ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2015

ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ





A HISTIRY OF DENISH LITRETURE
ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ
صدف مرزا کے قلم سے
700 صفحات پر مشتمل ایک تاریخی کتاب
ممتازملک ۔  پیرس


دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی خواتین گئیں ان میں سے سوائے انگلش بولنے والے 

ممالک کے ان خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بہت کم رہی ہے جنہوں نے ان ممالک میں

جا کر باقاعدہ وہاں کی زبانیں سیکھی ہوں ۔ یا وہاں باقاعدہ کوئی ملازمت اختیار کی 

ہو ۔ ماسوائے چند ایک خواتین کے ۔ انہی خواتین میں سے یہ تعداد اور بھی محدود 

ہو جاتی ہے جب ان کا تذکرہ علم و ادب کے حوالے سے کیا جائے ۔ بلکہ یہ کہنا بے 

جا نہ ہو گا کہ مردوں میں بھی یہ تعداد آٹے میں نمک ہی کے براہر ہے ۔ لیکن آج ہم 

خود کو بجاء طور پر بہت خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسی پاکستانی 

خاتون کے استقبال کا موقع مل رہا ہے جنہوں نے نہ صرف اردوزبان میں پاکستان 

اور جہاں جہاں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے کی ادبی دنیا میں بہت تیزی سے 

اپنی جگہ بنائی اور نام پیدا کیا .بلکہ ڈنمارک جیسے ملک میں ڈینش زبان میں نہ 

صرف مہارت حاصل کی بلکہ ڈینش اور اردو کے امتزاج سے ایک خوبصورت اور 

شاندار کتاب پر کام کیا اور اسے اس پایہ کی تخلیق بنانے کے لیئے اپنی زندگی کے 

سات سال صرف کیئے کہ جسے نہ صرف پاکستانی اور ڈنمارک کے ادبی حلقوں 

نے بھرپور پذہرائی بخشی بلکہ اسے ڈنمارک کی یونیورسٹی کے ادبی سیکشن میں 

پڑھائے جانے کے لیئے بھی بہترین کتاب قرار دیتے ہوئے اسے وہاں کے نصاب 

میں شامل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ 


یہ خاتون ہیں محترمہ صدف مرزا صاحبہ ۔ 

اب ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کسی بھی قاری کے لیئے بہت ہی مشکل ہے کہ 

یہ خاتون شاعرہ اچھی ہیں یا نثر نگار ۔ یہ مکالمہ اچھا لکھتی ہیں یا کہانی اچھی بنتی 

ہیں کیونکہ ان کی ہر تحریر شروع کرنے والے کو اختتام تک باندھے رکھنے کا ہنر 

جانتی ہے ۔ 

آج ہم جس شاندار کتاب کی پہلی بین االاقوامی تقریب رونمائی کے لیئے یہاں پیرس 

میں منتظر ہیں ۔ وہ کوئی عام سا موضوع اور سو پچاس صفحات پر مشتمل تخلیق 

نہیں ہے بلکہ سات سو صفحات پر مشتمل ایک بھرپور ضخیم کتاب ہے . جو 

ڈنمارک کی تاریخ کو مختلف حوالوں سے ستائیس حصوں میں بیان کرتی ہے ۔ اس 

کتاب میں پتھروں کے دور سے لیکر اب تک کی زبان کی ترقی کےسفر کا احوال 

بیان کیا جاتا ہے تو اس سے وابستہ ان تمام سماجی اور سیاسی حالات پر بھی نظر 

ڈالی جاتی ہے جو کہ اس سفر میں وقوع پذیر ہو رہے تھے ۔ اس کتاب میں وہ 

تاریخی حقائق بھی بڑے جامع انداز میں بیان کیئے گئے ہیں جو کہ یہاں کےہر دور 

میں ادب اور ادبی حالات پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں ۔ 

ہر ملک کی طرح ڈنمارک میں بھی وہاں کے پاسپورٹ کے لیئے وہاں کی زبان اور 

معاشرت سے آگاہی ایک بنیادی شرط ہے. تو یہ ضرورت بھی اس کتاب کے 

مطالعے سے بجا طور پر پوری ہوتی ہے . 

اس کتاب کے مطالعے سے آپ کو نہ صرف ڈنمارک کے بلکہ پورے سکینڈے نیویا 

کے حالات سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے .

یہاں ہم سکینڈے نیویا اور ڈنمارک کے اس زمانے میں جھانکتے ہیں جہاں وائی کنگز 

کے حالات بکھرے ہوئے ہیں تو کہیں دیو ملائی کہانیاں زندگیوں کا حصہ بنی ہوئی 

ہیں . کہیں توہم پرستی کی ایسی دنیا آباد ہے کہ کسی بھی عورت کو کوئی بھی اسکی 

کسی ہمت اور جرات کے جواب میں چڑیل قرار دلوا کر زندہ جلا سکتا تھا . ایک خاتوں کے لکھاری ہونے کا خیال یا شاعرہ ہونے کی صلاحیت بھی اس کا جرم قرار دے دی جاتی ہے. جہاں اس کی زندگی کو اس حد تک تنگ کر دیا جائے کہ وہ خود اپنی موت کو گلے لگا لے .

ڈینش بادشاہوں کے لیئے محلاتی سازشیں ہوں یا قید و بند اور جلاوطنی کی ڈراونی 

داستانیں یہ سب کچھ ایک شاعر کی نظر سے کیا منظر پیش کرتا ہے اور ایک 

شاعر کا قلم اس درد کو کیسے بیان کرتا ہے . یہ سب کچھ اور اس سے بھی کہیں 

زیادہ طلسم اس کتاب میں بند ملے گا . یہ کتاب آپ کو ایک پرانی دنیا کو نئے انداز 

میں دریافت کرنے کا موقع عطا کرتی ہے .

