دھڑکنوں نے جب بھی کی ہے دھڑکنوں سے گفتگو
درد کی شدت گھٹی ہے ہو گئے جب روبرو
عشق کے معیار کو کیا جانیئے ہوتا ہے کیا
بات کرتے ہی نہیں عاشق جہاں پر بے وضو
اسکو دعویٰ ہے سلیم الطبع ہونے کا مگر
کوئی سستی سوچ بن سکتی ہے کیونکر آرزو
غیر سے شکوہ نہ کیجیئے وہ تو سب انجان ہیں
دوست ہی آتے ہیں دشمن بن کے اکثر دوبدو
کس کو روئیں کس کو اپنے حال کا محرم کریں
ہر تعلق کے جنازے ہم نے ڈھوئے چارسو
مرتبے دیکر انہیں ممتاز ہم نے کر دیا
ڈولتے سنگھاسنوں پر روتے دیکھے ہیں عدو
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں