ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

فرشتے سے مشکل ہے انسان ہونا

فرشتے سے مشکل ہے انسان ہونا
ممّتازملک:۔پیرس
 
اپنے پیارے ملک پاکستان کو چھوڑتے ہوۓ ہم سب تارکینِ وطن جس کرب سے گزرتے ہیں وہ یقینا ہم میں سےکسی کے لیۓبھی کوئ نئ بات نہئں ہو گی ۔آج بھی جب پاکستان سے واپسی پر ایئر پورٹ کی جانب روانگی کا سفر ہو یا اپنے پیاروں کے سینے سے لگ کر جدا ہونے کی گھڑی ۔کون سی آنکھ ہے جو نم نہیں ہوتی ۔ جانے دل کی کون سی تار ہوتی ہے جو اس مٹّی سے جدا نہیں ہونے دیتی ۔ان میں سے بیشتر تو مجھ جیسے بدنصیب بھی ہونگے جن کی والدین ان کی جدائ کے سال بھر میں ہی قبروں میں جا سوۓ ۔جن کے لیۓ دروازے پر کوئ ماں کھڑی ہو کر راہ نہیں دیکھتی ۔جہاں پہ بہن بھائیوں کی اکثریت بھی "آۓ ہو تو کیا لے کر آۓ ہو ؛اور جاؤ گے تو کیا دے کر جاؤ گے "کے فارمولے پر ان سے ملتے ہیں ،ساری زندگی ہم لوگ وطن کی محبّت میں مبتلا اور اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے پیاروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں گزار دیتے ہیں ،مگر جب بھی کسی ایک بات پر بھی ان خود غرض رشتوں کو انکار کیا اور گویا ساری زندگی کی تگ ودو پر تھوکنے میں ان رشتوں نے شاید دوسرا پل بھی نہیں لگایا۔اور ایک ہی جملہ کہ"تم نے ہم پر کوئ احسان تھوڑی کیا ہے؟یا""آپ نے ہمارے لیۓ کِیاہی کیا ہے؟ " کی چھری سے ہم پردیسیوں کو حلال کر دیا جاتا ہے۔کہنے والا یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے لفظوں نے کیسی کند چھری کا کام کیا ہے۔ہم سبھی لوگ اپنے ملک سے اس لیۓ پردیس میں آکر بسنےپرمجبور ہوۓ؛ اس لیۓآباد ہوۓ کہ ہمارے باپ دادا ہمارے لیۓ کو ئ خزانہ نہیں چھوڑ کر گۓ تھے جن پر ہم لوگ اپنے مستقبل کی عمارت کھڑی کرتے ۔اور جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں ورنہ ہم میں سے 99فیصد لوگ یا تو مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر لوئر مڈل کلاس سے ۔بلکہ ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے کہ جن کا تعق اتنے پسماندہ علاقوں سے ہے جہاں آج بھی نہ بجلی ہے نہ سڑک نہ پینے کا صاف پانی۔لڑکوں کو ماؤں نے سینے پر پتھر رکھ کے روزگار کی تلاش میں گھروں سے رخصت کیا تو لڑکیوں کو اپنے گھروں کی تنگ دستیوں اور مالی پرشانیوں سے بچانے کے لیۓ یہاں مقیم لڑکوں کے نکاح میں دے کر رخصت کر دیا ۔کہ چلو کم از کم مالی آسودگی تو اسے حاصل رہے گی؛ کہتے ہیں ناکہ
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں رکن ٹُک
چھیواں رکن نہ ہووے تے پنجے جاندے مُک
یعنی دوسرے لفظوں میں ماں باپ نے اپنی بیٹیوں کو عمروں کے بڑے فرق کے باوجود پردیس میں مقیم لڑکوں سے بیاہ دیا کہ وہ بھوک کے غربت کےعذاب میں مبتلا ہو کر کٰفر میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں ۔اور ایسا ہوا بھی کچھ واقعات سے قطع نظر یہاں پر مقیم مردوں کی اکثریت نے اچھا شوہر بننے کی پوری سی کوششیں بھی کیں اور وہ ان میں کامیاب بھی ہوۓ۔جس کے لیۓ ساری بیویوں کو اپنے شوہروں کا شکر گزار بھی ہونا چاہیۓ ۔خدا ہم سب کے شوہروں اور بیویوں کو آپس میں پیار محبّت بھی دے اور آپس میں ساری زندگی عزت کے ساتھ بسر کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین۔ ہم میں سے کچھ لوگ آج بھی اپنے ماضی کو بڑے باوقار انداز میں بیان کرتے ہیں اور اسے بیان کرنے میں میں کوئ شرم یا جھجھک محسوس نہیں کرتے بلکہ اس سےاپنے آج کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی کے حضور اپنی شکر گزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کیسے ہم گھر میں ایک کمانے والے کے ہوتے چار چار سال کی عمر میں مزدوریاں کِیا کرتے تھے ۔کوئ بھینسوں کو نہلاتا تھا تو کوئ مشینوں پر چارہ کاٹا کرتا تھا ۔کوئ ٹرک پر دس سال کی عمر میں پہاڑی پتھر اور بجری ڈھویا کرتا تھا ۔کوئ پندرہ پندرہ میل پیدل چل کر اسکول جاتا تھا۔ کہ بس کا کرایہ نہیں ہوتا تھا جیب میں ؛توکوئ سکول سے واپسی پر گھر سے ابلےہوۓچنے ؛پکوڑے؛ بھنے ہوئ چھلیاں یا گنڈیریاں لے کر سڑک کے کنارے بیچ کر گھرکے خرچے میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کیا کرتے تھے اور کئ بار تو ان معصوموں کو اتنا کچھ کر کے بھی رات کو گھر میں کسی بیمار کی دوا لانے پر سالن کے لیۓ پیسے نہ بچنے پر کل کی روٹی پانی میں ڈبو کر بھی کھانی پڑتی تھی۔