اس کتاب میں اپنے اپنے ادوار کے معروف ڈینش شعراء کے کلام کے خوبصورت 

تراجم بھی شامل کیئے گیئے ہیں جو ہمیں اس وقت کےزہنی معیار سے آگاہی بخشتے ہیں .
اس کتاب میں پچلھے پانچ سو سالوں میں ڈنمارک میں ہونے والے تمام شاہی ادوار کا بھرپور جائزہپیش کیا گیا ہے جو اپنے اپنے زمانوں میں ادبی کاموں پر اپنے اثرات چھوڑتے رہے ہیں۔ بادشاہوں کا یہ ہی زمانہ جب عالمی جنگوں کے دوراہے پر پہنچتا ہے تو ادب کی دنیا کا انداز ایک اور رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ایک جانب لاکھوں کروڑوں لوگوں کی اموات کے نوحے سنائی دیتے ہیں تو ان گنت جدائیوں اور ناقابل یقین ملاپ کے قصے بھی نظر آتے ہیں ۔ کہیں یہ عالمی جنگیں ملکوں ملکوں تباہی کے آثار چھوڑتی اور سرحدوں کے ازسر نو تعین کی جانب انسانوں کو بڑھاتی ہوئی اختتام پذیر ہوتی ہیں تو کہیں مختلف معاملات میں خواتین کی شمولیت کے احساس کو انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے مختلف تحریکوں کے آغاز کی نوید سناتی ہیں ۔ 
یہاں پر یورب بھر میں عموما اور ڈنمارک میں خصوصََا ان نسائی تحریکوں کا حوالہ دینا بھی انتہاتئ ضروری ہے جنہوں نے ٹھیک آج سے ایک صدی قبل ڈنمارک کی خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کو یقینی بنا کر ڈنمارک کی ترقی میں خواتین کے کردار  کے لیئے راستے کھولے بلکہ ان کی ہر شعبے میں شمولیت کی ضرورت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ کہ اس کے بعد خواتین کو اپنے حقوق کے لیئے ان کے تحفظ کے لیئے بے شمار راستے ملتے چلے گئے ۔ لیکن ان خواتین کی قربانیوں اور صدیوں کی جد جہد کو یہ ڈنمارک ہی نہیں بلکہ پورا یورب سلام پیش کرتا ہے ۔ کہ جس کی وجہ سے یہاں ایسے قوانین بنانے کی راہ ہموار ہوئی جس نے عورت اور بچوں کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ ان کی تعلیم اور زندگی کے ہر بنیادی حق کے حصول کے لیئے ہر قدم پر انکی پشت پناہی کی ۔ 
گویا سات سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب آپ کو ڈنمارک کے پچھلے پانچ سو سال کے ارتقائی سفر پر لیجاتی ہے ۔ جہاں ڈینش ادب آپ کو ہر رنگ کی حقیقت 
سے روشناس کراتے ہوئے تاریخ کے انمٹ نقوش آپ کے ذہن پر چھوڑتے ہوئے آپ 
کو سوچوں کے بھنور میں جُھلاتے ہوئے آج کے ڈینش اردو کے اس حسین سنگ مِیل پر لا کر حیران کھڑا کرتا ہے ۔
اپنے اپنے ادوار کے معروف ڈینش شعراء کے کلام کے خوبصورت تراجم بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہیں ۔
جس میں یہ ملاحظہ فرمایئے
Thomas Hansen Kingo 1634-1703
THOMAS KINGO
دنیا سے اکتاہٹ اورعقبی سے الفت 1634 - 1703
Hans Adolf Brorson
Hver har sin skæbne
مقدر سب کا اپنا ہے (1681) ( 1694 - 1764)

خوبصورت ترین گلاب مل گیا
ہینس ایڈولف Den yndigste Rose er funden 1732
"De levendes Land" (1824)
Nikolai Frederik Severin Grundtvig 1783 – 1872 
زندوں کا جہاں یا زندوں کی سرزمین

اکتا دینے والا زمستانی موسم رخصت ہو چکا ہے

Ambrosius Stub (1705-1758)
 1740 Den kedsom vinter gik sin gang
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Ewald, Johannes Da jeg var syg
’’ شاہ کرسچن بلند مستول کے پاس ایستادہ تها ""
جب میں علیل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 Johannes Ewald 1743

"GULDHORNENE" 1802
 طلائی سینگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 Adam Gottlob

کشور حسین شاد باد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ڈنمارک ، میرے اجداد کی سر زمیں
 Danmark, mit Fædreland 1850 دلکش ہے ہماری ماں بولی
 1859 Sophus Claussen سوفس کھلائوسن (1865-1931)
 ”Imperia” امپیریا 1909 Poul Henningsen 1894- 1967 1940
1915- 2004
ہمارے ہونٹوں پر مہریں لگائی جا سکتی ہیں اور ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاجوردی گلِ لالہ Den blå anemone

Kaj Munk 1943
Halfdan Rasmussen
Bare en regnvejrsaften.

1944
صرف موسمِ برسات کی ایک شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض کہ ہر نظم بے مثال ہے اور اپنے اندر ایک پورے دور کو سمیٹے ہوئے نظر آتی ہے ۔ پاکستانی کی حیثیت سے آج ہم محترمہ صدف مرزا صاحبہ کے بے حد مشکور ہیں کہ جنہوں نے پھر سے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی بیٹیاں دنیا میں کہیں بھی موقع ملتے ہی اپنا ہنر منوانا اور اپنے پرچم کو سربلند کرنا خوب جانتی ہیں .
 محترمہ صدف مرزا صاحبہ ہم آپ کو پوری قوم  اور خصوصََا اہل پیرس کی جانب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور آپ کی مزید ترقی کیلئے نیک خوایشات کا تحفہ آپ کی نظر کرتے ہیں ۔ کیونکہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے آگے
دنیاوی تحائف بیکار نظر آتے ہیں .
پاکستان زندہ باد
پاکستانی بیٹیاں پائیندہ باد                               
                                       .....................
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 12 اکتوبر، 2015

●(14) ڈومیسٹیک وائیلنس کب تک گھریلو معاملہ / کالم۔ سچ تو یہ ہے





(14) ڈومیسٹیک وائیلنس کب تک
گھریلو معاملہ
تحریر: ممتازملک۔ پیرس

  


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین اپنےہیگھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدّد کا شکار ہوتی ہیں ۔ یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہیں دل میں ایک پرانی یاد کا درد اٹھا۔  یہ اس وقت  کی بات ہے جب میں شاید نویں یا دسویں جماعت کی طالبہ تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی  کہ ہر ایک کا مسئلہ میرا ہی مسئلہ لگتا تھا ، حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج بھی تھی کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے ۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی نے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کا عادی کر دیا تھا ۔ یہ انہی دنوں کی کربناک یاد ہے جب  میں ایک  قریبی جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھا کرتی تھی ۔ مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ، ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی ،اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں ، کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،  کیوں اس کی ٹانگ نہیں توڑتی. بےگناہ کیوں اتنا تشدّد برداشت کرتی ہیں ۔ کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی پتھر کی دیوار پر . خاص بات یہ کہ اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری  نہیں تھا ۔ کبھی اس بات پر پِیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے  ہوئے بات کیوں کی . دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا . رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ؟ تمہاری ماں مر گئی ہے کیا ؟ ہنس کیوں رہی ہو تمہاری ماں کا بیاہ ہےکیا؟کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا  یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا . افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے . گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا . گلاس پورا کیوں بھرا ۔ پانی ضائع کرتی ہو. یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینََا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتا ہے ۔ کوئی نارمل آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئے اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدّد کی رپوٹ  بنا کر ہم نے اس وقت کے ایک ایسے ادارے کے نام بھجوا دی کہ جو ان دنوں ایسے معاملات پر ایکشن لینے کا مجاز تھا  تاکہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے ۔  بڑے دنوں کے انتظار کے بعد آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ ''یہ ایک گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے  میں کچھ نہیں کر سکتے ''یہ سن کر وہ وہ خاتون  زاروزار روئی اور بولی'' بیٹا میں نے کہا تھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں۔ کتابوں میں ہی ہوتی ہیں مجھ جیسی عام سے گھر کی عورت کو بچانے کے لیئے کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا۔ مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھول بڑھ جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں باپ اس لیئے بیاہ دینے کے بعد  ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر  سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے   . میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے ."اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدّد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں . صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے ، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جارھا ہے ، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر لوگوں کو نچوڑا جاتا ہے ، تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے ، کیوں ؟؟؟؟؟؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی ہوتا ہے . آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا ؟ آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اس کی ادھ کُھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ" دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کوئ پاکستانی  قانون کسی عام سی پاکستانی خاتون کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا ". میرا سر جھک گیا اور بیساختہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی . .....●●●                      تحریر ۔ممتازملک                  مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے     اشاعت: 2016ء                  ●●●                                      

