ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

● (11) 23 مارچ کو میری آزادی کا فیصلہ/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے


(11)
23 مارچ کو میری آزادی کا فیصلہ
      تحریر:ممتاز ملک ۔ پیرس 





آج کی شام بھی بڑی زبردست رہی 23مارچ کی چھٹی منائی گئی ۔کچھ لوگ پکنک پر گئے ۔کچھ لوگ سیمینارز میں 23 مارچ 1940ء کو پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی کا سالانہ سبق پڑھنے گئے اور کچھ اسے سن کے جمائیاں لینے ۔آخر میں خوب پیٹ پوجا بھی ہوئی ۔گویا کوئی        کمی کہیں نہیں چھوڑی گئی دن کو پرلطف دن بنانے میں۔ لیکن آج کی ایک خاموش چیخ بھی کئی لوگوں نے سنی ہو گی ۔ایک اور چانٹا بھی کئی بے ضمیر چہروں پر اپنا ایک بے نشان نقش چھوڑ گیا ۔کئی دنوں سے بلکہ کئی سالوں سے پاکستان کی عورتیں جس ظلم اور بربریت کا شکار ہیں ۔ بچے جن مظالم کی چکی میں پِس رہے ہیں ان کی جانب سے کوئی آج دنیا چھوڑتے ہوۓ بڑی دردناکنظروں سے پاکستان کے بے ضمیر اور عیاش سٹیبلشمنٹ کو دھتکارتے ہوۓ رخصت ہوگیا۔فاخرہ یونس ایک تمانچہ بنکر دنیا سے رخصت ہو گئی ۔اور اپنا مقدّمہ اللہ کے حضور پیش کر رہی ہوگی۔ کیا کہے گی وہ رب سے کہ پروردگار جو زندگی تو نے مجھے عطاکی تھی وہ کچھ شکاریوں کی بھینٹ چڑھا کر آرہی ہوں ۔ جو حسن تو نے مجھے عطا کیا تھا ۔ وہ ایک عیاش زادے کی منشأء پر میلیامیٹ کروا کر آرہی ہوں ۔ 12 سال کا لمبا وقت میں اس انتظار میں گزار کر آ رہی ہوں کہ کوئی تو ہو گا جو اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے انصاف دلواۓ گا ۔ کسی کو تو میرے زخم دکھائ دیں گے ۔ مگر نہیں ربّا یہاں تو کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ یہاں کوئی کسی کے لیئے نہیں روتا ۔ہر کوئی اپنے لیئے چوٹ لگنے کا منتظر ہے۔ کیا 23 مارچ کو میرا پاکستان بننے کا فیصلہ نہیں ہوا تھا؟ صرف غیرت مند مردوں کا پاکستان بنا تھا ۔ان کی ماں بہنوں اور بیٹیوں کو غیرت مندی کا ، آذادی کا سرٹیفیکیٹ نہیں ملا تھا۔ اور کتنے 23 مارچ عورتوں کی لاشوں پرمناؤ گے۔ ہم عورتوں کو یہ سرٹیفیکیٹ دینے کے لیئے ۔ یا پھر ہم عورتوں کو اپنی لیئے کوئی الگ پاکستان بنانے کی تحریک شروع کرنی ہوگی؟ جہاں ہماری عزت ، ہماری جان اور ہمارے وقار کو کوئی آتا جاتا لات مار کر سلامت نہ نکل سکے ۔جہاں ہمیں تیزاب کی بوتلیں اٹھائے ہوئے اپنے ہی رشتے غنڈوں کی صورت گھیرتے ہوئے نہ نظر آئیں ۔جہاں پر بے غیرتی کو غیرت کا نام نہ دیا جاۓ ۔ جہاں پر زبردستی لڑکیوں کے سر نکاح خواں کے سامنے ہلوا کر اپنے ہی باپ اور بھائی اپنی ہی آبرو کو بدکاری کے لیئے نہ بھیج دیتے ہوں ۔کہ جہاں ہمیں معلوم ہو کہ صبح طلاق طلاق کا کھیل کھیلنے والے شام کو اِنہیں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہوئے اور حرام کی اولاد گود میں لیئے ان سے حلالی ثابت ہونے کی توقعات وابستہ نہیں کرنا ہیں ۔ بیٹوں کو بہنوں کی جاسوسیوں پر لگانے والے بھائیوں سے ان کے سروں پر دوپٹے اوڑھانے کی توقع نہیں کرنی ہیں ۔ بلکہ پہلے انہیں اللہ کی بنائی ہوئی حدود کے اندر اپنے ساتھی کو چننے کا اختیار دینا ہو گا اور جب تک وہ اپنی رضا مندی سے اقرار نہ کر لے اسے کسی کے ساتھ بھی رخصت نہیں کرنا ہے ۔اور یہ جاننا ہے کہ یہ حرام ہے۔ اس کے رخصت ہونے کے بعد اس کے جنازے کا انتظار نہیں کرنا ہے کہ بس کفن میں واپس آنا نہیں کہ یہ بذدلی ہے ۔ اسے تربیت اتنی محبّت سے دی جائے کہ وہ آگے جاکر محبت بانٹ بھی سکے ۔اور لے بھی سکے کہ یہ آپ کی تربیت کا امتحان ہے اور جو کسی بد نصیب بیٹی کا واسطہ خدانخوستہ درندوں سے پڑ جاۓ تو اس کو اپنی حفاظت کرنا بھی سکھائیں اور یقین دلائیں کہ بیٹی تیرے باپ اور بھائی  تیری حفاظت کرنے والوں میں نظر آئیں گے ناکہ تجھےشرمسار کرنے والوں میں ۔ اپنے گھر کا کوڑا صاف کرنا ہے ناکہ کارپٹ کے نیچے کرنے کے بعد ہاتھ جھاڑنے ہیں ۔کہ کوڑا بو دینا شروع کر دے اور ہمیں اس بو کے ساتھ رہنے کی عادت ہونے کی وجہ سے وہ بو بھی محسوس نہیں ہوتی۔ کیا کہوں مجھے پہلے میرے سوال کا جواب تو دیں کیا آج میرا ایک عورت کا بھی 23 مارچ ہے ؟ اگر ہے تو کہاں ہیں ہمارے قاتل ہمارے مجرم ۔ پھاڑ دو یہ سارے کالے صفحات جن کی تیار کروانے کے لیئے لوگوں کی
جوانیا ں گلا دی جاتی ہیں اور بھر بھی یہاں سے فاخرہ یونس خالی ہاتھ منتظر آنکھوں کے ساتھ اٹلی میں چھٹی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کو خدا کے دربار میں پیش کر دیتی ہے۔ 12 منٹ خدا سے محبّت کی ہوتی تو خدا اس کا ہو جاتا مگر پاکستان کے قانون پر اعتبار کیا جو 12 سال میں بھی اس کا نہ ہو سکا۔
انااللہِ واناالیہِ راجعون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
●●●
تحریر:ممّتازملک
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/