جسم پر کئ بار موسم کی مناسبت سے پہننے کو کپڑا بھی میسر نہیں ہوتا تھا انہیں ۔یہ سب کچھ بتا کر اشک بھری آنکھوں سے یہ عظیم لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہمارا کل تھا ہم اس پر دکھی ہوتے ہیں مگر شرمندہ نہیں ہوتے ہم نے اللہ کے فضل کا انتطار کیا ۔دن رات محنتیں کیں خود کو آوارہ گردیوِں سے بچایا اور آج دیکھو اللہ نے ہمیں ہر چیز سے نوازا ہے ؛ہم صرف اپنے لیۓ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کی زنگدیوِں کو بھی بدلنے میں آسودہ کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ظاہر ہے ہمارے پاس یہ ساری سہولتیں اور آسائشیں اپنے ہی ملک میں ہمیں میسّر ہوتیں تو ہمیں کیاکسی پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ ہم یوں پردیس کی سختیاں کاٹتے۔ لیکن ہماری ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں پر بھی مشتمل ہے جو لمبی لمبی چھوڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔اور آسمان کو ٹاکی لگا کر واپس آنا ان کے بائیں کا ہاتھ کا کام ہے۔جو بات کرتے ہوۓ یہ جتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پردیس کو کوکاٹ کر گویا پردیس پر ہی احسان کیا ہے۔ان کی تو اپنی کنیزیں جوتے ہاتھ میں اٹھاۓ گویا ان کے تخت سے اترنے کا انتظار کر رہی ہوتی تھیں ۔پھر گویا انہوں نے سوچا کہ چلو پردیس کا ایک چکر لگا لیا جاۓ ۔ تو وہ اپنی تشریف کا ٹوکرا اٹھاۓ یہاں آن وارد ہوۓ۔ارے بھئ یہ مذاق نہیں بلکہ ایسے ناشکرے بیان باز یہاں بھرے پڑے ہیں زرا دھیان تو دے کر دیکھیں ۔دوسری جانب خواتین بھی لمبی لمبی چھوڑنے میں کیوں پیچھے رہیں وہ بھی اپنے ابّا کے گھر کے ترانے گانے میں کہاں سے کہاں نکل جانا پسند کرتی ہیں ۔یہ جانتے ہوۓ بھی کہ جھوٹ بولنے اور ناشکری ہی کے جرم میں عورتوں کی اکثریت دوزخ کا ایندھن بنا دی جاۓ گی۔اکثر اپنی عمروں میں اتنی کونشش ہوتی ہیں کہ پڑھائ کی بات آۓ گے تو ایم اے؛ ایم اے کا دعوی کریں گی اور عمر پوچھنے پر یہاں ہر عورت چودہ سال کی ہی بیاہ کر آگئ تھی پتہ نہیں کیسے وہ یورپ کے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہاں پہچ گئ تھیں ۔اور اپنے باوا کے گھر کے دولت کےقصّے ہیں کہ سناتے نہیں تھکتیں ۔مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ ایک لڑکی جو اٹھارہ انیس سال کی ہے ؛حسین بھی ہے ؛امیر باپ کی بیٹی بھی ہے؛لاڈلی بھی ہے ؛تو پھر کیا بات تھی؟کہ ان کے ماں باپ نے ان کا ہاتھ آٹھویں دسویں پاس معمولی شکل صورت کے اور اپنے سے بیس بیس سال بڑے مرد کو کیوں تھما دیا؟کیوںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں؟یقینا آآپ بھی میری بات سے اتفاق کریں گے کہ کہ سچ بولنا ایک بہت بڑی خوبی ہی نہیں خداکا ایک کرم بھی ہے ۔غربت کوئ جرم نہیں ہوتی ہاں غربت میں چوری کرنا جرم ہو جاتا ہے ۔پریشانی کا آنا کوئ جرم نہیں ہوتاہاں ان پریشانیوں میں ہمارے کردار کا ڈول جانا ہمارے لیۓ ایک جرم ضرور بن جاتا ہے۔تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ماضی کو یاد رکھیں اور اس ماضی سے رہنمائ حاصل کریں اور اس سے وہ سب سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں جو ہمارے لیۓ صدقة جاریہ بن سکیں ۔ہم سب میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اگر ہم لوگ پرفیکٹ ہوتے تو پھر انسان کیوں ہوتے فرشتہ نہ ہوتے ۔خدا کو انسان کی شاید یہ ہی خوبی سب سے زیادہ پسند ہوگی کہ وہ غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جب غلطی کر بیٹھے تو اس پر اکڑتا نہیں بلکہ اس پر شرمسار ہوتا ہے اور اس کی تلافی کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ میرے اپنے ہی اشعار شاید اسی موقع پر وارد ہوۓ ہیں کہ !
سیانے سے مشکل ہے نادان ہونا
فرشتے سے مشکل ہے انسان ہونا
جنہیں خواہشوں کا نہ مطلب پتہ ہو
انہیں کیا پتہ دل کا ارمان ہونا
ممّتازملک::پیرس 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/