پیر، 5 اکتوبر، 2015

شکریہ برائے دفاع پاکستان




گزشتہ ماہ 20ستمبر 2015 کو لاکونیوو میں دفاع پاکستان کے سلسلے میں منعقد ہونے والے پروگرام میں ہم اپنی اور  تمام کمیونٹی کی جانب سے مالی معاونت کرنے والی تمام پاٹیز کے شکر گزار ہیں ۔ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان مسلم لیگ ق ، پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں .ان تمام پارٹیز کی معاونت نے اور  تمام عیدیداران اور کارکنان نے اس پروگرام کی تیاری اور انعقاد  کو ممکن بنایا ۔ جس کے لیئے ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں   کہ وہ آئندہ بھی اپنا بھرہور تعاون جاری رکھیں گے۔
ممتازملک ۔  پیرس

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015

& نیل کٹر ۔ افسانچہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی





نیل کٹر
         ممتازملک. پیرس          

اس روز ایک  فرنچ نوجوان تیزی سے میری بوتیک میں داخل ہوا . اور کاونٹر پر مجھے کھڑے دیکھ کر بولا
 آپ کے پاس نیل کٹر ہے؟
میں نے مسکرا کر اور حیران ہو کر اس سے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ 
 ،نہیں جناب ہمارے پاس نیل کٹر تو نہیں ہے 
  وہ تھوڑا جھلایا  اور مجھے تقریبا ڈانٹتے ہوئے بولا
کیوں نہیں ہے آپ کے پاس نیل کٹر ؟
ہونا چاہیئے تھا نا ......
اور پیر پٹختے ہوئے بوتیک سے باہر نکل گیا .
اور میں  نے دل میں پنجابی میں شرمندگی کے ساتھ کہا 
"پائن کسے کول نیل کٹر نہیں وی ہوندا "
(بھائی کسی کے پاس نیل کٹر نہیں ہوتا)
اب جب چند نیل کٹر رکھے تو یہ ہی سوچا کہ بھئی کوئی نیل کٹر کا مارا ادھر آ ہی سکتاہے . (جسے اس کے ناخنوں نے کہاں کہاں شرمندہ  کروایا ہو ) بیچارہ مایوس تو نہ جائے. 
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                             





پہنچے ہوئے

     


  پہنچے ہوئے صدف مرزا

ممتازملک  . پیرس





ہماری کبھی کبھی کی  گھریلو مددگار(  جو نام کی ہی نہیں مزاج کی بھی رانی ہیں ) نے بڑے پر خیال انداز میں ہم سے رازادانہ  انداز میں پوچھا 

باجی ممتازملک صیبہ  کے خیال اے میں وی ڈان مارک والے باجی صدف صیبہ دی بیعت نہ ہو جاواں ....
(باجی ممتازملک صاحبہ  کیا خیال ہے میں ڈنمارک والی باجی صدف کی بیعت نہ کر لوں )
ہیں کیا کہہ رہی ہو رانی جی، آپ کو کس نے کہا کہ وہ کسی کو بیعت کرواتی ہیں .
ہم نے اچھل کر پوچھا 
تو مزید رازادانہ انداز میں جواب  آیا 
نہیں باجی ممتازملک صیبہ جس ویلے تسی کار نئیں سی نہ ، تے ڈان ماراک والے باجی صدف  صیبہ نے دسیا سی کہ 
میں بڑے بڑے سیاڑیں مرید کیتے نے...
من لگدا اے اناں دا پیری فقیری دا وی کم اے . باجی بڑےےےے پہنچے ہوئے نے .(جب آپ گھر پر نہیں تھیں نہ تو ڈنمارک.والی باجی صدف صاحبہ  نے بتایا تھا کہ انہوں نے بڑے بڑے سیانوں  کو اپنا مرید کیا ہے . 
مجھے لگتا ہے ان کا پیری فقیری کا بھی   کام ہے . باجی بڑی ی ی  پہنچی ہوئی ہیں .  
اور صدف  مرزا کی اس شرارت نے مجھے اس معصوم  رانی جی کو ڈانٹنے کے باوجود ہنسا ہنسا دیا . 
میں نے کہا رانی جی
آہو باجی بڑےےےےے پہنچے ہوئے نے .
پہلے وہ گھر سے کام پر پہنچتی ہیں پھر وہ کام سے گھر بھی پہنچ جاتی ہیں ،
ہوئے نہ پہنچےےےےےے  ہوئے 
چلو کام تے شاواشے
صدف مرزا شاواشے
تہاڈا ککھ  نہ جائے
                        ..........

منگل، 22 ستمبر، 2015

19ستمبر 2015 میلہ عید الاضحی



19ستمبر 2015 میلہ عید الاضحی
رپورٹ / ممتاز ملک ۔ پیرس


آصفہ ہاشمی ،ناصرہ خان ،شہلا رضوی اور انکے گروپ نے  پیرس کے علاقے لاکورنیوو میں ایک عید میلے کا اہتمام کیا . جس میں پاکستانی ،انڈین، موریشین  ،عرب اور یورپین خواتین  نے بھی شرکت کی . اور کھانے پینے ، ملبوسات ،جیولری، میرج  بیورو ،بیگز ،چنا چاٹ ،مٹھائی ، دہی بڑے ،گول گپے،پکوڑے سموسے اور بہت سے دوسرے لوازمات کے سٹالز لگائے گئے . چھوٹا سا سٹیج پروگرام بھی تیار کیا گیاجس میں نور نے تلاوت کلام پاک پیش کی ممتاز ملک نے نعت رسول پاک پیش کی .  طاہرہ سحر نےبچوں کا ایک خاکہ پیش کیا . خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے اس میلے میں شرکت کی اور اس میں لگائے گئے سٹالز میں گہری دلچسپی کا اظہارکیا . اور ایسے پروگرامز کو دوسری کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کرنے پر مبارکباد بھی پیش کی .  اور میڈیا کے ساتھیوں کا اسے بھرپور کوریج دینے پر شکریہ بھی ادا کیا .

دفاع پاکستان مشترکہ کاوش

دفاع پاکستان مشترکہ کاوش
ممتازملک -پیرس

20 ستمبر 2015 بروز اتوار





پیرس کے علاقے لاکورنیوو کے ہال میں یوم دفاع کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا . جس کے مہمان خصوصی سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب تھے . اس پروگرام میں ان کے ساتھ  سفارت خانے میں تعینات ان کے عملے کے اراکان نے بھی شرکت کی جن میں ڈیفنس اتاشی فواد حاتمی ،گروپ کیپٹن  عامر بشیر، آرمی نیول اتاشی راشد محمود، ایچ او سی عمار امین، محترمہ عائشہ صاحبہ شامل تھیں 
ان میں سے دو کے والد صاحبان بذات خود 65 اور 71 کی جنگ میں حصہ لے  چکے تھے اور یہ دونوں بھی پاک افواج کے دلیر سپوت رہ چکے تھے . اس کے علاوہ ان میں وہ سپوت بھی شامل تھےجنہوں نے سوات آپریشن  میں شاندار کارنامے انجام دیئے اور شدید زخم بھی کھائے . سال بھر اسی سلسلے میں زیر علاج بھی رہے اور بعد میں پیرس ایمبیسی میں تعینات کیئے گئے . 
اس پوری سفارت خانہ گروپ کی اس پروگرام میں شمولیت  بہت ہی خوش آئند تھی . 
پروگرام کی نظامت یاسر قدیر نے کی . ترانہ نوجوان امیش خان نے پیش کیا .
جبکہ شبانہ عامر کیساتھ آئے بچوں کا نے بھی ملی نغمہ پیش کیا.  
ویسے تو جب سے سیاسی جماعتوں نے فرانس میں ڈیرے ڈالنے شروع کیئے ہیں عوام کی جوتیوں میں دال  یہاں بھی بٹنے  لگی ہے . پاکستان کی خدمت کیا کرتے  ،جس کی جیب میں جتنے زیادہ نوٹ ہوتے ہیں اس کے پاس اتنی ہی بڑی عہدے کی کرسی بھی ہوتی ہے .  اس لیئے تبھی سے کبھی بھی کوئی قومی پروگرام ایک ہی پلیٹ فارم پر دیکھنے کا موقع نہیں ملا . یہ اعزاز بھی سفیر پاکستان کو ہی جاتا ہے کہ ان کے مطالبے پر تمام جماعتوں اور تنظیمات  نے پہلی بار ایک ہی پلیٹ فارم  سے یہ پروگرام پیش کیا . جو کہ انتہائی خوش آئیند بات ہے. 
سفر پاکستان نے اپنے مختصر خطاب میں پاکستانیوں پر یوم دفاع کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ اپنے غیر ملکی اور فرنچ دوستوں کو یہ بات باور کرائیں کہ پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سلامتی کی جنگ ہے اور اس میں انہیں اپنا حصہ مالی نہیں تو کم از کم اخلاقی طور پر ضرور ڈالنا چاہیئے . کیونکہ اس جنگ کو ہارنا اس دنیا کے امن کو ہارنے کے برابر ہے .  جس کا متحمل ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہو سکے گا . 
اس انتہائی خاص پروگرام میں ہائے پروفائل مہمانوں کو بلانے کے باوجود کسی قسم کے خاص تیاری کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی .ہمارے معزز بھائیوں کو اکثر یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ اچھا سا سوٹ پہن لیا ،ٹائی لگا لی ، مہنگی گھڑی قیمتی موبائل اور لمبی مہنگی گاڑی ان کو دانشور بھی بنا دیتی ہے ،ان کو لیڈر بھی بنا دیتی ہے ،ان کو مقرر بھی بنا دیتی ہے ،ان کو اینکر بھی بنا دیتی ہے . یعنی دوسرے لفظوں میں آپ کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں کیوں کہ آپ کی جیب بھری ہوئی ہے یا آپ کی پی آر او بہت اچھی ہے . 
بہت ہی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مائیک پر آنے والے  دو تین لوگوں کو چھوڑ کر کسی کو بھی اپنی قومی زبان  اردو بولنے کا شاید کوئی تجربہ نہیں تھا . اور وہ سب کسی خاص موقع پر ہی اردو کی ڈوز زکام کی دوائی  سمجھ کر ہی لیتے ہوں گے . 
اکثر نے مائیک کو بھی شاید اپنے چار دوستوں کی بیٹھک کا کھیل سمجھ کر اس سے کھیلا .  نہ تو ان میں سے اکثر کو موقع کی اہمیت کا احساس تھا اور نہ ہی ان میں کسی کو یہاں آنے سے پہلے اس موضوع پر پڑھنے کی کوئی ذحمت  محسوس ہوئی . جسکے جو منہ میں آیا اس نے وہاں منہ سے نکال دیا . ہمیں تویہ ہی محسوس ہوا. 
نعرے لگانے والے بھائی صاحب نے خوب جوش اور ولولہ دکھایا . کئی بار ان کے اچانک نعرے  نے ہمارا واقعی" ترا" نکال دیا .( ہم شاید ان کے نعرے  سے پہلے کسی اطلاع کے انتظار میں تھے.)
بچوں کے ٹیبلو کے لیئے جس خاتون کی آمد تھی وہ ہماری بڑی پیاری اور معزز بہن ہیں لیکن ان کے ساتھ آئے بچوں کی تیاری بھی متاثرکن نہیں تھی یا شاید انہیں تیاری کا وقت ہی نہیں ملا . لیکن اتنے خاص موقع اور خاص مہمانوں کے سامنے ایسے کچے پکے پروگرام پیش کرنے کی آخر کیا ایمر  جنسی تھی ہم سمجھ نہیں سکے. بچوں کے پروگرامزکی جب تک بہترین تیاری نہ ہو. انہیں ایسے پروگرام میں شامل نہیں کیا جانا چاہیئے .  
کچھ ہماری بہنوں کو شاید موقع کے حساب سے تیار ہونے کی بھی اتنی سینس نہیں ہے . جو شاید ہر موقع کو شادی کا موقع بلکہ اپنی شادی کا موقع سمجھ کر ہر میک اپ برانڈ خود پر آزمانا  ضروری سمجھتی ہیں . انہیں اگر سالوں ایسے اجتماعات میں شامل ہونے کے باوجود لباس اور میک اپ کا پتہ نہیں چلا تو پروگرام کے منتظمین کو چاہیئے کہ موقع کی مناسبت سے انہیں ڈریس کوڈ بلکہ میک اپ کوڈ کی بھی نشاندہی کروائیں  .تاکہ وہاں مجمع میں انہیں  کارٹون بننے سے بچایا سکے.
میڈیا کے تمام بہن بھائیوں نے خوب محنت سے اپنا فرض نبھایا. جن میں جیو،اے آر وائے، وقت اور دوسرے کئی شامل تھے  .
. اس پروگرام کو  دیکھنے اور اس میں شرکت کرنے کے بعد کچھ باتوں کا شدت سے احساس ہوا جسے ہم یہاں واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے تمام بہن بھائیوں سے امید کرتے ہیں کہ اسے کوئی بھی اپنے اوپر ذاتی حملہ نہیں سمجھے گا بلکہ ایک ہمدرد ساتھی کی ہمدردانہ صلاح سمجھے گا . تاکہ آئندہ ایسے کسی پروگرام کو مزید بہتر بنایا جا سکے . 
پہلی بات تو یہ ایسے پروگرام کا وقت چھٹی ہی کے دن لیکن شام سات بجے کے بعد رکھا جائے تاکہ مزید لوگوں کی  آمد کو بھی یقینی بنایا جا سکے.
دوسری بات . تمام جماعتیں اور تنطیمات ہر سال قومی پروگرام ایک ساتھ کریں تو بڑے سے بڑا ہال لیا جائے . تاکہ جتنی بھی عوام کی  تعداد  آئے اسے یہاں اچھے سے بٹھایا جا سکے.
تیسری بات . سٹیج پر صرف آنے والے مہمانوں کو اور سٹیج سیکٹری کو ہی بٹھایا جانا چاہیئے . جب کہ باقی خاص مہمانوں یا شرکاء کو اگلی  محفوظ کی گئی کرسیوں پر بٹھایا جائے .
چوتھی بات . مائیک پر آنے والے ہر شخص کے بولنے کی صلاحیت کا آپ کو خوب اندازہ ہونا چاہیئے . ایسے مواقع پر مائیک  ٹیسٹنگ  والوں کو مائیک سے دور رکھا جائے .
میڈیا نے بھرپور انداز میں سارے پروگرام کی کوریج کی جن میں صاحبزادہ عتیق الرحمن، علی اشفاق، فیصل شیر،اور دوسرے بہت سے ساتھی شامل تھے . جبکہ سٹیج  اور پروگرام کی تیاری میں عاکف غنی۔ آصف  جاوید ۔۔حاجی ابرار اعوان۔ عاطف مجاہد۔ یاسر قدیر ،سجاد ڈوگہ نے خصوص طور پر بھرپور حصہ لیا .  
پروگرام کے منتظمین  کو یہ درخواست پیش کرتے ہیں کہ آئندہ ایسے خصوصی پروگرام سب مل کر پیش کریں تو ان کے لیئے زیادہ بڑے ہال کا انتظام کیا جائے تاکہ کسی کو جگہ نہ ہونے یا بیٹھنے کی جگہ نہ ملنے پر مایوس واپس نہ لوٹنا پڑے . ایسی کوششوں کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں . اور اس میں اخلاص  سے کوشش کرنے والوں کو بھی دل سے سراہتے ہیں .
                         .........

