حکمت عملی کے ساتھ خود اپنی ہی نسل کو اپنا شکار بناتی ہے۔ بلکل اسی طرح شرافاء کا یہ ٹولہ ایک بار پھر

نۓ انداز ،نئ لگن ، حسین خواب ،پرکشش وعدوں ،پر فریب اداؤں کے ساتھ میدان 

عمل میں آچکے ہیں ۔آجکل پیرس میں جنت نظیر وادیوں کا

نیا جال یورو سٹی کے نام پھیلایا جا رہا ہے ۔اور یہ وہی لوگ ہیں جو کہ گوادر سٹی 

کے فراڈ کے بھی کرتا دھرتا تھے۔


جی ٹی روڈ پر کھاریاں اور جہلم کے بیچ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں میں جو جگہ پیش

 کی جارہی ہے وہ دن کو جنگلی جانوروں
 

اور رات کو ڈاکؤؤں کی پناہ گاہیں ہیں ۫چند ہزار میں فی کنال یہاں زمینیں فرخت 

ہوتی ہیں ۔وہی زمینیں لاکھوں میں فروخت



کرنے کی کاروائ شروع کی جا چکی ہے ان زمینوں کی نہ تو کوئ رجسٹری ہے نہ 

ہی کو ئ قبضہ ۔گویا گوادر سٹی

کے ڈرامے کا پارٹ 2 تیار ہے۔جسطرح گوادر کی سکیم میں ریتیلی اور پتھریلی

 زمینیں رنگیں فلمیں دکھا کر

 

کوڑیوں میں خرید کر لاکھوں میں بیچی گئیں ۔ جن زمینوں کا آج نام و نشان بھی 

باقی نہیں ہے۔اسی طرح

آپ جیسے معصوم لوگوں کو لوٹنے اور اپ کے خون پسینے کی کمائ کو چوسنے 

کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔


اب ہمارا یہ اخلاقی فرض ہے کہ اس ٹولے کو بے نقاب کیا جاۓ جو مذہبی ادارے 

کی آڑ میں یہ مکروہ دھندا کر رہا ہے۔

اور اس لوٹ مار کے سلسلے کو روکنے میں اپنا مذہبی اور معاشرتی کردارادا کیا

 جاۓ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ

اک بار پھر سے لٹ جاۓ غریبوں کی کمائ

.............................................................................
611

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/