پیر، 21 ستمبر، 2015

حج بنا جو حاجی ہو گئے۔ افسانہ۔



حج بنا جو حاجی ہو گئے
ممتازملک ۔ پیرس


وہ اس دن بے حد خوش تھا اس کی سالوں کی مراد بر آئی تھی . اس کا حج پہ جانے کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا . آج قافلے کے رہنما سے اس کی فیصلہ کن بات  ہو گئی تھی اور کل اسے تمام رقم رہنما کو ادا کرنا تھی. وہ ابھی سے خود کو مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں گھومتا ہوا محسوس کر رہا تھا .
یہ رقم اس کی سالوں کی جمع پونجی تھی جو اس نے دن رات کی محنت کے بعد بچائی تھی . 
اپنے گھر کے دروازے پر پہنچتے ہوئے اسے ساتھ کے گھر سے گوشت بھوننے  کی خوشبو آئی . اسے معلوم تھا گھر میں آج گوشت نہیں بنا تو اس نے بلا سوچے سمجھے ہی پڑوسی کے دروازے پر دستک دی . ایک نوجوانی کی آخری دہلیز پہ کھڑی لڑکی نے پردے کی اوٹ سے پوچھا کیا بات ہے چچا جان . ..
بیٹا آپ کے گھر سے گوشت بھوننے کی خوشبو آئی تو رہ نہ سکا . کیا کچھ بھنا گوشت ملے گا میں کل گھر  میں پکوا کر لوٹا دونگا.اس نے لجاجت سے کہا 
لڑکی سوچتے ہوئے رندھی  ہوئی اواز میں
بولی . 
لیکن یہ گوشت آپ کیسے کھا سکتے ہیں . یہ تو ہمارے لیئے حلال  اور آپ کے لیئے حرام ہے. 
کیا.مطلب بیٹا ہم ایک ہی دین کےماننے والے ہیں تو جو چیز آپ کے لیئے حلال ہے وہ میرے لیئے حرام کیسے ہو سکتی ہے . 
لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر کر اس کے پھٹے ہوئے دوپٹے میں جذب  ہونے لگے . 
کچھ دیر توقف کیا پھر بولی آپ جانتے ہیں ہمارے والد صاحب کافی عرصہ سے بیمار ہیں ہم بہنیں ہی مزدوری سے گھر چلاتی ہیں . کافی دنوں سے کوئی کام نہیں ملا تو گھر میں فاقے ہونے لگے .آج ایک ہفتے کے فاقے کے بعد مجبور ہو کر باہر سے مرے ہوئے گدھے کا گوشت لائی ہوں کہ اسے کھا کر کم از کم ہم زندہ تو رہ سکیں . لیکن یہ آپ کیسے کھا سکتے ہیں ہمیں تو اپنی زندگی کی ڈور کو سلامت رکھنے کے لیئے یہ کھانا پڑا . ہم میں سے کسی کی شادی اسی غربت کی وجہ سے نہ ہو پائی ورنہ شاید ہم اس قدر تنگ دست نہ ہوتے . 
یہ سنتے ہی وہ سناٹے میں آگیا . اس کی آنکھوں ہی میں نہیں دل میں بھی طوفان سا آ گیا . جن کے در کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنانے چلا ہوں ان کی تو پہلی بات ہی پوری نہ کر سکا کہ "جس کا پڑوسی بھوکا ہو اور وہ پیٹ بھر کر سو گیا تو وہ ہم میں سے نہیں .
یا اللہ یہ کیا ہو گیا یہ گھرانہ ہفتے بھر سے بھوکا تھا میرے گھر سے ہر پکوان کی خوشبو یہاں تک آتی رہی اور یہ مجبور بھوک سے تڑپتے رہے .
میں پیٹ بھر کر سو گیا اور یہ فاقہ زدہ اس حال میں تھے .
میں جس خدا کے گھر کا حج کرنے جا رہا ہوں  اس نے تو بیٹی کو آباد کرنا اس کی شادی کر کے اسے اپنے گھر کا کر دینے کو ہی حج کر دیا ہے اور میں بے خبر رہا . 
وہ الٹے پیروں لوٹا اپنے گھر سے حج کے لیئے رکھی رقم اتھائی اور اس لڑکی کے والد سے مل کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی کہ میں معافی چاہتا ہوں آپ کے حال کی خبر نہ رکھ سکا اب آپ اسے قرض حسنہ سمجھ کر قبول کریں اور اپنی بیٹیوں  کی رخصتی کا انتظام کریں . 
اسی رات اس وقت کے سب سے بڑے عالم نے خواب دیکھا کہ خانہ کعبہ پر دو فرشتے آپس میں بات کرتے ہوئے پوچھتے ہیں. بتاو بھلا اس سال کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا تو دوسرے نے کہا اس سال اللہ پاک نے یہاں آنے والے تمام لوگوں کا حج اس ایک آدمی کی محبت میں قبول کر لیا ہے جو کہ حج کرنے آیا ہی نہیں اور وقت کے اس عالم کو اس عام سے مزدور کا چہرہ دکھا دیا گیا . جسے ڈھونڈ کر اس سے پوچھنے پر انہیں اس کہانی کا علم ہوا اور حج کی مبارکباد بھی پیش کی . 
لیکن ہمیں کیا ہم تو تیرہ لاکھ کا بیس لاکھ کا بیل خرید کر پورے علاقے میں اس کے میڈیا میں اپنے نام کی دھوم کیوں نہ مچائیں . پڑوس میں ، عزیزوں میں  کسی کی بیٹی محض پچاس ہزار میں بیاہی نہیں  جا رہی تو کیا ہوا اس کا نصیب . کسی کے گھر میں مہینوں سے گوشت نہ پکا ہو تو ہمیں کیا. کسی کا چولہا نہیں جلا تو میرا مسئلہ نہیں ، کسی کو کئی دن سے کام نہیں ملا تو میں ذمہ دار تھوڑا ہوں ، میری ہی گلی میں کوئی دوا نہ ہونے پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے تو خدا اس کو صحت دے ، میں کیوں ٹینشن لوں عید سر پر ہے جی سب سے قیمتی لاکھوں میں تو بیل  ہی چاہیئے جو میرے دروازے پر بندھا تو پورے علاقے میں میری بےجا بےجا  ہو جائے .آخر کو چار لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے .
ٹی وی بند کرو بھائی کیا ہر وقت دکھڑے سناتا رہتا ہے. فاقہ زدہ مخلوق دکھا کر سارے کھانے کا مزا خراب کر دیا۔
                   ●●●

بدھ، 9 ستمبر، 2015

بلاوجہ.بھی دورہ کیجیئے . ممتازملک. پیرس






کتنا عجیب ہے انسان بھی نہ کسی کو زندگی دے سکتا ہے نہ کسی کو اپنی مرضی سے موت دے سکتا ہے . نہ کسی کا رزق لکھ سکتاہے، نہ کسی کی قسمت بدل سکتا ہے ،نہ کسی کی خوشی بن سکتا ہے، نہ کسی مچھر تک کو غم دے سکتا ہے، بنا اس ذات باری تعالی کی اجازت و حکم کے .مگر پھر بھی خود کو آقا، مالک ،مولا،سائیں ،شاہ اور جانے کیا کیا کہلاتا ہے . یہ ہی اس کے پست ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ اعلی ہونے کا دعوی کرتاہے . یہ جانے بنا کہ شاید اس کی نظر کا کوئی کمتر اللہ کے ہاں اس سے کہیں زیادہ بلند و بہترین مقام پر فائز ہو. اس روحانی مرض کے علاج کو چند مقامات کے دورے تجویز کر رہے ہیں شفا یاب ہونے کی گارنٹی رب کریم دیتا ہے .
ہر انسان کو کبھی نہ کبھی ضرور  کسی یتیم خانے کا دورہ کرنا چاہیئے تاکہ اسے معلوم ہو کہ جن کے رب کے بعد پالنے والے نہیں رہتے ان کی زندگی میں کیا کیا کمی اور حسرتیں رہ جاتی ہیں اور پھر انہیں پورا کرنے کے لیئے اللہ پاک کیسے کیسے انتظام و اسباب پیدافرماتاہے اور اسے کن کن مراحل سے گزار کر کن کن مدارج  پر فائز فرماتاہے . گویااظہار  فرماتاہے کہ جسے اپنے بعد انسان کا رب بنایا یعنی اس کا پالنے والا بنایا اگر اس کے بغیر میں ایک گوشت کے لوتھڑے  لو یہاں تک پہنچا سکتا ہوں تو گویا کیا نہیں کرتا اور کر سکتا . جنہیں ماں باپ کے بنا پال لیا تو دنیا میں کچھ بھی ہو سکتاہے کہ وہ (اللہ) کر سکتاہے . 
ہمیں کبھی نہ کبھی بلا وجہ بھی  کسی ہسپتال کادورہ کرنا چاہیئے یہ دیکھنے کے لیئے کہ میرے پاس وہ کیا ہے جس کی کمی نے ان لوگوں کو مریض کی صورت  یہاں پہنچایا اور جو میرے پاس ہے صحت کے روپ میں، میں نے اسے کتنا اس  کے دینے والے رب کی خوشی کے لیئے استعمال کیا ہے . کیا سونا جاگنا، کھانا پینا ہی ہماری زندگی کا اس صحت کا حق ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں . یا کسی اور اچھے کام کے لیئے بھی اس صحت کو کام میں لانا ممکن ہے ؟
کبھی کبھی ہمیں کسی پاگل خانے کا  دورہ بھی ضرور کرنا چاہیئے . جہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ ایک ہی رخ پر سوچتے ہیں جو اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کے لیئے اپنے ہی پیاروں کے مقابل آ گئے انہیں یہیں آنا پڑا . جن لوگوں نے یہ سوچے بنا اکڑ دکھائی کہ اکڑنا تو مردے کی نشانی ہے، وہ جیتے ہوئے بھی دنیا کے لیئے مر گئے . جنہیں یہ گمان رہا کہ دنیا ان کی انگلی کے اشارے پر ناچتی ہے انہیں خود اپنے اشاروں کی سمجھ رہی نہ خبر رہی. کہ خبیر  اور کبیر تووہی  ہے جو ہمیں یہاں لانے سے بچا سکتاہے کہ علیمی  اور خبیری  کی دعوے داری اسی کو زیب دیتی ہے.
کبھی کبھی ہمیں بلا وجہ ہی قبرستان بھی چلے جانا چاہیئے کہ وہاں ان سب سے عبرت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے کہ جنہیں بہت گمان تھا کبھی کہ یہ دنیا ان کے بل پر چلتی ہے . اور اس دنیا کا ان کے بعد کیاہو گا . اسی ڈھیر میں ایک ڈھیری کل ہمارے نام کے کتبے سے بھی آراستہ ہو گی اور دنیا اپنے اپنے ہنگاموں میں مست یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرے گی کہ کوئی ہمارے نام کا بھی ان کے درمیان موجود تھا کہیں . کسی کو یہ یاد بھی نہ ہو گا کہ اس نے ہمارے ساتھ بھی کبھی پیار اور وفا کے پیمان باندھے تھے . ہمارے نام کی بھی مالا جپی تھی  .کسی کو یاد بھی نہ ہو گا کہ ہمیں سوئی چبھنے پر انہیں خنجر سا درد محسوس ہوتا تھا. کہ اب اس شہر خموشاں میں ہمیں اپنی جگہ کو صاف اور آرام دہ بنانے کے لیئے ہمارے اپنے ہی اعمال کی ضرورت ہو گی . کوئی اپنی نیکی میرے نام نہیں کر سکتا اور کوئہ اپنا گناہ میرے سر نہیں تھوپ سکتا . کہ یہاں حساب اپنا اپنا چلتاہے اور کھرا کھراچلتا ہے .  جیتے جی یہاں کا دورہ کرنا شاید یہاں کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کر دے کہ گھر  لیتے وقت یہ جاننے کے لیئے کئی دورے کرنے والے کویہ جانناہوتا ہے کہ یہاں کا فرنیچر اور سازوسامان کیسا ہونا چاہیئے اسی طرح یہ قبرستان بھی ہمیں یاد دلاتاہے کہ یہاں کے گھر کو آرام دہ کرنے والا  سازوسامان اپنے اعمال بھی ساتھ لیتے آنا . یہ نہ ہو کہ خالی ہاتھ چل دو . یہاں سے واپسی ہونی نہیں اور سفر بھی آسان نہیں . کہیں پچھتانا  نہ پڑے . 
                                                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                          

ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

اک پھول تیرتا ہوا / شاعری ۔ کالم

 
        اک پھول تیرتا ہوا
     کلام: (ممتازملک. پیرس)


گلدستہ ٹوٹ کر یوں  سمندر میں گر گیا
اک پھول تیرتا  ہو ا ساحل پہ آ گیا

کیسی ہے بے بسی میرے اللہ کیا کروں
خنجر نشانہ لے کے میرے دل پہ آ گیا

شملہ سجا تھاجو کبھی اجداد پہ میرے
ٹھوکر  میں گر کے اب سر قاتل پہ آ گیا

اعزاز تیرے در کی طرف دیکھتا رہا
لیکن تیری وجہ سے وہ باطل پہ آ گیا

ممتاز جیتے جی نہ ہوئے سیر لب کبھی
اتناپیا کہ مرگ مقابل ہی آ گیا

یاد کیجیئے ہم سب نہیں تو اکثر یہ بات بچپن میں اپنے ماں باپ سے سنا کرتے تھے کہ بیٹا کمی اور خاندانی ہمیشہ پہچانے جاتے ہیں .اور ہم اپنی سمجھداری اور عملیت کا رعب  ڈالنے کے لیئے کہتے کہ کہا کہہ رہے ہیں آپ؟  دنیا بہت آگے چلی گئی ہے .آپ پتہ نہیں کس زمانے میں جی رہے ہیں .
لیکن آج دنیا کی اقدار دیکھ کر پھر سے وہ باتیں دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں کہ پھول کی لاش تیرتے ہوئے ساحل پر اوندھی  پڑی ہے .  بے شمار کے جسم زندگی کی تلاش میں موت کی دھاروں  پر بہہ نکلے.  اور دنیا کے چند دہائیوں پہلے تک کے بھوکے ننگے بددوں نے اپنے محلوں میں کئی کئی گز کے دسترخوانوں سے شکم سیر ہو کر مہنگے ترین جبے پہن کر ہزاروں کی پرفیوم  و عطر خود پر چھڑک کر  کروڑوں کے گھروں  سے نکل کر  لاکھوں کی چمچماتی کاروں میں بیٹھ  کرسونے چاندی سے جڑی ہوئی( عظیم الشان نہیں،   کہ یہ لفظ ان مساجد کے قیام اور انتظام  پر پورا نہیں اترتا ) مہنگی ترین   مساجد میں ایک دوسرے کو چومتے چمواتے  ان عربوں نے  بہت ہی بڑی قربانی دیتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ  چند سو کلو میٹر پر واقع مسلم عرب  ملک شام کے مسلمانوں  کے لیئے  ( کہ جنہوں نےیہاں  ہونے والے جنگ و جدل ا ور قتل عام سے بچنے اور اپنےمصصوم بچوں کو زندہ رکھنے کی خواہش گناہگارانہ میں زمینوں کے دروازے نہ کھلنے پر سمندروں کو اپنا آپ سونپ دیا ) درد مندانہ دعائیں کیں کہ "یا اللہ ان مسلمانوں کی مشکلات کو دور کر دے .یا اللہ یورپ والوں کو ان پر رحم آ جائے . یااللہ مسلمانوں کے مسائل حل فرما . ان کو امن دے ان کو رزق دے . اسلام کو سربلندی عطا فرما . ........"
اور میرے کانوں میں  سائیں سائیں سا ہونے لگا کہیں دور سے ابا کی آواز کانوں میں آ رہی ہے بیٹا" کمی وہ ہوتا ہے جو سونے کے پہاڑ اور تیل کے کنووں کا مالک بھی ہو جائے تب بھی کسی کو دھیلے  کی مدد دینے سے پہلے سودا کرے گا کہ اسے اس کے بدلے میں کیا ملے گا ، اور خاندانی وہ ہوتا ہے جو چار دن کی بھوک اور روزے  کے بعد  اور بے روزگاری کے بعد  بھی دن  بھر پیٹ پر پتھر باندہ کر مزدوری کرنے کے کے بعد بھی سوکھی روٹی میسر آ جائے اور کوئی ضرورت مند، کوی سائل اس کی چوکھٹ پر صدا لگا دے  تو بھی خالی نہیں جاتا .خود پانی سے حلق تر کر کے اسے اس روٹی سے نواز دیگا .  "
"جو فاتح خیبر اور شیر خدا ہونے کے باوجود اپنے منہ پر تھوکنے  والے کو اس لیئے معاف کر دیتا ہے کہ اگر اب میں نے اسے مار ڈالا تو خداکے  نام پر شروع ہونے والی لڑائی کو میری ذاتی جنگ سمجھ لیا جائے گا "
ہاں ہم نے دیکھ لیا کمی اور پشتی  کا فرق.  بڑے سچ کہتے تھے . آج خزانوں  پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے عربی ہے یا عجمی ہر ایک کمی ہے اور خاندانی اپنی سفید پوشی کا بھرم لیئے قدرت کے اس پھیر کو دیکھ رہے ہیں . اور سوچ رہے ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں ان مظلوموں کے لیئے کہ ہماری آواز تو نقارخانے کے طوطی سے بھی زیادہ بے وقعت ہو چکی ہے  . کہ فیصلے خاندانی لوگ نہیں بلکہ کمی لوگ کر رہے ہیں اپنے دماغ اور عقل کے اوپر کے فیصلے .
جن کے دماغ عورت ،شراب ،کم سن بچوں ، اونٹوں کی دوڑوں ،تیتر  اور ہرن  کے شکار، بڑی بڑی عمارتوں اور  پرتعیش نئے ماڈل کے جہازوں  ،حرم کے نام پر بنے عیاشی خانوں سے باہر نکلیں  تو انہی یہ سمجھ بھی آئے کہ تاریخ ان کے منہ پر روز ایک نئی کالک ملتے ہوئے رقم ہو رہی ہے .
ماں باپ گریبان چاک کیئے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں اور معصوم پھولوں کی لاشیں سمندر پر تیر رہی ہیں . جو خدا سے یہ تو پوچھتی ہی ہو ں گی کہ پروردگار ہمیں اس جہاں میں بھیجنے پر تجھے کیا ملا؟
میری بے بس لاچار موت پر کسی تیل کے کنویں میں آگ نہ لگی اور نہ ہی کوئی سونے کا پہاڑ پھٹا . ایک میں ہی تڑپا ، اک میں ہی چیخا لیکن کسی بھی موسیقی کی دھن پر تھرکتے طوائف کے ننگے بدن پر نوٹوں  کی بوری لٹاتے نہ عربی کے کان پر جوں رینگی نہ عجمی کی غیرت کو جوش آیا . سب بھول جائیں گے. ایک اور اور نیا حادثہ انہیں پچھلے حادثے کی یاد سے بیگانہ  کر دیگا . میں کسی کو یاد نہیں رہونگا.
لیکن ہاں مجھے یقین آ گیا کہ یہ دنیا میرے قابل نہیں تھی جہاں قیامت کی نشانی بننے والے خود اس پر فخر رہے ہیں .
انا للہ وانا الیہ راجعون      
                    ................                   
.

اتوار، 30 اگست، 2015

Safdar Barnali and Nashra Khan interview Mumtaz Malik on Takbeer Tv



MUDDAT HOI AURAT HOEY . / مدت ہوئ عورت ہوۓ ,,,,,,,,,,,,,,,,, MUMTAZ QLAM / ممتاز قلم ,,,,,,,,,,,,,,,,, میرے دل کا قلندر بولے/ MERE DIL KA QALANDR BOLE ،،،،،،،،،،،،،،،، REPORTS / رپورٹس ............ NEW BOOK/ نئ کتاب ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

جمعہ، 28 اگست، 2015

● (15) آو کمیشن کمیشن کھیلیں/کالم۔ سچ تو یہ ہے


    (15) آؤ کمیشن کمیشن                               کھیلیں 
       تحریر:ممتازملک۔ پیرس





ہمارے ہاں کا قومی رواج ہے کہ کوئی بھی حادثہ ہو جائے، سانحہ ہو جائے، کچھ  بھی ہو جائے،  حکومت کو جب عوام کے غیض و غضب سے بچنا ہوتا ہے تو وہ اس کے منہ پر کمیشن کی ٹیپ چپکا دیتی ہے . بلکل ویسے ہی جس طرح ڈاکو جب کسی کو لوٹتے ہیں تو اس لٹنے  والے کے شور سے کوئی خبردار نہ ہو جائے یا شور مچانے سے اس کا گلہ نہ خراب ہو جائے ، اس کے منہ  پر ٹیپ چپکا دیتے ہیں . کسی نے ایک آدمی سے پوچھا کہ بھائی خدانخواستہ  9/11  کا واقعہ ہمارے ملک میں ہوتا تو حکومت کیا کرتی . اس نے ہنس کے جواب دیا کہ کیا کرتی، ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی،  یا عوام پھر بھی شور مچانے سے باز نہ آتی تو حادثے پر ایک کمیشن بنا دیتی . 
یہ وہ کمیشنز ہوتے ہیں جن کا پچھلے ستر سال میں نہ تو کوئی کام منظر  عام پر آیا اور نہ ہی عوام کو اس کا کوئی نتیجہ ملا .
ہمارے ہاں اکثر مجرمان کے ڈانڈے اوپر والوں سے جا کر ملتے ہیں اور تب تک ملے رہتے ہیں جب تک وہ خود خدا سے نہ مل جائیں. ویسے اس کمیشن سے ان لوگوں کو بھی خوش کیا جاتا ہے جنہیں وزیر بے محکمہ کے آخری پائیدان  کے بعد بھی کوئی  وزارت نہیں ملتی .  لہذا ان سب متاثرین وزارات کو متبادل کے طور پر کسی بھی کمیشن کا رکن بنا دیا جاتاہے . آخر کو انہوں نے بھی انتخابات میں اپنا کالا دھن سفید کیا ہے . تو کچھ نیلا پیلا کرنا تو  انکا بھی بنتا ہی ہے . اس کمیشن کا کمال یہ ہوتا ہے کہ پہلے تو بدھو عوام کے منہ بند ، دوسرا بیکار ممبران کو عہدوں  کی سپلائی، تیسرا اپنے سارے اوپری پہنچ کے کرائے کے مجرمان کی پردہ پوشی کا مستقل حل تلاش کیا جاتا ہے اور اس سارے دودہ کی ملائی بھی تو ہوتی ہے وہ ہے ہر کمیشن پر باتیں، شہادتیں دبانے پر ملنے والا کمیشن یعنی جسے بھی کمیشن سے بچنا ہے تو کمیشن لگائے . کسی کو پھنسانا ہے تو کمیشن لگائے کسی کو بچانا ہے تو کمیشن لگائے . یوں ساری قوم مل کر حکومتی کمیشن کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتی ہے . چاہے کمیشن کے کمیشن میں حصہ نہیں بھی  ملتا لیکن جنہیں ملتا ہے وہ بھی اس ملک کی باعزت برادری ہے . تو ترقی تو ملک ہی کرتا ہے نا جناب . تو حکومتی اعلان اور کمیشن کمیشن کھیلیں پر ناک بھوں چڑھانے  کی بجائے اس کی برکات پر غور کیا کریں . کیونکہ  ناک بھوں وہ چڑھاتے ہیں جنہیں دوبارہ دھوکا نہ دیا جا سکتا ہو . جبکہ ہم تو جب تک نیا دھوکا کھا نہ لیں پرانا ہضم ہی نہیں ہوتا  تو گلہ کریں تو کس سے کریں اور کیوں کریں ؟
                   ●●●                      
تحریر: ممتازملک.پیرس    
 مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●● 

پیر، 24 اگست، 2015

بابائی وباء۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے








بابائی وباء
ممتازملک. پیرس










ساری زندگی محبتیں مشقتیں

 کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں .














اپنی جانب سے ان بابوں کو 

اپنی بیویوں سے بہت شکایتیں 

ہیں جن کا ازالہ یہ کسی نوعمر 

لڑکی کی زلفوں کی چھاؤں میں 

بیٹھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ 

یہ جانے سوچے بنا کہ اس پرانی 

بیوی 

کو بھی ان کی کس کس بات یا حرکت 

سے کیسی کیسی گِھن آتی ہو گی لیکن 

وہ اسی گھر میں میں ان کی ساری حق 

تلفیوں کے باوجود اپنے بچوں کے لیئے خاموشی سے زندگی گزار رہی ہے ۔ کہ 

ہمارے 

منافق معاشرے میں میاں نے دس شادیاں بھی کی ہوں تو اسے "مرد ہے "کہہ کر 

نطر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ عورت کسی مرد کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لے 

تو سب سے پہلے اس کے کیریکٹر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ یہ جانے بنا کہ 

اسے بھی حق اللہ ہی نے دیا ہے اپنی عذاب ناک زندگی سے چھٹکارا پانے کا ۔ 

یہ صورت حال عام طور پر بچوں کی شادیوں کے معاملات میں دیکھی جا 

سکتی ہیں ۔ اس بیوی کی ضرورت پر یا بیماری پر یا کسی شوق پر خرچ کرنا 

تو فضول خرچی ہو سکتا ہے جو آپ کے ایک ایک انداز سے آپ کے اگلے قدم 

کو جان لیتی ہے ۔ لیکن ایک نوعمر بیٹیوں جتنی عمر کی لڑکی کی ہزاروں 

نازیبا فرمائشیں بھی گراں نہیں گزرتی ہیں ۔ شاہد معاملہ کسی پردہ پوشی کا ہو 

سکتا ہے ۔ ظاہر ہے محبت کی چڑیا کا تو وہاں گزر ہو ہی نہیں سکتا ۔ 

 ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ ہے کہ وہ  

جوان کم عمرلڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال 

کے فرق سے کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری  

یامحبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ تعلق نہیں ہوتا . بابا جی 

کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام 

سے منہ کے بل آ گرتا ہے .

کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والی نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ 

نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟

تو وہ اٹھلا کے بولی

ویکھو جی ، بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے

ایک تو ان کی اِن کم

دوسرے ان کے دِن کم

سوچئے تو جنہیں یہ "دِن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو 

بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس 

لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں 

لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ

بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی'' لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...''

تو بابا بے شرم بولا ''لتاں قبر وچ نے منہ تے حالی باہر اے...''

یہ بابے پاکستان میں نوعمر بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید 

اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس 

مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک  ہنی مون 

پیریڈ کی نام نہاد بیوی مل جاتی ہے.

سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو 

یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہے . اس پر طُرّہ یہ کہ دونوں کی 

ضروریات الگ ، خواہشات الگ،شوق الگ.ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو 

گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز شوگر 

فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا 

سمجھدار آدمی اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا. ساتھی ،دوست ، 

بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہو تا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے 

لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے 

آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو 

یہ سوچیں اور گِنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت 

اچھی بھی لگتی ہے .اسی بآت کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی 

میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ 

ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی 

ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت 

دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا 

لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا. یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی 

محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر 

جاتے ہیں .
                              ..................

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/